کماؤں کے آدم خور/چوگڑھ کے شیر/1
مشرقی کماؤں کا جو نقشہ میرے سامنے دیوار پر لٹک رہا ہے، اس پر جا بجا کانٹے لگے ہیں۔ ہر کانٹے کے نیچے ایک تاریخ بھی درج ہے۔کانٹا اس علاقے کو اور تاریخ اس دن کو ظاہر کرتی ہے کہ جب سرکاری اطلاع کے مطابق اس جگہ چوگڑھ کے آدم خور نے انسانی جان لی تھی۔ نقشے پر کل چونسٹھ نشانات ہیں۔ میں نقشے کے درست ہونے پر اصرار نہیں کرتا کیونکہ یہ نقشہ میں نے صرف دو سال میں بنایا تھا۔ جو ہلاکتیں میرے علم میں نہ آئیں یا وہ اشخاص جو گھائل ہو کر بعد ازاں ہلاک ہو گئے، وہ اس فہرست میں شامل نہیں۔
پہلا کانٹا 15 دسمبر 1925 کا ہے اور آخری 21 مارچ 1930 کا ہے۔ شمالاً جنوباً دو کانٹوں کا انتہائی فاصلہ پچاس میل ہے اور شرقاً غرباً تیس میل۔ یہ علاقہ پندرہ سو مربع میل پر پھیلا ہوا اور پہاڑی ہے۔ یہاں سردیوں میں بہت برف پڑتی ہے اور گرمیوں میں وادیاں جھلسا دینے والی گرمی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس علاقے میں چوگڑھ کے آدم خور نے اپنی سلطنت اور دہشت طاری کر رکھی تھی۔ اس پورے علاقے میں بکھرے ہوئے گاؤں اکا دکا گھرانوں سے لے کر سو افراد تک کی آبادی رکھتے تھے۔ سخت پگڈنڈیاں ان دیہاتوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔ جب آدم خور کی سرگرمیوں کے باعث یہ راستے مخدوش ہو جاتے ہیں تو یہ لوگ رابطے کے لئے آواز سے کام لیتے ہیں۔ کسی اونچی جگہ مثلاً پتھر یا گھر کی چھت پر کھڑا ہو کر کوئی بھی شخص "کوووئی" کی آواز نکالتا ہے تاکہ پاس والے دیہات کے لوگ خبردار ہو جائیں۔ جب اس کا جواب ملتا ہے تو پہلا شخص تیز اور اونچی آواز میں چلا کر پیغام سنا دیتا ہے۔ ایک دیہات سے دوسرے اور پھر اس سے آگے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور پیغام نہایت مختصر وقت میں پورے علاقے میں پہنچ جاتا ہے۔
اس آدم خور پر قسمت آزمائی کے لئے میں نے اپنا نام ڈسٹرکٹ کانفرنس میں فروری 1929 میں پیش کیا۔ اس وقت کماؤں کے ڈویژن میں تین آدم خور سرگرم تھے۔ چونکہ چوگڑھ کے آدم خور سب سے زیادہ تباہی پھیلا رہا تھا، میں نے پہلے اسی کو چنا۔
سرکاری طور پر کانٹوں اور تاریخوں سے بھرا نقشہ میرے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے مطابق آدم خور کالا آگر کے شمالی اور مشرقی سرے پر زیادہ سرگرم تھا۔ یہ پہاڑ کوئی چالیس میل لمبا اور ساڑھے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑ کے شمالی سرے سے سڑک گذرتی ہے اور کئی جگہ میلوں تک گھنے جنگلات سے گذرتی ہے۔ بعض جگہ یہ سڑک جنگل اور مزروعہ زمین کے درمیان حد بندی کا کام بھی دیتی ہے۔ ایک جگہ سڑک بل کھاتی ہے جو کالا آگر کے فارسٹ بنگلے سے نزدیک ہے۔ یہ بنگلہ ہی میری منزل تھا اور چار دن کے پیدل سفر اور چار ہزار فٹ کی عمودی چڑھائی کے بعد اپریل 1929 کی ایک شام میں اس تک پہنچا۔ اس جگہ آخری انسانی شکار ایک بائیس سالہ نوجوان تھا جو مویشیوں کو چراتے وقت مارا گیا تھا۔ پہنچنے کے بعد اگلی صبح جب میں ناشتہ کر رہا تھا تو اس جوان کی دادی مجھے دیکھنے آئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ آدم خور نے اس کے واحد رشتہ دار کو ہلاک کر ڈالا ہے۔ جب وہ رو کر کچھ چپ ہوئی تو اس نے اپنی تینوں بھینسیں مجھے بطور چارہ استعمال کرنے کی پیش کش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر اس کی بھینسوں کی مدد سے میں آدم خور کو مار سکا تو اسے سکون اور اطمینان مل جائے گا کہ اس کے پوتے کا بدلہ لیا جا چکا ہے۔ یہ بھینسیں پوری طرح جوان اور میرے لئے بیکار تھیں۔ تاہم براہ راست انکار کرنے سے اس کا دل ٹوٹ جاتا۔ میں نے اسے کہا کہ میں اپنے ساتھ نینی تال سے لائے ہوئے نوجوان بھینسے پہلے باندھوں گا۔ اس کے بعد اس کی بھینسوں کی باری آئے گی۔ اس دوران آس پاس کے دیہاتوں کے نمبردار بھی میرے گرد جمع ہو چکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آدم خور کو آخری بار دس دن قبل اور بیس میل دور ایک گاؤں میں دیکھا گیا تھا جہاں آدم خور نے میاں بیوی کو مار کر کھایا تھا۔
دس دن پرانے نشانات کا پیچھا کرنا بے کار تھا۔ نمبرداروں سے کافی دیر تک بات کے بعد جب میں فارغ ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ مشرقی سرے کے گاؤں ڈلکانیہ کا چکر لگا لوں۔ ڈلکانیہ کالا آگر سے دس میل دور تھا اور آدم خور کی آخری واردات والے گاؤں سے دس میل دور۔
نقشے پر ڈلکانیہ اور اس کے آس پاس کے گاؤں پر لگے کانٹوں کی کثرت سے معلوم ہوتا تھا کہ آدم خور کا مستقل ٹھکانہ یہیں آس پاس ہی کہیں ہے۔ اگلی صبح ناشتہ کر کے میں کالا آگر کی طرف فارسٹ روڈ پر چلتا ہوا بڑھا۔ یہ سڑک مجھے پہاڑ کے آخر تک لے جائے گی اور جہاں سے مجھے اس سڑک کو چھوڑ کر نیچے اترنا تھا اور دو میل چل کر میں ڈلکانیہ پہنچ جاؤں گا۔ یہ سڑک جو کہ گھنے جنگلات سے گذرتی ہے، کم ہی استعمال ہوتی تھی۔ اس پر پگ تلاش کرتا ہوا میں آگے بڑھا۔ دو بجے میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے سڑک کو چھوڑ کر نیچے اترنا تھا۔ یہاں میں ڈلکانیہ کے بہت سارے بندوں سے ملا۔ یہ لوگ "کوووئی" کی وجہ سے جان چکے تھے کہ میں اس جگہ کیمپ لگانے آ رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ اس صبح آدم خور نے عورتوں کی ایک جماعت پر حملہ کیا تھا جو ڈلکانیہ سے دس میل دور ایک اور گاؤں کے پاس فصل کاٹ رہی تھیں۔
میرے ساتھی آٹھ میل سے میرا کیمپ اٹھائے آ رہے تھے۔ وہ بخوشی دس میل اور چلنے کے لئے تیار تھے لیکن جب میں نے یہ سنا کہ اس گاؤں کا راستہ خاصا مشکل اور گھنے جنگلات سے گذرتا ہے، میں نے آدمیوں کو ڈلکانیہ بھیج دیا اور خود اکیلے اس جگہ جا کر شیر کے حملے کا معائینہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے ملازم نے فوراً ہی کھانا بنانا شروع کر دیا۔ تین بجے کھانا کھا کر میں دس میل کے سفر پر چل دیا۔ عام حالات میں دس میل اڑھائی گھنٹے کا سفر ہے لیکن یہاں صورتحال برعکس تھی۔ مشرقی سرے سے گذرتا ہوا راستہ کئی گہری کھائیوں، بڑی بڑی چٹانوں، گھنی جھاڑیوں اور درختوں سے پٹا پڑا تھا۔ ہر اس طرح کی رکاوٹ جہاں آدم خور کی شکل میں موت چھپی ہو، سے پوری طرح محتاط ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔ پیش قدمی ظاہراً بہت سست ہو جاتی ہے۔ ابھی میں کافی دور تھا کہ ڈھلے سائیوں نے مجھے رکنے کا عندیہ دیا۔
کسی بھی دوسرے علاقے میں رات کو کھلے آسمان تلے خشک پتوں پر سو جانا بہت آرام دہ ہوتا لیکن یہاں اس طرح سونا یقینی موت ہوتا۔ عرصہ دراز سے شب بسری کے لئے مناسب درخت کے انتخاب اور اس پر آرام سے سو جانے کی عادت نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا تھا کہ کہاں اور کیسے سویا جائے۔ اس بار میں نے برگد کا درخت چنا۔ ابھی میں چند ہی گھنٹے سویا ہوں گا کہ درخت کے نیچے چند جانوروں کی آوازیں سن کر جاگ گیا۔ میری رائفل شاخ سے بندھی ہوئی تھی۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ ریچھوں کا غول "کارپھل" کے درختوں کی طرف جا رہا تھا۔ یہ درخت نزدیک ہی تھے۔ کھاتے وقت ریچھ بہت شور کرتے ہیں۔ جب تک وہ پیٹ بھر کر چلے نہ گئے، میرے لئے سونا ممکن نہ تھا۔
