کماؤں کے آدم خور/چوگڑھ کے شیر/2

ویکی کتب سے
پچھلا: چوگڑھ کے شیر/1 فہرست اگلا: چوگڑھ کے شیر/3

فروری میں میں ڈلکانیہ لوٹا۔ بہت سارے آدمی مارے جا چکے تھے اور ان سے بھی کہیں زیادہ گھائل ہوئے تھے۔ چونکہ شیرنی کے بارے ابھی کوئی تازہ اطلاع نہ تھی، ہر جگہ اس کی موجودگی کے یکساں امکانات تھے۔ میں نے اس جگہ ہی کیمپ لگانے کا سوچا جس جگہ سے میں زیادہ واقف تھا۔

ڈلکانیہ پہنچتے ہی مجھے اطلاع ملی کہ جہاں ہم پچھلی مرتبہ ریچھ کا شکار کیا تھا، اس جگہ ایک گائے ماری گئی ہے۔ جو آدمی گایوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا، اسے یقین تھا کہ یہ کام شیرنی کا ہی ہے۔ اب اس گائے کی لاش ایک غیر آباد کھیت کے کنارے موجود ہے اور اس جگہ سے صاف دکھائی دے رہی ہے جہاں میرا خیمہ لگنے والا ہے۔ گدھ اس جگہ بار بار چکر لگا رہے تھے اور دور بین سے دیکھنے پر میں نے بہت سارے گدھوں کو اس درخت پر بیٹھے دیکھا جو لاش کے بائیں جانب تھا۔ چونکہ لاش کھلی فضاء میں تھی اور گدھ نیچے نہ اترے تھے، میں نے یہ نتائج نکالے:

1۔ گائے کو تیندوے نے مارا ہے

2۔ تینداو شکار کے پاس ہی چھپا ہوا ہے

اس لاش والے کھیت سے نچلا کھیت کافی ڈھلوان اور جھاڑ جھنکار سے بھرپور تھا۔ آدم خور ابھی زندہ تھی اس لئے اس جگہ سے پیش قدمی کرنا مناسب نہ تھا۔

دائیں طرف گھاس سے بھری ہوئی ڈھلوان تھی لیکن علاقہ کھلا تھا اور دکھائی دیے بغیر میرا ادھر سے جانا ممکن نہ تھا۔ پہاڑ سے ایک گہری اور درختوں سے بھری ہوئی کھائی شروع ہو کر دریائے نندھور کو جاتی تھی۔ راستے میں یہ کھائی لاش کے قریب سے گذرتی تھی۔ وہ درخت جو کھائی کے کنارے پر تھا، اب گدھوں کے بوجھ سے جھکا ہوا تھا۔ میں نے کھائی سے ہی آگے بڑھنے کا سوچا۔ جتنی دیر میں میں اس علاقے سے بخوبی واقف دیہاتیوں سے پیش قدمی کا پروگرام بنا رہا تھا کہ میرے ملازمین نے چائے تیار کر دی۔ دن ڈھل رہا تھا۔ اگر میں عجلت کرتا تو اس جگہ کا جائزہ لے کر اندھیرا ہونے سے پہلے واپس آ سکتا تھا۔

نکلنے سے قبل میں نے اپنے آدمیوں سے خبردار رہنے کا کہا۔ یہ بھی کہا کہ اگر وہ گولی چلنے کے بعد مجھے اس جگہ دیکھیں تو تین چار بندے سیدھے اس کھلے علاقے سے ہو کر میری طرف آئیں۔ اگر گولی نہ چلتی اور صبح تک میں واپس نہ آتا تو میری تلاش شروع کرتے۔

کھائی رس بھری کی جھاڑیوں سے پٹی پڑی تھی۔ ہوا پہاڑی سے نیچے کی طرف آ رہی تھی اور میں بہت آہستگی سے بڑھ رہا تھا۔ سخت چڑھائی کے بعد میں گدھوں کے درخت تک پہنچ گیا۔ یہاں آ کر پتہ چلا کہ لاش یہاں سے دکھائی نہیں دیتی۔ دوربین سے دیکھنے پر یہ جگہ ہموار دکھائی دی تھی لیکن نزدیک آ کر پتہ چلا کہ یہ ہلالی شکل میں ہے اور درمیان میں کم از کم دس گز چوڑی اور سروں پر پتلی ہے۔ اس کا بیرونی کنارہ گھنی جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے اندورنی سرے پر پہاڑی تیزی سے نیچی ہوتی جاتی تھی۔ یہاں سے دو تہائی جگہ تو دکھائی دے رہی تھی۔ بقیہ ایک تہائی جہاں گائے کی لاش تھی، دیکھنے کے لئے مجھے یا تو دور سے لمبا چکر لگانا پڑتا یا پھر گدھوں والے درخت پر چڑھتا۔

