کماؤں کے آدم خور/مصنف کی رائے

ویکی کتب سے

چونکہ اس کتاب کے بیشتر واقعات آدم خور شیروں سے متعلق ہیں اس لئے یہ بتانا بہتر ہے کہ ان جانوروں میں آدم خوری کی عادت کیسے پیدا ہوتی ہیں۔

آدم خور شیر ایک ایسا شیر ہوتا ہے جو حالات و واقعات سے مجبور ہو کر اُس خوراک کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اُس کے لئے نئی ہوتی ہے۔ ایسے واقعات میں نوے فیصد شیر زخمی ہو کر اور بقیہ دس فیصد واقعات میں عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے آدم خور بنتے ہیں۔ زخمی ہونے کی ایک وجہ اناڑی شکاری کی چلائی ہوئی اوچھی گولی اور پھر زخمی شیر کا پیچھا نہ کرنا یا سیہی کےشکار میں بے احتیاطی ہوتی ہے۔ چونکہ انسان شیروں کی قدرتی خوراک نہیں ، اس لئے شیر عمر یا زخموں سے مجبور ہو کر انسان کا انتخاب بطور خوراک کرتا ہے۔

شکار کی تلاش میں گھات لگا کر یا پھر چھپ کر، دونوں طرح شیر کی کامیابی کا سارا دار و مدار اس کی رفتار پر اور کسی حد تک اس کے دانتوں اور پنجوں کی حالت پر بھی ہوتا ہے۔ زخموں کے باعث یا دانتوں کے گھس جانے یا ناکارہ ہو جانے کی وجہ سے شیر اپنے شکار کو پکڑنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ بھوک سے مجبور ہو کر وہ انسانی شکار پر اتر آتا ہے۔ جانوروں کے شکار سے انسانی شکار پر اس کا مائل ہونا میرے خیال میں محض واقعاتی ہوتا ہے۔ اس کی مثال میں مکتسر کی شیرنی پیش کروں گا۔ یہ شیرنی نسبتاً نوجوان مادہ تھی۔ سیہی کے شکار میں اس نے نہ صرف ایک آنکھ گنوائی بلکہ اس کے بازو اور اگلے پنجے میں ایک سے نو انچ تک لمبے پچاس کانٹے پیوست تھے۔ کچھ کانٹے ہڈی سے ٹکرا کر واپس مڑ کر انگریزی کے حرف یو کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ جہاں سے شیرنی نے ان کانٹوں کو اپنے دانتوں کی مدد سے نکالنے کی کوشش کی، وہاں زخم بن گئے جن میں پیپ پڑ گئی۔ ایک دن جب یہ شیرنی گھاس کے ایک قطعے میں بیٹھی اپنے زخم چاٹ رہی تھی تو ایک عورت نے اسی قطعے سے گھاس کاٹنا شروع کی۔ شیرنی نے پہلے پہل تو کوئی توجہ نہ دی۔ جب عورت گھاس کاٹتے کاٹتے بالکل نزدیک پہنچ گئی تو شیرنی نے جست لگائی اور پنجہ عورت کے سر پر مارا۔ بیچاری عورت کی کھوپڑی انڈے کی طرح پچک گئی۔ اس کی موت اتنی اچانک تھی کہ اگلے دن جب اس کی لاش ملی تو اس کے ایک ہاتھ میں درانتی اور دوسرے میں وہ گھاس تھی جسے وہ کاٹنے والی تھی۔ عورت کی لاش کو چھوڑ کر شیرنی میل بھر دور ایک گرے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے لنگڑاتی ہوئی پہنچی اور لیٹ گئی۔ اگلے دن ایک آدمی آگ کے لئے اس گرے ہوئے درخت کو کاٹنے آیا۔ شیرنی جو درخت کی دوسری جانب لیٹی ہوئی تھی، نے حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ چونکہ یہ آدمی اپنی صدری اور قمیض اتار چکا تھا، شیرنی کے حملے سے درخت پر گرا۔ شیرنی کے پنجوں سے اس کی کمر پر گہری خراشیں آئیں۔ ان خراشوں سے بہنے والے خون نے شیرنی کو شاید یہ خیال دلایا کہ وہ اس لاش سے اپنی بھوک مٹا سکتی ہے۔ خیر وجہ کوئی بھی ہو، شیرنی نے کہیں اور جانے سے قبل اس شخص کی کمر کا کچھ حصہ کھا لیا۔ ایک دن بعد اس نے تیسرے بندے کو مارا۔ اس بار اس نے باقاعدہ گھات لگائی تھی۔ اس دن سے اس شیرنی نے باقاعدہ طور پر آدم خوری شروع کر دی تھی۔ ہلاک ہونے سے قبل اس شیرنی نے کل چوبیس افراد مارے تھے۔

