کماؤں کے آدم خور/کنڈا کا آدم خور

ویکی کتب سے

بے شک ہم لوگ دوسروں کی توہم پرستی کا جتنا بھی مذاق اڑا لیں مثلاً کھانے کی میز پر تیرہ افراد کا اکٹھا ہونا، کھانے میں شراب آگے بڑھانا، سیڑھیوں کے نیچے چلنا وغیرہ وغیرہ، تاہم ہماری ذاتی توہم پرستی ہمارے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا شکاری عام افراد کی نسبت زیادہ توہم پرست ہوتے ہیں یا نہیں۔ لیکن میرے علم میں یہ ہے کہ وہ شکاری اپنے توہمات کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ میرا ایک دوست جب بھی شیروں کے شکار پر جاتا ہے، ہمیشہ پانچ کارتوس لے کر جاتا ہے۔ نہ پانچ سے کم نہ پانچ سے زیادہ۔ ایک اور دوست سات کارتوس لے جاتا ہے۔ ایک اور دوست جو شمالی ہندوستان کا شیر وغیرہ کا بہترین شکاری کہلاتا ہے، شکار کے سیزن کا آغاز ہمیشہ مہاشیر مچھلی کے شکار سے کرتا ہے۔ میرا ذاتی تجربہ سانپوں سے متعلق ہے۔ یہ میرا بہت طویل تجربہ ہے کہ چاہے میں آدم خور کے پیچھے کتنا ہی خوار کیوں نہ ہو لوں، اگر میں پہلے ایک سانپ نہیں مارلیتا، میں آدم خور کو مارنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ایک بار مئی کے گرم دنوں میں صبح سے بے شمار میل پہاڑوں پر اوپر نیچے پھرا۔ گھنی جھاڑیوں سے گذرا اور اپنے گھٹنے اور کہنیاں چھلوائیں۔ کسی گدھے کی طرح تھکا ہارا بنگلے کی طرف واپس لوٹا۔ دو کمروں کا یہ فارسٹ بنگلہ ان دنوں میری قیام گاہ تھا۔ یہاں آ کر میں نے کچھ مقامی لوگ دیکھے۔ انہوں نے یہ خوش خبری سنائی کہ آج آدم خور ان کے گاؤں کے پاس دیکھا گیا ہے۔ اس وقت اندھیرا ہو رہا تھا اور کچھ کرنا بیکار ہوتا۔ انہیں لالٹین دے کر میں نے واپس بھیجا۔ انہیں سختی سے یہ بھی تاکید کر دی کہ اگلے دن کوئی بھی شخص گھر سے باہر کسی بھی صورت نہ نکلے۔ یہ گاؤں اس چٹانی چھجے کی دوسری طرف تھا جہاں بنگلہ تھا۔ اکیلا گاؤں ہر طرف سے گھنے جنگلات سے گھرا ہوا تھا اور آدم خور کا سب سے زیادہ یہی نشانہ بنا۔ آدم خور کے حالیہ شکار دو عورتیں اور ایک مرد تھے۔

اگلی صبح میں نے گاؤں کے گرد چکر لگایا۔ دوسرے چکر کا بڑا حصہ بھی طے ہو چکا تھا جو پہلے چکر سے چوتھائی میل دور تھا۔ ایک ڈھلوان سامنے آئی جو پتھروں اور چکنی مٹی سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک برساتی نالہ ملا جو پہاڑی سے سیدھا نیچے اترتا تھا۔ میں نے نالے میں اترنے سے قبل دونوں کناروں کا بغور جائزہ لیا تاکہ شیر کی عدم موجودگی کا اطمینان ہو۔ اچانک پچیس فٹ دور میں نے کچھ حرکت سی محسوس کی۔ یہاں باتھ ٹب سائز کا تالاب موجود تھا۔ اس کے دوسرے کنارے ایک سانپ پانی پی رہا تھا۔ اس نے سر اٹھایا تھا جو میری توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کا سبب بنا۔ اس نے دو یا تین فٹ بلند ہو کر پھن پھیلایا تو معلوم ہوا کہ ہی کنگ کوبرا ہے۔ میں نے آج تک اتنا خوبصورت سانپ نہیں دیکھا تھا۔ اس کا گلا میری طرف تھا جو خوبصورت گہرے نارنجی رنگ کا تھا اور بتدریج سرخ ہوتا ہوا باقی بدن سے جا ملتا تھا۔ اس کی پشت زیتونی سبز رنگ کی تھی۔ اس پر چاندی جیسے چانے بنے ہوئے تھے۔ یہ چانے دم سے چار فٹ اوپر کی طرف تھے۔ بقیہ پشت ساری کی ساری چمکدار کالے رنگ کی تھی۔ اس کی لمبائی تیرہ سے پندرہ فٹ کے لگ بھگ رہی ہوگی۔

