صفحہ 3 - اباجان کے ہاں ( از سید تفسیراحمد)

ویکی کتب سے

صفحہ 2 ►◄ اباجان کے ہاں ►◄ صفحہ 4


" اب ایک بڑے پیالہ میں ایک کپ میدے کا آٹا، آدھا چمچہ نمک، اور چوتھائی کپ ، نیم گرم گھی ڈال کر ملا دئیں۔ اس آٹے کے درمیان ایک کنواں سا بنا کراس میں تیارشدہ آمیزے کو ڈال دیں۔اس آٹے کو ہاتھوں سےگوندھیں۔ گوندھائی کے دوران ضرورت کے مطابق اور بھی سوکھا آٹا ڈالا جاسکتا ہے۔جب گُندھا ہوا آٹا ،ملائم اور چکنا ہوجائے تو ایک دوسرے پیالہ کو گھی سے لیپ کریں اور گوندھے ہوئے آٹے کا گولا اس پیالہ میں منتقل کردیں۔اس آٹے کے گولے کو پیالہ میں اسطرح گھمائیں کہ اس پر ہر طرف گھی لگ جائے۔اب اس آ ۤٹا پر ایک گیلا کپڑا رکھ کر خمیر کو کام کرنے دیں۔ خمیر کی مقد ار کی بنا پر گند ھے ہوئے آٹے کو اپنی مقدار سے دُگنا ہونے میں کم ازکم دو گھنٹے لگیں گے۔ اب آپ اسے فریج میںرکھ دیں۔ نان بنانے سے تقریباً آدھاگھنٹا پہلے آٹے کے گولے کو فریج سے نکال لیں۔ اور اس کو دو حصوں میں ایک چھری سے کاٹ لیں۔ایک حصہ کوگیلے کپڑے میں لِپیٹ کر ایک پیالہ میں رکھ دیں تاکہ خشک نہ ہو۔ اب دوسرے حصہ کو ٦ حصوں میں بانٹ دیں۔اور اس کے پیڑے بنا لیں”۔

اباجان نے کہا۔” بھئ گریل تیار ہے۔ چلو وہاب نان لگاؤ "۔

چچا نے اردگرد دیکھا جیسے کسی چیز کی تلاش ہو۔

تم کو یہ پتہ ہے کہ نان کو روٹی کی طرح نہیں بیلتے ہیں؟" اباجان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "

چچا نے حیرت سے پوچھا۔” تو یہ روٹی کی طرح کیسے بن جاتا ہے؟"

" دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں استمعال کر کے اس ایک پیڑے کو روٹی کی طرح یا ایک آنسو کے قطرے کی پھیلاؤ۔ آٹے میں لچک ہے اسلئے یہ پھیلے گا”۔ اباجان نے کہا۔

جمیل نے ڈایوینگ بورڈ سے سوئمنگ پُول میں چھلانگ ماری اور پُول کے پانی نے سب لڑکیوں کو بھگودیا۔ تھوڑی دیر تک توسب لڑکے ہنسے۔

سِمل نے کہا ـ " یہ تواچھی بات نہیں ہے کہ آپ نےہمارے کپڑے گیلے کردیے “۔

آسیہ بولی " جمیل کو کیا پتہ اچھائ کیا ہوتی ہے؟"

آسیہ کے بھائ عمران نے کہا۔ " سبحان اللہ ، جیسے اِن کو تو پتہ ہے”۔

سعدیہ نے کہا "ْ واہ جرات تو دیکھیے اپنی ننھی بہن پراپنا بڑا پن جتا رہے ہیں”۔

عمران نے کہا " اسی کو تو انصاف کہتے ہیں”۔

" لو، بڑے بھایئوں کو یہ بھی نہیں پتا کہ اچھائی اور انصاف کیا ہوتا ہے" ۔ سِمل نے منہ بنا کر کہا ۔

کی " ہا ں ہاں ، جیسے آپ جانتی ہیں اچھائیاں کیا ہوتی ہیں؟" ۔ جمیل نے اپنی چھوٹی بہن کو بحث میں لانے کوشش کی ۔

بس یہی تو لڑکیاں چاہ رہی تھیں۔ اُنکے خاص مضامین نفسیات، زبانیں، تاریخ اور فلسفہ تھے ۔ لڑکے بچارے کمپیوٹر سائنس، مینیجمینٹ اور میڈیکل کے طالبِ علم تھے۔

تھوڑی دیربحث کے بعد لڑکوں نے دیکھا کہ ہار قریب ہے۔ لڑکوں نے اس گفتگوسے نکلنا چاہ ا۔

جمیل نے کہا۔" چلو اباجان سے پوچھتے ہیں”۔

“اباجان ہمیں آپ سےاچھائیوں کے بارے میں پوچھنا ہے”۔


صفحہ 2 ►◄ اباجان کے ہاں ►◄ صفحہ 4