کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/3
فارسٹرز ہٹ سڑک سے بیس گز دور بائیں جانب ایک چھجے نما چٹان پر تھا۔ اس کا دروازہ زنجیر لگا کر بند کیا گیا تھا۔ میں اسے کھول کر اندر داخل ہوا۔ کمرہ دس مربع فٹ ہوگا اور بالکل صاف ستھرا تھا۔ البتہ اس سے پھپھوندی کی بو آ رہی تھی۔ مجھے بعد ازاں علم ہوا کہ ڈیڑھ سال قبل آدم خور کے اس طرف آنے کے وقت سے اب تک اسے استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کمرے کے دونوں اطراف میں دو راہداری نما کمرے تھے۔ ایک بطور باورچی خانہ استعمال ہوتا تھا اور دوسرا بطور ایندھن کا گودام۔ یہ جھونپڑا میرے آدمیوں کے لئے قطعی محفوظ ثابت ہوتا۔ پچھلا دروازہ کھول کر میں نے ہوا کی گردش بحال کی۔ پھر باہر نکل کر میں نے سڑک اور اس ہٹ کے درمیان ایک جگہ اپنے چالیس پاؤنڈ وزنی خیمے کے لئے منتخب کی۔ چونکہ یہاں فرنیچر نہ تھا، میں ایک پتھر پر بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
یہاں چٹانی چھجا پچاس گز چوڑا تھا اور ہٹ اس کے بالکل جنوبی سرے پر تھا۔ گاؤں پہاڑی کی شمالی سرے پر تھا۔ اس لئے گاؤں سے ہٹ کو دیکھا جانا ممکن نہ تھا۔ ابھی پتھر پر بیٹھے ہوئے مجھے دس منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ گاؤں کی جانب والی ڈھلوان سے ایک سر نمودار ہوا، پھر دوسرا پھر تیسرا۔ اس خاتون نے فوراً ہی میری آمد کے بارے پورے گاؤں کو بتا دیا تھا۔ ہندوستان میں جب اجنبی ملتے ہیں تو رسم یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے اصل موضوع سے ہٹ کر دنیا بھر کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کریں گے۔ اس میں گھریلو، ذاتی معاملات بھی شامل ہوتے ہیں۔ آخر جب کوئی موضوع نہ باقی بچے تو پھر وہ اصل بات شروع کرتے ہیں۔ وہ سوالات جو دنیا بھر میں معیوب سمجھے جاتے ہوں، جیسے کہ شادی شدہ ہیں؟ اگر ہاں تو کتنے بچے ہیں اور لڑکے کتنے اور لڑکیاں کتنی، اگر شادی نہیں کی تو کیوں؟ پیشہ اور تنخواہ۔ صرف اس رسم سے واقف افراد ہی اسے برداشت کر سکتے ہیں۔
اکثر سوالات کے جوابات میں نے اس عورت کوپہلے ہی دے چکا تھا اور بقیہ سوالات جو کسی عورت کو مرد سے پوچھنے میں جھجھک ہو سکتی ہے، وہ انہوں نے اب پوچھ لئے۔ اب میرے ساتھی بھی پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے چشمے سے پانی بھرا اور خشک لکڑیاں جمع کر کے آگ جلائی اور چائے بنانے لگے۔ اب میں نے ڈبے بند دودھ کھولا۔ میں نے سنا کہ دیہاتی میرے آدمیوں سے پوچھ رہے تھے کہ ہم خشک دودھ کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ تازہ دودھ میں کیا برائی ہے؟ میرے آدمیوں نے انہیں بتایا کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے تازہ دودھ کا ملنا ممکن نہیں۔ اس لئے ہم لوگ ڈبہ بند دودھ ساتھ لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ لوگ ناراضگی کا اظہار کرنے لگے۔ نمبردار نے مجھ سے کہا کہ ڈبہ بند دودھ لانا ان کی ہتک کے مترادف ہے کیونکہ گاؤں بھر کے دودھ میری ملکیت ہیں۔ میں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں چونکہ اس علاقے میں اجنبی ہوں اور پہلی بار آیا ہوں تو مجھے علم نہ تھا۔ اگر وہ لوگ ہماری ضروریات کے لئے تھوڑا سا دودھ الگ کر سکیں تو میں اسے خریدوں گا۔ دودھ کے علاوہ اور کچھ بھی درکار نہیں۔
میرا سامان اب کھل چکا تھا اور اس دوران گاؤں سے مزید افراد بھی آ گئے۔ میں نے اپنے آدمیوں کو بتایا کہ وہ کس جگہ میرا خیمہ نصب کریں۔ سارے دیہاتی دہشت اور خوف سے ایک ساتھ چلائے "خیمے میں رہیں گے؟"
میں نے کہا "ہاں"۔
"کیا میں آدم خور کی موجودگی کو بھلا چکا ہوں جو ہر رات اس سڑک سے باقاعدگی سے گذرتا ہے؟ اگر مجھے ان کے الفاظ پر یقین نہیں تو میں خود چل کر گاؤں کے گھروں کی دیواریں دیکھ لوں جو سڑک کے کنارے بنے ہوئے ہیں۔ شیر اکثر انہیں کھرچتا رہتا ہے۔ اگر شیر نے خیمے کے اندر مجھ پر حملہ نہ بھی کیا تو وہ میرے آدمیوں کو لازمی کھا جائے گا کیونکہ وہ اکیلے ہوں گے۔" اس بات سے میرے ساتھیوں کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی گاؤں والوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ آخر کار میں کمرے میں سونے پر تیار ہو گیا۔ میرے دونوں ملازمین باورچی خانے اور چھ گڑھوالی ایندھن والے سٹور روم میں سونے تھے۔
