فسانہ عجائب

ویکی کتب سے

مقدمہ[ترمیم]

مرزا رجب علی بیگ سرور کی کتاب فسانہ عجائب مختصر داستانوں کے سلسلے کی مشہور کتاب ہے۔ یہ ہمارے کلاسیکی ادب کا حصہ بن چکی ہے۔ تھا جس کتاب کے متعلق تاریخی حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کر کے بعض حضرات جو رائے بھی ظاہر کریں اور اس پر جس قدر اعتراضات کریں؛ لیکن یہ واقع ہے کہ جس زمانے میں یہ کتاب سامنے آئی تھی، اس زمانے میں اس کی یکتائی کی دھوم مچ گئی تھی اور بہت جلد اس کو دبستان لکھنو کی نمائندہ تصنیف کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا۔ صرف داستان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں بہت سی خامیاں نکالی جاسکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر تو یہی بات کہ داستان کا ہیرو ان صفات سے بڑی حد تک محروم ہے جو کسی مرکزی کردار میں دلکشی کی چمک پیدا کیا کرتی ہیں۔ کئی ضمنی کہانیوں کے جوڑ پیوند لگی ہوئی داستان کے بوجھ کو سہارنے کی سکت اس میں نظر نہیں آتی۔ سادہ لوحی میں بھی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جان عالم کی تخصیص نہیں ضمنی کہانیوں کے نمایاں افراد بھی ایسے ہی ہیں۔ مثلا وہ بادشاہ جو دانہ تامل کے بغیر اپنی بیوی کو ایک انجان سوداگر کے ساتھ بھیج دیتا ہے، جس نے یہ جھوٹ بولا ہے کہ میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے اور وہ سوداگر اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاتا ہے۔ معمولی سوج ہو چکا آدمی بھی اس قدر کم فہمی کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ اس کے لیے تو خود سرور نے لکھا ہے کہ یہ بیچارے اللہ کے ولی۔ یا مثلا وہ سودا گئے جس نے بندر کی صورت میں جان عالم کو اپنے ساتھ رکھا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بادشاہ بندروں کو پکڑوا رہا ہے اور مروا رہا ہے ، اس کے باوجود وہ آنے جانے والوں کو بندر کی باتیں سنو آتا ہے۔ اتنا بڑا سوداگر اور اسکا در سادہ لوگ یا مثلا مجسٹن کا لڑکا کہ وہ بھی جان عالم کی طرح سادہ لوحی کا مارا ہوا ہے۔ اسے بھی سرور نے خود ہی بڑھاپے کی اولاد کہا ہے۔ یا وہ بادشاہ جس سے آخر میں جان عالم کی لڑائی ہوتی ہے۔ وہ تو اس قدر اہم ہے کہ اس کی فوج جاۓ علم سے مل گئی ہے، اکیلا رہ گیا ہے لیکن لڑنے چلاتا ہے تلوار چلاتا ہے اور قید کر لیا جاتا ہے۔ غرض کے نمایاں کردار کے مرد تقریبا سب کے سب جان علم ہی جیسے ہیں۔ یہ بات اگر نظر کے سامنے ہو کہ فوج کی حکومت میں آصف الدولہ کے زمانے سے مجہولیت نے جس طرح چھاؤنی چھالی تھی اور شہزاد گانے کرام جس طرح حکمرانی کی صلاحیت اور صفات سے تہی دامن تھے تو پھر اس کی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے۔ سرور نے کہا نی کسی بھی خیالی دنیا کی کہی ہو داستان کی فضا اس کے کردار انھی کے زمانے کے ہیں، ان کے زمانے میں اکثر امراء اور ولی عہد صاحبان کا احوال یہی تھا۔ البتہ یہ دلچسپ بات ہے کہ اکثر عورتیں سوجھ بوجھ سے اس طرح خالی نہیں کی: بلکہ نواب مرزا شوق کی مثنویوں کی فعال اور طرار خواتین کی طرح ہیں۔ وجہ اسکی بھی اسی معاشرے کے احوال اور کردار میں باآسانی تلاش کی جاسکتی ہے۔ زبان کے لحاظ سے بھی اس میں بہت سے جھول تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اکھڑے اکھڑے جملے تو اچھی خاصی تعداد میں مل جائیں گے۔

1 دہلی میں بھی مغلوں کی حکومت کے آخری زمانے میں یہی احوال تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ بجلی شاندار روایت کا عکس وہاں آنکھوں میں بسا ہوا اور دلوں میں سمایا ہوا تھا، جس کے اثر سے بیرونی سطح پر کچھ نہ کچھ بھرم رہ گیا تھا۔ لکھنؤ میں یہ بڑی کمی تھی یہاں ایسی کوئی روایت سایہ فگن نہیں تھی۔ اس کے اثرات کئی صورتوں میں نمایاں ہوئے۔

