کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/1

ویکی کتب سے

ہمالیہ میں ہمارے گرمائی گھر سے اٹھارہ میل دور پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے جو شرقاً غرباً نو ہزار فٹ کی بلندی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے مشرقی سرے پر ڈھلوانیں گھاس سے بھری ہوئی ہیں۔ اس گھاس کے بعد یہ پہاڑی سلسلہ تیزی سے نیچے گرتا ہوا دریائے کوسی تک جا پہنچتا ہے۔

ایک دن اس جگہ کے شمالی طرف واقع گاؤں سے عورتیں اور لڑکیاں گھاس کاٹ رہی تھیں کہ اچانک ایک شیر نمودار ہوا۔ بھگدڑ کے دوران ایک عورت کا پیر پھسلا اور وہ ڈھلوان سے لڑھکتی ہوئی چٹان سے نیچے جا گری۔ ان عورتوں کی بھاگ دوڑ اور چیخوں سے پریشان ہو کر شیر جتنی خاموشی سے آیا تھا، اتنی ہی خاموشی سے غائب ہو گیا۔ جب یہ سب کچھ پرسکون ہوئیں تو انہوں نے اکٹھے ہو کر چٹان سے نیچے جھانکا۔ ان کی ساتھی ذرا نیچے ایک اور چٹان پر پڑی تھی۔

اس عورت نے بتایا کہ وہ سخت زخمی ہے اور حرکت نہیں کر سکتی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کی ایک ٹانگ اور کئی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ کافی غور و خوض کے بعد انہوں نے طے کیا کہ یہ مردوں کا کام ہے۔ انہوں نے زخمی عورت سے کہا کہ وہ گاؤں جا کر مدد لاتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان میں سے کوئی بھی زخمی عورت کے پاس رکنے کو تیار نہیں۔ زخمی عورت نے منتیں کیں کہ کوئی تو رک جائے۔ اس کی بے بسی پر ترس کھاتے ہوئے ایک سولہ سالہ لڑکی رک گئی۔ باقی تمام عورتیں گاؤں روانہ ہو گئیں جبکہ یہ لڑکی راستہ تلاش کر کے نیچے اتری۔

یہ چٹان پہاڑی سے ذرا سا باہر نکلی ہوئی تھی۔ جس جگہ عورت لیٹی تھی، اس کے پاس ہی ایک گڑھا سا تھا۔ زخمی عورت کو یہ خوف تھا کہ کہیں وہ نیچے نہ گر جائے۔ اس نے لڑکی سے کہا کہ وہ اسے کنارے سے ہٹا کر اس گڑھے میں لے جائے۔ اس لڑکی نے بمشکل تمام زخمی عورت کو گڑھے تک پہنچایا۔ گڑھا اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں لڑکی کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ مشکل سے سکڑ کر بیٹھ گئی۔

گاؤں چار میل دور تھا۔ دونوں بار بار اندازہ لگاتیں کہ کتنی دیر بعد مدد پہنچ سکے گی۔ عورتوں کو کتنا وقت لگے گا کہ وہ گاؤں پہنچیں اور کتنی دیر میں مرد وغیرہ اکٹھے ہو کر آئیں گے۔

یہ ساری گفتگو سرگوشیوں میں ہو رہی تھی کہ کہیں شیر آس پاس ہو اور ان کی آواز سن کر آ جائے۔ اچانک زخمی عورت نے لڑکی کو سختی سے جکڑ لیا۔ اس عورت کے چہرے پر دہشت کے آثار دیکھ کرلڑکی نے اپنے کندھے کے اوپر سے دیکھا تو کانپ کر رہ گئی۔ شیر نیچے اتر کر ان کی طرف ہی آ رہا تھا۔

میرا خیال ہے کہ ہم میں سے چند ایک ہی ان خوفناک بھیانک خوابوں سے جاگے ہوں گے جب دہشت کے مارے ان کے اعضاء اور حلق بیکار ہو جاتے ہیں۔ بھیانک بلائیں ان کا پیچھا کر رہی ہوتی ہیں۔ خوف ہمارے مسامات سے پسینے کی شکل میں بہہ رہا ہوتا ہے۔ بیدار ہونے پر ہم خدا کا شکر ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس بے چاری بدقسمت لڑکی کے بس میں اس بھیانک حقیقت سے فرار ممکن نہ تھا۔ اس منظر کا اندازہ کرنے کے لئے زیادہ وقت نہیں لگتا۔ پہاڑی سے نکلی ہوئی چٹان کا سرا جو کہ ایک گڑھے پر جا کر ختم ہوتا ہے، پر دو عورتیں موجود ہیں۔ خوف کے مارے حرکت کرنا بھول جاتی ہیں۔ شیر ان کی طرف آہستگی سے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ فرار کے تمام راستے مسدود ہیں۔