اکثر لوگ قصے سنتے ہیں کہ کنگ کوبرا کو اگر چھیڑا جائے تو وہ کتنے خطرناک ہو جاتے ہیں اور ان کی رفتار تیز بھی۔ اگر یہ سچ ہوتا تو میرے پاس بھاگنے کے لئے اوپر یا نیچے خطرہ ہی خطرہ تھا۔ میں نے اس پانی کے تالاب کے دوسرے کنارے پر ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے چھوٹی تھالی کے برابر پھن پر گولی چلا کر میں اس کا خاتمہ کر سکتا تھا لیکن اس طرح بھاری رائفل کے دھماکے سے خطرہ تھا کہ آدم خور ڈر کر بھاگ جاتا۔ منٹ بھر توقف کے بعد جس دوران سانپ اپنی زبان مسلسل اندر باہر کرتا رہا، سانپ نے پھن گرایا اور سڑک پر چل پڑا۔ اس سے نگاہیں ہٹائے بغیر میں نے ٹٹول کر زمین سے ایک پتھر اٹھایا جو کرکٹ کی گیند کے برابر حجم کا ہوگا۔ سانپ ابھی بمشکل ڈھلوان کے سرے تک پہنچا ہوگا کہ پوری طاقت سے پھینکا ہوا میرا پتھر اس کے سر پر لگا۔ کسی بھی دوسرے سانپ کو مارنے کے لئے یہ کافی ہوتا لیکن یہ سانپ پتھر کھاتے ہی مڑا اور میری طرف لپکا۔ میں نے دوسرا اور بڑا پتھر اٹھایا اور اس کی گردن پر مارا۔ اس دوران سانپ آدھا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ دوسرا پتھر لگتے ہی سانپ وہیں تڑپنے لگا۔ اب اسے مارنا بہت آسان تھا۔ اب میں نے انتہائی مطمئن ہو کر دوسرا چکر پورا کیا۔ یہ بھی لاحاصل نکلا۔ چونکہ میں سانپ کو مار چکا تھا، میرا حوصلہ بہت بلند تھا اور بہت دن کے بعد مجھے اب اپنی کامیابی کا یقین ہو چکا تھا۔

اگلے دن میں نے پھر اس گاؤں کے گرد چکر لگایا اور گذشتہ شام کےوقت شیر کے پگ ایک تازہ ہل چلے کھیت میں دیکھے۔ اس گاؤں کے کل باشندے سو کے لگ بھگ ہوں گے اور وہ سب کے سب پوری طرح خبردار تھے۔ انہیں اگلے دن واپسی کا کہہ کر میں نکلا اور فارسٹ بنگلے تک چار میل کے اکیلے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ جنگل سے یا ویران سڑکوں سے آدم خور کی موجودگی کے دوران گذرنا بہت زیادہ مشکل اور احتیاط طلب کام ہے۔ اس دوران بہت سارے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے۔ آدم خوروں کا تجربہ کار شکاری ان اصولوں کو بخوبی جانتا ہے۔ اس کی تمام تر صلاحیتیں مرکوز ہوتی ہیں۔ اس دوران کوئی بھی غلطی اسے آدم خور کا تر نوالہ بنا سکتی ہے۔

قارئین پوچھ سکتے ہیں کہ میں اکیلا ہی سفر پر کیوں نکلا جبکہ میرے پاس کافی آدمی بھی تھے۔ میرا جواب یہ ہے کہ اگر بندہ اکیلا نہ ہو تو وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتا ہے اور اس طرح غیر محتاط ہو جاتا ہے۔ دوسرا شیر سے مڈبھیڑ اکیلے ہو تو اسے مار لینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اگلی صبح میں گاؤں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ جمع ہیں۔ جب میں کچھ قریب ہوا تو وہ سب کے سب چلائے "شیر ایک بھینس لے گیا ہے۔" شیر نے بھینس کو گاؤں میں ہی مارا اور پھر اٹھا کر وادی کے نچلے سرے میں داخل ہوا۔ میں نے اندازے سے اس کا پیچھا کر کے اس جگہ پہنچنے کا سوچا جہاں بھینس کی لاش ہو سکتی تھی۔

