مندرجات کا رخ کریں

مولانا شیخ غلام رسول حصاروی بونیری

ویکی کتب سے

شیخ صاحب ایک معزز علمی گھرا نے سے تعلق رکھتے تھے اور دیوبند سے فارع التحصیل تھے والد کا نام حافظ عبدلصمد ملاخیل تھے تپہ نسوزی میں موضع ٹوبدرہ میں بمقام مینہ حصار میں سکونت پزیر تھے ملک محمود بسی خیل اکاخیل نے بمقام مینہ حصار زمین بطور سیری عنایت کیا تھا ان کے بھای حافظ محمدنبی المعروف ڈیری حافظ جی کا ایک بیٹا بھی دیوبند سے فارع التحصیل تھے اور ایک فیقہی عالم تھے اس م کا اسم گرامی السید محمداسحاق مرزا صاحب البونیری رح والد کا نام السید حافظ محمدنبی ڈیری رح پر دادا کا نام السید محمدابراہیم شاہ رزڑی تھا اپ رزڑ کے علاقہ نواکلے کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس کا باپ ایک درویشی کا زندگی بسر کرتے تھے اسلے اس کو نارنجی میں حصہ میلا تھا اس نے نارنجی گاوں میں ایک مسجد کی بنیاد رکھا جو بابا جماعت سے منسوب ہے اور چاہتا تھا اپنے بچوں کو عالم فاضل دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ خود بھی ایک عالم اور برگزیدہ بزرگ تھے تو ان کے اولاد میں السید محمدابراہیم شاہ رزڑی سوات کے طرف گیے اور وہاں پر لوگوں کو شریعت مطہرہ کی درس دیتے تھے وہ ایک جلیل القدر بزرگ عالم اور فیقہیہ اصولی عالم تھے علاقہ بونیر میں ایک خان نے تپہ نسوزی حصار میں ایک ڈیری کا دامن زمین بطور سیری دیا اس نے اس میں ایک مسجد اور مدرسہ بنایا اور یہ سلسلہ تا حال اولاد نے جاری رکھا ہوا ہے تو حضرت مولانا محمداسحاق مرزا صاحب البونیری رح اس عظیم علمی گھرانے میں 1919ء کو پیدا ہوے ابتدای تعلیم اپنے بزرگان سے حاصل کیا اور بعد میں لاہور پھر دہلی چلے گیے اور ۱۹۳۷ء میں مدرسہ صدیقیہ محمد صدیق نجیب ابادی دیوبند میں داخلہ لیا مولانا محمد صدیق نجیب ابادی دیوبند اور مولانا حسین احمد مدنی سے کتب احادیث پڑھے دیگر علوم عقلیہ ونقلیہ پڑھے اپ جامعہ علوم معقول اور منقول تھے مولانا حسین احمد مدنی سے بیعت صابری ہوے تھے بعد میں ولایت سید پور میں دیوبند کے طرف سے شیخ الحدیث مقرر ہوے ایک دفعہ میں دستار بندی کے لیے بمع چند ساتھیوں دیوبند ارہے تھے کہ راستے میں ایک پاٹک پر انگریزی دستوں سے تلخ کلامی ہوی اور انہوں نے نہیں چھوڑے اسلیے وہ بمع ساتھیوں واپس ہوکر کسی مضافاتی راستےسے دیوبند پہنچ گیے یہ وہی زمانہ تھا کہ برصغیر پر انگریز حکومت تھی دیوبند کے علماء نے انگریزی حکومت کی خلاف ایک کمیٹی بنائ تھی اس کا نام خلافت کمیٹی تھا مرزا صاحب اس کمیٹی کا میمبر بھی تھا 1947ء کے اوایل میں وطن واپس ہوکر اپنا تدریسی میشن جاری رکھا 1952ء میں سوات سٹیٹ میں بونیر سب ڈویزن کے محکمہ مال کے نگہداشت پر معمور ہوے ہر معاملہ شریعت مطہرہ سے حل کرتا تھا کیی تنازعات مصلا ایلی ڈب کا تنازعہ امبیلہ کنڈاو میں ریسٹ ہاوس کا تنازعہ اور ٹوپی چغرزی میں سرک کا تنازعہ بڑی خوش اصلوبی سے حل کردیے علاقے میں اسلامی اور دنیاوی دونوں علوم سے منور کیا 1978ء میں غالبا ریٹایر ہوے 1988ء حج پر گیے واپسی پر 1993ء میں شریعت محمدی بونیر کا امیر مقرر ہوے اور 1994ء میں امبیلہ کے مقام پر ان کے سربراہی میں ملاکنڈ میں شریعت نافظ کرنے کیلے احتجاج ہوا حضرت صاحب کو گرفتار کرکے ڈیرو جیل میں نظر بند کیا چند ایام نظر بندی کے بعد رہا ہوے اور اپنا تدریسی میشن جاری رکھا اور اپنا اخری عمر دین اسلام کو وقف کیا تھا 2010ء وفات پا گیے ان للہ وان الیہ راجعون۔ اولاد میں دو صاحبزادے زادے چھوڑے محمداقبال جیلانی اور پرینسپل جاویداقبال چھوڑے ہیں۔ شیخ السید غلام رسول دی مرزا صاحب کا چاچا تھا 1875ء میں پیدا ہوے تھے اور مردان بخشالی میں مدفون ہیں۔ان کا دوسرا بھای حافظ محمدنبی المعروف ڈیری حافظ بنیر حصار ٹوبدرہ میں مدفون ہے۔ شجرہ یوں ہے ان کا والد حافظ عبدلصمد ابن سید محمدابراہیم شاہ رزڑی ابن ابوابراہیم مبارک شاہ ابن فقیرمحمدشاہ ابن سید محمدزمان شاہ جیلانی مانسہرہ ابن سید بہاولحق ملتانی رح۔وللہ اعلم۔