ملا دوپیازہ اور دربار اکبری
گزشتہ صفحہ: ہم تو مرشد تھے تم ولی نکلے
ملا دوپیاز کس طرح دربار اکبری میں داخل ہوا، اس کی نسبت مندرجہ ذیل دو روایتیں بیان کی جاتی ہیں؛
پہلی روایت
[ترمیم]کہتے ہیں کہ ایک نہایت بدصورت عورت نے دربار شاہی میں استغاثہ پیش کیا کہ اس کے ساتھ ایک شخص نے زبردستی فعلِ بد کیا ہے۔ اہل دربار نے تو اس بات کو قابل اعتبار نہ جان کر ہنسی میں اڑا دینا چاہا، مگر بادشاہ کا دل جو رنگارنگ کا نمونہ تھا، اس بات پر مائل ہوا کہ تحقیقات ضرور ہونی چاہیے۔ یا تو مجرم کا پتہ لگا کر اسے سزا دی جائے، یا اس عورت کے استغاثے کی کوئی وجہ معلوم ہو۔ چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا کہ جو شخص مجرم کا پتہ لگائے گا، اسے بڑا بھاری انعام دیا جائے گا۔
اس حکم کو سن کر انعام کے شائق بدصورت اور بدشکل آدمیوں کو پکڑ کر حضور میں پیش کرنے لگے۔ مگر جو آدمی پیش ہوتا اسے دیکھ کر وہ عورت کہہ دیا کرتی کہ یہ نہیں ہے۔ حصولِ انعام کے شوق نے ملا صاحب کو بھی مجرم کی تلاش کی طرف مائل کیا اور آخر کار ایک شکیل و حسین نوجوان کو پکڑ کر دربار شاہی میں لے پہونچے۔ سب لوگ دیکھ کر متحیر ہوئے اور کہنے لگے کہ ایسے بھولے بھالے خوبصورت اور قدآور جوان سے ایسا فعل وقوع میں آنا بظاہر ناممکن ہے۔ مگر یونہی اس عورت کی اس جوان پر نظر پڑی، کہنے لگی کہ ہاں فی الواقع یہی شخص ہے جو ایسے فعل شنیعہ کا مرتکب ہوا ہے۔ بادشاہ نے کہا اسے پیش کرو جو اس شخص کو پکڑ کر لایا ہے۔ چنانچہ ملا صاحب حاضر ہوئے تو بادشاہ نے ان سے پوچھا، تمہیں اس نوجوان پر کیونکر شک ہوا۔ انہوں نے کہا قبلۂ عالم میں نے دیکھا کہ یہ شخص بہ ایں شکل و صورت ایک پرنالے کے نیچے بیٹھا ہاتھ دھو اور کلیاں کر رہا تھا، میں نے سوچا کہ جسے اس غلیظ پانی سے ہاتھ منہ دھونے میں کراہت نہیں، اسے اس مستقیہ بننے سے کیا نفرت ہو سکتی ہے۔ غالباً یہی شخص مجرم ہو گا۔
اس تقریر کو سن کر بادشاہ نے ان کے ذہنِ رسا کی داد دی موعودہ انعام کے علاوہ بیش قیمت خلعت عطا کیا، اور فرمایا کہ آج سے تم ہر روز دربارِ عام ہو یا دربارِ خاص، بے تکلف آیا کرو۔
دوسری روایت
[ترمیم]اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ مفتی محمد زکریا ان دنوں لاہور کے مفتی تھے، جس کو حدیث و تفسیر فقہ اصول میں نہایت عمدہ دستگاہ حاصل تھی، مگر ساتھ ہی اس کے تکبر و غرور کے نشہ میں بھی سرمست تھے۔ ان کی علمی چھیڑ چھاڑ ہمیشہ ابوالفضل اور فیضی سے رہا کرتی تھی۔ جزئیات فقہ میں وہ ہمیشہ ان دونوں بھائیوں پر فوقیت لے جاتے تھے۔ مگر صرف و نحو میں ان کو پوری مہارت نہ تھی۔ فیضی نے ایک روز ملا سے مفتی صاحب کی شکایت کی۔ ملا نے کہا آپ مجھے بے چین میں خدا کے فضل سے مفتی صاحب کا ناطقہ بند کر دوں گا۔ فیضی نے ایک روز موقع پا کر اکبر کے حضور میں ملا کی حاضرجوابی اور ظریفانہ گفتگو کا تذکرہ کیا۔ اکبر نے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ دوسرے روز جب قاضی صاحب بھی دربار میں موجود تھے، ملا صاحب نے سو گز کا عمامہ سر پر باندھا اور پچاس گز کا شملہ پس پشت چھوڑا، جس کو ایک طشت کلاں میں دھر نوکر لا رہا تھا۔ غرض ملا صاحب بایں ہیئت کذائی داخلِ دربار ہوئے۔ بادشاہ تو دیکھ کر مسکرائے، مگر حاضرین آداب مجلس اور رعب شاہی کی وجہ سے ہنس نہ سکے مگر سب نے اپنے منہ میں رومال ٹھونس لیے۔ ملا صاحب آداب شاہی بجا لائے اور قاضی صاحب کے پہلو میں جا بیٹھے۔ قاضی صاحب نے پوچھا، ملا صاحب آپ کا ملازم پشت طشت میں کیا چیز اٹھائے کھڑا ہے۔ ملا صاحب نے کمال برجستگی سے جواب دیا، شملہ۔ قاضی صاحب نے کہا، شملہ اور اس قدر۔ ملا نے کہا شاید آپ نے نہیں سنا کہ شملہ بمقدار علم۔ اس پر تمام ناظرین دربار ہنس پڑے، اور خود بادشاہ ضبط نہ کر سکا۔
اگلا صفحہ: ملا دوپیازہ اور نو رتن اکبری
رجوع بہ فہرست مضامین: سوانح عمری ملا دوپیازہ