میں نے ایک ابھری ہوئی چٹان سے وادی کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ وادی میں شیر کے راستے سے گھسنا خطرناک ہے۔ اس کی بجائے بہتر یہ تھا کہ میں ایک لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف سے پہنچتا اور پھر نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا۔

میں چکر کاٹ کر کامیابی سے دوپہر کے وقت اس جگہ پہنچا جہاں میں نے اوپر کھڑے ہو کر جائزہ لیا تھا۔ یہاں وادی سو گز متوازی تھی اور پھر تین سو گز جتنی بلند ہوگئی تھی۔ میرے اندازےکے مطابق اس ہموار جگہ کے اوپری سرے پر بھینس کی لاش اور ممکن تھا کہ شیر بھی موجود ہوتا۔ اس تنگ اور دشوار وادی میں جھاڑیوں اور بانس کے جھنڈوں سے گذر کر میں پسینے میں شرابور ہو چلا تھا۔ جب فائر کرنے کا وقت نزدیک ہو تو پسینے والے ہاتھوں سے گولی چلانا غلط ہے۔ اس لئے میں پسینہ سکھانے اور سیگرٹ پینے کے لئے بیٹھ گیا۔

میرے سامنے کی زمین پر بڑے بڑے پتھر موجود تھے اور ان سے گذرتی ہوئی ندی جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے تالاب بناتی تھی۔ ان پتھروں پر چلتے ہوئے جانا ہی میرے لئے بہتر رہتا کیونکہ میں نے نہایت باریک ربر سول کے جوتے پہن رکھے تھے۔ جب میں پسینہ سکھا چکا تو آگے بڑھا کہ شاید سوتے ہوئے شیر پر نظر پڑ جائے۔ جب میں تین چوتھائی فاصلہ طے کر چکا تو میری نظر بھینس کی لاش پر پڑی جو جھاڑیوں میں موجود تھی۔ اس سے پچیس گز دور پہاڑی اچانک بلند ہوتی گئی تھی۔ شیر سامنے نہ تھا اور میں نے رک کر بہت احتیاط سےسامنے موجود ہر چیز کا جائزہ لیا۔

بڑھتے ہوئے خطرے کے اچانک پیدا ہونے والے احساسا سے تو سب ہی واقف ہیں۔ میں یہاں تین چار منٹ تک بالکل آرام سے رکا رہا۔ پھر اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ شیر بہت نزدیک سے مجھے دیکھ رہا ہے۔ میری چھٹی حس نے مجھے شیر کی اور شیر کی چھٹی حس نے اسے نیند سے جگا کر میری موجودگی کا احساس دلایا۔ میری بائیں جانب کچھ گھنی جھاڑیاں ایک ہموار جگہ پر اگی ہوئی تھیں۔ میری تمام تر توجہ ان جھاڑیوں پر مرکوز ہو گئی۔ یہ جھاڑیاں میری جگہ سے کوئی پندرہ یا بیس فٹ ہی دور رہی ہوں گی۔ جھاڑیوں میں اچانک معمولی سی حرکت ہوئی اور اگلے لمحے مجھے شیر پوری رفتار سے بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ اس سے پہلے کہ میں رائفل سیدھی کر پاتا، شیر ایک گھنے درخت کے پیچھے گم ہو گیا۔ دوبارہ مجھے شیر ساٹھ گز دور دکھائی دیا جب وہ جست لگا کر ایک پتھر پر چڑھ رہا تھا۔ میں نے نشانہ لے کر گولی چلائی اور گولی لگتے ہی شیر گر کر نیچے کی طرف لڑھکنے لگا۔ اس کے ساتھ بے شمار چھوٹے بڑے پتھر بھی لڑھک رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ شیر کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ جب چند لمحوں بعد شیر اور یہ سب پتھر وغیرہ میرے قدموں میں آ کر رکیں گے تو مجھے کیا کرنا چاہیئے، اچانک ہی شیر کی غراہٹیں بند ہو گئیں۔ اگلے لمحے وہ بظاہر ٹھیک ٹھاک بھاگتا ہوا پہاڑی پر چڑھ گیا۔ ایک لمحے کے لئے ہی وہ دکھائی دیا اور پھر اتنی تیزی سے گم ہو گیا کہ میں گولی نہ چلا سکا۔

