ملا دوپیازہ اور نو رتن اکبری

ویکی کتب سے

گزشتہ صفحہ: ملا دوپیازہ اور دربار اکبری

تعجب اور حیرانی کی بات ہے کہ ملا دوپیازہ کا ذکر کسی معتبر تواریخ میں نہیں ملتا۔ ایسا مشہور شخص کہ بچہ بچہ اس کے نام سے واقف ہو اور مؤرخ لوگ اس کا نام تک بھی نہ لکھیں۔ ملا عبدالقادر بدایونی اور دیگر مؤرخوں نے بھی نہ لکھا۔ اور موجودہ زمانہ کے زبردست اہل قلم پروفیسر آزاد نے بھی ان کے حالات سے اغماز کیا۔ دربار اکبری اور قصص ہند کا ایک ایک ورق چھان مارا، مگر کہیں ملا کا نام بھی نہیں دکھائی دیا۔ غالباً وجہ اس کی یہ ہو گی کہ پروفیسر آزاد نے چونکہ ملا عبدالقادر اور لتھرج صاحب وغیرہ کی تتبیع کی ہے اور چونکہ انہوں نے ملا کے حالات نہیں لکھے۔ اس لیے انہوں نے بھی نہ لکھے ہوں گے۔ ہرچند ملا دوپیازہ دربار اکبری کے دل بہلاؤ کا ایک مشغلہ تھے، مکر پھر بھی چونکہ روزانہ حاضر باشوں میں تھے، اس لیے اس قدر بخل ناروا نہیں تھا کہ ان کا نام ہی لکھا جاتا۔

مختلف کتابوں اور روایتوں سے اس قدر پتہ چلتا ہے کہ ابوالفضل اور فیضی ملا کی شوخئ طبع اور ظرافت سے بہت خوش رہتے تھے اور جب کبھی مہمان ملکی پر جاتے تھے تو خط و کتابت سے ہی دل بہلایا کرتے۔ عبدالرحمٰن خانخانان، مرزا کوکلتاش، حکیم ہمام، حکیم ابوالفتح، ابوالفضل فیضی، راجہ مان سنگھ وغیرہ لطافت و ظرافت میں ملا کا پاسنگ بھی نہیں تھے۔ مگر راجہ بیربر اس کے مقابلہ کا تھا۔ اور ان میں باہم چوٹیں ہوا کرتی تھیں۔

اگلا صفحہ: لطیفوں کے متعلق مبالغہ

رجوع بہ فہرست مضامین: سوانح عمری ملا دوپیازہ