ہم تو مرشد تھے تم ولی نکلے

ویکی کتب سے

گزشتہ صفحہ: ابوالحسن ملا دوپیازہ بنتا ہے

ملا صاحب صرف امامت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ جس طرح خود ملا عبدالرحمٰن کے مکتب میں پڑھے تھے، اسی طرح انہوں نے بھی ایک مکتب قائم کیا ہوا تھا اور لڑکوں کو فقہ و حدیث اور دیگر علوم دینیات کی تعلیم دیا کرتے تھے۔

ملا صاحب کا ایک شاگرد عبدالجبّار نامی لطائف اور شوخی و شرارت میں ان کا فرزند معنوی تھا۔ طبعیت ذرا موزوں تھی۔ ملا سے کہا، استاد! غزل کہنے کو جی چاہتا ہے، کوئی مصرع طرح دیجیے۔ انہوں نے مصرع طرح دیا؛

؏ شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را

سعادت مند شاگرد نے مندرجہ ذیل اشعار لکھے؛

استاد کو میدان میں آج ہم نے پچھاڑا

چھاتی پہ چڑھے کود کے داڑھی کو اکھاڑا

استاد کے مصرع پہ لگاتے ہیں گرہ ہم

شاعر ہمیں کر دیجیے یا پیر بخارا

یہ طرفہ غزل ہم نے کہی مولوی صاحب

اصلاح سے دل کیجیے خورسند ہمارا

اپنی ہی غزل پر میں ہوا داد کا خواہاں

"شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را"

ملا صاحب یہ غزل سن کر نہایت چیں بہ جبیں ہوئے۔ بظاہر تو کچھ نہ کہا مگر دل میں کہتے تھے، کہ واقعی جائے استاد خالی است۔ یہ تو اب ہمارے بھی کان کترنے لگا، آخر غصہ کو ضبط کیا، اور فرمایا؛ غزل تو بہت اچھی کہی۔ اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں مگر ایک شعر کی کمی ہے وہ ہم خود لکھے دیتے ہیں۔ قلم دوات لے کر چار شعر غزل میں ذیل کا یہ شعر ایزاد کر دیا؛

یہ طرفہ غزل لائے ہو استاد کے آگے

صد لعنت و پھٹکار چنیں ذہنِ رسا را

اگلا صفحہ: ملا دوپیازہ اور دربار اکبری

رجوع بہ فہرست مضامین: سوانح عمری ملا دوپیازہ