مندرجات کا رخ کریں

کماؤں کے آدم خور/چمپاوت کی آدم خور شیرنی

ویکی کتب سے

اس شیرنی کے متعلق میں نے پہلی بار تب سنا تھا جب میں ایڈی نولس کے ہمراہ مالانی میں شکار کھیل رہا تھا۔ اس شیرنی کو سرکاری طور پر بعد میں "چمپاوت کی آدم خور" کا نام دیا گیا تھا۔

ایڈی کو اس صوبے میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ فطرت سے ان کی محبت اور شکار کا شوق اپنی انتہا پر تھے۔ وہ ان چند خوش نصیب افراد میں سے ایک تھے جن کے پاس نہ صرف ہر چیز بلکہ ہر قسم کی بہترین چیز ہوتی ہے۔ ان کی رائفل کی نشانے کی درستگی اور ان کی گولی کی طاقت کا جوڑ نہیں تھا۔ ان کا ایک بھائی ہندوستان کی فوج کا سب سے بہترین نشانچی تھا۔ ان کا دوسرا بھائی ہندوستانی فوج کا سب سے بہترین ٹینس کا کھلاڑی تھا۔جب ایڈی نے مجھے بتایا کہ ان کے بہنوئی کو حکومت نے "چمپاوت کی آدم خور شیرنی" کو مارنے کے لئے مقرر کیا ہے تو مجھے یقین تھا کہ اس شیرنی کے دن گنے جا چکے ہیں۔

تاہم چند نامعلوم وجوہات کی بناء پر شیرنی ہلاک نہ ہو سکی۔ چار سال بعد جب میں نینی تال پہنچا تو وہ شیرنی حکومت کا درد سر بن چکی تھی۔ اس کی ہلاکت پر انعامات مقرر ہو چکے تھے۔ خصوصی شکاری بھیجے گئے تھے۔ گورکھوں کی جماعتیں بھی اسے نہ مار سکیں۔ انسانی ہلاکتیں بڑھتی چلی گئیں۔

یہ شیرنی، جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا، کماؤں آنے سے قبل ہی آدم خور بن چکی تھی۔ کماؤں پہنچنے سے قبل وہ نیپال میں بھی دو سو افراد ہلاک کر چکی تھی۔ مسلح نیپالیوں کے دستے نے اسے وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ کماؤں میں اس نے مزید دو سو چونتیس ہلاکتیں کی تھیں۔

نینی تال پہنچنے کے فوراً بعد برتھوڈ مجھ سے ملنے آئے۔ اس وقت برتھوڈ اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اپنی ناگہانی موت کے بعد وہ ہلدوانی میں ہی دفن ہوئے۔ ان کے سارے جاننے والے ان سے محبت کرتے ہیں۔ جب انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے ضلع کے لوگ اس شیرنی سے کتنے تنگ آ چکے ہیں تو مجھے حیرت نہ ہوئی۔ لوگوں کا درد ان کا درد تھا۔ جانے سے قبل انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ اگلی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی میں اس شیرنی کا پیچھا کروں گا۔

تاہم میں نے دو شرائط رکھیں۔ پہلی تو یہ کہ تمام حکومتی انعامات جو اب تک مقرر ہو چکے ہیں، واپس لے لئے جائیں۔ دوسرا یہ کہ تمام شکاریوں اور الموڑہ کے گورکھوں کو واپس بلا لیا جائے۔ ان شرائط کی وجوہات بھی ظاہر تھیں۔ کوئی بھی اچھا شکاری انعام کے لالچ میں شکار نہیں کرتا۔ دوسرا جب اتنے ڈھیر سارے شکاری ایک ہی جگہ ہوں تو ان کی گولیوں سے بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے میری دونوں شرائط منظور کر لیں۔ اگلے ہفتے برتھوڈ میرے پاس آئے اور بتایا کہ انہیں گذشتہ رات ہرکارے نے پالی کے مقام پر ایک عورت کی ہلاکت کی اطلاع پہنچائی ہے۔ یہ گاؤں دیبی دھورا اور دھونا گھاٹ کے درمیان واقع ہے۔

اس گاؤں کی کل آبادی پچاس نفوس پر مشتمل تھی جن میں عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے سب شامل تھے۔ یہ لوگ انتہائی خوف و ہراس کا شکار تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو سورج ابھی کافی بلند تھا مگر وہ لوگ بند دروازوں کے پیچھے ہی خود کو محفوظ تصور کر رہے تھے۔ جب ہم لوگ گاؤں کے درمیان میں رک کر آگ جلا کر چائے تیار کرنے لگے تو اکا دکا دروازے کھلنے لگے۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ پانچ روز سے گھر کی دہلیز سے باہر نہیں گئے۔ نتیجتاً صفائی کی صورتحال بہت ناگفتہ بہ تھی اور خوراک بھی ختم ہونے والی تھی۔ اگر شیرنی کو مارا یا بھگایا نہ جاتا تو یہ لوگ عن قریب بھوک سے مر سکتے تھے۔

شیرنی کی اس علاقے میں موجودگی صاف ظاہر تھی۔ گذشتہ تین راتوں سے وہ گاؤں کے پاس سڑک سے ہوتی ہوئی گذری تھی۔ یہ سڑک گاؤں سے بمشکل سو گز دور ہوگی۔ دن کی روشنی میں یہ شیرنی کئی بار گاؤں سے متصل کھیتوں میں بھی دیکھی گئی تھی۔

نمبردار نے مجھے ایک کمرہ دیا۔ ہم کل آٹھ افراد تھے۔ اس کمرے کا دروازہ اس طرف کھلتا تھا جہاں سارے گاؤں کی غلاظت پھینکی جاتی تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں رات کھلے آسمان کے نیچے گذاروں گا۔

رات کا کھانا جلدی جلدی کھا کر میرے آدمی اس کمرے میں محفوظ ہو کر بیٹھ گئے تو میں نے سڑک کے کنارے ایک درخت سے ٹیک لگا لی۔ چونکہ دیہاتیوں نے بتایا تھا کہ شیرنی اس سڑک سے ہو کر گذرتی ہے تو اگر میں اسے پہلے دیکھ پاتا تو اسے مار سکتا تھا۔ رات روشن تھی کیونکہ چودہویں کا چاند نکلا ہوا تھا۔

شکار کی تلاش میں میں نے بے شمار راتیں جنگل میں گذاری تھیں۔ کسی آدم خور کا مقابلہ کرنے کے لئے جنگل میں رات گذارنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ جلد ہی ساری سڑک چاند کی روشنی سے منور ہو گئی۔ سڑک سے دائیں اور بائیں جانب درختوں کے پتوں سے چاندنی چھن رہی تھی۔ جب ہوا چلتی تو ایسا لگتا کہ درجنوں شیر میری طرف بڑھ رہے ہوں۔ مجھے اپنی حماقت پر افسوس ہونے لگا کہ میں نے زمین پر بیٹھنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اب میں اس آدم خور کے رحم و کرم پر تھا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ مجھے گاؤں واپس جانے کی جرأت نہ ہو رہی تھی۔ سردی اور خوف سے میرے دانت بج رہے تھے۔ جب سورج کی سنہری کرنیں میرے سامنے والے پہاڑوں کی برفانی چوٹیوں پر پڑیں تو میں نے گھٹنوں میں سر دیا ور بے خبر سو گیا۔ گھنٹے بھر بعد میرے آدمی مجھے اٹھانے آئے۔ میں نے ساری رات شیرنی کی آواز تک نہ سنی تھی۔

گاؤں میں میری بحفاظت واپسی پر گاؤں والے پریشان تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ مجھے ان جگہوں پر لے جائیں جہاں شیرنی نے انسانی ہلاکتیں کی ہوں۔انہوں نے محض اپنی دہلیز سے ہی ہاتھوں کے اشارے سے بتانے کی کوشش کی۔ آخری ہلاکت جس کے بعد میں ادھر آیا تھا، گاؤں کے بالکل کنارے پر ہوئی تھی۔ عورتیں اور لڑکیاں جن کی تعداد بیس تھی، مویشیوں کے لئے درختوں سے پتے توڑنے گئی ہوئی تھیں۔ یہ عورتیں دن چڑھے گاؤں سے بمشکل نصف میل دور جا کر درختوں پر چڑھی تھیں تاکہ پتے توڑ سکیں۔ متوفیہ اور اس کے ہمراہ دو اور عورتوں نے کھڈ کے کنارے ایک درخت چنا۔ یہ کھڈ چار فٹ گہری اور دس یا بارہ فٹ چوڑی تھی۔ متوفیہ نے سب سے پہلے مطلوبہ مقدار میں پتے توڑ لئے تھے اور نیچے اترنے لگی۔ شیرنی جو کہ انتہائی خاموشی سے کھڈ تک پہنچی تھی، نے باہر نکل کر عورت کا پیر منہ میں دبا لیا۔ عورت کے ہاتھ سے درخت کی ٹہنی چھوٹ گئی۔ اسے کھڈ میں گھسیٹ کر شیرنی نے پاؤں چھوڑا اور اسے گلے سے دبوچ لیا۔ ہلاک کرنے کے بعد شیرنی نے اسے اٹھائے ہوئے جست لگائی اور گھاس میں گم ہو گئی۔