تازہ کئے گئے شکار پر موجود شیر، زخمی شیر یا بچوں والی شیرنی بھی اتفاق سے آدمی کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ یہ شیر کسی بھی لحاظ سے آدم خور نہیں کہلائے جا سکتے اگرچہ اکثر لوگ انہیں بھی آدم خور گردانتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں کسی بھی شیر کو آدم خور کہنے سے قبل کم از کم دو ہلاکتوں کا انتظار کرتا ہوں اور جہاں ممکن ہو، لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی کراتا ہوں۔ اس کے بعد میں اس جانور کو آدم خور شمار کرتا ہوں۔ پہاڑی علاقوں میں بہت سے ایسے واقعات میرے علم میں ہیں کہ قتل کر کے الزام شیر، تیندوے، لگڑ بگڑ یا بھیڑیوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تفصیل یہاں بتانا مناسب نہیں ہوگی۔ عام خیال ہے کہ آدم خور ہمیشہ بوڑھا اور خارش زدہ جانور ہوتا ہے۔ خارش زدہ اس لئے کہ انسانی جسم میں موجود نمک کی مقدار اسے خارش زدہ بنا دیتی ہے۔ میں انسانوں یا جانوروں کے گوشت میں موجود نمک کی مقدار پر رائے دینے کا حق تو نہیں رکھتا البتہ یہ ضرور جانتا ہوں کہ تمام آدم خوروں کی کھال نہایت نرم اور ریشمی ہوتی ہے۔ یعنی عام خیال کے برعکس انسانی گوشت کا آدم خور کی کھال پر کم از کم کوئی برا اثر نہیں پڑتا۔

ایک اور عام غلط فہمی یہ بھی ہے کہ تمام آدم خوروں کی اولاد بھی خود بخود آدم خور بن جاتی ہے۔ اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ یہ جانور چونکہ انسانی گوشت پر پلتے ہیں تو ان کا آدم خور بن جانا فطری سی بات ہے۔ قدرتی طور پر انسان تیندوے یا شیر کی خوراک نہیں ہوتے۔

عام طور پر بچہ وہی کچھ کھاتا ہے جو اس کی ماں اسے لا کر دیتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کئی بار بڑے ہو کر یہ بچے انسانی شکار میں اپنی ماں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ تاہم ماں کو چھوڑنے کے بعد یا ماں کی ہلاکت کے بعد کسی بھی بچے نے آدم خوری کو جاری نہیں رکھا۔

جب درندے انسانوں کو ہلاک کرتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ جانور شیر ہے یا تیندوا؟ میرے اصول کے مطابق ہر وہ ہلاکت جو دن کی روشنی میں ہو، شیر کے باعث اور ہر وہ ہلاکت جو رات کی تاریکی میں ہو، تیندوے کی طرف سے ہوتی ہے۔ آج تک میں نے اس اصول سے کسی جانور کو انحراف کرتے نہیں دیکھا۔ دونوں جانور نیم شب بیدار ہوتے ہیں، شکارکو مارنے یا گھات لگانے کا طریقہ بھی دونوں میں یکساں، دائرہ عمل بھی ایک ہی اور دونوں ہی انسانی شکار کو دور تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ غلط فہمی عموماً پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کے شکار کا وقت بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ بات غلط ہے کیونکہ دونوں جانوروں کی ہمت اور حوصلہ فرق ہوتا ہے۔ شیر جب آدم خور بنتا ہے تو اس کے دل سے انسان کا خوف جاتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دن میں انسان زیادہ آسانی سے اور زیادہ تعداد میں گھر سے باہر ہوتے ہیں تو اس میں شیروں کو سہولت رہتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس تیندوا یا چیتا چاہے کتنے بندے مار چکا ہو، کے دل سے انسان کی دہشت نہیں زائل ہو پاتی۔ اس لئے یہ دن کی روشنی کی بجائے رات کی تاریکی میں انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس لئے وہ رات کو گاؤں میں گھومتا یا رات کو ہی جھونپڑے توڑ کر شکار کرتا ہے۔ یہ حقیقت دیکھتے ہوئے کہ انسانی خوف زائل ہونے کے سبب شیر کیونکہ دن میں عام دکھائی دیتا ہے، اس کا شکار آدم خور تیندوے کی نسبت بہت آسان ہوتا ہے۔