سورج ابھرے دو گھنٹے گذر چکے تھے کہ میں اس گاؤں پہنچا۔ پانچ ایکڑ کے خالی رقبے میں دو جھونپڑے اور مویشیوں کا ایک باڑہ تھا۔ اس کے ہر طرف جنگل تھا۔ اس گاؤں سے چند ہی گز دور گندم کا وہ کھیت تھا جہاں تین موقعوں پر گھات لگاتا آدم خور بروقت دکھائی دے گیا تھا۔ مجھے وہ جگہ دکھائی گئی۔ جس شخص نے شیر کو دیکھ کر عورتوں کو خبردار کیا تھا، نے بتایا کہ ناکام ہونے پر آدم خور جنگل کی طرف پلٹا اور وہاں دوسرے شیر کے ساتھ مل کر پہاڑی سے نیچے اترا۔ ان دونوں جھونپڑوں کے مکینوں کو رات بھر نیند نہ آئی کیوں کہ شیر رات بھر بولتے رہے اور میری آمد سے ذرا دیر پہلے ہی چپ ہوئے۔ دو شیروں والی بات نے تصدیق کی کہ آدم خور کے ساتھ اس کا بچہ بھی ہے۔
ہمارے دیہاتی بہت مہمان نواز ہوتے ہیں۔ جب انہیں علم ہوا کہ میرا کیمپ ڈلکانیہ میں ہے اور میں نے رات جنگل میں گذاری تھی، انہوں نے فوراً کھانا تیار کرنے کی پیش کش کی۔ میں جانتا تھا کہ اس طرح ان لوگوں پر غیر ضروری بار پڑتا۔ میں نے انہیں چائے کا کہا۔ چائے تو موجود نہ تھی لیکن دودھ کا گلاس مل گیا جو بہت زیادہ گڑ کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی میٹھا تھا۔ اگر اس کی عادت ہو جائے تو یہ بہت مزہ دیتا ہے۔
میزبانوں کی درخواست پر میں رائفل لے کر نگرانی کرتا رہا اور وہ لوگ باقی بچی ہوئی فصل کاٹ کر جلد ہی فارغ ہو گئے۔ دوپہر کو ان لوگوں کی دعائیں لے کر میں اس طرف روانہ ہوا جہاں وادی سے انہوں نے شیروں کی آوازیں سنی تھیں۔
یہ وادی تین دریاؤں نندھور، لدھیا اور مشرقی گوالا کے ملاپ سے شروع ہو کر جنوب مغرب کی طرف بیس میل جتنی پھیلی ہوئی ہے اور خوب گھنے جنگلات سے بھری ہوئی ہے۔ نشانات کا کھوج لگانا تو ممکن نہ تھا۔ میرے لئے واحد ممکنہ راستہ یا تو ان جانوروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا یا پھر جنگلی جانوروں کی آوازوں کی مدد سے ان کا پیچھا کرنا تھا۔
آپ میں سے وہ لوگ جو زمین پر رہ کر آدم خوروں کا شکار کرتے ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ جانوروں اور پرندوں کی آوازیں اور ہوا کا رخ اس طرز کے شکار میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس جگہ ان جانوروں اور پرندوں کی تفصیل بتانا تو مناسب نہیں کیوں کہ اس جگہ تین یا چار میل کا مطلب کئی ہزار فٹ کی بلندی یا پستی ہوتا۔ اسی نسبت سے جانور اور پرندے بھی بدل جاتے ہیں کہ جن پر شکاری بھروسہ کرتا ہے اور جن کی مدد سے اس کو اپنی حفاظت اور شکار کی حرکات کے بارے علم ہوتا ہے۔ تاہم ہر سطح یا بلندی اور پستی ، ہر جگہ ہوا کے رخ کی اہمیت یکساں ہی رہتی ہے۔ اس بارے چند الفاظ شاید بے محل نہ ہوں۔
شیروں کو علم نہیں ہوتا کہ انسانوں میں سونگھنے کی طاقت یعنی قوت شامہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ شیر جب آدم خور بنتا ہے تو وہ انسان پر حملہ کرتے وقت وہی طریقہ اپناتا ہے جو وہ دیگر جنگلی جانوروں کے شکار کے لئے آزماتا ہے۔ یعنی یا تو ہوا کے رخ کی مخالف سمت سے حملہ یا پھر ہوا کے رخ پر لیٹ کر۔
اس بات کی اہمیت تب واضح ہوتی ہے جب شکاری آدم خور کی تلاش کر رہا ہو تو کس طرف شیر کی موجودگی کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ یعنی کہ شیر گھات لگا رہا ہے یا پھر شکاری کے انتظار میں لیٹا ہوا ہے۔ اگر ہوا شیر سے شکاری کی طرف چل رہی ہو تو شیر کی جسامت، رنگ، بے آواز حرکت کرنے کی صلاحیت بھی فائدہ نہیں دے سکتی۔
چاہے شیر چھپ کر حملہ کرے یا پھر گھات لگا کر، دونوں صورتوں میں حملہ پشت کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔ اس لئے آدم خور کی تلاش میں نکلے شکاری کا ہوا کا رخ جانے بغیر گھنے جنگل میں گھسنا خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ مثلاً اگر شکاری کسی ایسی جگہ گھسے جہاں ہوا مخالف سمت میں چل رہی ہو تو شیر کی موجودگی عقب میں ہی ممکن ہے جہاں شکاری کی کم سے کم توجہ ہو سکتی ہے۔ تاہم بار بار ہوا کے رخ سے آگے پیچھے ہو کر وہ خطرے کو عقب کی بجائے دائیں یا بائیں لا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان صفحات پر آپ کو یہ تجویز اتنی بھلی نہ لگے لیکن حقیقی زندگی میں یہ بالکل بہترین کام کرتی ہے۔ جب بھوکا آدم خور گھنے جنگل میں گھات لگائے ہوئے ہو تو پیچھے کے رخ چلنے سے زیادہ بہتر اور محفوظ طریقہ اور کوئی نہیں۔
شام ہوتے ہوتے میں وادی کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔ اس دوران نہ تو شیروں کو دیکھا اور نہ ہی کسی پرندے یا جانور کی آواز سے اس کی موجودگی کا علم ہوا۔ اس جگہ سے نظر آنے والی واحد آبادی پہاڑ کے شمالی سرے پر موجود ایک مویشی خانہ ہی تھا۔
اس بار شب بسری کے لئے درخت کے چناؤ کے وقت میں کافی محتاط تھا۔ اس لئے رات بغیر کسی پریشانی کے گذری۔ تاریکی چھانے کے کچھ دیر بعد ہی شیروں کی آواز آئی اور پھر چند منٹ بعد مزل لوڈنگ بندوق سے دو گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد مویشی خانے کے لوگوں کا شور وادی میں گونجا۔ بقیہ رات پر سکون گذری۔
اگلے دن دوپہر تک میں نے پوری وادی چھان ماری اور اب میں اس ڈھلوان پر چڑھ رہا تھا کہ ڈلکانیہ اپنے بندوں سے جا ملوں کہ میں نے مویشی خانے سے ایک لمبی سی "کوووئی" سنی۔ یہ آواز دوبارہ آئی۔ میرے جواب پر ایک شخص چٹان پر چڑھا اور اس نے چلا کر پوچھا کہ کیا میں وہی صاحب ہوں جو نینی تال سے آدم خور کو مارنے آیا ہوا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ ہاں میں وہی صاحب ہوں۔ اس پر اس نے بتایا کہ دوپہر کو اس کے مویشی وادی میں اس طرف جہاں میں ابھی تھا، والی کھائی میں نکل گئے تھے۔ واپسی پر اس نے گنا تو ایک سفید گائے گم تھی۔
اس کا خیال تھا کہ اس گائے کو انہی شیروں نے مارا ہے جو گذشتہ رات اسی جگہ سے بول رہے تھے جہاں میں اب کھڑا تھا۔ اس اطلاع پر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کھائی میں تفتیش کی نیت سے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی میں اس کھائی کے سرے پر تھوڑا سا ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ مجھے مویشیوں کے کھروں کے نشانات دکھائی دیے۔ ان نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے مجھے وہ جگہ مل گئی جہاں شیروں نے گائے کو ہلاک کیا تھا اور پھر کھائی میں لے گئے تھے۔ گھیسٹنے کے نشانات سے پیچھا کرنا عقلمندی نہ ہوتا۔ میں نے وادی کا ایک لمبا چکر لگایا اور اس جگہ دوسرے کنارے سے پہنچا جہاں میری توقع کے مطابق شیر گائے کو لے جاتے۔یہ کنارہ کم ڈھلوان تھا اور اس نوعیت کا تھا کہ اس سے گھات لگانا آسان تھی۔ قدم بقدم اور سائے کی طرح چھپ کر میں آگے بڑھتا رہا۔ اس جگہ گھاس میری کمر تک تھی۔ ابھی میں تیس گز ہی بڑھا ہوں گا کہ سامنے سے کچھ حرکت دکھائی دی۔ ایک سفید ٹانگ اوپر کو اٹھی اور پھر زور سے غراہٹ سنائی دی۔شاید دونوں شیروں کے درمیان گوشت کے کسی خاص ٹکڑے پر جھگڑا ہو رہا تھا۔
کئی منٹ تک میں بالکل خاموش کھڑا رہا۔ ٹانگ بار بار ہلتی رہی لیکن غراہٹ کی آواز دوبارہ نہ آئی۔ اگر میں کسی طرح تیس گز اور آگے بڑھ سکتا اور ایک شیر کو ہلاک کر بھی لیتا تو دوسرا چڑھ دوڑتا۔ اس جگہ تحفظ ناممکن تھا۔ مجھ سے بیس گز دور اور شیروں سے بھی اتنے ہی فاصلے پر ایک بڑا پتھر تھا جو دس یا پندرہ فٹ بلند ہوگا۔ اگر میں اس تک پہنچ پاتا تو میرے لئے گولی چلانا نسبتاً آسان ہو جاتا۔ گھٹنوں اور کہنیوں کے بل چلتا اور رائفل کو دھکیلتا ہوا میں اس پتھر کے پیچھے پہنچا۔ منٹ بھر رک کر سانس بحال کی اور رائفل بھر کر چٹان پر چڑھا۔ جب میری آنکھیں پتھر کی اوپری سطح کے برابر آئیں، میں نے جھانکا تو دو شیر دکھائی دیے۔