چونکہ یہ سارا واقعہ دیگر دو عورتوں کے سامنے پیش آیا تھا، انہوں نے یہ سب کچھ تفصیل سے دیکھا۔ شیرنی اور اس کے شکار کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی دہشت سے سہمی ہوئی ساری عورتیں اور لڑکیاں گاؤں کو لوٹیں۔ اسی وقت سارے گاؤں کے مرد دوپہر کا کھانا کھانے واپس آئے تھے۔ سب نے فوراً ہی ڈھول، ڈرم، دھاتی پتیلیاں، غرض ہر وہ چیز اٹھا لی جسے بجا کر شور کیا جا سکتا۔ سارے مدد کے لئے روانہ ہوئے۔ مرد آگے آگے اور عورتیں پیچھے پیچھے تھیں۔

جائے حادثہ پر پہنچ کر یہ سوال آ کھڑا ہوا کہ "اب کیا کریں؟" ابھی وہ یہ بحث کر ہی رہے تھے کہ شیرنی نے پاس والی جھاڑی سے نکل کر زور دار بھبھکی دی۔ تمام افراد سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور گاؤں پہنچ کر ہی دم لیا۔ جب سانس بحال ہوئی تو ہر ایک دوسرے کو الزام دینے لگاکہ وہ پہلے بھاگا تھا۔ جب تو تو میں میں اور تکرار کی نوبت آئی تو ایک شخص نے کہا کہ اگر کوئی سارے ہی اپنے دعوؤں کے مطابق اتنے سچے اور بہادر ہیں تو کیوں نہ دوبارہ جا کر اس عورت کی جان بچائیں؟ تین بار یہ پارٹی کھڈ تک جا کر لوٹ آئی۔ چوتھی بار جس شخص کے پاس بندوق تھی، نے ہوا میں گولی چلائی۔ شیرنی فوراً ہی جھاڑیوں سے غرائی۔ غرض یہ پارٹی اب مدد کا خیال دل سے نکال کر واپس لوٹ آئی۔ میں نے بندوقچی سے کہا کہ اس نے ہوا میں گولی چلانے کی بجائے جھاڑی میں کیوں نہیں گولی چلائی۔ وہ بولا کہ شیرنی پہلے ہی غضب ناک ہو رہی تھی۔ اگر بدقسمتی سے کوئی چھرا اسے لگ جاتا تو وہ اسے زندہ نہ چھوڑتی۔

اگلی صبح میں تین گھنٹے تک شیرنی کے نشانات تلاش کرتا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے شیرنی سے اچانک مڈبھیڑ کا خطرہ بھی رہا۔ ایک جگہ جہاں گھنی جھاڑیاں تھیں، تلاش کے دوران تیتروں کا جھنڈ پھڑپھڑاتا ہوا اڑا تو مجھے لگا کہ میرا دل دھڑکنا بھول گیا ہے۔

میرے آدمیوں نے اخروٹ کے درخت تلے زمین صاف کر کے ناشتے کے لئے جگہ بنائی تھی۔ ناشتے کے بعد نمبردار نے مجھے کہا کہ اگر میں رائفل لے کر نگرانی کروں تو وہ لوگ گندم کی تیار فصل کاٹ لیں۔ اس نے کہا کہ اگر یہ فصل آج نہ کاٹی گئی تو بعد میں اسے کوئی نہیں کاٹنے والا۔ لوگ اتنے زیادہ خوفزدہ ہیں۔ نصف گھنٹے بعد پورا گاؤں بمع میرے آدمیوں کے کٹائی پر لگ گئے۔ میں رائفل لئے نگران کھڑا رہا۔ شام ہوتے ہوتے پانچ بڑے کھیتوں کی کٹائی مکمل ہو گئی۔ بقیہ دو کھیت چھوٹے اور گاؤں سے متصل تھے۔ نمبردار کے بقول یہ کھیت کٹائی کے لئے محفوظ تھے۔

گاؤں کی صفائی کی صورتحال اب کافی بہتر ہو چلی تھی۔ اب کے گاؤں والوں نے میرے لئے دوسرا کمرہ خالی کر دیا تھا۔ اس رات ہم نے اس کمرے کے دروازے کی جگہ کانٹے دار جھاڑیاں لگا دیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت تو جاری رہے لیکن شیرنی نہ گذر پائے۔ یہ رات میں نے اچھی طرح نیند پوری کی جو کہ سابقہ رات کی ادھار تھی۔

اب میری موجودگی سے گاؤں والوں کی ہمت کافی بڑھ چکی تھی۔ ان کی نقل و حمل بھی نسبتاً بڑھ گئی تھی۔ تاہم ابھی بھی وہ مجھ پر اتنا بھروسہ نہیں کرتے تھے کہ میرے ساتھ چل کر آخری واردات کی جگہ دکھائیں یا جنگل میں میرے ساتھ مٹر گشت کر سکیں۔ یہ لوگ پورے جنگل سے اچھی طرح واقف تھے اور مجھے ان جگہوں تک لے جا سکتے تھے جہاں شیرنی کی موجودگی کا امکان ہوتا یا کم از کم میں شیرنی کے پنجوں کے نشانات تو دیکھ سکتا۔ اس وقت تک مجھے قطعی علم نہیں تھا کہ آیا یہ آدم خور نر ہے یا مادہ، نوعمر ہے یا بوڑھا شیر۔ ان سب معلومات کا حصول اس کے پنجوں کے نشانات یعنی پگوں کو دیکھ کر ہی ہو سکتا تھا۔

اس صبح چائے کے بعد میں نے گاؤں والوں سے کہا کہ میں اپنے آدمیوں کے لئے گوشت چاہتا ہوں۔ کیا کوئی دیہاتی میرے ساتھ چل سکتا ہے کہ میں گڑھل یعنی پہاڑی بکرے کا شکار کر سکوں۔ یہ پورا گاؤں شرقاً غرباً ایک لمبی کھائی کے کنارے پہاڑ کی بلندی پرواقع تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ سڑک گذرتی تھی جہاں میں نے پہلی رات شیرنی کا انتظار کیا تھا۔ یہ سڑک بہت ساری ڈھلوانوں سے ہو کر گذرتی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں گڑھل بہت ملتے ہیں۔ میں نے اپنی خوشی ظاہر کئے بغیر تین افراد کا چناؤ کیا۔ میں نے نمبردار سے وعدہ کیا کہ اگر گڑھل بکثرت ہوئے تو میں ایک اپنے آدمیوں کے لئے اور دو گاؤں والوں کے لئے ماروں گا۔

سڑک عبور کر کے ہم گہری ڈھلوان کھائی میں نیچے اترے۔ میں ہر طرف اچھی طرح دیکھ بھال کر چل رہا تھا تاکہ کسی گڑھل کو دیکھ سکوں۔ نصف میل بعد کھائیاں ختم ہو رہی تھیں۔ ان کی جڑ سے پوری وادی کے دائیں جانب کا بہترین نظارہ دیکھنے کو مل رہا تھا۔ میں وہاں موجود صنوبر کے اکلوتے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ اچانک میری آنکھ کے گوشے سے کسی حرکت کا احساس ہوا۔ میں نے اس طرف اپنی پوری توجہ مرکوز کر دی۔ حرکت دوبارہ ہوئی۔ یہ گڑھل کا سر تھا جس کے کان ہلے تھے۔ اس کا سر گھاس سے باہر نکلا ہوا تھا جبکہ پورا جسم گھاس میں چھپا ہوا تھا۔ دیگر ہمراہیوں نے کچھ بھی نہ دیکھا تھا کیونکہ سر اب بالکل پس منظر سے مل گیا تھا۔ انہیں اندازے سے بتا کر میں نے انہیں کہا کہ وہ بیٹھ کر دیکھتے رہیں۔ میرے پاس اس وقت ہنری مارٹینی رائفل تھی جو اپنے نشانے کی درستی اور گولی کے دھکے کی وجہ سے مشہورہے۔ اس میں کالے بارود کا کارتوس استعمال ہوتا تھا۔ گڑھل سے میری موجودہ جگہ کا فاصلہ کوئی دو سو گز رہا ہوگا جو کہ اس رائفل کے لئے معمولی بات تھی۔ میں نے رائفل کو اس درخت کی ایک ابھری ہوئی جڑ پر جما کر نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔

کالے بارود کے دھوئیں نے میرے سامنے ایک پردہ سا تان دیا۔ میرے آدمیوں کا خیال تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ شاید میں نے پتھروں یا پتوں کے ڈھیر پر گولی چلائی تھی۔ دھواں مدھم ہوا تو میں نے اس جگہ سے ذرا نیچے گھاس ہلتی ہوئی دیکھی۔ پھر لڑھکتے ہوئے گڑھل کی پچھلی ٹانگیں دکھائی دیں۔ جب گڑھل گھاس سے آزاد ہوا تو نیچے کی طرف لڑھکنے لگا۔ جوں جوں وہ نیچے آتا گیا اس کی رفتار بڑھتی چلی گئی۔ نصف فاصلے پر وہ اس جگہ سے گذرا جہاں مزید دو گڑھل لیٹے ہوئے تھے۔ لڑھکتے گڑھل سے خبردار ہو کر یہ اٹھے اور سیدھا اوپر کی طرف بھاگے۔ میں نے کارتوس بدل کر دوبارہ نشانہ درست کیا اور جونہی بڑا گڑھل ذرا سا رکا، میں نے اس کی کمر میں اور دوسرے کے کندھے میں گولیاں اتار دیں۔

