مندرجات کا رخ کریں

زمرہ:ردیف ے

ویکی کتب سے

<>ردیف ے

دیوان ِمنصور آفاق

dewan mansoor afaq

[ترمیم]
mansoor afaq poetry

وہ شب و روز خیالوں میں تماشا نہ کرے
آ نہیں سکتا تو پھر یاد بھی آیا نہ کرے

ایک امید کی کھڑکی سی کھلی رہتی ہے
اپنے کمرے کا کوئی ، بلب بجھایا نہ کرے

میں مسافر ہوں کسی روز تو جانا ہے مجھے
کوئی سمجھائے اسے میری تمنا نہ کرے

روز ای میل کرے سرخ اِمج ہونٹوں کے
میں کسی اور ستارے پہ ہوں ، سوچا نہ کرے

حافظہ ایک امانت ہے کسی کی لیکن
یاد کی سرد ہو ا شام کو رویا نہ کرے

چاند کے حسن پہ ہر شخص کا حق ہے منصور
میں اسے کیسے کہوں رات کو نکلا نہ کرے






دیوان منصور آفاق

 






دل کو کچھ دن اور بھی برباد رکھنا چاہئے
اور کچھ اس بے وفا کو یاد رکھنا چاہئے

کونج کی سسکاریاں کانوں میں اتریں تو کھلا
گھر بڑی شے ہے اسے آباد رکھنا چاہئے

ریل میں جس سے ہوئی تھی یونہی دم بھر گفتگو
خوبصورت آدمی تھا ، یاد رکھنا چاہئے

موسم گل ہے کہیں بھی لڑکھڑا سکتا ہے دل
ہر گھڑی اندیشہ ئ افتاد رکھنا چاہئے

مت پکڑ منصور پتوں میں یہ چھپتی تیتری
ایسی نازک چیز کو آزاد رکھنا چاہئے






دیوان منصور آفاق

 





ردیف ے



 

تیسری غزل





میں خود پہلو میں ہوں اپنے بدن اپنا مکمل ہے
اسے کہنا بغیر اس کے مری دنیا مکمل ہے

گلی کی برف پر کھنچیں لکیریں بے خیالی میں
ادھورے نقش ہیں کچھ کچھ مگر چہرہ مکمل ہے

مجھے روکا ہوا ہے جسم کی دہلیز پر اس نے
ادھوری ہے وفا اپنی ، تعلق نامکمل ہے

لکیر اپنے لہو کی ہے ابھی اِن دونوں ٹکڑوں میں
خزانے تک پہنچنے کا کہاں نقشہ مکمل ہے

مجھے شہر نگاراں سے نئے کچھ زخم لینے ہیں
وہ جو دل میں رفو کاکام نکلا تھا مکمل ہے

بلا کا خوبصورت ہے کوئی اُس بالکونی میں
ہے بے مفہوم سا مکھڑا مگر کتنا مکمل ہے

محبت کا سفر بھی کیا کرشمہ ساز ہے منصور
ادھر منزل نہیں آئی ادھر رستہ مکمل ہے



دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چوتھی غزل





بھر گئی تھی بیسمنٹ نیکیوں کے شور سے
کہہ رہا تھا کون کیا ساتویں فلور سے

نیم گرم دودھ کے ٹب میں میرے جسم کا
روشنی مساج کر اپنی پور پور سے

زاویہ وصال کا رہ نہ جائے ایک بھی
شاد کام جسم ہو لمس کے سکور سے

فاختہ کے خون سے ہونٹ اپنے سرخ رکھ
فائروں کے گیت سن اپنی بارہ بور سے

بام بام روشنی پول پول لائٹیں
رابطے رہے نہیں چاند کے چکور سے

وحشتِ گناہ سے نوچ لے لباس کو
نیکیوں کی پوٹلی کھول زور زورسے

واعظوں کی ناف پر کسبیوں کے ہاتھ ہیں
کوتوال ِشہر کی دوستی ہے چور سے

شیر کے شکار پر جانے والی توپ کی
رات بھر بڑی رہی بات چیت مور سے



دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

پانچویں غزل



گھونٹ بھرا چائے کا تیرے گھر کچھ دیر رکے
جیسے موٹر وے کی سروس پر کچھ دیر رکے

حیرانی سے لوگ بھی دیکھیں میری آنکھ کے ساتھ
کیمرہ لے کے آتا ہوں ۔۔ منظر کچھ دیر رکے