بعد ازاں میں نے دیکھا کہ میری پچہتر ڈگری کے زاویے پر چلائی ہوئی گولی شیر کی بائیں کہنی پر لگی۔ اس جگہ سے ہڈی کا چھوٹا سا ٹکڑا ٹوٹ کر گرا۔ اسے انگریزی میں "فنی بون" کہتے ہیں۔ پھر گولی پتھر سے ٹکرا کر واپس پلٹی اور اس کے جبڑے کے سرے پر لگی۔ دونوں زخم تکلیف دہ تو ضرور تھے مگر مہلک نہیں ثابت ہو سکتے تھے۔ اس کے زخم سے بہتے ہوئے خون کی دھار کا پیچھا کرتے ہوئے میں اگلی وادی میں گھسا تو کانٹے دار جھاڑیوں کے ایک قطعے سے شیر کی غراہٹیں آنے لگیں۔ ان جھاڑیوں میں گھسنا خود کشی کے مترادف ہوتا۔

میری چلائی ہوئی گولی کی آواز گاؤں تک پہنچ گئی تھی اور لوگ جمع ہو کر چٹانی سرے پر میرے منتظر تھے۔ وہ یہ جان کر مجھ سے بھی زیادہ مایوس ہوئے کہ اتنی احتیاط اور مہارت دکھانے کے باوجود میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

اگلی صبح لاش کی طرف جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیر گذشتہ رات واپس آیا تھا اور اس نے لاش کو مزید کچھ کھایا بھی تھا۔ اب میرے لئے مچان پر بیٹھ کر گولی چلانے کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔مشکل یہ آن کھڑی ہوئی کہ اس جگہ آس پاس کوئی بھی مناسب درخت نہ تھا۔ سابقہ تجربے کے باعث آدم خور کا انتظار زمین پر بیٹھ کرکرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ نیچے وادی سے شیر کی دھاڑ سنائی دی۔یہ وہی جگہ تھی جہاں میں کل گیا تھا۔ اس آواز سے مجھے وہ طریقہ سوجھ گیا جو شیروں کو مارنے کے لئے کار آمد ہو سکتا ہے۔ شیر کو جن صورتوں میں اپنی طرف بلایا جا سکتا ہے وہ کچھ یوں ہیں: 1۔ جب وہ ملاپ کے لئے ساتھی کی تلاش میں ہوں، 2۔ جب وہ معمولی زخمی ہوں۔ یہ کہنا ضروری نہیں کہ شکاری شیر کی آواز کی بخوبی نقالی کر سکتا ہو۔ دوسرا یہ آواز کسی ایسی جگہ سے نکالی جائے جہاں شیر کو دوسرے شیر کی موجودگی کا امکان بھی محسوس ہوا، مثلاً گھنی جھاڑیاں یا گھنی گھاس کا قطعہ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ شکاری کو بہت ہی کم فاصلے سے گولی چلانے کے لئے مکمل طور پر تیار رہنا چاہیئے۔ مجھے معلوم ہے کہ کچھ شکاری اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے کہ معمولی زخمی شیر اس طرح کی آواز پر آ سکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ جب تک وہ خود نہ آزما لیں، اس سے انکار نہ کریں۔ موجودہ صورتحال میں اگرچہ شیر نے میری ہر آواز کا جواب دیا تھا اور گھنٹے بھر سے ہم آوازوں کا تبادلہ کر رہے تھے، شیر ذرا سا بھی نزدیک نہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ شیر شاید اس وجہ سے کترا رہا ہے کہ کل وہ اسی جگہ پر معمولی زخمی ہوا تھا۔ میں نے آخر کار ڈھلوان کے کنارے ایک درخت چنا اور اس کی آٹھ فٹ بلند شاخ پر بیٹھ گیا۔ یہاں میں نالے کی تہہ سے تیس فٹ بلند تھا جہاں میرے اندازے کے مطابق شیر نمودار ہوتا۔ درخت کا مسئلہ حل ہوا تو میں نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ صبح ناشتے کے ساتھ آئیں۔

شام چار بجے میں آرام سے بیٹھ گیا۔ مین نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ اگلی صبح نالے کے دوسرے کنارے سے "کووئی" کی آواز نکال کر مجھے مطلع کریں۔ اگر جواب میں تیندوے کی آواز آئے تو وہ وہیں رک جائیں اور اگر میری طرف سے جواب نہ ملے تو فوراً بھاگ کر گاؤں جائیں اور زیادہ سے زیادہ افراد جمع کر کے میری تلاش میں نکلیں۔ ساتھ ہی شور مچاتے اور پتھر پھینکتے آئیں۔

