سراج النسا کا انتقال
گزشتہ صفحہ: بچپن کی شوخیاں
جب ابوالحسن نے ملا عبدالرحمٰن کو تنگ کرنا شروع کیا تو مجبوراً ابوالمحاسن نے اپنے لاڈلے بیٹے کو کسی اور کے سپرد کیا۔ دوسرے ملا صاحب گو اس کی شرارتوں اور شوخیوں سے ہمیشہ تنگ اور شاکی رہتے تھے مگر اس کی ذہانت اور یادداشت اور حافظہ قوت سے بہت متاثر ہوتے تھے، ان کا خیال تھا۔ کہ اگر یہ لڑکا ظرافت اور شرارت کو ترک کر دے تو کسی دن ایسا عالم و فاضل ہو گا کہ لوگ اسے عالم متبحر کے نام سے پکارا کریں گے۔ اور دراصل وہ ٹھیک کہتے تھے۔
ابوالحسن کی والدہ چونکہ لکھی پڑھی تھی اس لیے وہ اس کو گھر پر ہی اکثر پڑھایا کرتی تھی بلکہ پوچھو تو جو کچھ اس نے برا بھلا علم حاصل کیا وہ اپنی مہربان ماں کی بدولت ہی تھا۔
ابوالحسن کی عمر نو اور دس سال کے درمیان میں تھی کہ اس پر ایک ایسی آفت سماوی نازل ہوئی جس نے ناصرف اس کی علمی لیاقت کے راستے ہی بند کر دیے بلکہ اس کو ایک ایسی سخت مصیبت دیکھنی پڑی جس سے سارے اس کی بے وطنی اور تباہی ظہور میں آئی کہ اس کی پیاری ماں سراج النسا کا 956ء میں انتقال ہو گیا۔
نادان بچے کو کیا خبر تھی کہ ماں کے مرتے ہی ناصرف میری بلکہ میرے باپ کی زندگی بھی تلخ ہو جائے گی۔ لیکن اسے کیا خبر تھی کہ ان کے رخصت ہوتے ہی دولت و اقبال جاہ و حشمت اور عزت و آبرو بھی رخصت ہو جائے گی۔
اگلا صفحہ: شادی خانہ بربادی
رجوع بہ فہرست مضامین: سوانح عمری ملا دوپیازہ