ایک شیر گائے کا پچھلا حصہ کھا رہا تھا اور دوسرا ساتھ ہی لیٹا ہوا پنجے چاٹ رہا تھا۔ دونوں بظاہر ایک ہی جسامت کے حامل تھ۔ جو پنجے چاٹ رہا تھا، اس کا رنگ کچھ مدھم سا تھا۔ میں نے سوچا کہ بڑی عمر کی وجہ سے کھال کا رنگ مدھم پڑ گیا ہوگا۔ پوری احتیاط سے نشانہ لے کر گولی چلائی۔ گولی لگتے ہی وہ اچھلا اور نیچے گرا جبکہ دوسرے نے اتنی تیزی سے چھلانگ لگائی کہ مجھے دوسری لبلبی دبانے کا وقت بھی نہیں ملا۔ جس شیر کو گولی لگی تھی، وہ بے حس و حرکت تھا۔ اسے پتھر وغیرہ مار کر میں نے تسلی کی اور پھر اس کی طرف گیا۔ اسے دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی کہ میں نے غلطی سے شیرنی کی بچی کو مار دیا تھا۔ اس غلطی کا خمیازہ مجھے مزید بارہ ماہ کی اضافی محنت اور ضلع کو پندرہ مزید انسانی جانوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ میں خود بھی مرتے مرتے بچا۔
یہ سوچ کر میری مایوسی کچھ کم ہوئی کہ اگرچہ اس شیرنی نے ابھی تک کوئی انسان نہیں مارا تھا لیکن انسانی ہلاکتوں میں اس نے اپنی ماں کی مدد تو کی ہوگی (یہ اندازہ بعد ازاں درست نکلا)۔ بہرحال اس کی پرورش تو انسانی گوشت پر ہی ہوئی تھی۔ عین ممکن تھا کہ آگے چل کر یہ بھی آدم خور ہی بنتی۔
کھلے میدان میں بیٹھ کر اور مناسب اوزاروں کی مدد سے شیر کی کھال اتارنا مشکل نہیں۔ لیکن یہاں میں اکیلا، چاروں طرف گھنی جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ میرے پاس اوزار کے نام پر پینسل تراشنے والا ایک چاقو تھا۔ شیر بلاوجہ شکار نہیں کرتے۔ بظاہر مجھے آدم خور سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ تاہم میرے ذہن میں کسی جگہ یہ خیال موجود تھا کہ شیرنی لوٹ آئی ہے اور میری ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
سورج ڈوبنے سے ذرا قبل یہ کام پورا ہوا۔ چونکہ دوسری رات بھی مجھے جنگل میں ہی گذارنی تھی، میں نے اسی جگہ ہی رہنے کا سوچا۔ شیرنی کے پگ سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بوڑھی شیرنی ہے اور اس نے ساری زندگی اسی جنگل میں گذاری ہے جہاں تقریباً ہر شخص کے پاس آتشیں اسلحہ ہوتا ہے۔ اسے آدمیوں کے طور طریقوں کا بھی علم ہے۔ اس کے باوجود امکان تھا کہ وہ رات کو کسی وقت دوبارہ گائے کو کھانے آتی اور سورج نکلنے تک ادھر ہی رہتی۔
درختوں کی تعداد خاصی محدود تھی اور اس رات جو درخت میں نے شب بسری کے لئے چنا، میں نے زندگی بھر اس سے زیادہ تکلیف دہ درخت نہیں دیکھا۔ شیرنی ساری رات وقفے وقفے سے بولتی رہی لیکن صبح ہوتے وقت اس کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔ بالآخر اس کی آواز پہاڑ کے اوپر غائب ہو گئی۔
میرا جسم اکڑا ہوا، سخت بدن اور بھوک سے بد حال تھا۔ سابقہ چونسٹھ گھنٹوں سے میں نے کچھ نہ کھایا تھا۔ رات کو گھنٹہ بھر بارش بھی ہوئی تھی اور میں اچھی طرح بھیگ چکا تھا۔ صبح کو جب ہر چیز صاف دکھائی دینے لگی تو میں نیچے اترا۔ شیرنی کی کھال کو میں نے کوٹ میں باندھا اور ڈلکانیہ چلا۔میں نے شیر کی تازہ اتری ہوئی کھال کا کبھی وزن نہیں کیا۔ اگر کھال، پنجے اور سر ملا کر کل وزن چالیس پاؤنڈ ہوتا ہو تو اس پندرہ میل کے اختتام پر یہ وزن کوئی دو سو پاؤنڈ ہو چکا تھا۔
درجن بھر گھروں کا مشترکہ صحن، جس پر سلیٹ کے پتھر لگے ہوئے تھے، میں میرے آدمی سو سے زیادہ دیہاتیوں کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ میری آمد کا اس وقت تک کسی علم نہ ہوا جب تک کہ میں خون میں لت پت، بھوکا اور ٹھوکریں کھاتا لوگوں کے درمیان میں نہ پہنچ گیا۔ یہ منظر مجھے تادم مرگ یاد رہے گا۔
میرا چالیس پاؤنڈ کا خیمہ کھیت کے بیچوں بیچ نصب تھا اور گاؤں سے سو گز دور۔ ابھی میں اس تک پہنچا ہی تھا کہ میرے سامنے چائے لا کر رکھ دی گئی۔ میز کی جگہ دو اٹیچی تھے۔ بعد ازاں مجھے دیہاتیوں نے بتایا کہ میرے ہمراہی جو برسوں سے اس طرح کی مہمات میں میرے ساتھ تھے، نے یہ ماننے سے انکار کیا تھا کہ میں آدم خور کا لقمہ بن چکا ہوں۔ دن ہو یا رات، وہ چائے کی کیتلی آگ پر رکھے میرے منتظر رہے۔ انہوں نے ڈلکانیہ اور دیگر دیہاتوں کے نمبرداروں وک الموڑہ یہ اطلاع بھیجنے سے بھی روکے رکھا کہ میں گم ہو چکا ہوں۔
انتہائی مجبور ہو کر میں نے سارے گاؤں کے سامنے ہی گرم غسل کیا کیونکہ میں بہت گندا اور تھکا ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے کھانا کھایا۔ ابھی میں سونے ہی جا رہا تھا کہ زور سے آسمانی بجلی چمکی اور پھر گرج سنائی دی۔ کھیت میں خیمے کے لئے کیل زیادہ مضبوط نہیں گاڑے جا سکتے۔ ہم نے گاؤں سے کھونٹے منگوائے اور ان کی مدد سے خیمہ پھر سے گاڑا۔ مزید حفاظت کے لئے ہم نے اضافی رسیاں خیمے پر ہر طرف سے لپیٹ کر کھونٹوں سے باندھ دیں۔ آندھی اور طوفان گھنٹہ بھر جاری رہا اور میرے خیمے نے اتنا شدید طوفان پہلے کبھی نہیں جھیلا تھا۔ خیمے کی اپنی کئی رسیاں کینوس سے ٹوٹ کر الگ ہو گئیں لیکن کھونٹے اور اضافی رسیاں اپنی جگہ قائم رہیں۔ اکثر اشیاء بھیگ گئیں اور کئی انچ گہری ندی خیمے کے آر پار بہہ رہی تھی۔ تاہم خوش قسمتی سے میرا بستر نسبتاً خشک تھا۔ دس بجے جب میرے آدمی گاؤں میں اپنے لئے مختص کردہ کمرے میں دروازہ بند کر کے سو گئے تو میں نے بھی رائفل بھری اور سو گیا۔ بارہ گھنٹے بعد میں اٹھا۔
اگلا دن سامان سکھانے اور شیرنی کی کھال صاف کرنے اور سیدھا کرنے میں گذارا۔ یہ سارا منظر گاؤں والوں نے دیکھا جو اس دن اپنے کاموں سے چھٹی کر کے میری داستان سننے کو آئے ہوئے تھے۔ ہر وہ شخص موجود تھا جس کا ایک یا ایک سے زیادہ رشتہ دار شیرنی کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا۔ کئی لوگوں کے جسموں پر شیرنی کے پنجوں اور دانتوں کے نشانات تادم مرگ ثبت رہیں گے۔ان لوگوں نے میری معذرت کو قبول نہ کیا کہ میں نے شیرنی کی بجائے غلطی سے اس کے بچے کو مار دیا ہے۔ اصل میں آدم خور ایک ہی تھا لیکن گذشتہ کئی ماہ سے لاشیں لانے والے امدادی جماعتوں نے ہمیشہ دو ہی شیرنیاں دیکھی تھیں۔ دو ہفتے قبل ہی میاں بیوی کا ایک ساتھ مارا جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ دونوں شیرنیاں ہی آدم خور تھیں۔
میرا خیمہ پہاڑ کی بلندی پر تھا اور کافی وسیع علاقہ میرے سامنے تھا۔ میرے بالکل سامنے دریائے نندھور کی وادی تھی جس میں ہر طرح کے جھاڑ جھنکار سے پاک پہاڑی تھی جو دوسری طرف سے نو ہزار فٹ بلند تھی۔ شام کو میں اس جگہ دوربین لے کر بیٹھا اور با آسانی وہ تمام جگہیں تلاش کر لیں جہاں آدم خور نے سرکاری نقشے کے مطابق وارداتیں کی تھیں۔ تین سال میں یہ وارداتیں چالیس مربع میل پر پھیلی ہوئی تھیں۔
اس علاقے کے جنگل مویشیوں کے لئے وقف تھے۔ مویشیوں کے راستے پر میں نے اپنے چاروں نوعمر بھینسے باندھنے کا سوچا۔
دس دن تک شیرنی کی کوئی اطلاع نہ آئی۔ میں ہر روز صبح سویرے بھینسوں کی طرف چکر لگاتا۔ دن بھر جنگل میں ہوتا اور شام کو بھینسوں کو جا کر دوبارہ باندھتا۔ گیارہویں دن مجھے اطلاع ملی کہ میرے خیمے سے اوپر والے پہاڑ پر ایک کھڈ میں ایک گائے ماری گئی ہے۔ میری امیدیں دوبارہ تازہ ہو گئیں۔ جا کر دیکھا تو یہ ایک پرانے تیندوے کا شکار تھی جس کے پگ اکثر یہاں دکھائی دیتے تھے۔ دیہاتیوں نے شکایت کی کہ اس تیندوے نے ان کے ڈھیروں جانور مارے ہیں۔ میں مردہ گائے کے نزدیک ہی ایک کھوہ میں چھپ گیا۔ جلد ہی تیندوا مخالف سمت سے آتا دکھائی دیا۔ ابھی میں گولی چلانے کے لئے رائفل سیدھی کر ہی رہا تھا کہ گاؤں سے ایک بے چین آواز سنی جو مجھے بلا رہی تھی۔