میں نے سوچا کہ درخت پر چڑھتا ہوں۔ میرے اندازے سے گائے بیس گز دور تھی۔ یہ بھی عین ممکن تھا کہ تیندوا اس سے بھی کم فاصلے پر ہوتا۔ اگر گدھ اس درخت پر نہ ہوتے تو میں تیندوے کو خبردار کئے بناء اس پر نہ چڑھ پاتا۔ درخت پر بیس کے قریب گدھ جمع تھے اور ان کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ چونکہ اوپری شاخوں پر جگہ کم پڑ رہی تھی، اس لئے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور لڑائی میں شدت آتی جا رہی تھی۔ درخت پہاڑ سے باہر کی طرف جھکا ہوا تھا اور کھائی کے اوپر ایک شاخ زمین سے دس فٹ کی بلندی پر پھیلی ہوئی تھی۔ رائفل اٹھائے میں احتیاط سے اس شاخ تک پہنچا۔ جونہی گدھوں نے دوبارہ لڑائی شروع کی، میں اس شاخ پر چڑھ گیا۔ اس جگہ غلط قدم یا پیر پھسلنے کا مطلب سو فٹ نیچے چٹانوں پر گرنا تھا۔ میں ایک دوشاخے پر پہنچ کر بیٹھ گیا۔

گائے کی لاش اب صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس سے چند لقمے ہی کھائے گئے تھے۔ دس منٹ میں اسی جگہ پر رکا کیونکہ میری نشست کافی آرام دہ تھی۔ میں نے دو گدھ اس جگہ اترتے ہوئے دیکھے کہ شاید ان کے لئے درخت پر ناکافی جگہ تھی۔ ابھی وہ بمشکل رکے ہی ہوں گے کہ دوبارہ اڑے۔ اسی وقت میری طرف کی جھاڑیاں ہلیں اور اس سے ایک عمدہ نر تیندوا نکل کر باہر آیا۔

وہ افراد جنہوں نے تیندوے کو قدرتی ماحول میں نہیں دیکھا، وہ اس کی حرکات و سکنات میں موجود شان و شوکت، کھال کی خوبصورتی اور ہندوستانی جنگلوں کے اس خوبصورت ترین جانور کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ اس کی جسامت اور وزن کے حساب سے اس کی طاقت کا کوئی مقابل نہیں۔ نڈر پن میں اس کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں۔ اس جانور کو حقیر حشرات الارض کے برابر سمجھنا ایک ایسا جرم ہے جو انہی لوگوں سے سرزد ہوتا ہے جنہوں میں چڑیا گھر میں فاقہ زدہ اور قابل رحم تیندوے کو ہی دیکھتے ہیں۔ یہ جانور اپنی خوبصورتی کے باوجود مویشی خور ہو کر اپنی قسمت پر خود ہی مہر لگا چکا تھا۔ پچھلے چکر میں میں نے ڈلکانیہ کے باشندوں سے سے وعدہ کیا تھا اگر موقع ملا تو اس تیندوے کو ٹھکانے لگا دوں گا۔ اب وہ موقع میرے سامنے تھا۔ میرا خیال ہے کہ تیندوے نے اس گولی کی آواز بھی سنی ہوگی جس سے اس کی موت ہوئی۔

ہماری زندگی میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کوئی وجہ پتہ نہیں چلتی۔ جس گائے کی لاش پر میں نے تیندوے کو مارا، اس کے مالک ہی کے بارے سوچیں۔ یہ آٹھ سالہ لڑکا تھا اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ دو سال قبل اس کی ماں کو اسی گائے کے لئے چارہ کاٹتے ہوئے آدم خور نے ہلاک کیا تھا۔ بارہ ماہ بعد اس کے باپ کا یہی حشر ہوا۔ گھر کے چند برتن جو تھے وہ باپ کے قرض چکانے میں لگ گئے۔ اس لڑکے نے اپنی زندگی کا آغاز گائے کے مالک کے طور پر کیا۔ اس تیندوے نے اس گاؤں کی دو یا تین سو گایوں کو چھوڑ کر صرف اسی کی گائے کو چنا (مجھے ڈر ہے کہ میں نے جو لال رنگ کی بہترین نسل کی بہترین گائے اسے دی، سے اس کی تشفی نہ ہو پائی۔ اس گائے سے اس لڑکی کی پوری زندگی وابستہ تھی۔)

میرے نوجوان بھینسے جو میں پچھلے چکر پر ایک دیہاتی کی نگرانی میں دے کر گیا تھا، نے ان کا خوب خیال رکھا تھا۔ اپنی آمد کے اگلے دن میں نے انہیں باندھنا شروع کر دیا۔ آدم خور کی طرف سے موہوم سی امید تھی کہ وہ انہیں ہلاک کرے۔

