خاک شفا اور خون شہیداں
گزشتہ صفحہ: ملا دوپیازہ کی شاعری
ایک دن اکبر بادشاہ نے تحفہ و تحائف کے چند صندوق مقفل کر کے راجہ بیربر سے کہ کہ ان کو شاہ ایران کی خدمت میں لے جاؤ۔ بیربر نے منظور کیا، ان کو لے گیا اور گھر جا کر یہ استادی کی کہ قفل توڑ کر تمام چیز نکال لی اور بجائے ان کے استنجے کے ڈلے اور حیض کے آلودہ کپڑے مقفل کر کے بادشاہ کی خدمت میں پھر واپس آیا کہ حضور وہاں جانے سے بہت بڑا نقصان ہو گا، بہتر ہو گا کہ آپ ملا کو بھیجیں۔ بیربر کا مطلب اس سے یہ تھا کہ شاہ ایران ان چیزوں کو دیکھے گا تو ملا کو ہلاک کر ڈالے گا اور اس طرح پر یہ بلا میرے سر سے ٹل جائے گی۔ بادشاہ نے اسے منظور کر لیا اور صندوق ملا کے حوالہ کیے۔ وہ بیچارہ اصل بھید سے ناواقف تھا کہ ان میں کیا بھرا پڑا ہے۔ ان کو لے کر فوراً ایران کو روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر پہلے دن تو بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اکبر کا سلام دیا۔ دوسرے تیسرے روز با فراغت وہ صندوق جو ہندوستان سے لے گیا تھا، شاہ ایران کی خدمت میں پیش کیے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ صندوق کھولے جائیں۔ حسب الحکم صندوق دربار میں کھولے گئے تو وہ چیزیں جو بیربر کی شرارت سے اس میں رکھی ہوئی تھیں، برآمد ہوئیں۔ ملا ان کو دیکھ کر حیران و پشیمان اور نہایت شرمندہ ہوا، مگر اس کے ذہن رسا کا کیا کہنافوراً ایک نیا فقرہ گھڑ کر کہنے لگا کہ تحفہ تو یہ ارسال کیا ہے، اور زبانی بھی کچھ ارشاد فرمایا تھا، اگر حکم ہو تو عرض کروں۔ بادشاہ نے کہا کہ ہاں ہاں کہو۔ ملا نے عرض کیا کہ کربلائے معلیٰ سے خاک شفا اور خون شہیداں بادشاہ کے پاس آیا تھا، لیکن اس باعث سے کہ ہندوستان میں ایسے بیش قیمت تحفہ کی قدر نہیں ہے، انہوں نے آپ کی خدمت میں بھیج دیا۔ اس برجستہ تقریر کو سن کر بادشاہ اور دیگر اہل دربار نہایت محظوظ ہوئے اور بادشاہ کہنے لگا، کہ اگر تمام دنیا کی دولت میرے پاس بھیجی جاتی تو بھی ایسا خوش نہ ہوتا۔ الغرض اس تحفہ کو تمام شہر طہران میں تقسیم کر دیا گیا، جس کو لوگوں نے بڑے اشتیاق سے قبول کیا۔
اگلا صفحہ: نعلین تخت العین
رجوع بہ فہرست مضامین: سوانح عمری ملا دوپیازہ