بعض اوقات ہم سے ایسے کام ہو جاتے ہیں جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ سخت زمین پر لیٹ کر ساٹھ ڈگری کے زاویے پر دو سو گز دور گڑھل کی گردن کے سفید نشان پر گولی چلانا، چاہے گولی کے درست جگہ لگنے کے لاکھوں میں سے ایک امکان ہونے کے باوجود بھی گولی بال برابر بھی اپنے نشانے سے نہ ہٹی۔ کالے بارود نے گولی کو ٹھیک نشانے پر پہنچایا۔ گڑھل اسی وقت مر چکا تھا۔ پھر اس سخت ڈھلوان پر لڑھکتا ہوا گڑھل اس جگہ پہنچا جہاں پہلے سے دو اور گڑھل موجود تھے۔ ابھی یہ گڑھل اس جگہ سے نیچے نہ آیا تھا کہ دوسرے دونوں گڑھل بھی اس کے پیچھے لڑھکنے لگ گئے۔ جونہی یہ تینوں جانور ہمارے قدموں میں آ کر رکے، دیہاتیوں کی حیرت قابل دید تھی۔ انہوں نے آج تک رائفل کا استعمال دیکھا تک نہ تھا۔ آدم خور کا خیال بھلا کر وہ صرف ان جانوروں کو اٹھانے لپکے۔

کئی اعتبار سے یہ مہم کامیاب رہی۔ اس سے نہ صرف گاؤں بھر کے لئے گوشت ملا بلکہ پورے گاؤں کا اعتماد بھی مجھے ملا۔ شکار کی داستانیں ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں۔ میں ناشتہ کرنے لگا تو بقیہ گاؤں والے مردہ گڑھلوں کے گرد جمع ہو گئے۔ گڑھلوں کی کھال اتارنے اور گوشت کی تقسیم کے دوران ان تینوں افراد نے نہایت فیاضی سے میرے کارنامے پر روشنی ڈالی۔ میں نے بخوبی سنا کہ کس طرح میں نے میل بھر دور سے گڑھل پر گولی چلائی۔ نہ صرف یہ بلکہ ان جادوئی گولیوں نے گڑھلوں کو کھینچ کر صاحب کے قدموں میں لا کر ڈال دیا۔

دوپہر کے کھانے کے بعد نمبردار میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے کتنے افراد درکار ہیں اور یہ کہ میں کس طرف جنگل میں جانا چاہتا ہوں۔ ایک با رپھر اپنی مسرت کو دباتے ہوئے میں نے خاموشی سے دو افراد کو چنا جو گڑھلوں والی مہم میں میرے ساتھ تھے۔ اب ہم اس طرف روانہ ہوئے جہاں آخری واردات ہوئی تھی۔

چونکہ ہمارے پہاڑوں کے لوگ ہندو ہیں اور وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ آدم خور کے شکار کی صورت میں وہ کوشش کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ باقیات لازماً مل جائیں۔ چاہے وہ ہڈیوں کے محض چند ریزے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس مردہ خاتون کی رسومات ابھی ہونی باقی تھیں۔ اس کے لواحقین نے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو میں کچھ نہ کچھ باقیات لازماً اپنے ساتھ واپس لاؤں۔

لڑکپن سے ہی میں نے جنگل کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ موجودہ واردات کے بارے مجھے عینی شاہدین نے بھی معلومات دی تھیں۔ عینی شاہدین ہمیشہ درست معلومات نہیں دیتے۔ لیکن جنگل میں موجود شواہد کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ جائے حادثہ پر پہنچ کر مجھے پہلی ہی نظر میں اندازہ ہو گیا کہ شیرنی یہاں چھپ کر کھڈ کے راستے ہی پہنچ سکتی ہے۔ کھڈ میں سو گز دور جا کر اور پھر اوپر لوٹتے ہوئے ایک جگہ میں نے نرم ریت پر شیرنی کے پنجوں کے واضح نشانات دیکھے۔ یہ ایک مادہ شیرنی تھی جو اپنی جوانی گذار چکی تھی۔ مزید اوپر جا کر درخت سے دس گز پہلے شیرنی ایک پتھر کے پیچھے چھپ کر عورتوں کے نیچے اترنے کا انتظار کرنے بیٹھی تھی۔ متوفیہ درخت سے اترنے والی پہلی عورت تھی۔ ابھی وہ پوری طرح نیچے اترنے بھی نہ پائی تھی کہ شیرنی نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر اسے دبوچ لیا۔ اس بدقسمت عورت نے شاخ کو کتنی مضبوطی سے پکڑا ہوگا کہ اس پر ہتھیلی اور انگلیوں سے اتری ہوئی کھال ابھی تک موجود تھی۔ جہاں شیرنی نے عورت کو ہلاک کیا تھا، وہاں مزاحمت کے نشانات تھے اور خون کا ایک بڑا سا دھبہ بھی۔ یہاں سے خون کی خشک لکیر کھڈ ے ہوتی ہوئی دوسرے کنارے تک جا پہنچی۔ کھڈ سے نکلتے ہی وہ جھاڑیاں سامنے تھیں جہاں شیرنی نے اسے کھایا تھا۔

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدم خور شیر کھوپڑی، پنجے اور پیروں کو نہیں کھاتے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ اگر آدم خور شیر کو تنگ نہ کیا جائے تو وہ سب کچھ کھا لیتے ہیں حتٰی کہ خون آلودہ کپڑے بھی۔ ایک بار میں نے ایک آدم خور کے پیٹ سے خون سے رنگے ہوئے کپڑے خود نکالے تھے۔ تاہم یہ قصہ کسی دوسرے وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔

اس وقت ہم نے عورت نے خون آلود کپڑے اور ہڈیوں کے چند ریزے پائے۔ ہم نے انہیں اپنے ساتھ لائے گئے سفید کپڑے میں احتیاط سے باندھ لیا۔ چاہے باقیات کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہوں، یہ آخری رسومات کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ انہیں جلا کر گنگا دریا ڈال دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد میں نے دوسری مگر پرانی واردات کی جگہ کا چکر لگایا۔ گاؤں سے ہٹ کر سڑک کے پار چند ایکڑ کا ایک کھیت تھا۔ اس کے مالک نے سڑک کے کنارے اپنا گھر بھی بنایا ہوا تھا۔ اس کی بیوی دو بچوں کی ماں تھی جن میں سے ایک چھ سالہ لڑکا اور ایک چار سالہ لڑکی تھے۔ اس کی بڑی بہن بھی اس کے ہمراہ رہتی تھی۔ ایک روز یہ دونوں بہنیں مکان کے اوپر والی پہاڑی پر گھاس کاٹ رہی تھیں کہ اچانک شیرنی نمودار ہوئی اور بڑی بہن کو اٹھا کر چلتی بنی۔ چھوٹی بہن درانتی لہراتی ہوئی سو گز تک ان کے پیچھے بھاگی تاکہ شیرنی سے اپنی بہن کو چھڑا کر خود کو اس کے حوالے کر دے۔ اس جرأت کا سارے گاؤں والوں نے نظارہ دیکھا۔ سو گز کے بعد شیرنی نے متوفیہ کو زمین پر ڈالا اور دوسری بہن کی طرف پلٹی۔ غراہٹ کے ساتھ اس نے دوسری بہن پر چھلانگ لگائی جو اب گاؤں کی طرف بھاگتی ہوئی جا رہی تھی تاکہ گاؤں والوں کو اس واردات کے بارے بتا سکے۔ اسے علم نہ تھا کہ گاؤں والے یہ سب پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ اس وقت اس عورت کی بے معنی غوں غاں کو گھبراہٹ، خوف اور جوش کی وجہ سے سمجھا گیا۔ جب تمام افراد شیرنی کے پیچھے جا کر ناکام پلٹے تو انہیں علم ہوا کہ یہ عورت اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے۔ مجھے گاؤں میں یہ کہانی سنائی گئی اور جب میں سڑک عبور کر کے اس کے گھر پہنچا تو وہ بیچاری کپڑے دھو رہی تھی۔ اسے گونگی ہوئے پورا ایک سال ہو چکا تھا۔

آنکھوں سے اس کی بے چینی کے اظہار کے سوا وہ عورت بالکل تندرست لگ رہی تھی۔ جب میں اس کے پاس رک کر اسے یہ بتانے لگا کہ میں اس کی بہن کے قاتل کو ہلاک کرنے آیا ہوں تو اس نے جھک کر میرے پیروں کو چھوا۔ یقیناً میں اس علاقے میں آدم خور کو ہی ہلاک کرنے آیا تھا لیکن ایسا آدم خور جو کبھی ایک علاقے میں دوبارہ شکار نہ کرتا ہو، شکار کھانے بھی دوبارہ نہ پلٹتا ہو اور جو کئی سو مربع میل کے علاقے میں سرگرم ہو، کا شکار میرے لئے اتنا ہی دشوار ہوتا جتنا کہ بھوسے کے ایک نہیں بلکہ دو ڈھیروں سے ایک سوئی کو تلاش کرنا۔

نینی تال سے آتے ہوئے میں نے بے شمار منصوبے تیار کئے تھے۔ ایک منصوبہ تو جنگلی گھوڑوں کی وجہ سے ناقابل عمل تھا۔ موجودہ صورتحال میں دیگر تمام منصوبے بیکار لگ رہے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں کوئی ایسا آدمی نہ تھا کہ جس سے میں مدد مانگ سکتا۔ یہ اس علاقے کا پہلا آدم خور تھا۔ اگلے تین دن تک میں سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج ڈوبنے تک جنگلات میں گھومتا رہا اور بالخصوص ان جگہوں پر زیادہ توجہ دی جہاں گاؤں والوں کے اندازے کے مطابق شیرنی سے مڈبھیڑ کے زیادہ امکانات تھے۔

