کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/4

ویکی کتب سے

رام نگر سے گذرتے ہوئے میں نے تحصیلدار سے کہا تھا کہ وہ میرے لئے دو بچھڑے خرید کر موہن بھجوا دے۔ وہاں سے میرے آدمی انہیں وصول کر لیں گے۔

میں نے ان لوگوں کو بتایا کہ میں ان میں سے ایک بچھڑے کو اس جگہ باندھوں گا جہاں تین روز قبل ایک عورت ہلاک ہوئی تھی اور دوسرا چکنا کل۔ انہوں نے بھی اتفاق کیا کہ ان کے خیال میں اس سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اندھیرا چھانے والا تھا اور روانگی سے قبل نمبردار نے وعدہ کیا کہ وہ اگلی صبح آس پاس کے تمام دیہاتوں میں میری آمد کی اطلاع بھجوا دے گا۔ وجہ یہ تھی کہ کسی بھی واردات کی صورت میں وقت ضائع کئے بنا وہ مجھے اس کے بارے بتا سکیں۔

کمرے میں پھپھوندی کی بو اب کافی کم ہو گئی تھی لیکن پھر بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔ تاہم میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور نہا کر کھانا کھانے کے بعد دروازے کے سامنے دو پتھر رکھ کر اسے بند کیا اور تھکن کی وجہ سے فوراً سو گیا۔ میں بہت ہلکی نیند سوتا ہوں اور دو یا تین گھنٹے بعد ہی جنگل میں سے گذرتے ہوئے کسی جانور کی آواز سے جاگ گیا۔ یہ آواز پچھلے دروازے سے آئی تھی۔ میں نے رائفل اور ٹارچ اٹھائی اور پاؤں سے پتھر ہٹا کر باہر نکلا۔ پتھر کے ہٹنے کی آواز سے وہ جانور بھاگ گیا۔ یہ آواز شیر کی بھی ہو سکتی تھی، تیندوے یا سیہی کی بھی۔ تاہم جنگل اتنا گھنا تھا کہ رات کے وقت مجھے کچھ نہ دکھائی دیتا۔ کمرے میں واپس لؤٹ کر میں نے دوبارہ پتھر دروازے کے سامنے رکھے تو مجھے اپنا گلا کچھ خراب سا محسوس ہوا۔ اگلی صبح جب میرے ملازم میرے لئے چائے لے کر آئے تو میں نے دیکھا میرا گلا واقعی خراب تھا۔ اس کی وجہ شاید اس غیر آباد جگہ رہنا تھا۔ یہاں چمگادڑیں چھت سے بکثرت لٹک رہی تھیں۔ میرے نوکر نے بتایا کہ وہ اور اس کا ساتھی تو گلے کی خرابی سے بچ گئے ہیں لیکن چھ گڑھوالی اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ میرے پاس دوائی کے نام پر دو اونس آئیوڈین اور چند کونین کی گولیاں تھیں۔ رائفل کے بکسے میں البتہ کچھ پوٹاشیم پرمیگنیٹ یعنی پنکی کا ایک چھوٹا پیکٹ موجود تھا جو میری بہن نے پچھلی مہم کے لئے دیا تھا۔ یہ پیکٹ رائفل کے تیل سے چکنا ہو رہا تھا لیکن اس میں موجود ڈلیاں قابل استعمال تھیں۔ میں نے برتن میں پانی ابالا اور اس میں کافی ساری ڈلیاں ڈال دیں اور کچھ آئیوڈین بھی ملا دی۔ نتیجتاً جو ملغوبہ بنا، اس سے غرارے کرنے سے ہمارے دانت تو سیاہ ہوئے لیکن گلے کافی بہتر ہو گئے۔

ناشتہ کر کے میں نے موہن کی طرف چار بندے بھیجے تاکہ بچھڑوں کو لے آئیں اور میں خود آخری واردات کی جگہ کی طرف چل دیا۔ کل رات مجھے جو معلومات ملی تھیں ان کی روشنی مٰں شیر کے حملے کی جگہ تلاش کرنا مشکل نہ تھا۔ عورت پر حملہ اس وقت ہوا تھا جب وہ کٹی ہوئی گھاس کا گھٹڑ بنا رہی تھی۔ گھاس اور اسے باندھنے والی رسی وہیں پڑی تھیں۔ اس کے علاوہ اس کی دیگر ہمراہیوں کی گھاس بھی ادھر ہی موجود تھی جو شیر کے حملے سے گھبرا کر گاؤں کی طرف بھاگی تھیں۔ مجھے لوگوں نے بتایا تھا کہ عورت کی لاش نہیں مل سکی۔ میرا خیال تھا کہ انہوں نے تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ گھاس کے گٹھڑ اور درانتیاں ابھی تک جائے واردات پر موجود تھے۔