وادی نندھور سے پانچ میل نیچے ایک بڑی چٹان کی جڑ میں ایک ہزار فٹ کی بلندی پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ آدم خور نے سابقہ چند مہینوں میں اس جگہ سے چار افراد ہلاک کئے تھے۔ تیندوے کی ہلاکت کے بعد اسی گاؤں سے چند اشخاص آئے کہ میں اپنا کیمپ ان کے گاؤں کے پاس لگاؤں۔ انہوں نے بتایا کہ آدم خور اس بڑی چٹان پر اکثر دکھائی دیتی ہے اور غالب امکان ہے کہ وہ اسی جگہ کسی غار میں رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی صبح چند عورتوں نے گھاس کاٹتے وقت شیرنی کو دیکھا تھا۔ اب گاؤں والے انتہائی دہشت زدہ تھے اور گھر سے نکلنا دوبھر ہو چکا تھا۔ ان سے ہر ممکن مدد کا وعدہ کر کے اگلی صبح میں گاؤں کی مخالف سمت سے پہاڑی پر چڑھا اور دوربین سے اس پوری چٹان کا جائزہ ڈیڑھ گھنٹے تک لیتا رہا۔ پھر میں نے وادی عبور کی اور گہری کھائی کی مدد سے اوپر گاؤں پر موجود چٹان پر چڑھا۔ یہاں راستہ بہت مشکل اور میری امید کے خلاف تھا۔ اس میں نیچے گرنے کا بھی اندیشہ تھا جو براہ راست گردن ٹوٹنے پر ہی منتج ہوتا۔ اس جگہ اپنا دفاع کرنا بھی ممکن نہ تھا۔

دو بجے تک میں نے ہر وہ جگہ دیکھ لی جس کی مجھے ضرورت پڑ سکتی تھی اور کیمپ کا رخ کر چکا تھا تاکہ جا کر ناشتہ کر سکوں۔ ایک بار مڑ کر دیکھنے پر پتہ چلا کہ دو آدمی میری طرف بھاگتے ہوئے آ رہے ہیں۔ ان سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ اسی صبح شیرنی نے اس کھائی میں ایک بیل ہلاک کیا ہے۔ یہ وہی کھائی تھی جہاں سے میں صبح کو اوپر گیا تھا۔ ایک آدمی سے یہ کہہ کر کہ وہ میرے کیمپ جا کر میرے ملازمین کو کھانا اور چائے بھیجنے کا کہے، میں دوسرے آدمی کے ساتھ الٹے قدموں وادی کی جانب مڑا۔

یہ کھائی دو سو فٹ گہری اور سو فٹ چوڑی تھی۔ نزدیک پہنچے تو گدھ اڑنے لگ گئے۔ افسوس کہ گدھوں نے کھال اور ہڈیوں کے سوا سب کچھ ہڑپ کر لیا تھا۔ ان ہڈیوں سے گاؤں بمشکل سو گز ہی دور تھا لیکن چٹان ناقابل عبور تھی۔ میرا رہنما مجھے کھائی میں چوتھائی میل نیچے لے گیا جہاں مویشیوں کی پگ ڈنڈی گذرتی تھی۔ بلند ہو کر یہ راستہ گھنے جنگلوں سے بار بار گذرتا ہوا آخر کار گاؤں جا ختم ہوتا تھا۔ گاؤں پہنچ کر میں نے نمبردار سے کہا کہ گدھوں نے بیل کی لاش کو ختم کر دیا ہے اور یہ بھی وہ ایک نو عمر بھینسا اور ایک چھوٹی مگر مضبوط رسی مہیا کرے۔ جتنی دیر میں یہ چیزیں ملتیں، میرے دو آدمی کھانا اور چائے لے کر دوسرے دیہاتی کے ہمراہ پہنچ گئے۔

جب میں اس کھائی میں داخل ہوا تو سورج ڈوبنے والا تھا۔ میرے پیچھے کئی آدمی تھے جو ایک جوان اور قوی الجثہ بھینسے کو لا رہے تھے۔ یہ بھینسا نمبردار نے میرے لئے نزدیکی گاؤں سے خریدا تھا۔ جہاں بیل ہلاک ہوا تھا، سے پچاس گز دور صنوبر کا ایک درخت پہاڑ سے اکھڑ کر نیچے گرا تھا اور اس کا ایک سرا کھائی کی زمین میں دفن تھا۔ بھینسے کو اس درخت سے باندھ کر سارے افراد واپس چلے گئے۔ اس علاقے میں درخت نہیں تھے۔ میری نشست کی ممکنہ جگہ اس کھڈ میں گاؤں والے کنارے پر موجود ایک دراڑ تھی۔ بہت مشکل کے ساتھ میں اس دراڑ تک پہنچا جو دو فٹ چوڑی اور پانچ فٹ لمبی تھی۔ کھائی کی تہہ یہاں سے بیس فٹ نیچے تھے۔ دراڑ نیچے جا کر کچھ اس طرح کی ہو گئی تھی مجھے وہ حصہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ دراڑ کچھ اس زاویے پر تھی کہ جب میں اس میں بیٹھتا تو شیرنی کی متوقع آمد میرے عقب سے ہوتی جبکہ بھینسا میرے سامنے تیس گز دور تھا۔