اس ہنگامی بلاوے کا ایک ہی مقصد ہو سکتا تھا۔ ہیٹ اٹھائے میں کھوہ سے نکلا۔ تیندوا پہلے تو حیرت سے اچھل کر چت گرا، پھر غصیلی آواز نکالتے ہوئے فرار ہو گیا۔ میں نے کھڈ سے نکل کر اس آدمی کو چلا کر بتایا کہ میں آ رہا ہوں، اور اس طرف بھاگا۔
وہ آدمی چڑھائی کا پورا راستہ بھاگتے ہوئے آیا تھا۔ جب اس کا سانس بحال ہوا تو پتہ چلا کہ شیرنی نے گاؤں سے نصف میل دور ایک عورت کو ہلاک کیا ہے۔ راستے میں ہی میں نے صحن میں لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ کسی نے میری آمد کا نوٹس بھی نہ لیا۔ ان کے سروں پر سے جھانک کر دیکھا کہ ایک لڑکی زمین پر بیٹھی ہے۔
اس کے اوپری جسم کے کپڑے تار تار ہو چکے تھے اور ہاتھ پیچھے ٹکائے اس کا سر پیچھے کو جھکا ہوا تھا۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھی تھی۔ اس کی چھاتی ہلنے سے سانس کی آمد و رفت کا اندازہ ہو رہا تھا۔ اس کی گردن اور چہرے سے خون بہہ رہا تھا اور لوتھڑوں کی شکل میں جمع ہوتا جا رہا تھا۔
جلد ہی لوگوں نے میری آمد کو محسوس کیا اور مجھے راستے دینے کو ہٹنے لگے۔ لڑکی کے پاس پہنچ کر اس کے زخموں کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے لوگوں نے بتایا کہ نسبتاً کھلے میدان میں شیرنی نے اس پر حملہ کیا تھا اور بہت سارے لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ لڑکی کا شوہر بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ ان لوگوں کے شور سے شیرنی بھاگ گئی اور لڑکی وہیں کی وہیں پڑی رہی۔ اس کے ساتھی بھاگ کر گاؤں آئے تاکہ مجھے اطلاع ہو سکے۔ بعد میں جب لڑکی کو ہوش آیا تو وہ خود چل کر گاؤں پہنچی۔ لوگوں نے کہا کہ یہ لڑکی جلد ہی مرنے والی ہے۔ اس لئے اسے اٹھا کر ہم جائے واردات پر لے چلتے ہیں۔ جب یہ مر جائے گی تو اس کی لاش پر میں چھپ کر شیرنی کو مار سکتا ہوں۔
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں اور لڑکی کی نگاہیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ زخمی اور بے بس جانور کا سا تائثر اس کی آنکھوں سے ظاہر تھا۔ لوگ اتنے جمع تھے کہ مجھے لڑکی کے سانس لینے کے لئے جگہ بنانی پڑی۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے کافی غیر مہذب انداز میں لوگوں کو ہٹایا۔ جب سارے مرد چلے گئے تو عورتیں سامنے آئیں جو ابھی تک پیچھے تھیں۔ میں نے انہیں گرم پانی لانے کو بھیجا اور اپنی نسبتاً صاف قمیض کو پھاڑ کر پٹیاں بنائیں۔ ایک لڑکی جو تقریباً ہسٹیریائی انداز میں چیخ رہی تھی، کو قینچی لانے بھیجا۔ اس کی واپسی سے قبل ہی پٹیاں بن چکی تھیں اور گرم پانی بھی آ چکا تھا۔ لڑکی گاؤں کی واحد قینچی لے آئی۔ اس کا مالک درزی کافی عرصے پہلے مر چکا تھا۔ درزی کی بیوہ اس قینچی سے آلو اکھاڑتی تھی۔ قینچی زنگ آلود تھی اور اس کے آٹھ انچ لمبے پھل کسی بھی جگہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے۔ ناکام ہو کر میں نے خون آلود بالوں کو ویسے ہی رہنے دیا۔
اس لڑکی کو دو بڑے زخم آئے تھے جو شیرنی کے پنجوں سے بنے تھے۔ ایک زخم آنکھوں کے درمیان سے شروع ہو کر سر سے ہوتا ہوا پیچھے گدی پر جا کر ختم ہوتا تھا۔ دوسرا زخم پہلے کے قریب سے شروع ہو کر دائیں کان تک جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بے شمار گہری خراشیں دائیں چھاتی، دائیں کندھے اور گرن پر تھیں۔ ایک گہرا زخم دائیں ہاتھ کی پشت پر بھی تھا جو بظاہر سر کو بچاتے ہوئے لگا۔
ایک بار میں اپنے ایک ڈاکٹر دوست کو شیر کے پیدل شکار پر لے گیا تھا۔ واپسی پر انہوں نے مجھے دو اونس جتنا کوئی زرد رنگ کے محلول کی ایک شیشی دی تھی۔ انہوں نے ہدایت کی تھی کہ میں اسے ہمیشہ اپنی شکاری مہمات پر ساتھ رکھوں۔ میری اندرونی جیب میں رکھے رکھے اس شیشی کو ایک سال ہو چکا تھا۔ اس کا کچھ حصہ تو عمل تبخیر سے اڑ چکا تھا لیکن ابھی بھی تین چوتھائی دوائی باقی تھی۔ اس لڑکی کا سر اور جسم دھو کر میں نے اس شیشی کا ڈھکن اتارا اور اس میں موجود آخری قطرہ تک اس لڑکی کے زخموں پر انڈیل دیا۔ اس کے بعد میں نے اس انداز میں سر پر پٹی باندھی کہ اس کی جلد جڑی رہے۔ اس کے بعد میں اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گیا۔ گھر میں ایک ہی کمرہ تھا جو بیک وقت باورچی خانے، سونے کے کمرے وغیرہ کا کام دیتا تھا۔ بقیہ عورتیں میرے پیچھے پیچھے آئیں۔ دروازے کے ساتھ ہی ٹوکری میں ایک ننھا سا بچہ بھوک سے رو رہا تھا۔ اس مشکل کا حل میرے بس سے باہر تھا۔ میں نے یہ ذمہ داری عورتوں پر ڈال دی۔ دس دن بعد روانگی سے ایک روز قبل شام کو میں اس لڑکی کو دیکھنے گیا۔ وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی تھی اور اس کا بچہ اس کی گود میں بے خبر سو رہا تھا۔
اس کے تمام زخم ما سوائے گدی والے زخم کے (جہاں شیرنی کے پنجے زیادہ گہرے گڑے تھے) بھر چکے تھے۔ اس نے اپنے کالے سیاہ بال ہٹا کر مجھے زخم دکھایا جو بالکل ہی بھر چکا تھا اور کھال بھی مل چکی تھی۔ مسکراتے ہوئے اس نے بتایا کہ اسے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ اس کی بہن درزی کے گھر سے غلط قینچی لے کر آئی تھی (ہندوستان میں کٹے ہوئے بال یا گنجی عورت بیوگی کی علامت ہوتی ہے) اگر میرے ڈاکٹر دوست یہ سطریں پڑھ رہے ہوں تو میں انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی دی ہوئی زرد محلول کی شیشی نے ایک نوجوان بہادر ماں کی جان بچا لی ہے۔ جب میں لڑکی کی مرہم پٹی کر رہا تھا تو میرے آدمیوں نے ایک بکری لی اور خون کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے ہم اس جگہ پہنچے جہاں شیرنی نے لڑکی پر حملہ کیا تھا۔ بکری کو ایک جھاڑی سے باندھ کر میں یہاں موجود اکلوتے درخت پر چڑھ گیا۔ سونے کا خیال ہی بے کار تھا کیونکہ میں زمین سے چند ہی فٹ اوپر تھا اور شیرنی ابھی تک بھوکی تھی۔ تاہم اس رات نہ تو شیرنی کی آواز سنائی دی اور نہ وہ ادھر آئی۔
اگلی صبح زمین کا جائزہ لیتے ہوئے، جس کا مجھے گذشتہ شام وقت نہ مل سکا تھا، میں نے دیکھا کہ لڑکی پر حملے کے بعد شیرنی وادی میں نصف میل وہاں تک گئی تھی جہاں مویشیوں کا راستہ دریائے نندھور سے ہو کر گذرتا ہے۔ اس راستے پر وہ دو میل گئی جہاں سڑک ڈلکانیہ کے اوپر فارسٹ روڈ سے جا ملتی ہے۔ یہاں زمین سخت تھی اور میں اس کے نشانات کھو بیٹھا۔ دو دن تک ارد گرد کے دیہاتیوں نے اپنے گھروں سے باہر قدم نہ رکھا۔ تیسرے دن مجھے چار ہرکاروں نے آ کر اطلاع دی کہ شیرنی نے ڈلکانیہ سے جنوب میں ایک شکار کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فارسٹ روڈ سے راستہ دس میل ہے اور شارٹ کٹ سے یہ فاصلہ کوئی پانچ میل رہ جاتا ہے۔ جلد ہی میں تیار ہو گیا اور دوپہر کے ذرا بعد میں ان کے ہمراہ چل پڑا۔ دو میل کی سخت چڑھائی کے بعد ہم ڈلکانیہ کے جنوب میں پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گئے۔ ہمارے سامنے تین میل چوڑی وادی تھی جہاں شیرنی نے شکار کیا تھا۔ ہرکارے اس سے زیادہ کچھ نہ جانتے تھے۔ وہ خود موہالی والی طرف اس جگہ سے میل بھر دور رہتے تھے۔ دس بجے انہیں پیغام ملا کہ لوہالی میں ایک عورت کو شیرنی نے مار ڈالا ہے اور وہ مجھے ڈلکانیہ جا کر اس کے بارے اطلاع دیں۔ انہیں یہ اطلاع بذریعہ "کوووئی" ملی تھی۔