یہ عورت ایک لینڈ سلائیڈ کے اوپری حصے پر ماری گئی تھی۔ شیر اسے مارنے کے بعد نیچے اتر کر گھنی گھاس کے قطعے میں گھسا۔ یہاں شیر کچھ دیر رکا۔ شاید وہ دیگر عورتوں کے دور چلے جانے کا منتظر ہو۔ یہاں سے شیر اس چھجے سے گذرا جو ہٹ سے دکھائی دیتا تھا۔ پھر ایک میل دور جا کر وہ گھنے جنگل میں گھس گیا۔ یہ نشانات اب چار دن پرانے تھے اور ان کا پیچھا کرنے سے کچھ نہ ملتا۔ اس لئے میں ہٹ کی طرف واپس چلا آیا۔ واپسی کی چڑھائی کافی دشوار تھی۔ دوپہر کو جب میں ہٹ میں واپس پہنچا تو میں نے برآمدے میں مختلف حجم کے بے شمار برتن دیکھے۔ یہ سب برتن دودھ سے لبا لب بھرے ہوئے تھے۔ عجیب اتفاق تھا کہ پہلے دودھ کی اتنی شدید قلت تھی اور اب اتنی کثرت۔ دودھ اتنی مقدار میں تھا کہ میں اس سے با آسانی نہا سکتا تھا۔ میرے ملازمین نے بتایا کہ ان کے احتجاج کے باوجود ہر شخص دودھ کا برتن رکھتا ہی چلا گیا اور سب نے یہی کہا کہ وہ ہمیں ڈبے کے دودھ سے بچانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ جب تک ہم ادھر ہیں، وہ ہمیں ڈبے کا دودھ استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ مجھے علم تھا کہ میرے آدمی بچھڑوں کو لے کر موہن سے مغرب کے بعد ہی واپس آئیں گے۔ دوپہر کا کھانا کھا کر میں چکنا کل کی سڑک کو دیکھنے چل دیا۔

ہٹ سے پہاڑی بتدریج بلند ہوتی ہوئی پانچ سو فٹ کے قریب اونچی ہو گئی تھی۔ اس کی شکل مثلث نما تھی۔ مزروعہ زمین سے نکل کر یہ سڑک بائیں مڑتی ہے اور ایک بہت عمودی ڈھلوان پہاڑی سے ہوتی ہوئی دوبارہ چھجے نما جگہ پر آ کر دائیں مڑتی ہے اور پھر سیدھی چکنا کل تک اترائی ہے۔ چھجے سے باہر نکل کر سڑک کچھ فاصلے تک ہموار تھی۔ پھر اچانک ڈھلوان سے گذرتی ہوئی نیچے اترتی ہے۔ موڑوں پر یہ البتہ کشادہ ہو جاتی ہے۔

چونکہ میرے پاس پوری سہ پہر باقی تھی تو میں نے اس سڑک کا تین میل تک بغور جائزہ لیا۔ جب شیر کسی سڑک یا گذرگاہ کو بکثرت استعمال کرتا ہے تو وہ اس کے کنارے اپنے ناخنوں سے گہری خراشیں ڈالتا رہتا ہے۔ یہ نشان ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے گھریلو بلیاں ڈالتی ہیں۔ یہ نشانات ایک شکاری کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان سے درج ذیل معلومات مل سکتی ہیں:

1۔ یہ جانور نر ہے یا مادہ؟

2۔ اس کا رخ کس طرف تھا؟

3۔ اسے یہاں سے گذرے کتنا وقت ہو چکا ہے؟

4۔ اس کی جائے رہائش کا اندازاً فاصلہ اور سمت؟

5۔اس کے شکار کی نوعیت

6۔کیا اس جانور نے حال ہی میں انسانی گوشت کھایا ہے؟

آسانی سے ملنے والی ان معلومات سے اجنبی علاقے میں آدم خور کے بارے جاننے کے لئے بہت مدد ملتی ہے۔ شیر کے سڑک سے گذرتے وقت کے پگ بھی اہم ہوتے ہیں۔ ان سے کئی طرح کی معلومات مثلاً جانور کی سمت، رفتار، جنس، عمر اور یہ بھی کہ آیا جانور کے تمام پیر سلامت ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو کس پیر میں نقص ہے۔