ابھی سورج ڈوبا ہی تھا کہ بھینسا اچانک ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا رخ دراڑ کی طرف تھا۔ اسی وقت ایک پتھر لڑھکتا ہوا نیچے آیا۔ جس طرف سے آواز آئی تھی، اس طرف گولی چلانا ممکن نہ تھا۔ دیکھے جانے کے ڈر سے میں بالکل چپ چاپ اور ساکت ہو کر بیٹھا رہا۔ کچھ دیر بعد بھینسے کا رخ آہستہ آہستہ بائیں جانب میری طرف ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ جس چیز سے خوف زدہ ہے، وہ میرے بالکل نیچے ہے۔ پھر شیر کا سر میرے نیچے سے نکلا۔ شیر کے سر پر گولی چلانا صرف انتہائی ہنگامی حالت میں ہی بہتر ہے۔ دوسرا اس وقت میری ہلکی سی بھی حرکت شیر کو میری جگہ سے با خبر کر دیتی۔ ایک یا دو منٹ تک یہ سر بالکل ساکت رہا پھر اچانک ہی یہ آگے بڑھا۔ ایک ہی چھلانگ میں شیر بھینسے پر تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، بھینسا شیر کی طرف رخ کئے ہوئے تھا۔ شیر ایک ہی چھلانگ میں بھینسے پر تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، بھینسا شیر کی طرف رخ کئے ہوئے تھا۔ شیر اس تیز رفتاری سے بھینسے کے پہلو میں پہنچا اور ایک ہی چھلانگ میں اسے زاویہ قائمہ پر جا لیا۔ سامنے سے نہ جانے کی وجہ سینگوں سے زخمی ہونے کا ڈر تھا۔ نہ تو دانت جمانے کے لئے شیر کو کوشش کرنا پڑی اور نہ ہی کوئی جد و جہد۔ دو بھاری جسموں کے ٹکراؤ کی آواز آئی اور بس۔ اب شیر بھینسے پر لیٹا ہوا اس کے گلے کو دبوچے ہوئے تھا۔ عام خیال کیا جاتا ہے کہ شیر گردن توڑ کر جانور کو مارتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ شیر دانتوں سے مارتے ہیں۔

شیر کا دائیاں پہلو میری طرف تھا۔ اپنی اعشاریہ 275 کی رائفل سے میں نے احتیاط سے نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ بھینسے کو چھوڑ کر شیر بغیر کوئی آواز نکالے جست لگا کر یہ جا وہ جا۔ یقیناً شیر کو گولی نہیں لگی۔ بظاہر اس کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی کہ نشانہ کیوں خطا ہوا۔ اگر شیر نے مجھے نہیں دیکھا یا رائفل کا شعلہ اسے نہیں دکھائی دیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ پلٹے۔ اس لئے رائفل کو دوبارہ بھر کر میں تیار ہو بیٹھا۔

شیر کے فرار کے بعد بھینسا بالکل ہی ساکت رہا۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید گولی شیر کی بجائے بھینسے کو لگی ہے۔ دس یا پندرہ منٹ بہت طویل ہو کر گذرے۔ اس کے بعد شیر کا سر دوبارہ اسی جگہ میرے نیچے سے نمودار ہوا۔ پھر وقفہ، پھر شیر آہستہ آہستہ سامنے آیا۔ بھیہنسے کے پاس جا کر وہ رکا اور اس نے بھینسے کو دیکھنا شروع کیا۔ شیر کا پورا جسم اس جگہ سے میرے سامنے تھا۔ دوسری بار مجھ سے وہی غلطی نہ ہوتی۔ اس بار میں نے بہت احتیاط سے نشانہ لیا اور گولی چلائی۔ میری توقع کے بالکل الٹ، شیر گرنے کی بجائے جست لگا کر بائیں جانب عمودی ڈھلوان پر چڑھ گیا اور پتھر نیچے لڑھکنے لگے۔

تیس گز کے فاصلے سے اور نسبتاً بہتر روشنی میں شیر پر چلائی گئی دو گولیاں جو میلوں دور تک دیہاتوں میں سنی گئی ہوں گی، اور میرے سامنے بھینسے کی لاش تھی جس پر ایک یا دو گولیوں کے سوراخ ہوں گے۔ یقیناً میری نظر میں فرق آ گیا تھا۔ یا چڑھائی میں رائفل کے دیدبان ہل گئے تھے۔ لیکن چھوٹی چھوٹی اشیاء پر نگاہ جمانے سے بصارت کی کمزوری نہ نکلی۔ رائفل کے دیدبان بھی بظاہر ٹھیک تھے۔ واحد امکان یہی تھا کہ میرا نشانہ خراب تھا۔

شیرنی کی تیسری بار آمد کا کوئی امکان نہ تھا۔ اگر وہ آتی بھی تو اتنی کم روشنی میں گولی چلانا یا اسے زخمی کرنا بیکار ہوتا جبکہ بہتر روشنی میں میں اس پر دو گولیاں ضائع کر چکا تھا۔ اب میرا یہاں رکنا بے کار تھا۔