میرا پرانا دوست موٹھی سنگھ اس وقت اسی گاؤں میں اپنی بیمار بیٹی کی تیمارداری کرنے آیا ہوا تھا کہ یہ عورتیں آن پہنچیں۔ وہ بطور سربراہ امدادی جماعت کے ساتھ گیا۔ جب یہ سب لوگ چٹان پر جا کر جھکے تو نیچے صرف بے ہوش عورت اور خون کے نشانات ہی باقی تھے۔

زخمی عورت کو احتیاط سے اٹھا کر یہ لوگ گاؤں واپس لائے۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنی بپتا سنائی۔ موٹھی سنگھ اسی وقت میری طرف روانہ ہو گیا۔ وہ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کا تھا۔ میرے پاس اٹھارہ میل چل کر جب وہ پہنچا تو یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ اسے آرام کرنا ہے یا وہ تھکا ہوا ہے۔ ہم اسی وقت روانہ ہو گئے۔ حادثے کو ہوئے چوبیس گھنٹے گذر چکے تھے کہ ہم جائے واردات پر پہنچے۔ میں اب کچھ بھی نہ کر سکتا تھا۔ شیر نے اس بہادر لڑکی کے جسم کی چند ہڈیاں ہی باقی چھوڑی تھیں یا پھر خون آلود کپڑے۔ یہ اس شیر کی پہلی واردات تھی۔ بعد ازاں اسے "موہن کا آدم خور" کا سرکاری نام دیا گیا۔

لڑکی کو مارنے کے بعد شیر سردیوں میں نیچے کوسی وادی چلا گیا اور جاتے ہوئے راستے بھر میں ہلاکتیں کرتا گیا۔ ان میں پبلک ورکس ڈیمپارٹمنٹ کے دو بندے اور ہماری اسمبلی کے ممبر کی بہو بھی شامل تھے۔ گرمیوں میں یہ واپس لوٹ کر اس جگہ آیا جہاں سے اس نے آدم خوری شروع کی تھی۔ اس کے کئی سال بعد تک اس کی شکار گاہ کوسی وادی سے ککری کھاٹ اور گرگیا تک وسیع رہی۔ یہ کل اندازاً چالیس میل بنتے ہیں۔ بعد ازاں یہ موہن کے اوپر کی طرف بھی شکار کرنے لگا۔

اس ضلعی کانفرنس میں جو میں نے چوگڑھ کے شیروں میں بیان کی تھی، کماؤں کے ضلع میں سرگرم آدم خوروں کی یہ ترجیحی فہرست بنائی گئی: 1۔ چوگڑھ کے شیر، 2۔ موہن، ضلع الموڑا، 3۔ کنڈا، ضلع گڑھوال

چوگڑھ کے شیروں کا خاتمہ کر کے جب میں فارغ ہوا تو بینز نے مجھے یاد دلایا کہ ابھی اس فہرست کا ایک حصہ پورا ہوا ہے۔ موہن کا یہ آدم خور اگلے نمبر پر اپنی باری کا منتظر ہے۔ بینز الموڑہ کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ شیر کی سرگرمیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے اس نے مزید تین انسانی شکار کئے ہیں جو کہ تکنولا گاؤں سے تھے۔ بینز نے مشورہ دیا کہ میں اس گاؤں سے ابتداء کروں۔

میں جب چوگڑھ کے شیروں کے پیچھے تھا تو بینز نے پیشہ ور کئی شکاری اس شیر کے پیچھے لگائے تھے۔ انہوں نے انسانی لاشوں پر بیٹھ کر شیر کا انتظار کیا تھا لیکن انہیں ناکامی ہوتی رہی کیونکہ یہ شیر واپس نہ لوٹتا تھا۔ آخر کار یہ سب واپس لوٹ گئے۔ بینز نے مجھے بتایا کہ اب میں اس شیر کے پیچھے جا سکتا ہوں کہ دیگر تمام شکاری مایوس ہو کر واپس چلے گئے ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ آدم خور کے تعاقب میں ایک سے زیادہ شکاری نہ جائیں۔ آدم خور کا تعاقب کرتے وقت انتہائی گھبراہٹ میں ایک شکاری غلطی سے دوسرے شکاری کو بھی ہلاک کر سکتا ہے۔