یہ سڑک لمبے عرصے سے استعمال نہیں ہوئی تھی اور اس پر چھؤٹی اور سخت گھاس اگ آئی تھی۔ ایک دو نم جگہیں چھوڑ کر کہیں بھی پگ نہ دکھائی دیے۔ ان میں سے ایک نم جگہ چھجے کے نیچے سے گذرتی ہوئی سڑک سے دو یا تین گز دور تھی۔ اس کے پاس ٹھہرے ہوئے سبز رنگ کے پانی کا تالاب تھا۔ ایسے تالاب سانبھر کے پانی پینے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔

موڑ کے فوراً بعد ہی میں نے بہت ساری کھرچنے کے نشانات دیکھے۔ یہاں سڑک مڑ کر مزروعہ زمین سے باہر چلی جاتی ہے۔ یہاں سے دو سو گز دور سڑک کافی تنگ ہو کر اس لٹکی ہوئی چٹان کے نیچے سے گذرتی ہے۔ یہ چٹان دس فٹ بلند تھی اور اس کے اوپر دو یا تین گز کا ہموار قطعہ سا تھا۔ اگر گاؤں کی طرف سے آئیں تو یہ جگہ صاف دکھائی دیتی ہے لیکن دوسری طرف سے یہ نظروں سے اوجھل ہی رہتی ہے۔ یہاں بھی کئی جگہوں پر کھرچنے کے نشان تھے۔ ابھی تک مجھے پنجوں کے نشانات نہیں مل سکے تھے۔ پہلے موڑ پر آ کر میں نے شیر کے پگ دیکھے۔ یہاں سے شیر چھلانگ لگا کر گذرا تھا اور نرم مٹی پر اس کے پگ موجود تھے۔ یہ نشانات کل کے تھے اور کچھ مٹ سے گئے تھے۔ تاہم یہ واضح تھا کہ یہ نشانات ایک بڑے اور پرانے نر شیر کے ہیں۔

جب آپ ایسے علاقے میں ہوں جہاں آدم خور مصروف عمل ہو تو پیش قدمی بہت سست ہو جاتی ہے۔ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ چاہے وہ جھاڑی ہو، پتھر یا زمین میں موجود کوئی چھوٹا سا گڑھا جس میں آدم خور کی شکل میں موت چھپی ہونے کا امکان ہو، بغور دیکھ بھال کر عبور کئے جاتے ہیں۔ اگر ہوا نہ چل رہی ہو، جیسا کہ اب تھا، تو سامنے کے علاوہ پیچھے اور دائیں بائیں بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ مزید برآں مجھے یہاں مئی کے وسط میں چار سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر پھولوں کے بے شمار غنچے دکھائی دیے جو میرے لئے دل چسپی کا خاص مرکز تھے۔ ہر دوسرا درخت ایسے لگتا تھا جیسے وہ ان پھولوں کو چیر کر باہر نکلا ہوا ہو۔

یہاں میں نے پہلی بار ایک ایسا پرندہ دیکھا جو بعد ازاں بمبئی نیچر ہسٹری میوزیم کے عملے نے پہاڑی گریگ ماؤنٹین کے نام سے شناخت کیا۔ یہ پرندہ خاکستری رنگ کا ہے۔ سینے پر گلابی رنگ کا ہلکا سا نشان ہے۔ اس کی جسامت روزی پیسٹر سے ذرا سی چھوٹی ہے۔ اس کے بچے بھی اس کے ساتھ تھے۔ ہر بالغ کے ساتھ چار بچے اونچے درخت کی خشک ٹہنیوں پر قطار بنائے بیٹھے تھے۔ والدین بار بار دو دو تین تین سو گز کی لمبی اڑان بھر کر کیڑے پکڑ لاتے۔ ان کی اڑان کی رفتار حیرت انگیز تھی۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان میں کوئی اور پرندہ بشمول مہاجر پرندے جو سردیوں میں ادھر آٹے ہیں، اس سے زیادہ تیز نہیں اڑ سکتے۔ ان کی ایک اور دل چسپ خوبی ان کی قوت بصارت تھی۔ کئی بار یہ کئی سو گز تک سیدھی لائن میں اڑتے اور پھر کیڑے پکڑ کر لوٹتے تھے۔ ان کی تیز رفتار کے باعث یہ بھی کہنا ممکن نہیں کہ یہ پرندے کسی کیڑے کا پتنگے کے پیچھے اتنی دور تک گئے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پرندے جتنے فاصلے سے کیڑے دیکھ پاتے ہیں، کوئی انسان طاقتور ترین دور بین سے بھی نہیں دیکھ پاتا۔