اس نے بیان کا رنگ بھی کئی جگہ پڑا ہوا دکھائی دے گا۔ الفاظ کا بے محل صرف بھی ملے گا اور ایسا پیرایہ بیان بھی ملے گا جس کو بے کمالی کی نشانی کہا جاسکتا ہے۔ یہ سب مسلم اور برحق مگر بات وہی ہے کہ یہ کتاب محض ایک داستان نہیں صرف زبان کا نگارخانہ نہیں؛ یہ دراصل ایک اسلوب کا دوسرا نام ہے اور اصل حیثیت اس اسلوب کی تھی اور ہے۔ اعظم اپنے زمانے اور ذہن کے لحاظ سے جو بھی کہیں لیکن یہں خزانہ حقیقت ہے کے لکھنؤ کا وہ معاشرہ اسی انداز کا پرستار اور اسی اسلوب کا دلدادہ تھا۔ چکبست کے الفاظ میں "اودھ پنچ کے پہلے رجب علی بیگ سرور کی طرز تحریر کی پرستیش ہوتی تھی" (مضامین چک بست انڈین پریس علاوہ سال طبع 940 صفحہ 229 ( زمانہ بدل گیا ذہن بدل گئے انداز نظر بدل گیا؛ ہم بہت سی تبدیلیوں کے باوصف یہ کتاب اپنی حیثیت کو اب بھی برقرار رکھے ہوئے ہے [ کلاسکی ادب کی شاعری سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے] اب یہ چھپتی رہتی ہے اور پچھلی تین دہائیوں میں تو اس کے متن کو نئے انداز سے پیش کرنے کی کی قابل ذکر کوششیں بھی کی گئیں ہیں۔ مصنف کے زمانے سے اب تک یہ کتاب اتنی بار اہتمام کے ساتھ چھپی ہے کی داستانیں سلسلے کی کم کتابیں اسباب میں اس کی برابری کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔ باغوبہار سے مقابلہ کرنا مقصود نہیں رخ روشن کے آگے شمع کون رکھے گا؛ اسکو چھوڑ کر اس انداز کے باقی سبھی داستانی قصوں کو ادبی حیثیت سے بھی اس کے برابر شاید ہی رکھا جاسکے۔ اس کتاب کو ایسے باقی قصص و کے مقابلے میں ایک اور فضیلت بھی حاصل ہے، کہ اس کی حیثیت صرف ادبی نہیں تاریخی بھی ہے اور یہ تاریخی حیثیت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ دہلی اور لکھنؤ کی دبستانی بحث کے فروغ میں اس کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ سرور نے دیباچے میں میرامن ور دہلی دونوں کے متعلق جو کچھ لکھا تھا، اس نے باضابطہ اعلان جنگ کا کام کیا۔ دنوں تک یہ بحث چلتی رہی اور اب بھی اس کی بازگشت سنائی دے جاتی ہے [ مثلا جوش ملی آبادی اور شاہد احمد دہلوی میں پچھلے دنوں جو بحث چلی تھی اس میں اس پرانے جھگڑے کا بھی حوالہ موجود ہے۔اس میں اس پرانے جھگڑے کا بھی حوالہ موجود ہے رسالہ نقوش )لاہور) کے "ادبی معرکے نمب"ر میں اسے دیکھا جا سکتا ہے]۔ یہاں ضمنی طور پر [اور بطور جملہ معترضہ] یہ وضاحت ضروری ہے کہ دہلی اور لکھنو کا جھگڑا فسانہ عجائب سے شروع نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ یہ کتاب نہ لکھی جاتی تب بھی اختلافات ابھر کر سامنے آتے ضرور۔ اصلاً یہ سیاسی قضیہ تھا۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے ہی سے اختلافات کی بنیاد گہری ہونے لگی تھی۔ پھر جب نواب غازی الدین حیدر نے انگریزوں کے اشارے پر بادشاہت کا اعلان کیا، اس وقت سے وہ جو ایک ظاہری پردہ سا تھا وہ بھی اٹھ گیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اختلافات کی نمود شدت اور وسعت کے ساتھ تہذیبی اور ادبی سطح پر ہوئی۔ چونکہ سیاسی صدابند مقامی حکومت اگرچہ نام کی خود مختار تھی ، لیکن عملی طور پر وہ بے اختیاری کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی اور دوسری طرف وہ نیا معاشرہ اپنے امتیاز اور اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنے کا بے طرح آرزو مند تھا اسلئے تہذیبی اور ادبی سطح ہی پر ایسے اختلافات کی نشونما ہونا تھی اور یہی ہوا۔ ادبی سطح پر اختلافات میں زیادہ شہرت پائی [ دریائے لطافت میں سید انشاء نے جہاں دہلی اور لکھنو کا موازنہ کیا ہے، وہاں بین السطور بہت کچھ پڑھا جا سکتا ہے اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ذہنوں میں کس طرح کے خیالات نشوونما پا رہے تھے]۔ دہلی والوں کو اپنی زبان اور اپنی ادبی روایت پر بہت ناز تھا۔ اس وقت تک سند بھی وہیں سے لی جاتی تھی۔ اگرچہ اجڑی ہوئی دہلی سے ترک وطن کرکے اس شاد اور آباد مملکت میں بہت سے دہلی والوں کو پناہ لینا پڑی تھی اس کے باوجود وہ مہاجرین یہاں والوں کو پورب والے کہتے تھے، ان کی نظر میں نا یہاں کی تہذیبی روایت کی کوئی حیثیت تھی نہ یہاں کی زبان کی۔ اب تک اس مملکت کو اسی نظر سے دیکھتے تھے جس نظر سے ایک خودمختار سلطنت اپنے کسی زیرِ نگیں علاقے والوں کو دیکھا کرتی تھی۔ مرزا غالب نے اپنی پنشن کے قضیے میں کلکتہ جاتے ہوئے لکھنؤ میں بھی قیام کیا تھا۔ اس وقت غازی الدین حیدر نواب وزیر نہیں اودھ کے بادشاہ تھے اور معتمد دولہ آغا میر ان کے وزیراعظم اور نائب السلطنت تھے۔ مرزا صاحب ان سے ملاقات کی خواہش مند ضرور تھے ان کی مدح میں قصیدہ بھی کہ رہے تھے، ایک فارسی نثر بھی لکھی تھی، اور ایک غزل میں تین شعر بھی مدھیہ انداز کے کہے تھے جس کے دو شعر یہ تھے:

لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی

ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو

لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید

جادہ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو

غرض ملاقات طے ہوگئی لیکن ہو نہیں پائی۔ وجہ یہ ہوئی کہ " مرزا صاحب نے ملاقات سے پہلے دو شرطیں ایسی پیش کی، جو منظور نہ ہوئیں: ایک تو یہ کہ نائب میری تعظیم دیں دوسرے نذر سے مجھے معاف رکھا جائے" [ یادگار غالب، طبع اوّل ، ص 27 [ یہ دراصل اسی روایتی احساس برتری کا مظاہرہ تھا۔ اب دیکھیے تو مرزا صاحب مالی امداد کے متمنی ہیں، چاہتی ہیں کہ صلہ ملے، ضرورت مند بھی ہیں؛ لیکن ملاقات کے لیئے اپنی طرف سے یہ شرط لگا دیتے ہیں کہ وزیراعظم ان کی تعظیم کریں۔ مورو وزیراعظم کی خدمت میں دستور کے مطابق نظر پیش نہیں کریں گے۔ نظر پیش کرنے کا مطلب ہوتا ہے بالادستی اور برتری کا اعتراف اور اظہار؛ مرزا صاحب اس کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ تھی نہ عجیب بلکہ عجیب تر بات! بات وہی تھی کہ دہلی والے آخر تک یہی سمجھتے رہے کہ بادشاہت تو دہلی میں تھی اور وہیں2 ہے۔ یہاں والوں کو تو سند حکومت اسی دروازے سے ملتی رہی ہے۔ بادشاہت کی طرح زبان کا مرکز بھی دہلی کا مانا جاتا تھا، سند بھی دہلی والوں سے لی جاتی تھی۔ اس کا ردعمل تو ہونا تھا۔ سرور نے دہلی اور میرامن کےمتعلق جو کچھ لکھا ، اس کو اس رد عمل کے فروغ میں بڑا حصہ مل گیا اور اسی نسبت سے شہرت ملی۔ یہ واقعہ ہے کہ سرور سے پہلے لکھنو کے کسی ادیب [ اور شاعر نے اور اس میں ناسخ بھی شامل ہیں ] دہلی اور اہل دہلی کی لسانی بالادستی اور وہاں کی یکتائی اور استناد سے اس طرح الاعلان انکار نہیں کیا تھا۔ احتشام صاحب نے بجا طور پر لکھا ہے کہ :

1 بعد میں مرزا صاحب نے اس مصرعے کواس طرح بدل دیا : لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب۔ متداول دیوان میں یہ اسی طرح ہے۔ 2 میر مہدی مجروح نے مرزا غالب کو جو یہ لکھا تھا کہ " اگر شرم آئی تو رجب علی سرور کو آئے ۔۔۔۔ ان سے کہا چاہیے کہ ارے بندہ خدا، خدا سے ڈر! لکھنؤ کس بادشاہ کا دارالخلافہ رہا ہے؟" [رجب علی بیگ سرور، ص 354 [ تو یہ اسی طرف اشارہ تھا۔ 3 "عہدِ دولت بابر شاہ سے تا سلطنت اکبر ثانی کہ مثل مشہور ہے: نہ چولھے آگ ، نہ گھڑے میں پانی ، دہلی کی آبادی ویران تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لطافت اور فصاحت اور بلاغت کبھی نہ تھی، نہ اب تک وہاں ہے" (ص 18)

