مندرجات کا رخ کریں

لیڈر شپ/لیڈر شپ کی خصوصیات

ویکی کتب سے

لیڈر کے اوصاف

[ترمیم]

لیڈر وہ ہوتا ہے جو متحرک کرتا ہے، جو ایسے فیصلے کرتا ہے جو اس کی جماعت پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں، اور جو کہ مختلف النوع افراد کی ایک ٹیم کو ایک مشترکہ مقصد کے لئے کام کرنے پر آمادہ کر لیتا ہے۔ لیکن اگر سب مینیجر لیڈر نہیں ہوتے تو پھر ایک لیڈر میں وہ کون سی خاصیت ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے؟ شخصی کشش ایک ایسی خاصیت ہے جسے غلط فہمی کی بناء پر اکثر سب سے زیادہ ضروری لازمہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ تاہم، اگر آپ مندرجہ ذیل اوصاف کو پیدا کرنے کے لئے محنت کریں تو شخصی کشش زیادہ آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے: اپنے کام کے متعلق حقائق سے باخبر رہئے اور انہیں استعمال کیجئے۔ ضروری ہے کہ ایک لیڈر کو اپنے کام کی تفصیلات کا علم ہو تاکہ وہ پوری تنظیم کے لئے کام کر سکے۔ جزئیات پر زور مت ڈالئے، مطلب یہ کہ چھوٹی چھوٹی بات پر بہت زیادہ توجہ دینے پر اصرار نہ کیجئے۔ اگر آپ کے ماتحتوں کو ایسا لگے کہ آپ ہر وقت ان کے سر پر سوار رہتے ہیں تو اس سے عدم اعتمادی کا ماحول پیدا ہوگا۔ اس بات سے ضرور باخبر رہئے کہ دوسرے کیا کام کر رہے ہیں لیکن انہیں یہ احساس مت دلایئے کہ آپ ہر وقت ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اگر کسی لیڈر کے ماتحت، اورا س کے بالادست حکام، اس پر اعتماد نہیں کرتے تو وہ ناکام ثابت ہوگا۔ ٹیم کے لوگ جلد ہی ایسے شخص سے کترا کر کام کرنا سیکھ لیتے ہیں جس پر وہ اعتماد نہیں کرتے یا جو اپنے وعدے پورے نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر، اگر ایک لیڈر اپنے ماتحت کے سامنے کوئی اور بات کرے اور اس کا عمل کوئی اور ہو تو اس پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا، خواہ بات دیکھنے میں کتنی معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کی عوامی اور نجی زندگی کو قابل تقلید ہونا چاہئے۔ خود کو ایک مثال بنئے۔ اگر آپ اپنے ماتحتوں سے ایک خاص طرح کے رویئے کی توقع کرتے ہیں مگر خود ویسے رویئے کا مظاہرہ نہیں کرتے تو آپ کا وقار مجروح ہوگا۔ اگر کارکن لیڈر پر اعتماد نہیں کرے گا تو کام کا معیار یقینا متاثر ہوگا۔

فیصلہ کرنے کی اہلیت، خصوصاً انتہائی دبائو کے عالم میں فیصلہ کرنا ایک لیڈر کا نہایت قابل قدر وصف ہوتا ہے۔ جب کوئی مشکل فیصلہ درپیش ہو تو اس ہدایت کو ذہن میں رکھئے جو آپ کو شروع میں دی گئی ہے۔ آپ کے پاس کام کے بارے میں مکمل حقائق ہونے چاہئیں، تبھی آپ صحیح اور آسان فیصلہ کر پائیں گے۔ لیڈر اس لئے منتخب کئے جاتے ہیں تاکہ وہ ایک ٹیم، ایک تنظیم یا ایک جماعت کی قیادت کریں۔ اکثر آپ کو ایسی صورتِ حال کا سامنا ہوگا جہاں آپ کے ساتھی آپ کے ہمراہ نہ ہوں گے، مثال کے طور پر، جماعتی سطح پر کوئی اعلیٰ سطحی میٹنگ۔ یہاں آپ کا شخصی تحکم ان کارکنوں کا نمائندہ اور آئینہ دار ہونا چاہئے جنہوں نے آپ کی ذات پر اعتماد کیا ہے۔ حقیقت پسندی کا دامن مت چھوڑیئے، مگر ہر کام تقدیر پر مت چھوڑ دیجیے۔ اگر آپ ہر معاملے میں قنوطیت یا منفی سوچ کا مظاہرہ کریں گے تو آپ کے ماتحت اور بالادست دونوں کا آپ پر اعتماد جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ صورتِ حال ہمیشہ مثالی نہیں ہوتی، مگر لیڈر کی حیثیت سے آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ صورتِ حال کو بہتر سے بہتر انداز میں تبدیل کر سکیں۔ اسے پوری طرح سے سمجھئے اور اس کے مثبت پہلوئوں پر توجہ مرکوز کیجئے۔ لیڈر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے اہداف مقرر کرے جن کو حاصل کرتے ہوئے ٹیم ایک خاص سمت میں پیش قدمی کرتی جائے۔ لیڈر کی سوچ وسیع ہونی چاہئے تاکہ وہ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اہداف کا تعین کر سکے اور اس کی بدولت اس کی ٹیم درست سمت پر اور قابل اطمینان رفتار پر نمو پائے۔ اب جبکہ آپ نے پڑھ لیا ہے کہ ایک لیڈر میں کیا اوصاف ہونے چاہئیں، اب جلدی سے ایک نگاہ ان اوصاف پر ڈالتے ہیں جو ایک لیڈر میں نہیں ہونے چاہئیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جائے، ہر چھوٹی چھوٹی بات کو اپنا دردِ سر مت بنایئے۔ آپ نے ماتحتوں میں بہت زیادہ گھلنے ملنے سے گریز کیجئے۔ آپ ایک لیڈر ہیں، اپنے کارکن کے ’’بہترین دوست‘‘ نہیں۔ اپنے دوست پر تنقید کرنا یا اس کی سرزنش کرنا مشکل کام ہوتا ہے اور ایک ماتحت کے لئے ایسے کسی فرد کی طرف سے ہونے والی تنقید کو منصفانہ سمجھنا اور بھی مشکل کام ہوتا ہے۔ اپنے منفی جذبات کو ایک طرف رکھ دیجئے۔ ہم سب انسان ہیں، مگر ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کو چاہئے کہ منفی غصے کا مظاہرہ کرنے یا اپنے کارکن یا رفقاء کی ذات پر حملے کرنے سے گریز کریں۔ آپ ایک مافوق البشر شے نہیں ہیں۔ یاد رکھئے کہ اگر کارکن نہیں ہوں گے تو آپ لیڈر بھی نہیں ہوں گے۔ آمرانہ رویہ اپنانے سے گریز کیجئے۔ یہ یاد رکھئے کہ مینجمنٹ اور چیز ہوتی ہے اور لیڈر شپ اور چیز۔ مینجمنٹ میں بجٹ بنانے اور کوئی خاص نتیجہ برآمد کرنے جیسے انتظامی کام شامل ہوتے ہیں۔ لیڈرشپ مینجمنٹ کا ایک حصہ ہے جس میں یہ طے پاتا ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں سے ابلاغ کیسے کرتے ہیں۔ بعض لوگ آپ کو یہ یقین دلانا چاہیں گے کہ اچھے لیڈر پیدائشی طور پر ہی ایسے ہوتے ہیں اور اگر شروع سے ہی آپ میں قائدانہ اوصاف موجود نہیں تھے تو آئندہ بھی کبھی ان کے پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ تاہم، بہت سے اچھے لیڈر آپ کو بتائیں گے کہ سکول کے زمانے میں ان کی کارکردگی اچھی نہ تھی، اور بعض اوقات تو وہ کالج میں بھی نکمے تصور کئے جاتے رہے۔ عموماً زندگی کا کوئی خاص واقعہ یا زندگی میں آنے والا کوئی خاص فرد ان کی شخصیت کو بدل دینے کا موجب بنا اور ہجوم سے الگ ہو کر لیڈر بن گئے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لیڈر صرف پیدا ہی نہیں ہوتے بلکہ بنائے بھی جاتے ہیں۔ ذیل میں چند ایسے اقدامات دیئے جا رہے ہیں جن پر عمل کر کے آپ بھی لیڈر بن سکتے ہیں۔ انہیں اپنے ذاتی اوصاف اور گرد و پیش کے ماحول کے مطابق استعمال کیجئے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے چند آپ کے لئے اتنے مفید ثابت نہ ہوں جتنے کہ دوسرے، کیونکہ یہ نہایت عمومی اصول و ضوابط ہیں، ہر کسی کی ذات پر ان کا منطبق ہونا لازمی نہیں۔

مثبت سوچ، مثبت عمل

[ترمیم]

ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ جب آپ نے ورلڈ کپ جیتنے والے کسی کپتان کے منہ سے میچ سے پہلے یہ سنا ہو۔ ’’میرا خیال ہے ہم جیت نہیں سکتے۔ یہ بڑی دور کی بات ہوگی۔ اگر ہم جیت گئے تو مجھ سے زیادہ حیرت کسی کو نہیں ہوگی۔‘‘ سپورٹس ٹیموں نے مثبت سوچ رکھنے اور مثبت باتیں کرنے کے عمل کو ایک فن کی حیثیت دے دی ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ اس کپتان کے منہ سے آپ یہ سنیں گے۔ ’’ہم جانتے ہیں کہ کام مشکل ہوگا، مگر ہم جانتے ہیں کہ ہم اس سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ ہم ایک اعلیٰ معیار کی ٹیم ہیں، اور اس سال میرے کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں پر خصوصی محنت کی ہے۔ یہ چیز ان کے کھیل میں نظر آتی ہے۔‘‘ ایک لیڈر کے عمل میں مثبت سوچ اور مثبت بات کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ آپ کو مسابقت، اپنی اہلیتوں اور اپنی ٹیم یا گروپ کی اہلیتوں سے وابستہ ہر خوف کا ڈٹ کر سامنا کرے پڑے گا۔ تب ہی آپ کی جیت کے عمل کا آغاز ہو سکتا ہے اور آپ کی ٹیم کی کارکردگی کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔ جیتنے والی ٹیم کے کپتان کی طرح، آپ کو اپنی جیت کا تصور کرنا ہوگا۔ جیت کا تصور کر لینے سے آپ کو ان اقدامات کا تعین کرنے میں مدد ملے گی جو جیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ مثبت سوچ کے حوالے سے چند ضروری باتیں حسب ذیل ہیں: کسی بھی مسئلے کو اس کے بنیادی اجزاء میں تقسیم کر کے دیکھئے اور ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ حل کیجئے۔ اگر آپ کسی چیز کو منفی سمجھتے ہیں تو یہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ آپ کی اس سوچ کی وجہ کیا ہے۔ کیا ایسا تجربے کی کمی کی وجہ سے ہے؟ کیا ماضی کی کوئی ناکامی اس کی وجہ ہے؟ یہ پتہ لگایئے کہ کامیابی کے امکانات میں اضافہ کرنے کے لئے آپ کیا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ تجربے کی کمی کی وجہ سے خوفزدہ ہیں تو کیا آپ اس حوالے سے کسی ساتھی کا تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا کسی مخصوص جگہ پر اس حوالے سے تربیت حاصل کر سکتے ہیں؟ سامنے آنے والے ہر چیلنج کو اپنی کامیابیوں کی فہرست میں اضافہ کرنے کا ایک موقع تصور کیجئے۔ مثبت سوچ سے آپ کو کامیابی کا ایک تصور قائم کرنے اور کامیاب ہونے کے امکانات میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم اپنی ذاتی صلاحیتوں اور اپنی ٹیم کی صلاحیتوں میں اسی اعتماد کو اجاگر کرنے کے لئے آپ کو مثبت انداز میں بات کرنا بھی سیکھنا پڑے گا۔ ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان کی مثال کو ایک بار پھر سامنے رکھئے۔ وہ صرف یہ محسوس ہی نہیں کرتا کہ اس کی ٹیم جیت سکتی ہے بلکہ یہی بات صحافیوں کے سامنے بات کرتے ہوئے دہراتا بھی ہے اور جیت پر اپنے یقین کی وجہ بھی بیان کرتا ہے۔ یہ الفاظ اس کی اپنی کپتانی اور اس کے کھلاڑیوں کے مورال پر جو مثبت اثر ڈالیں گے، اس سے قطع نظر، یہ ٹیم کے سپورٹرز کے اعتماد میں بھی اضافہ کریں گے۔ کسی ٹیم، گروپ یا تنظیم کے لیڈر کی حیثیت سے آپ کو مثبت الفاظ کا باقاعدگی سے استعمال کرنا ہوگا۔ مثبت باتوں سے آپ کے ساتھیوں کے ذہن میں کامیابی کا ایک تصور اجاگر ہوگا۔ منفی سوچ سے ہوشیار رہئے۔ منفی سوچ آپ کے قائدانہ اوصاف کو مجروح کرے گی۔ منفی سوچ اور منفی باتوں کو جتنا کم کر دیا جائے، آپ کی مثبت سوچ اور قول میں اتنی ہی بہتری آئے گی اور آپ کی قائدانہ شخصیت اتنی ہی اجاگر ہوگی۔ مثال کے طور پر، اپنی سوچ میں اور اپنی بات میں خود کو کمتر کر دکھانے سے گریز کیجئے۔ ایسی منفی باتیں کیجئے کہ ’’میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا‘‘، ’’میں بالکل ہی بے وقوف ہوں‘‘، یا ’’شاید میری بات کی اتنی اہمیت نہ ہو لیکن…‘‘ ایسی منفی باتیں محض آپ کے اپنے اور آپ کے ساتھیوں کے اعتماد کو مجروح کریں گی۔

بصیرت

[ترمیم]

قیادت کا ایک اور اہم وصف بصیرت یعنی ویژن ہوتا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ بصیرت رکھے بغیر کسی بھی گروہ یا جماعت کا لیڈر بننا ممکن نہیں… اور بصیرت کا براہِ راست تعلق مثبت سوچ اور مثبت بات کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بصیرت میں ہم اپنی مثبت سوچ اور بات کو اگلے درجے تک لے جاتے ہیں۔ صاحب بصیرت لیڈر اکثر اپنی تنظیم یا میدان میں جدت پیدا کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو اس اعتبار سے ایک صاحب بصیرت لیڈر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات محسوس کر لی کہ سیاست کو ڈرائنگ روموں سے نکال کر عوام تک لایا جا سکتا ہے۔ یہ ان کی بصیرت تھی، اور انہوں نے اسے حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے جدوجہد کی اور اسی بات نے انہیں ایک بڑا لیڈر بنا دیا۔ اس بات کے لئے انہیں ہمیشہ احترام کے ساتھ یاد رکھا جانا چاہئے۔ لیڈر کی بصیرت نہایت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اسی کی بدولت لوگوں کو جدوجہد کے لئے کوئی مقصد حاصل ہوتا ہے۔ ایک ایسا مقصد جس کا تعلق حال سے نہیں بلکہ مستقبل سے ہوتا ہے۔ قیادت کا ایک اور اہم رخ اپنی بصیرت کو اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کے ساتھ شیئر کرنا ہے۔ اپنی ٹیم کے ساتھ اپنی بصیرت شیئر کر کے آپ انہیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان کے درمیان ایک ایسا لیڈر ہے جو جماعت کے (یا ادارے کے) مستقبل کے ساتھ ساتھ، ان کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچ رہا ہے۔ جب آپ اپنے بڑوں کے ساتھ اپنی بصیرت بانٹتے کرتے ہیں تو انہیں احساس دلاتے ہیں کہ آپ ایک نئی سوچ رکھنے والے فرد ہیں جو موجودہ صورتِ حال سے مطمئن نہیں۔

اپنے آپ پر اعتماد

[ترمیم]

مثبت سوچ اور سوچا سمجھا نصب العین آپ کے اعتماد میں اضافہ کرنے کے موجب ہوں گے۔ تاہم اپنی ذات پر قابل ذکر اعتماد اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ کو قابل ذکر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ شخصی اعتماد کی آبیاری کرنے کے لئے آپ اپنے اثاثوں اور گذشتہ کامیابیوں کی ایک فہرست بنا سکتے ہیں خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ آپ کی تعلیم یا کوئی خصوصی تربیت بھی آپ کے اثاثوں میں شامل ہے، دوسروں تک اپنی بات اچھے طریقے سے پہنچانے کا فن بھی ایک اثاثہ ہے، اور ایک عمدہ حس مزاح بھی اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے۔

لیڈرشپ کا انداز

[ترمیم]

جیسے برف کے دو گالے ایک جیسے نہیں ہوتے، اسی طرح دو لیڈروں کا طرزِ قیادت بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔ تاہم یہ سبق لیڈر شپ کے کئی عمومی اندازوں کا ایک خاکہ پیش کرتا ہے۔ جس گروپ یا جماعت کی اس نے قیادت کرنی ہے، اس کے حوالے سے ایک لیڈر کسی ایک طرح کی لیڈر شپ کے اصول و ضوابط کی پابندی کر سکتا ہے یا کئی مختلف طرح کے طرز ہائے قیادت کے اوصاف کا ایک امتزاج استعمال کر سکتا ہے۔ لیڈر شپ کے مختلف طریقوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے ان نظریات کے بارے میں نوٹس بناتے جائیں جو آپ کو اچھے لگتے ہیں یا جو آپ کے خیال میں آپ کی صورتِ حال سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی ایک طریقے کی ہی پابندی کریں۔ لچک کی گنجائش ہر حال میں موجود رہنی چاہئے۔ جس پہلے انداز یا طریقے کا میں ذکر کرنا چاہوں گا، یہ وہ ہے جسے میں ’’تقریباً جمہوری‘‘ کا نام دیتا ہوں۔ میں نے اس کا یہ نام اس لئے رکھا ہے کیونکہ آمریت کے مقابلے میں کسی قدر زیادہ لچک کا حامل ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال میں لیڈر یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی جماعت کو زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہوں اور وہ یکجا ہو کر ایک ہدف کو حاصل کرنے کے لئے کام کرے۔ اس انداز کے اوصاف حسب ذیل ہیں: ٭ لیڈر اپنی جماعت یا گروہ کو اپنے کام کے زیادہ سے زیادہ حصوں سے باخبر رکھتا ہے اور یہ بات یقینی بناتا ہے کہ ہر کارکن پوری جماعت میں ہونے والے ہر کام سے باخبر ہو۔ ٭ لیڈر بحث مباحثے اور مسابقت کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور جماعت کے لئے نئی راہیں متعین کرنے کے حوالے سے آراء پیش کرنے میں اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ٭ لیڈر کو مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ طرزِ قیادت ’’تقریباً جمہوری‘‘ کہلاتا ہے۔ اگرچہ لیڈر شراکت کار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے مگر تمام اہم معاملات میں حتمی فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ طرزِ قیادت اس وقت بہتر رہتا ہے جب لیڈر کو کسی ایسے گروہ کی قیادت کرنا ہو جس کے کارکنان جدت طراز اور ذہین تو ہوں مگر ان کے پاس ابھی کوئی مخصوص سمت موجود نہ ہو۔ ان کے پاس خیالات اور تجاویز تو بے شمار ہوتی ہیں لیکن ان سب خیالات اور تجاویز کا معیاری ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ لیڈر پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان خیالات کے حسن و قبح کا تعین کرے۔ دوسرے انداز کو ’’شراکت‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ طرزِ قیادت اپنی نوعیت میں بڑا مختلف ہوتا ہے۔ یہ جمہوریت سے مختلف ہوتا ہے اور آمریت سے بھی مختلف ہوتا ہے۔ ان دونوں طرز ہائے قیادت میں لیڈر اور کارکن کے درمیان ایک واضح حد حائل ہوتی ہے۔ تاہم شراکت میں یہ حد پھیکی پڑ جاتی ہے اور ضروری ہوتا ہے کہ لیڈر اپنے کارکنوں جیسی ہی حیثیت اختیار کر جائے۔ اس کے اوصاف حسب ذیل ہیں: ٭ لیڈر گروپ کا محض ایک رکن بن جاتا ہے جس کے پاس تجربہ تو شاید زیادہ ہوتا ہے مگر اس کی رائے کی وقعت دوسرے کارکنان سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ٭ فیصلہ سازی کے عمل میں تمام کارکنان حصہ لیتے ہیں اور اپنے لئے ایک راہِ عمل کا تعین کرتے ہیں۔ ٭ ٹیم کے کام کے نتائج و عواقب کی ذمہ داری تمام کارکنان پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ یہ طرزِ قیادت وہاں موزوں رہتا ہے جہاں کام کرنے والا گروہ چھوٹا سا ہو اور اس کے سارے ارکان نہایت تجربہ کار اور باصلاحیت ہوں۔ اس طرزِ قیادت کے کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ باہمی اعتماد، دیانتداری اور ٹیم کی اہلیت پر یقین کے اوصاف پورے گروہ میں بہ حیثیت مجموعی موجود ہوں۔ یہ طرزِ قیادت نہایت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں آپ نہ صرف قیادت کرتے ہیں بلکہ ٹیم کے ارکان کے ساتھ آپ کا تعامل برابری کی سطح پر ہوتا ہے۔ تاہم اگر آپ اپنے اختیار کو منوانے کی خواہش رکھتے ہوں تو پھر یہ طرزِ قیادت آپ کے لئے موزوں نہیں رہے گا۔ تیسرا طرزِ قیادت وہ ہے جسے پوری دنیا میں ’’انقلاب انگیز قیادت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انقلاب انگیز لیڈر کی توجہ اپنے ارکان سے مروجہ معیارات کے مطابق کام لینے پر نہیں ہوتی۔ انقلاب انگیز لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے ادارے یا جماعت میں ایک مجموعی تبدیلی لانے کا خواہشمند ہوتا ہے اور اس کے لئے کام کرتا ہے۔ ایسے لیڈروں کو ممیز و ممتاز کرنے والے اوصاف حسب ذیل ہیں: ٭ انقلاب انگیز لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے پاس اپنی پارٹی کے حوالے سے ایک ویژن ہوتا ہے اور وہ یہ ویژن نہایت کامیابی سے اپنے کارکنان کے ذہن نشین کرا سکتا ہے۔ ٭ انقلاب انگیز لیڈر کا شعور نہایت ترقی یافتہ ہوتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فیصلوں کا پارٹی پر کیا اثر پڑے گا۔ ایسا لیڈر زیادہ اعتماد سے کام کر سکتا ہے اور اس کے کارکنان کو اس پر اعتماد بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ٭ انقلاب انگیز لیڈر اپنے ہر کارکن کو انفرادی سطح پر اس کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے اور اس طرح تمام کارکنوں کا احترام اور وفاداری کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ٭ انقلاب انگیز لیڈر اکثر کارکنوں کو انفرادی سطح پر تحسین سے نوازتا ہے اور اچھے کام پر پوری ٹیم کی کارکردگی کی بھی تعریف کرتا ہے۔ جب کارکنوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ انہوں نے کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو وہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ زیادہ عزم کے ساتھ کرتے ہیں۔ ٭ انقلاب انگیز لیڈر میں یہ خصوصی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کارکنوں کو ایسا کام کرنے کی تحریک دے سکتا ہے جس میں وہ اپنی کامیابی کے لئے پُریقین نہ ہوں۔ یہ تحریک تعریفی کلمات اور حوصلہ افزائی کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ کسی فرد، گروہ، ادارے یا جماعت کی کارکردگی میں فوری اور صحتمند اضافہ مطلوب ہو تو انقلاب انگیز طرزِ قیادت سے بہتر اور کوئی نہیں۔ مگر یہ طرزِ قیادت نہایت مشقت طلب اور کٹھن ہوتا ہے۔ آپ کے ویژن کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اور اس ویژن کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے استعمال ہونے والے وسائل و ذرائع کی ذمہ داری بھی آپ ہی کے حصے میں اتی ہے۔ انقلاب انگیز لیڈر کسی حد تک جواری بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ یہ جوا کھیلتا ہے کہ اسی کا ویژن درست ہے۔ اگر اس سے اندازے کی چھوٹی سی غلطی بھی ہو جائے تو بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے جس کی ساری ذمہ داری اسی پر ہوگی۔ یہ جاننے کے لئے کون سا طرزِ قیادت آپ کے لئے موزوں ہے، دو فہرستیں بنایئے۔ ایک میں قیادت کے وہ اوصاف لکھئے جو قدرتی طور پر آپ میں موجود ہیں اور دوسری میں وہ اہداف لکھئے جو آپ اپنی ٹیم یا جماعت کے ہمراہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پہلی فہرست میں آپ حس مزاح، اپنی بات سمجھانے کی اہلیت، شخصی تحکم یا جدت پسندانہ سوچ جیسے اوصاف شامل کر سکتے ہیں۔ جب آپ کی فہرست مکمل ہو جائے تو پھر یہ دیکھنے کی کوشش کیجئے کہ کون سا طرزِ قیادت آپ کے شخصی اوصاف سے مطابقت رکھتا ہے۔ آپ اس طرزِ قیادت کو نکتہ آغاز کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ دوسری فہرست میں وہ اہداف لکھئے جو آپ اپنی ٹیم یا جماعت کے ہمراہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عملی طور پر کام کرتے ہوئے آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ مختلف طرز ہائے قیادت کے اوصاف کا ایک امتزاج استعمال کر سکتے ہیں، ایسے اوصاف جو آپ کی ذاتی خصوصیات اور صلاحیتوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اس طرح آپ کا ایک منفرد طرزِ قیادت تشکیل پائے گا جو آپ کی صورتِ حال اور صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ آپ کے طرزِ قیادت کا فیصلہ صرف آپ ہی نہیں کرتے، اس کا فیصلہ آپ کی ٹیم بھی کرتی ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا، اگر کوئی آپ کی اقتداء نہیں کر رہا تو آپ قائد ہیں ہی نہیں۔ ان چیلنجز سے باخبر رہئے جو آپ کے کارکنوں کو انفرادی سطح پر درپیش ہوتے ہیں۔

علم

[ترمیم]

اپنے ساتھیوں کا اعتماد اور احترام حاصل کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کے علاوہ ان کی ذمہ داریوں کے متعلق بھی اپنے علم کا اظہار کریں۔ البتہ اتنا ضرور ذہن میں رکھیں کہ سیکھنا ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ اپنے علم کو بڑھانے اور اس کا اظہار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ: ٭ اپنے کام کے ذریعے ماتحتوں کو دکھایئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا چاہئے۔ ٭ دوسروں کی غیرمعیاری کارکردگی کا نوٹس لیجئے اور اس کی تصحیح کیجئے، خصوصاً ان کی جو آپ کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ ٭ کسی طرح کی غیریقینی کیفیت پیدا ہونے کی صورت میں سوال پوچھنے سے مت ہچکچایئے۔ ٭ تجربہ کار لوگوں کی باتیں سن کر اور ان کے طریق ہائے کار کا مشاہدہ کر کے اپنے علم کو وسعت دیجیے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: ’’جو علم کی مختلف شاخوں پر مکمل عبور حاصل کر لے گا وہ زندگی سے سبق حاصل کرے گا اور جو زندگی سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ درحقیقت گذشتہ تہذیبوں کے عروج اور زوال کے اسباب کا مطالعہ کرتا ہے۔‘‘ علم طاقت ہے اور کسی بھی طرح کی لیڈر شپ کے لئے غایت درجہ کی اہمیت کا حامل۔ نظریاتی اور عملی دونوں طرح کے علوم اہم ہیں۔ دنیا میں بے شمار ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے اپنے طور پر تعلیم حاصل کی، ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے بڑے لیڈروں کی صفوں میں بھی اپنے لئے ایک امتیازی مقام حاصل کیا۔ مثلاً ہم سبھی جانتے ہیں کہ آئن سٹائن کی طرح چرچل بھی ابتداء میں ایک اوسط درجے کے طالبعلم تھے اور ان کے اساتذہ کی رائے ان کے متعلق کچھ اچھی نہ تھی۔ ان کے ایک استاد کا کہنا تھا۔ ’’یہ لڑکا مکتب سے کچھ حاصل نہیں کر سکتا، سوائے تکلیف اور پریشانی کے۔‘‘ بنگلور میں اپنی تعیناتی کے دوران چرچل کو فرصت کے طویل وقفے میسر آئے۔ ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنے آپ کو وہ تعلیم دینا شروع کی جو انہیں سکول سے نہ مل سکی تھی۔ انہوں نے مختلف حقائق اور معلومات کی تحصیل اور تجمیع کے فن میں مہارت حاصل کی۔ علم حاصل کرنے کے لئے وہ مختلف اخباروں، جریدوں اور اپنی والدہ کو خط لکھتے اور ان سے ضروری مواد منگواتے۔ اس طرح حاصل کردہ تمام مواد کو وہ لکھ کر زبانی یاد کرتے تاکہ اپنے علم میں اضافہ کر سکیں۔ ہمارے اپنے ملک میں زیادہ تر پرانے لیڈر خود آموختہ ہیں۔ مشہور سیاسی لیڈر نواب زادہ نصر اللہ خان برصغیر پاک و ہند کی جمہوری دنیا کے سینئرترین اور نہایت صاحب علم لیڈروں میں شامل ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے آپ کو خود ہی زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا ہے۔ ریاست، حکومت اور بیرونِ ملک سفارت کاری سے متعلق شعبہ ہائے علم پر انہیں کامل عبور حاصل ہے۔ علم حاصل کرنے کے لئے تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف طریقے بشمول بنیادی تعلیم، تجربہ اور مباحث استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ قدیم یونان کی تاریخ کے دانشمند افراد میں سے ایک، سقراط ہے، جس کے شاگردوں میں سے افلاطون جیسے دانشور نکلے اور جنہوں نے کئی کتابیں لکھیں، اور ان کے بعد سکندرِ اعظم کا سرپرست اور اتالیق ارسطو جو کہ افلاطون کا شاگرد تھا۔ سقراط ایک فلسفی تھا جو ہمیشہ حقیقی علم کا متلاشی رہتا تھا۔ اس کی تلاش کا طریقہ کار ’’مباحثہ‘‘ تھا جسے وہ ’’ڈائیلاگ (مکالمہ)‘‘ کا نام دیتا تھا، اور یہ اس کی عقل و دانش کا اعتراف ہے کہ آج بھی تحصیل علم کے لئے یہی طریقہ سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ کوئی حکومت ایسے متجسس افراد کو پسند نہیں کرتی۔ لہٰذا حکومت نے اسے گرفتار کر لیا۔ اسے پیشکش کی گئی کہ اگر وہ اپنے مباحث اور حقیقی علم کی تلاش ترک کر دے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ سقراط نے انکار کر دیا۔ اس پر مقدمہ چلایا گیا اور موت کی سزا سنائی گئی۔ ایتھنز کے باسیوں اور قاضیوں کی ایک عدالت نے اسے سزا سنائی جن سے خطاب کرتے ہوئے اس نے زہر کے پیالے کو ترجیح دی۔ اس نے کہا: ’’اگر تم مجھے اس شرط پر چھوڑنا چاہتے ہو کہ میں سچائی کی تلاش ترک کر دوں تو میں کہوں گا، اے ایتھنز والو، تمہارا شکریہ! لیکن میں خدا کی فرمانبرداری کروں گا جس نے تمہارے بجائے مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے اور جب تک میری سانس چل رہی ہے اور میرے بدن میں جان ہے، میں اپنی یہ تلاش ترک نہیں کروں گا۔ جو بھی میرے رستے میں آئے گا، میں اس کی طرف بڑھوں گا اور اس سے پوچھوں گا۔ ’’کیا تم اپنے قلب و ذہن کو دنیاوی دولت و اکرام کی طرف مائل کرنے پر شرمندہ نہیں ہو جبکہ اپنی روح کو بہتر بنانے کی خاطر دانش اور سچ حاصل کرنے کی تمہیں کوئی پروا نہیں؟‘‘ میں نہیں جانتا کہ موت کیا ہے۔ یہ ایک اچھی چیز بھی ہو سکتی ہے اور میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ مورچہ چھوڑ کر بھاگ جانا بری بات ہے اور جسے میں درست سمجھتا ہوں، اسے اس پر ہمیشہ ترجیح دوں گا جسے میں غلط سمجھتا ہوں۔‘‘ نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اپنی زندگی میں سقراط نے سچ اور علم کے کاز کی بہتر خدمت کی لیکن اس کی موت کے بعد اس کی خدمت بہترین ہو گئی۔‘‘ اسی کتاب میں ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں۔ ’’اعتقاد اور سائنس اور تحصیل علم کا ساتھ ساتھ چلنا آسان نہیں ہوتا۔ علم اور تحصیل علم لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اور شکوک اور سوالات اعتقاد کے لئے ایک مشکل ساتھی ثابت ہوتے ہیں۔ اور سائنس کا رستہ تحقیق اور تجربے کا راستہ ہے جو کہ اعتقاد کا راستہ نہیں ہے۔‘‘ (اندرا کے نام خط 21 جون، 1932ء) رچرڈ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’جب سیاسی لیڈر بننے کی تمنا رکھنے والے نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ انہیں اس مقصد کے لئے خود کو کیسے تیار کرنا چاہئے تو میں کبھی انہیں سیاسیات پڑھنے کا مشورہ نہیں دیتا۔ اس کے بجائے میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ فلسفہ، تاریخ اور ادب پڑھیں، اپنے اذہان کو جس قدر ہو سکے وسعت دیں۔ سیاست ہو یا حکومت، اس کے قواعد و ضوابط اور طریق ہائے کار کا بہترین علم تجربے سے ہی حاصل ہوتا ہے لیکن مطالعہ کی عادت، منظم سوچ، گہرے تجزیئے کی تیکنیکس، اقدار کا بنیادی ڈھانچہ، فلسفیانہ اساس، یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں ایک لیڈر کو اپنے تعلیمی عمل کی ابتدا سے ہی اپنانا اور جذب کرنا چاہئے اور ساری عمر جاری رکھنا چاہئے… جتنے عظیم لیڈروں سے میں واقف ہوں، تقریباً ان سب میں ایک مشترکہ خصوصیت نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ سب کے سب مطالعے کے عادی تھے… ٹی وی دیکھنا ایک مجہول اور جامد سرگرمی ہے لیکن مطالعہ ایک متحرک سرگرمی ہے۔‘‘

انصاف پسندی

[ترمیم]

انصاف پسند ہونے کا مطلب ہے غیرجانبدار ہونا۔ ذاتی احساسات، جذبات اور تعصبات کو اپنے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی اجازت مت دیجئے۔ انصاف پسندی کی خصوصیت کو فروغ دینے کے لئے مندرجہ ذیل کی مشق کیجئے۔ ٭ اپنی راہ میں روڑے اٹکانے والے ذاتی تعصبات کا پتہ چلایئے اور ان سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔ ٭ کسی معاملے کا فیصلہ کرنے سے پہلے تمام فریقین کا نکتہ نظر سنئے۔ ٭ اچھے کام پر انعام دینے اور برے کام پر سرزنش کرنے کو اپنا مستقل شعار بنایئے۔ انصاف کسی معاشرے کا حسن اور اس کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمیشہ سے ایسے حکمرانوں کو پسند کرتے آئے ہیں جنہوں نے عدل و انصاف کو اپنا شعار بنایا خواہ وہ بادشاہ تھے یا جمہوری حکمران۔ آج دنیا کے تمام آئینوں کی بنیاد معاشی، معاشرتی اور سیاسی انصاف پر رکھی جاتی ہے۔ لہٰذا معاشرے کے لیڈروں سے بھی انصاف کی فراہمی کے لئے ہرممکن کوشش کرنے کی توقع رکھی جاتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں یورپ پر ہٹلر کے حملوں کے دوران انگلستان کے مختلف طبقات میں ملکی تحفظ کے متعلق سنگین قسم کے خدشات جنم لے رہے تھے۔ جب یہ خدشات چرچل تک پہنچائے گئے تو جواباً اس نے پوچھا۔ ’’کیا ہمارے ملک میں عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں؟‘‘ جواب اثبات میں ملا تو چرچل نے کہا۔ ’’اگر ہماری عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہمارے ملکی تحفظ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔‘‘ انصاف کی فراہمی تمام لیڈروں کے لئے ایک بے حد اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے اور ماضی کی تاریخ میں لیڈروں کی مقبولیت یا عدم مقبولیت میں اس کا اہم کردار نظر آتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب و عقائد نے ایک نصب العین کی حیثیت سے انصاف کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ خدا کے تمام پیغمبروں نے اس کی تائید کی ہے۔ آج کے جدید دور میں تمام ملکوں کے آئینوں کی بنیاد اسی پر رکھی جاتی ہے۔ بابل کی قدیم تہذیب کے مشہور بادشاہ حموربی (1792 ق م تا 1750 ق م) نے آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے تحریری شکل میں قانونی ضابطہ تیار کیا۔ یہ انسانی تاریخ کا پہلا آئین بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس ضابطے کو سنگ سیاہ کی الواح پر تحریر کیا گیا (یہ الواح 1902ء میں کھدائی کے دوران برآمد ہوئیں اور آج پیرس کے لوور میوزیم میں موجود ہیں)۔ حموربی اس ضابطے کے تعارف یا دیباچے میں بڑی وضاحت سے لکھتا ہے کہ اسے دیوتائوں کی طرف سے ’’سرزمین میں انصاف قائم کرنے، بدکاروں اور شریروں کو سزا دینے‘‘ کا حکم ملا۔ وہ اپنے تجمیع کردہ قوانین کو ’’قوم کو اچھی اور مضبوط حکومت فراہم کرنے والے‘‘ کہہ کر پکارتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس نے اپنے احکام ایک ستون پر کھدوائے تاکہ ’’طاقتور کمزور کو دبائے نہیں، یتیموں اور بیوائوں کو بھی انصاف ملے۔‘‘ اس کے پیش کردہ انصاف کی بنیاد ’’آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘ کے اصول پر تھی۔ اس کے پیش کردہ قوانین بابلی معاشرے کے تمام طبقات کی خیروعافیت کے ضامن تھے اور غریبوں اور کمزوروں بشمول عورتوں، بچوں اور غلاموں کو طاقتوروں اور دولتمندوں کی ناانصافیوں سے خصوصی تحفظ فراہم کرتے تھے۔ شاہ حموربی نے اس ضمن میں مزید پیش رفت کرتے ہوئے جھوٹے الزاموں، جھوٹی گواہیوں اور قاضیوں کی طرف سے ہونے والی کسی طرح کی ناانصافی کے لئے بھی سزائیں تجویز کیں۔ قدیم جاپان کے حکمران اپنے محلات کے باہر بڑے بڑے نقارچے رکھوایا کرتے تھے جنہیں انصاف کے طالب آ کر بجایا کرتے تھے۔ تاریخ میں ہمیں ایسی بہت سی قابل تقلید مثالیں ملتی ہیں۔ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے بیٹے کو خود سزا سنائی۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید رات کو بھیس بدل کر بغداد کی گلیوں میں پھرا کرتا تھا تاکہ شہریوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ خاندانِ غلاماں کے سلطان غیاث الدین بلبن نے غیرجانبدارانہ انصاف کی فراہمی کی خاطر اپنے بیٹے کو اتنی سخت سزا سنائی کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ خاندانِ مغلیہ کے شہنشاہ جہانگیر نے اپنے محل کے جھروکے سے ایک گھنٹی کے ساتھ بندھی ہوئی زنجیر لٹکا رکھی تھی۔ اسے زنجیر عدل کا نام دیا جاتا تھا اور عدل مانگنے والے آ کر اس زنجیر کو کھینچتے اور گھنٹی کو بجاتے تھے۔ ایسے بہت سے لیڈروں کی مثالیں بھی ملتی ہیں جو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنے کے لئے عام آدمیوں کی طرح عدالت میں پیش ہوئے تاکہ انصاف کی عملی شکل تاریخ کے مشاہدے کے لئے پیش کی جا سکے۔ 21 ویں صدی میں سابق صدرِ امریکہ بل کلنٹن نے بھی ایسی ہی ایک مثال قائم کی۔ آج کے دور میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، کیونکہ یہ آئین، قانون اور انصاف کا دور ہے۔

راست بازی

[ترمیم]

