قسمت نے پلٹا کھایا

ویکی کتب سے

گزشتہ صفحہ: ابوالحسن کی آوارہ گردی

یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ہندوستان کا رحم دل اور فیاض شہنشاہ ہمایون بھائیوں اور جان لیوا دشمنوں سے تنگ آ کر سلطنت کو خیرباد کہہ چکا تھا اور جان بچا کر ایران میں پہنچا ہوا تھا۔ شیر شاہ سوری اور اس کی اولاد تو شاید سمجھتی ہو گی کہ اب خاندان مغلیہ کا خاتمہ ہو گیا، اور ہندوستان کی حکومت ہمیشہ کے لیے ہمارے ہاتھوں میں آ گئی۔

مگر ہمایوں کے اسی ادبار و افلاس میں ایک ایسا چمکتا ہوا جوہر تھا جس کی قدر و منزلت سے گو اہل عالم بے خبر تھے، مگر تقدیر دست بستہ التماس کر رہی تھی کہ اے افلاس و چار اور مصیبت و نکبت کے زمانے میں ہونے والے بچے اپنے باپ ہمایوں کو یہ مژدہ سنا کہ میری یہ ریگستان جنگل کی پیدائش تمام ہندوستان پر اس رعب و جلال سے حکومت کرے گی کہ ایک عالم دنگ رہ جائے گا اور عدل و انصاف کے سکے تمام دنیا میں بیٹھ جائیں گے۔ معزز ناظرین یہ چمکتا ہوا جوہر اکبر بادشاہ تھا جو راجپوتانہ کے جنگلوں میں جبکہ ہمایوں مارا مارا پھر رہا تھا، پیدا ہوا۔

شاہ ایران نے بے ملک بادشاہ (ہمایوں) کی نہایت خاطرداری کی اور کئی سال تک بے سروسامان مہمان کو شاہی مہمان بنا کر رکھا۔ ہمایوں کے پانچ دس گنتی کے نمک حلال وفاداروں میں سے ایک مرزا اللہ بخش خان بھی تھے جو بادشاہت کے زمانہ میں فوج کے سپہ سالار تھے۔ امیر قافلہ جو ابوالحسن کو ساتھ لائے تھے، جرنیل اکبر علی خان سے ان کی اچھی دوستی بلکہ محبت تھی۔ مرزا اللہ بخش خان ابوالحسن کے لطائف و ظرافت سن کر نہایت خوش ہوتے تھے۔ چنانچہ جب ہمایوں ایران سے کافی مدد لے کر واپس ہوا ہے تو ابوالحسن کو بھی مرزا نے ساتھ لے لیا تھا۔

اگلا صفحہ: ابوالحسن ہندوستان آتا ہے

رجوع بہ فہرست مضامین: سوانح عمری ملا دوپیازہ