یہاں میں تھوڑا سا توقف کروں گا۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ غلط فہمی ان پہاڑی علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے کہ اس بار اور دیگر کوئی مواقع پر میں نے دیہاتی عورت کا سا لباس پہن کر آدم خوروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور کلہاڑی یا درانتی سے انہیں ہلاک بھی کیا ہے۔ حقیقتاً اس افواہ میں اتنی صداقت ہے کہ میں نے محض اپنے لباس پر ساڑھی مانگ کر لیپیٹ لی اور گھاس کاٹی ہے یا درخت پر چڑھ کر میں نے پتے توڑے ہیں۔ میرے علم میں صرف دو بار آدم خور میری طرف متوجہ ہوئے تھے۔ انہوں نے گھات بھی لگائی، ایک بار ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ کر اور دوسری بار گرے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے چھپ کر۔ دونوں بار مجھے گولی چلانے کا موقع نہیں مل سکا۔

اب میں اصل واقعہ جاری رکھتا ہوں۔ میرا اندازہ تھا کہ شیرنی ادھر سے چلی گئی ہے۔ لوگوں کی مایوسی کے باوجود میں نے چمپاوت منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ چمپاوت یہاں سے پندرہ میل دور تھا۔ صبح سویرے ہم روانہ ہوئے۔ دھونا گھاٹ پر ناشتہ کرنے رکے اور چمپاوت ہم سورج غروب ہوتے وقت جا پہنچے۔ اس علاقے کی سڑکیں بالکل غیر محفوظ تصور کی جاتی تھیں۔ آدمی بڑے بڑے گروہوں میں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں یا بازاروں کو آتے جاتے تھے۔ دھونا گھاٹ سے روانہ ہوتے وقت ہم آٹھ افراد تھے کہ ہمارے ساتھ بائیس مزید دیہاتی بھی آن ملے۔ہمارا کل تیس افراد کا گروہ چمپاوت پہنچا۔ ان نئے ہمراہیوں میں سے کچھ افراد دو ماہ قبل بیس آدمیوں کے ایک اور گروہ کے ساتھ شامل ہو کر چمپاوت پہنچے تھے۔ انہوں نے اس کی داستان کچھ یوں بیان کی۔

یہاں سڑک چند میل پہاڑ کے جنوب سے گذرتی ہے۔ پچاس گز دور وادی سے یہ سڑک متوازی ہے۔ دو ماہ قبل یہ بیس افراد چمپاوت کے بازار میں شرکت کے لئے آ رہے تھے۔ سڑک بالکل خالی تھی اور دن کا وقت تھا۔ اچانک انہوں نے چیخوں کی آوازیں سنیں اور دہشت زدہ ہو گئے۔ پھر انہوں نے شیرنی کو دیکھا جو ایک برہنہ عورت کو اٹھائے لا رہی تھی۔ یہ عورت اپنی چھاتی پیٹ پیٹ کر مدد کے لئے پکار رہی تھی۔ اس کے سر کے بال ایک طرف اور پاؤں دوسری طرف سڑک پر گھسٹ رہے تھے۔ شیرنی نے اسے کمر سے پکڑا ہوا تھا۔ ان سے پچاس گز دور سے شیرنی گذری اور اس کے بعد یہ لوگ اپنے راستے پر چل دیے۔

میں نے کہا کہ تم بیس آدمی ہو کر بھی کچھ نہ کر پائے؟ نہیں صاحب۔ ہم اتنے خوفزدہ تھے کہ کچھ نہ کر سکے۔ آدمی جب خوفزدہ ہو تو کیا کر سکتا ہے؟ مزید یہ کہ اگر ہم شیرنی سے اس عورت کو چھڑا بھی لیتے اور شیرنی ہم پر حملہ بھی نہ کرتی تو بھی عورت اتنی زخمی تھی کہ اس کا بچنا ناممکن ہوتا۔

مجھے بعد میں علم ہوا کہ وہ عورت چمپاوت کے نزدیک ایک گاؤں سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے شیرنی اس وقت اٹھا کر لے گئی جب وہ خشک لکڑیاں چن رہی تھی۔ اس کی ساتھیوں نے بھاگ کر گاؤں والوں کو خبردار کیا۔ ابھی امدادی جماعت تیار ہو ہی رہی تھی کہ یہ بیس افراد بھی آن پہنچے۔ اس طرح امدادی جماعت کو شیرنی کے جانے کا راستہ معلوم ہوا اور یہ سب اکٹھے ہو کر شیرنی کے پیچھے چلے۔ آگے کی کہانی کچھ یوں تھی:

ہم لوگ کوئی پچاس یا ساٹھ مضبوط و توانا مرد تھے جو اس عورت کو بچانے نکلے۔ ہمارے ساتھ کئی افراد بندقوں سے مسلح تھے۔ ایک فرلانگ دور اس عورت کی جمع شدہ لکڑیاں موجود تھیں۔ پاس ہی اس عورت کے تار تار کپڑے پڑے ہوئے تھے۔ یہاں سے ڈھول بجانے اور بندوقیں چلانے لگے۔ میل بھر دور جا کر انہوں نے ایک جگہ اس نوعمر عورت کی لاش ایک پتھر پر پڑی پائی۔ شیرنی نے اس کے جسم سے سارا خون چاٹ کر صاف کر دیا تھا لیکن ابھی اسے کھانا شروع نہیں کیا تھا۔ چونکہ یہ سارے مرد تھے انہوں نے منہ پھیر کر لاش کر کپڑے سے ڈھک دیا۔ بیچاری عورت اس طرح پڑی تھی جیسے وہ تھک کر سو گئی ہو اور ہلکی سی آہٹ ہوتے ہی جاگ جاتی۔

اس طرح کی داستانیں بند دروازوں کے پیچھے اور آتش دان میں جلتے انگاروں کی موجودگی میں سنائی جاتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آدم خور کی موجودگی سے اس علاقے کے لوگوں کا رویہ اور احساسات کیسے بدل جاتے ہیں۔ اس کا حقیقی اندازہ گھر سے باہر تاریکی میں نکل کر لگایا جا سکتا ہے جہاں ان درندوں کی حکومت ہوتی ہے۔ جہاں لوگ ان کی موجودگی اور ان کی دہشت کے سائے میں جیتے ہیں۔ ان دنوں میں بالکل ناتجربہ کار تھا پھر بھی مجھے بخوبی اندازہ ہو چلا تھا کہ آدم خور کی موجودگی کے باعث کتنی دہشت ان علاقوں پر چھا جاتی ہے۔ بعد کے میرے تئیس سال کے تجربے سے بھی یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ چمپاوت کا تحصیلدار اس رات مجھ سے ملنے آیا۔ میرے پاس اس کے لئے ایک تعارفی خط موجود تھا۔ اس نے مجھے رائے دی کہ میں چند میل دور ایک اور بنگلے میں منتقل ہو جاؤں۔ اُس جگہ کے آس پاس کئی وارداتیں ہوئی تھیں۔

اگلی صبح جلدی سے تحصیلدار کے ہمراہ میں اس بنگلے میں پہنچا۔ وہاں میں برآمدے میں بیٹھا ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ دو بندوں نے مجھے آ کر اطلاع دی کہ شیر نے گاؤں سے دس میل دور ایک گائے کو ہلاک کر دیا ہے۔ تحصیلدار نے معذرت کی کہ اسے چمپاوت میں چند اہم کام نمٹانے ہیں اور یہ کہ وہ شام کو میرے ساتھ آ کر بنگلے میں ہی رات گذارے گا۔ وہ چلا گیا۔ میرے رہنما دونوں ہی مضبوط افراد تھے۔ ہم نے دس میل کا فاصلہ رکارڈ وقت میں طے کیا۔ گاؤں آ کر ہم مویشیوں کے باڑے میں گئے۔ یہاں ایک کافی بڑا بچھڑا مرا ہوا تھا اور اسے تیندوے نے کھایا تھا۔ میرے پاس اس تیندوے سے مقابلہ کرنے کا نہ تو وقت تھا اور نہ ہی کوئی ارادہ۔ میں نے دونوں افراد کو مناسب انعام دیا اور واپس چل پڑا۔ بنگلے پہنچ کر میں نے دیکھا کہ تحصیلدار ابھی تک نہ لوٹا تھا۔ سورج ڈوبنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ میں چوکیدار کے ساتھ اس طرف چل دیا جہاں بقول چوکیدار شیرنی اکثر پانی پینے آیا کرتی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے بنگلے کے باغیچے کو پانی آتا تھا۔ یہاں نرم مٹی میں شیر کے بے شمار پگ دکھائی دیے جو کئی دن پرانے تھے۔ یہ نشانات آدم خور کے پگوں سے یکسر مختلف تھے۔

بنگلے لوٹ کر میں نے تحصیلدار کو موجود پایا۔ برآمدے میں بیٹھ کر میں نے دن بھر کی روداد سنائی۔ اس ے میری ناکامی پر ہمدردی کا اظہار کی۔ پھر اچانک ہی وہ اٹھا اور بولا کہ اس کی واپسی کا سفر کافی لمبا ہے اس لئے اسے فوراً ہی روانہ ہو جانا چاہیئے۔ مجھے انتہائی حیرت ہوئی۔ آج صبح دو بار اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ رات گذارے گا۔ مجھے اس کے رکنے یا نہ رکنے سے کوئی غرض نہ تھی۔ میں محض اس طرح اس کی واپسی کے خیال سے اور اس کی حفاظت کے لئے پریشان ہو رہا تھا۔ تاہم اس نے تمام باتیں سنی ان سنی کرتے ہوئے واپسی اختیار کی۔ اس کے پیچھے ایک مقامی بندہ لالٹین اٹھائے ہوئے تھا۔ اس مدھم روشنی میں اسے ان چار میلوں کا سفر طے کرنا تھا جو دن دیہاڑے لوگ بڑے بڑے گروہوں میں طے کرتے ہوئے کتراتے تھے۔ میں نے اس بہادر شخص کو سلام کیااور اسے نظروں سے دور ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔

