صفحہ 4 - اباجان کے ہاں ( از سید تفسیراحمد)
صفحہ 3 ►◄ اباجان کے ہاں ►◄ صفحہ 5
اباجان نے اپنا ایپرن ماں کودیااور کہا نان جل رہے ہیں۔ ماں نے ہنس کرکہا۔ “ چلیں آپ ا پنی عمر کے لوگوں میں جائیں”۔
ہم سب لڑکے اور لڑکیاں اباجان کے اردگرد بیٹھ گئے۔
اباجان نے کہا تم میں سے مجھ کو کون بتائےگا کہ یونانی زبان کے لفظ ' آراتے ' کے کیا معنی ہیں۔
سب کی نظریں آسیہ پر تھیں۔ آسیہ کا مضمون خاص " زبانیں" ہے ۔
یہ توبہت ہی آسان ہے ۔ اسکا قریبی انگریزی ترجمہ تو “ virtue “ ہے ۔ اردو میں اسکے معنی “جوہراور تقوی“ کے ہوسکتے ہیں۔
اباجان نے کہا۔ “ آسیہ بیٹی تم بلکل صحیح کہتی ہو۔ یونانی شاعرھومر نےجو آراتے کی تعریف بتائی ہے اسکو سُقراط نے صاف صاف علم انسانیت سے ملا دیا۔ سقراط کو یہ یقین تھا کہ اگر آپ جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے تو آپ سچائی کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر آپ کو یہ علم ہے کہ جرات، انصاف، تقدس، اور اعتدال کیا ہیں تو آپ اُن پر عمل کریں گے”۔ فلاسفر ارسطو نے یہ سوچا کہ انسان یہ جاننے کے باوجود کے نیکی کیا ہے، برائ اور اچھائی دونوں کرے گا۔ اسے یونانی زبان میں 'َ اکراشیا' اور اردو میں " انساں کی خصلت میں کمزوری" کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جو بدکاری کرتا ہے وہ نہ تو اچھائی اور نہ بُرائی جان کر کرتا ہے۔ سقراط کو اس بات سے اختلاف ہے۔
اباجان نے عمران کیطرف دیکھا”۔ بیٹے عمران وہ بات جو بظاہر باطل اور حقیقت میں صحیح ہوایسی بات کو کیا کہتے ہیں”۔
عمران نےقہقہ لگا کر کہا “۔ اُس کو آسیہ کہتے ہیں “۔
اسے پہلے کہ آسیہ عمران کو چٹکی بھرتی، عمران نےدونوں ہاتھوں کو معافی کے انداز میں جوڑ لیا”۔ نہیں میرا مطلب ہے اُلٹی بات اور انگریزی میں اسکو paradox کہتے ہیں۔
" ہاں جیسے بہت انگریزی جانتے ہیں”۔ آسیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
ہاں تم سے تو بہتر ہے" ۔عمران نے اپنی قابلیت ظاہرکی۔ "
" آراتے ـ علم انسانیت کے عروج کا ذریعہ ہے ۔سقراط کہتا ہے حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے گُفتگواور سوال و جواب ضروری ہیں اسکا کہنا تھا کہ ان کو استعمال کرکے اس حقیقت پر پہنچیں جس میں تعمیم ہو یعنی عالم گیر سچائ ہو۔ ارسطو کو تامل، سوچ بچار، غور اور ادھیڑبُن پر بھروسہ تھا اور سقراط کو علم انسانیت حاصل کرنے کے لیے گفتگو اور سوال و جواب پر اعتبار تھا ۔
سُقراط کے چھ سوال ۔
تقویٰ کیا ہے؟
جرات کیا ہے؟
انصاف کیا ہے؟
تقدس کیاہے؟
اعتدال کیاہے؟ اور
اچھائ کیا ہے؟ ہیں
صفحہ 3 ►◄ اباجان کے ہاں ►◄ صفحہ 5