میں نے خود کو ہر طرح کی حالت میں سونے کے لئے عادی کیا ہوا ہے۔ چونکہ میں تھکا ہوا تھا، اس لئے نیند میں شام ڈھلنے کا پتہ بھی نہیں چلا۔ ڈوبتے سورج کی روشنی اور پھر لنگور کی آواز سن کر میں مکمل طور پر بیدار ہو گیا۔ میں نے فوراً ہی اس لنگور کو دیکھ بھی لیا۔ وہ وادی کے دوسرے سرے پر درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر بیٹھا میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں سمجھا کہ وہ مجھے تیندوا سمجھ کر شور مچا رہا ہے۔ یہ آواز چند ہی بار آئی اور پھر سورج ڈوبنے کے فوراً بعد ہی ختم ہو گئی۔

گھنٹوں پر گھنٹے گذرتے گئے اور اچانک پتھروں کا سیلاب سا بہتا ہوا میرے درخت سے آ ٹکرایا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے بھاری جسامت اور نرم گدیوں والے جانور کی آواز سنی جو بلا شبہ شیر ہی تھا۔ پہلے میں نے سوچا کہ اتفاقاً شیر نیچے نالے سے آنے کی بجائے اوپر سے آ رہا ہے۔ جلد ہی یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی جب شیر نے میرے بالکل عقب سے غرانا شروع کر دیا۔ بظاہر شیر اس وقت یہاں پہنچا جب میں اپنے بندوں سے باتیں کر رہا تھا اور یہیں چھپ گیا۔ اسے دیکھ کر ہی لنگور چلا رہا تھا۔ شیر نے مجھے درخت پر چڑھتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ اب اس صورتحال کے لئے میں بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ خاصی احتیاط کی ضرورت تھی۔ روشنی میں تو یہ شاخ بہت آرام دہ تھی لیکن اندھیرا چھاتے ہی اس پر حرکت کرنا مشکل ہوتا گیا۔ میں ہوائی فائر کر کے شیر کو بھگا سکتا تھا لیکن اس طرح شیر اتنا خوف زدہ ہو جاتا کہ پھر شاید ہی اس سے دوبارہ مڈبھیڑ ہوتی۔ میری رائفل اعشاریہ 400/450 بور کی بھاری رائفل تھی۔

مجھے معلوم تھا کہ شیر چھلانگ نہیں لگائے گا کہ اس طرح وہ تیس فٹ گہرے کھڈ میں گر سکتا تھا۔ لیکن اسے چھلانگ کی ضرورت بھی کیا تھی۔ آرام سے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر وہ مجھے دبوچ سکتا تھا۔رائفل کو اٹھا کر الٹا پکڑا اور نالی کو پیروں کے بیچ لے آیا اور سیفٹی کیچ ہٹا دیا۔ اس بار زیادہ زور سے غراہٹ کی آواز آئی۔ اب اگر شیر حملہ کرتا تو وہ پہلے رائفل کی نال سے ٹکراتا۔ اس وقت میں انگلیاں لبلبیوں پر تھیں۔ اگر اس کے حملے پر گولی چلا کر میں اسے مار نہ بھی سکتا تو بھی میرے پاس اتنا وقت ہوتا کہ میں مزید اوپر چڑھ سکتا۔ وقت انتہائی سستی سے گذرتا رہا۔ آخر کار شیر نے چھلانگ لگا کر میری بائیں جانب ایک چھوٹی کھڈ عبور کی اور جلد ہی میں نے ہڈیاں چبانے کی آواز سنی۔ میں کافی مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ بقیہ رات شیر کے کھانے کی آواز آتی رہی۔

سورج نکلے ہوئے ابھی چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے اور وادی ابھی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی کہ میرے آدمیوں کی "کووئی" کی آواز آئی۔ اسی وقت شیر نے میری بائیں جانب چھلانگ لگائی اور بھاگنے لگا۔ کم روشنی اور تھکے ہوئے اعصاب کے ساتھ میں نے اس پر گولی چلائی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ گولی اسے لگی۔ زور سے دھاڑ کر وہ مڑا اور سیدھا میری طرف پلٹا۔ ابھی وہ درخت کے ساتھ پہنچ کر چھلانگ لگانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ میری دوسری گولی اس کے سینے میں لگی۔ بھاری گولی کھاتے ہی اس کا رخ بدلا اور مجھ سے ذرا نیچے تنے سے ٹکرا کر گرا۔ گرتے ہی وہ پھر اٹھا اور چھلانگ لگا کر بھاگا۔ چند ہی گز دور جا کر وہ ایک تالاب کے کنارے گرا۔ وہ پانی اچھالتا رہا اور پورا تالاب دیکھتے ہی دیکھتے خون سے سرخ ہو گیا۔ پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