یہ چوٹی جہاں ہم اس وقت کھڑے تھے، بالکل بنجر تھی اور میں یہاں سانس لینے اور سیگرٹ پینے کے لئے رکا۔ اس دوران میرے ساتھی مجھے اس علاقے کے بارے بتاتے رہے۔ اس جگہ سے نزدیک، جہاں ہم کھڑے تھے، ایک پرانا بوسیدہ جھونپڑا تھا جو ایک بڑی چٹان کے نیچے تھا۔ اس کے گرد کانٹوں کی باڑ لگی ہوئی تھی۔ اس جھونپڑے کے بارے میں سوال کا جواب کچھ یوں ملا کہ یہ جھونپڑا چار سال پہلے ایک بھوٹیا نے بنایا تھا تاکہ وہ اپنی بکریاں گرمیوں اور برسات میں ادھر لا سکے۔ وہ گڑ اور نمک وغیرہ کو ادھر سے ادھر لاتا لے جاتا تھا۔ چند ہفتے بعد اس کی بکریاں انہی لوگوں کے کھیت میں گھس گئیں۔ یہ لوگ جب شکایت کرنے آئے تو دیکھا کہ جھونپڑا خالی تھا۔ اس طرح کے لوگوں کے پاس رکھوالی کے خونخوار کتے ہوتے ہیں۔ اس بھوٹیا کا اسی طرح کا کتا زنجیر سے بندھا مرا ہوا تھا۔ انہیں شک پڑا اور اگلے دن آس پاس کے دیہاتوں کے لوگوں نے مل کر تلاش شروع کی۔ چار سو گز دور آسمانی بجلی سے جلا ہوا ایک برگد کا درخت تھا۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس کے نیچے بھوٹیا کی باقیات میں کھوپڑی اور ہڈیوں کے چند ریزے اور خون آلود کپڑے ملے۔ چوگڑھ کی آدم خور کا یہ پہلا شکار تھا۔
جہاں ہم ابھی بیٹھے تھے، یہاں سے نیچے اترنا ناممکن تھا۔ انہون نے بتایا کہ نصف میل آگے چل کر ہم اس جگہ پہنچیں گے جہاں ایک مشکل راستہ ہمیں سیدھا نیچے لے جائے گا۔ ان کے گاؤں سے گذر کر یہ راستہ لوہالی جاتا ہے۔ لوہالی یہاں سے دکھائی دے رہا تھا۔ نصف راستہ طے کرنے کے بعد اچانک میں نے بغیر کسی وجہ سے محسوس کیا کہ ہمارا تعاقب ہو رہا ہے۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ اس علاقے میں ایک ہی آدم خور ہے اور اس نے تین میل دور ایک شکار مارا ہے اور وہ اب اس کے پاس ہی موجود ہوگی۔ تاہم یہ مجھے مسلسل یہی محسوس ہوتا رہا۔ ابھی چونکہ ہم گھاس کے قطعے پر تھے، میں نے ساتھیوں کو نیچے بیٹھنے اور میری واپسی تک کوئی حرکت نہ کرنے کا کہا۔ اب میں واپس مڑا تاکہ کچھ تفتیش کر سکوں۔ الٹے قدموں میں واپس چلا اور اس جگہ پہنچا جہاں سے ہم اس کنارے پر چڑھے تھے۔ یہاں سے میں جنگل میں گھس گیا اور اس کھلے علاقے کا جائزہ لے کر واپس اپنے آدمیوں کے پاس پہنچا۔ کسی جانور یا پرندے نے مجھے شیر کی موجودگی کے بارے نہیں بتایا تھا لیکن اب میں نے چاروں ساتھیوں کو اپنے آگے چلنے کا کہا اور سفیٹی کیچ پر انگلی رکھے میں مستقل پیچھے کی طرف نگران رہا۔
جب ہم اس گاؤں پہنچے جہاں سے میرے ساتھیوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا، انہوں نے رخصت چاہی۔ بخوشی میں نے انہیں اجازت دی۔ ابھی میں نے میل بھر گھنے جنگل سے گذرنا تھا اور اگرچہ تعاقب کا احساس کافی دیر سے غائب ہو چکا تھا، پھر بھی اکیلی جان کی حفاظت کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہوتا۔ چھجے نما کھیتوں سے ذرا نیچے میں نے صاف شفاف پانی کا ایک چشمہ دیکھا جہاں سے گاؤں کے لوگ پانی بھرتے تھے۔ اس جگہ نرم کیچڑ میں شیرنی کے بالکل تازہ پگ دکھائی دیے۔
یہ پگ اسی گاؤں سے آ رہے تھے جہاں میں جا رہا تھا۔ پگ اور تعاقب کے احساس سے مجھے یقین ہو گیا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے اور یہ میرا یہ چکر بے کار رہے گا۔ میں جنگل سے نکل کر لوہالی کے سامنے پہنچا۔ یہ پانچ یا چھ چھوٹے چھوٹے گھروں کا گاؤں گا۔ ان میں سے ایک مکان کے دروازے کے سامنے کئی افراد جمع تھے۔ کھلی ڈھلوان سے انہوں نے مجھے کافی دور سے دیکھ لیا اور ان میں سے چند افراد میری طرف بڑھے۔ ان میں سے ایک شخص جو کافی معمر تھا، نے جھک کر میرے پیر چھوئے اور بہتے آنسوؤں سے درخواست کی کہ میں اس کی بیٹی کو بچا لوں۔ اس کی کہانی مختصر مگر دردناک تھی۔ اس کی بیوہ بیٹی جو اس کی واحد رشتہ دار تھی، دس بجے خشک لکڑیاں جمع کرنے گئی تاکہ دوپہر کا کھانا بنا سکے۔ وادی کے درمیان ایک چھوٹی سی ندی گذرتی ہے اور اس نے ندی کے دوسرے سرے سے پہاڑی اچانک ہی اوپر کو اٹھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس پہاڑی کے نچلے سرے پر کئی چھجے نما کھیت ہیں۔ سب سب نچلے کھیت کے کنارے جو کہ گھر سے ڈیڑھ سو گز دور تھا، اس نے لکڑیاں چننا شروع کیں۔ تھوڑی دیر بعد دیگر عورتوں نے جو ندی پر کپڑے دھو رہی تھیں، نے چیخ سنی۔ اوپر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیرنی عورت کو اٹھائے جنگل میں غائب ہو رہی تھی۔ یہ جنگل اسی کھیت کے نچلے کنارے سے شروع ہو جاتا تھا۔ بھاگم بھاگ ان عورتوں نے گاؤں پہنچ کر اطلاع دی۔ اس بستی کے لوگ اتنے خوفزدہ تھے کہ وہ مدد کی کوشش بھی نہ کر سکے۔ انہوں نے اوپر والے گاؤں میں پیغام بھیجا جہاں سے چار افراد مجھے اطلاع دینے آئے۔ پیغام بھیجنے کے نصف گھنٹے بعد زخمی عورت رینگتی ہوئی گھر آن پہنچی۔ اس نے بتایا کہ اس نے شیرنی کو اس وقت دیکھا جب وہ اس پر جست لگانے والی تھی۔ اسے بھاگنے کا کوئی موقع نہ ملا۔ اس نے کھیت سے نیچے چھلانگ لگائی اور شیرنی نے اسے ہوا میں ہی دبوچ لیا۔ دونوں اکھٹے نیچے گریں۔ اس کے بعد اسے ہوش نہ رہا۔ دوبارہ ہوش آیا تو دیکھا کہ وہ ندی کے پاس پڑی ہے۔ مدد کے لئے وہ کوئی آواز نہ نکال پائی اور مجبوراً گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل گھسٹتی ہوئی وہ گھر واپس آئی۔
ابھی یہ کہانی جاری ہی تھی کہ ہم اس کے دروازے تک آن پہنچے۔ لوگوں کو دروازے سے ہٹا کر میں نے عورت سے خون آلود چادر ہٹائی۔ لوگوں کو ہٹانے کی وجہ یہ تھی کہ کمرے میں روشنی کا واحد ذریعہ دروازہ ہی تھا۔ اس عورت کی حالت اتنی قابل رحم تھی کہ میں بتا نہیں سکتا۔ اگر میں سند یافتہ ماہر ڈاکٹر ہوتا اور میرے پاس جدید اوزار اور ادویات بھی ہوتیں تو بھی اس بدنصیب عورت کو بچایا نہ جا سکتا۔ کجا میں ایک عام آدمی تھا اور دوائی کے نام پر میرے پاس تھوڑی سی پوٹاشیم پر میگنیٹ تھی۔ شیرنی کے بڑے دانتوں سے اور پنجوں سے آنے والے گہرے زخم سر، چہرے، گردن اور جسم کے کئی حصوں پر تھے۔ اس گرم اور تاریک کمرے میں اب تک وہ زخم سڑنا شروع ہو گئے تھے۔ شکر ہے کہ وہ عورت بیچاری نیم بے ہوش تھی۔ اس کا باپ میرے ساتھ اندر آیا تھا۔ میں نے اس کی تسلی کے لئے پوٹاشیم پر میگنیٹ کے گاڑھے محلول اور رومال سے اس عورت کے زخم صاف کئے۔
اب کیمپ واپس جانے کا وقت نہ بچا تھا۔ رات گذرانے کے لئے مناسب جگہ کا انتظام بھی لازمی تھا۔ ندی سے ذرا اوپر جہاں عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں، پیپل کا ایک بڑا درخت تھا۔ اس درخت کے گرد ایک فٹ اونچا چبوترا تھا جو گاؤں والوں کی مذہبی رسومات ادا کرنے کے کام آتا تھا۔