مکمل دیانتداری، بھروسہ مندی، منصف مزاجی، مضبوط کردار اور اعلیٰ اخلاقی کردار۔ ان سب کو مجتمع کیا جائے تو حاصل کیا ہوگا؟ راست بازی۔ راست بازی مندرجہ ذیل نکات پر عمل کرنے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ ٭ اپنے اختیار کو اپنی جماعت کے مقاصد کے حصول یا اپنے رفقاء کی بہبود کے لئے ضرور استعمال کیجئے، لیکن اپنے ذاتی فائدے کے لئے نہیں۔ ٭ جس بات اور جس چیز پر آپ پکا یقین رکھتے ہوں، اس سے کبھی ہٹیں نہیں خواہ دوسرے اسے ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔ ٭ اپنے حکام اور اپنے ماتحتوں کے سامنے ہمیشہ سچ بولیں۔

جانچ اور پرکھ

[ترمیم]

جانچ اور پرکھ سے مراد ہے حقائق کو منطق کے ترازو میں تولنے، ہر ممکنہ حل پر غور و فکر اوردرست فیصلے کرنے کی اہلیت۔ اس میں عقل سلیم یعنی کامن سنس اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس خصوصیت کو اجاگر کرنے کے لئے آپ مندرجہ ذیل نکات پر عمل کر سکتے ہیں۔ ٭ کسی بات پر شک و شبہ کا شکار ہونے کی صورت میں کسی اچھے مشیر سے مشورہ طلب کریں۔ ٭ صورتِ حال کو دوسرے فریق کے نکتہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ ٭ وقتی اضطراری کیفیت کے تحت کبھی فیصلہ نہ کریں۔ جو کچھ بھی کریں، اس کے ممکنہ اثرات کے متعلق پہلے اچھی طرح سوچ لیں۔ رچرڈ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’جو خصوصیات ایک بڑے لیڈر کو چھوٹے لیڈروں سے ممتاز بناتی ہیں، وہ یہ ہیں۔ بڑا لیڈر زیادہ پُراثر ہوتا ہے، زیادہ مؤثر انداز میں کام کر سکتا ہے اور اس کے پاس معاملات کو جانچنے اور پرکھنے کی وہ اہلیت ہوتی ہے جو اسے مہلک غلطیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور اسے آنے والے مواقع کو پہچاننے کے قابل بناتی ہے۔‘‘ جب مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے برصغیر پر حملہ کیا اور اس وقت کے سلطانِ ہند ابراہیم لودھی کے مدمقابل ہوا تو اس وقت بابر کی افواج، ابراہیم لودھی کی افواج کے مقابلے میں بہت کم تھیں لیکن بابر بذاتِ خود فنونِ حرب میں ماہر تھا۔ میدانِ جنگ میں اس نے اپنی کمی کو پورا کرتے ہوئے اپنی جانچنے اور پرکھنے کی اہلیت کو صورتِ حال کا تجزیہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس نے اپنی فوج کو اس انداز میں پھیلایا کہ وہ اپنی حقیقی تعداد سے کہیں زیادہ نظر آنے لگی اور انہیں اطراف سے محفوظ آڑ بھی میسر رہی۔ جنگی حکمت عملی کے طور پر بابر نے لودھی کے ہاتھیوں کو نشانہ بنایا جو کہ زنجیروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور بابر کی فوج کے گھوڑوں کو خوفزدہ کر رہے تھے۔ بابر نے اپنی قوت کا زیادہ تر حصہ ہاتھیوں کو ہراساں کرنے پر استعمال کیا اور نتیجے میں ہاتھیوں نے بے قابو ہو کر اپنی ہی فوجوں کو کچل دیا۔ انجام کار بابر فتح یاب ٹھہرا اور ہند کا شہنشاہ بنا۔ سیاست میں بھی صورتِ حال کا درست تجزیہ کرنا اور اسے سمجھنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ احتجاج، جلوس اور عوامی اجلاس کے انعقاد کے لئے صورتِ حال کا درست تجزیہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اپریل 1986ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آرہی تھیں تو چند بزرگ دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ عوامی اجلاس (پبلک میٹنگ) کا انعقاد چوبرجی میں ہیلی کالج آف کامرس کے بالمقابل پنجاب یونیورسٹی کی گرائونڈ میں کروں۔ میں نے ان کی تجویز کو نامنظور کرتے ہوئے، اپنی لیڈر کے عوامی اجلاس کے لئے مینار پاکستان کی گرائونڈ کا انتخاب کیا۔ اجلاس کے انعقاد کے بعد، میرا تجزیہ درست ثابت ہوا کیونکہ اگر مینار پاکستان کے علاوہ کسی اور جگہ اس اجلاس کو منعقد کیا جاتا تو لوگ کبھی اتنی بڑی تعداد میں اس میں شریک نہ ہوتے۔ جن افراد سے آپ ملتے ہیں، جن معاملات کو آپ ہینڈل کرتے ہیں اور جن صورتِ حالات سے آپ کا سابقہ پڑتا ہے، ان کا درست تجزیہ کرنا، انہیں جانچنا، ان کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ درست اندازہ لگانا اور فیصلہ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ لیکن مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد بتدریج ایسے اندازے لگانے کی اہلیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں چرچل کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’اپنے مقاصد اور اہداف کے درست ہونے کے متعلق اس کے اندازے اکثر درست ہوا کرتے تھے، اور یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ وہ اس وقت تک زندہ رہا جب اس کے ملک کو اس تجربے اور قیادت کی ضرورت پڑی جو اس وقت ( 1940ء میں) صرف وہی فراہم کر سکتا تھا۔‘‘

وفاداری

[ترمیم]

وفاداری نام ہے اپنے اصولوں، اپنے ملک، اپنی جماعت، اپنے حکام اور اپنے ماتحتوں کے اعتماد پر ہمیشہ پورا اترنا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ ایک ’’یس مین‘‘ بن کر رہ جائیں۔ مورٹن کے پبلک پالیسی پراسیس کے 21 ویں قانون کا کہنا ہے۔ ’’وفاداری کا ایک اونس ہوشیاری کے ایک پائونڈ سے بہتر ہے۔‘‘ وفاداری کی خصوصیت مندرجہ ذیل نکات پر عمل کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔ ٭ اپنے جماعتی مسائل اور رفقائے کار کے مسائل کے متعلق صرف ان لوگوں کے ساتھ گفتگو کریں جو ان مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ غیرمتعلقہ لوگوں کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ کریں۔ ٭ اگر آپ کی جماعت یا اس کے ارکان کو غیرمنصفانہ نکتہ چینی اور حملوں کا نشانہ بنایا جائے تو ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ ٭ یاد رکھئے کہ وفاداری ایک دو رویہ راستہ ہے۔ اپنے حکام اور اپنے ماتحت، دونوں کے ساتھ وفادار رہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے۔ ’’جنہوں نے اپنی وفاداری ثابت کر دی ہو ان پر اعتماد کرو۔ جو بے وفائی کے مرتکب ہو چکے ہوں، ان پر اعتماد کرو نہ ان کی تائید و حمایت کا یقین رکھو۔‘‘ مضبوط لیڈر شپ کے لئے وفاداری ایک اہم عنصر اور ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ مذہبی اور روحانی قائدین کو بھی اس کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کی دعائوں کے صلے میں مذہب اور سلطنت کو پھیلانے اور بڑھانے کے مشکل فریضے کی انجام دہی کے لئے وفادار اور قابل اعتماد ساتھی عطا ہوئے۔ ان کی دعائوں کے نتیجے میں ان کے بہادر چچا حضرت حمزہؓ اور خلیفہ حضرت عمرؓ اور چند دوسرے وفادار دوستوں نے اسلام قبول کیا۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت اور اسلامی عقائد، دونوں حیران کن تیزی سے پھیلے۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ بے وفا اور ناقابل اعتماد ساتھی بڑی بڑی سلطنتوں کے زوال کا سبب بنے۔ ’’بروٹس، تم بھی۔‘‘ وہ تاریخی جملہ ہے جو جولیس سیزر کے ہونٹوں سے اس وقت نکلا جب اس کے وفادار دوست نے اس پر خنجر سے وار کیا۔ ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی عظیم الشان سلطنت کا سقوط خلیفہ کے وزیراعظم کی غداری کے سبب ممکن ہو سکا۔ سیاہ فام غلام یاقوت نے رضیہ سلطانہ کی خاطر اپنی جان قربان کی۔ چندرگپت موریہ اور چانکیہ کوٹلیہ کے مابین وفادارانہ تعلق نے برصغیر پاک و ہند میں پہلی بڑی مرکزی سلطنت کا قیام ممکن بنایا۔ انگریزوں کے ہاتھوں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ساتھیوں کی غداریوں اور سازشوں کے باعث ہوا۔ میر جعفر، جس کی غداری نے سراج الدولہ کو شکست سے دوچار کرایا، ہندوستان کی تاریخ میں غداری اور بے وفائی کی علامت بن چکا ہے۔ ٹیپو سلطان کو اس کے قریبی ساتھی میرصادق کی غداری نے شہید کرایا۔ محفوظ تاریخ میں سے یہ چند مثالیں یہ ثابت کرنے کے لئے پیش کی گئی ہیں کہ لیڈروں کی زندگی میں وفادار دوست ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ایک سپاہی کا سب سے عمدہ جوہر اپنے سالار اور اپنے ساتھیوں سے وفاداری ہے… اپنے ساتھیوں یا اپنے نصب العین سے وفادار رہنا یقینا ایک قابل قدر صفت ہے۔‘‘ (اندرا کے نام خط 8 مئی 1932ء)

بے غرضی

[ترمیم]

بے غرضی کا ایک مطلب یہ ہے کہ کسی کے اچھے کام کی تعریف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لیجئے۔ بے غرضی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ دوسروں کا نقصان کر کے اپنا فائدہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ بے غرضی کی صفت کو فروغ دینے کے لئے آپ کو چاہئے کہ: ٭ معاملات کو دوسرے فریق کے نکتہ نظر سے دیکھنے کی دیانتدارانہ کوشش کیجئے۔ ٭ روزمرہ کے کاموں میں اپنے ماتحتوں کی مدد کیجئے۔ ایسے کاموں میں ان کے ساتھ شریک ہونے پر آپ کو جو عزت و احترام ملے گا، وہ خود آپ کے لئے بھی حیران کن ہوگا۔ ٭ اپنے رفقائے کار کو ان کے اچھے کاموں کا کریڈٹ دیجیے اور حکامِ بالا کی طرف سے ملنے والی کسی بھی طرح کی تعریف و توصیف کو مستحق فرد تک ضرور پہنچایئے۔ دسویں صدی عیسوی کے دوران سلطان محمد غزنوی نے ہندوستان پر کئی کامیاب حملے کئے۔ ایاز نامی ایک غلام اس کی ذاتی خدمت پر خصوصی طور پر مامور تھا۔ ایاز کے ساتھ سلطان کے قریبی تعلق پر بہت سے درباری امراء حسد کا شکار ہونے لگے۔ ہندوستان کے مختلف حصوں پر اپنے سترہ حملوں کے دوران سلطان محمود غزنوی نے بہت سی دولت اکٹھی کی خصوصاً سومنات سے بے بہا مال غنیمت اس کے ہاتھ آیاتھا۔ درباری امراء نے سلطان سے شکایت کی کہ ایاز کی تحویل میں ایک صندوق ہے جس کا وہ باقاعدگی سے جائزہ لیا کرتا ہے۔ انہوں نے اس شک کا اظہار کیا کہ یہ صندوق قیمتی جواہرات اور دولت سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے امراء کو مطمئن کرنے کی غرض سے ایک روز سلطان ایاز کے ذاتی کمرے میں پہنچا اور اسے سب کے سامنے صندوق کھولنے کا حکم دیا۔ حکم کی تعمیل میں ایاز نے اس مشتبہ صندوق کو کھول کر اس کے اجزاء سب کے سامنے عیاں کئے تو معلوم ہوا کہ اس صندوق میں اس کے پرانے وقتوں کے پھٹے ادھڑے کپڑے بھرے ہوئے ہیں۔ پھر ایاز نے امراء پر واضح کیا کہ اسے دولت جمع کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سلطان کے لئے اس کی وفاداری اور خدمت بے غرض و بے لوث ہے۔ ان کپڑوں کو اس نے صرف اپنے ماضی کو یاد رکھنے کے لئے سنبھال رکھا ہے۔

ہمت و حوصلہ

[ترمیم]

حوصلہ وہ صفت ہے جو خوف کی موجودی میں بھی اطمینان اور استحکام کے ساتھ مخالفتوں اور خطرات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے۔ ذاتی نفع نقصان کی پروا نہ کرتے ہوئے حق بات کی سربلندی کے لئے کھڑے کر آپ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمت و حوصلے کی نمو اس وقت ہوتی ہے جب آپ: ٭ اپنی غلطیوں کے لئے دوسروں کو الزام نہیں دیتے۔ ٭ مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے حق سچ کی حمایت کرتے ہیں۔ ٭ ذمہ داریاں تلاش کرتے ہیں اور رضاکارانہ طور پر انہیں قبول کرتے ہیں۔ ٭ اپنے فرض اور جماعت کے مشن سے اپنی وابستگی کو ذاتی احساسات اور خواہشات سے بالاتر رکھتے ہیں۔ حوصلہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ اول جسمانی، دوم اخلاقی۔ دونوں اعتبار سے یہ بنیادی جبلت سے الگ ہوتا ہے۔ بہت سے دوسرے انسانی عناصر کی طرح اسے بڑھایا بھی جا سکتا ہے اور کم بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک لیڈر کو دلیرانہ مگر سوچے سمجھے خطرے مول لینے پر ہمیشہ آمادہ رہنا چاہئے۔ دیگر سب باتوں سے بڑھ کر، اسے قسمت کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے ذمہ داری کو حاصل کرنے اور اس کے لئے ضروری قیمت چکانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ فرانسیسی لیڈر چارلس ڈیگال کا کہنا ہے کہ جب حالات کے چیلنج کا سامنا ہو تو صاحب کردار لیڈر کا اپنے باطن کا رخ کرتا ہے اور صرف اپنے آپ پر تکیہ کرتا ہے۔ خودانحصاری کے خوگر لیڈر کو مشکلات میں ایک خاص کشش محسوس ہوتی ہے کیونکہ صرف مشکلات کا مقابلہ کر کے ہی وہ اپنی صلاحیتوں کی آزمائش اور افزائش کر سکتا ہے۔ فیصلے کی گھڑی میں وہ گھبراتا نہیں، بلکہ پہل کاری سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کرتا ہے۔ سیاست میں خطرات مول لینے سے مراد حوصلہ مندی اور درست وقت پر فیصلہ کرنے کا ارادہ اور اہلیت ہے۔ یہ کچھ حاصل کرنے کے لئے سب کچھ دائو پر لگا دینے کا نام ہے۔ آپ کو شکست ، ناکامی اور خوفِ زیاں سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ حوصلے پر گفتگو کرتے ہوئے ایک مرتبہ ونسٹن چرچل نے کہا۔ ’’ہمت و حوصلے کے بغیر دوسری تمام اچھی خصوصیات بے معنی ہو جاتی ہیں۔‘‘ جواہر لعل نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’زندگی سے لطف اندوز ہونے کا واحد طریقہ بے خوفی اور شکست و بربادی کی پروا نہ کرنا ہے، کیونکہ شکست اور بربادی ان لوگوں سے ہمیشہ دور رہتے ہیں جو بے خوف ہوتے ہیں۔‘‘ اسی کتاب میں نہرو اپنے آخری خط میں لکھتے ہیں۔ ’’لوگ اکثر نتائج سے خوفزدہ ہو کر حرکت میں آنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ حرکت میں آنے کا مطلب خطرات مول لینا ہے۔ دور سے دیکھو تو خطرہ بہت خوفناک معلوم ہوتا ہے لیکن پاس جا کر دیکھو تو یہ اتنی بری چیز بھی نہیں۔‘‘ چینی رہنما چو این لائی نے ایک مرتبہ رچرڈ نکسن سے کہا کہ ساری زندگی ہموار راستوں پر سفر کرنے والوں کی ذات میں قوت کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ ایک بڑا لیڈر بہائو کے ساتھ تیرنے کے بجائے مخالف رخ تیر کر اپنی قوت بڑھاتا ہے۔ تاریخ لیڈروں خصوصاً فوجی لیڈروں کی بہادری کی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جب موت اور زندگی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار ملنے پر لیڈروں نے اپنے مؤقف کی سربلندی کے لئے اپنی زندگی قربان کرنا قبول کر لیا۔

بھروسہ مندی

[ترمیم]

بھروسہ مند لیڈر وہ ہے جو اپنے فرائض کو بحسن و خوبی پورا کرتا ہے۔ جیسا کہ امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ پریذیڈنٹ مورٹن بلیک ویل نے کہا۔ ’’سیاست میں، آپ کے پاس اپنا قول اور اپنے دوست ہوتے ہیں۔ کسی ایک سے بھی روگردانی کریں گے تو سیاسی طور پر مارے جائیں گے۔‘‘ بھروسہ مندی اور قابل انحصاری کی خصوصیت کو مندرجہ ذیل نکات پر عمل کرنے سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ ٭ اپنے دوستوں اور اپنے حمایت کنندگان کے ساتھ وفادار رہیں۔ ٭ وعدے نبھانے کے معاملے میں اپنی ساکھ بنائیں۔ ٭ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپنی ذمہ داریاں پوری طرح سے مکمل کریں۔

حکمت اور معاملہ فہمی

حکمت نام ہے دوسروں کو اس انداز میں ہینڈل کرنے کا کہ ان کی دلآزاری نہ ہو۔ معاملہ فہمی سے مراد ہے درست موقعے پر درست بات کہنے کے ہنر سے آشنائی۔ ان صفات کی نمو کے لئے آپ کو چاہئے کہ: ٭ اپنے صبر و برداشت کا تجزیہ کریں۔ اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ میں صبر و برداشت کا مادہ کم ہے تو خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ ٭ سنہرے اصول پر عمل کرنے کا شعار اپنائیں یعنی دوسروں سے بھی ویسا ہی سلوک کریں جیسے سلوک کی توقع آپ ان سے کرتے ہیں۔ حکمت و معاملہ فہمی کسی کو دھوکا دینے، منافقت سے کام لینے یا جھوٹ بولنے کا نام نہیں۔ یہ سیاست کا ایک فن ہے۔ میرے نظریئے کے مطابق ’’حکمت و معاملہ فہمی‘‘ ایک فرد کی عقل و دانش کی باڈی لینگوئج (Body Language) ہوتی ہے۔دھوکہ دینا حکمت نہیں بلکہ غداری اور بے وفائی ہے۔ افراد یا صورتِ حالات کو مناسب انداز میں ہینڈل کرنے کے فن کا نام حکمت اور معاملہ فہمی ہے۔ اس کا تعلق دوسروں کے احساسات کے لطیف ادراک سے ہے۔ قدیم زمانوں میں مستقبل کے حکمرانوں کو اس فن کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ بچپن سے ہی انہیں مختلف مزاج کے حامل لوگوں سے بات چیت اور معاملت کرنا سکھایا جاتا تھا۔ بعض حکمرانوں نے اسے بتدریج عمل سے گزر کر سیکھا۔ اس ضمن میں بہترین مثال سکندر اعظم کی پیش کی جا سکتی ہے جس کی تربیت اس کے باپ نے کی اور اس نے اپنے طور پر مختلف لوگوں سے معاملت کرنے کا ہنر سیکھا۔ برصغیر میں مغلیہ حکومت کے بانی ظہیر الدین بابر نے ہندوستان پر حملہ آور ہونے سے پہلے ایران کے کچھ حصوں کو فتح کرنے کی کوشش کی، وہاں کے حکمران کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور معذرت طلب کرنے پر رہا کر دیا گیا۔ ایران کے رقبے پر قابض ہونے کی دو کوششوں کی ناکامی کے بعد اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی، ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور ابراہیم لودھی کو شکست دے کر یہاں کا حکمران بن گیا۔ فرنچ وار کالج کے ایک انسٹرکٹر نے ڈیگال کے بارے میںلکھا کہ ’’اس کا رویہ کسی جلاوطن بادشاہ کا سا ہے۔‘‘ دوسری جنگ عظیم میں شاندار کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود چرچل کی طرح ڈیگال کو بھی منصب اقتدار سے معزول ہونا پڑا۔ ڈیگال نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے خود کو تمام معاملات سے لاتعلق کر لیا۔ 1958ء میں وہ دوبارہ نمودار ہوئے اور ملک کے صدر کے طور پر منتخب ہو گئے لیکن اس مرتبہ ملک کو بحران سے نکالنے کے انہوں نے پہلے سے زیادہ اختیارات کا تقاضا کیا۔ انہوں نے اسمبلی سے ان اختیارات کی فراہمی کے لئے درخواست کی اور بصورتِ دیگر مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی۔ ان کی ذات میں چھپے ہوئے سیاسی مکینک کو احساس تھا کہ اگر اس مشین کو تیل لگایا جائے تو یہ زیادہ ہمواری اور تیزرفتاری سے چلے گی لہٰذا جب بھی وہ چیمبر میں آتے تو پارلیمانی ارکان سے بڑے خوشدلانہ انداز میں ہلکی پھلکی گفتگو کرتے۔ اسمبلی کے وقفوں کے دوران اپنے حریفوں سے بھی بڑے خلیقانہ انداز میں پیش آتے۔ انہوں نے تمام ارکان کو یقین دلایا کہ ان کے تمام اقدامات ملک کو مضبوط، مؤثر اور ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ہوں گے۔ اور یہ کہہ کر ان کے دل جیت لئے کہ ’’میں آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج اس موقعے پر یہاں آپ سب کے درمیان ہونا میرے لئے کتنی خوشی اور فخر کی بات ہے۔‘‘ یہ بات سن کر ان تمام اراکین پارلیمنٹ کے منہ کھلے رہ گئے جو ان کی واپسی کی مخالفت میں پورا زور لگاتے رہے تھے۔ ایوان تالیوں سے گونج اٹھا اور ڈیگال کو وہ اختیارات دے دیئے گئے جو وہ چاہتے تھے۔ اسی کا نام حکمت اور معاملہ فہمی ہے۔ سابق صدر امریکہ ابراہم لنکن نے حکمت و معاملہ فہمی کی تعریف کچھ یوں کی تھی۔ ’’دوسروں کو ویسے ہی بیان کرنا جیسا کہ وہ خود کو سمجھتے ہیں، حکمت اور معاملہ فہمی ہے۔‘‘

پہل کاری

[ترمیم]

پہل کاری سے مراد کرنے کے کاموں کو ڈھونڈنا اور پھر کسی کے کہے بغیر انہیں کر گزرنا ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جسے ہمیں صرف اپنے آپ میں ہی نہیں بلکہ اپنے ماتحتوں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پہل کاری کو فروغ دینے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیجئے۔ ٭ کاموں کو کرنے کے زیادہ بہتر طریقے تلاش کیجئے۔ ٭ ایسے کام ڈھونڈیئے جن کے کرنے کی ضرورت ہو اور جب مل جائیں تو کسی کی ہدایت کا انتظار کئے بغیر کر گزریئے۔ میرے نزدیک پہل کاری دوسروں کی رہنمائی کرنے کی تحریک اور ایک ایسا کردار ادا کرنے کا نام ہے جس میں دوسروں کو آپ کی پیروی کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہ آئے۔ پاکستان کی تحریک آزادی میں محمد علی جناح کے علاوہ اور مسلمان لیڈر بھی شامل تھے جو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے یا اپنے ذاتی پلیٹ فارم سے اپنے اپنے طور پر جدوجہد کر رہے تھے لیکن قائداعظم نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ سامنے لانے میںپہل کی اور بابائے قوم قائداعظم کہلائے اور تاریخ عالم میں ایک نئے ملک، پاکستان، کی بنیاد رکھنے والے واحد فرد کی حیثیت حاصل کی۔

قوتِ فیصلہ

[ترمیم]

قوتِ فیصلہ سے مراد ہے تمام حقائق کی جانچ پڑتال کر کے بروقت فیصلے کرنے کی اہلیت۔ قوتِ فیصلہ حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیجئے۔ ٭ یاد رکھئے کہ بروقت کیا ہوا اچھا فیصلہ، تاخیر سے کئے ہوئے بہت اچھے فیصلے سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔ ٭ فیصلہ کرنے کے وقت کو پہچان لینا کافی نہیں، آپ کو اس وقت کی بھی پہچان ہونی چاہئے جب کوئی فیصلہ نہ کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ٭ ہر مسئلے کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینے اور پھر مناسب ترین فیصلہ کرنے کی عادت اپنایئے۔ سابق صدرِ امریکہ بل کلنٹن اپنی کتاب ’’امید اور تاریخ کے درمیان‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ایک پرانے گیت کے بول ہیں۔ ’ہر آدمی اور ہر قوم کی زندگی میں ایک فیصلہ کن گھڑی آتی ہے…‘ انجیل ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جہاں بصیرت نہیں ہوتی، وہاں لوگ مبتلائے مصیبت ہوتے ہیں۔ میری سوچ حکومت کو بڑھاوا دینے کی نہیں بلکہ اسے کامل و اکمل اور عوام کا ایک بہتر خادم بنانے کی ہے۔‘‘

برداشت

[ترمیم]

مشکل اور صبر آزما حالات میں طویل وقفوں کے لئے اپنی جسمانی اور ذہنی قوتِ کار کو برقرار رکھنے اور اپنے فرائض انجام دیتے رہنے کا نام برداشت ہے۔ اس خصوصیت کو مندرجہ ذیل نکات پر عمل پیرا ہونے سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ ٭ جتنی بھی رکاوٹیں حائل ہوں، کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے بغیر دم نہ لیں۔ ٭ مناسب غذا اور باقاعدہ ورزش کا معمول اپنائیں۔ ٭ ایسی سرگرمیوں سے گریز کریں جو آپ کی جسمانی اور ذہنی قوتِ کار کو متاثر کرنے کا سبب بنیں۔ رات گئے تک جاگنے اور ’’غیرنصابی تقریبات‘‘ میں حصہ لینے سے احتراز کریں۔ چرچل جیسے متحرک فرد کے لئے ریٹائرمنٹ کے بعد اسی (80) سال کی عمر میں بھی فارغ رہنا کوئی خوش کن بات نہ تھی۔ جب آئزن ہاور 1955ء میں جنیوا سمٹ سے واپس لوٹے تو انہیں چرچل کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں چرچل نے لکھا تھا کہ اگرچہ ذمہ داریوں سے نجات میرے لئے کسی قدر سکون کا باعث ہے، لیکن جب اہم سفارتی کانفرنسز میرے بغیر منعقد ہوتی ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں برہنہ ہو گیا ہوں۔ اگر کوئی بوڑھا سیاسی لیڈر کسی طرح کے سنگین مرض میںمبتلا نہ ہو تو بڑھتی ہوئی عمر کے باعث اس کی قوتِ کار، جوش و خروش اور ذہنی سرعت میں جو کمی واقع ہوتی ہے، وہ اسے اپنے علم اور قوتِ تجزیہ سے پورا کر لیتا ہے۔ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جب 1972ء میں میری ملاقات چو این لائی سے ہوئی تو اس کی عمر 73برس تھی، 1969ء میں ڈیگال سے ہوئی تو اس کی عمر 78 برس تھی، 1959ء میں کونراڈ ایڈنائور سے ہوئی تو اس کی عمر 83 برس تھی۔ وہ سب اس وقت تک مسند اقتدار پر براجمان تھے کیونکہ وہ اپنی حکومت کے نوجوانوں سے زیادہ مضبوط اور قابل تھے۔‘‘ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’چرچل سیاست سے ریٹائر ہو چکے تھے اور ان کی عمر اسی سال سے زائد تھی جب یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو سے ان کی آخری دفعہ ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ٹیٹو کو مشروبات اور سگار کی پیشکش کی۔ بڈھے ٹیٹو نے سگار کا دھواں بھی اڑایا اور اپنے حصے کی سکاچ ختم کرنے کے بعد چرچل کے حصے پر بھی ہاتھ صاف کیا۔ چرچل نے کسی قدر تاسف آمیز انداز میں ٹیٹو کا چہرہ دیکھا اور کہا۔ ’’تم اپنے آپ کو اتنا جوان کیسے رکھتے ہو؟‘‘ جیسا کہ ٹیٹو سے ملنے والا ہر فرد جانتا ہے، ٹیٹو کے اپنی عمر سے کم نظر آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے بال رنگتے تھے۔ ٹیٹو کے جواب کا انتظار کئے بغیر چرچل نے کہا۔ ’’میں جانتا ہوں اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ اقتدار ہے۔ اقتدار ہی ایک آدمی کو ہمیشہ جوان رکھتا ہے۔‘‘

جوش و ولولہ

[ترمیم]

جوش و ولولے سے مراد ہے اپنے کام کو کرنے میں پورے خلوص اور جذبے کا مظاہرہ کرنا۔ دوسروں میں جوش و ولولے کی نمو کرنے کے لئے آپ کو چاہئے کہ: ٭ فرائض کی انجام دہی میں حائل رکاوٹوں کو عبور کرنے میں دوسروں کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ ٭ اپنے ماتحتوں کی کامیابیوں پر زور دیجئے۔ ٭ دوسروں کے ساتھ ہمیشہ مثبت رویئے کا مظاہرہ کیجئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، جب ہٹلر فتح پہ فتح حاصل کر رہا تھا، یورپ کے ملک اس کے سامنے سرنگوں ہوتے جا رہے تھے اور انگلینڈ کا وجود خطرے میں پڑا ہوا تھا، چرچل کی تقریر اور اس کا ولولہ برطانوی باشندوں کے لئے ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے تاریک دنوں میں یہ اس کی مشہور ترین تقریر تھی۔ ’’ہم جھکیں گے نہ کمزور پڑیں گے۔ ہم آخر تک جائیں گے۔ ہم فرانس میں لڑیں۔ ہمارے بحر اور بحیروں میں لڑیں گے۔ ہم بڑھتے ہوئے اعتماد اور بڑھتی ہوئی قوت کے ساتھ ہوا میں لڑیں گے۔ ہم اپنے جزیرے کی حفاظت کریں گے خواہ اس کے لئے کوئی بھی قیمت چکانا پڑے۔ ہم ساحلوں پر لڑیں گے۔ ہم زمین پر لڑیں گے۔ ہم میدانوں اور گلیوں میں لڑیں گے۔ ہم پہاڑوں میں لڑیں گے۔ ہم کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔‘‘ نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’کسی شخص کے لئے محض اپنی طاقتور ذہانت کی بدولت لیڈر بن جانا، کروڑوں افراد کو متاثر کرنا اور تاریخ پر اپنے نقوش چھوڑ جانا ایک غیرمعمولی بات ہے۔ بڑے بڑے سپاہی اور فاتحین تاریخ میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ وہ لوگوں میں مقبول بھی ہوئے اور بدنام بھی، اور بعض اوقات انہوں نے تاریخ کا حلیہ ہی بدل دیا۔ بڑے بڑے مذہبی قائدین نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا اور ان میں ولولے کی آگ بھڑکائی لیکن ایسا کرنے میں انہوں نے ہمیشہ اعتقاد کو بنیاد بنایا۔ لوگوں کے جذبات کو چھیڑا گیا اور متاثر کیا گیا۔‘‘

طرزِ عمل

[ترمیم]