اس بنگلے کے متعلق بھی مجھے ایک داستان سنانی ہے لیکن اس کتاب میں نہیں۔ یہ کتاب جنگل سے متعلق ہے۔ جنگل سے ہٹ کر مافوق الفطرت باتیں اس کتاب میں کرنا مناسب نہیں۔ اگلی صبح میں نے بنگلے کے پھلوں اور پھولوں سے بھرے باغ کا چکر لگایا اور چشمے پر نہا یا۔ دوپہر کو میں نے تحصیلدارکو واپس آتے دیکھا تو اطمینان کا سانس لیا۔ ابھی میں وہیں کھڑا اس سے باتیں کر ہی رہا تھا کہ میں نے ڈھلوان سے اوپرکی طرف آتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو کبھی چلتا اور کبھی دوڑتا ہوا آ رہا تھا۔ بظاہر وہ خاصی جلدی میں لگ رہا تھا۔ تحصیلدار سے کہہ کر کہ میں ابھی واپس آتا ہوں، نیچے اترا اور اس شخص کی طرف بھاگا۔ مجھے آتے دیکھ کر وہ شخص رک گیا اور سانس لینے بیٹھ گیا۔ جونہی میں اس کے قریب ہوا، وہ چلایا کہ "صاحب، جلدی کریں۔ شیرنی نے لڑکی کو مار ڈالا ہے۔" میں چلایا "وہیں بیٹھو" اور واپس بنگلے کی طرف بھاگا۔ تحصیلدار کو یہ بات بتائے ہوئے میں نے رائفل اٹھائی اور چند اضافی گولیاں جب میں ڈالیں اور واپس پلٹا۔ تحصیلدار کوپیچھے آنے کا کہتے ہوئے میں چل پڑا۔

جو شخص خبر لایا تھا، وہ کچھ اس طرح کا بندہ تھا کہ اس کی ٹانگیں اور زبان بیک وقت کام نہیں کر سکتی تھیں۔ منہ کھلتا تو اس کی ٹانگیں رک جاتیں اور جب چلتا تو منہ بند ہو جاتا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ خاموشی سے میرے پیچھے آئے اور ہم پہاڑی سے نیچے اترے۔

گاؤں میں مردوں، عورتوں اور بچوں کا ہجوم جمع تھا اور وہ سب نہایت پرجوش ہو رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی سب کے سب ایک ساتھ بولنا شروع ہو گئے۔ انہیں ایک شخص چپ کرا رہا تھا۔ میں اس شخص کو الگ لے گیا اور اس سے ماجرا دریافت کیا۔ گاؤں کے ایک جانب چند درختوں کے جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے بتایا جہاں ایک فرلانگ لمبی ڈھلوان تھی۔ یہاں درجن بھر افراد لکڑیاں جمع کر رہے تھے کہ اچانک آدم خور نمودار ہوئی اور ایک سولہ سالہ لڑکی کو اٹھا کر لے گئی۔ بقیہ افراد گاؤں کی طرف بھاگے اور چونکہ میری آمد کی خبر سب کو تھی، انہوں نے میری طرف فوراً ایک بندہ دوڑا دیا۔ جس بندے سے میں گفتگو کر رہا تھا، اس کی بیوی بھی ان درجن افراد میں شامل تھی۔اس نے پہاڑ کے کنارے والے درخت کی طرف اشارہ کیا کہ شیرنی نے وہاں سے لڑکی کو اٹھایا ہے۔ کسی فرد کو اتنا ہوش نہیں تھا کہ وہ مڑ کر یہ دیکھتا کہ شیرنی اس لڑکی کو لے کر کس طرف گئی ہے۔

سب کو یہ ہدایت کر کے کہ جب تک میں واپس نہ آ جاؤں، کوئی بھی گاؤں سے باہر نہ نکلے اور نہ ہی شور کرے۔ میں اب اس درخت کی طرف بڑھا۔ سارا علاقہ ہموار تھا اور کہیں بھی شیرنی کے چھپنے کی جگہ نہیں تھی۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ کس طرح شیرنی چھپ کر لڑکی تک پہنچی۔ دیگر افراد کو تب علم ہوا جب انہوں نے لڑکی کے دم گھٹنے کی آوازیں سنیں۔

اس جگہ پر جہاں شیرنی نے لڑکی کو ہلاک کیا تھا، خون کا تالاب سا بنا ہوا تھا۔ ساتھ ہی لڑکی کا گلوبند موجود تھا جو نیلے موتیوں کا تھا۔ یہاں سے نشانات پہاڑی کی طرف بڑھے۔ راستے کے ایک طرف خون کی لکیر اور دوسری طرف لڑکی کے پیروں کے گھسٹنے کے نشانات موجود تھے۔ پہاڑی پر نصف میل دور جا کر مجھے لڑکی کی ساڑھی ملی۔ ایک بار پھر شیرنی ایک برہنہ لاش اٹھائے جا رہی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس بار اس کا شکار مر چکا تھا۔

پہاڑ کی چوٹی پر نشانات ایک کانٹے دار جھاڑی سے گذرے جہاں لڑکی کے بال الجھے ہوئے تھے۔ یہاں ایک اور بہت دشوار گذار کانٹے دار جھاڑی سے شیرنی گذری تھی۔ ابھی میں اس جھاڑی سے بچ کر گذرنے کی کوشش میں تھا کہ میں نے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنی۔ مڑ کر دیکھا تو ایک شخص رائفل اٹھائے میری طرف آ رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ میری واضح ہدایات کے باوجود اس نے گاؤں سے کیسے قدم باہر نکالا؟ اس نے کہا کہ اسے تحصیلدار نے میرا ساتھ دینے کو کہا تھا۔ اسے تحصیلدار کی حکم عدولی کی جرأت نہ ہوئی۔ چونکہ وہ واپس جانے والا نہیں تھا، میں نے اس سے بحث نہ کی کہ مفت میں وقت برباد ہوتا۔ میں نے اسے بھاری بوٹ اتارنے اور جھاڑیوں میں چھپا دینے کو کہا۔ پھر اسے ہدایت کی کہ وہ میرے بالکل قریب عقب میں چلے اور پیچھے سے پوری طرح خبردار رہے۔ میں پتلی جرابیں ، نیکر اور ربر سول والے جوتے پہنے ہوئے تھا۔ اس جھاڑی سے بچنے کا راستہ نہ تھا۔ اس لئے اس میں سے ہو کر گذرا جو کافی تکلیف دہ تھا۔

جھاڑیاں عبور کرتے ہی خون کے نشانات اچانک ہی بائیں طرف مڑ گئے اور آگے چل کر نیچے ایک بہت عمودی ڈھلوان سے گذرے جہاں پہاڑی بانس کے درخت موجود تھے۔ سو گز دور خون کی یہ لکیر ایک عمودی نالے سے گذری۔ یہاں شیرنی نے کسی قدر دقت سے اسے عبور کیا۔ کنارے پر کافی پتھر وغیرہ اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے تھے۔ پانچ یا چھ سو گز تک میں اسی طرح آگے بڑھا۔ میرا ہمراہی بیچارہ ہیجان کا شکار ہو رہا تھا۔ بہت بار اس نے مجھے روک کر کہا کہ اسے نزدیک سے شیرنی کی آواز آ رہی ہے۔ نصف ڈھلوان پر ہمیں ایک اونچی چٹان ملی جو کم از کم تیس فٹ بلند تھی۔ میرا ساتھی چونکہ آدم خور کے مزید شکار کی ہمت نہ رکھتا تھا، میں نے اسے کہا کہ وہ اس چٹان پر چڑھ جائے اور میری واپسی کا انتظار کرے۔ وہ بخوشی اس چٹان پر چڑھ گیا۔ جب وہ اپنی جگہ پر چھپ کر بیٹھ گیا تو میں نے نالے میں اپنا سفر جاری رکھا۔ سو گز دور یہ ایک گہری کھائی سے ہو کر گذری۔ کھائی اور ندی کے ملاپ پر ایک تالاب سا بنا ہوا تھا۔ خون کی لکیر اس تالاب کے کنارے سے گذری۔

شیرنی لڑکی کو لے کر سیدھی ادھر آئی تھی اور میرے تعاقب نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ ہڈیوں کے چند ٹکڑے ادھر موجود تھے اور پانی شیرنی کے قدموں کے نشانات سے ابھرنا شروع ہو رہا تھا۔ تالاب کے کنارے مجھے ایک عجیب چیز نے متوجہ کیا۔ بعد ازاں یہ ایک انسانی ٹانگ نکلی۔ آج تک میں نے اس سے زیادہ قابل رحم چیز اور نہیں دیکھی۔ گھٹنے سے ذرا نیچے اس طرح کٹی ہوئی تھی جیسے کسی نے اسے کلہاڑی سے کاٹ کر الگ کیا ہو۔ گرم خون ابھی تک اس سے رس رہا تھا۔