سارے دن کی مشقت سے میرے کپڑے ابھی تک گیلے تھے اور بتدریج ٹھنڈی ہوتی ہوا مزید ٹھنڈی ہوتی جا رہی تھی۔ میری نیکر پتلے خاکی کپڑے کی تھی اور چٹان سخت اور ٹھنڈی۔ گاؤں میں چائے کا گرم گرم کپ میرا منتظر تھا۔ یہ تمام وجوہات چاہے جتنی عمدہ ہی کیوں نہ ہوں، مجھے آدم خور کی وجہ سے ادھر ہی رکنا تھا۔ اندھیرا گہرا ہوا چلا تھا۔ پون میل کا سفر گہری کھائیوں، بڑے بڑے پتھروں اور گھنے جنگل سے ہو کر گذرتا تھا۔ باوجود اس کے کہ گاؤں والوں نے کل شیرنی دیکھی تھی، باوجود اس کے کہ میں نے بظاہر آدم خور پر دو گولیاں چلائی تھیں، مجھے شیرنی کی اصل موجودگی کا کوئی علم نہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پچاس میل دور ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ پچاس گز دور سے مجھے دیکھ رہی ہو۔میری نشست جتنی بھی غیر آرام دہ تھی، بہتر یہی تھا کہ میں اسی جگہ صبح ہونے تک رہتا۔ جوں جوں وقت گذرتا رہا، مجھے یہ خیال تنگ کرتا رہا کہ رات کے اندھیرے میں شیرنی پر گولی چلانا اتنا آسان کام نہیں تھا جتنا کہ میں نے فرض کر لیا تھا۔ اگر یہ جانور دن کی روشنی میں نہ مارا جا سکا تو پھر اسے قدرتی موت مرنے کے لئے چھوڑ دینا پڑے گا۔ صبح کی روشنی ہوتے ہوتے یہ خیال اچھی طرح میرے ذہن میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ نیچے اترتے ہوئے میں پھسلا اور زمین پر کمر کے بل گرا۔ میری ٹانگیں آسمان کی طرف ہو گئیں۔ ساری رات کی سردی نے مجھے اکڑا دیا تھا۔ خوش قسمتی سے میں ریت پر گرا اور مجھے یا رائفل کو خراش تک نہ آئی۔

اتنی صبح کے وقت پورا گاؤں بیدار تھا۔ فوراً ہی انہوں نے مجھے گھیر لیا۔ ان کے سوالات کے جواب میں میں نے صرف اتنا کہا کہ میں فرضی شیر پر خالی کارتوس چلا رہا تھا۔

بھڑکتی آگ کے پاس بیٹھ کر اور چائے دانی خالی کرنے کے بعد میری ہمت کچھ بحال ہو گئی۔ اب گاؤں بھر کے مردوں اور لڑکوں کو اپنے ساتھ لے کر میں دوبارہ اسی جگہ لوٹا اور اس جگہ کھائی کے اوپر کھڑا ہوا جس جگہ میں نے رات بسر کی تھی۔ اب میں نے لوگوں کو بتایا کہ کس طرح شیر اس جگہ سے نکلا اور میرے گولی چلانے پر وہ اس طرف بھاگا۔ جونہی میں نے کھائی کی طرف اشارہ کیا، سارا ہجوم چلایا کہ "صاحب، شیر وہاں مردہ پڑا ہوا ہے۔" رات بھر جاگنے کے بعد شاید میری آنکھیں تھک گئی تھیں، لیکن بار بار دیکھنے پر بھی شیر غائب نہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ لوگوں نے پوچھا کہ بیس یا تیس منٹ بعد میں نے دوبارہ کیوں گولی چلائی؟ میں نے بتایا کہ کس طرح شیر دوبارہ اسی جگہ سے نکلا اور کس طرح میں نے اس پر گولی چلائی جب وہ بھینسے کے پاس کھڑا تھا اور گولی لگتے ہی وہ کیسے بھاگ کر بائیں جانب چڑھا۔ فوراً ہی غلغلہ بلند ہوا "صاحب، دوسرا شیر وہاں مردہ پڑا ہے۔" اس بار آوازوں میں گاؤں بھر کی لڑکیاں اور عورتیں بھی شامل تھیں جو دیر سے پہنچی تھیں۔ دونوں شیر ایک ہی جسامت کے تھے اور ساٹھ گز دور مردہ پڑے تھے۔

دوسرے شیر کے بارے پوچھنے پر دیہاتیوں نے بتایا کہ سابقہ چار ہلاکتوں کے مواقع اور پھر بیل کی لاش کے پاس کھوجی جماعت کو ہمیشہ ایک ہی شیر دکھائی دیا تھا۔ شیروں کے ملاپ کا موسم نومبر سے اپریل تک پھیلا ہوتا ہے۔ اگر دونوں شیروں میں سے ایک آدم خور ہوتی تو لازماً اس نے اپنا ساتھی تلاش کر لیا تھا۔ جہاں میں بیٹھا تھا، اس سے دو سو گز دور نیچے ایک عمودی راستہ تلاش کر لیا گیا اور سارے گاؤں والے میرے پیچھے چل پڑے۔ نزدیک جانے پر میری امیدیں اچانک بڑھ گئیں کہ یہ ایک بوڑھی شیرنی تھی۔ نزدیکی بندے کو رائفل تھما کر میں گھٹنوں کے بل جھکا اور اس کے پنجوں کو دیکھا۔ جس دن شیرنی نے گھاس کاٹتی عورتوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ اپنے پیروں کے بہت خوبصورت نشانات چھوڑ گئی تھی۔ یہ پہلے پگ تھے جو میں نے اس آدم خور کے دیکھے تھے۔ میں نے ان کو بغور دیکھا تھا۔ ان سے ہی علم ہوا تھا کہ شیرنی ایک بہت پرانی مادہ ہے جس کے ناخن اتنے بڑھ چکے ہیں کہ میں نے زندگی بھر کسی شیر کے اتنے بڑے ناخن نہیں دیکھے۔ ان وجوہات کی بنا پر آدم خور کو سو مردہ شیروں میں سے با آسانی پہچانا جا سکتا تھا۔ میری مایوسی کی انتہا دیکھیں، یہ مردہ بوڑھی شیرنی آدم خور نہیں تھی۔ جب میں نے یہ بات گاؤں والوں کو بتائی تو انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ پچھلے موقع پر میں نے خود کہا تھا کہ آدم خور ایک بہت پرانی شیرنی ہے اور اب جب وہ میرے سامنے مردہ پڑی ہے تو میں اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہوں۔ حالانکہ جس جگہ سے مری پڑی ہے، اس سے نزدیک ہی ان کے چار آدمی مختصر وقت میں مارے گئے ہیں۔ ان سب دلائل کے باوجود میرے پاس شیرنی کی پاؤں کی زیادہ اہمیت ہے جبکہ سب شیروں کے پاؤں ایک جیسے ہوتے ہیں۔