شاخ پر پندرہ گھنٹے ایک ہی انداز میں بیٹھے رہنے سے میرے سارے پٹھے اکڑ گئے تھے اور نیچے اترتے ہوئے میرے کپڑے خون میں تر ہو گئے۔ شیر جہاں تنے سے آ کر ٹکرایا تھا، اس جگہ خون کے کافی نشانات چھوڑ گیا تھا۔ اب میں نے اپنے پٹھوں کو ہلایا جلایا اور پھر اس کے پیچھے لپکا۔ وہ تھوڑی دور ہی جا سکا تھا اور ایک اور تالاب کے کنارے مردہ پڑا ہوا تھا۔ میرے احکامات کے برعکس میرے ساتھیوں نے گولی کی آواز اور شیر کی دھاڑ سنی اور پھر دوسری گولی کی آواز سن کر بھاگے بھاگے آئے۔ خون سے لت پت درخت کے نیچے آ کر انہوں نے میرا ہیٹ پڑا دیکھا تو انہوں نے سوچا کہ شیر مجھے لے گیا ہے۔ ان کے چلانے کی آوازیں سن کر میں نے انہیں آواز دی۔ میرے کپڑوں پر خون دیکھ کر پھر ان کی ہمت پست ہو گئی۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ یہ خون شیر کا ہے میرا نہیں۔پھر انہوں نے ایک چھوٹا درخت کاٹا اور اس پر شیر کو لاد کر خوشی سے ناچتے گاتے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔

ان دور دراز علاقوں میں جہاں آدم خور طویل عرصے سے سرگرم ہو، بعض اوقات بہادری کے نایاب نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ واقعات ان دیہاتیوں کے لئے معمولی بات ہوتے ہیں اور بیرونی دنیا ان کے بارے کبھی بھی نہیں جان پاتی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جو کنڈا کے آدم خور سے متعلق ہے، میں بیان کرتا ہوں۔ یہ اس آدم خور کے آخری انسانی شکارسے متعلق ہے۔ میں اس جگہ واقعے کے رونما ہونے کے کچھ ہی دیر بعد پہنچا تھا۔ مجھے کچھ معلومات گاؤں والوں سے اور کچھ معلومات جائے وقوعہ کے بغور معائینے سے ملی تھیں۔ یہ کہانی کچھ اس طرح سے تھی۔

جہاں میں نے کنڈا کے آدم خور کو ہلاک کیا، اس کے پاس ہی ایک گاؤں میں ایک بوڑھا شخص اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ 1914 سے 1918 کے دوران تک باپ نے رائل گڑھوال رائفلز میں خدمات سر انجام دی تھیں۔ ان دنوں یہ کام اتنا آسان نہیں تھا اور نہ ہی آج کل کی طرح چند ملازمتیں اور بے شمار امیدوار۔ باپ کا خیال تھا کہ وہ بیٹے کو اسی فوج میں بھرتی کرائے۔ لڑکے اٹھارہ سال کا ہوتے ہی لانس ڈاؤن کی ایک جماعت ادھر سے گذری۔ لڑکا ان کے ساتھ ہو لیا اور سیدھا بھرتی دفتر پہنچ کر پیش ہو گیا۔ اس کے باپ نے بیٹے کو فوجی انداز میں سلام کرنا اور افسر کے سامنے پیش ہونے کے سارے آداب سکھا دیے تھے۔ اس لئے بغیر کسی دقت کے وہ فوراً ہی منتخب ہو گیا۔ نام لکھے جانے کے بعد اسے اجازت دی گئی کہ وہ گھر جا کر اپنے کام وغیرہ نمٹا لے۔ لڑکا اس روز دوپہر کو گھر پہنچا۔ اسے گئے ہوئے پانچ دن ہو گئے تھے۔ اسے دوستوں نے فوراً گھیر لیا اور اسے بتایا کہ اس کا باپ کھیت میں ہل چلا رہا ہے اور مغرب سے قبل نہ لوٹے گا۔ (یہ وہی کھیت تھا جہاں میں نے شیر کے نشانات دیکھے تھے اور اسی دن کنگ کوبرا مارا تھا)۔