اس ٹانگ کو دیکھتے ہوئے میں شیرنی کو بھول گیا۔ اچانک ہی خطرے کی لہر میرے اندر دوڑ گئی۔ رائفل اٹھائے ہوئے میں نے اپنی دونوں انگلیاں لبلبی پر رکھیں اور سر اٹھایا تو پندرہ فٹ دور میں نے پتھر لڑھکتے ہوئے دیکھے جو اب تالاب میں گرنا شروع ہو گئے تھے۔ مجھے آدم خور کے شکار کا ابھی تک کوئی تجربہ نہ تھا ورنہ میں خود کو اس طرح خطرے میں نہ ڈالتا۔ رائفل اٹھانے کی وجہ سے شیرنی نے چھلانگ لگانے کا ارادہ بدلا اور بھاگ گئی۔ اس کے قدموں سے پتھر لڑھکے اور تالاب میں گرنے لگے۔

کنارہ بہت عمودی تھا۔ اس پر چڑھنے کا واحد ذریعہ دوڑ کر اس پر چڑھنا ہی تھا۔ تالاب کی طرف جا کر میں بھاگا اور چھلانگ لگا کر اس پر چڑھتے ہوئے جھاڑی کا سہارا لے کر اوپر پہنچ گیا۔ یہاں جھاڑیوں کی جھکی ہوئی شاخیں اب آہستہ آہستہ اپنی جگہ لوٹ رہی تھیں کہ شیرنی ابھی ابھی ادھر سے گذری تھی۔ یہاں ایک جھکی ہوئی چٹان کے نیچے وہ لڑکی کی لاش چھوڑ کر مجھے دیکھنے آئی تھی۔

یہاں سے وہ لڑکی کی لاش کو لے کر اس حصے میں گھسی جہاں بڑے بڑے پتھر موجود تھے۔ یہ علاقہ کئی ایکڑ پر مشتمل تھا اور یہاں گھسنا خطرناک اور دشوار ہوتا۔ پتھروں کے درمیان بیلیں اور جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ ایک غلط قدم آسانی سے ہاتھ پیر تڑوا سکتا تھا یا پھر سیدھا موت کے منہ میں لے جاتا۔ اس صورتحال میں پیش قدمی بہت مشکل اور آہستہ تھی۔ شیرنی اس سے پورا فائدہ اٹھا رہی تھی۔ درجن بھر جگہوں پر میں نے اس کے رکنے کے نشانات دیکھے۔ ہر بار خون کی لکیر کم سے کم ہوتی گئی۔

یہ اس شیرنی کا 436 واں شکار تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس کا پیچھا کر کے لاش لے جانے کے لئے لوگ کیسے آتے ہیں۔ شاید یہ پہلی بار تھا کہ کوئی اس کا پیچھا اتنی مستقل مزاجی سے کر رہا تھا۔ اب اس نے غرانا شروع کر دیا تھا۔ شیرنی کی اس غراہٹ کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ جب آپ اس پتھریلے علاقے میں اور جھاڑیوں اور بیلوں سے بھری ہوئی جگہ پر ہوں، جہاں ہر قدم رکھنے سے پہلے یہ تسلی کرنا لازمی ہو کہ آپ کسی اندھے غار میں نہیں گریں گے۔

مجھے توقع تھی نہیں کہ آپ گھر میں آتش دان کے پاس بیٹھ کر میری کیفیت کا درست اندازہ لگا سکیں۔ شیرنی کی غراہٹ اس سے اس کے حملے کا امکان قوی سے قوی تر ہوتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی یہ امیدیں بھی کہ حملے کی صورت میں گولی مار سکوں گا۔ اس طرح میں اس سے بدلہ لینے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔

تاہم اس کی غراہٹ محض گیدڑ بھبھکی ہی نکلی۔ اسے جونہی اندازہ ہوا کہ اس دھمکی سے میں ڈرنے والا نہیں بلکہ اور تیزی سے اس کا پیچھا جاری رکھے ہوئے ہوں تو وہ خاموش ہو گئی۔ تعاقب کرتے ہوئے اب چار گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے۔ اگرچہ اس کی حرکت سے ہلتی ہوئی گھاس تو مجھے دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کا بال بھی مجھے دکھائی نہیں دے سکا تھا۔ پہاڑیوں پر بلند ہوتے سائے مجھے اشارہ کر رہے تھے کہ اگر میں بخیریت واپسی چاہتا ہوں تو یہیں سے واپس مڑ جاؤں۔

چونکہ شکار ہونے والی یہ عورت ہندو تھی، اس کی رسومات کے لئے کچھ نہ کچھ باقیات لازمی درکار ہوتیں۔ تالاب سے گذرتے ہوئے میں نے اس کی ٹانگ نرم زمین میں گڑھا کھود کر دفن کر دی۔ یہاں وہ شیرنی اور دیگر جانوروں سے بھی محفوظ تھی اور جب چاہتے اسے نکال سکتے تھے۔

چٹان پر موجود میرا ساتھی مجھے زندہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ میری طویل غیر حاضری اور شیرنی کی غراہٹوں سے اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ شیرنی مجھے ہلاک کر چکی ہے۔ اب اسے گاؤں واپس جانے کی فکر ہو رہی تھی۔ اس نے یہ سب مجھے خود بتایا۔

نالے سے نیچے اترتے ہوئے میں نے سوچا کہ کسی گھبرائے ہوئے بندے، جس کے ہاتھ میں بھری ہوئی رائفل بھی ہو، کے آگے چلنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے جب وہ گرا تو اس کی اعشاریہ 450 بور کی رائفل جو سیٖفٹی کیچ کے بغیر تھی، کا رخ دیکھ کر میں نے یہ طے کر لیا کہ آئیندہ ایبٹسن کے علاوہ کسی اور شخص کے ہمراہ آدم خور کے شکار میں نہیں جانا۔ اگر ہمراہی غیر مسلح ہو تو اس کی جان بچانا اور اگر وہ مسلح ہو تو اپنی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ پہاڑی پر اس جگہ پہنچ کر جہاں میرے ساتھی نے اپنے بوٹ چھپائے تھے، میں بیٹھ کر پائپ پینے اور اگلے دن کے منصوبے بنانے لگا۔ لازماً شیرنی آج رات متوفیہ کو مکمل ہڑپ کر لے گی اور کل کا دن وہ انہی پہاڑیوں میں گذارے گی۔

جس علاقے میں وہ اب تھی، وہاں اس پر گھات لگانا بہت مشکل تھا۔ اسی طرح اس کو گولی مارے بغیر چھیڑا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ وہ یہ علاقہ ہی چھوڑ جاتی۔ اس لئے ہانکا ہی وہ واحد راستہ تھا جس سے کامیابی کے امکانات زیادہ تھے۔ شرط یہ تھی کہ میں اتنے افراد اکٹھے کر لیتا۔

میں اس وقت پہاڑی کے جنوبی سرے پر ایک جگہ بیٹھا تھا۔ تاحد نگاہ کسی قسم کا سبزہ نہ تھا۔ یہاں مغرب سے آنے والی ندی گذرتی تھی۔ یہ ندی وادی کو گہرائی میں کاٹتی ہوئی گذرتی تھی۔ مشرق میں یہ ندی ایک چٹان سے ٹکرا کر اپنا رخ بدل دیتی تھی اور اس جگہ سے ذرا ہٹ کر گذرتی تھی جہاں میں اب بیٹھا ہوا تھا۔

میرے سامنے والی پہاڑی کوئی دو ہزار فٹ بلند ہوگی۔ اس پر چھدری گھاس اور اکا دکا صنوبر کے درخت تھے۔ مشرق میں یہ اتنی ڈھلوان ہو گئی تھی کہ گڑھل کے سوا کوئی ادھر نہ جا سکتا۔ اگر میں اتنے افراد اکٹھے کر لیتا جو اس ندی سے اس پہاڑی کی ڈھلوان والے سرے تک جمع ہو جاتے اور شیرنی کو بھگا پاتا تو شیرنی کے فرار کا فطری راستہ اسی جگہ سے ہو کر گذرتا جہاں میں بیٹھا ہوا تھا۔ یقیناً یہ ہانکا کافی مشکل ہوتا کیونکہ ڈھلوان والا سرا شمال کی جانب تھا جہاں میں نے شیرنی کو چھوڑا تھا۔ یہ درختوں سے بھرا ہوا تھا اور پون میل طویل اور نصف میل چوڑا تھا۔ تاہم اگر ہانکے والے میری ہدایات پر عمل کرتے تو شیرنی کو مارنے کا عمدہ موقع مل سکتا تھا۔

تحصیلدار گاؤں میں میرا منتظر تھا۔ میں نے اسے ساری صورتحال سمجھائی اور کہا کہ وہ فوراً ہانکے کے لئے بندوں کا انتظام شروع کر دے۔ میں نے اسے اگلی صبح دس بجے اس درخت کے پاس آنے کو کہا جہاں شیرنی نے لڑکی کو ہلاک کیا تھا۔ وہ اپنی پوری کوشش کرنے کا وعدہ کر کے چمپاوت لوٹ گیا اور میں پہاڑی پر چڑھ کر بنگلے میں چلا گیا۔

اگلی صبح پو پھٹتے ہی میں جاگا اور ناشتہ کر کے میں نے اپنے بندوں سے کہا کہ وہ واپسی کی تیاریاں کریں اور میری واپسی کا انتظار چمپاوت میں رک کر کریں۔ میں اب اس جگہ گیا جہاں ہانکا ہونا تھا تاکہ اپنے منصوبے پر ایک اور تنقیدی نظر ڈال سکوں۔ مجھے کوئی غلطی نہ دکھائی دی۔ نو بجے صبح میں اس جگہ پہنچا جہاں تحصیلدار سے ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ تحصیلدار نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ ہانکے کے دوران ہر جائز و نا جائز اسلحے سے چشم پوشی کرے گا اور یہ بھی کہ ہر فرد کو کارتوس اور گولیاں بھی سرکاری طور پر مہیا کی جائیں گی۔ اس روز اتنے بھانت بھانت کے ہتھیار جمع ہوئے کہ پورا عجائب خانہ بن سکتا تھا۔