ان حالات میں دوسرا شیر نر ہی ہو سکتا تھا۔ جب میں شیرنی کی کھال اتارنے کی تیاری میں تھا تو ایک جماعت جا کر نر کو لے آئی۔ اس طرف ڈھلوان بہت عمودی تھی۔ کافی مشقت کے بعد وہ لوگ ایک خوبصورت نر شیر کو میرے پاس لائے۔

دس گھنٹے قبل مردہ اور اکڑے ہوئے شیروں کی کھال ایسے وقت اتارنا جب ارد گرد لوگ جمع ہوں اور سورج پشت جلا رہا ہو، ،میری زندگی کے تلخ ترین تجربات میں سے ایک ہے۔ دوپہر کو جا کر یہ کام مکمل ہوا۔ میرے آدمیوں نے بہت احتیاط سے ان کھالوں کو لپیٹا اور ہم پانچ میل دور کیمپ جانے کو تیار ہو گئے۔

صبح کے دوران میں نے ارد گرد کے دیہاتوں کے نمبرداروں کو بتایا کہ چوگڑھ کی شیرنی زندہ ہے۔ انہیں تمام ممکنہ احتیاط کرنی ہوگی ورنہ شیرنی لازماً فائدہ اٹھائے گی۔ اگر میری ہدایات پر عمل کیا جاتا تو آگلے مہینوں میں آدم خور اتنے شکار نہ کر پاتی۔

اگلے چند ہفتے تک آدم خور کی کوئی اطلاع نہ ملی۔ اس کے بعد میں ڈلکانیہ سے روانہ ہو گیا تاکہ ترائی میں ہونے والی سرکاری میٹنگ میں شریک ہو سکوں۔ مارچ 1930 میں ہمارے ضلع کے کمشنر ویوان آدم خور کے علاقے سے گذر رہے تھے۔ بائیس کو انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ وہ کالا آگر میں میرے منتظر ہیں، فوراً پہنچوں۔ نینی تال سے کالا آگر تک پچاس میل کا سفر ہے۔ خط کے دو دن بعد میں کالا آگر کے فارسٹ بنگلے میں مسٹر اور مسز ویوان کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا جہاں یہ لوگ مقیم تھے۔ ناشتے کے بعد ویوان نے بتایا کہ اکیس تاریخ کو ان کی آمد کے بعد، جب وہ لوگ برآمدے میں چائے پی رہے تھے، آدم خور نے بنگلے کے صحن میں گھاس کاٹتی ایک عورت کو ہلاک کر دیا اور اٹھا کر لے گئی۔ انہوں نے فوراً رائفلیں اٹھائیں اور اپنے چند ملازمین کے ہمراہ پیچھے روانہ ہوئے۔ عورت کی لاش انہیں ایک بڑے درخت کے نیچے جھاڑی میں ملی۔ بعد ازاں میں نے اس جگہ کا معائینہ کیا تو پتہ چلا کہ شیرنی ویوان وغیرہ کی آمد پر لاش کو چھوڑ کر نیچے اتری اور لاش کی جگہ سے پچاس گز دور رس بھری کی ایک جھاڑی میں چھپ گئی۔ اس بڑے درخت پر ویوان کے لئے اور دو دیگر درختوں پر دوسرے افراد کے لئے مچانیں باندھی گئیں۔ جونہی مچانیں تیار ہوئیں، یہ لوگ ان پر بیٹھ گئے۔ تاہم پوری رات شیرنی واپس نہ آئی۔

اگلی صبح لاش کو مذہبی رسومات کے لئے لے جایا گیا۔ انہوں نے اس جگہ ایک نو عمر بھینسا باندھ دیا جسے شیرنی نے اسی رات مار دیا۔ یہ جگہ بنگلے سے نصف میل دور تھی۔ اگلی شام کو دونوں میاں بیوی مچان بندھوا کر بیٹھے۔ چاند نہ نکلا تھا اور دن کی روشنی مدھم ہو چکی تھی کہ انہوں نے کسی جانور کو آتے سنا۔ پھر وہ جانور دکھائی بھی دیا۔ ناکافی روشنی کی وجہ سے وہ اسے ریچھ سمجھے۔ بدقسمتی سے یہ شیرنی ہی تھی۔ اگر وہ لوگ غلطی نہ کرتے تو یقیناً آدم خور اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتی۔ دونوں میاں بیوی اچھے نشانچی ہیں۔