طرزِعمل سے مراد آپ کی عمومی ظاہری وضع قطع، چال ڈھال اور انداز و اطوار ہیں۔ کسی بے چین گروہ کی بے چینی ختم کرنے میں ایک ایسے لیڈر سے زیادہ کامیاب اور کوئی نہیں ہو سکتا جو اپنے چہرے یا اپنے اطوار سے کسی طرح کی پریشانی کا اظہار نہ ہونے دے۔ طرزِ عمل کا مظاہرہ مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ ٭ دوسروں کے سامنے کبھی اپنے کارکنوں کو ڈانٹئے ڈپٹئے مت۔ ٭ اپنی آواز اور حرکات و سکنات کو قابو میں رکھئے تاکہ ان سے کسی طرح کے شدید جذبات کا اظہار نہ ہونے پائے۔ بعض اوقات تھوڑا سا غصہ ظاہر کر دینا مناسب ہوتا ہے لیکن بالکل ہی بے قابو ہو جانا کبھی مناسب نہیں ہوتا۔ ٭ بیہودہ الفاظ اور ناشائستہ گفتگو سے ہمیشہ پرہیز کریں۔ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’کسی لیڈر کی حیثیت کا تعین کرنے میں اس کے شخصی رویوں کے متعلق کلیدی سوال یہ نہیں ہوتا کہ اس کے رویئے پسندیدہ ہیںیا غیرپسندیدہ، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مفید ہیں یا غیرمفید۔ زمانہ سازی، خودپرستی، ظاہرداری جیسے رویئے بعض حالات میں ناپسندیدہ قرار دیئے جا سکتے ہیں لیکن ایک لیڈر کے لئے یہ بنیادی اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ مختلف مفادات کے حامل اور باہم مخالف گروہوں کے تغیر پذیر اتحادات کو مجتمع رکھنے کے لئے اسے زمانہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام کے سامنے اپنے متعلق درست شخصی تاثر بنانے کے لئے اسے کسی حد تک خودپرستی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ بعض اوقات اہم معاملات پر اثرانداز ہونے کے لئے اسے ظاہرداری سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔‘‘ ڈیگال کا کہنا ہے کہ ایک لیڈر کو ’’معلوم ہونا چاہئے کہ کب اسے ظاہرداری سے کام لینا ہونا اور کب بے تکلفی سے۔‘‘ اور یہ کہ ’’ہر متحرک اور سرگرم آدمی میں انانیت، فخر، سخت گیری اور مکاری کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے لیکن ان سب عیوب کے لئے اسے معاف کر دینا چاہئے بلکہ انہیں اس کی خوبیاں سمجھا جانا چاہئے، اگر وہ انہیں کار ہائے نمایاں کے لئے انجام دینے کی اہلیت رکھتا ہے تو۔‘‘ کیا ان سب خصائل کا حصول دشوار دکھائی دیتا ہے؟ دکھائی دینا چاہئے کیونکہ یہ حقیقتاً مشکل ہے۔ تمام عظیم لیڈر جو مروجہ معیارات پر پورے اترے ان خصوصیات کے حامل تھے۔ اگر ہم ان تمام لیڈروں کے متعلق سوچیں جو ناکام ہوئے یا جو عوام کو ناامید کرنے کا سبب بنے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی ناکامیوں کی وجہ انہی خصوصیات کی کمی تھی۔ لہٰذا ایک لیڈر کو باوقار، خوش اطوار اور خصوصاً صابر و متحمل ہونا چاہئے۔ اسے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’کامیاب لیڈر کبھی لوگوں سے حقارت آمیز سرپرستانہ انداز میں گفتگو نہیں کرتا۔ وہ انہیں اوپر اٹھاتا ہے۔ اسے ’’احمقوں کو برداشت کرنے کے لئے‘‘ آمادہ اور تیار ہونا چاہئے۔ اسے دکھانا چاہئے کہ جن عوام کی تائید و حمایت کی اسے ضرورت ہے وہ ان کا احترام کرتا ہے۔ لیکن اسے باہمی فرق کی وہ خصوصیت بھی برقرار رکھنی چاہئے جو اسے اس قابل بناتی ہے کہ لوگ اس کی طرف دیکھیں… لیڈر کو نہ صرف یہ سیکھنا چاہئے کہ بولنا کیسے چاہئے بلکہ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے، اور یہ بہت زیادہ اہم ہے، کہ کب بولنا بند کر دینا چاہئے۔‘‘ ڈیگال نے اس نکتے کی نشاندہی بڑی عمدگی سے ان الفاظ میں کی ہے کہ خاموشی ایک لیڈر کے لئے طاقتور ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ جب ہم بولنے کے بجائے سنتے ہیں، تب ہی ہمیں کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ صبر و برداشت، مستقل اور مستحکم رہنے اور نامساعد حالات کو خود پر غالب نہ آنے دینے کی ایک خصوصی اہلیت کا عطیہ ہیں۔ صبر و برداشت کمزوری کی علامت نہیں بلکہ استقلال و استحکام سے حاصل ہونے والی قوت کی نشانیاں ہیں۔ صبر و برداشت حاصل کرنے اور بڑھانے کے لئے ایک نہایت زبردست قسم کے جوش و خروش کی ضرورت ہوتی ہے۔ تلاش کرنے کا جوش و جذبہ، اور جس کا جوش جتنا بڑھا ہوا ہوگا، وہ حالات کی سختیوں کو یقینا اتنی ہی آسانی سے برداشت کر سکے گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں۔ ’’صبر بہادری کی ایک قسم ہے۔ صبر دو طرح کا ہوتا ہے۔ اول جو تکلیف تمہیں پہنچے اس پر صبر کرنا اور دوم جس چیز کا تمہیں لالچ ہو اس پر صبر کرنا۔‘‘ چند ضروری باتیں ان سب سے قطع نظر، بعض اوصاف ایسے ہوتے ہیں جو ہر ایک لیڈر میں ہونے چاہئیں، خواہ اس کا طرزِ قیادت کچھ بھی ہو۔ یہ اوصاف ہیں، انصاف پسندی، دیانتداری، اصول پسندی اور دوسروں کا خیال رکھنے کی عادت۔ کسی لیڈر کا سب سے اہم وصف دوسروں کو اپنی بات اچھی طرح سمجھانے کی اہلیت یعنی ابلاغ (communication) ہوتی ہے۔ یہ معلوم ہونا کہ کون سی بات کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے، ایک ایسا وصف ہے جو آپ کی قیادت اور جماعت کو بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔ ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کو ضرورت ہوتی ہے کہ آپ اپنے پاس موجود معلومات اور تجاویز اچھی طرح دوسروں تک پہنچا سکیں، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ آپ یہ بات ایسے انداز میں کریں کہ حسب خواہ نتائج بھی حاصل ہو سکیں یعنی کسی کو قائل کرنا، تحریک دینا یا سمجھانا۔ ابلاغ کے لئے سب سے پہلا لازمہ یہ ہے کہ آپ کو زبان و بیان پر عبور حاصل ہو۔ اس بات کی مشق کیجئے کہ آپ اپنے خیالات کو واضح، مختصر اور قابل فہم الفاظ میں پیش کر سکیں۔ بے سوچے سمجھے بولنا، بڑبڑانا یا معموں میں باتیں کرنا کوئی مؤثر طریقہ نہیں ہوتا۔ کوشش کیجئے کہ بات کرتے وقت آپ کی آواز واضح اور بلند ہو اور آپ ایک ہموار لہجے اور پُرزور انداز میں بات کریں۔ پُرزور انداز میں بات کرنے سے سننے والے کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے پاس کوئی قوت ہے، اگر وہی بات آپ کمزور انداز میں کریں گے تو الٹا تاثر مرتب ہوگا۔ یہ بات کہنے سے کیا فائدہ کہ ’’اس سال ہماری کارکردگی اچھی رہی‘‘ جبکہ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں ’’اس سال ہماری کارکردگی توقعات سے بڑھ کر رہی ‘‘؟ آپ کے الفاظ کا انتخاب آپ کے سننے والوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ لیڈروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کو تحریک دیں اور عمل پر اکسائیں، لہٰذا لیڈر جو الفاظ استعمال کرتا ہے، وہ نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ایسے الفاظ استعمال کیجئے جو آپ کی تقریر میں زور پیدا کریں اور سننے والوں پر ایک ولولہ انگیز اثر ڈالیں۔ لیڈروں کو تقریر اکثر کرنا پڑتی ہے۔ ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ ہوگا کہ آپ کتنے مؤثر طریقے سے ابلاغ کر سکتے ہیں، محض ذاتی ملاقاتوں میں نہیں، بلکہ بڑے بڑے اجتماعات کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بھی۔ عوام کے سامنے تقریر کرنے کی ضرورت کئی مواقع پر پیش آ سکتی ہے مثلاً: اپنی ٹیم سے خطاب کرتے ہوئے تاکہ ان کو مزید جوش سے کام کرنے کی تحریک دی جا سکے یا کسی نئے اقدام کے متعلق انہیں بتایا جا سکے۔ اپنے رفقاء اور بڑوں کے سامنے کوئی تجویز پیش کرتے ہوئے۔ اپنی جماعت کی طرف سے اجلاسوں میں خطاب کرتے ہوئے۔ اگر آپ قیادت کے منصب پر فائز ہیں تو امکان یہی ہے کہ آپ مندرجہ بالا ہر صورتِ حال سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ اس حوالے سے چند بنیادی باتیں ایسی ہیں جن کا خیال رکھنا آپ کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا: ٭ بوائے سکائوٹ کا نعرہ صرف تقریروں کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ اکثر جگہوں پر کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ ’’تیار رہو۔‘‘ اپنی تقریر کے لئے تیاری کرتے ہوئے یہ خیال رکھئے کہ جو ضروری نکات آپ لوگوں کے علم میں لانا چاہتے ہیں، ان سب کا ذکر ہو۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بغیر تیاری کئے کسی بھی وقت تقریر کر سکتے ہیں۔ تاہم، بغیر تیاری کے تقریر کرتے ہوئے عین ممکن ہے کہ مقرر مرکزی نکات سے ہٹ جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض ضروری معلومات کا تذکرہ کرنا ہی اس کے ذہن سے نکل جائے۔ ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہونے کا امکان زیادہ ہے جن کا تقریر کرنے کے معاملے میں تجربہ کم ہو۔ ٭ ضروری نہیں کہ آپ اپنی تقریر کا ایک تفصیلی خاکہ بنائیں لیکن اگر آپ مرکزی نکات کا ایک ہلکا پھلکا خاکہ ساتھ رکھ لیں تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ٭ آئینے کے سامنے تقریر کرنے کی مشق کیجئے۔ اس امر کا خیال رکھئے کہ تقریر کرتے وقت آپ کا سر بلند ہو، نوٹس کی طرف جھکا ہوا نہ ہو۔ آپ کا انداز پُرزور ہو اور آپ نے اپنے بولنے کے لئے وقت کا ایک دورانیہ مقرر کر رکھا ہو۔ ٭ تقریر کرنے سے پہلے تھوڑا وقت لے کر خود کو پُرسکون کیجئے۔ گھبراہٹ ہو تو ممکن ہے کہ آپ کی آواز کمزور پڑ جائے یا آپ تیزی تیزی سے بولنے لگیں۔ یہ دونوں باتیں آپ کی ساکھ پر برا اثر ڈالیں گی۔ بولتے وقت چند سننے والوں کو براہِ راست دیکھنے کا حربہ بھی آزمایئے۔ سامعین کا ردِعمل جاننے کے لئے ان سے ایک ربط پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ٭ تمام حقائق سے آگاہی حاصل کیجئے اور سوالات کے لئے تیار رہئے یا اگر آپ کو محسوس ہو کہ کوئی خاص نکتہ مطلوبہ اثر ڈالنے میں ناکام ہے تو اپنی تقریر میں ترمیم کر لیجئے۔ اگر آپ کو نفس مضمون پر عبور حاصل ہے، موضوع سے تھوڑا بہت انحراف کرنے میں آپ کو کوئی مشکل پیش نہیںآ ئے گی۔ اگر کوئی تقریر لمبی ہو تو ضروری نہیں کہ وہ اچھی بھی ہو۔ خواہ مقرر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اگر وہ ایک ہی موضوع پر دیر تک بات کرتا رہے تو سننے والے اکثر بے چینی کے شکار ہونے لگتے ہیں۔ آپ اپنا نکتہ جتنی جلد مکمل کر لیں گے، اتنی ہی جلد سننے والوں کو قائل بھی کر لیں گے۔ اگر آپ کو تقریر کرنے سے پہلے کبھی ٹھنڈے پسینے آئے ہوں یا آپ کی زبان لڑکھڑانے لگی ہو تو پریشان مت ہوں۔ ایسا محسوس کرنے والے آپ اکیلے نہیں ہیں۔ جن لوگو ںکو عوام کے سامنے بولنے کی مشق نہ ہو، انہیں اس تجربے سے اکثر گزرنا پڑتا ہے۔ یہ یاد رکھئے کہ گھبراہٹ کا یہ دورا پہلے چند منٹ سے زیادہ برقرار نہیں رہتا۔ جب سننے والے آپ کی تقریر پر ردِعمل کا اظہار کرنے لگتے ہیں تو آپ خودبخود پُرسکون ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے چند مشورے حسب ذیل ہیں ٭ کوشش کیجئے کہ آپ کو کسی ایسے موضوع پر تقریر نہ کرنا پڑے جو آپ کے لئے اجنبی ہو۔ اگر آپ اپنے موضوع پر دسترس رکھتے ہیں تو آپ کے علم کے بل بوتے پر گھبراہٹ کے پہلے چند منٹ آسانی سے گزر جائیں گے۔ ٭ بات شروع کرنے سے پہلے گہری سانس لیجئے اور تیز تیز بات کرنے کی کوشش مت کیجئے۔ اگر وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے تو تیز بولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ٭ جتنی مرتبہ ممکن ہو، بڑے اور چھوٹے اجتماعات کے سامنے تقریر کرنے کی مشق کیجئے۔ مثال کے طور پر، آپ آئینے کے سامنے یا اپنے گھر والوں کے سامنے تقریر کرنے کی مشق کر سکتے ہیں یا اس سے بھی بہتر بات یہ کہ گاہے بہ گاہے اپنے کارکنوں کے سامنے ہلکی پھلکی تقریر کیجئے۔ اس سے آپ کو تقریر کرنے کے لئے ضروری اعتماد حاصل ہوگا۔ اگرچہ اپنے کارکنوں کی کارکردگی پر ردِعمل ظاہر کرنے کے معاملے میں، فیڈ بیک اور انعام دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن اکثر یہ ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں۔ فیڈ بیک کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے کارکن کے علم میں یہ بات لائیں کہ آپ اس کے کام سے خوش یا ناخوش ہیں۔ انعام یہ ہے کہ کوئی اچھا کام کرنے پر اسے مناسب صلہ دیا جائے۔ فیڈ بیک اور انعام دونوں آپ کے کارکنوں کو اس بات کا شعور بخشتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لیڈر کی نظر میں اپنا کام کتنے اچھے انداز میں انجام دیا ہے۔ کسی بھی ٹیم کی صحت کے لئے فیڈ بیک ایک ضروری چیز ہے۔ لیڈر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کارکنوں تک اپنا فیڈ بیک اچھے انداز میں پہنچاتا رہے تاکہ مستقبل میں ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکے۔ ایک لیڈر اور منتظم کی حیثیت سے آپ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ مثبت اور منفی دونوں طرح کا فیڈ بیک دیں۔ دونوں ضروری ہیں اگرچہ مقابلتاً مثبت فیڈ بیک دینا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مثبت فیڈ بیک اس وقت دیا جانا چاہئے جب کوئی کارکن اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہو، کامیابی سے جدت طرازی کر رہا ہو یا گذشتہ کام سے بڑھ کر کارکردگی دکھا رہا ہو۔ اس بات کا خیال رکھئے کہ آپ کے فیڈ بیک میں نہایت واضح انداز سے یہ بات نظر آئے کہ آپ کا یہ ردِعمل کس وجہ سے ہے۔ عمومی بیان دینے سے گریز کیجئے کہ ’’آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔‘‘ ایسی بات زیادہ قابل یقین معلوم نہیں ہوتی، اور اس سے کام کرنے والے کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون سا کام اچھا کر رہا ہے۔ ٹیم یا فرد کی کارکردگی کو درست کرنے کے لئے منفی فیڈ بیک بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں بھی عمومیت سے کام لینے سے گریز کیجئے اور کسی فرد کے کام یا رویئے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے واضح الفاظ میں بتایئے کہ آپ کو کس بات پر اعتراض ہے ۔ کسی فرد کی شخصی خصوصیات پر نکتہ چینی کرنے سے گریز کیجئے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے کارکنوں سے فیڈ بیک حاصل کیجئے۔ اس طرح ٹیم ورک کا ماحول پیدا ہوگا اور آپ کے کارکنوں میں یہ احساس بھی پیدا ہوگا کہ آپ ان کی رائے کو وقعت دیتے ہیں۔ آپ کو رسمی اور غیررسمی فیڈ بیک کے درمیان واضح فرق بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا۔ رسمی فیڈ بیک ان تحریری سالانہ جائزوں کی شکل میں نظر آتا ہے جن میں کسی کارکن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے اور جن کا تعلق اس کارکن کی ترقی سے ہوتا ہے۔ غیررسمی فیڈ بیک اکثر زبانی تبصروں کی شکل میں رونما ہوتا ہے، مثال کے طور پر کسی کارکن کو یہ بتانا کہ اس نے کسی خاص کام میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپنے کارکنوں کو مطلوبہ انداز میں کام کرنے پر لگائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ انہیں مثبت اور منفی فیڈ بیک فراہم کرتے رہیں۔ عمدہ کارکردگی دکھانے پر انعام کئی شکلوں میں دیا جا سکتا ہے۔ فیڈ بیک کے ساتھ ساتھ، انعام کے ذریعے آپ اپنے کارکن کو بتاتے ہیں کہ اس نے اپنا کام اچھے اندا ز میں کیا ہے۔ عمدہ کارکردگی پر انعام دینے سے کارکنوں کو مزید عمدہ کام کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ جب انعام ملتا ہے تو آپ کے کارکنوں کے لئے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرنا اور غیرمعمولی کارکردگی دکھانے کی کوشش کرنا سہل ہو جاتا ہے۔ آپ کی ٹیم کی کارکردگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی قیادت، اپنے اہداف، اور اپنے ذاتی کام پر کتنا اعتماد رکھتے ہیں۔ اپنی ٹیم میں اعتماد پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ بے ساختہ انداز میں گاہے بہ گاہے ان پر اعتماد کا اظہار کرتے رہیں۔ اعتماد پیدا کرنے کے کئی اور طریقے بھی ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں: ٭ اگر آپ کو یقین ہے کوئی کارکن کوئی مخصوص کام کر سکتا ہے مگر اسے خود اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تو اس کی صلاحیتوں کا زبانی اعتراف کیجئے۔ مثال کے طور پر، آپ یوں بات کا آغاز کر سکتے ہیں: ’’میں جانتا ہوں کہ آپ یہ کام بہت اچھے طریقے سے کریں گے کیونکہ…‘‘ ٭ لیڈر کو اچھے کام پر اپنے کارکنوں کی ہمیشہ ستائش کرنی چاہئے۔ کام خواہ کتنا چھوٹا یا کتنا بڑا کیوں نہ ہو، اس پر تبصرہ ضروری ہے۔ ٭ اپنے کسی کارکن کو ایسے چھوٹے چھوٹے کام دیجیے جن سے اس کی ذمہ داری میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے۔ کام چھوٹے ہونے کی بدولت کارکن کے لئے کامیابی حاصل کرنا آسان ہوگا، اور یوں اس کا اعتماد بڑھتا جائے گا۔ ٭ لوگ صرف اعتماد کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتے۔ اعتماد کے ساتھ ساتھ انہیں بونس اور ترقی کی شکل میں یا (سیاسی جماعت ہونے کی صورت میں) عوام کے سامنے ان کی محنت کا اعتراف کر کے انہیں انعام سے بھی نوازیئے۔ ٭ اپنی ٹیم کو جیتنے والی ٹیم کہہ کر اپنے کارکنوں کو یہ احساس دلایئے کہ وہ ایک جیتنے والی ٹیم کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر، انہیں جتلایئے کہ ان کی وجہ سے آپ کا شخصی تاثر اچھا ہوتا ہے اور یہ کہ ان کی محنت ضائع نہیں جا رہی۔ اس سے ہر فرد میں یہ خواہش پیدا ہوگی کہ وہ پہلے سے زیادہ محنت کرے اور اپنی ٹیم کا سر نیچا نہ ہونے دے۔ ٭ اپنی ٹیم کا اعتماد بڑھانے پر توجہ دیجیے لیکن حقیقت پسندی کا دامن نہ چھوڑیئے۔ کسی شخص کو اس غلط فہمی میں نہ ڈالئے کہ وہ ناقابل عمل کام بھی کر سکتا ہے۔ اگر کوئی فرد ناکام ہوگیا تو آپ کے اعتماد بڑھانے والے بیانات کا اثر الٹا ہوگا اور اس کا اعتماد ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ آپ کی ٹیم یا ادارے کی کامیابی کے لئے ذمہ داریوں کی تفویض ایک ضروری عمل ہے۔ لیڈر یا منتظم کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ سارا کام اکیلے ہاتھ نہیں کر سکتا۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لئے ایک ہی ادارے کی دو ٹیموں پر نگاہ ڈالئے۔ دونوں لیڈروں کے سامنے ایک کٹھن ڈیڈ لائن ہے جس سے پہلے پہلے انہیں ادارے کے لئے ایک پروجیکٹ مکمل کرنا ہے۔ پہلے لیڈر کو یہ وقت کی اہمیت کا احساس ہے۔ چونکہ وقت بہت کم ہے، اس لئے بعد ازاں اس کے پاس کام کو دوبارہ چیک کرنے یا اس پر دوبارہ غور کرنے کی مہلت نہ ہوگی۔ اس نے اپنی ٹیم کے کارکنوں کی ماضی کی چند غلطیاں نوٹس کی ہیں لہٰذا وہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ پروجیکٹ کا زیادہ تر کام خود ہی انجام دے گا۔ دوسرا لیڈر بھی وقت کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور یہ بھی کہ پروجیکٹ کو پیش کرنے سے پہلے اس کا جائزہ لینے کے لئے زیادہ وقت میسر نہ ہوگا۔ تاہم، اسے احساس ہے کہ وہ پروجیکٹ کو مخصوص اجزاء میں تقسیم کر کے اور ہر جزو اپنے گروپ کے کسی ایک رکن کے حوالے کر کے زیادہ بہتر نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ اس طرح اسے کام کو چیک کرنے کے لئے مہلت مل جاتی ہے کیونکہ اس نے بھی ماضی میں اپنے کارکنوں کے کام میں چند غلطیاں دیکھی ہیں۔ دونوں لیڈر اپنا پروجیکٹ ایک ہی وقت پر مکمل کر لیتے ہیں تاہم پہلے کے مقابلے میں دوسرے لیڈر کا پروجیکٹ زیادہ بہتر، سوچا سمجھا اور مؤثر نظر آتا ہے کیونکہ پہلے نے خود پر بساط سے زیادہ بوجھ ڈال لیا اور محض کام مکمل کرنے میں اس کے معیار کو خراب کر بیٹھا۔ زیادہ تر لیڈروں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اپنے گروپ میں ذمہ داریاں پہلے ہی تقسیم کر چکے ہیں۔ تاہم، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو ذمہ داریاں انہوں نے دوسروں کو دی ہوتی ہیں، وہ عام اور غیراہم، دقت طلب یا نہایت مشکل ہوتی ہیں۔ اپنے کارکنوں کی دلچسپی کا گراف بلند رکھنے کے لئے، انہیں چند ایسی ذمہ داریاں دیجیے جو زیادہ دلچسپ اور ولولہ خیز ہوں۔ اس کا مطلب یقینا یہ ہوگا کہ آپ کو کوئی ایسا کام چھوڑنا ہوگا جسے آپ خود کرنے کی خواہش رکھتے ہوں گے لیکن اس طرح آپ اپنی ٹیم کو یہ دکھا کر کہ آپ بہتر کام بھی ان کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں، ان کا مورال بلند کریں گے۔ لیڈر اکثر کسی نئے منصب پر اپنا ایک منصوبہ لے کر فائز ہوتے ہیں اور اپنی افرادی قوت کو اپنی مرضی سے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، کسی نئے دفتر میں کارکنوں کی درجہ بندی کو تسلیم نہ کر کے اور وہاں پہلے سے موجود کارکنوں کے تجربے سے استفادہ نہ کر کے وہ اپنے لئے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیئے

اپنے سینئر کارکنوں کو دوست بنایئے، دشمن نہیں۔ 

اکثر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پارٹی میں کوئی ایک ٹیم زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتی ہے یا پارٹی کی کامیابی میں زیادہ کردار ادا کرتی ہے۔ اگر آپ اپنی کامیابی کی تشہیر نہیں کریں گے تو وہ روزمرہ کے کام کی بھیڑ کا حصہ بن کر رہ جائے گی۔ اپنی ٹیم کی کامیابیوں کی تشہیر کرنے سے نہ صرف آپ کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ مجموعی طور پر آپ کے کارکن بھی فائدے میں رہتے ہیں۔ اپنی ٹیم کی کامیابی کی تشہیر کرنے کے چند طریقے یہ ہیں ٭ اپنے کسی بڑے کے ساتھ ملیں تو اسے یہ بتائیں کہ آپ کی ٹیم نے حال ہی میں کیا کامیابی حاصل کی ہے۔ ٭ اپنی ٹیم کے ان کارکنوں کا ذکر خاص طور پر کیجئے جنہوں نے اس کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ کے بڑے اور آپ کے کارکن اس بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے کہ آپ ساری کامیابی کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں نہیں ڈال رہے۔ ٭ خط یا ای میل کے ذریعے کسی فرد یا ٹیم کے کام کا اعتراف کرتے ہوئے، اس پیغام کی ایک نقل اپنے بڑوں کو ضرور بھجوایئے۔ مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھئے کہ اپنے بڑوں سے ہر ملاقات میں اپنی کامیابی کا ڈھنڈورہ پیٹنا ضروری نہیں۔ اس سے ان پر یہ تاثر پڑے گا کہ آپ کو شیخیاں مارنے کی عادت ہے یا پھر آپ اپنی ٹیم کے بارے میں عدم تحفظ کے احساس کے شکار ہیں۔ کسی بھی لیڈر کے لئے یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوتی ہے۔ مگر بعض غلطیاں اس سے بھی بڑی ہوتی ہیں۔ ذیل میں چند ایسی غلطیاں ملاحظہ کیجئے: ایک لیڈر کسی ٹیم یا ادارے کی سربراہی پر فائز کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس ادارے کو رہنمائی اور سمت فراہم کر سکے۔ تاہم، چند لیڈر غلط فہمی کے تحت اپنی ٹیم کے ساتھ بہت زیادہ دوستانہ روابط استوار کر لیتے ہیں۔ اگرچہ آپس میں خلیقانہ تعلقاتِ کار استوار کرنا ضروری ہے مگر ضرورت سے زیادہ دوستانہ تعلقات کئی اعتبار سے خرابیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ٹیم کے ارکان آپ کو اپنے ہی جیسا سمجھیں گے تو زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ آپ کے فیصلے کو قبول کرنا ان کے لئے دشوار ہو جائے گا۔ ٹیم کے اہداف حاصل کرنے میں کارکنوں کی سرگرمی کم ہو جائے گی اور روزمرہ کے معمولی کام بھی التواء کے شکار ہونے لگیں گے۔ اگر آپ ان کے ’’دوست‘‘ ہیں تو آپ کو متاثر کرنے کے لئے وہ محنت کیوں کریں؟ دوستی اور نامناسب تعلق کار کے درمیان پائی جانے والی لکیر بڑی مبہم سی ہوتی ہے اور ہمیشہ تغیر پذیر رہتی ہے۔ کسی بھی اعتبار سے ضرورت سے زیادہ دوستانہ مزاج اپنانا، ’’فلرٹیشن‘‘ کے زمرے میں بھی داخل کیا جا سکتا ہے۔ کوئی لیڈر یہ بات فراموش کر سکتا ہے کہ اس کی جگہ سربراہی کے منصب پر ہے لیکن یہ یقینی بات ہے کہ ٹیم کے کسی نہ کسی رکن کو یہ بات ضرور یاد رہے گی اور ممکن ہے کہ وہ خاموشی سے اپنے طور پر کوئی بڑا پراجیکٹ مکمل کر ڈالے۔ یہ بات بڑوں کی نگاہ میں لیڈر کی ساکھ خراب کر دے گی۔ یہ بات طے ہے کہ کسی عفریت کے لئے کوئی بھی کام کرنا نہیں چاہتا، مگر ماتحت کسی ایسے فرد کے لئے کام کر کے زیادہ خوش رہیں گے جو حدود متعین کرتا ہے اور ان کا ’’بہترین دوست‘‘ بننے کی کوشش نہیں کرتا۔ ایک لیڈر کے طور پر آپ کے اوصاف میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ آپ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں سے ماورا رہیں۔ کسی بھی بات کو ذاتی طور پر نہ لیں خواہ آپ کے کارکن طنزیہ باتیں کر کے یا بدتمیزانہ رویہ اپنا کر آپ کو اشتعال دلانے کی کوشش ہی کیوں نہ کریں۔ ایک لیڈر کے طور پر تعلقات بنائے رکھنا آپ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کبھی کسی ماتحت کو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ آپ کو غصہ دلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ایک لیڈر کو ان اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے جو وہ اپنی ٹیم کے لئے مقرر کرتا ہے۔ اپنی ٹیم سے زیادہ کام کرنے کے لئے یا کسی خاص معیار کو برقرار رکھنے کے لئے کہنا بے معنی ہوگا، اگر آپ خود بھی زیادہ کام کر کے یا ان معیارات کو برقرار رکھ کر نہیں دکھائیں گے۔ بعض اوقات جو بہترین سبق لیڈر دے سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود کام کو ہاتھ میں لے اور اپنی ٹیم کو کر کے دکھائے کہ وہ ان سے کیسے کام کی توقع رکھتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کو انہیں یہ بتانے کی ضرورت بھی نہ پڑے کہ آپ ان سے بھی ویسی ہی کارکردگی حاصل کرنے کی توقع کر رہے ہیں۔ اکثر مثال خودبخود قابل تقلید بن جاتی ہے۔ اگر کوئی ویٹر آپ کو اچھی سروس فراہم کرے تو تہذیب کا تقاضا ہے کہ آپ اسے اچھی ٹپ سے نوازیں۔ اسی اصول کا اطلاق آپ کی ٹیم کے کئے ہوئے کام پر بھی ہوتا ہے۔ کام کرنے کے مطلوبہ طریقوں کی وضاحت کی جائے اور جب کام ان کے مطابق ہو تو پھر اس کا انعام بھی دیا جائے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کارکن عمدہ نتائج حاصل کرنے کے لئے جان مارتے رہتے ہیں اور بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس کا صلہ نہیں ملے گا۔ ایک دفعہ ماتحت کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اسے صلہ نہیں ملے گا یا یہ کہ آپ انہیں ایک ہی کام پر لگائے رکھ کر ان کے کیریئر کو محدود رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو وہ آپ کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کر لے گا۔ بعض اوقات لیڈر کلیدی کارکنوں کی جگہ ان لوگوں کو لے آتے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ماضی میں کام کیا ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ آپ نے کسی کے ساتھ کام کیا ہے، اس لئے آپ کو پتہ ہے کہ وہ محنت کرے گا اور غالباً ان اہداف کو بھی حاصل کر لے گا جو آپ مقرر کریں گے۔ تاہم، اگر آپ کے ہاتھ میں کسی نئی ٹیم کی سربراہی آئے اور آپ پہلے سے موجود لوگوں کو ہٹا کر اپنے من چاہے لوگ لانے لگیں یا ان لوگوں کے لئے نئے مناصب تشکیل دینے لگیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ پوری ٹیم آپ کے خلاف ہو جائے گی۔ کوئی نیا منصب سنبھالنے پر اگر ممکن ہو تو اپنی سربراہی میں آنے والے گروپ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے کچھ وقت صرف کیجئے۔ ممکن ہے کہ آپ کو ایسا گروپ یا افراد ملیں جو محنت کرتے ہیں اور اپنی کارکردگی کو مزید بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔ بعض لیڈر اپنے گروپ کے ارکان کو حریف سمجھ لینے کی مہلک غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ ایسے لیڈر ہمیشہ اہم معلومات خود تک محدود رکھتے ہیں اور کارکنوں کو وقت گزر جانے پر ہی ان سے آگاہ کرتے ہیں، ان کا خیال ہوتا ہے کہ ایسا کر کے وہ کارکنوں پر اپنی برتری برقرار رکھ سکیں گے۔ اپنی ٹیم میں اپنے کارکنوں کے ساتھ آپ جو رشتہ بناتے ہیں، اس کا ایک حصہ آپ کے کارکن کا یہ احساس ہے کہ وہ آپ کے بڑے کے لئے نہیں بلکہ آپ کے لئے کام کر رہا ہے۔ انہیں آگاہ کیجئے کہ ان کا کام ٹیم کے اہداف حاصل کرنا ہے، ذاتی اہداف حاصل کرنا نہیں۔ آپ کا اپنا کام بھی یہی ہے۔ اور اگر آپ کو محسوس ہو کہ کوئی کارکن اپنا کام بہت اچھے طریقے سے کر رہا ہے اور ترقی کا حقدار ہے تو ترقی حاصل کرنے میں اسے اعانت فراہم کیجئے۔ یوں آپ کے ساتھ آپ کو ایک حقیقی لیڈر سمجھیں گے، وہموں کا مارا ہوا کوئی ڈکٹیٹر نہیں۔ ٹیم کی صلاحیتوں کی نمو کرنے کے لئے نہایت اہم ہے کہ ارکان کی تخلیقی قوت کی نمو کی جاتی رہے۔ وہ پرانی کہاوت سچ ہے کہ ایک کے مقابلے میں دو بہتر ہوتے ہیں، خصوصاً اس وقت جب انہیں تخلیقی انداز میں سوچنے کی آزادی حاصل ہو۔ تخلیقی قوت کسی بھی ادارے کے لئے نہایت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مختلف ارکان کی طرف سے آنے والے نت نئے خیالات سے ٹیم کی تخلیقی دانش متحرک ہو جاتی ہے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے خیالات پر بحث و تمحیص سے بہترین نتائج حاصل ہوتے ہیں جس سے جماعت کو فائدہ ہوتا ہے۔ ’’سٹرٹیجک لیڈر شپ فورم‘‘ کی طرف سے کی جانے والی ایک سٹڈی سے معلوم ہوا کہ سوچنے کے چار مخصوص انداز ہوتے ہیں: جاننے والے: یہ لوگ حقائق سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں اور ڈیٹا کی ترتیب لگانے میں ماہر۔ ایسے لوگ اعداد و شمار اور ٹیکنیکل سسٹم میں عمدہ کارکردگی دکھاتے ہیں۔ مفاہمت کرنے والے: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو الفاظ کا سہارا لئے بغیر دوسروں کی ذات، کام کی نوعیت اور کام کرنے کے بہترین طریقے کے بارے میں جبلی طور پر سمجھ جاتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر ایسے کام میں نہایت عمدہ کارکردگی دکھاتے ہیں جو انہیں خود پسند ہوتا ہے، مگر ایسے لوگوں میں ڈسپلن کی کمی ہوتی ہے اور پروجیکٹ مکمل کرنے میں انہیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سوچنے والے: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی کام کو کرنے کا ایسا منطقی طریقہ ڈھونڈ نکالتے ہیں جو سننے میں بعید از فہم معلوم ہوتا ہے اور پھر یہ دوسروں کو اس پر قائل کرتے ہیں۔ اگر ان لوگوں میں شخصی ڈسپلن خاطر خواہ حد تک موجود ہو تو یہ نئی راہیں نکال سکتے ہیں۔ غور و خوض کرنے والے: اداروں کے زیادہ تر سربراہ غور و خوض کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ روزمرہ کے کاموں کے ساتھ ساتھ یہ درپیش منصوبوںکو بھی منطقی انداز میں سنبھال سکتے ہیں۔ جب آپ کو معلوم ہو جائے کہ آپ کے کارکنوں کے مثبت پہلو کون سے ہیں تو پھر انہیں تخلیقی انداز میں سوچنے کی اجازت دے کر آپ ان کے طرز ہائے فکر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ مختلف انداز میں سوچنے والے افراد کو ایک ہی گروپ میں اکٹھا کر دیں۔ اپنے اپنے منفرد طرزِ فکر کی بدولت یہ لوگ ایک بہترین ٹیم بناتے ہیں۔ ایک لیڈر کی حیثیت سے یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے ماتحت کے طرزِ فکر کو پہچانیں مگر نہایت بہتر ہوگا کہ آپ اپنے طرزِ فکر سے بھی واقف ہوں۔ اگر آپ کو پتہ چلے کہ زیادہ تر لیڈروں کی طرح آپ بھی غور و خوض کرنے والے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ زیادہ تر وقت جاننے والوں اور سوچنے والوں کی تخلیقی صلاحیت سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان مختلف طرزِ فکر کے حامل افراد کو ٹیم کی مجموعی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کیسے کام میں لایا جائے کہ ان کی انفرادیت بھی مجروح نہ ہو؟ بہ الفاظِ دیگر، ان کی تخلیقی قوت کی نمو کیسے کی جائے؟ سب سے پہلے تو آپ کو اپنے کارکنوں کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ قواعد و ضوابط تبدیل ہو رہے ہیں۔ ان کی تجاویز مانگ کر یا ان سے یہ کہہ کر کہ وہ کسی موجودہ کام کو کرنے کے نئے طریقے سوچیں، آپ یہ اعتراف کر لیتے ہیں کہ آپ بھی انسان ہیں، ہر سوال کا جواب آپ کے پاس نہیں، اور آپ مدد کی درخواست کرنے پر آمادہ ہیں۔ زیادہ تر حالات میں اس سے مورال میں اضافہ ہونے کا اضافی فائدہ بھی حاصل ہوگا۔ تخلیقی قوت کی نمو کی جائے تو کارکنوں میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ بہ حیثیت فرد ان کی قدر کی جا رہی ہے۔ اب آپ کو یہ بتانے کے لئے کہ آپ نے درست فیصلہ کیا ہے، وہ پہلے سے بھی زیادہ محنت سے کام کریں گے۔ اپنے ماتحتوں کے ساتھ آپ کے تعلق کو مزید لچک دار اور وسیع بھی ہونا پڑے گا۔ آپ کے کارکنوں کو یہ علم ہونا چاہئے کہ وہ نئی تجاویز لے کر آپ کے پاس آ سکتے ہیں۔ اپنی ٹیم کو تخلیقی انداز میں سوچنے پر آمادہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات نظر میں رکھئے: ایک عمومی سا موضوع رکھ کر اس پر نئی تجاویز حاصل کرنے کے عمل سے آغاز کیجئے۔ مثال کے طور پر، تمام کارکنوں سے رائے مانگئے کہ ان کے خیال میں ٹیم کے کام کو کس طرح مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اپنے کارکنوں سے کہئے کہ وہ ذہن پر زور ڈال کر ہر ہفتے ایک نئی تجویز پیش کریں، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی یا بڑی کیوں نہ ہو۔ ایک لیڈر نے (جس کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا) ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ مجھے اس قابل ہونا چاہئے کہ مہینے میں کم از کم ایک نیا کام ضرور ایسا بتا سکوں جس کی بدولت میری ٹیم کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ اپنے کارکنوں کو اس بات سے باخبر رکھئے کہ ٹیم کو کیا کیا چیلنجز درپیش ہیں۔ ان سے یہ پوچھتے رہئے کہ کسی خاص مسئلے کو حل کرنے کے لئے وہ کیا طریقہ اپنائیں گے۔ اپنے کارکنوں پر یہ بات واضح کر دیجیے کہ کوئی بھی تجویز انوکھی یا غیرمعمولی نہیں۔ بعض اوقات کارکن اپنی تجویز اس لئے آپ کے سامنے پیش نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی بات بہت زیادہ خلافِ معمول اور خلافِ روایت یا احمقانہ ہے۔ انہیں یہ بھی بتایئے کہ غلطیاں کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر تجویز، خواہ وہ سننے میں کتنی عمدہ اور قابل عمل کیوں نہ ہو، خاطر خواہ نتائج بھی برآمد کرے۔ جب بھی کسی کارکن کی نئی تجویز پر عملدرآمد ہو تو ساری ٹیم کو اس کے بارے میں آگاہ کیجئے لیکن انہیں یہ بھی ذہن نشین کرایئے کہ کسی تجویز پر گفتگو کرنے میں اور اس تجویز پر عملدرآمد کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہونا چاہئے کہ لیڈر کے علم میں لائے بغیر اور اس کی اجازت حاصل کئے بغیر کارکن اپنے طور پر کوئی تجویز آزمانے کی کوشش کر بیٹھیں۔ روزمرہ کے تھکا دینے والے کام میں مزاح اور ہنسی کا اضافہ نہایت خوشگوار رہتا ہے۔ جب لوگ مل کر ہنستے ہیں تو ان کے تعلقات میں تکلف کا عنصر قدرے کم ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی معیت میں زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ جائے کار کے ساتھ ہنسی اور خوشی کا تصور وابستہ ہو تو کام خوشگوار اور پُرلطف ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اگرچہ زیادہ تر مواقع پر مزاح ایک اچھی چیز ہے لیکن بعض مزاحیہ باتیں جائے کار کے لئے موزوں نہیں ہوتیں۔ آزمانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جائے کار پر کوئی لطیفہ سنانے سے پہلے سوچئے کہ اگر یہی لطیفہ بچوں کے سامنے سنایا جائے تو کیسا رہے۔ کیا بچوں کے لئے یہ مناسب رہے گا؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماتحت بچے ہوتے ہیں مگر اکثر جو باتیں بچوں کے لئے موزوں نہیں ہوتیں، وہ جائے کار کے لئے بھی موزوں نہیں ہوتیں۔ مندرجہ ذیل موضوعات ایسے ہیں جن سے جائے کار پر پرہیز کیا جانا چاہئے: ٭ جنسی نوعیت کے لطیفے ٭ ایسے لطیفے جو کسی خاص صنف یا جنسی رویئے کے متعلق ہوں۔ ٭ کسی نسل یا ذات پر حملہ کرنے والا مزاح۔ ٭ کسی کے مذہب پر حملہ کرنے والا مزاح۔ ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کو اپنے کارکنوں سے یہی توقع ہونی چاہئے کہ وہ اپنے فرائض انجام دیں اور ہم آہنگ ہو کر کام کریں۔ اگر آپ کو رک کر یہ جملہ دوبارہ پڑھنا پڑے تو غالباً اس کا مطلب یہی ہوگا کہ آپ انتظام و انصرام یا لیڈرشپ کے حوالے سے کچھ نہ کچھ تجربہ رکھتے ہیں۔ کارکنوں کو ہم آہنگ ہو کر کام کرنے پر آمادہ کرنا کہنے میں جتنا آسان ہے، کرنے میں اتنا ہی مشکل ہے۔ اپنی ٹیم کا مزاج خوشگوار رکھنے کا ایک طریقہ مزاح کا استعمال ہے۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کو انفرادی حیثیت میں دیکھیں اور یہ سمجھیں کہ کام کے علاوہ ان کی ایک ذاتی زندگی بھی ہے۔ یہ کام کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اپنے کارکنوں کے لئے گاہے بہ گاہے مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کریں۔ اگر آپ صرف اتنا ہی کر ڈالیں کہ اعلان کر دیں کہ ہر جمعے کی صبح کو سب کو برگر کھلائے جائیں گے تو اس سے بھی بہت فرق پڑے گا۔ اگر آپ کے کارکنوں کو اجازت ہو کہ وہ اپنے کام سے ہٹ کر بھی تھوڑی بہت بات چیت کر سکتے ہیں تو اس سے ہم آہنگی کا احساس پیدا ہوگا اور کام کا ماحول بہتر ہو جائے گا۔ اپنی ٹیم میں ایک منظم انداز میں غیررسمی تعلقات پیدا کرنے کے لئے چند تجاویز حسب ذیل ہیں: ٭ ہفتے میں یا مہینے میں ایک مرتبہ اپنے کارکنوں کو ناشتہ یا دوپہر کا کھانا کھلانے کے لئے باہر لے جایئے۔ ٭ ہر مہینے تھوڑا سا وقت کسی ایسے فرد کے لیے نکالئے جس کی سالگرہ اس مہینے میں آتی ہو۔ ٭ سینئر کارکنوں کو تحریک دیجیے کہ وہ جونیئر کارکنوں میں کسی ایک کو اپنے ساتھ دوپہر کا کھانا کھلانے لے جائیں۔ جونیئر کارکن اکثر خود کو ’’باہر کا آدمی‘‘ سمجھتے ہیں۔ دیگر کارکنوں کے ساتھ دوستی استوار کرنے کا موقع دے کر انہیں ٹیم کا حصہ بننے کا موقع فراہم کیجئے۔ اگرچہ تقاریب وغیرہ اچھی باتیں ہیں لیکن خیال رکھئے کہ ایسی تقاریب باقاعدگی اختیار نہ کرنے پائیں۔ نہایت ضروری ہے کہ آپ کی ٹیم جائے کار کو کام کی جگہ ہی سمجھے، تفریح کا میدان نہیں۔ ایک لیڈر کا سب سے مؤثر ہتھیار دوسروں کو قائل کرنے کی قوت ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں لیڈرشپ نام ہی اس بات کا ہے کہ لوگوں کو ایسا کام کرنے پر آمادہ کیجئے جو وہ عام حالات میں نہ کریں۔ اگرچہ لیڈرشپ اس سے کہیں بڑھ کر ہے، مگر اپنے سٹاف اپنی مرضی کے مطابق چلانا بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ لیڈر کی حیثیت سے اہداف کا تعین آپ کرتے ہیں۔ وہ آپ ہی ہیں جس کے ویژن کو عملی جامہ پہنایا جائے گا، اور لیڈر کی حیثیت سے وہ آپ ہی ہیں جس کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ٹیم کو ان اہداف کو حاصل کرنے اور اس ویژن کو عملی جامہ پہنانے پر آمادہ کریں۔ لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا ایک ایسا کام ہے جسے اکثر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور برا سمجھا جاتا ہے، اور یہ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ تاہم، اگر آپ کسی شخص کو کوئی ایسا کام کرنے پر آمادہ کر لیں جس میں صرف ادارے کا ہی نہیں اس کا اپنا بھی فائدہ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اپنی ٹیم کے کسی رکن کو کسی بات پر قائل یا آمادہ کرنا ہو تو اس کے لئے چند طریقے حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یہ احساس دلایئے کہ کوئی کام یا پروجیکٹ ادارے کے لئے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ بعض اوقات لوگ کسی کام میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ انہیں یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس کام کی مجموعی اہمیت کیا ہے۔ ٭ اگر کوئی کارکن کسی ڈیڈ لائن پر کام کو مکمل نہ کر سکے یا وہ کام کو صحیح طور پر انجام نہ دے رہا ہو تو یوں ظاہر کیجئے جیسے آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کر کیا رہا ہے اور آپ کام کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ خفت سے بچ جائے گا اور اگلی مرتبہ کام کو درست انداز میں مکمل کرنے کا ارادہ کر لے گا۔ ٭ فیصلہ سازی کے عمل میں کارکنوں کو بھی شریک کیجئے مگر غیرمحسوس انداز میں ان کی رہنمائی اسی سمت میں کیجئے جسے اپنانے کا فیصلہ آپ کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، علی چاہتا ہے کہ اپنی ٹیم کے لئے ایک ایسا مینوئل بنایا جائے جس میں کام کرنے کے درست طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہو۔ وہ جانتا ہے کہ بلال یہ کام کرنے کے لئے بہت مناسب رہے گا، مگر بلال کو یہ بات پسند نہیں کہ اسے کوئی کام کرنے کے لئے ’’حکم‘‘ دیا جائے۔ ایک روز علی، بلال سے کہتا ہے کہ وہ ایک قابل تقلید کارکن ہے اور ہر کارکن کو اس کے تجربے سے مستفید ہونا چاہئے۔ ایسے میں بلال ایسا مینوئل لکھنے کی تجویز خود ہی پیش کر دے گا۔ ٭ اپنے کارکن کو احساس دلایئے کہ اگر وہ کسی کام پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا تو اسے انعام میں بونس، تنخواہ میں اضافہ، زیادہ ذمہ داری یا ترقی بھی مل سکتی ہے۔ یاد رکھئے کہ ایک لیڈر کی حیثیت سے اپنے کارکنوں کا اعتماد حاصل کرنا اور اسے برقرار رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ دوسروں کو قائل کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی صلاحیت کو تعمیری انداز میں استعمال کیجئے۔ اس سے کارکنوں اور جماعت دونوں کو فائدہ ہوگا۔ لیڈر کی حیثیت سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مبرا من الخطا ہیں اور اپنی ٹیم کے سارے کام کا ادراک رکھتے ہیں۔ تاہم اپنی ٹیم کے کام سے واقف ہونے اور ٹیم کے ارکان کے لئے دردِ سر بن جانے میں بڑا باریک فرق ہے۔ اگر اس فقرے کا دوسرا حصہ آپ کو جانا پہچانا معلوم ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے کی عادت میں مبتلا ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے کی عادت یا مائیکرو مینجمنٹ ہمیشہ نقصان دہ رہتی ہے۔ یہ ایک ایسا پھندہ ہے جس کی بدولت لیڈر روزمرہ کے معمولی کاموں میں پھنس کر رہ جاتا ہے، یوں سمجھئے کہ آم کھانے کے بجائے وہ پیڑ گننے کے کام میں لگ جاتا ہے۔ لیڈر کو ہونے والے کام کا مجموعی ادراک ہونا چاہئے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے کی عادت میں مبتلا ہیں یا صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں کہ اس عادت سے بچا کیسے جائے تو مندرجہ ذیل باتوں پر نگاہ رکھئے۔ ٭ آپ کسی کارکن کے ذمے کوئی کام لگاتے ہیں۔ ہر شام گھر جانے سے پہلے آپ اس کارکن کے پاس رکتے ہیں اور اس کام کے حوالے سے اس سے لمبے چوڑے سوالات پوچھتے ہیں۔ ٭ آپ مسلسل اپنے کارکنوں کے کام کو چیک کرتے رہتے ہیں کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ وہ اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کریں گے۔ آپ ہمیشہ انہیں یہ بتاتے رہتے ہیں کہ کسی کام کو کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ ٭ آپ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کوئی کارکن کس وقت کام پر آتا ہے اور کب رخصت ہوتا ہے، اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ دوپہر کا کھانا کھانے گیا تو کتنا وقت لگا کر آیا۔ ٭ آپ میٹنگز کے دوران اپنے کارکنوں کی رائے بہت کم پوچھتے ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ کی ٹیم کے کسی فرد کی بدولت کوئی نیا کام کب شروع ہوا تھا؟ ٭ آپ کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے بچوں کی ایک ٹولی کی ذمہ داری تنہا آپ کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ یہ لوگ کون ہیں اور ایسے نالائق آپ کے پلے کیسے پڑ گئے؟ آخر یہ آپ کی طرح کیوں نہیں سوچتے؟ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے والے یقینا جزئیات پر بہت نگاہ رکھتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی لیڈر کے لئے ہونے والے کام کی جزئیات سے واقف ہونا اچھی بات ہے یا بری بات ہے۔ مگر جب کسی لیڈر کی توجہ مجموعی کام سے ہٹ کر جزئیات پر ہی مرکوز ہو جائے تو معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔ تو پھر یہ عادت کیسے تبدیل کی جائے اور اپنی ٹیم کی کارکردگی کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ اپنی یہ عادت بدلنے کے لئے مندرجہ ذیل طریقوں میں سے چند ایک کو آزما کر دیکھئے۔ شروع میں ایسا کرنا مشکل ہوگا لیکن اس عادت سے چھٹکارا پانے کے لئے آہستہ آہستہ خود کو ان جزئیات سے الگ کر لیجئے جن پر آپ اتنی توجہ دیتے چلے آ رہے ہیں۔ یاد رکھئے کہ ہر کام آپ خود نہیں کر سکتے۔ آپ ایک منتظم ہیں، ایک لیڈر ہیں، ٹیم کے عام رکن نہیں ہیں۔ آپ کی توجہ کا مرکز دوسروں میں کام بانٹنا اور ان کا انتظام و انصرام کرنا ہونا چاہئے، چاہے آپ خود ان کاموں میں کتنی ہی مہارت کیوں نہ رکھتے ہوں۔ اگر آپ کو یہ عادت ہو کہ آپ روزانہ اپنے کارکنوں کے کام کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کی فطری عاداتِ کار کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر آپ کویہ سیکھنا ہوگا کہ انہیں ان کے حال پر کیسے چھوڑا جائے۔ اگر آپ ان کے سر پر ضرورت سے زیادہ سوار رہیں تو وہ اپنی فطری صلاحیتوں کو کام میں لانے کے بجائے محض یہ سوچنا شروع کر دیں گے کہ اگر آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے۔ اس سے ان کی اپنی صلاحیتوں کی نشوونما رک جائے گی اور ان کی تخلیقی قوت ماند پڑ جائے گی۔ کام کے دوران غلطیاں تو آپ سے بھی ہوئی ہوں گی۔ ان غلطیوں سے آپ کے کیریئر کو نقصان پہنچنے کے بجائے زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ان سے آپ کو گرانقدر سبق حاصل ہوئے ہوں گے۔ غلطیاں ایسے سبق فراہم کرتی ہیں جو کامیابیوں کے مقابلے میں زیادہ دیر تک یاد رہتے ہیں۔ اپنے کارکنوں کو بھی غلطیاں کرنے کی اجازت دیجیے۔ اس سے آپ کے کارکنوں کو صحیح اور غلط کا شعور حاصل ہوگا اور مستقبل میں ان کی کارکردگی بہتر ہوگی، بالکل ویسے ہی جیسے آپ کی اپنی ہوئی تھی۔ درحقیقت غلطیوں سے ایک لیڈر کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ خود آگے آئے اور ایک ایسے کارکن کو اعانت فراہم کرے جسے اپنا کام کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہو۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر توجہ دینے والے کو جہاں لوگ بار بار غلطیاں نکال کر رعب جمانے والا سمجھتے ہیں، وہاں غلطی کی اصلاح کرنے والے لیڈر کو ایسا معلم سمجھا جاتا ہے جو اس وقت مدد کو آتا ہے جب کارکن کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ مائیکرو مینجمنٹ کرنے والے تمام افراد میں یہ خاصیت مشترک ہوتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہر کام کو دوسروں سے بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ اس سے کارکنوں کے اعتماد نہایت برا اثر پڑتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، اعتماد سازی افراد اور بہ حیثیت مجموعی ٹیم کی نمو اور کامیابی میں نہایت اہم حیثیت رکھتی ہے۔ مائیکرو مینجمنٹ کو ختم کرنے کی کلید یہی ہے کہ اپنے کارکنوں کا اعتماد حاصل کیا جائے اور یہ جانا جائے کہ ان میں کام کیسے بانٹے جائیں یا یہ کہ میکرو مینجمنٹ (macro- management) کیسے کی جائے۔ جب آپ کام بانٹنا شروع کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اب قیادت کے زیادہ اہم فرائض پر توجہ دینے کے لئے آپ کے پاس زیادہ وقت آ گیا ہے مثلاً یہ کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں اپنی جماعت کے لئے راہِ عمل کیسے متعین کی جائے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، انقلاب انگیز لیڈر شپ وہ طریقہ ہے جو کوئی لیڈر اس وقت استعمال کرتا ہے جب اس کی خواہش ہو کہ اس کی ٹیم معمول سے ہٹ کر اور حدود سے ماورا ہو کر کام کرے یا اعلیٰ تر جماعتی اہداف حاصل کر لے۔ انقلاب انگیز لیڈر کے اوصاف میں مندرجہ ذیل کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ان کا ذکر پہلے بھی کیا جا چکا ہے لیکن یہاں دوبارہ دہرائے جا رہے ہیں تاکہ ان کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔ انقلاب انگیز لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے پاس جماعت کے لئے ایک واضح ویژن ہوتا ہے اور جو اس ویژن کو آسانی کے ساتھ اپنے رفقاء کے ذہن نشین کرا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، انقلاب انگیز لیڈر کے لئے یہ جاننا بہت آسان ہوتا ہے کہ افراد کے لئے، اور مجموعی طور پر جماعت کے لئے، سب سے اہم چیز کیا ہے۔ انقلاب انگیز لیڈر کا شعور ترقی یافتہ ہوتا ہے اور وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کس فیصلے کا جماعت پر مثبت اثر پڑے گا۔ ایسا لیڈر زیادہ اعتماد سے کام کر سکتا ہے اور اس کے کارکنان کو اس پر اعتماد بھی زیادہ ہوتا ہے۔ انقلاب انگیز لیڈر اپنے ہر کارکن کو انفرادی سطح پر اس کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے اور اس طرح تمام کارکنوں کا احترام اور وفاداری کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ انقلاب انگیز لیڈر اکثر کارکنوں کو انفرادی سطح پر تحسین سے نوازتا ہے اور اچھے کام پر پوری ٹیم کی کارکردگی کی بھی تعریف کرتا ہے۔ جب کارکنوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ انہوں نے کسی کامیابی میں کیا کردار ادا کیا ہے تو وہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ زیادہ عزم کے ساتھ کرتے ہیں۔ انقلاب انگیز لیڈر میں یہ خصوصی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کارکنوں کو ایسا کام کرنے کی تحریک دے سکتا ہے جس میں وہ اپنی کامیابی کے لئے پُریقین نہ ہوں۔ یہ تحریک تعریفی کلمات اور حوصلہ افزائی کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ کوئی لیڈر خواہ کتنا ہی کرشماتی یا جدت طراز کیوں نہ ہو، ایک پوری جماعت یا محض ایک گروہ کو ہی انقلاب آشنا کرنے کا کام جلد مکمل نہیں ہوتا۔ ایسی تبدیلیوں میں زیادہ تر پہلی ضرورت کام کرنے کے کلچر کو تبدیل کرنے کی ہوتی ہے یعنی لوگ اکتائے ہوئے انداز میں گھڑی کو دیکھ کر کام کرنے اور رسک لینے سے گھبرانے کے بجائے جدت طرازی، تھوڑے بہت رسک اور مسابقت کے جذبے کے ساتھ کام کریں۔ ایک ٹیم کے کام کرنے اور سوچنے کے انداز کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اس سے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ آپ ایک میٹنگ بلائیں اور سب کو ایک ہی بار بتا دیں کہ انہیں اپنے طور طریقوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ پوری جماعت کو بدلنے کے لئے انقلاب انگیز لیڈر کو کام کا آغاز بنیادی اکائیوں سے کرنا ہوتا ہے یعنی وہ افراد جن سے مل کر وہ جماعت تشکیل پاتی ہے۔ آپ کے پاس اپنی ٹیم کے مستقبل کے لئے ایک ویژن ہے اور آپ کے ساتھی اس ویژن سے آگاہ ہیں مگر آپ کا مقصد خواہ کتنا ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہو، متوقع کامیابی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، محض تقریریں کر کے آپ اپنے ساتھیوں کو متحرک نہیں کر پائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک فرد ہمیشہ اس وقت متحرک ہوتا ہے جب اسے خود اپنا فائدہ نظر آ رہا ہو، پورے گروپ کے فائدے کے لئے متحرک ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ انقلاب انگیز لیڈر کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ٹیم کے ارکان کی انفرادی محنت کا تخمینہ لگائے اور یہ پتہ چلانے کی کوشش کرے کہ ان کی ذاتی دلچسپی سے فائدہ اٹھا کر انہیں کس طرح متحرک کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر آپ کے ساتھ دو ہزار افراد کام کر رہے ہیں تو آپ کو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اکیلے اکیلے بات کرنا ہوگی اور پتہ چلانا ہوگا کہ ان کا جوش کیسے بھڑکایا جائے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ آپ ایسے افراد سے ملیں جو اپنی ذات میں پورے گروہ کی نمائندگی کرتے ہوں۔ یہ بھی ہے کہ اگر واقعی آپ کے ساتھ دو ہزار افراد کام کرتے ہیں تو زیادہ امکان یہی ہے کہ ان کو سنبھالنے والے آپ اکیلے نہیں ہوں گے، آپ سے نیچے بھی کوئی منتظم ضرور موجود ہوگا جو خود بھی تحریک کا حاجتمند ہوگا۔ اگر آپ اسے متحرک کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ اپنے تحت کام کرنے والوں کو کسی نہ کسی حد تک متحرک کر پائے گا۔ جب آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ذاتی دلچسپی کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ اپنی ٹیم کو کیسے متحرک کر سکتے ہیں تو پھر انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ ان کے کام کا پوری جماعت پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ اکثر جب کسی فرد کو یہ احساس ہو جائے کہ اس کے کام کی واقعی کوئی اہمیت ہے تو وہ اپنے مقام اور مرتبے کا احترام کرنے لگتا ہے۔ اس احترام کی بدولت افراد نہ صرف ذاتی فائدے کے لئے بلکہ جماعت کے فائدے کے لئے بھی کام کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اپنی ٹیم میں شامل افراد کو سمجھ کر صرف آدھی جنگ جیتی جاتی ہے۔ کامیاب انقلاب انگیز لیڈر کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جماعت کی دیگر ٹیموں کے ساتھ کیسے ربط پیدا کیا جائے اور ان تک اپنا ویژن اور تبدیلی کی ضرورت کا احساس کیسے پہنچایا جائے۔ ایسا کرنے کے لئے لیڈر مندرجہ ذیل تحریکی اقدامات کر سکتا ہے: لیڈر گروہ میں یہ احساس پیدا کر سکتا ہے کہ مثبت تبدیلی لانے کے فوائد کیا کیا ہوں گے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کے ہاں نعامات دینے کا کوئی رسمی نظام موجود ہے تو اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ کے کارکن اس نظام کی پالیسی سے واقف ہوں۔ ارکان پر یہ بھی واضح کیا جا سکتا ہے کہ ان کی کامیابی جماعت کی مجموعی کامیابی میں حصہ ڈالے گی جس کا نتیجہ ان کے لئے فوائد کی صورت میں نکلے گا۔ جماعتی سطح پر تبدیلی لانے کے لئے ایک ضروری قدم یہ ہے کہ اپنی ٹیم میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ یہ تبدیلی اشد ضروری ہے۔ لیڈر یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر جماعتی سطح پر اب تبدیلی نہیں لائے گی تو مستقبل میں اس کا وقت نہیں رہے گا۔ مثال کے طور پر، 1990ء کی دہائی کے وسط میں زیادہ تر کمپنیوں کو ضرورت پیش آئی کہ وہ انٹرنیٹ پر توجہ دیں اور اپنے کسٹمرز کے ساتھ رابطے کے لئے انٹرنیٹ کو بھی استعمال کریں۔ جن کمپنیوں کا میڈیا یا کمیونی کیشنز کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، انہوں نے بھی انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی وضع کر لی ہے۔ جماعتی سطح پر تبدیلی کے لئے، انقلاب انگیز لیڈر کو یہ بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ایک جماعتی تبدیلی کا حصہ بننے پر افراد میں ولولے کا احساس پیدا کریں، مثال کے طور پر، افراد کو یہ بات سمجھائی جائے کہ ان کی کوشش کے نتیجے میں ملکی سطح پر تبدیلی پیدا ہوگی۔ لیڈر اپنے طور پر خواہ کتنا ہی تیار کیوں نہ ہو، اس کا ویژن کتنا عظیم الشان اور اس کا کام کتنا ہی ولولہ انگیز کیوں نہ ہو، مسائل پھر بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیڈر کے کام کا حلقہ خواہ کوئی بھی ہو، اس کا واسطہ پڑتا لوگوں یعنی عوام سے ہی ہے۔ عموماً کسی بھی کام کا سب سے پُرخطر اور ناقابل اعتبار حصہ وہ افراد اور ٹیمیں ہوتی ہیں جو کہ کسی جماعت یا تنظیم میں شامل ہوتی ہیں۔ خود کو الزام مت دیجیے۔ اگر آپ کے منصوبے ہموار انداز میں آگے نہیں بڑھ رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ایک اچھے لیڈر نہیں۔ یاد رکھئے کہ لوگوں پر حتمی طو رپر اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور ان کی کارکردگی ہمیشہ ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہوتی۔ جب آپ کے کارکنوں کو یہ علم ہو جائے کہ ان سے کس بات کی توقع کی جاتی ہے تو اس پیغام کو مزید پختہ کرنے کے لئے اس پر مبنی پوسٹر بنوایئے اور انہیں جائے کار میں لگوا دیجیے۔ یہ کارکنوں کو ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے کہ انہیں کیسا کام کرنا ہے۔ ازحد کوشش کے باوجود، کسی بھی ٹیم یا تنظیم میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ آپ کو یہ سیکھنا ہوگا کہ ان مسائل کو ابتدائی مراحل میں کیسے شناخت کیا جائے۔ جو لیڈر ٹیم میں پیدا ہوتے مسائل کو محسوس کرنے میں ناکام رہتا ہے، وہ نہ صرف جماعتی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے بلکہ اکثر اختیار کا حق بھی کھو بیٹھتا ہے۔ آپ کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ مسئلے کا پھیلائو کہاں تک ہے۔ یہ انفرادی ہے یا انتظامی؟ انفرادی مسائل کا تعلق ایک فرد کی ذات سے ہوتا ہے، مثال کے طور پر کوئی ایسا کارکن جو کام کا کوئی بنیادی تصور سمجھنے میں ناکام رہے۔ اس کے مقابلے میں، انتظامی مسائل میں ایک سے زیادہ افراد ملوث ہوتے ہیں اور یہ اکثر بڑی تیزی سے پھیل جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کسی جماعت میں پھیلنے والی اور مورال پر منفی اثر ڈالنے والی غلط معلومات ہو سکتی ہیں یا یہ کہ کارکنوں کا ایک گروہ جماعتی وسائل کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنے لگے۔ مسائل کے ساتھ چند علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ ذیل میں ایسی علامات کا ایک جائزہ دیا جا رہا ہے جو انفرادی اور انتظامی دونوں طرح کے مسائل میں نظر آ سکتی ہیں: کارکنوں میں ایک منفی رویہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر، ممکن ہے کہ کوئی کارکن سب کے سامنے کہہ دے۔ ’’یہ کام میں کبھی وقت پر ختم نہیں کر پائوں گا۔ یہ میری سمجھ میں ہی نہیں آ رہا۔‘‘ اگر کوئی مسئلہ پیدا ہو رہا ہو تو یقینا ٹیم میں ایک سے زیادہ افراد اس سے واقف ہوں گے۔ غلطی انسان کی فطرت میں شامل ہے، اور یہ بھی اس کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ کسی انسان یا کسی تنظیم کی خامیوں پر گفتگو کرے۔ جب کوئی فرد یا کوئی ٹیم مسائل کی شکار ہو تو ان کی پیداواری صلاحیت عموماً کم ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر مورال گرا ہوا ہو تو کارکنوں کے رویئے منفی ہو جاتے ہیں جن سے کام کا معیار اور مقدار متاثر ہوتے ہیں۔ اگر کارکنوں کو ایسا لگے کہ کوئی مسئلہ ہے تو وہ اکثر اس کی ذمہ داری اپنے لیڈروں پر ڈال دیتے ہیں۔ لیڈر وہ ہوتے ہیں جن کے پاس ویژن ہوتا ہے اور جو جماعتی اہداف کا تعین کرتے ہیں، لہٰذا جب بڑے پیمانے پر مسائل پیدا ہوتے ہیں تو کارکن جماعت کی لیڈر شپ پر اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے بعد کارکن ایسے لیڈر کو چیلنج کرنے لگتے ہیں جسے وہ غیرمؤثر سمجھتے ہیں۔ اپنی ٹیم کے ارکان کے ساتھ بات چیت کے راستے کھلے رکھئے۔ ارکان اکثر لیڈر کے ساتھ رواروی کی بات چیت میں بھی اپنے شکوک، اندیشوں اور پھیلتی ہوئی افواہوں کا تذکرہ کر بیٹھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، منفی رویئے، غیبت اور پیداواری صلاحیت میں کمی کسی مسئلے کی علامات ہوتی ہیں۔ مگر خیال رکھئے کہ علامت بجائے خود کوئی مسئلہ نہیں ہوتی۔ لیڈر کے پاس اتنا وقت ہونا چاہئے کہ وہ اس علامت کے پس پردہ حقیقی مسئلے کو شناخت کرنے کے لئے تیار رہے۔ علامت کا علاج مت کیجئے۔ اگر آپ کو پیداوار یا مورال میں کوئی کمی نظر آئے تو کچھ وقت لگا کر پتہ لگایئے کہ اس کی حقیقی وجہ کیا ہے۔ اگر آپ شارٹ کٹ اپناتے ہوئے صرف علامت کا ہی علاج کریں گے تو مسئلہ پھر سے پیدا ہو جائے گا۔ یاد رکھئے کہ جائے کار کے مسائل تعداد میں ان گنت اور نوعیت میں رنگارنگ ہوتے ہیں لہٰذا آپ کو ان کا تخمینہ لگانے اور ان سے نمٹنے کا کام انفرادی سطح پر کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، جس بات سے کوئی ایک کارکن تحریک پاتا ہے، اس کا اثر کسی دوسرے کارکن پر بالکل الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے چند باتیں درج کی جا رہی ہیں: اگر آپ کی ٹیم میں منفی رویئے اور گفتگو نظر آ رہی ہے تو پہلے پتہ لگایئے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کے بعد مسئلے کا تجزیہ کیجئے اور رویوں کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی مثبت نکتہ تلاش کیجئے۔ مثال کے طور پر، اگر جماعت کسی سطح پر شکست سے دوچار ہو رہی ہے تو ایسے میں اپنی ٹیم کے کام کے مثبت پہلوئوں کی نشاندہی کیجئے اور اس بات پر زور دیجیے کہ چند معمولی تبدیلیاں کر کے اگلی مرتبہ کتنی آسانی سے فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی تنظیم میں غیبت ایک بہت بڑا مسئلہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ مورال پر برا اثر ڈالتی ہے۔ تاہم، غیبت محض اس بات کی ایک علامت ہو سکتی ہے کہ کارکنوں سمجھ بیٹھے ہیں کہ لیڈر شپ کسی خفیہ کارروائی میں مصروف ہے اور انہیں اعتماد میں نہیں لے رہی۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اپنے تحت کام کرنے والے کارکنوں کے سامنے حساس معلومات یا حکمت عملیاں افشا کئے بغیر باقی سب باتیں ان کے علم میں لے آیئے۔ انہیں یہ علم ہونا چاہئے کہ آپ ان سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھے ہوئے۔ پیداوار میں کمی اکثر اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ آپ کی ٹیم طریقہ کار کے حوالے سے غیریقینی کیفیت کی شکار ہے یا یہ شعور نہیں رکھتی کہ جماعتی اہداف کیا ہیں اور ان کا کام ان اہداف کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ پہلے تو انہیں اس بات کا احساس دلایئے کہ ان کی محنت، تخلیقی قوت اور بھروسہ مندی جماعت کے لئے اہمیت رکھتے ہیں اور جماعت کے بڑوں کی نظر میں ہیں۔ اس کے بعد ہدف کو چھوٹے چھوٹے، آسان مراحل میں تقسیم کرنے کی کوشش کیجئے۔ اس طرح کارکنوں میں تکمیل کار پر اطمینان کا احساس پیدا ہوگا اور وہ اس رفتار کو بھی پکڑ لیں گے جس پر کہ کام کرنے کی انہیں ضرورت ہے۔ اگر کارکن قنوطیت کے شکار ہیں اور احکامات پر درست طرح سے عمل نہیں کر رہے تو ان کی عارضی خواہشات اور مطالبات کے سامنے ہتھیار مت ڈالئے۔ ہر ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کا لیڈر مضبوط ہو، خواہ اس وقت وہ اس کی مضبوطی کو پسند نہ کر رہی ہو۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ تمام مسائل قابل حل نہیں ہوتے۔ اگر کوئی کارکن مسلسل مسائل پیدا کر رہا ہو اور آپ کی بھرپور کوشش کے باوجود کوئی بہتری رونما نہ ہو رہی ہو تو شاید بہتر یہی ہوگا کہ آپ اسے خیرباد کہہ دیں۔ لیڈر کو وقتاً وقتاً ایسی کارروائی کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے تاکہ جماعت کی صحت اور پیداواری صلاحیت برقرار رہے۔ مسائل کے حل کرنے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آپ اس حوالے سے تفصیلی نوٹس بنا کے رکھیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ ہر کارکن کے حوالے سے ایک فائل بنائیں اور جب کبھی بھی وہ کارکن کسی مسئلے کو حل کرنے یا اسے پیدا کرنے میں ملوث ہو تو فائل میں اس کا نوٹ شامل کریں۔ اس طرح آپ کے پاس ہر کارکن کے رویئے کا ایک ٹریک ریکارڈ بن جائے گا جو بوقت ضرورت کام میں لایا جا سکے گا۔ تعلیم دینے اور رول ماڈل بننے کے علاوہ، یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ بعض کارکنوں کے لئے لیڈر ایک سرپرست کا کردار ادا کرے۔ لیڈر کو مسلسل ایسے کارکنوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے جو ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں یا جنہیں ترقی ملنی چاہئے۔ کبھی اس وہم میں مت پھنسئے کہ کوئی اچھا کارکن کسی روز آپ سے آگے نکل جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بات اس کے الٹ ہوتی ہے: اچھے کارکنوں کو سامنے لا کر آپ دنیا کی نظر میں ایک سچے اور بہتر لیڈر ہونے کا مقام حاصل کرتے ہیں۔ ایسے کارکن کو پہچاننا کوئی مشکل کام نہیں جس کی سرپرستی کی جانی چاہئے۔ آپ کو ایک ایسے کارکن کی تلاش ہے جو مسلسل دوسروں سے بڑھ کر کارکردگی دکھاتا ہے، تخلیقی سوچ رکھتا ہے اور نئی تجاویز پیش کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر، علی اوسط درجے کی ایک کمپنی میں ایک بڑے یونٹ کا سربراہ ہے۔ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر بیس سے زائد ملازموں کا ذمہ دار ہے۔ اس کا یونٹ اپنے اعلیٰ معیار کے حوالے سے جانا جاتا ہے، جس کا کریڈٹ وہ محنتی ملازمین کے ایک گروہ کو دیتا ہے جو ٹیم کے طور پر کام کر رہا ہے۔ تاہم، کچھ عرصہ سے وہ دیکھ رہا ہے کہ ان میں سے ایک ملازم، بکر، دوسروں سے آگے نکل گیا ہے۔ بکر نئی اختراعات کرتا ہے، شکایت کئے بغیر تا دیر کام کرتا رہتا ہے اور خندہ پیشانی کے ساتھ دیگر ملازمین کی اعانت بھی کرتا ہے جو اکثر اس کے پاس مدد کی درخواست لے کر آتے ہیں۔ علی کو یقین ہو جاتا ہے کہ اگر بکر کی سرپرستی کی جائے تو نتیجہ اچھا نکلے گا۔ کسی بھی ترقی پذیر کارکن کے لئے ایک سرپرست نہایت گرانقدر اعانت فراہم کر سکتا ہے۔ پرانے وقتوں کی استادی شاگردی کی طرح، کوئی تجربہ کار، کامیاب لیڈر اپنی سرپرستی میں آنے والے کارکن کو نہایت اہم ’’آن دا جاب‘‘ علم فراہم کر سکتا ہے۔ ایک اچھا سرپرست، اپنے شاگرد کے لئے مندرجہ ذیل کردار ادا کرتا ہے: سرپرست کو شاگرد کے ساتھ گہرے رابطے میں رہنا چاہئے تاکہ وہ روزمرہ کے کاموں میں پائی جانے والی باریکیوں کے بارے میں اسے آگاہ کر سکے۔ یہ مسلسل مشورے شاگرد کو ایسا علم اور تجربہ فراہم کرتے ہیں جسے کسی اور صورت میں حاصل کرنے کے لئے اسے سعی و خطا کے عمل سے گزرنا پڑتا۔ سرپرست، ہمیشہ اپنے شاگرد کے لئے نیا اور ہیجان انگیز کام ڈھونڈتا رہتا ہے۔ ایسے چیلنج شاگرد کو نئی مہارتیں حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ جب آپ کسی کے سرپرست کا کردار ادا کرنے لگیں، تو یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اسے مسلسل فیڈ بیک فراہم کرتے رہیں۔ سرپرست کو اپنے شاگرد کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اس کی ناکامیوں کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ کوشش کیجئے کہ وہ ان ناکامیوں سے سبق حاصل کرے اور دل گرفتہ نہ ہو۔ ایک تیزرفتار اور مسابقت آمیز ماحول میں، سرپرست شاگرد کے لئے ایک ڈھال کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے ایسے اعلیٰ حکام یا صورتِ حالات سے محفوظ رکھ سکتا ہے جن سے واسطہ اس کے کام کے لئے نامناسب ہو۔ ایک سرپرست کی حیثیت سے آپ کا یہ بھی فرض ہے کہ آپ اپنے شاگرد کی اچھی خصوصیات کی تشہیر کرنے میں اعانت فراہم کریں۔ اپنے ساتھیوں اور حکام کے علم میں یہ بات لایئے کہ آپ کو اپنے شاگرد پر کتنا اعتماد ہے اور آپ کو اس کے مستقبل سے کیسی درخشاں امیدیں وابستہ ہیں۔ اس سے آپ کے شاگرد کو دوسروں کا احترام حاصل ہوگا اور اس کی ترقی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ٭٭٭

لیڈرشپ کے اصول

[ترمیم]