اس درخت کے نیچے میں نے کپڑے اتار کر غسل کیا۔ جب ہوا سے میرا بدن خشک ہو گیا تو میں نے کپڑے دوبارہ پہنے اور رائفل تیار حالت میں لئے شب بسری کے لئے تیار ہو گیا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ کوئی اتنی اچھی یا محفوظ جگہ نہیں تھی لیکن گاؤں سے بہت بہتر تھی جہاں تاریک اور مکھیوں سے بھرے کمرے میں ایک زخمی عورت سانس لینے کے لئے کوشاں تھی۔ رات کو عورتوں کے بین سے علم ہوا کہ اس زخمی عورت کی مشکل حل ہو چکی ہے۔ اگلی صبح ادھر سے گذرتے ہوئے دیکھا کہ وہاں اس عورت کی آخری رسومات کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ اس بدنصیب عورت اور ڈلکانیہ کی لڑکی کے واقعات سے یہ صاف ظاہر تھا کہ بوڑھی شیرنی کے شکار کا زیادہ تر دارومدار اس کی جوان بچی پر تھا۔ آدم خور کے حملے میں عموماً سو میں سے ایک آدمی بچتا ہے لیکن اس وقت آدم خور ہلاکتوں سے زیادہ گھائل کر رہی تھی۔ یہاں سے نزدیکی ہسپتال کوئی پچاس میل دور تھا۔ جب میں نینی تال لوٹا تو حکومت سے درخواست کی کہ آدم خور کے علاقے میں ہر گاؤں کے نمبردار کو جراثیم کش ادویات اور پٹیاں بھجوا دے۔ اگلے چکر پر میں نے دیکھا کہ میری درخواست قبول ہو گئی تھی اور جراثیم کش ادویات کے سبب بہت ساری جانیں بچ گئی تھیں۔ میں ڈلکانیہ مزید ایک ہفتہ رکا۔ اس کے بعد میں نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ میں پیر کے دن واپس جا رہا ہوں۔ اس آدم خور کے پیچھے میں ایک ماہ سے لگا ہوا تھا اور کھلی فضاء میں خیمے میں سونا، سارا دن میلوں بے تکان چلنا، ہر قدم کو آخری قدم سمجھنا میرے اعصاب پر اب بھاری پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ گاؤں والے میرے جانے کی خبر سن کر بہت پریشان ہوئے۔ لیکن جب میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں جلد ہی واپس لوٹ آؤں گا، انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش نہ کی۔
اتوار کو ناشتے کے بعد ڈلکانیہ کا نمبردار میرے پاس آیا۔ اس نے درخواست کی کہ میں گاؤں والوں کے کھانے کے لئے کوئی جانور مار دوں۔ میں نے بخوشی آمادگی ظاہر کی۔ نصف گھنٹے بعد چار مقامی اور اپنے ایک ساتھی کو ساتھ لے کر نکلا۔ میرے پاس اعشاریہ 275 کی رائفل تھی اور کارتوسوں کا ایک کلپ۔ ہم دریائے نندھور کی دوسری طرف سے آگے بڑھے جہاں کیمپ سے میں نے پہاڑی ڈھلوان پر بکثرت گڑھل چرتے دیکھے تھے۔
میرے ہمراہی دیہاتیوں میں ایک طویل القامت، جناتی جثے اور بگڑے چہرے والا ایک شخص تھا۔ وہ میرے کیمپ میں اکثر آتا تھا۔ چونکہ میں اس کے لئے اچھا سامع نکلا، اس نے مجھے اپنی کہانی اتنی بار سنائی کہ نیند میں بھی میں اسے دہرا سکتا ہوں۔ چار سال قبل اس کی مڈبھیڑ آدم خور سے ہوئی تھی۔ بقیہ کہانی اس کی زبانی سنیں:
صاحب، وہ سامنے صنوبر کا درخت دیکھ رہے ہیں؟ وہی جو پہاڑی کے سرے والی ڈھلوان کے نچلے کنارے پر ہے؟ جی، وہی صنوبر کا درخت اور اس کے ساتھ وہ سفید بڑی چٹان۔ اسی ڈھلوان کے اوپری سرے پر آدم خور نے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ یہ ڈھلوان مکان کی دیوار کی طرح سیدھی ہے۔ ہم پہاڑیوں کے سوا اس پر کوئی نہیں قدم جما سکتا۔ میرا بیٹا جو اس وقت آٹھ سال کا تھا، میرے ساتھ ہی گھاس کاٹنے آیا ہوا تھا۔ ہم گھاس کاٹ کر ان درختوں تک لے جاتے جہاں زمین ہموار ہے۔
میں اس چٹان کے سرے پر گھاس کو بڑے گٹھڑ کی شکل میں باندھ رہا تھا کہ شیرنی مجھ پر جھپٹی۔ اس کا ایک دانت میری دائیں آنکھ اور ایک میری تھوڑی کے نیچے جبکہ بقیہ دو گردن کے پیچھے گڑ گئے۔ شیرنی کے حملے اور اس کے منہ سے لگنے والی ٹکر سے میں نیچے گرا۔ شیرنی اور میں سینہ بہ سینہ تھے۔ اس کا پیٹ میری ٹانگوں کے درمیان تھا۔ نیچے گرتے ہوئے میں نے اپنے ہاتھ آزاد کئے اور اتفاق سے پیپل کا ایک چھوٹا درخت میرے ہاتھ آ گیا۔ جونہی میں نے اس درخت کو پکڑا، میرے ذہن میں خیال آیا۔ میری ٹانگیں آزاد تھیں اور انہیں سکیڑ کر میں شیرنی کے پیٹ سے ٹکا کر اسے دور پھینک کر بھاگ سکتا تھا۔ شیرنی کی گرفت سے میرے چہرے کے دائیں جانب کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور بے پناہ درد ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے اوسان بحال رکھے۔ صاحب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جوانی میں میرا مقابل کوئی نہ تھا۔ آہستہ آہستہ اور شیرنی کو غصہ دلائے بغیر میں نے اپنے پاؤں اس کے پیٹ پر جما دیے۔ بائیں ہاتھ کو اس کے سینے پر جما کر میں نے جو زور لگایا تو شیرنی کو اٹھا لیا۔ ہم اس وقت بالکل کنارے پر تھے۔ اگر میں نے درخت کو نہ پکڑا ہوا ہوتا تو ہم دونوں ہی نیچے گرتے۔ اس طرح شیرنی نیچے جا گری۔
میرا بیٹا اتنا گھبرا گیا تھا کہ وہ بھاگ بھی نہ سکا۔ جب شیرنی بھاگ گئی تو میں نے اس کی دھوتی اتاری اور اپنے چہرے اورمنہ کے گرد باندھ لی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گاؤں لوٹا۔ گھر آ کر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ میرے سارے دوستوں کو اکٹھا کرے۔ میں مرنے سے قبل ان کو ایک بار دیکھنا چاہتا تھا۔ جب میرے دوست جمع ہوئے اور انہوں نے میری حالت دیکھی تو مجھے چارپائی پر ڈال کر پچاس میل دور الموڑہ لے جانے کو تیار ہو گئے۔ میری مصیبت اور تکلیف بے انتہا تھی۔ میں چاہتا تھا کہ جہاں پلا بڑھا ہوں، وہیں مروں۔ میں پیاسا بھی تھا۔ انہوں نے پانی میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ گردن کے سوراخوں سے بہہ گیا۔ میرے سر میں آگ سی لگی ہوئی تھی۔ بعد ازاں بہت عرصے تک بے حد تکلیف اور درد کے ساتھ میں موت کا انتظار کرتا رہا۔ موت تو نہ آئی لیکن ایک دن میں ٹھیک ہو گیا۔
صاحب، اب میں بوڑھا اور کمزور ہو چکا ہوں۔ میرے بال کھچڑی ہو گئے ہیں اور میرے چہرے پر کوئی شخص کراہت کے بغیر نہیں دیکھ سکتا۔ میری دشمن زندہ ہے اور مسلسل انسانوں کو ہلاک کر رہی ہے۔ آپ اسے شیر نہ سمجھیں۔ یہ ایک بد روح ہے جو کبھی کبھار شیر کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ صاحب، لوگ کہتے ہیں آپ سادھو ہیں۔ سادھوؤں کی حفاظت پر مامور روحیں بد روحوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ تین دن جنگل میں رہ کر واپس آئے ہیں۔ جیسا کہ آپ کے آدمیوں نے کہا تھا، بالکل محفوظ اور زندہ سلامت لوٹے ہیں۔ اس شخص کے جناتی قد کاٹھ سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ جوانی میں وہ کس جسامت اور طاقت کا حامل ہوگا۔ اس طرح کی جناتی قوت کا حامل شخص شیرنی کو اٹھا کر، اپنے سر کو اس کی گرفت سے چھڑا کر نیچے پھینک سکتا ہے جبکہ اس کا آدھا چہرہ شیرنی کے منہ میں ہی رہ گیا تھا۔
اس شخص نے بطور کھوجی ساتھ چلنے کی پیش کش کی۔ اس کے پاس بہت خوبصورت اور پالش شدہ کلہاڑی تھی جس کا دستہ لمبا تھا۔ اس نے کندھے پر کلہاڑی رکھی اور ہمارے آگے چلتا ہوا ڈھلوان سے نیچے اترا۔ دریائے نندہ عبور کر کے ہم کئی کھیتوں سے گذرے جو آدم خور کی دہشت کے سبب ویران تھے۔ پہاڑی کے دامن میں پہنچ کر پتہ چلا کہ انتہائی سخت چڑھائی اور گھاس سے بھری ڈھلوانوں کا سامنا ہے۔ میرا یہ دیوزاد دوست بہت سخت جان تھا۔ میں جگہ جگہ رک کر قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔
جنگل سے نکل کر ہم سیدھا گھاس والی پہاڑی ڈھلوان کو ترچھے رخ سے عبور کرتے ہوئے پہاڑی کی طرف بڑھے۔ یہ تقریباً ہزار فٹ بلند تھی۔ اس پہاڑ پر جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی گھاس تھی جہاں میں نے اپنے کیمپ سے گڑھل چرتے دیکھے تھے۔ ابھی ہم چند سو گز ہی بڑھے ہوں گے کہ گڑھل کھڈ سے نکلا اور اوپر کی طرف بھاگا۔ گولی لگتے ہی وہ نیچے گرا اور اسی جگہ گم ہو گیا جہاں سے نکلا تھا۔ گولی کی آواز سن کر ایک دوسرا گڑھل اچھلا اور سیدھا پہاڑ کی چوٹی کی طرف بھاگا جو انتہائی مشکل چڑھائی تھی۔ جونہی وہ اوپر کی طرف بڑھا، میں نے لیٹ کر رائفل کی شست کو دو سو گز پر درست کیا اور اس کے رکنے کا انتظار کرنے لگا۔ ابھری ہوئی چٹان کے پیچھے سے نکل کر وہ ہمیں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا کہ میں نے اس پر گولی چلائی۔ وہ گولی لگتے ہی لڑکھڑایا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر کی طرف چڑھنے لگا۔ دوسری گولی لگتے ہی وہ ہوا میں معلق ہوا اور پھر لڑھکتا ہوا نیچے بڑھا۔ ہم سے سو گز دور ہوتا ہوا وہ ڈیڑھ سو گز نیچے جا رکا۔