چونکہ آدم خور کی بات شروع ہو چکی تھی اس لئے اب میں اس پر مزید بات کر سکتا تھا۔ انہوں نے مجھے وہ درخت دکھایا جس کے نیچے شیر نے اپنا آخری شکار مارا تھا۔ ساتھ ہی وقت اور وہ حالات بتائے جن کے تحت اس عورت کی ہلاکت ہوئی تھی۔ وہ سڑک بھی دکھائی جہاں سے شیر ہر روز رات کو گذرتا تھا۔ یہ سڑک مشرق کی طرف بیتل گھاٹ کی طرف جاتی تھی۔ اس کی ایک شاخ موہن کی طرف جاتی تھی۔ مغرب کی طرف یہ سڑک چکنا کل کی طرف جو دریائے رام گنگا پر واقع تھا۔ سڑک کے مغرب والے حصے کا کچھ ٹکڑا گاؤں سے گذرتا تھا اور پھر نصف میل مزروعہ زمین سے ہوتا ہوا جنوب کی طرف مڑتا تھا اور پہاڑ کے پاس سے ہو کر اس ہٹ کے ساتھ سے گذرتا تھا جہاں ہم اب بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سڑک سیدھی چکنا کل جاتی تھی۔ کرتکانولہ اور چکنا کل کے درمیان چھ میل کا یہ حصہ خصوصاً انتہائی خطرناک شمار ہوتا تھا اور آدم خور کی آمد کے بعد سے اسے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ بعد میں میں نے دیکھا کہ مزروعہ زمین سے نکل کر یہ سڑک گھنے جنگل سے ہو کر گذرتی ہے۔ یہ جنگل دریا تک پھیلا ہوا تھا۔
کرتکانولہ کی مزروعہ زمین پہاڑی کے شمالی طرف تھی۔ اس کے بعد کئی جگہوں پر چھجے سے بنے ہوئے تھے لیکن درمیان میں گہری کھائیاں بھی تھیں۔ ان میں سب سے نزدیکی چھجا ہٹ سے ہزار گز دور تھا اور وہاں صنوبر کا ایک درخت موجود تھا۔ دس دن قبل اس درخت کے پاس سے آدم خور نے ایک عورت کو ہلاک کر کے جزوی طور پر کھایا تھا۔ یہاں سے چار میل دور فارسٹ بنگلے میں تین شکاری موجود تھے۔ جب وہ صنوبر کے درخت پر نہ چڑھ سکے تو مقامی لوگوں نے تین الگ الگ درختوں پر ان کی مچانیں باندھ دیں۔ ہر ایک درخت دوسرے سے سو گز اور لاش سے پچاس گز دور تھا۔ رات ہونے سے قبل یہ شکاری اپنی ملازمین کے ہمراہ مچانوں پر جا بیٹھے۔ چاند کی شروع کی تاریخیں تھیں۔ چاند کے غروب ہو جانے کے بعد دیہاتیوں نے گولیوں کی کئی آوازیں سنیں۔ اگلی صبح جب انہوں نے نوکروں سے پوچھا تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کی کہ انہوں نے خود بھی کسی چیز کو نہیں دیکھا تھا کہ جس پر گولیاں چلائی گئی ہوں۔ دو دن بعد ایک گائے ماری گئی۔ یہ شکاری اس پر بھی مچان بنا کر بیٹھے۔ اس بار بھی انہوں نے چاند غروب ہو جانے کے بعد گولیوں کی آوازیں سنیں۔ اس طرح کی ناکام کوششیں شیروں کو مزید محتاط بنا دیتی ہیں اور وہ جب تک زندہ رہتے ہیں، ان کا مارا جانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ ان دیہاتیوں نے شیر کے بارے ایک عجیب بات بھی بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ شیر کی آمد سے پہلے جان لیتے ہیں کہ شیر آ رہا ہے۔ اس کی آمد سے قبل ہلکی سی غراہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ مزید سوالات سے علم ہوا کہ شیر یہ آواز تب نکالتا ہے جب وہ گھروں کے درمیان سے گذرتا ہے۔ بعض اوقات یہ آواز کچھ دیر کے لئے رک بھی جاتی ہے۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ:
1 شیر زخمی ہے
2 زخم اس نوعیت کا ہے کہ صرف چلتے وقت تکلیف دیتا ہے۔ اس لئے کہ
3 یہ زخم اس کے کسی پاؤں یا ٹانگ میں ہے
مجھے بتایا گیا کہ شیر کو کسی مقامی شکاری نے زخمی نہیں کیا اور نہ ہی رانی کھیت کے کسی شکاری نے۔ چونکہ آدم خور کئی سال سے سرگرم تھا اس لئے یہ اندازہ تھا کہ یہ زخم ہی اس کے آدم خور بننے کا سبب ہوگا۔ یہ ایک ایسا نکتہ تھا جس کی تصدیق تب ہی ہو پاتی جب شیر مارا جاتا۔
ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں اس آواز کے بارے اتنا متجسس کیوں ہوں؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ شیر کا ایک پاؤں زخمی ہے جو کسی گولی یا سیہی کے کانٹے کے سبب ہوا ہے تو انہوں نے سختی سے تردید کی اور کہ انہوں نے شیر کو کئی بار دیکھا ہے اور ہر بار شیر بالکل تندرست اور صحت مند دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جتنی آسانی سے شکار کو ہلاک کر کے لے جاتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ شیر ہرگز معذور نہیں۔ تاہم میری بات انہوں نے یاد رکھی اور جب شیر مارا گیا تو انہوں نے مجھے غیب کے حال جاننے والا گردانا۔