گذشتہ باب میں ہم نے ایک لیڈر کے اوصاف پر مختصر سی بحث کی۔ اب اس باب میں ہم دیکھیں گے کہ ان اوصاف کی روشنی میں لیڈرشپ کے لئے کیا اصول مرتب کئے جا سکتے ہیں۔ لیڈرشپ کے اصول ایک لیڈر کے قول و فعل کے لئے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اگر آپ کبھی کسی مشکل صورتِ حال میں پھنس جائیں اور سمجھ نہ پا رہے ہوں کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے تو قیادت کے مندرجہ ذیل اصولوں سے مدد لیجئے۔ درست سمت کا تعین کرنے میں یہ آپ کے معاون ہوں گے۔ ان اصولوں پر پوری طرح عمل کرنے سے آپ ایک اچھا لیڈر بننے کی راہ پر کامیابی سے گامزن ہو سکیں گے۔ نصب العین کا تعین کسی واضح نصب العین کا تعین کئے بغیر آپ کسی واضح مقام پر نہیں پہنچ سکتے۔ اس ضمن میں آپ کی سوچ بالکل واضح ہونی چاہئے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اور آگے چل کر آپ کو کیا کرنا ہے۔ اس اصول کا اطلاق آپ کی جماعت پر بھی ہوتا ہے۔ آپ کے پاس طویل مدتی جماعتی مقاصد ہونے چاہئیں اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک صریح منصوبہ بھی ہونا چاہئے۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: ٭ دیانتداری سے اپنے ذاتی اور جماعتی مقاصد کا تجزیہ کیجئے۔ انہیں لکھ کر رکھئے۔ ٭ اپنے مقاصد کو ایک ٹائم ٹیبل کے تحت منضبط کیجئے۔ اس طرح آپ عمل کرنے پر مجبور ہوں گے اور خود اپنے سامنے جواب دہ بھی ٹھہریں گے۔ ٭ اپنے ہر روز کے مقاصد کی فہرست بنایئے اور بعد میں پوری دیانتداری سے خود سے پوچھئے کہ آج کے دن میں آپ نے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کیا کیا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ایک لیڈر کے پاس ایک واضح نصب العین یا احساسِ حقیقت موجود ہے، تو یہ کہنے سے ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لیڈر جبلی طور پر اشیاء کے افعال اور وقوع کے طریق کار سے واقف ہے۔ جبلت یا فطرتِ حیوانی کے متعلق فرانسیسی لیڈر ڈیگال لکھتے ہیں: ’’(جبلت) لیڈر کو کسی معاملے کی گہرائی میں اترنے کے قابل بناتی ہے۔‘‘ عظیم قیادت کو عظیم نصب العین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسا نصب العین جو لیڈر کو کام کرنے کی تحریک دے اور اسے پوری قوم کو تحریک دینے کے قابل بنائے۔ لوگوں ایسے لیڈروں سے محبت بھی کرتے ہیں اور نفرت بھی، ان کے متعلق کوئی معتدل رویہ اپنانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ایک لیڈر کے لئے صرف اچھائی سے واقف ہونا کافی نہیں۔ اسے اچھائی پر عمل کرنے کے قابل بھی ہونا چاہئے۔ درست فیصلے کرنے کی قوت سے عاری اور نصب العین سے محروم کوئی فرد کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ ایک عظیم قائد کو بصیرت اور درست مقاصد حاصل کرنے کی اہلیت، دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مینیجر آج اور آنے والے کل کے متعلق سوچتا ہے۔ ایک لیڈر کو آنے والے پرسوں کے متعلق بھی سوچنا چاہئے۔ مینیجر ایک عمل کی نمائندگی کرتا ہے، لیڈر تاریخ کے رخ کی نمائندگی کرتا ہے۔ سابق صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ بل کلنٹن اپنی کتاب ’’امید اور تاریخ کے درمیان‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’تاریخ ہمیں بہ حیثیت ایک فرد اور بہ حیثیت ایک قوم کے آزماتی ہے، وہ ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی امیدوں اور اپنے اندیشوں، اور جو ہونا چاہئے اور جوہے اس کی قبولیت، میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں… میں جانتا تھا کہ اگر مجھے 21 ویں صدی میں امریکہ کی حیثیت کے متعلق اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دینا ہے تو ہمیں گذشتہ کل کی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا اور مستقبل کے لئے ایک نئے اور دلیرانہ راستے پر چلنا ہوگا، ایک ایسی حکمت عملی کے ساتھ جس کی جڑیں بنیادی امریکی اقدار میں پوشیدہ ہوں، اس امر کو یقینی بناتے ہوئے کہ تمام شہریوں کو اپنی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنانے کے مواقع میسر ہوں، اس توقع کے ساتھ کہ ہر شہری ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی ذمہ داری میں حصہ بٹائے گا، اور بہ حیثیت ایک قوم اپنے آپ کو ایک مقام تک لے جانے کے لئے ہم سب مل کر کام کریں گے۔ ان تین اقدار نے ہماری قوم کے کردار کی تشکیل کی ہے اور ایک قوم کی حیثیت سے ہماری کامیابی اور دنیا میں ہماری سیادت کو ممکن بنایا ہے۔ یہ اقدار امریکہ کا بنیادی معاہدہ ہیں۔‘‘ نصب العین کی تشریح فن تقریر سے آشنائی حاصل کیجئے تاکہ آپ اپنے مقاصد اور منصوبوں کو فصاحت اور وضاحت سے بیان کر سکیں۔ دوسروں کو بتایئے کہ آپ کی جماعت کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس سے انہیں کیا فائدہ ہوگا۔ اگر آپ اپنے مقاصد کے متعلق دوسروں میں جوش و ولولہ پیدا کر سکیں، تو غالب امکان ہے کہ آپ ان کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ اس سے آپ کی جماعت کو تقویت ملے گی۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: ٭ تقریر کرنے کی مشق کیجئے۔ اپنے دوستوں یا رفقائے کار سے درخواست کیجئے کہ وہ آپ کے زورِ بیان کے متعلق دیانتدارانہ اور تعمیری رائے دیں۔ ٭ فن تحریر میں مہارت حاصل کیجئے تاکہ آپ کے لکھے ہوئے خطوط پڑھنے اور سمجھنے میں آسان ہوں۔ اپنے نصب العین کو بیان کرنا بے حد ضروری ہے۔ آپ کے تصورات و نظریات کو اگر مناسب انداز میں بیان نہ کیا جائے تو ان کا پھیلانا اور ان کے لئے حمایت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب اور عقائد اسی وقت مقبولِ عام ہوئے جب انہیں عمدہ انداز میں عوام کے سامنے بیان کیا گیا۔ دنیا کے بہت سے بڑے لیڈر، جو بڑے خطیب بھی تھے، اس مقام تک بتدریج سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے بعد پہنچے۔ چرچل، اپنے کیریئر کی ابتداء میں اپنی تقریروں کو لکھ کر زبانی یاد کر لیتا، اس کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی مشق کیا کرتا، مختلف انداز بنا بنا کر دیکھتا اور بعض اوقات اپنے ہونٹوں کو مختلف انداز میں بنا بگاڑ کے ان سے پیدا ہونے والے تاثر کا مشاہدہ کرتا۔ سابق صدرِ امریکہ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’1952ء کے ری پبلکن کنونشن میں پہلی دفعہ میری ملاقات چرچل کے بیٹے رینڈولف سے ہوئی اور میں نے اسے بتایا کہ میں اس کے والد کی شاندار فی البدیہہ تقریروں سے کتنا متاثر ہوں۔ اس نے ہنس کر کہا۔ ’’شاندار ہونی ہی چاہئے تھیں۔ انہوں نے ان تقریروں کو لکھنے اور یاد کرنے پر اپنی عمر کا بہترین حصہ صرف کیا تھا۔‘‘ یہ بھی یاد رکھئے کہ جن کے پاس قوت و اختیار کا اعلیٰ ترین منصب ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ان کے پاس سب سے زیادہ تجربہ، سب سے بہتر ذہانت، اعلیٰ دوراندیشی اور قابل اعتماد فطری تحریک بھی ہو۔ نہرو اور شاستری کی وفات کے بعد، بھارت کے وزیراعظم کا انتخاب کانگریس کے لئے ایک بڑے مسئلے کی حیثیت رکھتا تھا۔ کانگریس کے صدر کامراج کو اس کے لئے ایک بہترین چوائس سمجھا جا رہا تھا۔ کامراج کو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بننے کا مشورہ دیا گیا لیکن انہوں نے خود اپنے حق امیدواری کو منسوخ کر دیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی تعلیم حاصل کی تھی، اپنے طور پر کی تھی اور اپنی مادری زبان تانت کے علاوہ کوئی دوسری زبان انہیں نہ آتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ بھارت جیسے کثیر اللسانی ملک میں، جہاں اکثریت ہندی بولتی یا سمجھتی ہے، ایک تانت وزیراعظم کو عوام سے مخاطب ہونے میں دشواری پیش آئے گی۔ لہٰذا انہوں نے اپنے طور پر اندرا گاندھی کو امیدواری کے لئے منتخب کر لیا۔ ان کا نکتہ نظر تھا کہ صرف اندرا گاندھی ہی جماعت کے اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کے لئے ایک مضبوط حکومت قائم کر سکتی ہیں۔ اندرا گاندھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر معروف تھیں، ان کے مخالفین نہ ہونے کے برابر تھے اور انہیں ایک ’’بھارتیہ‘‘ علامت کے طور پر جانا جاتا تھا۔وہ انگریزی اور ہندی بول سکتی تھیں اور انہیں کسی مخصوص ذات، علاقے، مذہب یا فرقے سے وابستہ خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ وہ مسلمانوں، ہریجنوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ ساتھ غریبوں میں بھی یکساں طور پر مقبول تھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ نہرو خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ تعلقات بناناضروری ہے لوگوں سے متعارف ہونا اور خود کو متعارف کرانا سیکھئے۔ ضروری نہیں کہ آپ تعلقات کا ایک وسیع حلقہ ورثے میں لے کر آئیں لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے، اپنی جان پہچان کے حلقے کو وسعت دیں۔ ایولین میک فیل نے امریکہ کی ری پبلکن نیشنل کمیٹی کی شریک چیئرمین کی حیثیت سے لیڈرشپ انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے نوجوان سیاستدان جو سیاسی تحاریک میں لیڈر کی حیثیت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں چاہئے کہ اپنے علاقوں میں مختلف ذرائع سے اپنی پہچان بنائیں تاکہ بعد ازاں جب وہ منصب اقتدار کے حصول کی کوشش کریں تو ان کے پاس عوامی حمایت کی ایک بنیاد موجود ہو۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: ٭ ہم خیال لوگوں کے ساتھ ذاتی اور جماعتی سطح پر تعلقات پیدا کیجئے۔ ٭ دوسروں کو جاننے اوران کی مدد کرنے کی دیانتدارانہ کوشش کیجئے۔ ٭ مختلف کلبوں کی رکنیت حاصل کر کے دوسروں کی خدمت کیجئے۔ ٭ اپنے تعلقات کی ایک منضبط فہرست تیار کیجئے اور خط و کتابت اور ملاقاتوں کے ذریعے انہیں مضبوط بنایئے۔ ذمہ داری لینا بھی ضروری ہے جب کسی کام کی انجام دہی کی ضرورت ہو تو اسے کرنے کے لئے ہدایات کا انتظار مت کیجئے بلکہ کر گزریئے۔ آپ کا گروپ جو کچھ کرتا ہے اور جو کچھ نہیں کرتا، اس کی آخری اور بنیادی ذمہ داری آپ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ بہ حیثیت ایک لیڈر، آپ اختیارات تفویض کر سکتے ہیں لیکن ذمہ داریاں کبھی تفویض نہیں کی جا سکتیں۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: ٭ اپنے سے ایک درجہ اوپر آنے والے نگرانوں کے فرائض سے آشنائی حاصل کیجئے اور ان ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لئے خود کو تیار کیجئے۔ ٭ مزید ذمہ داریاں حاصل کرنے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔ ٭ ہر کام، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، بہتر سے بہتر انداز میں انجام دیجیے۔ اس طرح آپ کو زیادہ اہم کام کرنے کے مزید مواقع میسر آئیں گے۔ ٭ کسی ماتحت کی ناکامی پر کوئی ایکشن لینے سے پہلے معاملے کی اچھی طرح چھان پھٹک کیجئے۔ اچھی طرح اطمینان کر لیجئے کہ یہ ظاہری ناکامی آپ کی اپنی کسی غلطی کا نتیجہ نہیں ہے۔ ممکن ہو تو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو ان کی مشکلات سے نجات دلایئے اور اگر ضرورت پڑے تو ان کی جگہ دوسرے لوگ لے آیئے۔ ٭ کسی طرح کی ہدایات کی عدم موجودی میں، خود پہل کرتے ہوئے، ایسے متوقع اقدامات کیجئے جن کے کرنے کی ہدایت آپ کو اپنے سپروائزر کی طرف سے مل سکتی ہے۔ جب طارق بن زیاد کو اندلس کی مہم کا سالار بنا کر بھیجا گیا تو اس وقت موسیٰ بن نصیر مسلمان فوج کا سالارِ اعلیٰ تھا۔ طارق بن زیاد کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ساحل سمندر میں ایک مخصوص مقام پر (جسے بعد ازاں جبرالٹر یا جبل الطارق کے نام سے موسوم کیا گیا) پہنچ کر اپنے سالارِ اعلیٰ کے احکامات کا انتظار کرے۔ جب طارق بن زیادہ وہاں پہنچا تو اسے اطلاع ملی کہ اس وقت کا ماحول براہِ راست حملے کے لئے سازگار ہے اور مزید فوج، جو کہ سالارِ اعلیٰ کی قیادت میں وہاں پہنچنے والی تھی، کی آمد کا انتظار کئے بغیر حملہ کیا جا سکتا ہے۔ طارق بن زیاد نے ایک حیران کن تاریخی اقدام کرتے ہوئے اپنی کشتیاں جلا دیں، فوج کے سامنے ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور پیش قدمی کرتے ہوئے اندلس فتح کر لیا۔ جیسا کہ تاریخ کا کہنا ہے، اگر طارق بن زیاد فوج کی آمد کا انتظار کرتا، اور اس دورانئے میں یورپ کے حکمران اور بادشاہ، اندلس کے شاہ راڈرک کی امداد کے لئے اپنی فوجیں بھیجنا شروع کر دیتے تو شاید اندلس کبھی فتح نہ ہو پاتا۔ نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’خیال کی وقعت ثابت کرنے کے لئے اسے عمل کا روپ دینا ضروری ہے۔ عمل، سوچ کا نکتہ انجام ہوتا ہے۔‘‘ ٹیم ورک کی اہمیت سمجھئے اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ کے رفقائے کار نہ صرف اپنی ذاتی صلاحیتوں پر بلکہ بحیثیت ایک گروپ اپنی اجتماعی صلاحیتوں پر بھی اعتماد رکھتے ہوں۔ سب ارکان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی انفرادی کارکردگی، سب کی اجتماعی کارکردگی پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ ٹیم سپرٹ موجود ہو تو مشکل کام بھی آسان ہو جاتے ہیں۔ ٹیم ورک کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے: ٭ تفریحی سرگرمیوں میں ایک گروپ کے طور پر شریک ہونے کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ ٭ گروپ کی کسی ناکامی پر کسی ایک فرد کو کھلے بندوں موردِ الزام مت ٹھہرایئے اور نہ ہی گروپ کی کامیابی پر کسی ایک فرد کی تعریف و توصیف کیجئے۔ ٭ جب بھی ممکن ہو تو رفقائے کار کو ایک دوسرے کی تربیت کرنے کا موقع دیجیے۔ اس طرح ان میں ایک دوسرے سے تعاون اور معاونت کرنے کا احساس تقویت پاتا ہے۔ ٭ اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہونے کے بعد دوسروں کی معاونت کرنے میں کارکنان کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ ٭ جب بھی موقع ملے، بہ حیثیت مجموعی پورے گروپ کی کارکردگی کی تعریف کیجئے۔ دوسروں کو ذمہ داری لینا سکھایئے جب آپ کے ماتحت کسی کام کو اچھے طریقے سے کرنے میں مہارت حاصل کر لیں اور ذہنی طور پر اسے کرنے پر آمادہ بھی ہوں تو انہیں اپنے طور پر یہ کام نپٹانے دیجیے۔ یہ نکتہ اچھی طرح ان کے ذہن نشین کرا دیجیے کہ کسی کام کو کرنے کا اختیار قبول کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس کام کو درست انداز میں انجام دینے کی ذمہ داری بھی قبول کرنا ہوگی۔ ماتحتوں کو مختلف ذمہ داریاں، فرائض اور اختیارات تفویض کرنے سے ان میں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے پہل کاری اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے جذبہ کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ یاد رکھئے کہ کسی کو اتنی ہی ذمہ داری دی جانی چاہئے جتنی کہ اس میں قوت اور اہلیت ہے، اور یہ بھی کہ ہم میں سے کوئی بھی کامل و اکمل نہیں ہوتا۔ کسی کی ایک غلطی اس کی ذات میں تعمیری تبدیلیاں پیدا کرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: ٭ اپنے ماتحتوں کو بتایئے کہ انہیں کیا کرنا ہے، یہ نہیں کہ کیسے کرنا ہے۔ ان کے کام کے اچھے یا برے نتائج کے لئے انہیں ذمہ دار ٹھہرایئے۔ ٭ اپنے ماتحتوں کو ایسے کام کرنے کے مواقع اکثر و بیشتر فراہم کیجئے جنہیں عموماً ان سے برتر عہدوں پر فائز افراد انجام دیتے ہیں۔ ٭ اپنے ماتحتوں کی کامیابیوں کو تسلیم کرنے میں تاخیر کبھی نہ کیجئے۔ ٭ ماتحتوں کے فیصلوں اور آراء میں تصحیح کرنے سے ان کی پہل کاری اور دوبارہ کوشش کرنے کے جذبے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ ٭ اگر ماتحت آپ سے مدد کے لئے درخواست کریں تو کبھی انکار مت کیجئے۔ ٭ اپنے ماتحتوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دیجیے کہ ان کی دیانتدارانہ غلطیوں پر انہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ ٭ اگر ضرورت کے وقت کوئی بری خبر فوراً آپ تک پہنچا دی جائے تو اس کے لئے اپنے ماتحت کو توصیفی کلمات سے نوازیئے۔ ٭ اس بات پر زور دیجیے کہ آپ کے ماتحت آپ کے براہِ راست سوالوں کے ہمیشہ براہِ راست جواب دیں۔ ٭ ذمہ داری ہنسی خوشی قبول کیجئے اور ماتحتوں کو بھی ایسا ہی کرنے کی ہدایت کیجئے۔ مثال بنئے بہ حیثیت ایک لیڈر آپ کی سب سے اہم ذمہ داری اپنے ماتحتوں کے لئے ایک قابل تقلید مثال قائم کرنا ہے۔ اگر آپ اپنے کام، اپنے اطوار، اپنی وضع قطع اور اپنے رویئے میں اعلیٰ معیارات قائم کریں گے تو بدلے میں آپ کو اپنے ماتحتوں سے بھی اس کی توقع کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اگر آپ دوسروں سے کوئی کام کروانا چاہتے ہیں تو خود بھی اس کام کو اسی اعلیٰ معیار کے مطابق کرنے کے لئے پوری طرح آمادہ و تیار رہئے جس کی توقع آپ دوسروں سے کرتے ہیں۔ یہ غالباً لیڈرشپ کا طاقتور ترین حربہ ہے۔ ایک اچھی مثال قائم کرنے کے لئے آپ کو چاہئے کہ: ٭ اپنے ماتحتوں کو باور کرایئے کہ جو کام کرنے کے لئے آپ انہیں کہتے ہیں، انہیں کرنے کے لئے خود بھی تیار ہیں۔ ٭ اپنی ظاہری وضع قطع صاف ستھری اور قابل قبول رکھئے۔ ٭ اپنی سوچ اور رویئے مثبت رکھئے۔ ٭ اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ کی ذاتی عادات ایسی نہ ہوں کہ دوسرے ان پر نکتہ چینی کر سکیں۔ ٭ خود بھی پہل کاری سے کام لیجئے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیجیے۔ ٭ کسی بھی ماتحت کو دوسروں سے پسندیدہ قرار دینے سے احتراز کیجئے۔ فتح فلسطین کے موقع پر، دوسرے خلیفہ راشد، حضرت عمرؓ کو یروشلم کے باسیوں اور افواج کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ اگر امیرالمومنینؓ خود فلسطین تشریف لائیں تو وہ لڑے بغیر شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیں گے۔ خلیفتہ المسلمینؓ نے اپنے غلام کے ساتھ فلسطین کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ ان کے پاس صرف ایک اونٹ تھا جس پر دونوں باری باری سوار ہوتے تھے۔ جس وقت وہ شہر کے دروازے کے سامنے پہنچے، اس وقت غلام کی باری سوار ہونے کی اور حضرت عمرؓ کی باری اونٹ کی مہار پکڑ کر چلنے کی تھی۔ غلام نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی کہ ہم شہر پہنچنے والے ہیں، اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ اونٹ پر سوار ہو جائیں لیکن حضرت عمرؓ نے ایک تاریخی مثال قائم کرتے ہوئے اونٹ پر سوار ہونے سے انکار کر دیا اور اس کی مہار پکڑے شہر تک پہنچے جہاں بغیر لڑے شہر کی چابیاں ان کے حوالے کر دی گئیں۔ دوسروں پر اعتماد کیجئے، چاہے تھوڑا سا ہی سہی لوگ فطرتاً متجسس اور اچھی بری ہر دو طرح کی افواہیں پھیلانے کے خوگر ہوتے ہیں۔ مورال کو بڑھانے اور غلط افواہوں کے سدباب کے لئے اپنے رفقائے کار کو معاملات کی پیش رفت اور صورتِ حال سے باخبر رکھئے۔ ان کے سامنے صورتِ حال کی وضاحت کرنے کے عمل میں آپ انہیں ٹیم کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ باخبر لوگ زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ براہِ راست نگرانی کی عدم موجودی میں زیادہ کام انجام دینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اپنے رفقائے کار کو کم از کم اس حد تک ضرور باخبر رکھئے کہ وہ اپنے فرائض کو دانشمندی سے انجام دے سکیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کوئی جھجک ان کے مانع نہ ہو۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ کو چاہئے کہ: ٭ اپنے رفقاء کو بتایئے کہ کسی کام کا کرنا کیوںضروری ہے اور آپ اسے کس طرح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ٭ اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ کے براہِ راست ماتحت خود اپنے ماتحتوں تک بھی آپ کی فراہم کردہ ضروری اطلاعات پہنچاتے رہیں۔ ٭ غلط افواہوں سے ہوشیار رہئے اور کسی افواہ کے پھیلنے کی صورت میں رفقائے کار کو حقیقت سے باخبر کیجئے۔ ٭ انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں اپنے رفقائے کار کی کھلے بندوں تعریف کر کے ان کے مورال کو بڑھاوا دیجیے۔ بات سمجھانا سیکھئے اس سے پہلے کہ آپ دوسروں سے کسی طرح کی کارکردگی کی توقعات وابستہ کریں، ان پر اپنی توقعات واضح کریں۔ ان سے اس زبان میں، ایسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اور اس انداز سے گفتگو کریں جسے سمجھنا ان کے لئے آسان ہو۔ گفتگو کرتے ہوئے کبھی سرپرستانہ انداز اختیار نہ کریں۔ کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے اپنے ماتحتوں کو اس کے متعلق سوالات پوچھنے کا موقع دیجیے۔ ان کی نگرانی کرتے رہنا ضروری ہے، اس لئے وقتاً فوقتاً اپنے ماتحتوں کا کام چیک کرتے رہیں تاکہ ان کے ذہن میں یہ نکات اچھی طرح بیٹھ جائیں کہ: ا۔ ضرورت پڑنے پر آپ ان کی مدد کرنے کے لئے دستیاب ہیں۔ ب۔ آپ ان سے اچھی کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں۔ البتہ، اپنی نگرانی کو حد سے تجاوز نہ کرنے دیجیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی کڑی نگرانی رکھنے سے ان کی پہل کاری کی قوت اور مورال پر بے حد منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ماتحتوں کو ان کے اپنے انداز میں کام کرنے کا موقع دیجیے اور پھر ان کی پیش رفت کا جائزہ لیجئے۔ ایسا کرنے کے لئے آپ کو چاہئے کہ: ٭ ہر کام کے لئے واضح، جامع اور خاطرخواہ ہدایات جاری کیجئے۔ ٭ سوالات پوچھنے کے ضمن میں ماتحتوں کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ ٭ ماتحتوں کے ذہن میںپائے جانے والے کسی بھی شک، غلط فہمی یا ابہام کا پتہ چلانے کے لئے خود بھی ان سے سوالات پوچھئے۔ ٭ اس بات کی نگرانی رکھئے کہ آپ کی جاری کردہ ہدایات پر پوری طرح عمل کیا جا رہا ہے۔ ٭ اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ کے ماتحتوں کو اپنے فرائض انجام دینے کے لئے خاطرخواہ وسائل میسر ہوں۔ ٭ نگرانی کے عمل کو متوازن رکھئے۔ ضرورت سے زیادہ یا کم نگرانی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ضروری علوم حاصل کیجئے اپنے کام کو بہتر سے بہتر انداز میں انجام دینے کے لئے ہر ضروری مہارت حاصل کیجئے۔ اپنے فرائض اور ان کی انجام دہی کے لئے درکار بنیادی مہارتوں سے کامل واقفیت حاصل کیجئے۔ اس کے بعد جماعت کی دوسری ذمہ داریوں کے متعلق معلومات حاصل کرنا شروع کیجئے اور یہ بھی کہ آپ کے کام سے ان کا ربط کیسے بنتا ہے۔ ضروری سیاسی اصولوں اور طریق ہائے کار سے واقفیت حاصل کیجئے تاکہ ضرورت پڑنے پر آپ دوسروں کی تربیت کر سکیں۔ اپنے علم کو اتنی وسعت دیجیے کہ دوسرے مشورے اور رہنمائی کے لئے آپ کی طرف دیکھیں۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ: ٭ سیاسی اصولوں اور طریق ہائے کار کی تعلیم حاصل کریں۔ ٭ تازہ ترین حالات و واقعات اور اپنے کام پر ان کے اثرات سے باخبر رہیں۔ ٭ اچھے لیڈروں کو تلاش کریں اور ان کے ساتھ تعلقات بنائیں۔ ان کے افعال و اقوال اور انداز و اطوار کا مشاہدہ کریں اور ان سے سیکھیں۔ رچرڈ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’تکنیکس اگرچہ ضروری ہیں لیکن لیڈرشپ صرف تکنیک کا نام نہیں۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو تنظیم کاری نثر ہے اور لیڈر شپ شاعری۔‘‘ لوگوں کو منطق سے قائل کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں متحرک کرنے کے لئے جذباتی انگیخت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک لیڈر کو اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ منطقی دلائل بھی دے سکے اور جذباتی انگیخت بھی فراہم کر سکے۔ لوگوں کو برانگیختہ کرنے کے لئے لیڈر کو پہلے خود برانگیختہ ہونا پڑتا ہے۔ ہر قول اور فعل اس کے ذہن بالکل واضح اور روشن ہونا چاہئے۔ اپنے شعبے سے باہر کے لوگوں کے ساتھ رابطے بنا کر اپنے علم کو وسیع کیجئے۔ دوسرے شعبوں کے لیڈروں کے نظریات و ادراکات سے واقفیت حاصل کر کے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ لیڈر شپ کے عہدوں کے ذریعے اپنے علم کا عملی اطلاق کرنے کے مواقع حاصل کیجئے۔ اپنے سے بالاتر عہدوں پر فائز افراد کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آشنائی حاصل کیجئے اور ضرورت پڑنے پر خود ان ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لئے ذہنی طور پر تیار رکھئے۔ خود کو بہتر بنانے کا عمل جاری رکھئے دیانتداری سے اپنا تجزیہ کیجئے اور اپنی کمزوریوں کا پتہ چلایئے۔ اپنے آپ سے سوال کیجئے: ’’میں کیا بہتر کر سکتا ہوں؟‘‘ اپنی خامیوں کو دور کرنے اور اپنی خوبیوں سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کیجئے۔ اپنے دوستوں اور رفقائے کار سے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا دیانتدارانہ تجزیہ کرنے کو کہئے۔ اس طرح آپ اپنی خوبیوں اور خامیوں سے زیادہ بہتر انداز میں واقف ہو سکیں گے۔ آپ کو چاہئے کہ: ٭ دوسرے لیڈروں کی کامیابی یا ناکامی کی وجوہات کا مطالعہ کیجئے۔ ٭ عمدگی سے بولنے اور لکھنے کے فن میں مہارت حاصل کیجئے۔ ٭ ایک واضح مقصد کا تعین کیجئے اور اسے حاصل کرنے کے لئے واضح منصوبہ بندی کیجئے۔ ٭ اپنے متعلق معروضی اور منطقی نکتہ نگاہ اپنایئے۔ سکندراعظم ایک ایسا لیڈر تھا جس نے شروع سے ہی مختلف اقدامات کے ذریعے اپنے علم کو بڑھانے اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کا آغاز کر دیا تھا مثلاً ایک عالمی حکمران کی حیثیت حاصل کرنے کے لئے روانہ ہونے سے پہلے، اس نے آبی اور بحری ہر دو راستوں، ان کی آب و ہوا اور ان سے متعلقہ ضروریات سے واقفیت حاصل کی۔ کسی مخصوص مقام پر پہنچنے کے بعد وہ وہاں کے رہنے والوں، ان کی ثقافت اور وہاں دستیاب علوم کا مطالعہ کرتا۔ اس نے جغرافیہ اور راستوں کے علم میں مہارت حاصل کی۔ جب کبھی اسے اپنے علم کو بہتر بنانے یا وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی، وہ یونانی دانشوروں سے مدد حاصل کرتا۔ مصر، ایران اور ہندوستان، ہر جگہ پر اس نے یہی وطیرہ اپنائے رکھا۔ خود کو بہتر بنانا اس کا ایک ایسا شوق تھا جو دمِ آخر تک اسے فائدہ پہنچاتا رہا۔ مشکل ترین حالات سے پالا پڑنے کے باوجود وہ بغیر کسی ناکامی کے اپنے مطلوبہ مقامات پر پہنچتا رہا۔ یہ امر باعث دلچسپی ہوگا کہ دورانِ سفر کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اس کے بعض فوجیوں کو گھر کی یاد ستانے لگی اور انہوں نے وطن واپسی کی خواہش ظاہر کر دی۔ ایسے ہر موقع پر سکندر نے ان کی راہ میں مزاحم ہونے کے بجائے ہنسی خوشی انہیں واپس جانے کی اجازت دے دی اور فوج میں ہونے والی کمی کو مفتوح ایشیائی ملکوں سے رنگروٹ شامل کر کے پورا کیا۔ ہندوستان میں راجہ پورس پر فتح پانے کے بعد، افواج کی غالب اکثریت نے واپس جانے کی اجازت طلب کر لی۔ اگرچہ سکندر کی خواہش ہندوستان کے انتہائی جنوب تک پہنچنے کی تھی، لیکن پھر بھی اس نے اپنے فوجیوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہیں اجازت دے دی کہ وہ جب چاہیں واپس چلے جائیں اور اپنے طور پر ایشیائی افواج پر انحصار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب ان فوجیوں نے واپسی کا سفر شروع کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یونان واپسی کا راستہ معلوم ہو اور صرف لیڈر یعنی سکندراعظم اس قابل تھا کہ انہیں واپس وطن لے جا سکے۔ لہٰذا وہ سب اس کے شانہ بشانہ ہو کر بڑے جوش و جذبے سے لڑے، نہ صرف فتح کے لئے بلکہ خود سکندر اعظم کی زندگی کی حفاظت کے لئے بھی تاکہ وہ واپسی کے راستے پر ان کی رہنمائی کرنے کے لئے زندہ رہے۔ ساتھیوں کا خیال رکھئے آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کے رفقائے کار کی شخصی کیفیت کیا ہے اور مختلف صورتِ حالات میں ان کا ردِعمل کیا ہوتا ہے۔ ان کی پسندیدگیوں اور ناپسندیدگیوں سے واقفیت حاصل کیجئے، پتہ چلایئے کہ کون سی چیز انہیں تحریک دیتی ہے اور کون سی چیز انہیں مایوس کرنے کا سبب بنتی ہے۔ کہاں انہیں تقویت ملتی ہے اور کہاں وہ کھل کر اپنی اہلیت کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ مثال کے طور پر، خوداعتمادی سے عاری کسی گھبرائے ہوئے فرد کو کبھی کسی ایسے عہدے پر فائز نہیں کیا جانا چاہئے جہاں فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہو۔ اپنے ماتحتوں اور رفقاء کی شخصی خصوصیات سے واقف ہونے کے بعد آپ کسی کام کے لئے موزوں ترین فرد کا انتخاب کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: ٭ اپنا رویہ دوستانہ رکھئے۔ آپ کے ماتحتوں کو آپ تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی غیرضروری رکاوٹ مانع نہیں ہونا چاہئے۔ اپنے ماتحتوں کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے خواہ آپ کا عہدہ کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو۔ ٭ اپنے ماتحتوں کی کیفیت اور کام کرنے کے ماحول پر دھیان رکھئے۔ اس امر کو یقینی بنایئے کہ انہیں ضروری تربیت اور تائید دستیاب ہو۔ ٭ انعامات کی منصفانہ اور مساوی تقسیم کو یقینی بنایئے۔ ٭ انفرادی ترقی و بہتری کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ جہاں ضرورت ہو وہاں اختیارات کے تفویض کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام نہ لیجئے۔ ٭ مشکل کاموں میں رفقائے کار کو بھی اپنے ساتھ شریک کیجئے۔ بروقت فیصلہ کرنا سیکھئے کسی کام کا فوری کرنا ضروری ہو تو بھی امکانات اور متبادل راستوں کا جائزہ لینے کے لئے وقت ضرور نکالئے لیکن جب فیصلہ کرنے کا وقت آ جائے تو پھر تاخیر مت کیجئے۔ یاد رکھئے کہ بروقت کیا ہوا ایک اچھا فیصلہ تاخیر سے کئے ہوئے ایک بہت اچھے فیصلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ایک سے زائد مواقع پر فرمایا۔ ’’فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچو مگر جب فیصلہ کر لو تو اس پر جمے رہو۔‘‘ بروقت اور بے عیب فیصلے کرنے کے لئے: ٭ صورتِ حال کا معروضی جائزہ لینے کی مشق سے اپنی سوچوں کو منطقی اور منضبط انداز میں ترتیب دیجئے۔ ٭ ممکنہ حالات و واقعات، جن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہو، ان کے لئے اگر وقت ملے تو پہلے سے تیاری کر کے رکھئے۔ ٭ جب وقت اجازت دے تو کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے ماتحتوں کی آراء اور مشورے طلب کیجئے۔ ٭ فیصلوں کا اطلاق کرنے سے پہلے اپنے ماتحتوں کو ان کے متعلق بتایئے اور انہیں کم از کم اتنا وقت ضرور دیجئے کہ انہیں ضروری تیاریاں کرنے کا موقع مل سکے۔ ٭ اپنے ماتحتوں کی حوصلہ افزائی کیجئے کہ وہ بھی آپ کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ اپنے منصوبے بنائیں۔ ٭ گروپ کے تمام ارکان پر اپنے فیصلوں سے مرتب ہونے والے اثرات کو مدنظر رکھئے۔ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اہم بات یہ نہیں کہ لیڈر اپنی میز پر (یعنی اپنے عہدے پر) کتنا وقت کام کرتا ہے یا اس کا میز کہاں پڑا ہوا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے وہ بڑے بڑے فیصلے کس انداز میں کرتا ہے۔ اگر گولف کا ایک گیم اس کے ذہن کو فیصلہ کرنے کے لئے موزوں حالت میں لا سکتا ہے، تو اسے چاہئے کہ کاغذی کارروائیوں کو ایک طرف رکھ دے، اور گولف کورس کی طرف روانہ ہو جائے… کسی لیڈر کی کامیابی میں خوش نصیبی کے جتنے عناصر نظر آتے ہیں، ان میں درست ٹائمنگ کی خوش نصیبی شاید سب سے اہم ہے۔‘‘ کام اسے دیجیے جو اس کا اہل ہے ممکن ہو تو کبھی بھی کسی کو کوئی ایسی ذمہ داری تفویض نہ کریں جسے نبھانے کے لئے اس کے پاس مناسب تربیت موجود نہ ہو۔ دس آدمیوں کا کام کرنے کے لئے تین آدمی مامور کر کے اچھے نتائج کی توقع نہ لگائیں۔ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد کو بڑی ذمہ داریاں سنبھالنے کے مواقع دینے سے کبھی انکار مت کریں۔ اس امر کو یقینی بنائیں کہ آپ درست کام کے لئے درست فرد کا انتخاب کریں۔ آپ کسی کم آمیز اور کم گو فرد کو اپنا رابطہ افسر یا ترجمان مقرر نہیں کر سکتے۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: ٭ کبھی کسی پر کوئی ایسا فریضہ عائد نہ کریں جسے ادا کرنا ناممکن ہو۔ ایسے فرائض مورال کے لئے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ ٭ تفویض کئے جانے والے کام معقول اور منطقی ہونے چاہئیں۔ ٭ اگر آپ کے وسائل ناکافی ہوں تو ضروری تائید اور وسائل حاصل کرنے کے لئے ضروری اقدامات کریں یا اپنے منصوبوں کو حقیقت پسندی کی حدود میں رکھتے ہوئے اس امر کا تعین کریں کہ ایسا کرنے سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں۔ ٭ سب کو مساوی ذمہ داریاں دیں۔ کسی پر بہت زیادہ بوجھ نہ ڈالیں اور کسی کو بہت کم ذمہ داریاں نہ دیں۔ ٭ اعانت طلب کرنے سے پہلے اپنی حد تک پوری کوشش کر کے دیکھ لیں۔ درست کام کے لئے درست فرد کا انتخاب ایک ایسا اصول ہے جسے نظرانداز کرنے والا نہ صرف اپنے مقاصد اور اپنے اہداف کو خطرے میں ڈال دیتا ہے بلکہ اپنے ذاتی یا اجتماعی تاثر کو خراب کرنے کا موجب بھی بنتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کم علمی ایک خطرناک چیز ہے۔ بہ الفاظِ دیگر نیم حکیم خطرئہ جان۔ اسی طرح کم اہلیت رکھنے والے کو بڑی ذمہ داری سونپ دینا بھی ایک خطرناک حرکت ہے۔ سیاست میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ لیڈر کو عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے ہوتے ہیں اور اس ضمن میں کسی طرح کی غفلت سخت نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسے اہم اصولوں پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ ایسے اہم فیصلے کرتے ہوئے بھی، جن میں کسی طرح کی غلطی کسی فرد یا جماعت کا کیریئر معرضِ خطر میں ڈال سکتی ہے، متعلقہ لیڈران اپنی سہولت اور ذاتی پسند ناپسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا عوام سے کئے ہوئے وعدے پورے نہیں ہو پاتے اور مستقبل کے لئے صحیح سمت کا تعین کرنا ممکن نہیں رہتا۔ مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے اس اصول کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ ہمیشہ کسی فرد کو وہی ذمہ داری سونپی جائے جسے نبھانے کی اہلیت اس میں موجود ہے۔ اس اصول پر عمل کرنے سے آخری فتح حاصل کرنے کے لئے بہتر ٹیم تشکیل دی جا سکتی ہے۔ درست کام کے لئے درست فرد کا انتخاب کرنے سے مراد ایسے فرد کا انتخاب کرنا ہے جو اس کام کے تمام تقاضوں سے کماحقہ عہدہ برآ ہونے کی قوت رکھتا ہو۔ کردار نہایت اہم ہے ایک کامیاب لیڈر بننے سے پہلے یہ سمجھنا ازبس ضروری ہے کہ لیڈر شپ کیا ہے اور ایک لیڈر کی بنیادی خصوصیات کیا ہوتی ہیں۔ بعض موجودہ سیاسی قیاس آرائیوں کے برعکس، لیڈرشپ کا کردار سے گہرا اور اٹوٹ تعلق ہوتا ہے۔ کردار کے بغیر کوئی بھی لیڈر حقیقی معنوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کہاوت ہے کہ اگر ساری دولت چلی جائے تو سمجھو کچھ نہیں گیا۔ اگر صحت چلی جائے تو سمجھو کچھ چلا گیا۔ اور اگر کردار چلا جائے تو سمجھو سب کچھ چلا گیا۔ تاریخ اس اصول کی حقانیت کی شاہد ہے کہ کہ عوامی کردار ادا کرنے کے لئے عمدہ اخلاقی کردار سے بہتر اور قابل اعتماد خوبی اور کوئی نہیں۔ کسی فرد کا اخلاقی کردار ایک مسلمہ اور ناقابل تقسیم چیز ہے۔ آپ اسے ٹکڑوں میں نہیں بانٹ سکتے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کے کردار کا ایک حصہ خالص اور عمدہ ہو اور دوسرا نخالص اور گھٹیا۔ ممکن ہے کہ کوئی فرد ایک وقت میں کسی ایک برائی میں مبتلا ہو اور دوسری برائیوں سے احتراز کرتا ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر کردار کی عمارت میں کوئی ایک دراڑ پڑ جائے تو اس کی راہ تمام برائیاں قطار باندھ کر اندر گھس آتی ہیں۔ کسی فرد کو صراطِ مستقیم سے بہکانے کے لئے پہلے پہل بڑی طاقتور تحریص کی ضرورت پڑتی ہے لیکن ایک دفعہ جب اس کے قدم پھسل جائیں تو پھسلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ جو ایک دفعہ راہ سے بھٹک گیا، اسے دوبارہ بھٹکانا بہت آسان ہوتا ہے۔ اخلاقی بگاڑ کی رفتار پہلے ہی خاصی تیز ہوتی ہے اور جب اس میں ’’سرکاری‘‘ ترغیب بھی شامل ہو جائے تو معاملہ ناقابل بیان حد تک بگڑ جاتا ہے۔ امریکیوں نے انجیل سے یہ سبق بہت پہلے ہی حاصل کر لیا تھا کہ کسی بھی ملک میں حکومت کی خرابی یا اچھائی کا انحصار قاعدے قانون کے بجائے لیڈروں کی اچھائی یا برائی پر ہوتا ہے۔ امریکی آئین کے گواہ اور سپریم کورٹ کے جسٹس ولیم پیٹرسن ان بانیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے شہریوں کے سامنے انجیل کا یہ حصہ پڑھ کر سنایا۔ ’’نیکوکاروں کی حکومت میں لوگوں کو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں اور بدکاروں کی حکومت میں آلام۔‘‘ آج دنیا میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دنیا کی سب سے طاقتور حکومت سمجھا جاتا ہے اور امریکہ کا چیف مجسٹریٹ (یعنی صدر امریکہ) وہ آخری فرد ہونا چاہئے جو اس کی ترقی پر کسی طرح سے اثرانداز ہو۔ یہی وجہ تھی کہ حالیہ تاریخ میں صدرِ امریکہ بل کلنٹن کو جھوٹی گواہی دینے کے الزام میں عدالت عالیہ میں گھسیٹا گیا تاکہ لیڈر شپ کے اعلیٰ معیارات پر کوئی آنچ نہ آئے۔ عدالت کے سامنے اپنے دفاع میں جوابدہ ہونے سے کلنٹن کی شخضیت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ نکھر گئی اور قانون کی بالادستی، لغوی اور معنوی، دونوں اعتبار سے ابھر کر سامنے آئی۔ امریکہ کے آئین میں درج ہے کہ ’’تمام انسان برابر ہیں‘‘ اور صدر امریکہ کی طرف سے اس برابری اور مساوات کا عملی مظاہرہ جمہوریت پر مبنی اس نظام کے لئے گہرے احترام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں خلافت راشدہ کے دور میں ہمیں ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ پوری دنیا کے لئے ایک گرانقدر پیغام ہے کہ دیکھو، لیڈر کیسے بنا جاتا ہے۔ سیموئیل ایڈمز نے جب مندرجہ ذیل سطور لکھیں تو وہ اسی انجیلی اصول کی تصریح و تفصیل کر رہے تھے: جو شخص اپنی ذاتی زندگی میں نیکوکاری کی طرف راغب نہ ہو، جلد یا بدیر وہ اپنے ملک و قوم سے بھی لاتعلق ہو جاتا ہے۔ ایسی مثال کم دیکھنے کو ملے گی کہ جب کسی فرد نے اپنے ملک سے غداری کرنے سے پہلے ذاتی زندگی میں اپنی تمام اخلاقی ذمہ داریوں سے نجات حاصل نہ کر لی ہو۔ (ذاتی اور عوامی برائیاں درحقیقت ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں)۔ کسی بھی حکومت کے اطوار کے استحکام کے لئے اس سے اہم بات اور کوئی نہیں کہ اس کے تمام کلیدی عہدوں پر فائز افراد امتیازی کردار کے مالک ہوں۔ ہم لیڈروں کو صرف ان کے کئے ہوئے کاموں کے حوالے سے یاد نہیں رکھتے، بلکہ ان کی ذاتی شخصیت اور ان کے کردار کے حوالے سے بھی یاد رکھتے ہیں۔ زیادہ تر افراد کردار کو اخلاقی قوت اور صبر و برداشت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چارلس ڈیگال نے ایک لیڈر میں کردار کو بے چین خواہش اور اپنی بات منوانے کے لئے درکار باطنی قوت کا نام دیا۔ ان کا کہنا ہے۔ ’’کسی فرد کو دوسروں سے بالاتر قرار دینا صرف اسی صورت تسلیم کیا جا سکتا ہے جب وہ مشترکہ مقصد کو وہی تحریک اور تیقن عطا کر سکے جو مضبوط کردار کا خاصہ ہوتی ہے۔‘‘ اگر کسی کو اچھے کردار کے ساتھ ساتھ اچھا، صاف ستھرا اور باوقار ماحول بھی میسر آئے، تو اس کی زندگی اخلاقی جرأت اور نیکوکاری کی صفات سے عبارت ہوگی۔ یہ ایک باوقار اور ممتاز زندگی ہوگی۔ مقدس صحائف سے لئے جانے والے ایسے اقتباسات جن میں شہری اور مذہبی قائدین کی خصوصیات کا تذکرہ ہو، اس نکتے کو واضح طور پر بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بے داغ کردار اور بے عیب اخلاقی زندگی ایک لیڈر کے لئے ناگزیر حیثیت رکھتی ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قدرت نے بھی لیڈروں میں ذاتی کردار کی اہمیت پر نہایت زور دیا ہے۔ تمام روحانی اور مذہبی کتابوں کے مطابق، انسانیت کا آغاز اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت آدم نے کچھ عرصہ تک تنہا رہے اور اپنی زندگی میں ایک خلا محسوس کرتے رہے۔ انہیں رفاقت کی طلب تھی لہٰذا اللہ نے ان کے لئے بی بی حوا کو تخلیق کیا جو حضرت آدم کے لئے خوشی اور تسکین کا موجب بنیں۔ انہیں جنت میں ہر جگہ جانے اور ہر میوے کا لطف اٹھانے کی اجازت تھی سوائے ایک شجر کے، جس کے پھل کو چکھنے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔ اب شیطان کو حضرت آدم اور بی بی حوا کو بہکانے کا موقع ملا۔ اس نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ یہ شجر ممنوعہ، ابدی حیات کا شجر ہے۔ اس کا پھل کھا لینے سے ان کی خوشیوں کو دوام حاصل ہوگا اور اللہ کی قربت حاصل ہوگی۔ اس نے قسم کھا کر یقین دلایا کہ وہ ان کا دشمن نہیں بہی خواہ ہے۔ ان دونوں نے غلطی کی اور شجرممنوعہ کا پھل کھا لیا۔ ان کا فعل غرور و تکبر یا سرکشی و بغاوت کے سبب نہیں تھا، نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اپنی نوعیت میں یہ فعل مبنی بر شیطنت و بدکاری بھی نہیں تھا اور نہ ہی اس کے کرنے والوں کے لئے غیرموزوں تھا۔ کرنے والے کی حیثیت و مرتبے کے پیش نظر یہ محض ایک غلطی اور خطا تھی۔ اللہ نے آدم کے کردار کی اس کمزوری یا اس غلطی کو ایک سنگین داغ سے تعبیر کرتے ہوئے سزا کے طور پر آدم و حوا کو جنت سے باہر نکال کر زمین پر پھینک دیا۔ قرآن میں اس کا تذکرہ اس طرح سے آیا ہے: تم سب ایک ساتھ نیچے اتر جائو۔ (بقرہ۔ 38) اگلا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ آدم و حوا نے جنت سے نکلنے کے بعد زمین کے کس حصے پر پہلا قدم رکھا۔ بعض روایتوں کے مطابق حضرت آدم برصغیر پاک و ہند کے کسی حصے میں اترے (سری لنکا بمطابق ورلڈ انسائیکلوپیڈیا) اور حوا جدہ کے نزدیک۔ بعد میں دونوں کی ملاقات (بعض روایات کے مطابق سات سال بعد) حجاز یا عرفات میں ہوئی۔ میدانِ عرفات کے اس نام سے موسوم ہونے کی وجہ ہی یہی ہے کہ یہیں حضرت آدم اور بی بی حوا ایک دوسرے سے ملے اور ایک دوسرے کو پہچانا۔ کئی سال تک دونوں ایک دوسرے کو تلاش کرتے رہے۔ تمام انبیاء کرام نے پیامِ الٰہی کی تبلیغ کرنے سے پہلے اپنی اپنی قوم میں اپنے کردار اور اخلاق کے حوالے سے ایک بے داغ ساکھ قائم کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کی رہنمائی کرنے سے پہلے، ان کا لیڈر بننے سے پہلے، اچھا کردار حاصل کرنا کتنا اہم ہے۔ کسی کے خیالات، افعال اور اقوال کی بناء پر ہمیشہ اس کے کردار کا تجزیہ کیا جاتا رہتا ہے۔ جب حضور پاکﷺ نے اللہ کی وحدانیت کا اعلان کیا تو اس سے پہلے وہ ایک سچے، قابل اعتماد اور دیانتدار فرد کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ایک نہایت مشکل کام کا آغاز کیا اور انجام کار اس میں کامیاب ٹھہرے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب کی تاریخ میں ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جب بھی مذہبی یا سیاسی قیادت کے اقدامات پر انفرادی یا اجتماعی طو رپر حرف زنی کی گئی تو انہوں نے عدالتوں میں اور عوام کے سامنے اپنے آپ کو درست اور صراطِ مستقیم پر قائم ثابت کیا۔ مختلف مسلمان خلفاء اور حکمرانوں نے قاضیوں کے سامنے پیش ہو کر عام شہریوں کی طرح اپنا دفاع کیا۔ اس ضمن میں حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے جنہوں نے اپنے دامن عفت کو زلیخا اور دیگر شاہی خواتین کے ہاتھوں آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے اسیری قبول کی۔ وہ کئی سال تک زنداں میں رہے اور بالآخر خدائے عز و جل کی نصرت سے مصر کے دینی و دنیاوی رہنما بنے۔ قرآن پاک میں اس قصے کا تذکرہ 26 جگہوں پر آیا ہے۔ 24 مرتبہ سورئہ یوسف میں اور ایک ایک مرتبہ سورئہ الانعام اور سورئہ غافر میں۔ حضرت یوسف کو یہ اعزاز بھی ملا کہ ان کے پردادا حضرت ابراہیم کی طرح ان کے نام پر بھی علم و حکمت کے خزانوں سے مزین ایک پوری سورہ قرآن پاک میں شامل ہے۔ حضرت یوسف، حضرت یعقوب کے فرزند تھے، حضرت اسحاق کے پوتے اور حضرت ابراہیم کے پڑپوتے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کا ان کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا اور حسد کی بناء پر ان کے سوتیلے بھائیوں نے انہیں باپ کی شفقت و محبت سے بھی محروم کر دیا۔ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک خشک کنویں میںپھینک کر ان کی خون آلودہ قمیص حضرت یعقوب کو لا دکھائی اور کہا کہ حضرت یوسف کو بھیڑیا اٹھا لے گیا ہے۔ قمیص پر لگا ہوا خون کسی جانور کا تھا۔ بہرحال، وہاں سے گزرنے والے ایک قافلے نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال لیا اور اپنا غلام بنا کر ساتھ رکھ لیا۔ ذرا اپنے تخیل کی آنکھ کھولئے اور حضرت یوسف کے کردار کی پختگی کو دیکھئے۔ ایسے مصائب میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ روئے نہیں، گڑگڑائے نہیں، چیخے چلائے نہیں، غم و اندوہ کا اظہار نہیں کیا اور کوئی شکایت نہیں کی۔ وہ تقدیر کی تمام ستم ظریفیوں پر بھی اللہ کے شکرگزار تھے، اپنی تکالیف پر صابر تھے اور اللہ کے فیصلوں کے تابع تھے۔ انہیں مصر کے بازار میں لے جا کر بیچ دیا گیا مگر ان کا سر اللہ کے حضور جھکا رہا۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر پہنچے تو بنو عمالقہ وہاں کے حاکم تھے اور رعمیسس وہاں کا دارالخلافہ۔ عزیز مصر کے محافظوں کے سالار پوتیفر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک حقیر سی قیمت کے عوض خرید لیا۔ اس زمانے میں مصری خود کو دنیا کے سب سے مہذب اور شائستہ افراد سمجھتے ہوئے صحرائی قبائل سے تعلق رکھنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ مصر کے قصبوں اور شہروں میں ان افراد سے اچھوتوں کا سا سلوک ہوتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خاندان کنعان میں رہائش پذیر تھا اور اس اعتبار سے انہی صحرائی قبیلوں کا ایک حصہ تصور کیا جاتا تھا۔کنعان میں شہری تمدن کا کوئی تصور نہ پایا جاتا تھا۔ ان کے ہاں دولت گھاس پھونس کی جھونپڑیوں اور بھیڑ بکریوں کے گلوںکا نام تھی اور بقائے حیات کا سب سے بڑا ذریعہ شکار تھا۔ دیکھئے، اللہ کے منصوبے اور ارادے کیسے معجزاتی انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں! ایک صحرائی بدو، ایک غلام کی حیثیت سے ایک امیر آدمی اور ایک عہدیدار کے گھر تک پہنچتا ہے اور اپنی اعلیٰ اخلاقی اقدار، وسعت علم، باوقار شخصیت اور بھروسہ مندی کی بدولت اس کا دل جیت لیتا ہے اور اس کی آنکھ کا تارہ بن جاتا ہے۔ پوتیفر جس روز حضرت یوسف علیہ السلام کو گھر لایا تھا، اسی روز اس نے اپنی بیوی کو بتا دیا تھا کہ یہ لڑکا کوئی معمولی لڑکا نہیں۔ پوتیفر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک غلام کے بجائے اپنی اولاد کی مانند جانا اور انہیں عزت و وقعت دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی تمام گھریلو ذمہ داریاں حضرت یوسف علیہ السلام کو سونپ دی گئیں اور اس کی دولت و اختیارات حضرت یوسف علیہ السلام کے تصرف میں آ گئے۔ اب تقدیر کا دوسرا دور شروع ہوا۔ شباب آیا تو حضرت یوسف علیہ السلام ایک نہایت حسین و جمیل نوجوان کے روپ میں سامنے آئے۔ مردانہ حسن و جمال کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو ان کی ذات میں موجود نہ ہو۔ وہ نہایت وجیہہ تھے۔ ان کے چہرے کی درخشندگی آفتاب و ماہتاب کو شرماتی تھی۔ ان کا دامن ان کے حسن کی طرح بے داغ تھا لیکن ان سب نعمتوں کے ساتھ ساتھ آقا کی بیوی کے روپ میں ایک مصیبت بھی ان کے سر پر مسلط تھی جو حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کو دیکھ کر بے قابو ہوئی جا رہی تھی اور انہیں دعوتِ گناہ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھی۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کوئی معمولی نوجوان نہ تھے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے تھے، پیغمبروں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور آگے چل کر انہیں بھی منصب نبوت پر فائز ہونا تھا۔ بھلا کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک عورت کے ترغیبی حربوں سے متاثر ہو جاتے اور اپنے دامن کو آلودہ کر بیٹھتے؟ اپنے تمام حربوں کو بے اثر جاتے دیکھ کر، ایک روز حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک کمرے میں تنہا پا کر اس عورت نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور انہیں آمادئہ گناہ ہونے پر مجبور کرنے لگی۔ یہ بے حد مشکل مرحلہ تھا۔ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک عورت، نسائی حسن و جمال سے بھرپور، بہکا دینے والے تمام ہتھیاروں سے آراستہ ، سولہ سنگھار کئے، بند کمرے کی تنہائی میں، بلا خوف و خطر، ہر ذمہ داری اپنے سر لینے کو تیار اور ہر حد سے گزرنے پر آمادہ کھڑی تھی۔ اس دعوت کو ٹھکرانے کے لئے لوہے کا جگر اور پتھر کا کلیجہ درکار تھا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام ایک لمحے کو بھی نہیں ہچکچائے۔ ان کے قدموں میں گھڑی بھر کو بھی لغزش پیدا نہ ہوئی۔ اس عورت کے بہکاوے ان کے نزدیک پرکاہ کی حیثیت بھی نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اسے بتانے کی کوشش کی کہ جو وہ چاہتی ہے وہ ناممکن ہے۔ وہ دو عالم کے پروردگار کے احکام سے سرتابی کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ آقا نے ان پر جو اعتماد کیا ہے، اس میں کسی طرح کی دھوکہ دہی کا مرتکب ہونا ظلم ہوگا۔ آقا نے انہیں کبھی غلام نہیں سمجھا بلکہ انہیں ایک باوقار مقام دیا ہے۔ اگر وہ اس کی خواہش پوری کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو وہ ظالم ٹھہریں گے اور ظالموں کا انجام کبھی بخیر نہیں ہوتا۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے کردار پر حرف نہ آنے دیا اور اس کا صلہ یہ ملا کہ آخر کو مصر کی حکمرانی کے تخت پر بیٹھے۔ خدا کی طرف سے نبوت کامنصب تو انہیں پہلے ہی عطا کیا جا چکا تھا۔ یعنی وہ دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے سرخرو رہے۔ حضرت یوسف کو یہ اعزاز و اکرام، لطف و عنایات اور عزت و شہرت ان کے کردار کی مضبوطی کی بدولت ہی میسر آئی۔ ایک لیڈر کے لئے کردار کی اہمیت کی اس سے بڑی گواہی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ٭٭٭