یعنی قصہ ہی ختم کر دیا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

"تاریخی اعتبار سے سرور کی ادبی زندگی لکھنؤ کی اس عہد سے تعلق رکھتی ہے وہ برائے نام سہی، ایک خود مختار بادشاہت قائم ہو چکی تھی اور وہ اپنی زبان ادب معاشرت اور طرز فکر میں دہلی سے آزادی حاصل کر رہا تھا۔ لسانی اور ادبی خودمختاری کی خواہش نے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر لکھنو اور دہلی کے اس فرق کو اور زیادہ نمایاں کر دی جس کے ہلکے نقوش اس سے پہلے ہی ابھرنے لگے تھے۔ رجب علی بیگ سرور کو اس حیثیت سے میں لکھنوی ادب کا پہلا اہم نمائندہ کہا جا سکتا ہے، جس نے نہ صرف ایک مخصوص اسلوب پیش کرکے اس تفریق اور خودمختاری پر مہر لگا دی، بلکہ واضح طور پر دہلی کے ادبی انداز کو سخن گسترانہ چشمک کا موضوع بھی بنایا۔ اس حیثیت سے بھی سرور کا مطالعہ بڑی تنقیدی اہمیت رکھتا ہے۔" [ رجب علی بیگ سرور، ص 14[ جس طرح لاسک کی شاعری کے اندرونی فضا اور اس کا مزاج لکھنو کی حسنِ معاشرت کا آئینہ دار ہے اسی طرح سرور کی نثر آرائشیں پسندی کے وسیلے سے اس معاشرت کے انداز و اطوار کی آئینہ داری کرتی ہے نہ صرف سرور دونوں اپنے اسالیب بیان کے واسطے سے دبستان لکھنؤ کے نمائندہ افراد ہیں۔ ایک کی شاعری لکھنؤ کی نئی شاعری روایت کا نقطہ آغاز فنی اور دوسرے کینسر فسانہ عجائب کی صورت میں وہاں کا پہلا نقش بن کر سامنے آئی یہ دوسری بات ہے کہ شیریں روایت نے بھاگ کر وہ پایا اور وہ ایک زمانے تک معیار اور مثال بنی رہی۔ناصح نے کبھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا لیکن اس مملکت کے لیے جسے نہیں نہیں بادشاہت ملی تھی نئی شعری روایت اور نئے لسانی تصور کی بنیاد رکھی نئی حکومت کے لیے جس طرح نےاسکا ضروری ہوتا ہے اسی طرح اس نے معاشرے کو دینی ادبی روایت کی ضرورت تھی جس کی پہچان بھی ہو اور جو اس علاقے کو ایک دوسرے ادبی علاقے کی بالادستی سے بھی چھٹکارا د** کر مستقل لسانی مرکز کی حیثیت دلاسکیں۔ یہ ساری داستان تھا اس میں نہ صرف اور سرور دونوں شریک تھے البتہ ناسک کی حیثیت شریک غالب کی تھی فسانہ عجاءب سے جس نثری روایت کا آغاز ہوا تھا اس نے شہرت تو بہت پائی صحیح معنی میں قبول عام بھی پایا مووی مسبوق بھی مثال اور معیار بن کر ذہنوں کو متاثر کرتی رہی۔لیکن شعری روایت کے مقابلے میں اس کے اثرات کی حکمرانی کی مدت کم رہی اس فرق کے باوجود تاریخ میں ادب میں ان دونوں روایتوں کے اثرات ہمیشہ کے لیے اس طرح محفوظ ہوگئے ہیں کہ انکو معلوم کئے بغیر ان کو سمجھے بغیر ان کا جائزہ لیے بغیر تاریخ ادب کے اس باب کو نہیں سمجھا جا سکتا جو دبستان لکھنو سے متعلق ہے اس لحاظ سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ فسانہ عجائب کی اہمیت اپنی جگہ پر برقرار ہے اور رہے گی۔ پچھلے صفحے کے حاشیے کا بقیہ : اس سلسلے میں عام طور پر وہ عبارت نظر میں رہتی ہے جس میں میرامن کا نام آیا ہے : "اس ہیچ میرزا کو یارا نہیں کہ دعوی اردو زبان پر لائے ۔۔۔۔ اپنے منہ سے دھنا بائی ( ص 30 ( لیکن واقعہ یہ ہے کہ پورا بیان لکھنؤ اسی جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ جگہ جگہ یہ جذبہ جذبہ بے اختیار بنکر سطح پر ابھر آیا ہے اور بین السطور سے ابھرکر شامل سطور ہو گیا۔ مثلاً جب وہ لکھنؤ کی تعریف میں یہ لکھتے ہیں کہ : "جو گفتگو لکھنؤ میں کو بہ کو ہے؛ کسی نے کبھی سنی ہو سنائے۔ لکھی دیکھی ہو دکھائے۔

"لکھی دیکھی ہو" اسے بھی صاف اشارہ میر امن کی طرف ہے۔ یا مسلم اور لکھنؤ کے جیسے بازاری ہی کسی شہر کے ایسے ہفت ہزاری ہیں۔ کسی شہر سے صاف صاف دہلی مراد ہے کہ ہفتہ ہزاری کا منصب وہیں سے ملا کرتا تھا۔ یا مثلا صفحہ 8 پر "گومتی میں غوطہ لگایا دیہاتی بن کے دھبے ہوگئے آدمی ہو گئے" میں بھی کنایہ موجود ہے۔ یہاں گومتی جمنا سے بڑھ گئی ہے۔ بیان لکھنؤ کا اصل مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ لباس کھانے وغیرہ معاشرت کی جملہ مظاہر میں لکھنؤ کی افضلیت اور یکتائی کو اس طرح بیان کیا جائے کہ یہ صاف صاف معلوم ہو جائے کہ اب یہ شہر دہلی پر افضلیت رکھتا ہے اور یہ بھی فصاحت اور بلاغت کی ٹکسال ہیں اب یہیں ہے۔ ناسخ کے لیے انھوں نے جو یہ لکھا ہے کہ شیخ امام بخش ناسخ میں روزمرے کو ایسا فصیح و بلیغ کیا کے کلام سابقین منسوخ ہوا تو مطلب اس کا یہی ہے کہ وہ دور ختم ہوا جب زبان و شعر میں سند دہلی والوں سے لی جاتی تھی۔