اپنے عقب کا خیال رکھتے، نشانات دیکھتے، فطرت سے لطف اندوز ہوتے اور جنگل کی آوازیں سنتے، جن میں سانبھر کی میل بھر دور موہن کی طرف سے آواز بھی تھی، جو دوسروں کو شیر کی موجودگی سے آگاہ کر رہا تھا، کاکڑ اور لنگور چکناکل سڑک سے جو دوسروں کو کسی تیندوے کی موجودگی سے آگاہ کر رہے تھے، وقت تیزی سے گذرتا رہا۔ سورج غروب ہوتے وقت میں اس چٹانی چھجے کے پاس پہنچا جو راستے کے اوپر جھکا ہوا تھا۔ اس بار اس تک پہنچتے ہی میں نے محسوس کیا کہ اس پورے علاقے میں، جہاں میں اب تک گھومتا رہا ہوں، اس سے زیادہ خطرناک کوئی اور جگہ نہیں۔ اگر آدم خور اس پر لیٹا ہوا ہو تو گھاس میں پوری طرح چھپا ہوا ہوگا۔ اس کو صرف اتنا انتظار کرنا ہوتا کہ آنے یا جانے والا بندہ جونہی یہاں سے ایک بار گذرے۔ پھر وہ پوری طرح آدم خور کے رحم و کرم پر ہوتا۔ واقعی یہ انتہائی خطرناک جگہ تھی اور ہمیشہ اس سے محتاط رہنا بہتر تھا۔

ہٹ میں پہنچا تو دونوں بچھڑے پہنچ چکے تھے۔ لیکن اندھیرا ہونے کے سبب میں نے انہیں بندھوانا اگلے دن تک کے لئے ملتوی کر دیا۔ میرے ملازمین نے کمرے میں سارا دن آگ جلائے رکھی تھی جس سے کمرے کی ہوا میٹھی اور صاف ہو گئی تھی۔ پھر بھی میں نے دوبارہ اسی بند کمرے میں رات گذارنے کا خطرہ مول لینا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ سونے سے قبل دو بڑی جھاڑیاں کاٹ کر دروازے میں لگا دیں۔ اس رات جنگل بالکل خاموش رہا۔ اگلی صبح پرسکون نیند سے بیدار ہوا تو میرا گلا کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔

صبح کا وقت میں نے مقامی لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے گذارا۔ وہ مجھے آدم خور کی کہانیاں سناتے رہے اور یہ بھی کہ کس کس طرح مختلف شکاریوں نے اسے مارنے کی کوششیں کی تھیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد میں اٹھا اور پہلا بچھڑا لا کر اس جگہ باندھا جہاں سے شیر عورت کو اٹھائے ہوئے گذرا تھا۔ دوسرے بچھڑے کو اس موڑ پر جہاں شیر گذرا تھا۔

اگلی صبح دونوں بچھڑے آرام سے سو رہے تھے اور میری ڈالی ہوئی گھاس کا بڑا حصہ صاف ہو چکا تھا۔ میں نے ان کے گلے میں گھنٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔ ان تک پہنچتے ہوئے جب میں نے کوئی آواز نہ سنی تو سمجھا کہ وہ مارے گئے ہیں۔ لیکن وہ سو رہے تھے۔ اس شام میں نے موڑ پر بندھے ہوئے دوسرے بچھڑے کو اس جگہ باندھا جہاں سڑک چٹانی چھجے سے باہر آتی تھی۔ کھڑے پانی کا چھوٹا سا تالاب بھی یہاں سے نزدیک تھا۔

شیر کو مارنے کے عمومی طریقے یہ ہیں:

1۔ مچان باندھ کر

2۔ ہانکا کرا کے

دونوں صورتوں میں نو عمر بچھڑے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس علاقے کا تعین کیا جاتا ہے جو مچان یا ہانکے کے لئے موزوں ہو۔ شام ڈھلے اس جگہ بچھڑا باندھ دیا جاتا ہے۔ یہ رسی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ بچھڑا نہیں توڑ پاتا لیکن شیر اسے با آسانی توڑ لیتا ہے۔ اس کے بعد جب شیر شکار کو لے جاتا ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ آیا مچان بہتر رہے گی یا پھر ہانکا۔ موجودہ صورت میں یہ دونوں ہی طریقے ناقابل عمل تھے۔ میرا گلا کافی بہتر ہو چکا تھا لیکن اب بھی زیادہ دیر کھانسے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس گھنے جنگل میں ہانکے کے لئے ہزار آدمی بھی ناکافی رہتے۔ میں نے سوچا کہ براہ راست ہی گھات لگائی جائے۔ اس لئے میں نے دونوں بچھڑوں کو ایک ایک انچ موٹی رسی سے باندھا اور اگلے چوبیس گھنٹے کے لئے انہیں اکیلا چھوڑ دیا۔ صبح کے وقت جب اتنی روشنی ہو جاتی کہ میں گولی چلا سکتا، باری باری دونوں بچھڑوں کی طرف چھپ کر جاتا۔ ان علاقوں میں شیر چاہے وہ آدم خور یا عام، دن اور رات، یکساں شکار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آس پاس کے گاؤں سے بھی کسی خبر کا انتظار رہتا، گلے کی دیکھ بھال کرتا اور آرام بھی جاری رہتا۔ میرے چھ گڑھوالی ساتھی بچھڑوں کی دیکھ بھال اور ان کے چارے پانی کا خیال رکھتے۔ چوتھی شام سورج غروب ہوتے وقت میں واپس آ رہا تھا تو جب میں اس چٹانی چھجے سے تیس گز دور پہنچا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں خطرے میں ہوں۔ یہاں آمد کے بعد پہلی بار مجھے خطرہ محسوس ہوا تھا۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ یہ خطرہ اسی چٹانی چھجے پر موجود ہے۔ پانچ منٹ تک میں رکا رہا۔ میری آنکھیں چھجے پر کسی بھی حرکت کو دیکھنے کے لئے تیار تھیں۔ اس فاصلے سے پلک بھی جھپکنے کا عمل میری نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکتا تھا لیکن وہاں اتنی سی بھی حرکت نہ دکھائی دی۔ میں دس قدم مزید بڑھا اور پھر کئی منٹ کے لئے رک گیا۔ کسی بھی حرکت کا دکھائی نہ دینا اس بات کی ضمانت نہ تھا کہ شیر وہاں موجود نہیں۔ اصل سوال یہ تھا کہ اب کیا کرنا ہوگا؟ جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو بتایا، یہ کافی ڈھلوان پہاڑی تھی۔ اس میں جگہ جگہ بڑی چٹانیں جھکی ہوئی تھیں۔ ہر طرف گھنی اور لمبی گھاس اور درختوں کے گھنے جھنڈ موجود تھے۔ اگر ابھی کچھ دن باقی ہوتا تو میں قدرے پیچھے جا کر شیر کے اوپر سے اس پر گولی چلانے کی کوشش کرتا۔ ابھی اس وقت میرے پاس صرف نصف گھنٹے جتنی روشنی باقی تھی اور میل بھر کا سفر بھی۔ اس وقت سڑک کو چھوڑنا سخت نادانی ہوتی۔ سیفٹی کیچ ہٹا کر اور رائفل کو کندھے سے لگا کر میں آگے بڑھا۔

یہاں سڑک تقریباً آٹھ فٹ چوڑی تھی۔ میں نے اس کے بیرونی سرے پر کیکڑے کی طرح چلنا شروع کر دیا۔ مجھے قوی امید تھی کہ اگر شیر اسی جگہ لیٹا رہا جہاں وہ تھا تو چھجے سے آگے جا کر میں اسے دیکھ بھی لیتا اور ممکن تھا کہ گولی بھی چلا سکتا۔ تاہم جب شیر میری محتاط پیش قدمی کی وجہ سے حملہ نہ کر سکا تو میرے چھجے سے نکلتے ہی اوپر سے غراہٹ کی آواز آئی اور پھر نزدیکی موڑ سے دو سانبھر بولے۔

شیر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ تاہم میں بھی اپنی جان بچا چکا تھا۔ پچھتانے کا کیا سوال۔ جہاں سانبھر بولا تھا، مجھے یقین تھا کہ اس جگہ سے شیر نے بچھڑے کی گھنٹی ضرور سنی ہوگی۔ یہ بچھڑا کھڑے پانی کے تالاب کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔

جب میں مزروعہ زمین تک پہنچا تو دیکھا کہ کافی لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کاکڑ اور سانبھر کی آوازیں سنی تھیں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں شیر کو نہیں دیکھ سکا تو وہ کافی مایوس ہوئے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ کل صبح کافی بہتر امکانات موجود ہیں۔