مندرجات کا رخ کریں

عارف نامہ/دیباچہ

ویکی کتب سے

دیباچہ ِِ میں نے جب اپنے ایک دوست سے یہ کتاب لکھنے کا وعدہ کیا تھا تو یہ بات طے پائی تھی کہ اس کے سرورق پر میرا نام نہیں ہو گالیکن جب میں نے کام کیا تو میں نے کہاکہ مجھے اس کتاب کے سرورق پر اپنا نام لکھتے ہوئے فخر محسوس ہو گاکیونکہ یہ ایک ایسی شخصیت کی سرگزشت ہے جس نے صدیوں بعد مغرب کے گلیوں میں محمدالرسول اللہ کا ورد کیا ہے اور کرایا ہے، مادیت پرست معاشرے کی بدبوداراور گھٹاٹوپ تاریکیوں میںروشنی اور خوشبو کی ترسیل کی ہے۔ جل رہے ہیں ہر طرف عشقِ محمد (ص) کے چراغ کس کی لو میں اتنی روشنی تھی ، نور تھا میں جب پہلی بار اپنے اخبارکے انٹرویو کے لیے پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی کے پاس گیاتھاتومجھے حیرت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔اٹھارہ ساوتھ فیلڈ اسکوائرکوئی ایسی جگہ نہیں تھی جو کسی پیر کی رہائش کے لیے موزوں کہی جا سکے وہاں تو کسی مل کے مزدور کا مکان ہو سکتا ہے۔ میں جب مکان کے اندر داخل ہوا تو چھوٹے سے ایک کمرے پیر صاحب زمین پر بیٹھے ہوئے کوئی کام کر رہے تھے۔ ان کے سامنے بہت سے فائلیں پڑی ہوئی تھیں ۔میں نے غور سے کمرے کا جائزہ لیا تووہ کمرہ اتنا چھوٹا تھا کہ چھوٹی چھوٹی دو سیٹوں کے رکھ دینے کے بعدوہاں کوئی اور فرنیچر شاید ڈھنگ سے نہیںرکھا جا سکتا تھا۔ اسی کے اندر ایک طرف سنیک بھی لگا ہوا تھا ۔سیٹوں کی حالت یہ بتاتی تھی کہ شاید پیر صاحب نے اپنی جوانی کے دنوںمیں خریدی تھیں کیونکہ وہ بھی پیر صاحب کے ساتھ ساتھ اب بوڑھی ہو چکی تھیں۔ایک میز بھی پڑی تھی جس پرایک بار استعمال کیے جانے والے کچھ کاغذی برتن پڑے ہوئے تھے ۔پرانے زمانے کا گیس ہیٹر جل رہا تھا۔ سنٹرل ہیٹنگ کی کوئی لوہے کی دوہری چادر کسی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی تھی ۔دیواروں پر سلسلہ ئ نوشاہیہ کے شجرے اور اشتہار لگے ہوئے تھے ، کچھ تصویروں کے فریم بھی تھے ۔دیواروں کا وال پیپر صاف ستھرا تھا مگر بہت پرانے زمانے کے ڈیزائن کا تھا ۔ کارپٹ پر بیٹھ کر کام کرتے ہوئے شخص نے عینک لگا رکھی تھی۔ عام سی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ عینک کے پیچھے چمکتی ہوئی متحرک آنکھوں سے ذہانت سے بھری ہوئی معاملہ فہمی ٹپک رہی تھی۔ کھردرے ہاتھ اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ انہوں نے زندگی بھر مشکل کام کیے ہیں۔وہ جب وہاں سے اٹھے تو معلوم ہوا کہ دراز قد آدمی ہیںاو ربدن قامت کے اعتبار سے متناسب ہے۔چہرے پر اطمینان تھا۔پیشانی کشادہ تھی۔پیچھے سے بال سلامت اور مائل بہ درازی تھے۔ انہیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ ان کا تعلق ضرور کسی گائوں سے ہے اورانہیں بچپن اور لڑکپن میں گائوں کی صاف ستھری ہوا اور بکریوں کا دودھ میسر آیا ہے ۔ میں جب ان کا انٹرویو لینے کے لیے دفتر سے نکل رہا تھا تو میں نے اپنے ایک اخبار کے ساتھی سے ان کے متعلق پوچھا تھا تواس کے چہرے پر کوئی اچھے تاثرات نہیں آئے تھے اور اس نے اپنی چند لفظی گفتگو میں مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس شخص کے انٹرویو کی کوئی ضرورت نہیں ،لیکن اس شخص سے زیادہ یقین مجھے ظفربھائی ﴿ظفرتنویر ﴾ پر تھا جنہوں نے ان کے متعلق کہا تھا کہ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے تمام زندگی رات کی شفٹ میں کام کیا ہے اور دن کو اسلام کی تبلیغ کی ہے ۔پھر بھی میرا خیال تھا کہ پیر تو پیر ہوتے ہیں ۔مریدوں کے نذرانوں پراونچے اونچے محل تعمیر کرنے والے پیربقول اقبال ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن لیکن یہ شخصیت ویسی نہیں تھی جن کے ساتھ برسوں سے واسطہ پڑتا چلا آرہا تھا پھر ان کے ساتھ گفتگو سے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ پیر صاحب خاصے پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ فارسی اور پنجابی زبان میں شعربھی کہتے ہیں۔ فارسی سے تو میری کچھ زیادہ شدبد نہیں ہے مگر پنجابی زبان کے اسرارو رموز جاننے کا تو مجھے بھی دعویٰ ہے سو میں نے ان کی پنجابی شاعری میں دلچسپی لی اور وہ مجھے اتنی پسند آئی کہ میںنے ان کی پنجابی شاعری کے اردو زبان میں منظوم تراجم بھی کیے جو بہت جلد کتابی صورت میں شایع ہونے والے ہیں۔ پیر صاحب سے دوسری ملاقات ایک مشاعرے کے سلسلے میں ہوئی ۔میں نے پیر صاحب کو اس مشاعرہ کی صدارت کے لیے درخواست کی جو انہوں نے قبول کر لی۔ مشاعرہ سے دودن پہلے مجھے پیر صاحب کا فون آیا کہ میں مشاعرہ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ دوستوں نے اس مشاعرہ کو ایک سیاسی اشو بنا لیا ہے کیونکہ کچھ دنوں کے بعد برطانیہ میں نیشنل اسمبلی کے انتخابات ہورہے ہیں ۔دوستوں کا یہ خیال ہے کہ یہ مشاعرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور وہاں لیبر پارٹی کے امیدوار مارشا سنگھ سے میری ملاقات ہونی ہے۔ میں نے ان سے پو چھا آپ کا اپنا کیا خیال ہے تو انہوں نے کہا مجھے پورا یقین ہے کہ یہ سب غلط فہمی ہے مگر وقت کم ہے اور میں یہ غلط فہمی دور نہیں کر سکتا۔ اس لیے مناسب یہی سمجھتا ہوں کہ میں مشاعرہ میں نہ آئوں تاکہ کسی دوست کا دل نہ دکھے۔ میں شاعر ہوں مجھے مشاعرہ میں شریک ہونا اچھا لگتا ہے لیکن کیا میں دوستوں کے لیے اتنی قربانی نہیں دے سکتا اور مجھے پیر صاحب اور زیادہ بڑے آدمی محسوس ہوئے۔ پیر صاحب سے تیسری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں نماز کے حوالے سے ایک ڈاکومینٹری فلم بنا رہا تھا ۔میں نے اس سلسلے میں پیر صاحب سے مدد کی درخوست کی تو انہوں نے بریڈ فورڈ کے تمام علمائے کرام کو کہا کہ مجھے اس ڈاکومینٹری کے سلسلے میں جس قسم کی کوئی مدد کی ضرورت پڑے، وہ میرے ساتھ بھرپور تعاون کریں اور یوں پیر صاحب کے تعاون سے میں وہ ڈاکومینٹری بنانے میں کامیاب ہوا۔اس ڈاکومینٹری کا انتساب بھی میں نے پیر صاحب کے نام کیا تھا۔ پیر صاحب سے چوتھی ملاقات ان دنوں ہوئی جب پاکستان کے ممتاز موسیقار میاں شہر یار بریڈفورڈ میں میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں جب پیر صاحب کا عارفانہ کلام سنایا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس کلام کا ایک آڈیو کیسٹ تیار کرنا چاہتا ہوں سو اس کے لیے پیر صاحب کی اجازت ضروری تھی۔ میں انہیں ساتھ لے کر پیر صاحب کے پاس گیا۔ پیر صاحب نے بڑی خوش دلی سے اس بات کی اجازت دی۔ پیرصاحب کے عارفانہ کلام پر مشتمل وہ کیسٹ تیار ہو چکا ہے جس میں پاکستان کے نامور گلوکاروں نے پیر صاحب کے کلام کو سازو آواز کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کے بعد اتفاقاً میری رہائش گاہ تبدیل ہو گئی اور میں نے پیر صاحب کے ساتھ والی گلی میں رہنا شروع کر دیا یوں پیر صاحب سے ملاقات کا سلسلہ اور بڑھتا چلا گیا ۔میں جس قدر پیر صاحب کے قریب ہوتا گیا وہ مجھے اس قدر زیادہ اچھے لگنے لگے، وگرنہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب آدمی کسی شخصیت کے زیادہ قریب ہوتا ہے تو اس کے ظاہر و باطن کے تضادات دکھائی دینے لگتے ہیں اور آدمی اس سے متنفر ہوتا چلا جاتا ہے اور حافظ شیرازی کی طرح پکار اٹھتا ہے ، واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند چوں بخلوت می رویدایںکار دیگر می کنند اور پھر جب یہ کتاب لکھنے کے سلسلے میں مجھے پیر صاحب کے ماضی میں جھانکنے کا موقع ملاتو مجھے اس شخصیت کو زندگی میں اپنا رہنما ماننے میںکوئی تردد نہیں ہوا۔ان کی زندگی ایک جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ ان کا ہرسانس اللہ کے نام کی روشنی سے بھرا ہوا ہے اور محمد(ص) کے لفظ کی رفعتوںسے سرفراز ہے۔ جوانی سے بڑھاپے تک ایک اضطراب افزائ تسلسل کے ساتھ وہ دیار مغرب میںدینِ مصطفی(ص) کی ترویج کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور کبھی تھک کر نہیں بیٹھے ،کبھی سستائے نہیں ،کبھی اپنے پائوں کے تلووں سے خار چننے کے لیے کسی درخت کے نیچے نہیں رکے۔ مشرق کی تپتی ہوئی دھوپ ہو یا مغرب کی جمتی ہوئی برفاب ہوا، ان کا سفر جاری ہے بلکہ وہ تو غالب کی زبان میں ہمیشہ یہی کہتے ہوئے دکھائی دیے کہ ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جہاں ان سے محبت کرنے والوں کاجہاں آباد ہے، وہاں ان کے دشمن بھی کچھ کم نہیں لیکن ان تمام دشمنیوں کے پیچھے صرف اور صرف محبتِ رسول کا جذبہ کار فرما ہے ۔ منصورآفاق