جیسا کے میں نے کہا کہ قافیہ بندی سرور کی تحریر کا خواص چہار ہے ان کا پسندیدہ انداز کو یہ ہے کہ کبھی ایک فطری اور کبھی دو یا زیادہ ٹکڑوں کے بعد وہ ٹکرا آتا ہے جس پر کافیہ کی بنیاد ہوتی ہے اور یہ بھی ایک ہی جملے میں چھوٹا ہو یا بڑا قافیہ بندی کا حسن موجود ہے یا کسی جملے کسی فصل کے بغیر قافیہ بندی کی بہار دکھاتے ہیں زیادہ مصالحوں کی کوئی گنجائش نہیں۔میں پہلے بار د کر چکرا پیش کرتا ہوں جس میں تینوں انداز موجود ہیں یہاں نیند کہاں جیسے سینے میں بے قرار پہلو میں خار ہر دم آہ سرد دل پر درد سے بلند چشمہ چشم جاری فریاد و زاری دوچند جگر میں سوز فراق نیا لفظ سے دو پنہاں آیا سینے میں دل و جگر وسفن یہ رباعی و زماں پیلا ٹکرا مزا بھی ہے اور مفت ابھی ہے اور خوب ہی ٹکڑے کی بنیاد بنتا ہے یہی اپنے لفظ بنیادی کافی کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بعد ٹکڑے آتے ہیں

جو بیقرار خار کے واسطے سے ہم کافیا ہیں ان درمیانی دو ٹکڑوں کے بعد دوسرا ٹکڑا آتا ہے جس میں پہلے ٹکڑے کی ریاض سے بلند قافیہ بندی کا حسن چمکا رہا ہے سے پہلے ٹکڑے میں پیار کا توازن جاری وزاری کے واسطے برقرار رکھا گیا ہے اس کے بعد ایک ٹکڑا آتا ہے تو دوچند پر ختم ہوتا ہے اور اس طرح بلند سے کافیہ بندی کا پہلو روشن کو اٹھتا ہے اس کے بعد دو ٹکڑوں کے آخر میں نہاں اور عیاں آتے ہیں جو بنیادی کافیہ کی طرف سے توجہ کو ختم نہیں ہونے دیتے

یہ بھی دیکھیے کہ سفارت کے پہلے ٹکڑے ہیں ہاں نیند کہاں کی عید سے ٹکڑے میں بھی وہی انداز موجود ہے جو پنہاں ایام یعنی دونوں لفظ ہم قافیہ ہیں یہ گویا وزن کو سنبھالنے اور بیان کے تناسب کو برقرار رکھنے کی نہایت کامیاب اور فنکارانہ کوشش ہے اس کے بعد اس کے بعد پھر وہ دو ٹکڑے آتے ہیں یہ دونوں ہم قافیہ نہیں مگر دوسرا "سپند " پر ختم ہوتا ہے جو عبارت کے چوتھے ٹکڑے کے بلند اور چھٹے ٹکڑے دو چند کا ہم قافیہ ہے۔

اور اس طرح بنیادی قافیے کا آہنگ ذہن کو تناسب اور توازن کے احساس سے خالی نہیں ہونے دیتا اور توجہ کو پوری طرح منعطف رکھتا ہے۔ اس عبارت کا اختتام جس ٹکڑے پر ہوتا ہے وہ پہلے ٹکڑوں کی طرح دو اجزا کا مجموعہ نہیں ہے، یہاں ایک ہی جز ہے، مگر اس کے آخر میں "برزباں" آتا ہے، جو پہلے ٹکڑے کے بنیادی لفظ کہاں کے آہنگ کو دہراتا ہے۔ اس ٹکڑے میں ایک ہی جز کا ہونا فنکارانہ انداز نگارش کا اچھا نمونہ ہے ، کیونکہ اس طرح ذہن میں ابتدائی اور بنیادی آہنگ کی جھنکار اچانک اور پورے دباؤ کے ساتھ گونج اٹھتی ہے۔ اگر یہاں بھی دو ٹکڑے ہوتے تو یہ جھنکار اس قرد پر شور نہ ہوپاتی تقسیم ہو کر کچھ ہلکا ہو جاتا۔

ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھئے : " اور تو اور شہداء پیر بخارا ک، نماسا سیدالشہدا کا شیدا" [ ص16 ] شُہٌدا "شہداء"، "شیدا" میں صنعت تجنیس میں بیان کا جو حان پیدا کیا ہے، اسے صحیح معنی میں اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب پڑھنے والا اس طرز ادا سے واقف ہو اور اس کا ذہن اس کے پیدا کیے ہوئے خوشی اور لطف کو قبول کرنے کے لیے تیار بھی ہو۔ یحتوی ہوگا جب کلاسیکی اسالیب سے واقفیت ہو۔ اسے ایک ٹکڑے میں تجنیس کے تین روپ نمایاں ہیں، انہیں معلوم اور محسوس کئے بغیر اس کو نہ تو پورے طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ یہ احوال ہے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کا اس صورتحال کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہی سرور کی نثر کا حسن۔ مزید مثالوں کی ضرورت نہیں کہ ایک تو یہاں گنجائش نہیں ، دوسرے یہ کہ اس اشارے کی روشنی میں پڑھنے والا خود ہی ایسی جگہ کو منتخب کرتا چلا جائے گا۔ یہ بھی اس کرو کے اس کتاب میں ایسے اجزاء ہیں کمی نہیں جن میں مرصع سازی کا کمال نقطہ عروج پر نظر آتا ہے؛ مگر بات وہی ہے کہ نگارش کے انداز اور ترصیع کے اس فن اور حسن کو سمجھنے کے لئے ذہن کا تربیت یافتہ ہونا اور کلاسیکی اسالیب سے واقفیت ضروری ہے ورنہ یہ سب بے جان الفاظ کا کھیل نظر آئے گا۔

معلوم نہیں یہ خیال ذہنوں میں کیسے سما گیا اور دلوں میں بیٹھ گیا ہے کہ فسانہ عجائب کی نثر بہت مشکل ہے۔ مشکل نثر کا معیار اگر نوطرزِمرصع کو مانا جائے، پھر اس کتاب کو آسان تر کہا جائے گا۔ مشکل نثر کی مثال میں اکثر اس کتاب کے وہ مقامات پیش کیے جاتے ہیں جہاں سے یہ کتاب شروع ہوتی ہے ، نظمیں کہانیاں یا نئے بیانات شروع ہوتے ہیں۔ یعنی تمہیدی مقامات اور یہ بڑی ناانصافی ہے۔ یہ بات ہمارے ذہن میں رہنا چاہیے کہ جس زمانے میں یہ کتاب لکھی گئی تھی ، اس زمانے میں کسو کی تمہید بہت پر تکلف انداز کی ہوا کرتی تھی۔ طلسم ہوش ربا کی زبان کو کون مشکل کہے گا، لیکن تمہیدی مقامات اس میں بھی پرتکلف انداز بیان سے خالی ہے۔ تمہیدی حصوں سے قطع نظر کو روا رکھا جائے ، تو پھر یہ معلوم ہوگا اس کتاب میں زبان اور بیان کے بطور عموم دو رنگ پائے جاتے ہیں۔ کہیں تو ایسا صاف سفاک بیان ہے کہ آج کے اوسط درجے کی استعداد رکھنے والے قاری کو بھی اس کے پڑھنے میں دقت نہیں ہو گی۔ خاص کر جہاں مکالمات ہیں وہ مقامات کو بیان کی شگفتگی اور زبان کی سلاست کے لحاظ سے کسی طرح کم رتبہ نہیں دوسرا اندازہ ہے جہاں علمیت کا رنگ ذرا گہرا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے مقامات پر بیان کند از وہی ہے جو متاثر ہندوستانی فارسی نثر نگاروں کے اثر سے رواج پا گیا تھا۔ ایسے مقامات اگر آج ہمیں کچھ مشکل نظر آتے ہیں تو اس کی اصل وجہ یہ نہیں کہ یہ بجائے خود مشکل ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے ہمارے دور کی عمومی کم استعدادی فارسی زبان سے ناواقفیت اور کلاسیکی اسالیب سے کم آشنائی۔ مصنف جس معاشرے کا فرد تھا اس معاشرے کے ان لوگوں کے لیے جو پڑھنے لکھنے سے تعلقات رکھتے تھے، یہ طرز ادا غیر معمولی نہیں تھا۔ مصنف نے اپنے زمانے کو پیش نظر رکھ کر یہ کتاب لکھی تھی، اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات بھی اسی سلسلے میں کہنے کی ہے کہ سرور نے جہاں شادی بیاہ کا یا شاہی جلوس کا احوال لکھا ہے، یا ایسی ہی اوربیانات لکھے ہیں جن میں مختلف اشیاء کے نام آتے ہیں؛ جہاں بھی اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ بیان میں کس طرح کی پیچیدگی یا زبان مغلق ہے؛ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ آج ہم ان بہت سی اشیاء سے واقف ہیں جن کے نام لکھے گئے ہیں اور جن سے متعلق تفصیلات لکھی گئی ہیں۔ یعنی یہ بھی حقیقی مشکل نہیں اس میں ہماری ناواقفیت کا عمل دخل ہے۔