لڑکے نےمویشیوں کو چارہ وغیرہ ڈالا اور دوپہر کا کھانا ہمسائے کے گھر سے کھا کر دیگر بیس افراد کے ساتھ پتے جمع کرنے نکل کھڑا ہوا۔ جیسا کہ میں نے پہلےبتایا، یہ گاؤں چٹانی سرے پر بنا ہوا ہے اور اس کے ہر طرف جنگل ہی جنگل ہیں۔ انہی جنگلوں میں حالیہ واقعات میں دو عورتیں ماری گئی تھیں اور کئی ماہ سے مویشیوں کو پتے وغیرہ کھلا کر گذارا کیا جا رہا تھا۔ ہر روز عورتوں کو زیادہ دور جا کر پتے لانا پڑتے تھے۔ اس روز اکیس بندے مزروعہ زمین کو عبور کر کے ایک گہری کھائی میں چوتھائی میل اندر گئے۔ یہ وادی شرقاً غرباً آٹھ میل تک پھیلی ہوئی ہے اور تاریک جنگلوں سے گذرتی ہے۔ ڈھکالہ جا کر یہ رام گنگا دریا سے جا ملتی ہے۔

وادی کا سرا کم و بیش متوازی زمین ہے اور ہر طرف گھنی گھاس اور بڑے درختوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ہر شخص یہاں الگ ہو کر اپنی مرضی کے درخت پر چڑھ گیا اور مطلوبہ مقدار میں پتے توڑ کر اور رسیوں سے ڈھیریاں بنا کر گاؤں کی طرف دو دو یا تین تین کی ٹولیوں میں چلا جاتا۔

آنے اور جانے کے وقت یہ تمام افراد زور زور سے چلاتے اور شور کرتے رہے تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں اور شیر کو پاس آنے کا موقع نہ ملے۔ اسی طرح درختوں پر چڑھے ہوئے بھی وہ برابر شور کرتے رہے۔ معلوم نہیں کس وقت ان کے شور سے خبردار ہو کر ہو کر شیر بیدار ہوا جو اس وقت یہاں سے نصف میل دور جنگل میں سو رہا تھا۔ یہاں سے جہاں اس نے چار روز قبل ایک سانبھر ہلاک کر کے کھایا تھا، نکلا اور ندی عبور کر کے پگڈنڈی پر چلتا ہوا ان لوگوں کی طرف آیا۔ (شیر کے پچھلے اور اگلے پنجوں سے بننے والے پگوں کے بغور مشاہدے سے اس کی رفتار کا جائزہ لیا جا سکتا ہے) اس مذکورہ لڑکے نے بیری کے درخت کا انتحاب کیا تھا جو اس پگڈنڈی سے بیس گز دور تھا اور اس کی اوپری شاخیں ایک کھڈ میں جھکی ہوئی تھیں جہاں دو بڑے پتھر موجود تھے۔ اس پگڈنڈی کے ایک موڑ سے شیر نے اس لڑکے کو دیکھا۔ شیر چند منٹ تک اس لڑکے کا جائزہ لیتا رہا پھر پگڈنڈی سے ہٹ کرکھڈ سے تیس گز دور ایک اور گرے ہوئے درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ لڑکے نے پتے توڑے اور انہیں اکٹھا کر کے باندھنے لگا۔ اس جگہ وہ بالکل محفوظ تھا۔ اچانک اس کی نظر ان دو شاخوں پر پڑی جو کھڈ میں گر گئی تھیں۔ وہ کھڈ میں داخل ہوا اور اس طرح اس نے اپنی قسمت پر خود ہی مہر لگا دی۔ جونہی وہ شیر کی نظروں سے اوجھل ہوا، شیر نے اپنی جگہ چھوڑی اور رینگتا ہوا کھڈ میں پہنچا۔ جونہی لڑکا شاخیں اٹھانے جھکا، شیر نے جست لگائی اور اسے ہلاک کر ڈالا۔ یہ بتانا ممکن نہیں کہ شیر کے حملے کے وقت دیگر افراد ادھر درختوں پر موجود تھے یا گاؤں چلے گئے تھے۔