اس بار میں نے جو منظر دیکھا، وہ ایک بار پہلے بھی ایک تیندوے کے ساتھ دیکھ چکا تھا۔
ابھی گڑھل بمشکل رکا ہی تھا کہ کھڈ سے ایک بڑا ریچھ بھاگتا ہوا نکلا اور بغیر رکے یا ادھر ادھر دیکھے، مویشیوں کے چلنے والے راستے پر بڑھتا ہوا گڑھل کے پاس آ رکا۔ پھر بیٹھ کر اس نے گڑھل کو گود میں لے لیا۔ ابھی وہ اسے سونگھ ہی رہا تھا کہ میری گولی اسے لگی۔ شاید میں نے جلدی کی یا پھر شست کو درست فاصلے کے لئے نہ استعمال کیا تھا۔ گولی اسے سینے کی بجائے پیٹ میں لگی۔ ہم سب کو یوں لگا جیسے ریچھ یہ سمجھا ہو کہ گڑھل نے اسے ٹکر ماری ہے۔ وہ فوراً اٹھا اور گڑھل کو پھینک کر بھاگا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ غصے سے آوازیں بھی نکال رہا تھا۔ جب وہ ہم سے سو گز نیچے سے گذرا، میں نے اپنی پانچویں اور آخری گولی بھی اس پر چلا دی۔ بعد ازاں دیکھا تو علم ہوا کہ یہ گولی ریچھ کے جسم میں نیچے لگی اور گوشت سے ہوتی ہوئی گذر گئی۔
جتنی دیر میں میرے ساتھی دونوں گڑھلوں کو اٹھاتے، میں نے نیچے اتر کر خون کے نشانات کا جائزہ لیا۔ راستے پر خون کی بڑی مقدار دیکھ کر اندازہ ہوا کہ گولی کسی نازک جگہ لگی ہے۔ ریچھ عام صورتحال میں بھی کافی خطرناک ہوتا ہے اور زخمی ریچھ کا سامنا نہتے ہو کر کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
جب میرے ساتھی آن پہنچے تو ہم نے صلاح مشورہ کیا۔ کیمپ ساڑھے تین میل دور تھا۔ ابھی دو بج رہے تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ ہم کیمپ جا کر مزید گولیاں لاتے اور پھر ریچھ کو تلاش کرتے اور اسے مار کر اندھیرا ہونے سے قبل کیمپ بھی پہنچ پاتے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ریچھ کا تعاقب کر کے اسے پتھروں اور کلہاڑی سے ہلاک کریں۔
پہاڑی کافی ڈھلوان تھی اور گھاس پھونس نہ ہونے کے برابر۔ ریچھ کے اوپر رہتے ہوئے ہمارے پاس موقع تھا کہ ہم اپنا کام کسی دشواری کے بغیر پورا کر لیتے۔ اس طرح ہم آگے بڑھے۔ میں آگے آگے اور پھر تین آدمی میرے پیچھے اور ان کے پیچھے وہ افراد جو اپنی کمر پر مردہ گڑھل اٹھائے ہوئے تھے۔ جہاں میں نے آخری گولی چلائی تھی، اس جگہ پہنچ کر خون کے مزید نشانات دیکھ کر ہمارا حوصلہ اور بلند ہوا۔ دو سو گز آگے جا کر خون کی لکیر ایک کھڈ میں مڑ گئی۔ یہاں میں اور کلہاڑی والا ساتھی ایک طرف جبکہ بقیہ تین افراد دوسری طرف ہو گئے۔ گڑھل اٹھانے والے افراد ہمارے پیچھے تھے۔ جب ہم دونوں طرف سے تیار ہو گئے تو ہم نے پہاڑی سے نیچے اترنا شروع کر دیا۔ ہم سے پچاس گز نیچے کھائی کی تہہ میں بانسوں کا ایک جھنڈ تھا۔ اس جھنڈ میں پتھر پھینکنے سے ریچھ کی چیخ سنائی دی۔ ہم چھ کے چھ افراد سر پر پیر رکھ کر اوپر کو بھاگے۔ میں اس طرح کی صورتحال کے لئے ظاہر ہے کہ تیار نہ تھا۔ مڑ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ریچھ ہماری مخالف سمت یعنی نیچے کی طرف بھاگ رہا ہے۔ میں نے چلا کر اپنے ساتھیوں کو صورتحال بتائی۔ پھر ہم نے رخ بدلا اور ریچھ کی طرف بھاگنے لگے۔ ہم میں سے چند ساتھیوں کے پتھر بھی ریچھ کو لگے۔ پتھر مارنے والے کا خوشی کا نعرہ اور ریچھ کی چیخ آئی۔ پھر اس کھائی میں ایک موڑ آیا۔ احتیاط کی وجہ سے ریچھ ہم سے آگے نکل گیا۔ خون کے نشانات کا پیچھا کرنا آسان تھا لیکن یہ پورا علاقہ بڑے بڑے پتھروں سے بھرا ہوا تھا اور ریچھ کسی بھی پتھر کے پیچھے چھپا ہوا ہو سکتا تھا۔ جتنی دیر میرے ساتھی آرام کرنے بیٹھے، میں نے کھائی کے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ میرا ساتھی آگے بڑھا تاکہ کھائی میں جھانک سکے۔ میں اس پہاڑی کنگورے پر چڑھا جو کوئی دو سو فٹ نیچے تک دیوار کی طرح سیدھا تھا۔ درخت کو پکڑ کر میں نیچے جھکا تو دیکھا کہ چالیس فٹ نیچے ریچھ ایک غار نما کھڈ میں موجود ہے۔ تیس پاؤنڈ وزنی ایک پتھر اٹھا کر اتنا آگے بڑھا کہ خود میرے اپنے نیچے گرنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ دونوں ہاتھوں سے پتھر سر سے اونچا کر کے میں نے پھینکا۔
پتھر ریچھ کے سر سے چند انچ دور گرا۔ ریچھ ہڑبڑا کر اٹھا اور فرار ہو گیا۔ منٹ بھر بعد وہ پہاڑی کے سرے پر نکلا۔ ایک بار پھر تعاقب شروع ہو گیا۔ زمین مسطح اور نسبتاً خالی تھی۔ ہم چاروں افراد جو کہ خالی ہاتھ تھے، برابر بھاگ رہے تھے۔ میل بھر ہم لوگ پوری رفتار سے بھاگے ہوں گے کہ جنگل سے نکل کر کھیتوں تک آن پہنچے۔ بارش کے پانی سے یہاں کئی گہری کھائیاں بن چکی تھیں۔ انہی میں سے ایک میں ریچھ چھپا ہوا تھا۔ ہم نے اپنے بگڑے چہرے والا ساتھی جو کہ کلہاڑی سے مسلح تھا، کو ریچھ مارنے کے لئے چنا۔ بڑی احتیاط سے وہ ریچھ تک پہنچا اور اپنی خوبصورت کلہاڑی گھا کر اس نے سیدھی ریچھ کے سر پر ماری۔ نتیجہ ہماری توقعات کے بالکل الٹ نکلا۔ کلہاڑی کا پھل ریچھ کے سر سے ٹکرا کر اس طرح پلٹا جیسے وہ کسی ربر سے ٹکرایا ہو۔ غصے سے چیخ کر ریچھ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا۔ ہم لوگ بھاگنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے الجھ کر گرے۔ خوش قسمتی سے ریچھ نے ہمارا پیچھا نہ کیا۔
بظاہر ریچھ کو یہ کھلا علاقہ پسند نہ آیا تھا اور تھوڑی دور جا کر وہ پھر اوٹ میں ہو گیا۔ اس بار کلہاڑی کے استعمال کی باری میری تھی۔ تاہم ریچھ ایک بار کلہاڑی کا اوچھا وار سہہ چکا تھا، میری بو محسوس کر کے محتاط ہو گیا۔ بڑی محنت کے بعد میں اس قابل ہوا کہ ریچھ پر وار کر سکوں۔ بچپن میں میرا خواب تھا کہ میں کینیڈا میں جا کر لکڑہارا بنوں۔ اس لئے میں نے اتنی مہارت حاصل کر لی تھی کہ کلہاڑی سے ماچس کی تیلی چیر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے یہ ڈر بھی نہ تھا کہ اگر وار خطا ہوا تو کلہاڑی پتھروں سے ٹکرا کر خراب ہو جائے گی۔ جونہی میں ریچھ سے نزدیک ہوا، میں نے کلہاڑی کا پورا پھل ریچھ کے سر میں گاڑ دیا۔
ہمارے پہاڑوں میں ریچھ کی کھال بیش قیمت سمجھی جاتی ہے۔ میں نے جب کلہاڑی کے مالک سے کہا کہ وہ گڑھل کا دگنا گوشت اور ریچھ کی کھال بھی لے سکتا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ گاؤں سے کئی بندے اب ادھر پہنچ چکے تھے۔ وہ لوگ گوشت بانٹنے اور ریچھ کی کھال اتارنے میں مشغول ہو گئے اور میں اوپر چڑھ کر گاؤں میں اس زخمی لڑکی سے آخری ملاقات کرنے چلا گیا جو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ دن بہت تھکا دینے والا تھا۔ اگر اس رات آدم خور میرے خیمے پر حملہ کرتی تو مجھے با آسانی نیند میں ہی ہڑپ کر جاتی۔