یہ تو بالکل درست ہے کہ زبان کے لحاظ سے باغوبہار کو اگر معیار مان لیا جائے تو پھر یہ کتاب اس معیار پر پوری نہیں اترے گی؛ لیکن یہ عمل بجائے خود سراسر مصنوعی ہوگا۔ دو مختلف چیزوں کو مقابل رکھ کر ایک کو برتر بتانا قرین انصاف نہیں ہوسکتا۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح باغ و بہار میں ایک اسلوب کی تشکیل دی تھی، اسی طرح فسانہ عجائب میں بھی ایک مختلف اسلوب کی تشکیل کی تھی۔ اپنے اپنے دائرے میں یہ دونوں اسالیب مستقل حیثیت کے مالک ہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سرور کے زمانے میں لکھنؤ کے اس معاشرے میں معیاری حیثیت اسی اسلوب کو حاصل تھی جسے سرور نے اختیار کیا۔ یہاں محض ضمنی طور پر عرض کروں کے سرور نے جن مقامات پر روس کا احوال لکھا ہے، میں شادی بیاہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے ذیل میں رسموں ٹوٹکوں کا بیان آگیا ہے، کیا جیسے ابتدائی داستان میں جوتش کی اصطلاحوں کا مفصل تذکرہ آیا ہے جوتشیوں کی ہی زبان میں، یا مثلا چڑیمار اور اس کی بیوی کی گفتگو لکھی ہے جس میں اس پیشے کے بہت سے اصطلاحی لفظ بھی آگئے ہیں ، یا جہاں کوہ مطلب برآر کے جوگی کا بیان کیا ہے ؛ ایسے سارے مقامات پر دو تین باتیں بطور خاص توجہ طلب ہیں مثلا جہاں شاہی جلوس کا بیان ہے تو وہاں مختلف پوشاکوں ہتھیاروں عہدےداروں کہ اس قدر نام آئے ہیں اور ان سے متعلق اس قدر تفصیلات معرض بیان میں آئی ہیں کی پوری تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے واقعتاً شاہی جلوس و دیکھے تھے اور ان کی تفصیلات کے عکس اس کی آنکھوں میں سمائے ہوئے تھے۔ ان تفصیلات اور انکے داستانیں بیان میں مرقع نگاری کی شان پیدا ہوگئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جلوس کا وسیع اور عریض مرقع وجود میں آتا ہے، ہم جلوس کو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں یہ معمولی کمال نہیں۔ پھر یہ بات کہ ایسے مقامات پر ہر جگہ زبان صاف اور بیان شفاف ہے۔ اخلاق اور اشکال کی پرچھائیاں بھی نہیں پڑی ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ آج ہماری ناواقفیت بلکہ آسان پسندی اور اس سے بھی بڑھ کر وہ جو کم فرصتی سے زیادہ عجلت پسندی کا رجحان ہمارے ذہنوں میں سما گیا ہے؛ یہ سب مل کر ہمیں اس مغالطے میں مبتلا کر سکتے ہیں کہ یہ تو بہت مشکل بیان ہے۔ عورتوں کے مکالمے تو ایسی شفاف زبان میں لکھے گئے ہیں کہ نواب مرزا شوق کی مثنوی کے کوٹ شعرر یاد آ جاتے ہیں جوگی کی کٹیا کا حال اور بیان لکھنؤ میں لکھنؤ کے فنکاروں اور پیشہ وروں کا بیان ایسے سارے مقامات پر انداز بیاں میں المیتۃ رنگ تو ہے مگر گہرا نہیں ایسا نہیں کہ اس جرگے کی صدارت والا ان کو نہ سمجھ سکے میں یہ نہیں کہتا کہ مشکل مقامات اس میں ہے ہی نہیں ہیں اور ضرور ہیں لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں تیسری خاص بات جو ہمہ وقت نظر میں رکھنے کی ہے یہ ہے کہ سرور نے داستان لکھی تھی ناول نہیں لکھا تھا اور وہ داستان فورٹ ولیم کالج میں کل ٹرسٹ کے جدید ذہن اور نئے انداز سے نذر کے بنائے ہوئے خاکے کے تحت نہیں لکھی گئی تھی یہ داستان لکھنو کے اس معاشرے کے لئے لکھی گئی تھی جہاں داستان سرائیکی ظبعیت کو پسندیدگی کی سند حاصل ہورہی تھی اور جہاں مرصع سازی کو کمال فن سمجھا جانے لگا تھا یہ جو مثلا سردی کے بیان میں بہت سی تشبیہیں آگئی ہے یا ستارے آگئے ہیں یا مثلا کھانوں وغیرہ کے بیان میں بہت سے نام پے در پے آتے ہیں چلے جاتے ہیں تو یہ داستان سرائی کا خاص انداز ہے اس قسم کی وغیرہ سے مقامات کے ساتھ انصاف کیا ہی نہیں جاسکتا یہاں چونکہ لسانی تجزیہ مقصود نہیں اس لئے انہیں شہروں پر اکتفا کرتا ہوں ضرورت اس کی ہے کہ ایک مستقل موضوع کے طور پر کوئی واقف کار اس کتاب کی نثر کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں اور عیب و ہنر دونوں کی تفصیلات مرتب کرے میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں کوثر کا پلڑا بھاری نکلے گا جس زمانے میں نہیں زمانے میں کمال کی نشانی تھا اور جسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور جس کے تجزیے سے آج ہم میں سے بہت سے لوگ شاید سہی طور پر عہدہ برآ نہیں ہو سکے یہ ضمنی گفتگو ختم ہونے کو ایلک نسبت اسے ختم کرنے سے پہلے اسی سلسلے میں عزیز احمد کا اقتباس ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں طلسماتی داستانوں کے دور میں اور اس کی پیداوار کے طور پر کم سے کم ایک کتاب ایسے ظہور میں آئی جو ناول سے بہت قریب ہے یہ مرزا رجب علی بیگ سرور کا فسانہ عجائب ہے تین خصوصتیں اسے طلسمی ہوشربا اور بوستان خیال جیسی داستانوں سے ممتاز کرتی ہے پی لی تو اس کا اختصار۔۔۔۔۔۔۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ گرد و پیش کے ماحول سے بھی متاثر ہے۔۔۔۔۔۔۔تیسری خصوصیت یہ کہ مصنف قصے سے زیادہ زبانوں سے اسلوب پر توجہ دیتا ہے اور زبان کی داد چاھتا ہے۔۔۔یہ خصوصیت بہت ہی اہم ہے کہ مصنف نے اسلوب کو کتاب کی دلچسپی کی جان بنانا چاہا ہے اور اسطرح رتن ناتھ سرشار کے لیے راستہ صاف کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔سرشار کے یہاں بھی۔۔۔۔۔۔