یہ لوگ پچیس تاریخ کو کالا آگر سے نکلے اور اسی دن میرے چار نو عمر بھینسے ڈلکانیہ سے آن پہنچے۔ چونکہ شیرنی اب چارے کے لئے تیار تھی، میں نے یہ چاروں فارسٹ روڈ سے چند سو گز دور بندھوا دیے۔ تین راتیں مسلسل شیرنی ان بھینسوں سے چند فٹ کے فاصلے سے گذرتی رہی لیکن انہیں چھوؤا تک نہیں۔ چوتھی رات بنگلے کے نزدیک والا بھینسا مارا گیا۔ جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ اسے تیندوؤں کے ایک جوڑے نے ہلاک کیا ہے جو گذشتہ رات بنگلے کے اوپر بول رہے تھے۔ میں اس علاقے میں گولی نہ چلانا چاہتا تھا کہ شیرنی فرار ہو جاتی۔ لیکن اگر انہیں نہ مارا جاتا تو وہ میرے سارے بھینسے مار ڈالتے۔ میں نے ان کا پیچھا کیا اور بھینسے کی لاش سے ذرا دور دھوپ سینکتے ہوئے گھات لگا کر ہلاک کر دیا۔

کالا آگر بنگلے سے فارسٹ روڈ کئی میل تک گھنے جنگلات سے گذرتی ہے۔ کماؤں کے دیگر حصوں کے مقابلے یہاں سانبھر، کاکڑ، سور وغیرہ اور پرندے بھی بکثرت ہیں۔ دو بار میں نے ان جنگلات میں خون کے نشانات دیکھے اور اندازہ لگایا کہ شیرنی نے سانبھر مارا ہے لیکن تلاش نہ کر پایا۔

اگلے دو ہفتوں تک میں دن کا وقت اسی فارسٹ روڈ کے دونوں اطراف گشت میں گذارا۔ دو بار میں شیرنی کے نزدیک بھی پہنچا۔ پہلی بار جب میں کالا آگر کے سرے پر واقع ایک غیر آباد گاؤں گیا تھا۔ یہ گاؤں آدم خور کی سرگرمیوں کی وجہ سے خالی ہو چکا تھا۔ واپسی پر میں نے مویشیوں کی گذرگاہ پکڑی جو گھوم کر فارسٹ روڈ کی طرف جاتی ہے۔ یہاں پتھروں کے ڈھیر کے پاس پہنچ کر میں ٹھٹھک کر رک گیا۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا۔ اس جگہ فارسٹ روڈ تقریباً تین سو گز دور ہوگی۔ یہاں کنارے سے راستہ ہٹ کر چند گز سخت ڈھلوان اختیار کرتا ہوا دائیں مڑتا ہے اور پہاڑی پر سو گز تک جاتا ہے۔ اس راستے پر دائیں جانب درمیان میں پتھروں کا یہ ڈھیر تھا۔ ان پتھروں کے ڈھیر کے بعد راستہ ایک تنگ سا موڑ کاٹ کر ان پتھروں کے بائیں آ جاتا ہے۔ آگے چل کر ایک اور تنگ موڑ اور پھر یہ فارسٹ روڈ سے جا ملتا ہے۔

اس راستے سے میں پہلے بھی کئی بار آ چکا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے پتھروں کے ڈھیر سے گذرتے ہوئے جھجھک محسوس ہوئی۔ ان سے بچنے کا ایک راستہ یہ تھا کہ میں کئی سو گز گھنے جنگل سے گذرتا یا پتھروں کے اوپر سے لمبا چکر کاٹ کر گذرتا۔ میرے پاس لمبے چکر کا وقت نہ تھا کہ سورج ڈوبنے والا ہی تھا اور مجھے دو میل مزید چلنا تھا۔ اگر میں پہلا راستہ اختیار کرتا تو مجھے شدید خطرے سے دو چار ہونا پڑتا۔ چاہے مجھے کتنا ہی برا لگے، مجھے انہی پتھروں سے قریب سے ہو کر ہی جانا تھا۔ چونکہ ہوا پہاڑی کے نیچے سے اوپر کی طرف چل رہی تھی، میں بائیں جانب موجود گھنی گھاس کا قطعہ نظر انداز کر کے ساری توجہ دائیں طرف پتھروں پر ہی مرکوز رکھ سکتا تھا۔ سو فٹ کے بعد میں خطرے سے باہر ہوتا۔ یہ فاصلہ میں نے قدم بقدم طے کیا۔ میرا چہرہ ان پتھروں کی طرف اور رائفل شانے سے لگی ہوئی تھی۔ اگر کوئی مجھے دیکھتا تو ہنسی نہ روک پاتا۔