مجھے یقین ہے کہ تحصیلدار نے بندوں کو کس مشکل سے اکٹھا کیا ہوگا کیونکہ آدم خور کا خوف ان لوگوں کے دلوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ تحصیلدار کے خوف سے زیادہ شیرنی کا خوف انہیں ستا رہا ہوگا۔ دس بجے تحصیلدار اور ایک اور بندہ آیا۔ پھر دو دو، پانچ پانچ اور دس دس کی ٹولیوں میں بندے آئے۔ دوپہر تک 298 افراد جمع ہو گئے۔

جب سارے آدمی جمع ہو چکے اور اسلحہ بھی تقسیم ہو چکا تو میں انہیں پہاڑی کے سرے تک لے گیا جہاں لڑکی کی قمیض پڑی تھی، میں نے سامنے والی پہاڑی پر موجود صنوبر کے درخت کی اشارہ کیا جو آسمانی بجلی گرنے سے جل گیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہ سرے پر قطار بنائیں اور جب وہ مجھے اس درخت کے نیچے رومال ہلاتا ہوا دیکھیں تو جس کے پاس اسلحہ ہو وہ اسے چلانا شروع کر دے جبکہ باقی افراد ڈھول تاشے وغیرہ بجائیں اور پتھر نیچے لڑھکائیں۔ کسی بھی صورت میں وہ نیچے قدم نہ رکھیں جب تک میں خود انہیں لینے نہ آؤں۔ جب مجھے اچھی طرح یقین ہو گیا کہ ہر کسی نے میری ہدایات کو سن اور سمجھ لیا ہے، میں تحصیلدار کے ہمراہ چل پڑا۔ تحصیلدار خود کو میرے ساتھ زیادہ محفوظ تصور کرتا تھا کیونکہ مقامی تیار کردہ اسلحہ زیادہ خطرناک ہوتا۔

وادی کا لمبا چکر کاٹ کر میں دوسری طرف کی پہاڑی پر چڑھ گیا اور درخت کی طرف گیا۔ یہاں پہاڑی انتہائی ڈھلوان ہو گئی تھی اور تحصیلدار جو پیٹنٹ لیدر کے بوٹ پہنے ہوئے تھا، بولا کہ اس کے لئے آگے جانا ممکن نہیں۔ اس نے بیٹھ کر اپنے جوتے اتارے اور اپنے چھالوں کو دیکھنے لگا۔ ہانکے والے افراد شاید طے شدہ اشارہ بھول گئے اور انہوں نے ہانکا شروع کر دیا۔ اپنی مجوزہ جگہ سے میں ابھی ڈیڑھ سو گز دور تھا۔ میں اتنی تیزی سے اس طرف بھاگا کہ مجھے اب حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کم از کم درجن بھر مرتبہ میرے گردن ٹوٹتے ٹوٹتے بچی۔

بھاگتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اس جگہ گھاس کا ایک قطعہ موجود ہے۔ چونکہ اس وقت اس سے بہتر جگہ کی تلاش ممکن نہیں تھی، میں وہیں جم گیا۔ میری پیٹھ اس طرف تھی جہاں سے میں آیا تھا۔ گھاس دو فٹ بلند تھی اور اگر میں غیر متحرک رہتا تو میرا آدھا جسم گھاس میں چھپ جاتا اور دکھائی نہ دیتا۔ میرے سامنے وہ پہاڑی تھی جہاں ہانکہ ہو رہا تھا۔ شیرنی کے گذرنے کی متوقع جگہ میرے پیچھے بائیں جانب تھی۔ پہاڑی کا سرا کٹا پھٹا تھا اور بندوقوں کے ساتھ ساتھ ڈھول تاشوں کی آوازیں قیامت برپا کر رہی تھیں۔ یہ سب اپنے عروج پر تھا کہ میں نے تیس گز دور دائیں جانب گھاس کے ایک اور قطعے سے شیرنی کو نکلتے دیکھا۔ تحصیلدار نے درخت کے نیچے سے ہی اپنی بندوق کی دونوں نالیاں چلا دیں۔ یہ آواز سنتے ہی شیرنی مڑی اور اسی طرف چل دی جہاں سے وہ آئی تھی۔ نا امیدی اور مایوسی سے میں نے بھی ایک گولی چلا دی۔

پہاڑی پر موجود ہانکے والوں نے جب تین گولیوں کی آواز سنی تو قدرتی طور پر یہ سمجھے کہ شیرنی ماری گئی ہے۔ انہوں نے آخری بار بندوقیں چلا کر اور چلا کر اجتماعی شور پیدا کیا۔ میں سانس روکے ان چیخوں کا منتظر تھا جب ان کی نظر شیرنی پر پڑتی۔ اسی وقت میری بائیں جانب شیرنی نکلی اور ایک ہی چھلانگ میں ندی عبور کر کے سیدھا میری طرف آئی جہاں میں اس کا منتظر تھا۔ میری تبدیل شدہ اعشاریہ 500 بور کی کارڈائیٹ رائفل جو کہ سطح سمندر پر نشانہ درست کئے ہوئے تھی، سے نکلنے والی گولی شیرنی کی کمر پر تھوڑا اوپر لگی۔ میں سمجھا کہ شیرنی کو گولی نہیں لگی اور اب وہ چھلانگ لگا کر غائب ہو جائے گی۔ حقیقتاً میری گولی اسے لگی تھی لیکن نشانے سے ذرا پیچھے۔ سر جھکا کر وہ میری طرف تھوڑی سی مڑی اور یہاں تیس گز سے بھی کم فاصلے پر اس نے مجھے شانے پر گولی چلانے کا سنہری موقع دیا۔ گولی لگتے ہی وہ تھوڑا سا ڈگمگائی مگر چلتے ہوئے میری طرف بڑھتی رہی۔ میں رائفل کندھے سے لگائے سوچ رہا تھا کہ حملے کی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیئے۔ میرے پاس یہی تین کارتوس ہی تھے اور اب میں خالی رائفل لئے ہوئے تھا۔ میرے پاس کل تین گولیاں تھیں۔ شیر پر دو گولیاں ہی کافی سمجھتے ہوئے میں نے تیسری گولی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے رکھی ہوئی تھی۔

خوش قسمتی سے زخمی شیرنی نے حملے کا ارادہ بدل دیا۔ بہت آہستگی سے وہ مڑی اور اپنے دائیں طرف موجود ندی کو عبور کر کے چند گری ہوئی چٹانوں پر چڑھی اور اس جگہ پہنچی جہاں ایک بہت بڑی چپٹی چٹان موجود تھی۔جہاں یہ چٹان پہاڑی سے ملی ہوئی تھی، وہاں ایک جھاڑی موجود تھی۔ شیرنی نے اس جھاڑی کو نوچنا شروع کر دیا۔ میں نے فوراً تحصیلدار سے چلا کر کہا کہ وہ اپنی بندوق لائے۔ اس نے لمبا سا جواب دیا جس میں سے مجھے صرف ایک لفظ سمجھ آیا "پاؤں"۔ اپنی رائفل زمین پر رکھ کر میں اس کی طرف بھاگا اور اس کی بندوق چھین کر واپس لوٹا۔

جب میں پہنچا تو شیرنی اب جھاڑی سے ہٹ کر چٹان کے سرے پر آ کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ بیس فٹ کے فاصلے سے میں نے بندوق اٹھائی۔ اس کی نالی اور دستے کے درمیان کوئی چوتھائی انچ گہرا شگاف تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر تحصیلدار کے فائر کرتے وقت نالی نہیں پھٹی تو اب بھی نہیں پھٹے گی۔ البتہ اندھا ہونے کے "روشن" امکانات تھے۔تاہم چونکہ اور کوئی چارہ نہیں تھا، میں نے بندوق سے شیرنی کے کھلے منہ کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ شاید میرا نشانہ غلط تھا یا پھر میرا ہاتھ بہک گیا تھا یا شاید بندوق میں گولی کو بیس فٹ دور تک پھینکنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ گولی شیرنی کے اگلے دائیں پنجے میں لگی۔ بعد ازاں یہ گولی میں نے ناخن سے کھرچ کر نکالی تھی۔ خیر خوش قسمتی سے شیرنی کا دم لبوں پر تھا اور یہ آخری دھکا اس کے لئے کافی ثابت ہوا۔ اس کا سر پنجوں پر آ کر ٹک گیا۔

جس وقت میں نے شیرنی کو دوسری بار اپنی بائیں جانب ندی عبور کرتے دیکھا، میں ہانکے والوں کی موجودگی کو یکسر بھلا چکا تھا۔اچانک مجھے اس چٹان سے آواز آئی "وہ رہی چٹان پر۔ اسے نیچے گراؤ اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔" مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ "ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو" تاہم یہ سچ تھا۔ اب دوسروں نے بھی شیرنی کو دیکھ لیا تھا اور ان کے منہ سے بھی یہی فقرہ نکلا۔ خوش قسمتی سے شیرنی جہاں تھی، وہ چٹان دوسری پہاڑی سے الگ تھی اور یہ لوگ چھلانگ لگا کر نہ آ سکتے تھے۔ لیکن دوسری طرف سے جہاں میں تھا، چڑھنا بہت آسان تھا۔ میں نے اوپر چڑھ کر شیرنی پر پاؤں رکھ دیا۔ مجھے امید تھی کہ شیرنی مردہ ہی ہوگی۔ ہانکے والے افراد جمع ہو کر اپنے اپنے ہتھیار لہرانے لگے۔