آدم خور سے ہونے والی ہلاکتوں کی رفتار عموماً درج ذیل تین عوامل پر ہوتی ہے: • اس کے شکار کے دائرے میں قدرتی شکار کتنا ہے • اس کی معذوری کی نوعیت، جس نے اسے آدم خور بنایا • آیا آدم خور نر شیر ہے یا بچوں والی مادہ شیرنی

ہم میں سے وہ افراد جو حقیقی صورتحال سے ناواقف اور سنی سنائی اور پر بھروسہ کرتے ہیں، میں ان کی یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں میں شیروں کی بات کروں گا کہ آدم خور شیر محض ایک انتہائی مختصر اقلیت ہوتے ہیں۔ جس مصنف نے سب سے پہلے "شیر جیسا خون کا پیاسا" یا "شیر جیسا سفاک" کی اصطلاح استعمال کی تھی، اس نے بظاہر ولن کے لئے یہ الفاظ چنے ہوں گے۔ اس طرح اس نے نہ صرف شیر جیسے شاندار جانورکی شہرت سے اپنی لاعلمی ظاہر کی بلکہ شیر کی شہرت کو بھی گہنا دیا۔ اس کی بنائی ہوئی یہ اصطلاحات اب پوری دنیا میں عام استعمال ہوتی ہیں۔ وہ شخص جو اس غلط العام رائے کا ذمہ دار ہے جس پر تقریباً پوری دنیا یقین رکھتی ہے۔

جب میں "شیر جیسا خون کا پیاسا" یا "شیر جیسا سفاک" کے الفاظ سنتا یا پڑھتا ہوں تو مجھے وہ ننھا لڑکا یاد آ جاتا ہے جس کے پاس ایک پرانی توڑے دار بندوق تھی۔ اس بندوق کی دائیں نال میں چھ انچ لمبا شگاف تھا۔ نالیوں اور کندے کو تانبے کی تاروں سے باندھا ہوا تھا تاکہ وہ ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں۔ یہ لڑکا ترائی اور بھابھر کے جنگلات میں بے فکر گھومتا پھرتا تھا۔ ان دنوں آج کی نسبت کم از کم دس گنا زیادہ شیر یہاں پائے جاتے تھے۔ یہ لڑکا جہاں بھی رات پڑے، سو جاتا تھا۔ اس کی نگرانی وہ چھوٹی سی آگ کرتی تھی جو وہ گرمی حاصل کرنے کو جلا لیتا تھا۔ اس کی نیند بار بار شیروں کی دھاڑ سن کر اکھڑ جاتی تھی جو بعض اوقات دور اور بعض اوقات بالکل نزدیک ہوتے تھے۔ یہ لڑکا آگ پر مزید ایک یا دو لکڑیاں ڈال کر پھر سونے کی کوشش کرتا تھا۔ اسے شیروں سے ڈر نہ لگتا تھا۔ اسے اپنے مختصر تجربے اور دوسرے لوگوں کی باتوں سے یہ علم ہو چکا تھا کہ جب تک شیر کو تنگ نہ کیا جائے تو وہ کوئی نقصان نہیں دیتا۔ اسی طرح دن کی روشنی میں شیر کو دیکھتے ہی وہ لڑکا اس کے راستے سے ہٹ جاتا۔ اگر ہٹنا ممکن نہ ہوتا تو بے حس و حرکت کھڑا ہو جاتا۔ شیر اس کے پاس سے ہو کر گذر جاتا اور لڑکا اپنا سفر جاری رکھتا۔ اسی طرح ایک واقعہ مجھے یاد ہے کہ جب وہ لڑکا جنگلی مرغیوں پر گھات لگاتے ہوئے آلو بخارے کی جھاڑی میں چھپا ہوا تھا کہ اس جھاڑی کی دوسری طرف سے شیر نکلا۔ اس نے حیرت سے لڑکے کو دیکھا اور جیسے زبان حال سے پوچھا "ارے، تم یہاں کہاں؟" جواب نہ ملنے پر شیر خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔ اسی طرح مجھے وہ لاکھوں افراد یاد آتے ہیں جو ہر روز جنگل میں جاتے ہیں اور ان کی مڈبھیڑ شیروں سے ہوتی ہے۔ ان میں بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں سب شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص بحفاظت گھر واپس لوٹتا ہے۔ اکثر کو تو شیر کی موجودگی کا علم تک نہیں ہو پاتا۔