لیڈر کیسا ہونا چاہئے؟

[ترمیم]

اس باب میں دیے گئے اصول و ضوابط کا مطالعہ کرنے سے پہلے ذیل میں دیے گئے شذرے کو اچھی طرح، خوب سوچ سمجھ کر پڑھئے اور خود سے سوال کیجئے۔ ’’کیا میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں؟‘‘ اگر جواب نفی میں ملے تو آپ کو علم ہو جائے گا کہ آپ کی کمزوریاں کہاں پوشیدہ ہیں اور کہاں بہتری کی ضرورت ہے۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ یہ محض اجمالی نصائح ہیں، لیڈر شپ کے تقاضوں کا انسائیکلو پیڈیا نہیں۔ ’’میرے افعال مجھے لیڈر کی حیثیت عطا کرتے ہیں۔ میں اپنی طاقت اور اپنی کمزوری سے واقف ہوں، اور میں ہمیشہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میں ایک اخلاقی ضابطے کے تحت زندگی گزارتا ہوں اور دوسروں کے لئے ایک قابل تقلید مثال قائم کرتا ہوں۔ میں اپنے کام سے واقف ہوں اور میں انہیں موصولہ ہدایات کے عین مطابق انجام دیتا ہوں۔ ’’میں پہل کاری کرتا ہوں اور ذمہ داریاں تلاش کرتا ہوں اور میں حالات کا دلیری اور اعتماد سے سامنا کرتا ہوں۔ میں صورتِ حال کا تجزیہ کرتا ہوں اور حالات کے مطابق بہتر سے بہتر انداز میں اپنے فیصلے خود کرتا ہوں۔ تقاضے خواہ کچھ بھی ہوں، میں اپنے کام کو مکمل کئے بغیر پیچھے نہیں ہٹتا۔ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں، میں ان کی پوری ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ ’’میں اپنے رفقائے کار کو ایک ٹیم کے طور پر تربیت دیتا ہوں اور پُرحکمت، پُرجوش اور منصفانہ انداز میں ان کی قیادت کرتا ہوں۔ مجھے اس معاملے میں ان کی وفاداری اور اعتماد حاصل ہے کہ میں انہیں ایسا کوئی کام کرنے کو نہیں کہوں گا جسے اپنے ہاتھ سے کرنے میں مجھے کوئی عذر درپیش ہو۔ میں اس امر کو یقینی بناتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہوں اور یہ کہ وہ اپنے فرائض کو بحسن و خوبی پایۂ تکمیل تک پہنچائیں۔ میں انہیں باخبر رکھتا ہوں اور میں ان کی بہبود کو اپنی مرکزی ذمہ داریوں میں شامل تصور کرتا ہوں۔ ’’یہ کام میں لیڈر شپ کے تقاضوں کی تکمیل اور جماعتی مقاصد کی تحصیل کی خاطر بے غرضی سے انجام دیتا ہوں۔‘‘ فرض کیجئے کہ آپ کو ایک مستحکم جماعت کا انچارج مقرر کیا جاتا ہے۔ آپ گذشتہ لیڈرشپ کی اہلیت اور پُراثری کا اندازہ کیسے کریں گے؟ آپ کو کیسے علم ہوگا کہ کن شعبوں میں بہتری کی ضرورت ہے؟ ذیل کی سطور میں لیڈر شپ کی چار مفید نشانیاں پیش کی جا رہی ہیں جن کی مدد سے آپ کسی بھی تنظیم کی لیڈر شپ کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ مورال مورال کسی گروپ کے اعتماد اور خوش مزاجی سے متعلقہ ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ کسی جماعت کا مورال بنانے میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ رفقائے کار کے ایک دوسرے کے متعلق، اپنے حکام کے متعلق، اپنے فرائض اور اپنی جماعت کے متعلق احساسات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ کسی جماعت کے مؤثرانداز میں کام کرنے اور اپنے فرائض عمدگی سے انجام دینے کے لئے مورال کا بلند ہونا بہت ضروری ہے۔ اپنے رفقائے کار کا مشاہدہ کر کے ان کے مورال کا اندازہ بڑی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ مورال کا تعین کرنے کے لئے جن چیزوں کے نوٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ حسب ذیل ہیں:- ٭ ظاہری وضع قطع ٭ ذاتی اطوار اور ایک دوسرے کے ساتھ سلوک۔ ٭ بحث مباحثے اور تکرار کی شرح۔ ٭ نقصان دہ افواہوں کی موجودی اور شرح۔ ٭ دفتر اور ساز و سامان کی حالت۔ ٭ ہدایات کے متعلق کارکنوں کا رویہ۔ ٭ اچھے طریقے سے فرائض انجام دینے کی اہلیت۔ ٭ حکام اور عمومی طریقہ کار کے متعلق پیدا ہونے والی شکایات کے اسباب۔ مورال کی خبر دینے والی دیگر علامات میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:- ٭ کام سے غیرحاضری کی شرح۔ ٭ کلیدی عہدوں پر فائز افراد کے برقرار رہنے کی شرح۔ مورال کو بلند کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیجئے:- ٭ اپنے رفقائے کار کو جماعت کے مشن پر یقین رکھنا اور اعتماد کرنا سکھایئے۔ ٭ اپنے رفقائے کار میں ان کے لیڈروں، ان کی تربیت اور ان کی ذات کے متعلق اعتماد پیدا کیجئے۔ ٭ ذمہ داریوں کی تفویض میں ضروری غور و تدبر سے کام لیجئے تاکہ ہر کام کرنے والا اپنے کام سے مطمئن رہے۔ ٭ اپنے رفقائے کار کو باور کرایئے کہ آپ ان کے متعلق فکرمند رہتے ہیں اور ان کی پروا کرتے ہیں۔ ٭ اچھی کارکردگی پر انعام دینے کا ایک عمدہ نظام قائم کیجئے۔ ٭ اپنے رفقائے کار میں یہ احساس پیدا کیجئے کہ وہ جماعت کے لئے کتنی اہمیت کے حامل ہیں۔ ٭ ایک پیشہ ورانہ ماحول برقرار رکھئے۔ مورال سے مراد ایک لیڈر کا اعتماد اور ایک فرد یا گروہ کی امید ہے۔ بلند مورال لیڈر اور گروپ کا حوصلہ برقرار رکھتا ہے اور جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ نہ صرف بلند مورال رکھنے والوں کو قوت دیتا ہے بلکہ خصوصی طور پر ان کے پیروئوں، بہی خواہوں اور رفقاء کی ہمت بندھاتا ہے۔ قدیم تاریخ میں جب سکندراعظم نے دریائے جہلم پر ایک جنگ میں فتح حاصل کر کے راجہ پورس کو بری طرح زخمی حالت میں گرفتار کر لیا تو راجہ نے شاہی طبی امداد قبول کرنے سے انکار کر دیا، یہ کہہ کر وہ ادھار کی زندگی گزارنے کو تیار نہیں ہے۔ اس کے بلند مورال نے سکندرِ اعظم کو اتنا متاثر کیا کہ اس نے راجہ پورس سے مستقل دوستی کا پیمان کر کے اس کا تخت اور اس کا اکرام اسے واپس لوٹا دیا۔ اسی طرح کے ایک اور واقعے میں، جب سکندرِ اعظم ملتان کے نزدیک پہنچا تو ایک لڑائی میں، ایک تیر اس کے دل کے بالکل نزدیک آ لگا۔ اس کاری زخم نے سکندر کو قریب المرگ کر دیا۔ زخم کی کامیاب جراحی کے باوجود سکندر کی فوجوں کا مورال بری طرح پست ہو گیا۔ لشکر میں اس کی موت کی افواہیں پھیل رہی تھیں کہ اچانک، معالجوں کی ہدایات کے برخلاف، سکندر اپنے گھوڑے پر بیٹھا ہوا شاہی خیمے سے نمودار ہوا اور پورے لشکر کی خیمہ گاہ کا چکر لگایا۔ اس کے اس اقدام نے لشکر کے مورال کو دوبارہ بلند کر دیا۔ افواہیں دم توڑ گئیں اور صحت یاب ہونے کے بعد اس نے مزید علاقے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کئے۔ فخر کا ایک اجتماعی احساس ایک جماعت سے وابستہ کارکنوں کا اپنی جماعت کی تاریخ، روایات، ساکھ اور مشن پر فخر رکھنا، فخر کا ایک اجتماعی احساس کہلاتا ہے۔ اس کی نشانیاں حسب ذیل ہیں:- ٭ کارکنوں کا اپنی جماعت پر فخر کا کھلم کھلا اظہار کرنا۔ ٭ دوسری جماعتوں کے نزدیک ایک اچھی ساکھ کا حامل ہونا۔ ٭ ذاتی بغض و عناد سے پاک ایک طاقتور مسابقانہ جذبہ۔ ٭ کارکنوں کی تمام سرگرمیوں میں رضاکارانہ شرکت۔ ٭ رفقائے کار کی ایک دوسرے کی مدد پر رضاکارانہ آمادگی۔ ٭ یہ یقین کہ ہماری جماعت، اس جیسی دوسری یا مد مقابل جماعتوں سے بہتر ہے۔ اجتماعی احساسِ فخر کی نمو کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیجئے:- ٭ نئے کارکنوں کا خیرمقدم کیجئے، انہیں احساس دلایئے کہ ان کی آمد آپ کے لئے باعث مسرت ہے اور ان کے سامنے جماعت کی تاریخ، مشن اور موجودہ مقام کی وضاحت کیجئے۔ ٭ کارکنوں کی اچھی انفرادی اور اجتماعی کارکردگی کی تعریف سب کے سامنے کیجئے۔ ٭ ٹیم ورک پیدا کرنے کے لئے جذبۂ مسابقت کو فروغ دیجیے۔ ٭ ساتھیو

  • نقاطی فہرست کی مَد

ں میں یہ احساس پیدا کیجئے کہ جماعت کو محض قائم نہیں رہنا بلکہ ترقی بھی کرنا ہے۔ نظم و ضبط نظم و ضبط یعنی ڈسپلن وہ رویہ ہے جو احکامات کی فوری تعمیل اور احکامات کی عدم موجودی میں فوری ضروری اقدامات کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، ڈسپلن نام ہے وہ کرنے کا جس کے کرنے کی آپ کو ہدایت کی گئی ہے اور وہ کرنے کا جس کا کرنا ضروری ہے۔ ڈسپلن کی علامات حسب ذیل ہیں:- ٭ تفصیلات و جزئیات پر توجہ۔ ٭ احکامات اور ہدایات پر ع ==

سرنامے کا متن

[ترمیم]
==

ملدرآمد کی رفتار۔ ٭ سینئرز اور جونیئرز کے درمیان مناسب تعلقات۔ ٭ معیار بہتر بنانے میں انفرادی اور اجتماعی کوششیں۔ ڈسپلن کی حوصلہ افزائی کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیا جا سکتا ہے:- ٭ اپنے طرزِعمل کے ذریعے دوسروں پر ذاتی طور پر ڈسپلن کی پابندی کا اظہار کیجئے۔ ٭ کارکنوں میں ذاتی ڈسپلن کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ ٭ اچھے کام پر انعام اور غلطی پر سرزنش کا ایک منصفانہ نظام رائج کیجئے۔ استعداد و مہارت استعداد و مہارت انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے فرائض انجام دینے میں مہارت کے مظاہرے کا نام ہے۔ استعداد و مہارت کا تعین کرنے کے لئے مندرجہ ذیل معیارات بروئے کار لائے جا سکتے ہیں:- ٭ فرائض کی انجام دہی میں کس قدر مہارت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ٭ ماتحتوں کی استعدادِ قیادت ۔ ٭ پیشہ ورانہ رویئے کا مظاہرہ۔ ٭ ہدایات اور اطلاعات کے جاری کرنے میں سرعت اور درستی کا مظاہرہ۔ ٭ بدلتے ہوئے حالات کے مقابلے میں فوری ردِعمل ظاہر کرنے کی اہلیت۔ استعداد و لیاقت کی حوصلہ افزائی کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیجئے:- ٭ ہر فرد کو اس کی ذمہ داری کے لئے مکمل تربیت دیجیے۔ ٭ ٹیم ورک اور باہمی تعاون پر زور دیجیے۔ ٭ ماتحتوں کو ان کے اپنے فرائض کے علاوہ دیگر افراد کی ذمہ داریوں کے متعلق بھی تربیت دیجیے۔ ٭ ماتحتوں کو اپنے حکام اور نگرانوں کی ذمہ داریوں کی تربیت حاصل کرنے کی ہدایت کیجئے۔ ٭ استعداد و لیاقت کے مندرجہ صدر معیارات کو وقتاً فوقتاً چیک کرتے اور آزماتے رہئے۔ ٭٭٭

منزلیں کیسے طے ہوتی ہیں؟

[ترمیم]