ان پتھروں سے تیس گز دور ایک کھلا قطعہ تھا جو راستے کے دائیں جانب سے شروع ہو کر پہاڑی پر پچاس یا ساٹھ گز تک چلا جاتا تھا اور اس کے اور ان پتھروں کے ڈھیر کے درمیان ایک گھنی جھاڑی حائل تھی۔ اس قطعے میں ایک کاکڑ چر رہا تھا۔ میں نے اسے پہلے دیکھا۔ اسے براہ راست دیکھنے کی بجائے میں نے آنکھوں کے گوشے سے دیکھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے سر اٹھایا لیکن اپنی طرف متوجہ نہ پا کر اس نے ساکت ہی کھڑے رہنے کو ترجیح دی۔ عموماً جب ان جانوروں کو احساس ہو کہ ان پر توجہ نہیں دی جا رہی تو وہ بھاگتے نہیں۔ پہلے موڑ پر پہنچ کر میں نے کنکھیوں سے دیکھا تو کاکڑ دوبارہ گھاس چرنے لگ گیا تھا۔

ابھی اس موڑ سے میں تھوڑا سا ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ کاکڑ دیوانہ وار بھونکتا ہوا سیدھا پہاڑی کے اوپر کی طرف بھاگا۔ چند ہی قدموں میں واپس موڑ پر تا۔ اسی وقت میں نے راستے کی نچلی طرف والی جھاڑیاں ہلتی دیکھیں۔ لازماً کاکڑ نے اسے دیکھا تھا اور جس جگہ جھاڑیاں ہل رہی تھیں، واحد جگہ تھی جہاں سے کاکڑ شیرنی کو دیکھ سکتا تھا۔ جھاڑی میں حرکت کا سبب پرندہ بھی ہو سکتا تھا اور شیرنی بھی۔ تاہم آگے جانے سے قبل ذرا سی تفتیش لازمی ہو گئی تھی۔

راستے پر پتھروں سے نکلنے والے چھوٹے سے چشمے کے سبب لال مٹی کیچڑ کی شکل میں تھی۔ اس جگہ قدموں کے نشانات بالکل واضح تھے۔ اس سے گذرتے ہوئے میں نے بھی اپنے نشانات چھوڑے تھے۔ یہاں اب پتھروں سے شیرنی کے کودنے اور اس وقت تک میرے پیچھے آنے کے نشانات تھے جب تک کہ کاکڑ نے بول کر اسے خبردار نہ کر دیا۔ یقیناً شیرنی اس پورے علاقے سے بخوبی واقف تھی۔ پتھروں پر مجھے شکار نہ کر سکنے کے بعد اب وہ اگلے موڑ پر گھات لگانے جا رہی تھی کہ کاکڑ نے اس کا کھیل بگاڑ دیا۔ شاید اب وہ گھاس میں چھپ کر اگلے موڑ پر مجھے جا لینے کی کوشش کرے۔

اب راستے پر مزید چلنا بے وقوفی تھی۔ میں نے کاکڑ کے فرار کے راستے کو ترجیح دی۔ بائیں مڑ کر نیچے اترا اور کھلے میدان سے ہو کر میں فارسٹ روڈ تک جا پہنچا۔ اگر اس وقت دن کی روشنی باقی ہوتی تو مجھے یقین تھا کہ شیرنی نہ بچ پاتی۔ پتھروں سے نکلنے کے بعد سے سارے حالات میری موافقت میں تھے۔ اس علاقے سے ہم دونوں ہی بخوبی واقف تھے۔ شیرنی کو میرے ارادے کا علم نہ تھا جبکہ میں اس کے ارادے سے بخوبی واقف تھا۔ تاہم یہ سب باتیں بیکار تھیں کیونکہ تاریکی چھانے میں اب کم ہی وقت رہ گیا تھا۔

میں نے پہلے بھی بتایا کہ خطرے کے وقت میری چھٹی حس بیدار ہو کر اپنا کام کرتی ہے۔ مزید اس بارے کچھ کہنا کہ یہ کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے وغیرہ وغیرہ، موضوع سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اس موقع پر میں نے نہ تو شیرنی کو دیکھا اور نہ ہی اس کی آواز سنی، نہ ہی پرندوں یا چرندوں نے کوئی اطلاع دی لیکن پھر بھی مجھے صاف اور بالکل واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ وہ پتھروں کے پیچھے موجود ہے۔ اس دن میں بہت دیر سے جنگل میں تھا، کئی میل کا سفر بھی طے کیا اور بالکل کوئی خطرہ نہ محسوس کیا۔ جونہی پتھروں کے نزدیک پہنچا مجھے اچانک ہی علم ہو گیا کہ یہاں میرے لئے خطرہ ہے۔ چند منٹ بعد کاکڑ نے مجھے اور آس پاس کے جنگل کو شیرنی کی موجودگی سے خبردار کر دیا۔ مڑ کر تحقیق کرنے سے پتا چلا کہ شیرنی کے پگ میرے اپنے قدموں کے نشانات کے اوپر موجود تھے۔

پچھلا: چوگڑھ کے شیر/2 فہرست اگلا: چوگڑھ کے شیر/3