اصل دلچسپی زبان میں عمل سے زیادہ مکالمے میں ہے (ترقی پسند ادب والے رجب علی بیگ سرور صفحہ 231 )

فسانہ عجائب کینسر میں بہت سے مقامات پر کچہ پن محسوس ہوتا ہے جو اور لفظی رعایتوں کیسر سروری پابندی نے بیٹنگ پر بھی پیدا کیا ہے جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے اس میں ان کی کم مشقیں کا دخل کچھ زیادہ معلوم ہوتا ہے ان کی دوسری کتاب ترجمہ اللہ کو دیکھئے جس کا نام شبستانوں رہے اس میں ایسی خامیاں اس طرح کا کچہ پن نہ ہونے کے برابر ہے۔

رعایت لفظی سرور کینسر کا عام جوہر ہے اور قافیہ بند جملے لکھنا خاص انداز ہے اس میں بجائے خود کچھ ایسی خرابی نہ تھی؛ مگر نظیر حد تک شوق بے حد قافیہ بندی کے شوق بے نہایت میں کچھ مقامات پر عبارت میں خرابی پیدا کردی ہے۔ داستانی انداز یوں ہی تفصیل بلکہ طوالت کا طلبگار رہا ہے۔ داستان میں ایجاز اور اختصار کو دخل حاصل نہیں ہوت، اس کے بیان کا بڑا حصہ بھی مزہ بن کر رہ جائے اگر اس میں مختلف مناظر آسیہ زبان وغیرہ کے سلسلے میں تفسیر نگاری اور عیش پسندی سے کام نہ لیا جائے لیکن سرور کے یہاں تفسیر نگاری کے ذیل میں بعض اوقات لفظ یا اس کے ایسے پھٹے ٹکڑے بھی آجاتے ہیں جو عبارت کو بےکیف بنادیتے ہیں۔ مثالوں کی تو یہاں گنجائش کم سے کم ہے، آپ صرف بطور مثال اس سے وہ دیکھئے جہاں جان عالم انجمن آرا کو ساتھ لے کر بادشاہ سے رخصت لیتا ہے اور عازمِ وطن ہوتا ہے [ ص 178 سے ص 185 ]

رعایت لفظی اور قافیہ بندی کے شوق فضول نے کئی جگہ بدمزگی پیدا کردی ہے۔ صرف ایک مثال "پھر شکار کا سامان میرشکار لائے جیتے جی دشمنوں کا برا چیتے بلکہ لہو پیتے۔ سیاہ گوش در اوس ہرن لڑنے والے خانہ زاد گھر کے پالے" [ ص 181] ایسے کئی جملے اس بیان میں مل سکتے ہیں [ اس کے باوجود اس بیان میں شاہی سازوسامان کا جیسا بیان ہے، مختلف شاہی کارخانوں کا جیسا احوال سامنے آتا ہے اور سامان سفر کا جس طرح بیان ہوا ہے؛ یہ سب بھی اپنی جگہ پر حیرت آفرین اور خوش ربا ہیں۔ شاہی سامان کا تو کیا ذکر، معمولی اشیاء اور افراد کا تذکرہ آج ہمارے لئے معلومات بخش بھی ہے اور اور حیرت آفرین بھی۔ مثلا سقوں کا بیان: " ان کے بعد ہزارہا سقا، خواجہ خضر کا دم بھرتا ، چھڑکاؤ کرتا ۔ کمر میں کھا روے کی لنگیاں ، شانوں پر بادلے کی جھنڈیاں ، مشکوں میں بید مشک بھرا ، دہانے میں ہزارے کا فوارہ چڑھا۔۔۔]

مسلم سردی کے بیان کو دیکھئے جو صفحہ 326 سے صفحہ 328 تک پھیلا ہوا ہے۔ اس بیان کے متعدد ٹکڑوں کو غیر ضروری اور غیر متناسب لفظی رعایتوں اور قافیہ بندی کے ہوکوں بے مزہ بلکہ بدمزہ بنا دیا ہے۔ صرف دو جملے بطور نمونہ کافی ہوں گے: " اشکِ شمع انجمن لگن تک گرتے گرتے اولا تھا، پروانوں نے پھرتے پھرتے ٹٹولا تھا"

" بندوق میں لاگ نہ تھی چانپ کے پتھروں میں آگ نہ تھی، توڑا ہر ایک گل تھا، توتے کی جگہ شورِ بلبل تھا۔"