میں آپ کو یہ مشورہ دینے کی کوشش نہیں کروں گا کہ آپ کو کس جماعت میں شامل ہونا چاہئے۔ ذیل کی سطور میں جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ درجہ بدرجہ پارٹی لیڈر کی حیثیت حاصل کرنے ایک پروگرام ہے خواہ آپ کا آغاز ایک معمولی ورکر کی حیثیت سے ہی کیوں نہ ہوا ہو اور پارٹی چاہے کوئی بھی ہو۔ اپنے جماعت کے نامزد امیدواروں کی انتخابی مہمات میں کام کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمت پیش کیجئے۔ اپنی کارکردگی کے متعلق زیادہ بلند بانگ دعوے مت کیجئے لیکن سب کی توقع سے بڑھ کر کام کر کے دکھایئے۔ بعض علاقے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں جماعت کی مقامی کمیٹیاں قریب المرگ ہوتی ہیں یا بالکل ہی سرد پڑ چکی ہوتی ہیں۔ مختلف وجوہات کی بناء پر جماعت کے مختلف عہدیداروں کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے وہ سست ہوں یا ممکن ہے یکسر نااہل ہوں۔ وہ ایسے باصلاحیت لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو ایک طویل عرصے سے مسلسل محنت کر کر کے تھک چکے ہیں اور اب ان میں مزید بوجھ اٹھانے کی تاب نہیں رہی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ محض اپنا ٹہکا جمائے رکھنے کے لئے عہدیداری کی کرسی پر متمکن رہنے کے خواہشمند ہوں، او ریہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ کے اصولوں سے کھلا اور مبنی بر بغض اختلاف رکھتے ہوں۔ وجہ کچھ بھی ہو، اگر پارٹی لیڈران کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تو آپ کو ان کی اصلاح کرنے، ان کی جگہ دوسرے افراد لانے یا خود ان کی جگہ لینے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ جماعت کی چند اضافی گروہی سرگرمیوں میں حصہ لیجئے مثلاً یوتھ گروپ، خواتین گروپ وغیرہ۔ اگر آپ کے علاقے میں ایسی کوئی سرگرمی موجود نہیں تو اس کے آغاز کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیجئے۔ اگر آپ اپنی جماعت کے تنظیمی ڈھانچے اور قواعد و ضوابط سے پوری طرح واقف نہیں، تو پارٹی کے ضوابط کی نقل حاصل کیجئے، ان کا مطالعہ کیجئے اور ان کی پابندی کیجئے۔ اس کے بعد پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کیجئے۔ وہاں آپ کو پارٹی کے موجودہ لیڈروں اور سرگرم کارکنوں سے ملاقات کرنے کا موقع میسر آئے گا، اور وہ بھی آپ سے واقف ہو جائیں گے۔ اگر آپ کی جماعت کی مقامی کمیٹی میں کوئی جگہ خالی ہو اور آپ کو اس کے لئے پیشکش کی جائے تو قبول کرنے میں ردوقدح نہ کیجئے۔ ایسے اجلاسوں کے دوران اپنی آنکھیں اور کان کھلے، اور منہ بند رکھئے اور جب تک تمام طریق ہائے کار سے مکمل واقفیت حاصل نہ ہو جائے، غیرضروری جوش اور سرگرمی کا مظاہرہ مت کیجئے۔ عموماً یہ اجلاس بہت زیادہ دلچسپی کے حامل نہیں ہوتے۔ بوریت سے بچنے کے لئے اپنے ساتھ پڑھنے یا لکھنے کا کوئی کام لے جایئے اور اجلاس کے غیردلچسپ حصوں کے دوران خود کو اس میں مصروف رکھئے۔ زیادہ تر علاقوں میں جماعتی عہدیداروں میں خاصی تیزی سے تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ایسے میں اپنے لئے کوئی عہدہ حاصل کرنے کے لئے جوڑ توڑ مت کیجئے۔ اگر آپ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے تو غالب امکان ہے کہ کوئی نہ کوئی خود ہی آپ سے کوئی ذمہ داری سنبھالنے کی درخواست کر دے گا۔ ایسے ذمہ داریوں کو قبول کر لیجئے اور انہیں اچھے طریقے سے نبھایئے۔ جلد ہی آپ کو جماعت کے مقامی دفتر میں کوئی نہ کوئی عہدہ سونپ دیا جائے گا لیکن یاد رکھئے کہ جماعت میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے لئے آپ کا دفتری عہدیدار ہونا ضروری نہیں۔ اپنی جماعت کے اچھے امیدواروں کے فنڈ میں چندہ دیجیے۔ مالی معاونت آپ کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ جماعت کی چندہ جمع کرنے کی مہمات میں حصہ لیجئے۔ اپنی مقامی جماعتی کمیٹیوں کو مالی معاونت فراہم کیجئے۔ جماعتی سرگرمیوں کے دوران کسی بھی اچھے کارکن سے ملاقات ہو تو اس کے ساتھ مضبوط عملی تعلقات استوار کیجئے۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جس کی پیروی کرنے والے، خواہ تھوڑے بہت ہی سہی، موجود ہوں، یعنی ایک ایسا فرد جو دوسروں پر رسوخ رکھتا ہو۔ اپنے علاقے کے ایسے افراد کی فہرست کا جائزہ لیجئے جنہیں آپ جانتے ہیں، جو آپ کی جماعت میں سرگرم حیثیت میں شامل ہیں یا ایسے جنہیں شامل ہونا چاہئے۔ اپنے علاقے کے چیدہ چیدہ افراد کو کسی روز رازداری سے اپنے گھر جمع کیجئے اور ان کے ساتھ اپنے علاقے کی سیاست کے مستقبل، مسائل اور دیگر سماجی سرگرمیوں پر گفتگو کیجئے۔ بعد ازاں دیگر شرکاء بھی ایسے اجلاسوں کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ اجلاس کے دوران ہلکی پھلکی تواضع کا اہتمام رکھئے۔ ایسے ہر اجلاس میں دیگر بااثر افراد سے اس ضمن میں مشورے طلب کیجئے کہ اور کس کس کو اس اجلاس میں مدعو کیا جانا چاہئے۔ یہ البتہ ذہن نشین رکھئے کہ ایسے اجلاسوں میں شامل ہونے والے تمام افراد قابل اعتماد اور بااصول ہوں اور سیاسی و مالی وسائل کے مالک ہوں۔ موجودہ شرکاء کے اتفاقِ رائے سے نئے شرکاء کو مدعو کیجئے۔ ایسے معزز اور بارسوخ افراد پر اپنی توجہ مرکوز رکھئے جن میں معاملات کو حرکت میں لانے اور ان پر اثرانداز ہونے کی اہلیت موجود ہو۔ ایسے اجلاسوں میں اپنی جان پہچان کے دیگر لیڈروں کو بھی مدعو کیجئے۔ ذاتی مرکزی مفادات سے قطع نظر، آپ کے اجلاس میں شامل ہونے والے ہر فرد کو متفق علیہ نکات پر باہم مل کر کام کرنے کے لئے آمادہ اور رضامند ہونا چاہئے۔ ہر دو یا چار سال کے بعد جماعتی کمیٹیوں کو اپنی تجدید کرنی چاہئے۔ عوامی امیدواروں کے انتخاب پر جماعتی کمیٹیاں اکثر و بیشتر کسی نہ کسی حد تک اثرانداز ہو سکتی ہیں لیکن بعض اوقات اس ضمن میں وہ فیصلہ کن قوت کی حامل ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں نامزد امیدواروں کے انتخاب میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ مقامی اور قومی انتخابات کی آمد سے قبل اپنی مقامی جماعتی کمیٹیوں کی سرگرمیوں کے شیڈول کے ذریعے ان کے کردار کے متعلق معلومات حاصل کیجئے۔ براہِ راست پُراثر خط و کتابت اور رابطے کے اصولوں سے واقفیت حاصل کیجئے اور مقامی کارکنوں اور عطیات دینے والوں کے پتوں اور ٹیلی فون نمبرز کی فہرست تیار کیجئے۔ اپنے علاقے میں غیرجماعتی سرگرمیوں میں شامل لیڈروں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کیجئے۔ مثلاً شہری تنظیمیں۔ مسجد کمیٹیاں۔ کام کرنے کے حقوق کے حامی گروپ۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کی ایسوسی ایشنز۔ ریٹائرڈ ملازمین کے گروپ۔ ثقافتی اور نسلی گروپ۔ روایتی اقدار کی پاسداری کی جدوجہد کرنے والے گروپ۔ قومی سطح کے گروہوں کے ساتھ رابطے قائم کیجئے تاکہ اپنے علاقے میں ان کے کارکنوں کو تلاش کرنے اور اپنی جماعت میں شامل کرنے میں آمادہ کرنے پر کام کیا جا سکے۔ ان سب کو اپنی اپنی اہلیت کے مطابق مختلف مواقع پر جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے تیار رکھئے۔ سب سے آخر میں، ایک اجلاس بلایئے جس میں سب جماعت کے فیصلوں کی پُرجوش تائید و حمایت کرنے کا عہد کریں۔ جماعت کی قیادت کو مختلف مشورے اور تجاویز ارسال کی جا سکتی ہیں۔ ایسے اجلاس کے اختتام پر، ہر ایک کو یاد دلایئے کہ اس نے اپنے اتحاد کے امیدواروں کی کامیابی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جدوجہد کرنے کا عہد کیا ہے۔ فون اور خط و کتابت کے ذریعے حمایت کنندگان (سپورٹرز) کی ایک ممتاز فہرست تیار کیجئے۔ یہ وہ افراد ہوں گے جنہوں نے آپ کے منعقد کردہ اجلاسوں میں حصہ لیا ہے، اس کے علاوہ جماعت کے دیگر کارکن، عطیات دہندگان، عوامی نمائندے اور علاقائی سرگرمیوں کے حوالے سے ممتاز لیڈر۔ ایسے افراد سے مختلف جماعتی معاملات پر رابطہ قائم کیا جائے تو اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مقامی یا عام انتخابات اور جماعتی کنونشنز کے عمومی شرکاء سے خط و کتابت کیجئے اور ان سے حمایت کے لئے درخواست کیجئے۔ لوگ ایسی درخواستوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اپنے خط میں ووٹ دینے کے وقت اور مقام کی نشاندہی وضاحت سے کیجئے۔ خط کے ساتھ ایک جوابی لفافہ اور جوابی فارم یا کارڈ بھی شامل کیجئے جس کے ذریعے لوگ اپنی سیاسی وابستگی کی یقین دہانی کرا سکیں اور مالی عطیات کے ذریعے بھی حصہ ڈال سکیں۔ آپ کی پارٹی کے چند ارکان کے پاس ایسی فہرستیں موجود ہونی چاہئیں۔ لیڈروں کو اپنی فہرست میں موجود افراد کو ذاتی طو رپر خصوصی خط روانہ کرنے چاہئیں جن میں انہیں جماعتی کنونشنز، سیاسی اجلاس، عوامی میٹنگز اور مظاہروں میں شرکت کرنے کی دعوت دی جائے۔ ان خطوط میں اپنی تمام سرگرمیوں کے لئے حمایت کی درخواست کیجئے۔ اپنی درخواست کو دہرانے سے ہچکچایئے مت۔ لوگوں سے مختلف انداز میں ایک سے زائد بار درخواست کی جائے تو وہ زیادہ بہتر ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یاد رکھنے کے لئے چند باتیں انتخابات انفرادی لیڈروں یا سیاسی جماعتوں کے لئے ان کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کا نکتہ عروج ہوتے ہیں۔ جمہوری دنیا کا سب سے اہم عامل انتخابات ہی ہیں۔ یہ آپ کے خیالات، نظریات، افعال، جان توڑ محنت اور خصوصاً عام آدمی یا ووٹر کے ساتھ آپ نے اپنی زندگی میں جو تعلق قائم کیا ہے، اس کی واپسی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی فرد دوسروں کا دل جیتنے میں کس قدر پُراعتماد ہے۔ تاریخ عالم میں ایسی جمہوریت سب سے پہلے قدیم یونان میں متعارف کرائی گئی جس میں ملک کے شہری براہِ راست شریک ہوتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی یونانی ریاستوں میں اس نظام کا اطلاق اور اہتمام کرنا خاصا آسان تھا۔ لیکن آج کے بڑے بڑے ملکوں میں شہریوں کی اکثریت براہِ راست شرکت کے بجائے اپنے نمائندے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے۔ انتخابات جمہوری نظام کا اہم ترین جزو ہیں۔ انتخابات کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی، اس کے متعلق تاریخ خاموش ہے لیکن قدیم دنیا میں بھی یہ تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا۔ ابتداء میں ووٹ دینے یا رائے کا اظہار کرنے کا نظام خفیہ نہ رکھا جاتا تھا یعنی رائے شماری کھلے عام منعقد کی جاتی تھی۔ جان سٹوارٹ مل اور چند دوسرے یورپی فلاسفر بھی اسی نظام کی حمایت کرتے رہے۔ ڈنمارک میں یہ نظام 1910ء تک عملی صورت میں قائم رہا اور امریکہ اور برطانیہ میں 1870ء تک۔ اس کے بعد ان تمام ملکوں میں ’’خفیہ رائے شماری‘‘ کا طریقہ اپنا لیا جو کہ اب پوری دنیا میں جمہوری انتخابات اور غیرجمہوری موضوعات کے علاوہ دیگر کسی بھی طرح کی رائے شماری کے نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ تجربات شاہد ہیں کہ انتخابات کا باقاعدگی اور تسلسل سے انعقاد عوام کے سیاسی شعور کی پختگی اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قانونی نکتہ نظر سے، جیورس پروڈنس (Jurisprudence) قانون کی سائنس ہے اور سیاست خصوصاً جمہوری سیاست میں، انتخابات سے مراد تمام سیاسی جدوجہد، محنت، ذاتی نظریات کی مقبولیت اور پسندیدگی کا ماحصل ہے اور اس امر کی علامت ہے کہ ایک عام آدمی کی نگاہ میں آپ کس حد تک قابل اعتماد ہیں۔ لیکن ان سب باتوں میں کامیابی حاصل کر لینے کا مطلب کامیابی نہیں ہوتا۔ انتخابات سے پہلے مہم چلانے، منشور بانٹنے اور لوگوں کو تحریک دینے کا وقت بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے دن کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر انتخابی مہم اور مقررہ دن کے لئے پوری طرح تیاری نہ کی جائے تو غلطیاں اس تمام محنت کو لاحاصل بنا سکتی ہیں جو آپ نے کئی سالوں میں لوگوں کو حرکت میں لانے اور اپنی پہچان بنانے کے لئے کی ہے۔ بہت سے ایسے مقامی لیڈروں کی مثال دیکھنے میں آتی ہے جو دوسروں کو اپنے مؤقف پر قائل کرنے کی عمدہ صلاحیتوں کے مالک نہ تھے لیکن انتخابی مہم چلانے کے ہنر سے پوری طرح واقف تھے، جانتے تھے کہ کس وقت کس حربے کا استعمال مناسب رہے گا اور کون سی ترکیب صرف انتخابات کے دن ہی قابل استعمال اور نفع بخش ہوگی۔ ایسے لیڈروں کی کامیابی کا تناسب دوسروں سے کافی زیادہ ہوتا ہے۔ لیڈرشپ خصوصاً سیاسی لیڈرشپ میں اپنے آپ کو منوانے کے لئے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لینا پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے دو ہی صورتوں میں نکلے گا۔ آپ کی فتح یا آپ کی شکست۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ جیتنے کی صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہئے۔ جیتنے کے بعد آپ ضرور پہلے سے زیادہ عقلمند ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ تقریباً ہر کوئی آپ کو بتاتا ہوا ملے گا کہ آپ کتنے عقلمند اور ذہین ہیں۔ ویسے بتائیں گے سبھی اور ایسے انداز میں کہ آپ نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ حتیٰ کہ آپ کے پرانے دوست بھی آپ کے لطیفوں پر زیادہ زور سے قہقہے لگائیں گے… لیکن آپ کو عقلمند کہہ دینے سے آپ عقلمند بن نہیں جائیں گے۔ آپ کی عقلمندی کی وجہ یہ ہوگی کہ اب آپ امیدوار نہیں رہے۔ ہر امیدوار، امیدوار بنتے ہی اپنے آئی کیو میں سے تقریباً 30 پوائنٹ سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیتنے کے بعد زیادہ تر افراد ان میں سے چند پوائنٹ واپس حاصل کر لیتے ہیں۔ اور ہارنے والے، جیتنے والوں سے کہیں زیادہ تیزی سے اپنی کھوئی ہوئی عقل بحال کر لیتے ہیں۔ جیتنے والے کی حیثیت سے اب آپ کو نئے مسائل اور نئے مواقع کا سامنا ہے، اور ایک پرانے دوست اور قریبی اتحادی کی حیثیت سے، اب جبکہ امکانات کے سارے در کھلے ہیں، مجھے امید ہے کہ میری نصیحت آپ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی۔ اس وقت آپ جو فیصلے کریں گے ان میں سب سے اہم فیصلے اپنے سٹاف کے متعلق ہوں گے۔ آپ کا سٹاف آپ کی پالیسی ہے۔ اگر آپ ایک ایسا سٹاف منتخب کرتے ہیں جو آپ کی پالیسی کی ترجیحات میں آپ کا ہم خیال ہے تو آپ اپنے ایجنڈا کے زیادہ تر نکات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو آپ ایسے بہت سے اہم کام کرنے سے محروم رہ جائیں گے جنہیں مکمل کرنے کی توقع اس وقت آپ لگائے ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کو آپ منتخب کریں گے انہیں اپنے طور پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ اگر ان کی جگہ تمام فیصلے آپ کر سکتے تو انہیں کبھی منتخب نہ کرتے۔ ایک پرانی کہاوت ہے ’’اگر بھونکنا بھی خود ہی ہے تو کتا پالنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ بااصول نااہلی ایک خطرناک چیز ہے اور یقینا آپ کے لئے کسی صورت مفید نہیں۔ لیکن بے اصول اہلیت ہلاکت خیز ہے۔ ایسے لوگوں کو منتخب کیجئے جن کی آپ سے وفاداری کی بنیاد آپ کے اصولوں پر ہو، آپ کی منفعت انگیزی پر نہیں۔ اگر آپ اپنے انتخاب کی بنیاد غلط سوچ پر رکھیں گے تو آپ کا سٹاف یقینا آپ کو غلط سمت میں گھسیٹ لے جائے گا۔ آپ اپنی سیاسی بنیاد تباہ کر بیٹھیں گے اور اپنے مقرر کردہ اہداف میں سے زیادہ تر کو حاصل نہیں کر سکیں گے۔ آپ کے منتخب کردہ تمام لوگ عین آپ جیسے عقائد کے حامل نہیں ہو سکتے۔ دو افراد کے درمیان حقیقی اتفاقِ رائے کبھی ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اختلاف نکل ہی آتا ہے۔ دائیں بازو سے بھی اتنے ہی لوگوں کو منتخب کریں جتنے لوگوں کو آپ بائیں بازو سے منتخب کرتے ہیں۔ گورننگ مختلف ذرائع سے چلائے جانے والی مہم کا نام ہے۔ آپ کو ہمیشہ ایک محفوظ بنیادی حلقہ تیار کرنا چاہئے۔ جن لوگوں کو آپ امورِ حکومت کی انجام دہی کی منتخب کرتے ہیں انہیں ان عوام کا نمائندہ ہونا چاہئے جنہوں نے آپ کو منتخب کیا ہے۔ منتخب کرنے والی جماعت اور عوام کے لئے اس سے زیادہ کوئی امر باعث اطمینان نہیں ہوتا کہ آپ کے سٹاف میں ان کی خاطرخواہ نمائندگی موجود ہے۔ اگر مخصوص سیاسی قوتیں جنہوں نے انتخابات میں آپ کی حمایت کی تھی، اب آپ کے سر سے اپنا دست شفقت ہٹانے کا فیصلہ کر لیں تو وہ آپ پر دبائو ڈالنا شروع کر دیں گی۔ اور جب کبھی آپ کسی طرح کے مسائل سے دوچار ہوئے (ہر منتخب فرد کو مسائل سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے) تو وہ خودبخود آپ کی مدد کو نہیں دوڑیں گی بلکہ خود سے سوال کریں گی۔ ’’زحمت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اپنے یقین کو متزلزل نہ ہونے دیں۔ دوستوں کو دشمن بنا کر آپ دشمنوں کو دوست نہیں بنا سکتے۔ اس حقیقت کے ساتھ زندہ رہنا سیکھئے کہ اگر آپ اپنے فرائض کو دیانتداری سے انجام دیں گے تو بعض لوگوں کے نزدیک یقینا ناپسندیدہ ٹھہریں گے۔ آپ خواہ کچھ بھی کر لیں کوئی نہ کوئی آپ کا دشمن ضرور بنے گا۔ ایسے لوگ کبھی آپ کو اپنی نظرکرم کا سزاوار نہیں سمجھیں گے لہٰذا ان کی نظرکرم حاصل کرنے کی فکر بھی مت کیجئے۔ البتہ آپ ان میں سے زیادہ تر کو اپنا احترام کرنے پر ضرور مجبور کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کوشش کریں گے تو ناخوشگوار باتوں کو خوشگوار انداز میں کہنے کے فن سے واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنے وعدوں کو نبھانے سے آپ اپنے دوستوں کی دوستی برقرار رکھ سکتے ہیں اور اپنے زیادہ تر دشمنوں سے کم ازکم احترام ضرور حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ کی جماعت کی زیادہ تر ارکان کے نزدیک آپ اتنی اہمیت کے حامل نہیں کہ وہ آپ کو مرکز کائنات سمجھنے لگیں۔ آپ کی حیثیت ایک مقصد کی سی ہے جس کے لئے انہوں نے لڑنا اور جدوجہد کرنا گوارا کیالیکن ان میں سے زیادہ تر اس سے پہلے بھی دیگر اچھے مقاصد کے لئے جدوجہد کر چکے ہیں اور آپ کے عرصۂ اقتدار کے دوران اور اس کے بہت بعد میں بھی، مزید اچھے مقاصد کے لئے جدوجہد کرنے کی نیت بھی رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک طویل کھیل میں حصہ لے رہے ہیں۔ ممکن ہے کھیل میں اس وقت گیند آپ کے پاس ہو لیکن ان کی طویل مدتی دلچسپی کھیل میں فتح حاصل کرنے سے ہے، گیند قبضے میں رکھنے سے نہیں۔ لہٰذا آپ کو اپنے افعال سے ان پر ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کی دلچسپی کا مرکز بھی کھیل میں فتح حاصل کرنا ہے، محض اخباروں میں تصویر چھپوانے والا چمکتا دمکتا ستارہ بننا نہیں۔ میڈیا نے آپ کو منتخب نہیں کیا، بھلے وہ اپنے تئیں ایسا ہی کیوں نہ سمجھتے ہیں۔ آپ کو آپ کے ووٹرز نے، خصوصاً آپ کے اتحاد نے، منتخب کیا ہے۔ آپ اپنے ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے میڈیا پر انحصار نہیں کر سکتے۔ اپنے رائے دہندگان اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ کمیونیکیٹ کرنے کے لئے ایسے ذرائع اختیار کریں جنہیں میڈیا کے فلٹر لگانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اپنے بنیادی حلقے پر توجہ مرکوز رکھئے۔ اس کے ارکان کو خط لکھئے، ان سے ملاقاتیں کیجئے، انہیں احترام دیجیے، ان پر فخر کا اظہار کیجئے، ان کی سرگرمیوں کو سپورٹ کیجئے، ان کے اہم مواقع میں شرکت کیجئے، ان کی ترجیحات میں شریک ہونے والے دوسرے سیاستدانوں اور کارکنوں کی مدد کیجئے۔ لوگ سیاستدانوں سے خودغرض ہونے کی توقع رکھتے ہیں لہٰذا ایسے سیاستدان ان کی توجہ اور محبت کا خصوصی مرکز بنتے ہیں جن کے افعال ان کی بے غرضی کے مظہر ہوں۔ ہر ایسا نکتہ جو آپ کے سیاسی اتحاد کے نزدیک کسی اہم معاملے میں کلیدی ترجیح کی حیثیت رکھتا ہو، وہ آپ کی ترجیحات میں بھی شامل ہونا چاہئے۔ زیادہ تر لوگوں کو اس بات کا احساس ہوگا کہ چیک اینڈ بیلنس اور اختیارات کی علیحدگی کے اس نظام میں آپ ہر کام اپنے حسب خواہش انجام نہیں دے سکتے۔ لیکن آپ کو ہر وہ بات کہنی اور کرنی چاہئے جوثابت کرے کہ آپ اپنے سپورٹرز کی معقول توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ مکمل فتح بڑی فرحت انگیز لیکن بڑی کمیاب ہے۔ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ چھوٹی چھوٹی فتوحات کی سیڑھیاں چڑھ کر بڑی فتح تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں اور بعض اوقات آپ کو اچھے مقاصد کے لئے ہاری ہوئی جنگیں بھی لڑنا پڑیں گی۔ سیاست میں کامیابی سے پہلے یا بعد مثالی حالات کی توقع رکھنا اکثر خیال و خواب کی حد تک ہی رہتا ہے، حقیقت کے روپ میں اس کا ظہور بہت کم ہوتا ہے۔ بات اگرچہ کسی قدر انوکھی ہے لیکن سچ ہے کہ جب کوئی سیاستدان بااصول انداز میں کسی مقصد کے لئے جنگ لڑے اور ہار جائے، یا کسی مقصد کے خلاف جدوجہد کرے اور جیت جائے تو اسے نقصان کا سامنا بہت کم کرنا پڑتا ہے۔ وعدے کرنے میں محتاط رہئے لیکن جب وعدہ کر لیں تو پھر ہر حال میں اسے پورا کیجئے۔ آپ کے پاس دو اثاثے ہوتے ہیں، آپ کے وعدے اور آپ کی دوستیاں۔ دونوں میں سے کسی ایک کو نبھانے میں کوتاہی کریں تو اپنی سیاسی موت کا سبب بنیں گے۔ سیاست سیکھنے کا ایک مسلسل عمل ہے لیکن دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کیجئے۔ مختلف معاملات پر اپنے سینئرز کی ماہرانہ رائے حاصل کیجئے۔ اب ایک نظر ڈالتے ہیں ان کاموں پر جو ایک ہارنے والے لیڈر کو کرنے چاہئیں۔ بعض امیدوار اس لئے ہارتے ہیں کہ ان کے پاس انتخابی مہم چلانے کے لئے خاطرخواہ پیسہ نہیں ہوتا اور پوری کوشش کرنے کے باوجود وہ مناسب مالی وسائل کا انتظام نہیں کر پاتے۔ بعض اس لئے ہارتے ہیں کہ وہ کسی غلط انتخابی حلقے سے کھڑے ہوتے ہیں مثلاً ایسا حلقہ جہاں کی سیاسی روایات ان کی پارٹی کے حق میں نہ ہوں یا ایسا حلقہ جس کے رائے دہندگان ان کے نظریات سے اتفاق نہ رکھتے ہوں۔ لیکن بہت سے ہارنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو جیت سکتے تھے، اگر وہ مندرجہ ذیل غلطیوں میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ کے مرتکب نہ ہوتے: 1۔ اپنی انتخابی مہمات خود نہ چلانا اگر کوئی امیدوار اپنی انتخابی مہم کا انتظام و انصرام خود کرنے کے بجائے ’’انتظام کاروں‘‘ کے سپرد کر دے، تو خواہ وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، انتخابی مہم کا انتظام اور متعلقہ ضروریات دوسروں کے ہاتھوں میں چلی جائیں گی اور توقع سے مختلف نتائج برآمد کرنے کا سبب بنیں گی۔ امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم اپنے زیر نگرانی چلانی چاہئے اور ضروریات کے مطابق انتظامات کرنے چاہئیں۔ بعض نہایت مقبول لیڈروں کو انتخابات میں اسی لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑ رہے تھے اور تمام انتخابی مہمات کا بیک وقت انتظام کرنے سے قاصر تھے۔ برطانیہ میں چرچل اور فرانس میں ڈیگال بے حد مقبول اور بااثر لیڈر تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اپنے ملک کو ہٹلر نامی طوفان سے بچانے میں کامیابی حاصل کرنے پر اپنے اپنے ملک میں انہیں ہیرو کا مقام دیا جا رہا تھا۔ لیکن دونوں لیڈر دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی مضبوط پوزیشن کو مضبوط تر بنانے میں کامیاب نہ رہ سکے۔ جو ساکھ انہوں نے بنائی تھی، اس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے اور انتخابات میں ہار گئے۔ 25 جولائی 1945ء کو چرچل روس کے سٹالن اور امریکہ کے ٹرومین کو جرمنی میں چھوڑ کر جنگ کے بعد منعقد ہونے والے پہلے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی کے لئے لندن واپس پہنچے۔ انتخابی نتائج چرچل اور پوری دنیا کے لئے ایک غیرمتوقع دھچکا ثابت ہوئے۔ لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ چرچل کی کنزرویٹو پارٹی کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور کلیمنٹ ایٹلی برطانیہ کے نئے وزیراعظم بن گئے۔ 2۔ پیسہ اکٹھا کرنے یا ووٹ مانگنے کے لئے خود باہر نکلنے کے بجائے زیادہ تر وقت ہیڈکوارٹر میں بند رہنا۔ کسی بھی امیدوار کے لئے حتی الوسع حد تک متحرک رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جو لوگ ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے نقشوں، برادریوں کی پوزیشن اور فہرستوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور عوام سے ذاتی طور پر رابطہ کرنے کے لئے کم وقت نکالتے ہیں، اپنی کامیابی کو اپنے ہاتھوں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں جاگیردار ووٹرز کو زیادہ تر اپنی حویلیوں میں بلایا کرتے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ، امیدوار اور کارکنان گھر گھر جا کر مہم چلا رہے تھے۔ طریقہ کار کے اس فرق کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کے عام ورکرز کے مقابلے میں روایتی بڑوں کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئیں۔ 3۔ انتخابی مہم کے لئے پیشگی جامع منصوبہ بنانے اور ایک ٹائم ٹیبل اور ایک حقیقت پسندانہ بجٹ تیار کرنے میں ناکامی۔ سیاست میں کام کے آغاز میں تاخیر ممکن ہے لیکن تقدیم نہیں یعنی کام تاخیر پذیر ہو سکتے ہیں لیکن کسی کام کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وقت سے پہلے شروع کر دیا گیا ہے۔ ہارنے والوں کی انتخابی مہمات میں تقریباً ہمیشہ ترجیحات کی ترتیب غلط ہوتی ہے اور وہ ایسے نکات پر بہت زیادہ زور صرف کر دیتے ہیں جو انتخابات کے نتائج پر بہت کم اثر ڈالتے ہیں۔ انتخابات نام ہیں ’’گنتی‘‘ کا، اور آخری بیلنس شیٹ کے لئے اعداد کی جمع تفریق کی سائنس کا نام ریاضی ہے۔جب یہ جمع تفریق منظم انداز اور درست ترتیب کے ساتھ کی جائے تو اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اسی طرح انتخابات بھی اپنی سیاسی تائید و حمایت کی گنتی کرنے کی سائنس ہیں۔ یہ گنتی منظم انداز اور درست ترتیب کے ساتھ کی جانی چاہئے۔ کسی ہاری ہوئی انتخابی مہم میں کود پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں اور اپنی انتخابی مہم کی معروضی صورتِ حال کا جائزہ لے کر اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہئے۔ اس امر کو ہمیشہ مدنظر رکھئے کہ اپنی ’’گنتی‘‘ بڑھانا کسی بھی انتخابی مہم کا اہم ترین جزو ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ اچھا سالار کبھی ہاری ہوئی جنگ نہیں لڑتا۔ ونسٹن چرچل نے ایک موقعے پر کہا تھا۔ ’’سیاست بھی کم و بیش جنگ کے جیسی ہیجان انگیز ہے اور اتنی ہی خطرناک بھی۔ جنگ میں تو آپ کو صرف ایک دفعہ مرنا پڑتا ہے لیکن سیاست میں کئی دفعہ موت آتی ہے۔‘‘ 4۔ ایسے مشیروں کی خدمات حاصل کرنا جو بجٹ کا زیادہ تر حصہ اپنی ذات پر صرف کر دیں۔ 5۔ مہم کے لئے مختص کردہ بجٹ کا زیادہ تر حصہ متعلقہ سرگرمیوں کے لئے ایک بڑی تنظیم بنانے کے بجائے میڈیا اور پولنگ پر خرچ کر دینا۔ اگر امیدوار میڈیا مہم پر بہت زیادہ خرچ کر دے لیکن افراد کی تنظیم اور انتخابات کے مقررہ دن کے لئے مہم کی سرگرمیوں پر توجہ نہ دے تو وہ یقینا ہار جائے گا۔ الیکشن کے دن کے لئے کارکنوں کی تنظیم کرنا کسی بھی انتخابی مہم میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک لے جانے اور رہنمائی کی سہولت فراہم نہ کی جائے تو ووٹ ڈالنے کی شرح گر جاتی ہے اور جن لوگوں نے اس مخصوص دن کے لئے تیاریاں نہیں کی ہوتیں، سب سے زیادہ نقصان میں رہتے ہیں۔ 6۔ سپورٹرز کے مرکزی حصے کے لئے باعث تحرک معاملات پر زور دینے میں ناکامی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں، پرانے اور تجربہ کار لیڈروں اور جماعتوں کے مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو کی کامیابی کا ایک بڑا سبب یہی تھا کہ انہوں نے ایسے معاملات اور مسائل پر بار بار زور دیا جو عوامی اہمیت کے حامل تھے۔ روزمرہ کے مسائل اور بنیادی ضروریات کو انہوں نے ایک انتخابی نعرے میں جمع کر دیا تھا۔ روٹی، کپڑا اور مکان۔ انہوں نے عوام کے سامنے ان مسائل کو حل کرنے کا عزم ظاہر کیا جبکہ دوسرے لیڈر عوام کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ نتیجتاً عوامی دھارے کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف مڑ گیا اور فتح بھٹو کے حصے میں آئی۔ 7۔ عوامی رائے شماریوں سے غلط تاثر لے لینا۔ ایسی رائے شماریاں ترجیحات تو ظاہر کر دیتی ہیں لیکن ان کی شدت کا تعین کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ سیاست میں لوگوں کو تحریک شدت سے ملتی ہے، ترجیحات سے نہیں۔ 8۔ مختلف طرف سے پڑنے والے دبائو کی وجہ سے ایشوز پر کوئی ایک پوزیشن اپنا لینا (یا بعض اوقات اپنی پوزیشن تبدیل کر لینا) 9۔ اپنی انتخابی مہم کے مرکزی حصوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے معمولی تنقیدوں پر ردِعمل ظاہر کرتے رہنا۔ جو امیدوار ہر وقت اپنا دفاع کرتا رہے، وہ اکثر ہار جاتا ہے۔ 10۔ مخالفین، میڈیا یا دونوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی منفی اطلاعات پر مناسب ردِعمل ظاہر کرنے میں ناکام رہنا۔ یاد رکھئے کہ کسی منفی ایشو کو نظرانداز کر دینے سے اس کا وجود ختم نہیں ہو جاتا۔ جیتتا کون ہے؟ لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کی زحمت بڑی باقاعدگی سے دی جاتی رہتی ہے اور انتخاب کنندگان، سامنے آنے والے مختلف افراد یا مختلف جماعتوں کی طرف سے پیش کئے پروگرامز یا پالیسیز کے حق میں اپنا ووٹ ڈالتے رہتے ہیں۔ اس عمل کو ’’مینڈیٹ دینے‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر منتخب ہونے والے عوام کے اعتماد پر پورے نہ اتر سکیں تو اگلے انتخابات میں مینڈیٹ واپس لے لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت، خواہ وہ اقتدار میں ہو یا اختلاف میں، مستقبل میں پوشیدہ انتخابات کو بھلانے کی جسارت نہیں کر سکتی۔ آخری اپیل کا فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور برسراقتدار جماعت کو ہمیشہ انہیں یاد رکھنا چاہئے جو اسے اقتدار میں لائے ہیں۔ عوام کے سامنے جواب دہ اور ذمہ دار ہونے کا خیال حکومت کو ہمیشہ چوکس رکھتا ہے اور ذاتی فائدے کے لئے اختیارات کے استعمال کے امکانات ختم کر دیتا ہے۔ منتخب ہونے والے کسی امیدوار کی اہلیت کے متعلق کسی عمومی اصول کا وجود نہیں ہے۔ صرف جمہوریت میں عام آدمی کے دل کی آواز کو احترام دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اختلاف کے نتائج کو مناسب و موزوں انداز میں جانچا جاتا ہے۔ ملک چلانے کے لئے ذمہ دار افراد کا انتخاب کرنے میں ہمیں غیرمتعلق خصوصیات سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر، کسی کی پُرکشش شخصیت اور دل جیت لینے والی مسکراہٹ اس کی قابلیت کی ضمانت نہیں ہے۔ اس کے برعکس، بزنس کے لئے رنگروٹوں کا انتخاب کرنے والے کبھی کسی ایسے فرد کا انتخاب نہیں کریں گے جس کا واحد ٹیلنٹ الیکشن میں منتخب ہونا ہو۔ اچھی انتظامیہ کی خدمات حاصل کرنے کے لئے کسی بھی بزنس میں ٹیلنٹ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ تجارتی ادارے اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ کسی عہدے کے لئے زیادہ سے زیادہ اچھے امیدواروں سے ملاقات کریں اور بعض اوقات حتمیفیصلہ کرنے سے پہلے وہ امیدواروں سے تین تین چار چار ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اس طریقہ کار کا موازنہ لیڈر شپ ریس سے کیجئے جہاں شخصی کشش اور جماعت کی فوری رکنیت کو تجربے اور اہلیت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک دفعہ کسی نے مجھے بتایا تھا کہ کینیڈا میں منتخب ہونے کے لئے درکار خصوصیات، اپنے عہدے کو دانشمندی سے استعمال کرنے کے لئے درکار خصوصیات سے بالکل متضاد ہیں۔ لیڈر شپ کے مباحث یا انتخابی مہم کے دنوں میں عموماً ووٹر اسی امیدوار کو دیکھ پاتا ہے جو اچھے تعلقات رکھتا ہو اور اپنے وسائل کو عمدگی سے استعمال کرنے کا اہل ہو۔ کہا جاتا ہے کہ کامیابی کے لئے ضروری خصوصیات میں شخصی کشش، ایک دل جیت والی مسکراہٹ ، روکھی پھیکی باتیں ہلکے پھلکے انداز میں کرنے اور ہموار انداز میں گفتگو کرنے کی اہلیت شامل ہیں۔ یہ ریکروٹنگ کی ایک کلاسیکی غلطی ہے۔ ہم امیدواروں کا انٹرویو ایک غلط جاب کے لئے کر رہے ہیں۔ جاب تو سیاسی عزائم رکھنے والے ایک فرد کی ہے نہ کہ کسی قومی لیڈر کی۔ مندرجہ صدر خصوصیات شاید کسی ٹی وی نیوز کاسٹر کے لئے بہت اچھی ہوں لیکن کسی سیاست دان کی ذمہ داریوں میں کیمرے کے سامنے مسکرانے کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔ ان سے ہٹ کر دیکھیں تو عمدہ لیڈر شپ کے لئے درکار صفات سامنے آتی ہیں۔ بصیرت، واضح نظر، عمدہ ٹیم جمع کرنے اور ہر ایک کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق ذمہ داریاں سونپنے کی اہلیت، سمجھوتے کرنے کی قابلیت اور لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کا عزم۔ ایک عام ووٹر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہ جاتا ہے کہ میرے ٹی وی پر دکھائی دینے والے امیدوار میں یہ صفات موجود ہیں یا نہیں۔ جب زور پالیسی کے بجائے ظاہری شخصیت پر دیا جا رہا ہو تو امیدواروں میں امتیاز کرنا یا ان کی پوزیشن کا تعین کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ظاہری سٹائل اور عملی اقدار کی باہمی جنگ میں، انتخابی عمل کسی نوکری کے لئے دیے جانے والے انٹرویو کی بگڑی ہوئی شکل بن جاتا ہے۔ ٹی وی پر آپ کے سامنے ایک امیدوار آتا ہے جو مہذب اور قابل نظر آنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا فرد ہے جو بڑی چالاکی سے اس کے دفاع میں گھس کر اس کے اندر چھپی ہوئی حقیقی کمزوریوں اور قوتوں کو باہر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ الیکشن میں انٹرویو لینے والے کو ایسے سوالات پوچھنے کی اجازت نہیں دی جاتی جو کسی فرد کی شخصیت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ ایسا کرنا تہذیب میں داخل نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے علاوہ، پیچیدہ معاملات پر واضح تجاویز پیش کرنے کا عمل طویل اور الجھا ہوا ہوتا ہے۔ ٹی وی پر ایسی باتیں پیش نہیں کی جا سکتیں۔ ایسی باتوں کی جگہ، لباس، سٹائل اور اطوار پر زور دیا جاتا ہے۔ امیدوار کو پہلی نظر میں چمکتا دمکتا……یا بجھا ہوا…… نظر آنا چاہئے۔ اس کے مقابلے میں، کسی نوکری کے لئے انٹرویو دینے والے امیدوار کو اپنا تاثر مرتب کرنے کے لئے کم از کم 15 سیکنڈ کی مہلت دی جاتی ہے۔ اور اگر انٹرویو لینے والے کی سوچ اور رویہ پیشہ ورانہ نہ ہو، تو وہ انٹرویو دینے والے کے کپڑوں کے رنگ یا چہرے کے تاثر کو دیکھ کر فوری فیصلہ کر لیتا ہے۔ کسی بھی فرد کو پُرسکون ہونے اور اپنا آپ دکھانے میں وقت لگتا ہے، اور جب وہ اس نہج پر پہنچ جائے تو تب انٹرویو لینے والے کے لئے وقت ہوتا ہے کہ وہ اچھے طریقے سے انٹرویو دینے میں امیدوار کی اہلیت کا اندازہ لگانے کے بجائے اصلی کام انجام دے یعنی امیدوار کی اہلیت کا کھوج لگانے کی بے باکانہ کوشش کرے۔ بہت سے انٹرویو دینے والے انٹرویو کے دوران بڑے گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن بعد ازاں بڑے باصلاحیت اور مؤثر مینیجر ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کو اگر انتخابی مہم سے متعلقہ انٹرویو کے لئے ٹی وی پر بلایا جائے تو یقینا ٹی وی دیکھنے والے کی نگاہ میں بالکل ناکام اور نااہل ٹھہریں گے۔ ووٹرز کو تجارتی اداروں میں نوکریاں دینے والوں کے اصول و ضوابط کے ایک حصے کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ عوامی خدمات انجام دینے کے متمنی امیدواروں کا جائزہ ایسے لیجئے جیسے آپ اپنی فرم میں نوکری کے لئے درخواست دینے والے افراد کا جائزہ لیتے ہیں۔ نقل کو اصل سے ممیز کرنے کے لئے، اپنے آپ سے وہ سوال پوچھئے جو حقیقی پیشہ ورانہ انداز میں انٹرویو لینے کے ذہن میں سرِفہرست ہوتا ہے۔ ’’جس کام کے لئے اس بندے کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، اس کی حقیقی ذمہ داریاں کیا ہیں اور انہیں انجام دینے کے لئے اس کی قابلیت کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے؟‘‘ اگر اپنی فرم کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے آپ کو مارکیٹنگ وائس پریذیڈنٹ کی ضرورت ہو تو ممکنہ طور پر آپ کو متناسب جسم، عمدہ لباس، دھمکتی ہوئی آواز اور موتیوں کی لڑی جیسے چمکتے ہوئے دانت رکھنے والے فرد کی تلاش ہو سکتی ہے۔ لیکن ان جسمانی خصوصیات کے علاوہ عملی تجربہ اور مسائل کا اندازہ لگانے اور حل کرنے میں اچھا ریکارڈ بھی ضروری خصوصیات ہیں۔ جسمانی خصوصیات تو پہلی نظر میں دکھائی دے جاتی ہیں لیکن ایسی خصوصیات کا سراغ لگانے کے لئے آپ کو گہرائی میں اتر کر کھوجنا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نوکری کے لئے انٹرویو لینے والوں کے سوال سیاسی امیدواروں سے لئے جانے والے انٹرویو کے سوالات میں بھی شامل کئے جا سکتے ہیں مثلاً امیدواروں نے کون سی قائدانہ خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے؟ متعلقہ ذمہ داری کے لئے ان کا تجربہ کس قدر کارآمد ثابت ہو سکتا ہے؟ ان کی کون سی کامیابیاں اس ذمہ داری کے حوالے سے کوئی اہمیت رکھتی ہیں؟ کیا یہ اتفاقِ رائے حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا یہ دبائو کے مقابلے میں کسی طرح کا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں؟ کیا یہ تنقید قبول کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اگر کامیاب لیڈر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کب سمجھوتہ کرنا ہے، تو اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ کب اپنی بات منوانی ہے۔ آج کل بہت سے لیڈر رائے شماریوں کے گھوڑے پر سوار اپنی ’’منزل‘‘ کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمیشہ رائے شماریوں کو مدنگاہ رکھنے والے امیدوار شاید انتخابات میں کامیاب ہو جائیں، لیکن لیڈر کی حیثیت سے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ رائے شماریاں ایسے معاملات کی نشاندہی کرنے میں مفید ثابت ہو سکتی ہیں جن میں لوگوں کو کسی ایک بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہو لیکن اگر کوئی لیڈر صرف انہی کی مدد سے اپنے لائحہ عمل کا تعین کرتا ہے تو وہ اپنی لیڈری کی خود ہی نفی کر دیتا ہے۔ لیڈر کا کام رائے شماریوں کی پیروی کرنا نہیں بلکہ رائے شماریوں کو اپنی پیروی کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ انتخابات کے کھردرے اور روایت شکن عمل میں، اسے اپنے پیروئوں کو آگے بڑھانے کا موقع ملتا ہے اور یہ جاننے کا بھی کہ اس کے اپنے پاس آگے بڑھنے کی کتنی گنجائش ہے۔ اگر شاہِ ایران نے بھی اپنی مہم چلائی ہوتی تو شاید اپنی شاہی سے محروم نہ ہوتا۔‘‘ اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک دفعہ ونسٹن چرچل رات کے وقت ایک خاکروب کے گھر پہنچا اور دروازے پر دستک دی۔ اندر سے خاکروب کی آواز آئی۔ ’’کون ہے؟‘‘ ’’یہ میں ہوں، چرچل۔‘‘ ’’تم ووٹ لینے کے لئے آئے ہو! یہ آنے کے لئے کوئی مناسب وقت نہیں۔‘‘ خاکروب نے جواب دیا اور مطالبہ کیا کہ چرچل اگلے روز صبح سویرے اس وقت آئے جب وہ اپنے کام پر جانے کے لئے تیار ہو۔اگلی صبح، دیئے ہوئے وقت سے پانچ منٹ پہلے، خاکروب کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اندر سے ایک بلند آواز آئی۔ ’’چرچل ہو؟‘‘ ’’جی جناب، میں چرچل ہی ہوں۔‘‘ خاکروب نے جلدی سے دروازہ کھولا، بڑے احترام سے چرچل کو گھر کے اندر لایا اور اسے نہ صرف اپنے ووٹ بلکہ دلی تائید و حمایت کا یقین بھی دلایا۔ بعد ازاں اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے چرچل نے کہا۔ ’’عزت ہمیشہ بے عزتی سہہ کر ہی حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ نوکری کے لئے درخواست دینے والوں کو مختصر دورانئے کے سرسری سے بیانات دینے کی ہدایت کرنے کے بجائے، انٹرویو لینے والے انہیں بولنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اپنی امیدوں اور اندیشوں، قوتوں اور کمزوریوں کے متعلق گفتگو کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ سچ ذرا آہستہ آہستہ ہی باہر آتا ہے۔ موجودہ ڈھانچے کے پیش نظر، سیاست اس طرح کے تجزیوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے لیکن میرے ہم وطنوں کو ایسے سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنا ہوگی، اگر وہ صرف ایسے سیاستدانوں کو منتخب نہیں کرنا چاہتے جن کا واحد ٹیلنٹ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ٭٭٭

لیڈرشپ خواتین کے لئے

[ترمیم]