ڈلکانیہ سے آتے ہوئے راستے میں بہت ساری ننگی پہاڑیاں آتی ہیں اور جب میں نے اس مشکل راستے کا ذکر گاؤں والوں سے کیا تو وہ بولے کہ میں ہیرا خان کی طرف سے واپس جاؤں۔ اس کے لئے مجھے اس گاؤں کے پیچھے پہاڑ پر چڑھنا ہوتا اور باقی سارا راستہ اترائی ہی اترائی تھی۔ رانی باغ سے میں بذریعہ کار نینی تال پہنچ سکتا تھا۔ میں نے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اگلی صبح روانگی کے لئے تیار رہیں۔ سورج نکلنے سے ذرا قبل میں انہیں سامان وغیرہ باندھتا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تاکہ میں جب تک ڈلکانیہ کے لوگوں کو الوداع کہہ لوں، میرے ساتھی مجھے آن ملیں۔ پھر میں نے دو میل کی چڑھائی شروع کی۔ جو پگڈنڈی میں نے چنی تھی، وہ نہ تھی جس سے ہم لوگ آئے تھے۔ بلکہ یہ راستہ دیہاتی بازاروں وغیرہ کو آنے جانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
راستہ گہری کھائیوں سے ہو کر گذرتا تھا اور گھنے جنگل، جھاڑیاں وغیرہ بھی راستے میں آتے تھے۔ ایک ہفتے سے شیرنی کی کوئی خیر خبر نہ تھی۔ اس غیر موجودگی کی بنا پر میں زیادہ محتاط ہو چلا تھا۔ کیمپ سے نکلنے کے گھنٹے بھر بعد میں پہاڑ کے اوپری سرے تک بغیر کسی دقت کے پہنچ گیا۔ یہ جگہ بنجر تھی اور چوٹی کے پاس۔ فارسٹ روڈ یہاں سے سو گز دور سے گذرتی تھی۔ یہ بنجر قطعہ ناشپاتی کی شکل جیسا تھا۔ اندازاً سو گز لمبا اور پچاس گز چوڑا۔ اس کے درمیان میں بارش کے پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔ سانبھر وغیرہ یہاں سے پانی پیتے تھے۔ اس پر پگ دیکھنے کے خیال سے میں راستے سے مڑ کر اس طرف آیا جو راستہ اس قطعے سے بائیں ہو کر گذرتا تھا اور ایک ایسی چٹان کے نیچے سے گذرتا تھا جو راستے پر سائبان کی طرح معلق تھی۔ جونہی میں اس تالاب پر پہنچا، میں نے شیرنی کے بالکل تازہ پگ نرم زمین پر ثبت دیکھے۔ وہ اسی طرف سے تالاب پر آئی تھی جہاں سے میں ابھی آیا۔ میری وجہ سے وہ یہاں سے تالاب کو عبور کر کے دائیں طرف کے گھنے جنگل میں گھس گئی۔ اگر میں سامنے کی طرف بھی اتنا ہی محتاط ہوتا جتنا کہ عقب کی طرف سے تھا، یقیناً میں شیرنی کو پہلے دیکھ لیتا۔ سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ تاہم اگرچہ یہ موقع تو ضائع ہوا لیکن پھر بھی صورتحال میرے حق میں تھی۔ اگر شیرنی مجھے نہ دیکھتی تو تالاب عبور کر کے جنگل میں چھپنے کے لئے ہرگز جلدی نہ کرتی۔ اس کے پگوں سے اس کی رفتار ظاہر ہو رہی تھی۔ اس نے چھپ کر مجھے دیکھا تھا کہ میں اکیلا ہوں اور اس کی طرح پانی بھی پینے آؤں گا۔ اس مقام تک میری حرکات قطعی عام سی تھیں۔ اگر میں اسی طرح رویہ اختیار کرتا کہ جیسے مجھے شیرنی کی موجودگی کا علم نہیں، ہو سکتا ہے کہ مجھے دوبارہ موقع ملتا۔ پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے میں نے ہیٹ کے نچلے گوشے سے ہر طرف گہری نظر رکھی۔ کئی بار کھانسا، پانی کو اچھالتا رہا اور پھر بہت آہستگی سے خشک لکڑیاں چننے لگا۔ میرا رخ اب اس عمودی چٹان کی طرف تھا۔ یہاں میں نے مختصر سی آگ جلائی اور چٹان سے ٹیک لگا کر سیگرٹ سلگا لی۔ جب سیگرٹ پی چکا اور آگ بھی ختم ہو گئی تو میں لیٹ گیا۔ بائیں ہاتھ سے تکیہ بنایا اور رائفل کی لبلبی پر ہاتھ رکھے اسے بھی سامنے رکھ لیا۔
میرے عقب میں موجود چٹان بہت عمودی تھی اور اس پر کوئی بھی جانور نہ چڑھ سکتا تھا۔ میرے سامنے کم از کم بیس گز تک جھاڑ جھنکار وغیرہ سے پاک زمین تھی۔ میں نسبتاً محفوظ تھا۔ اس دوران میں نے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کچھ سنا لیکن پھر بھی مجھے علم ہو گیا کہ شیرنی مجھے دیکھ رہی ہے۔ میرے ہیٹ کا کنارہ اگرچہ میری آنکھوں پر جھکا ہوا تھا لیکن میری نظروں کے سامنے کسی قسم کی رکاوٹ نہ بن رہا تھا۔ میں نے سامنے موجود جنگل کا انچ انچ چھانا۔ ہلکی سی ہوا بھی نہ چل رہی تھی اور نہ ہی گھاس کا کوئی تنکا تک ہلا۔ میرا اندازہ تھا کہ شیرنی اب اس وقفے میں اپنی جگہ سے نکل کر یا تو گھات لگائے گی یا پھر براہ راست ہلہ بول دے گی۔
بعض اوقات وقت نہیں گذر پاتا اور بعض اوقات اسے پر لگ جاتے ہیں۔ سر کے نیچے بائیاں ہاتھ کافی دیر پہلے سن ہو چکا تھا۔ پر بھی نیچے وادی سے میرے آدمیوں کی گانے کی آواز بہت جلد ہی ادھر آن پہنچی۔ آواز اونچی ہوتی چلی گئی اور پھر میں نے موڑ پر اپنے ساتھیوں کو آتا دیکھا۔ شاید اسی جگہ پر شیرنی نے مجھے دیکھا تھا اور پانی پی کر فرار ہو گئی تھی۔ ایک اور ناکامی اور اس دورے کا آخری موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔
جب میرے ساتھی آرام کر چکے تو ہم سڑک پر چڑھے اور فارسٹ روڈ کی مدد سے ہیرا خان کی طرف کا بائیس میل کا سفر شروع ہوا۔ دو سو گز آگے جا کر سڑک کھلے قطعے سے اچانک گھنے جنگل میں مڑ گئی۔ یہاں میں نے اپنے ساتھیوں کو آگے چلنے کا کہا اور خود عقب سنبھالا۔ دو میل اسی طرح چل کر ہم نے موڑ پر ایک شخص کو بیٹھے دیکھا جو اپنی بھینسوں کی نگرانی کر رہا تھا۔ ناشتے کا وقت ہو چکا تھا۔ میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ پانی کہاں سے ملے گا۔ اس نے سیدھا نیچے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہاں ایک چشمہ موجود ہے جہاں سے گاؤں والے پانی بھرتے ہیں۔ تاہم اگر ہم سیدھا چلتے جائیں تو تھوڑا آگے جا کر ایک چشمہ سڑک ہی سے گذرتا ہے۔
لوہالی گاؤں وادی کے اوپری سرے پر واقع تھا جہاں گذشتہ ہفتے شیرنی نے عورت کو ہلاک کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس دن کے بعد سے شیرنی کی کوئی اطلاع نہیں۔ اس نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ شیرنی اب ضلع کے دوسرے سرے پر ہو۔ میں نے اس بات کی تردید کی اور اسے ان تازہ پگوں کے بارے بتایا جو میں نے کچھ دیر قبل دیکھے تھے۔ میں نے اسے کہا کہ وہ بھینسوں کو اکٹھا کر کے گاؤں چلا جائے۔ اس کی دس بھینسیں تھیں جو اب سڑک کی طرف چر رہی تھیں۔ اس نے کہا کہ جہاں وہ بیٹھا ہے، جونہی بھینیسں اس جگہ کو چر لیں، وہ انہیں لے کر چلا جائے گا۔ میں نے اسے ایک سیگرٹ دی اور تنبیہہ کر کے چل پڑا۔ اس کے بعد کیا ہوا، مجھے اس کے گاؤں والوں نے کئی ماہ بعد میرے اگلے چکر پر بتایا۔
اس دن جب وہ آدمی گھر پہنچا تو اس نے جمع شدہ لوگوں کو بتایا کہ کس طرح وہ مجھ سے ملا تھا اور میری تنبیہہ کے بارے بھی بتایا۔ اس نے مجھے موڑ مڑ کر اوجھل ہوتے دیکھا تو وہ سیگرٹ جلانے لگا۔ ہوا چل رہی تھی اور ماچس کی تیلی کو بجھنے سے بچانے کے لئے وہ جھکا۔ ابھی دوبارہ سیدھا نہ ہوا تھا کہ کسی نے اسے دائیں کندھے سے پکڑ کر پیچھے کو کھینچا۔ اس کے ذہن میں فوراً ہی ہمارا خیال آیا۔ بدقسمتی سے ہم اس کی چیخ نہ سن سکے۔ تاہم مدد زیادہ دور نہ تھی۔ اس کی چیخ سنتے ہی اس کی بھینسیں جمع ہو کر شیرنی کی طرف بڑھیں اور اسے بھگا دیا۔ اس کا کندھا اور بازو ٹوٹ چکے تھے۔ بمشکل وہ اپنی ایک بھینس پر سوار ہوا اور بقیہ بھینسوں کے گھیرے میں گاؤں پہنچا۔ اس کے گاؤں والوں نے اس کے زخم باندھ کر اسے بغیر رکے اٹھا کر تیس میل دور ہلدوانی ہسپتال پہنچایا جہاں وہ داخلے کے کچھ دیر بعد مر گیا۔
قدرت بعض اوقات سامنے آنے والی زندگی کی ڈور چھوڑ کر دوسری کاٹ دیتی ہے۔ کس ڈور کو کٹنا چاہیئے اور کس کو نہیں، اس کی ذمہ داری ہم قسمت، نصیب یا جو چاہے کہہ لیں، پر ڈال دیتے ہیں۔ ایک ماہ تک میں کھلے میدان میں انسانوں سے کم از کم سو گز دور خیمے میں سوتا رہا۔ صبح سے شام تک جنگلوں میں پھرتا رہا، کئی بار عورت کا بھیس بھی بدلا اور ان جگہوں پر گھاس کاٹی جہاں کوئی انسان جانے کی ہمت نہ کرتا تھا۔ اس دوران شیرنی نے مجھے ہضم کرنے کے کئی نادر مواقع ضائع کئے۔ آخری موقع پر قسمت نے میری بجائے اس بدقسمت شخص کو شیرنی کے سامنے پیش کر دیا۔