یہ چٹان بارہ سے چودہ فٹ بلند تھی۔ یہ افراد اوپر نہ چڑھ سکے کیونکہ اس کا دوسرا سرا بہت پھسلواں تھا۔ مجمع کا رویہ ظاہر ہے کہ غیر متوقع نہیں تھا۔ ان میں سے ہر شخص کا کم از کم ایک قریبی رشتہ دار اس شیرنی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ جو بندہ اب ان کا سردار لگ رہا تھا، وہ بار بار بھاگ کر کہتا کہ یہ شیطان ہے۔ اس نے میری بیوی اور دو بیٹے کھا لیئے ہیں۔ جلد ہی ان کا جوش ٹھنڈا ہونے لگا۔ جو شخص سب سے زیادہ جذباتی ہو رہا تھا، سب سے پہلے ٹھنڈا ہوا۔ وہ چٹان کے قریب آ کر بولا۔ "صاحب ہم پاگل ہو گئے تھے۔ اب ہم دوبارہ ہوش میں آ گئے ہیں۔ ہم آپ سے اور تحصیلدار صاحب سے معافی مانگتے ہیں۔" میں نے بندوق کا غیر استعمال شدہ کارتوس نکالا اور اسے نیچے لٹکایا جو انہوں نے سنبھال لی۔ میں نے اب انہیں بتایا کہ وہ اوپر آ سکتے ہیں۔ وہ اس شیرنی کو آرام سے نیچے لائے اور ہر کوئی اس کے گرد جمع ہو گیا۔

جب شیرنی چٹان پر جھکی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی تو مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا۔ جیسے اس کا منہ کچھ خراب ہو۔ اب اس کا معائینہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اوپر اور نیچے والے دائیں بڑے دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔ اوپر والا آدھا اور نیچے والا جبڑے کی ہڈی سے ٹوٹا ہوا تھا۔ اس مستقل نوعیت کی چوٹ سے جو بندوق کی گولی سے لگی تھی، نے شیرنی کو اس کے قدرتی شکار سے معذور کر دیا تھا اور وہ آدم خور بن گئی تھی۔

ان افراد نے درخواست کی کہ میں اس شیرنی کی کھال یہاں نہ اتاروں۔ وہ اسے اپنے گاؤں لے جانا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی عورتیں اور بچے شیرنی کو مردہ دیکھے بغیر یقین نہیں کریں گے۔

انہوں نے دو چھوٹے درخت کاٹ کر شیرنی کے اطراف میں رکھے اور پگڑیوں اور صافوں کی مدد سے شیرنی کو احتیاط اور مضبوطی سے باندھا۔ جب وہ تیار ہو گئے تو ہم شیرنی کو نیچے لے چلے۔ ہانکے والے شیرنی کو لے کر سیدھا پہاڑ پر چڑھے اور دوسری طرف والے گاؤں لے چلے۔ ہر آدمی اگلے آدمی کو سہارا دیے ہوئے تھا۔ اس طرح یہ قطاریں آگے بڑھیں۔ دور سے یہ چیونٹیوں کی قطاریں لگ رہی تھیں جو کسی کھٹمل کو لے کر جا رہی ہوں۔ اگر یہ انسانی زنجیر ٹوٹ جاتی تو بے شمار لوگ مر سکتے تھے۔ خوش قسمتی سے یہ زنجیر نہ ٹوٹی۔ وہ لوگ اب پہاڑ پر چڑھ چکے تھے۔ وہ ناچتے اور گاتے جا رہے تھے۔ میں اور تحصیلدار چمپاوت لوٹے۔

پہاڑی پر چڑھ کر میں نے ایک بار اس وادی پر الوداعی نظر ڈالی۔ یہاں وہ جھاڑی تھی جہاں لڑکی کے سر کے بال الجھے ہوئے دیکھے تھے اور اسی جگہ شیرنی کا اختتام ہوا۔ نیچے اترتے ہوئے ہانکے والوں کو لڑکی کا سر ملا۔ اب وادی سے دھوئیں کی لکیر بلند ہو رہی تھی کہ اس لڑکی کے رشتہ دار اس کی آخری رسومات ادا کر رہے تھے۔ یہ سب اسی جگہ ہو رہا تھا جس جگہ شیرنی نے آخری سانس لیا۔

رات کا کھانا کھا کر ہم تحصیل کے صحن میں ہی کھڑے تھے کہ ہم نے صنوبر کی مشعلیں آتے ہوئے دیکھیں جو سامنے والی پہاڑی پر تھیں۔ گھنٹہ بھر بعد وہ لوگ آن پہنچے۔

اتنے بڑے مجمع کے سامنے کھال اتارنا کافی مشکل تھا۔ میں نے کام شروع کرنے کی نیت سے اس کا سر گردن اور پنجے کاٹ کر جسم سے کھال سے ہی لگے رہنے دیے۔ بقیہ کھال اگلے دن صبح کو اتارنے کا سوچا۔ رات بھر کے لئے پولیس کا ایک سپاہی پہرے پر کھڑا کر کے ہم سو گئے۔ اگلے دن جب مجمع اکٹھا ہوا تو جسم، ٹانگیں، دم کو کاٹ کر لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے اور انہیں تقسیم کر دیا۔ دیگر فوائد کے علاوہ یہ ٹکڑے بچوں کو بطور تعویذ دیے گئے تھے کہ اس طرح وہ بہادر بنیں گے۔ بعد ازاں شیرنی کے معدے سے نکلی ہوئی لڑکی کی ثابت انگلیاں تحصیلدار نے مجھے سپرٹ میں ڈال کر نینی تال بھیجیں جو میں نے جھیل کے کنارے دفن کر دیں۔ یہ جگہ نندا دیوی کے مندر کے پاس ہے۔

کھال اتارنے کے دوران تحصیلدار، نمبردار اور مقامی تاجر وغیرہ ایک بڑی دعوت کا پروگرام بنا رہے تھے۔ مجھے انہوں نے بطور مہمان خصوصی مدعو کیا۔ رات گئے یہ سب لوگ چلے گئے۔ اب گاؤں اور پہاڑ محفوظ تھے۔ وہ دن یا رات کسی بھی وقت کہیں بھی آ جا سکتے تھے۔ میں نے تحصیلدار کے ساتھ آخری بار پائپ پیتے ہوئے اسے بتایا کہ میرا رکنا ممکن نہیں۔ وہ میری جگہ دعوت میں میری نیابت کر لے۔ ہمارے پاس اب دو دن اور پچہتر میل کا سفر تھا۔

سورج نکلتے ہی ہم لوگ روانہ ہوئے۔ شیرنی کی کھال میرے گھوڑے کی زین پر تھی۔ میں اپنے آدمیوں سے جلدی نکلا تاکہ اگلے چند گھنٹے اس کی کھال کی صفائی پر صرف کر سکوں۔ میرا ارادہ تھا کہ دیبی دھورا جا کر رات بھی گذارتا اور کھال کی صفائی بھی ہو جاتی۔ پالی سے گذرتے ہوئے میں نے سوچا کہ اس گونگی عورت کو شیرنی کی کھال دکھاتا چلوں۔ شاید اسے صبر آ جائے۔ گھوڑے کو برف پر چھوڑ کر میں پہاڑ پر چڑھا اور گھر تک پہنچ گیا۔ بچے میرے آس پاس جمع ہو کر مجھے کھال زمین پر بچھاتا ہوا دیکھنے لگے۔ بچوں کا شور سن کر کھانا بناتی ان کی ماں نے دروازے سے باہر جھانکا۔ میں صدمے اور جوابی صدمے کے بارے نہ تو کچھ جانتا ہوں اور نہ ہی کچھ کہوں گا۔ مجھے صرف اتنا علم ہے کہ وہ عورت جو بارہ ماہ سے گونگی تھی، اب اچانک گاؤں والوں کو چلا چلا کر بتانے لگی کہ آؤ دیکھو صاحب کیا لائے ہیں۔ بچے اپنی ماں کو بولتا دیکھ کر حیران ہوتے رہے۔

میں نے آرام کرتے ہوئے اور چائے پیتے ہوئے گاؤں والوں کو شیرنی کی ہلاکت کی داستان سنائی۔ وہاں سے نکل کر میں نصف میل دور سے بھی گاؤں والوں کی خوشی بھری آوازیں سنتا رہا۔

اگلی صبح میرا سامنا ایک تیندوے سے ہوا جو بہت دلچسپ رہا۔ یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ میں دیبی دھورا سے دیر سے کیوں نکلا۔ اب میرے گھوڑے کا وزن پھر بڑھ چکا تھا۔ میدان میں اس پر سوار اور اترائی چڑھائی پر اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم نے 45 میل کا سفرصبح نو بجے سے شام 6 بجے کے دوران طے کیا اور نینی تال پہنچے۔

چند ماہ بعد نینی تال میں ایک بڑا دربار لگا۔ یہاں سر جان ہیوٹ جو کہ گورنر جنرل تھے، نے تحصیلدار کو ایک بندوق اور میرے دوسرے ہمراہی کو جو میرے ساتھ لڑکی کی ہلاکت کے بعد شیرنی کے پیچھے آیا تھا، ایک خوبصورت شکاری چاقو دیا۔ یہ خوبصورت ہتھیار نسل در نسل ان کے لئے باعث فخر رہیں گے۔ یہ انعامات ان کی بہادری کو تسلیم کر کے دیے تھے۔