لیڈرشپ کی تھیوریاں ہمیں بتاتی ہیں جو لیڈر بنے، وہ پیدا ہی قیادت کرنے کے لئے ہوئے تھے اور جب موقع آیا تو لیڈر بن گئے۔ صدیوں سے یہی عقیدہ چلا آرہا تھا کہ کچھ لوگوں میں لیڈرشپ کی خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں اور لہٰذا وہ ایسے انداز اور ایسے مناصب پر قیادت کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں جو کہ عام آدمی کے بس سے باہر ہیں۔ تقریباً ہر معاشرے میں قیادت کی منسوبہ اور اعلیٰ شکلیں ’’خدائی بادشاہوں‘‘ سے لے کر سرداروں تک کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ آج بھی، ’’پیدائشی قائد‘‘ کا تصور قبولِ عام کی سند رکھتا ہے، خصوصاً اس لئے کہ لیڈر اکثر منفرد اور اعلیٰ افراد کی حیثیت سے دوسروں سے الگ نظر آتے ہیں۔ خواتین ہمیشہ سے اس خیال کی بھینٹ چڑھتی رہی ہیں کیونکہ شروع سے یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ’’فطری‘‘ طور پر عورتیں لیڈر نہیں بن سکتیں۔ بے بنیاد ثابت ہو جانے کے باوجود، تاریخ میں یہ نظریہ بار بار زندہ ہوتا رہا ہے اور آج بھی اس پر ایمان رکھنے والے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں، مختلف ادوار میں ان گنت خواتین حکومتوں، سلطنتوں، قبیلوں اور یہاں تک کہ افواج کی بھی قیادت کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے جنگوں کا آغاز اور اختتام کیا ہے، نہایت عمدگی سے اور نہایت وحشت سے بھی، مملکتوں کا انتظام و انصرام کیا ہے، بعض خواتین کی قیادت وہاں کامیاب رہی جہاں دوسرے ناکام ہو گئے۔ تاریخ میں بعض خواتین لیڈر گمنام رہیں اور اس بارے میں بحث ہوتی رہی کہ ان کا کوئی وجود تھا بھی یا وہ محض افسانوں اور دیومالائی قصوں کی پیداوار تھیں۔ مگر خواتین حکمرانوں اور سربراہانِ مملکت کے کارنامے ہمیں معلوم تاریخ کی ابتداء سے نظر آتے ہیں اور قابل آباد براعظموں، اور بے شمار ثقافتوں اور ممالک میں ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جانا چاہئے کہ خواتین حکمرانوں کو ایک استثناء کی حیثیت حاصل رہی ہے، انتظام و انصرام کے حوالے سے بنی نوع انسان کے مجموعی تجربے اور قیادت، انتظام و انصرام اور اصناف کے حوالے سے غالب نظریات کے تناظر میں، جن میں مردوں کو ہمیشہ بالادستی حاصل رہی اور جو تاریخ اور تہذیبوں میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ خواتین لیڈروں کے مطالعے کا آغاز غالباً قدیم مصر سے کیا جا سکتا ہے جو کہ براعظم پر اتنا عرصہ غالب رہا کہ جس کی مثال معلوم تاریخ میں نہیں ملتی۔ 31 ویں صدی قبل مسیح میں ممکنہ طور پر پہلی معلوم خاتون حکمران میریت نت سے لے کر دوسری صدی قبل مسیح میں قلوپطرہ کی حکمرانی تک، مصر میں خواتین بااثر عہدوں اور بعض اوقات حکمرانی کے مناصب پر فائز رہی ہیں۔ قدیم مصر میں ملکائوں کو ہمیشہ ’’خدا‘‘ کی بیویاں ہونے کے اعتبار سے تقدیس و تحریم حاصل رہی اور ان کے پاس نہ صرف عزت و وقار اور اثر و رسوخ ہوتا تھا بلکہ بعض خاتون حکمرانوں کی حیثیت سے فرائض بھی انجام دیتی رہیں۔ ان خواتین لیڈروں میں سے بعض نے مصری ثقافت پر قابل ذکر اثرات مرتب کئے جیسا کہ پندرھویں صدی قبل مسیح میں تھیبس کی ملکہ ایہوتپ جس نے نہ صرف حکمرانی کی بلکہ مصر کے تین آئندہ حکمرانوں کو جنم بھی دیا جن میں سے ایک، اہموس نوفریتاری، لڑکی تھی۔ اس کے علاوہ براعظم افریقہ کے ذیلی صحرائی حصے میں، حکمرانوں کی بیویاں اور ان کی مائیں اکثر مشترکہ حکمران ہوتی تھیں۔ تاریخی اعتبار سے مشرقی اور وسطی افریقہ میں کئی قبیلوں اور سلطنتوں میں نسل ماں سے چلتی تھی اور وقتاً فوقتاً خواتین حکمران بھی رہیں۔ دیگر براعظموں میں بھی خواتین حکمرانوں کی ویسی ہی تاریخ نظر آتی ہے۔ تاریخ میں عرب کی ایسی ملکائوں کا تذکرہ ملتا ہے جو حکمران رہیں۔ اسی طرح، اگرچہ قدیم چین میں خواتین کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا، مگر کنفیوشس کے زمانے کی محفوظ تاریخ میں شہنشاہوں کی داشتائوں کی غیررسمی حکومت کا تذکرہ ملتا ہے اور بعض ایسی خواتین کا بھی جو قانونی حکمران تھیں۔ یورپ میں ہمیں اس کی مزید مثالیں نظر آتی ہیں جہاں خواتین نے اپنے شوہروں کی جگہ حکمرانی کے فرائض انجام دیے جو کہ جنگوں پر گئے ہوئے تھے، اور انہوں نے نشاۃ ثانیہ میں حصہ ڈالا۔ مثال کے طور پر، کیتھرین عظمیٰ نے کارہائے نمایاں سے بھرپور زندگی گزاری اور روسی، یورپی بلکہ عالمی تاریخ کے طویل ترین دورِ حکمرانی کے حامل اور مقبول ترین حکمرانوں کی فہرست میں اس کا نام آتا ہے۔ اگرچہ کوئی تحریری ریکارڈ موجود نہیں مگر زبانی تاریخ کی بدولت ہمیں پولی نیشیا اور براعظم شمالی امریکہ و جنوبی امریکہ میں خواتین حکمرانوں کا احوال سننے کو ملتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں متعدد خواتین تخت شاہی سنبھالے ہوئے ہیں جن میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم شامل ہے جن کا متاثر کن دورِ حکمرانی 1952ء سے شروع ہوا۔ ڈنمارک کی ملکہ مارگریتھ دوم اور مائوری ملکہ کونی۔ ایسی ملکائوں کی حکمرانی پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ قدیم زمانے میں کسی قوم پر حکمرانی کرنے کا پیمانہ موجودہ دور سے خاصا مختلف ہے۔ مگر کئی جدید ااقوام پر منتخب خواتین قائدین حکمران رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ اگرچہ نصابی کتابوں میں اس پر تفصیلی بحث نہیں کی جاتی مگر خواتین اور قیادت کی ایک طویل اور بھرپور تاریخ موجود ہے، ایسی قیادت جو سرکاری اختیار سے ماوراء تھی۔ جون آف آرک اور ماری انطوینت متاثر کن قائدین تھیں مگر سربراہِ حکومت نہیں تھیں، یہی معاملہ سماجی تحریکات، انقلابات اور سیاسی تحریکات میں قیادت کرنے والی کئی خواتین کا رہا ہے۔ بچوں کے حقوق اور بھوک کے خلاف کی جانے والی کوششوں سے لے کر انسانی حقوق اور تحریک برائے امن تک، بے شمار سیاسی مہمات میں خواتین نے سپاہیوں کا کردار ادا کیا ہے اور کر رہی ہیں۔ امریکہ میں غلامی کے خاتمے میں، یورپ کے بڑے حصے میں سب کے لئے طبی سہولیات کی فراہمی میں خواتین نے کلیدی کردار ادا کیا، اور خواتین زرعی پیداوار کے ساتھ ساتھ خاندان کی غذائیت اور صحت کی نگہداشت کے حوالے سے بڑا حصہ ڈالتی رہی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے، عورتوں کے لئے سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ شادی تھی۔ سچ یہ ہے کہ ایلی نور روزویلٹ کی حقیقی معنوں میں غیرمعمولی زندگی اور کیریئر اپنی جگہ، مگر اس کا اثر و رسوخ، جس کی بدولت اسے انصاف، شہری حقوق، سماجی بہبود اور دیگر کئی میدانوں میں زبردست مہمیں چلانے کا موقع ملا، امریکہ کے 32 ویں صدر کے ساتھ اس کی شادی پر استوار تھا۔ امریکہ میں اور دیگر ممالک میں کئی خواتین نے اقتدار اس راہ سے حاصل کیا ہے جسے طنزیہ طور پر ’’بیوہ کا مینڈیٹ‘‘ کہا جاتا ہے جس میں کسی مرحوم لیڈر کی بیوی کو شوہر کی جگہ کارِ منصبی انجام دینے کے لئے تعینات کر دیا جاتا تھا۔ دیکھا جائے تو قیادت کے مناصب سے خاندانی رشتہ استوار ہونے کی بدولت مردوں نے ہمیشہ فوائد حاصل کئے ہیں، اور ایک حد تک عورتوں کو بھی اس میں حصہ ملا ہے۔ کئی خواتین لیڈر، جن میں جدید دور کی پہلی خاتون صدر، ارجنٹائن کی ازابیل ایوا پیرون شامل ہیں، اپنے شوہر کے ذریعے اقتدار میں آئیں۔ آج کے دور میں امریکہ میں ایلزبتھ ڈول اور ہلیری کلنٹن دونوں کو امریکی سینیٹ میں جگہ ملی اور انہیں امریکی صدارت کے امیدواروں میں شامل کیا گیا۔ 1996ء میں دونوں خواتین صدارتی امیدواروں کی بیویاں تھیں۔ حکومتوں کی سربراہی خواتین کے لئے سیاسی رسوخ حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے اور کئی اقوام میں ان کے لئے یہ راستہ حال ہی میں کھلا ہے جب بیسویں صدی میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا اور انتخابی حوالے سے اصلاحات عمل میں لائی گئیں۔ 1996ء میں فیلڈر کی طرف سے کی جانے والی ایک سٹڈی میں تاریخ کی سب سے بااثر 100 خواتین کا پتہ چلانے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ ایسی درجہ بندی ہمیشہ تنقید کی زد میں آتی ہے اور کئی لوگوں کو فیلڈر کی درجہ بندی پر اعتراض ہوگا، مگر ایسی فہرستیں خواتین کی اس بڑی تعداد کی طرف توجہ دلانے کی موجب بنتی ہیں جنہوں نے قابل ذکر کردار ادا کئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ، تہذیب اور پیشوں میں خواتین کو رسوخ حاصل رہا، اور بہت سے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جن کے حوالے سے خواتین نے اپنے اثرات مرتب کئے۔ مثال کے طور پر فیلڈر کی لسٹ میں خواتین کا ایک وسیع انتخاب شامل ہے جن میں دو نوبل انعام پانے والی خواتین، سائنسدان، سماجی مصلحین اور امریکہ کی مرحوم اداکارہ لوسیل بال بھی شامل ہیں۔ فہرست میں ایک، دو اور تین کے درجے پر بالترتیب ایلی نور روزویلٹ، ماری کیوری، اور مارگریٹ سینگر شامل ہیں۔ فیلڈر کی فہرست میں کئی سیاسی قائدین مثلاً میری وولن سٹون کرافٹ، سوزان بی انتھونی اور ایلزبتھ کیڈی سٹانٹن کے علاوہ نو ایسی خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے حکومتوں کی سربراہی کی۔ سیاست میں موجود خواتین کے بارے میں بہت سا مواد میسر ہے۔ مثال کے طور پر کئی مطالعات میں ان چیلنجز کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو خواتین کو سیاست میں درپیش ہوتے ہیں خواہ وہ جنسی تعصب ہو، پیسے کی فراہمی ہو، سرپرستی کی کمی ہو یا پارٹی کی سپورٹ یا اس کے علاوہ کوئی اور۔ تحقیق کرنے والوں نے خواتین میں رائے شماری کے رویوں، مختلف متنازعہ فیہ موضوعات پر ان کے مؤقف (مردوں کے مقابلے میں)، اور جماعتوں کے ساتھ ان کی وابستگی کا بھی جائزہ لیا ہے۔ سیاسی مناصب پر فائز خواتین کے خاکے تیار کئے گئے ہیں اور ان کا موازنہ مردوں سے کیا گیا ہے۔ ان مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیاسی مناصب پر فائز خواتین عموماً بہتر تعلیم یافتہ یا اعلیٰ سماجی مرتبہ رکھتی ہیں اور شاید دیگر خواتین کے مقابلے میں زیادہ آرزو مند ہوتی ہیں، اور اپنے خاکے میں کسی حد تک مردوں سے مماثل نظر آتی ہیں، فرق اس بات کا ہوتا ہے کہ وہ اپنے کیریئر کا آغاز نسبتاً دیر سے کرتی ہیں اور کسی اعلیٰ تر منصب پر پہنچنے کی کوشش کم کرتی ہیں مگر اکثر ان میں تعلیم کا معیار بلند ہوتا ہے۔ تاہم، انتظامی عہدوں پر فائز خواتین کے بارے میں بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔ اگرچہ صنف اور قیادت کے حوالے سے مطالعات موجود ہیں، مگر عالمی خواتین رہنمائوں کی انفرادیت پر نہایت ناکافی تحقیق کی گئی ہے۔ انتظامی عہدہ بہرحال دیگر تمام سیاسی مناصب کے معاملے میں زیادہ ’’صنفی‘‘ ہوتا ہے۔ لیڈر شپ کے مطالعات میں زیادہ توجہ لیڈروں کی پرورش اور اوصاف، فیصلہ سازی، نفسیات اور ایسی ہی دیگر چیزوں پر دی گئی ہے مگر قیادت پر صنف کے اثر کا مطالعہ بہت کم کیا گیا ہے۔ سیاسی قیادت کے دیگر مطالعات میں خواتین اور مردوں کے میل جول کا مطالعہ کیا جاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ صنف کے بارے میں مخصوص تصورات یہاں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، مرد سیاسی طور پر زیادہ باشعور ہوتے ہیں، انہیں سیاست میں دلچسپی لینے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے اور انہیں ایسے اوصاف کی تربیت بھی دی جاتی ہے جو قیادت کے موجودہ تصورات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ امریکہ میں سیاسی رویوں کا جائزہ لینے والا صف اول کا ادارہ، نیشنل الیکشن سٹڈی، عموماً یہی رپورٹ جاری کرتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو سیاست میں کم دلچسپی ہوتی ہے اور اس بارے میں ان کی معلومات بھی کم ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے اعداد و شمار میں بہتری تو پیدا ہو رہی ہے مگر خواتین اب بھی اس میدان میں پیچھے ہیں۔ مطالعات میں خواتین کے منتخب ہونے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو پانچ بنیادی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: اول، مخصوص صنفی تصورات۔ دوم، کیریئر کا انتخاب اور تیاری۔ سوم، گھریلو تقاضے۔ چہارم، جنسی امتیاز اور پنجم، سیاسی نظام جس میں پیسے یا فنڈز کی فراہمی کی ضرورت، جماعت کی تنظیم اور سپورٹ، عہدہ حاصل کرلینے کا فائدہ، اور انتخابی نظام کی مخصوص باریکیوں جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔ سیاست کے میدان میں مساوات بڑی آہستہ روی سے داخل ہوئی ہے اور اس سلسلے میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں کئی مغربی اقوام نے خواتین کو ووٹ کا حق دیا، بیسویں صدی کے اختتام پر بھی، ہر سیاسی منصب، ریاست یا قوم کے بارے میں کیا جانے والا تقریباً ہر تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ انتخابی کامیابی اور نمائندگی کے معاملے میں خواتین مردوں سے پیچھے ہیں۔ امریکہ اور دیگر ممالک میں کی جانے والی رائے شماریوں سے پتہ چلا کہ آبادی کا قابل ذکر حصہ اعتراف کرتا ہے کہ انہیں خواتین کو ووٹ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ اگرچہ ممکنہ خواتین لیڈروں کے لئے اعداد و شمار میں بہتری پیدا ہو رہی ہے مگر بہترین رائے شماریوں میں بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ آبادی کا چھ سے 20 فیصد حصہ خواتین کو محض ان کی صنف کی بناء پر ووٹ دینے میں تامل کرتا ہے۔ اسی طرح ان رائے شماریوں میں بھی بہتری نظر آئی ہے جن میں یہ پوچھا گیا تھا کہ آیا مرد سیاست کے لئے زیادہ موزوں ہیں یا نہیں۔ یقینا عوام کا ایک حصہ کئی وجوہات کی بناء پر خواتین کے سیاست میں آنے کا مخالف رہا ہے۔ انتظامی عہدہ سیاست میں سب سے زیادہ ’’صنفی‘‘ ہوتا ہے اور یوں خواتین پر مزید چیلنجز مسلط کر دیتا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر مردوں کو فائز دیکھنے کے عادی معاشرے میں خواتین کی مضبوطی، مشکل فیصلے کرنے کی اہلیت، سربراہ کی حیثیت سے رسوخ اور معاشیات کی تفہیم کے بارے میں سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے عورتوں کی راہ میں ایک اور رکاوٹ آتی ہے۔ رائے شماریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2000ء میں عوام کے نوے فیصد حصے کا خیال یہ تھا کہ خواتین معاشی پالیسی بنانے میں مردوں جیسی ہی مہارت رکھتی ہیں۔ صدارت (یا اس کے مساوی عہدے) کے لئے ووٹ دینے والوں کے لئے اہمیت رکھنے والے ایشوز میں خواتین کے لئے اعداد و شمار اور بھی کم تھے۔ 80 فیصد کا خیال تھا کہ خواتین سفارت کاری کے معاملے میں مردوں کے برابر باصلاحیت ہیں اور 85 فیصد کا خیال تھا کہ خواتین فوج کی قیادت کر سکتی ہیں۔ مگر ان سب کا خلاصہ ایک سوال میں کیا جا سکتا ہے جو ایک عام آدمی کے ذہن میں اکثر اٹھ کھڑا ہوتا ہے: کیا خواتین قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ ایک دلچسپ مطالعے میں اس سوال کا جواب دیا گیا۔ یہ مطالعہ پرنسٹن میں قائم ایک مینجمنٹ کنسلٹنگ فرم کیلی پر (جس نے پوری دنیا میں پچیس ہزار سے زائد کمپنیوں کے بیس لاکھ سے زائد درخواست گزاروں اور ملازموں کی اہلیت کا تخمینہ لگایا) اور آرورا (لندن میں قائم ایک تنظیم جو عورتوں کی ترقی پر کام کرتی ہے اور جس میں بیس ہزار کاروباری خواتین پر مشتمل ایک نیٹ ورک شامل ہے) کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ اس مطالعے کے مطابق خواتین میں کام مکمل کرنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور ایک نئے مطالعے کے مطابق، وہ مرد لیڈروں کے مقابلے میں خطرات مول لینے پر زیادہ آمادہ ہوتی ہیں۔ مرد لیڈروں کے مقابلے میں خواتین لیڈر زیادہ پُرزور اور لچک دار ہونے کے ساتھ ساتھ شخصی تعلقات کے حوالے سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ کیلی پر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور صدر، ہرب گرین برگ پی ایچ ڈی کا کہنا ہے کہ ’’یہ اوصاف ملنے سے ایک ایسا طرزِ قیادت وجود میں آتا ہے جس کی نمایاں خصوصیات میں تنوع، کشادگی، اجتماعی اتفاقِ رائے کا قیام، اشتراکِ کار اور اختیارات میں اشتراک شامل ہیں۔ ہم پورے زور سے یہ بات بھی کہتے ہیں کہ اس مطالعے میں شامل مرد لیڈروں میں بھی یہ خصوصیات نہایت اعلیٰ درجے کی تھیں، مگر خواتین لیڈروں نے ایک نیا معیار قائم کر دیا۔‘‘ برسبیل تذکرہ، برطانیہ اور امریکہ میں خاتون لیڈروں کے خاکے ایک دوسرے سے نہایت مماثل اور نہایت جاندار ہوتے ہیں۔ بیسیوں اعلیٰ عہدیداروں اور دانشوروں نے یہ تخمینہ لگانے کی کوشش کی کہ عمدہ لیڈر بننے کے لئے کیا درکار ہوتا ہے، مطالعے میں شامل ایک خاتون کونی جیکسن نے، جو سینٹ بارتھولومیو اینڈ رائل لنڈن چیری ٹیبل فائونڈیشن کی سربراہ ہیںنے ایک شاندار عملی تعریف فراہم کی: ’’مضبوط لیڈر شپ کا آغاز ہوتا ہے افراد کے ایک گروہ کو جمع کر لینے سے جن میں شاید کوئی صفت مشترک نہ ہو، اور پھر انہیں یہ احساس دلانے سے کہ وہ ایک ٹیم ہیں جو کہ غیرمعمولی نتائج حاصل کر سکتی ہے۔‘‘ جو معیارات، طریق ہائے کار اور خاکہ سازی کا نظام انہوں نے استعمال کیا، اس کے مطابق اس مطالعے کے مرکزی انکشافات حسب ذیل ہیں: 1۔ خواتین لیڈر، مردوں کے مقابلے میں زیادہ جلدی قائل کر لیتی ہیں۔ انانیت کو متحرک کرنے، بات منوانے، خطرات مول لینے، دوسروں کے جذبات کو محسوس کرنے، معاملات کو جلد نپٹانے کی خواہش رکھنے، لچک دکھانے اور تعلقات استوار کرنے کے معاملے میں خواتین لیڈروں کا سکور مردوں کے مقابلے میں قابل ذکر حد تک زیادہ رہا۔ افراد کو ہینڈل کرنے کے معاملے میں ان کی بہتر صلاحیت خواتین لیڈروں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ صورتِ حال کا درست جائزہ لیں اور تمام طرف سے معلومات حاصل کریں۔ کسی صورتِ حال کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے پر آمادگی ظاہر کرنے سے ان کی دوسروں کو قائل کر لینے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ وہ کسی کے اعتراضات یا تشویشات پر غور کر سکتی ہیں، ان کا مناسب تخمینہ لگا سکتی ہیں، مؤثر انداز میں ان کی وضاحت کر سکتی ہیں اور جب مناسب ہو، وسیع تر معاملات میں انہیں شامل کر سکتی ہیں۔ ان خواتین لیڈروں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ صورتِ حال کے مطابق اور حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر وہ دوسروں کو اپنے نکتہ نظر پر قائل کر سکیں یا خود اپنا نکتہ نظر تبدیل کر لیں۔ وہ ایسا اس لئے کر سکتی ہیں کیونکہ انہیں دوسروں کے خیالات اور نکتہ نظر کی حقیقی معنوں میں پروا ہوتی ہے۔ اس طرح وہ دوسروں کا نکتہ نظر، خود کو ان کی جگہ پر رکھ کر دیکھ سکتی ہیں، یوں ان کی پیروی کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کی بات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھا گیا ہے، سپورٹ کیا گیا ہے اور قدر سے نوازا گیا ہے۔ ’’دوسری طرف جن مرد لیڈروں کا ہم نے مطالعہ کیا، ان میں اپنے نکتہ نظر سے بات شروع کرنے کا رجحان پایا گیا۔‘‘ ڈاکٹر گرین برگ وضاحت کرتے ہیں۔ ’’اور چونکہ وہ دوسروں کے ساتھ تعامل کرنے کے معاملے میں اتنے لچکدار یا آمادہ نہیں ہوتے، اس لئے مرد لیڈر حقیقی معنوں میں دوسروں کو قائل کرنے کے بجائے ان پر اپنا نکتہ نظر مسلط کرنے یا اپنے عہدے کے زور پر اپنی بات منوانے کی عادت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جن مرد لیڈروں کا ہم نے مطالعہ کیا ان میں یہ رجحان نظر آیا کہ وہ دوسروں کو قائل کرنے کے بجائے اپنا نکتہ نظر مسلط کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘‘ 2۔ مسترد کر دیئے جانے کی تکلیف محسوس کرنا، مخاصمت سے سبق حاصل کرنا اور کچھ کر دکھانے کے عزم کے ساتھ جدوجہد کو جاری رکھنا۔ انانیت کی قوت (لچک) کے معاملے میں خواتین لیڈر اوسط درجے پر تھیں جو کہ مرد لیڈروں سے کسی حد تک کم تھا۔ مگر ان میں شخصی تعلقات کے حوالے سے جاندار صلاحیتیں (دوسروں کے محسوسات سمجھنا، لچک دکھانا اور تعلقات استوار کرنا) جلد پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے مرد رفقاء کے مقابلے میں زیادہ بااعتماد ہوتی ہیں۔ اوصاف کا یہ امتزاج خواتین کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ مایوسی، استرداد یا ناکامی کا سامنا ہونے پر ان معاملات کو بہتر انداز میں ہینڈل کر سکیں۔ ڈاکٹر گرین برگ کا کہنا ہے: ’’نقصان اٹھانے کی تکلیف انہیں محسوس ہوگی۔ وہ اس پر کڑھ بھی سکتی ہیں، اور خود پر تھوڑی بہت تنقید بھی کر سکتی ہیں۔ مگر پھر وہ اپنا اعتماد مجتمع کریں گی، منفی احساسات سے نجات حاصل کریں گی، آگے بڑھنے کے لئے ضروری اسباق حاصل کریں گی اور ان کے ذہن میں یہ نعرہ گونجے گا۔ ’’میں کر کے دکھائوں گی۔‘‘ وہ اضافہ کرتے ہیں۔ ’’بنیادی طور پر، جب کسی خاتون میں آگے بڑھنے کی صلاحیت اور آرزو ہو اور پھر بھی اسے دوسروں کی طرف سے ڈھکے چھپے یا کھلے اشارے موصول ہوں کہ ان کے خیال میں وہ کامیاب نہیں ہو پائے گی تو اس سے ان کے جوش و جذبے میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘ 3۔ مسائل کو سلجھانے اور فیصلے کرنے کا، ایک سب کو ساتھ لے کر چلنے والا اور ٹیم بنانے والا طرزِ قیادت۔ اگرچہ مرد لیڈروں میں دوسروں کے محسوسات سمجھنے، لچک دکھانے، تعلقات استوار کرنے اور معاملات کو جلد از جلد سلجھانے کی خواہش جیسی خصوصیات اعلیٰ طورپر نظر آتی ہیں مگر خواتین لیڈروں کا سکور ان شعبوں میں مردوں سے زیادہ رہا۔ دونوں اصناف کے لیڈروں میں تجریدی سوچ اور ارتکازِ فکر کی شرح اوسط سے زیادہ ہوتی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ کام کو ہر طرح سے مکمل کرنے کے اعتبار سے خواتین مردوں سے پیچھے رہ گئیں۔ محققین کے مطابق، جن خواتین لیڈروں کا مطالعہ کیا گیا وہ تمام نکات ہائے نظر کو سننے اور پھر بہترین امکانی فیصلہ کرنے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ آخری فیصلہ ان کے اپنے ابتدائی نکتہ نظر کے مطابق ہی ہو۔ ان میں یہ صلاحیت تھی کہ صورتِ حال کو درست طور پر پڑھ سکیں اور تمام پہلوئوں سے معلومات حاصل کر کے پھر سب سے سوچا سمجھا فیصلہ کریں۔ عورتوں اور مردوں کے طرزِ قیادت میں فرق کا آغاز ’’سننے‘‘ سے ہوتا ہے۔ محض جواب دینے کے لئے سننا نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں سننا، سیکھنا، غور و فکر کرنا اور پھر ایسے منصوبے پر عملدرآمد کرنا جس میں ہر ایک کی تجاویز کا بہترین حصہ شامل ہو۔ لائڈز ٹی ایس بی کونسل کی چیف ایگزیکٹو سوزن رائس کے مطابق، سب کو ساتھ لے کر چلنے والا یہ طرزِ قیادت تبادلہ خیال کی راہیں کھلی رکھنے کے اصول پر استوار ہوتا ہے۔ ’’سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ سوال پوچھتے رہیں۔ ساری بات ہی سوال پوچھنے کی ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ میں کام کرتی ہوں، وہ کہیں گے کہ میرے سوالات پوچھنے سے انہیں خود اپنی سوچ واضح کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ زیادہ باریک بینی کا مظاہرہ کر پاتے ہیں۔ ایسا اعتماد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ میرے نزدیک میرا کام یہ ہے کہ میں ایک واضح حکمت عملی کا تعین کروں، درست سوال پوچھوں اور اپنے مینیجرز کی حوصلہ افزائی کروں کہ وہ اپنے کام میں ماہر بن سکیں۔‘‘ چونکہ خواتین لیڈرز معلومات بانٹنے کے معاملے میں زیادہ فراخدل ہوتی ہیں، اس لئے مرد لیڈروں کے مقابلے میں وہ فیصلہ کرنے سے پہلے زیادہ لوگوں سے گفتگو کرتی ہیں۔ ڈاکٹر گرین برگ کا اندازہ ہے کہ ’’سب کو ساتھ لے کر چلنے والا، حتی الوسع حقائق اور نکات ہائے نظر کو شامل کرنے والا یہ طرزِ قیادت خواتین لیڈروں کو مستقبل کے لئے زیادہ بہتر پوزیشن میں لاتا ہے کیونکہ ’’انفارمیشن ایج‘‘ بتدریج ارتقاء پا رہی ہے۔‘‘ 4۔ خواتین لیڈروں میں قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرنے اور خطرات مول لینے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ قواعد و ضوابط کی پابندی اور احتیاط پسندی کے معاملے میں خواتین لیڈر، مردوں کے مقابلے میں خاصی پیچھے رہ گئیں۔ معاملات کو جلد از جلد نپٹانے اور خطرات مول لینے کے معاملے میں وہ ان سے خاصی آگے نکل گئیں، اور تجریدی سوچ میں ان کا سکور خاصا بلند رہا۔ کونی جیکسن کے مطابق: ’’بہ حیثیت لیڈر، ایسے وقت آتے ہیں جب آپ کو ایک ایسی راہ پر قدم رکھنے کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے جس پر پہلے کوئی نہیں چلا ہوتا۔ آپ کو اس راستے پر چلنا ہی پڑتا ہے جو آپ کے خیال میں صحیح ہے۔‘‘ اگر قواعد و ضوابط راہ میں حائل ہوں تو ان کی خلاف ورزی کرنے، خطرات مول لینے اور نت نئے حل نکالنے کا رجحان خواتین لیڈروں میں زیادہ نظر آتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں معاملات کو نپٹانے کی خواہش ان میں زیادہ ہوتی ہے اس لئے ان کے ہچکچانے یا چھوٹی چھوٹی جزئیات پر توجہ کرنے کا امکان کم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر گرین برگ کا کہنا ہے کہ: ’’خواتین لیڈرز مہم جو ہوتی ہیں، انہیں اس میں کم دلچسپی ہوتی ہے کہ پہلے کیا تھا، نسبتاً اس کے کہ اب کیا ہو سکتا ہے… اور اپنی عمدہ تجریدی قوتِ فکر کی بدولت، وہ کسی بھی غلطی سے سبق حاصل کر کے اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔‘‘ دل میں خودبخود یہ سوال اٹھتا ہے: کیا خواتین قیادت کے لئے ایک نیا نمونہ تشکیل دے رہی ہیں؟ اس کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہو سکتا ہے۔ خواتین میں لیڈرشپ کی نمو لیڈرشپ کا تعلق ان افراد سے بھی ہوتا ہے جو پہلا قدم اٹھاتے ہیں اور کسی گروہ کی مجموعی صلاحیت سے بھی ہوتا ہے جبکہ ایک کمیونٹی، تحریک، تنظیم یا قوم یا اقوام کوئی تبدیلی لانے کے لئے کام کرتی ہیں۔ اجتماعی لیڈرشپ کے نمودار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے افراد موجود ہوں جو ایک ویژن قائم کرنے کی، لوگوں کو متحرک کرنے اور دوسروں کو دعوتِ عمل دینے کی اور اس تنوع کو سنبھالنے کی ذمہ داری اٹھائیں جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک سے زیادہ افراد کسی کام میں شامل ہوتے ہیں۔ لیڈرشپ کا گہرا تعلق، لوگوں کو تبدیلی کے عمل پر آمادہ کرنے کے لئے قوت استعمال کرنے کی اہلیت سے ہے۔ لوگوں کے پاس مختلف طرح کی قوت ہوتی ہے۔ کلاس کے مقبول طالب علم کے پاس اپنے ساتھیوں کو متاثر کرنے کی قوت ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کی ذات میں کوئی نہ کوئی بات پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح، منتخب افراد کے پاس قوت ہوتی ہے اس اعتماد کی بدولت جو انہیں منتخب کرنے والوں نے ان پر کیا ہے۔ لیڈر شپ کا عمل متاثر کرنے کا ایک تعلق ہوتا ہے جو ایک دوسرے پر انحصار کرنے والے افراد کے مابین استوار ہوتا ہے۔ لوگوں کو اپنی لیڈرشپ کا مظاہرہ کرنے کے لئے مواقع چاہئے ہوتے ہیں۔ اپنی لیڈرشپ کو نمایاں کرنے کے لئے انہیں کمیونٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیڈرشپ خلا میں وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ جب ہم ’’خواتین کی لیڈرشپ‘‘ کی بات کرتے ہیں تو ہمارا اشارہ ان خواتین کی طرف بھی ہوتا ہے جو قیادت کرتی ہیں اور اس مخصوص سیاسی اور فلسفیانہ تناظر کی طرف بھی جو خواتین کی بدولت لیڈرشپ سے وابستہ ہوتا ہے۔ دونوں باتیں اہم ہیں اگرچہ ان میں خاصا فرق ہے۔ عورت کی لیڈرشپ کو تسلیم کیا جائے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ لیڈرشپ کی اقسام، انداز اور میدان ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات اہم ہے کہ خواتین لیڈرشپ میں تنوع کا ادراک کریں، خواتین کی لیڈرشپ سیاسی طور پر مساوی حیثیت رکھنے والے افراد کے بیچ ایک تعلق کی متلاشی ہوتی ہے۔ ان مختلف باتوں کو مدنظر رکھنے سے ہمیں لیڈرشپ کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنے میں مدد ملتی ہے اور یہ بات خواتین کی لیڈرشپ بحث کرنے کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ گذشتہ زمانوں میں خواتین کی لیڈرشپ زیادہ تر نگاہوں سے اوجھل رہی کیونکہ لیڈرشپ کے سوال کا معائنہ آنکھوں پر جنسی تعصب کی عینک چڑھا کر کیا جاتا تھا۔ کون سی بات اہم ہے اور لیڈرشپ کہاں انجام پا رہی ہے جیسے سوالوں کے متعلق قائم کئے جانے والے مفروضات میں سے وہ مقامات خارج ہو جاتے تھے جہاں خواتین لیڈرشپ فراہم کر رہی ہوتی تھیں۔ اکثر خواتین اس حوالے سے قیادت فراہم کرتی ہیں کہ کنبے درست طرح سے پھلیں پھولیں اور انہیں نشوونما پانے کے لوازم دستیاب ہوں۔ عورتیں بیماروں، بچوں اور بوڑھوں وغیرہ کی دیکھ بھال کر کے ’’نگہداشت کی صنعت‘‘ چلا رہی ہیں۔ عورتیں برادریوں میں تنازعات حل کر رہی ہیں اور حل تلاش کر رہی ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی گائوں میں صاف پانی حاصل کرنے سے ہو یا گلی میں کوئی روشنی لگوانے سے تاکہ بچے اور پیدل چلنے والے گاڑیوں کی زد میں نہ آئیں۔ پوری تاریخ میں عورتیں ہمیشہ ترجیحات کا تعین کرتی رہی ہیں، بجٹ بناتی رہی ہیں اور عملی منصوبے تیار کرتی رہی ہیں۔ عورتیں ہمیشہ کوئی تبدیلی لانے کے لئے ایک ساتھ ہو کر کام کرتی رہی ہیں، مگر ان سب باتوں کو عام اور گھریلو کام سمجھا جاتا رہا ہے جس کا تعلق ایک نجی حلقے سے ہے جو کہ لیڈرشپ میں شامل نہیں ہوتا۔ لہٰذا پہلا چیلنج یہ ہے کہ عورتوں کی لیڈرشپ کو نمایاں اور عیاں کیا جائے۔ لیڈرشپ کے حوالے سے جنسی امتیاز کو ملحوظِ خاطر رکھنے والا ایک مؤقف اس وقت تشکیل پاتا ہے جب عورتوں کی لیڈرشپ نمایاں ہو اور لیڈر شپ چلانے کے مختلف طریقوں کی تصدیق کی جائے۔ اس کے لئے تدبیراتی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہم خواتین کو ان جگہوں تک محدود رکھنے کی غلطی سے بچ سکیں جہاں انہیں پہلے ہی مخصوص رول دے کر مالک بنا دیا گیا ہے۔ اس کے بجائے ہم نجی اور عوامی دونوں حلقوں میں خواتین کی شراکت کو تسلیم کر کے ان کی لیڈرشپ کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہاں کرنے کا اہم کام یہ ہے کہ اس دوعملی کو ختم کر دیا جائے جس کے تحت گھریلو زندگی عوامی زندگی سے الگ ہو جاتی ہے اور ان اہم ترین حیات بخش اور حیات ساز ضروریات کی قدر کم ہو جاتی ہے جن کا تعلق نگہداشت اور آبیاری کے کاموں سے ہے۔ بچپن کی نشوونما یا بیماروں اور بوڑھوں کی پیاربھری نگہداشت کی قدر نہ کی جائے تو یہ جہالت اور فرسودہ سوچ ہی کہلائے گی۔ عورتوں کی لیڈرشپ کو نمایاں کرنے کے لئے کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے تو یہ کہ لیڈرشپ میں غیرموجود خواتین کو درست جگہوں پر تلاش کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ یہ تسلیم کر کے کہ عورتیں دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لئے گرانقدر اور مرکزی اہمیت کا حامل کام انجام دے رہی ہیں، ان کی لیڈرشپ کی تصدیق کی جائے۔ یہ اعتراف بنیاد بنے گا اس دلیل کی کہ لیڈرشپ کے حوالے سے خواتین کا تجربہ ان میدانوں میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے جہاں وہ نسبتاً نووارد ہیں مثلاً عالمی سیاسی لیڈرشپ۔ تیسرا قدم یہ ہوگا کہ عورتوں کو خاندانوں اور کمیونٹیز کی منتظمین کی حیثیت سے جو تجربہ حاصل ہوا ہے، اسے ہماری اقوام، ہمارے کاروباروں، مذہبی اداروں اور ہماری دنیا کے انتظام و انصرام تک منتقل کیا جائے۔ یعنی ذاتی بات کو عوامی اور نجی بات کو سیاسی بنا دیا جائے۔ دوہرے پن اور امتیاز کی دیواریں گرا دی جائیں۔ عورتوں کو کنڈرگارٹن سے لے کر پارلیمان، کاروبار اور اقوامِ متحدہ تک عوامی انتظام و انصرام کی ہر سطح پر نمائندگی دینے کے لئے ضروری ہے کہ عورتوں کی سربراہی میں سیاسی مقاصد کے تحت معاشرے اپنی لیڈروں کو سپورٹ کریں اور انہیں اپنا جوابدہ بھی رکھیں۔ عورتوں کو ہر جگہ نمائندگی دینے کے لئے ہمیں ان رکاوٹوں پر کام کرنا ہوگا جو انہیں محدود، مقید اور مرکز سے دور رکھتی ہیں۔ بعض رکاوٹیں ثقافتی اور سماجی ہیں۔ خیالات کی تشہیر سے یہ ظاہر ہو کہ عورتوں اور مردوں کو مشترکہ بہبود کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ تعلیم اور شعور کا فروغ نہایت اہمیت رکھتا ہے اور اس لئے جنسی تعصبات جو لڑکیوں کو سکول سے دور رکھتے ہیں یا انہیں سکول چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں، ان پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ جنسی مساوات پید اکرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ دنیا میں بلاامتیاز اپنا مقام حاصل کر سکیں۔ عورتوں کی ترقی کئی شکلوں میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض میں ضروری ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے بنائے ہوئے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے کام کرتے ہوئے انہیں مقامی سطح پر قابل عمل بنایا جائے۔ایسے اداروں میں تمام اقسام کے امتیازات کے خاتمے کا کنونشن (CEDAW) شامل ہے جسے اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک نے 1979ء میں اختیار کیا۔ ایک زیادہ نیا ادارہ بیجنگ پلیٹ فارم برائے عمل (1995ء) ہے اور ایک اور ملینیم ڈیولپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) ہے جسے نیویارک میں منعقد ہونے والی اقوامِ متحدہ کی ملینیم سمٹ میں 2000ء میں اختیار کیا گیا۔ ان ایم ڈی جیز میں 2015ء تک دنیا میں نظر آنے والی چند نمایاں ترین ناانصافیوں کو ختم کرنا شامل ہے۔ ایک ہدف یہ بھی ہے کہ 2015ء تک جنسی مساوات حاصل کر لی جائے۔ مہم چلا کر سپورٹ حاصل کرنے کے لئے یہ نہایت عمدہ وسائل ہیں۔ مہمات بھی افادیت رکھتی ہیں کیونکہ ان میں بیک وقت تعلیم، تبلیغ اور اتحاد کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کی تحریک ان ایشوز کو کروڑوں لوگوں کے سامنے زندہ رکھتی ہے۔ پدرسری کا لغوی معنی یہ ہے کہ باپ کی حکومت۔ جنسی تعصب کی عینک سے دیکھا جائے تو لیڈرشپ ’’عوامی حلقے‘‘ میں وقوع پذیر ہوتی نظر آتی ہے جو کہ نسلوں تک، اور کسی حد تک آج بھی، مردوں کا میدان رہا ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ عورتیں بھی اس تعصب کو درست سمجھتی ہیں اور اب بھی اسے تقویت پہنچاتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سماجی تربیت جیسی ہوتی ہے، ہم ویسے ہی سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ ایک بہت بڑا چیلنج اس بات کا احساس کرنا ہے کہ معاملات کو مختلف نظر سے دیکھنے کے لئے ہمیں ایک مختلف چشمے کی ضرورت ہے۔ پدرسری قیادت میں غلبے، مطلق العنانیت اور حتمی اختیار کو مرکزی عناصر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس نظام میں حتمی فیصلہ فردِ واحد کے ہاتھ میں ہوتا ہے جسے اعتراض سے بالاتر سمجھا جاتا ہے۔ یہ فرد اقتدارِ اعلیٰ کا حامل ہوتا ہے خواہ ایک خاندان میں یا ایک ادارے میں۔ کتنی بار ایسا ہوتا ہے کہ مائیں بچوں کو دھمکائیں کہ اگر انہوں نے بات نہ مانی تو ان کے ابو سے شکایت لگا دی جائے گی؟ اداروں بعض طرز ہائے قیادت مؤثر سمجھے جاتے ہیں جن میں باس کے ملازمت دینے یا برخواست کر دینے کے اختیار کا ڈراوا دے کر کام لینا بھی شامل ہے۔ آج لوگ اس طرح کی درجہ بندی پر اعتراض اٹھاتے ہیں اور اس طرح کے طرزِ قیادت کو ناپسند کرتے ہیں۔ حاکمیت بطور ایک طرزِ قیادت اپنی مقبولیت کھوتی جا رہی ہے۔ اب ان اوصاف کی قدر کی جانے لگی ہے جنہیں اکثر خواتین سے وابستہ سمجھا جاتا تھا، ایسے اوصاف جو خواتین خاندانوں کو جوڑے رکھنے اور علاقائی حد تک رضاکاروں کو حاصل کر کے مختلف کام کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ مشترکہ لیڈرشپ، نمو اور دوسروں کی بہبود کے لئے کام کرنے کی یہ تازہ وار خصوصیات آج نہ صرف مقبول ہیں بلکہ ہماری آج کی دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے ضروری بھی ہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں سونامی آتی ہے اور منٹوں میں لوگ موت کے ہاتھوں ایک ہی سطح پر پہنچ جاتے ہیں۔ دیگر حالات میں مخصوص معاشرتی و معاشی مرتبے یا مذہبی و نسلی بنیادوں پر قبرستان بنا کر ہم مرنے کے بعد بھی فرق برقرار رکھتے ہیں۔ایڈز، سونامی اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والی قوتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمیں سب میں مشترک انسانیت کی قدر کرنی چاہئے۔ اس نعرے پر کان دھرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہماری دنیا ایک غضب ناک آتش فشاں کی طرح پھٹ رہی ہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھئے کہ ہر سولہ سیکنڈ میں ایک عورت ایچ آئی وی وائرس کی شکار ہو جاتی ہے اور ہر 29 سیکنڈ کے بعد ایک عورت ایڈز کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں اب دو کروڑ عورتیں ایچ آئی وی کی شکار ہیں اور ہر روز سات ہزار مزید اس بلا کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں غرباء کی حیثیت اعداد و شمار سے زیادہ نہیں اور گرد و پیش سے ہماری لاتعلقی قابل رحم حد کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس دنیا میں بھی عورتیں نگہداشت اور نمو کرنے کا کام سنبھالے ہوئے ہیں اور نہایت مناسب وقت ہے کہ ان کی لیڈرشپ کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ نسوانی قیادت کا ایک انداز یہ ہے کہ دنیا کو شعور حاصل کرنے میں مدد دی جائے اور ان اقدار پر اصولی مؤقف اپنایا جائے جو حقیقت میں اہمیت رکھتی ہیں۔ نہایت اہم بات یہ ہے کہ عورتیں ان عوامی مناصب پر بڑی تعداد میں فائز ہوں جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں تاکہ ان جگہوں پر ان اقدار کا کوئی اثر دیکھنے میں آئے جو نسلوں سے انہی جگہوں تک محدود ہیں جہاں عورتوں کو قیادت میسر آتی ہے۔ اعلیٰ منصب پر محض کسی ایک یا چند خواتین کا تقرر خواتین لیڈرز کی صلاحیتوں کا ایک رسمی سا اعتراف ہے۔ بہت سی عورتیں جابجا بکھری ہوئی ہوں مگر کسی ایک جگہ پر یکجا نہ ہوں تو اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ رسمی اعتراف سے صرف یہ ہوتا ہے کہ عورتیں اپنی ذاتی اقدار ترک کر کے دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے اور خود کو منوانے کی کوشش شروع کر دیتی ہیں۔ لیڈرشپ میں عورتوں کی یکجائی ضروری ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کی رفیق بن سکیں اور خود کو وہ بنائیں جو وہ بننا چاہتی ہیں اور انہیں خود کو ثابت کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے لئے بند دروازے کھلوانے کی کوشش کرنا جو لیڈرشپ کے مناصب سنبھالنے کے لئے تیار ہیں، اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور چیلنج ہے۔ جن لوگوں میں لیڈرشپ کی خداداد صلاحیت موجود ہو، ان کے لئے بھی دوسروں کو لیڈرشپ کے لئے تیار کرنا اور تعلیم دینا ضروری ہے تاکہ معیاری لیڈرشپ حاصل کی جا سکے۔ ضروری ہے کہ نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو لیڈرشپ کی تربیت دی جائے تاکہ خواتین کی لیڈرشپ کو تسلیم کیا جائے، فروغ دیا جائے اور نسل در نسل لیڈرشپ کی تیاری ممکن بنائی جا سکے۔ تیار کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لیڈرشپ کے کام میں انہیں شامل کیا جائے۔ شامل ہونے کے بعد وہ رفقاء اور سرپرستوں سے وہ کچھ سیکھتی ہیں، جو کسی رسمی تعلیم سے سیکھا نہیں جا سکتا۔ ہمیں چاہئے کہ ایسی پالیسیاں بنائیں جن میں خواتین کو موجودہ دور کی لیڈرشپ میں شامل کیا جائے اور یوں ان کی لیڈرشپ نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہئے کہ نوجوان نسل آج کی لیڈر ہے اور ان لوگوں کی مخالفت کی جانی چاہئے جو یہی گھسی پٹی بات دہراتے رہتے ہیں کہ نوجوان نسل آنے والے کل کی لیڈر ہے اور ایسا کہہ کے وہ نوجوانوں کی لیڈرشپ کو پس منظر میں دھکیل دیتے ہیں۔ خواتین کی لیڈرشپ میں نوجوانوں کی لیڈرشپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسے عالمی سطح پر جنس اور عمر کے حوالے سے ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک کلیدی حیثیت دی جاتی ہے تاکہ خواتین، زائد العمر افراد، نوجوانوں اور بچوں کو مرکزی دھارے میں لایا جا سکے۔ کامیابی کی پہلی نشانی اس وقت نظر آئے گی جب لیڈرشپ میں بانی خواتین کو ان کا مقام اور آواز میسر آئے گی اور وہ اپنے طور پر نمایاں ہوں گی اور اپنی صلاحیتوں کے شایانِ شان مناصب پر خدمات انجام دیں گی۔ لوگ اس بات پر بحث کرتے ہی رہتے ہیں کہ کیا خواتین لیڈرشپ میں مردوں سے مختلف ہیں۔ زیادہ تر خواتین اپنی لیڈرشپ کو مردوں سے کافی مختلف سمجھتی ہیں جیسا کہ ہم نے مندرجہ بالا تجزیئے میں مشاہدہ کیا۔ بہت سی خواتین کے لئے ایک اور عامل بے حد اہمیت رکھتا ہے جسے شراکت انتظام یا مشترکہ لیڈرشپ کہا جا سکتا ہے۔ مشترکہ لیڈرشپ ایک ایسا تصور ہے جس کے مطابق لیڈرشپ کوئی جامد چیز نہیں اور مل کر سوچنے سے ہمیں زیادہ وسعت نظر میسر آتی ہے۔ کام کے ساتھ لیڈرشپ کا کردار اکثر تبدیل ہو جاتا ہے۔ کسی ادارے میں جب ادارے کے تسلیم شدہ مینیجر کی بات ہو تو اس کا چیف ایگزیکٹو آفیسر لیڈر کے طور پر سامنے آئے گا لیکن کردار بدل جاتے ہیں اور جب حساب کتاب اور بجٹ کی بات آئے گی تو یہاں لیڈر کا رول فائنانس مینیجر کو مل جائے گا۔ مشترکہ لیڈرشپ میں معلومات بھی شیئر کی جاتی ہیں، دوسروں کی آراء بھی سنی جاتی ہیں چاہے وہ اختلافی ہی کیوں نہ ہوں، اور تنوع کو سنبھالا جاتا ہے۔ جہاں خواتین کو نسوانی لیڈرشپ کا تجربہ کرنے کا موقع ملے، مثلاً وہ حربے آزمانے کا جنہیں مائیں آپس میں لڑنے والے بچوں کو سنبھالنے کے لئے استعمال کرتی ہیں تو نئے آغاز کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ کامیابی کی نشانیوں میں مسابقت کے بجائے امن، عزم، دوستی اور تعاون شامل ہونے چاہئیں۔ خواتین کی لیڈرشپ میں ہمیں یہی اوصاف نظر آتے ہیں۔ جب خواتین کو کسی ایسے ماحول میں کام کرنا پڑے جو ان اوصاف کے لئے سازگار نہ ہو تو انہیں خود کو ثابت کرنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ بھی پدرسری طرزِ قیادت آزمانے پر آمادہ ہو جاتی ہیں اور پھر اس میں بھی اتنی مہارت حاصل کر لیتی ہیں کہ سسٹم انہیں قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ ایک مسلسل چیلنج ہے اور ہم سب کو دعوت دیتا ہے کہ ہم آنکھیں کھولیں اور خواتین کو اور ایسے اداروں کو سپورٹ کریں جو اس مشن کو زندہ اور نمایاں رکھے ہوئے ہیں