سورج غروب ہوتے وقت باپ گاؤں پہنچا۔ اسے لوگوں نے گھیر لیا اور یہ خوش خبری سنائی کہ کس طرح اس کا بیٹا فوج کے لئے منتخب ہو چکا ہے اور یہ بھی کہ اسے مختصر چھٹی ملی ہے اور وہ گھر آیا ہوا ہے۔ باپ نے پوچھا کہ لڑکا کہاں ہے تو جواب ملا کہ وہ دیگر افراد کے ہمراہ مویشیوں کے لئے پتے توڑنے گیا ہوا تھا۔ لوگوں نے الٹا حیرت سے سوال کیا کہ کیا اسے بیٹا گھر پر نہیں ملا؟ اس نے باری باری ان تمام لوگوں سے پوچھا جو لڑکے کے ساتھ جنگل میں گئے تھے۔ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ وادی کے سرے پر سب ایک دوسرے سے الگ الگ ہو گئے تھے۔ کسی کو بھی یاد نہیں کہ اس کے بعد لڑکا کہاں گیا۔

باپ مزروعہ زمین عبور کر کے کنارے پر گیا اور بار بار لڑکے کو آواز دی۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ اندھیرا چھانا شروع ہو چکا تھا۔ بیچارہ باپ گھر لوٹا اور چھوٹا سا لالٹین جلا کر باہر نکلا۔ لالٹین دھوئیں کے باعث بالکل دھندلا چکا تھا۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں جا رہا ہے۔ گاؤں والے سکتے میں آ گئے اور اسے یاد دلایا کہ آدم خور آس پاس ہی کہیں موجود ہوگا۔ اس نے جواب دیا کہ آدم خور کے ادھر ہونے کے سبب اسے ڈر لگ رہا ہے کہ اسے بیٹے کی تلاش کے لئے نکلنا چاہیئے۔ شاید وہ درخت سے گر کر زخمی ہو گیا ہو اور آدم خور کے ڈر سے کوئی آواز نہ نکال رہا ہو۔

اس نے کسی سے ساتھ چلنے کو کہا نہ ہی کسی نے خود سے حامی بھری۔ یاد رہے کہ یہ وہی وادی ہے جہاں آدم خور کے ظہور کے بعد سے کوئی شخص قدم رکھنے کی بھی جرأت نہیں کرتا تھا۔ میں نے اس کے قدموں کے نشان سے دیکھا کہ اس رات چار مرتبہ وہ بیچارہ مویشیوں کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے اس جگہ سے دس فٹ دور گذرا جہاں شیر اس کا بیٹا کھا رہا تھا۔ کانپتے ہوئے اور کمزور دل کے ساتھ وہ دو چٹانوں پر چڑھا۔ روشنی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ وہ کچھ دیر کے لئے دم لینے کو رکا۔ اس جگہ سے کھڈ کے اندر تک صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سورج نکلنے پر اس نے کھڈ میں پتھروں کے درمیان خون دیکھا۔ بھاگتا ہوا نیچے اترا تو اس نے اپنے بیٹے کی باقیات دیکھیں۔ اس نے انہیں احتیاط سے جمع کیا اور گھر لایا۔ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے اس کی مدد کی۔ انہوں نے باقیات کو دریائے منڈل کے کنارے شمشان گھاٹ میں جلا دیا۔

میرا اندازہ ہے کہ یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ یہ اشخاص ان خطرات سے واقف نہیں ہوتے جو انہیں لاحق ہوں۔ یہ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں اور ہر پہاڑی موڑ، ہر چٹان، غار وغیرہ کو انہوں نے کسی نہ کسی بدروح سے منسوب کیا ہوتا ہے۔ یہ ان کی توہم پرستی ہے۔ یہ تمام بدروحیں شیطانی اور اندھیرے کی پیداوار سمجھی جاتی ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں پلا بڑھا شخص جو سالوں سے آدم خور کے وجود سے خوف زدہ ہو، اکیلا اور نہتا ان جگہوں سے گذرے اور رات بھر گھومتا رہے جہاں ہر قدم پر آدم خور سے مڈبھیڑ ہونے کا امکان ہو، میرے نزدیک اتنا نڈر شخص لاکھوں میں ایک ہی ہوگا۔ تاہم اسے بیٹے کی تلاش میں ساری رات گھنے اور تاریک جنگل میں گھومتے رہنا ذرا سا بھی بہادری کا کارنامہ نہ لگا۔ جب میں نے اسے آدم خور کی لاش کے پاس بیٹھ کر تصویر کھینچوانے کا کہا تو اس نے مضبوط لہجے اور پر سکون آواز میں کہا "میں اب مطمئن ہوں۔ صاحب آپ نے میرے بیٹے کا بدلہ لے لیا ہے۔"

کماؤں کی ضلعی کانفرنس میں میں نے جن تین آدم خوروں کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، اس آدم خور کی ہلاکت کے ساتھ پورا ہوا۔