جب وہ شیر اس آلو بخارے کی جھاڑی سے نکلا تھا، نصف صدی گذر چکی ہے ۔ گذشتہ بتیس سالوں میں میں نے بے شمار آدم خوروں کا سامنا بھی کیا ہے، ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں جو پتھر کو بھی موم کر دیں، میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ شیر نے بلا وجہ شکار کیا ہو۔ ان کا کام ہمیشہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے شکار تک محدود ہوتا ہے چاہے یہ شکار انسانی شکل میں ہو یا پھر جانور کی شکل میں۔ شیر کا قدرتی کردار فطری توازن کو برقرار رکھنا ہے۔ حالات سے مجبور ہو کر ہی وہ آدم خوری کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا جب اس کی قدرتی خوراک انسانوں نے ختم کر دی ہو تو وہ آدم خوری کی طرف مائل ہوتا ہے۔ آدم خوری سے قبل وہ مویشی خوری کی طرف آتا ہے۔ اس سے ہونے والا نقصان کبھی بھی دو فیصد مویشیوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پوری نسل پر ہی بے رحم اور سفاک ہونے کا لیبل لگا دیا جائے۔

شکاری عموماً فطرت پسند ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے اس کا سالوں کا تجربہ ہوتا ہے جو اس نے جنگل میں گزارے ہوتے ہیں۔ ہر شخص کا اپنا نکتہ نظر ہو سکتا ہے لیکن اکثریت کی رائے تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ اس لئے میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی میری رائے سے لفظ بلفظ اتفاق کرے گا۔ لیکن خیالات ضرور ملتے جلتے ہوں گے۔ تاہم ایک بات سے تمام شکاری اتفاق کریں گے چاہے وہ ہاتھی پر سوار ہو کر شکار کرتے ہوں،، مچان پر بیٹھ کر یا پھر زمین پر شیر کے دو بدو ہو کر، شیر ایک نہایت شریف النفس اور بے جگر درندہ ہے۔ جب یہ معدوم ہوا، جیسا کہ یہ اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہے، ہندوستان اپنے سب سے خوبصورت جانور سے محروم ہو جائے گا۔ شیر کے برعکس تیندوے کسی حد تک مردار خور ہوتے ہیں۔ جب انسان اس کے قدرتی شکار کو ختم کر دیں تو یہ بھی آدم خوری کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ ہمارے پہاڑوں کے باشندے عموماً ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ یہ رسم ندی یا دریا کے کنارے ادا کی جاتی ہے تاکہ راکھ بہتی ہوئی دریائے گنگا تک جا سکے اور پھر اس سے آگے سمندر تک۔ چونکہ ان پہاڑوں کی ندیاں اور دریا وغیرہ بہت دور ہوتے ہیں اور اتنی دور تک لاش کو لے جانے میں مزدوروں کے اخراجات بہت مہنگے پڑتے ہیں۔ بعض اوقات کی اموات اتنی مہنگی نہیں پڑتیں لیکن وبا کی صورت میں یہ لوگ زیادہ اموات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس طرح ہر مردے کو جلانا ممکن نہیں رہتا۔ ان حالات میں یہ لوگ مردے کے منہ پر جلتا ہوا کوئلہ رکھ کر اسے کھائی میں پھینک دیتے ہیں۔

تیندوے کے علاقے میں ایسی لاشیں اسے انسانی گوشت مہیا کرتی ہیں۔ وبا کے اختتام پر جب تیندوے کو یہ مفت کی لاشیں ملنا بند ہو جاتی ہیں تو وہ آدم خوری شروع کر دیتا ہے۔ کماؤں کے دو تیندووں نے کل 525 افراد ہلاک کئے تھے۔ پہلا تیندوا ہیضے کی وبا سے اور دوسرا "جنگی بخار" سے 1918 میں آدم خور بنا تھا۔

کرنل جم کاربٹ