اتنی رات گئے تک کس ماں کے پہلو میں تھا
کتے کا بچہ اور اب باہر کچھ دیر رکے

کیسی کیسی منزل ہجرت کرتی آتی ہے
دیس سے آنے والی راہ گزر کچھ دیر رکے

وہ منصور کبھی تو اتنی دیر میسر ہو
اس کی جانب اٹھے اور نظر کچھ دیر رکے





دیوان منصور آفاق  

ردیف ے



 

چھٹی غزل



فراق بیچتے کیسے ، پلان کیا کرتے
بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے

ہمیں خبر ہی نہ تھی رات کے اترنے کی
سو اپنے کمرے کا ہم بلب آن کیا کرتے

نکل رہی تھی قیامت کی دھوپ ایٹم سے
یہ کنکریٹ بھرے سائبان کیا کرتے

تھلوں کی ریت پہ ٹھہرے ہوئے سفینے پر
ہوا تو تھی ہی نہیں بادبان کیا کرتے

بدن کا روح سے تھااختلاف لیکن ہم
خیال و واقعہ کے درمیان کیا کرتے

دکھائی دیتا تو تشکیک کیوں جنم لیتی
یقین ہوتا ہمیں تو گمان کیا کرتے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

ساتویں غزل



یہ سچ کی آگ پرے رکھ مرے خیالوں سے
بھرا ہوا ہوں سلگتے ہوئے سوالوں سے

مکانِ ذات کے دیمک زدہ کواڑ کھلے
بھری ہوئی ہیں چھتیں مکڑیوں کے جالوں سے

مجھے پسند ہے عورت ، نماز اور خوشبو
انہی کو چھینا گیا ہے مرے حوالوں سے

عمل کے اسم سے بابِ طلسم کھلنا ہے
اتار رینگتی صدیوں کا زنگ تالوںسے

بھٹک رہا ہے سرابوں کی شکل میں پانی
قضا ہوا کوئی چشمہ کہیں غزالوں سے

نہ مانگ وقت کی باریش چھائوں سے دانش
لٹکتے کب ہیں ثمر برگدوں کے بالوں سے

ق

بدل رہی ہے کچھ ایسے گلوب کی گردش
ڈرے ہوئے ہیں ستارے خود اپنی چالوں سے

مکاں بھی اپنے مکینوں سے اب گزیراں ہیں
گلی بھی خود کو چھپاتی ہے چلنے والوں سے

وہ تیرگی کہ لرزتے ہیں بام و در شب کے
وہ روشنی ہے کہ سورج ڈرے اجالوں سے

یہ روز وشب ہیں تسلسل سے منحرف منصور
یہ ساعتیں کہ الگ ہو گئی ہیں سالوں سے



دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

آٹھویں غزل



فروغ ِکُن کو صوتِ صورِاسرافیل ہونا ہے
پہاڑوں کا بھی اب جغرافیہ تبدیل ہونا ہے

زمیں پر خیر وشر کے آخری ٹکرائو تک مجھ کو
کبھی ہابیل ہونا ہے کبھی قابیل ہونا ہے

کہاں معلوم ہوتا ہے تماشا ہونے سے پہلے
کسے پردے میں رہنا ہے کسے تمثیل ہونا ہے

ابھی تعلیم لینی ہے محبت کی ، ابھی میں نے
بدن کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہونا ہے

کوئی ہے نوری سالوں کی طوالت پر کہیں منصور
مجھے رفتار سر کرتی ہوئی قندیل ہونا ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

ناویں غزل



رک گئے پیر فرید اور وارث باہو چلتے چلتے
لفظ کے در پر جب آئے ہم سادھو چلتے چلتے

یاد تھکن ہے ایک سڑک کی ،یاد ہے دکھ کا رستہ
بیٹھ گیا تھا میرے کاندھوں پر توُ چلتے چلتے

تیرا میرا نام بھی شاید لافانی کر جائے
برگدکے مضبوط تنے پر چاقو چلتے چلتے

وار قیامت خیز ہوئے دو دھاری تلواروں کے
رخساروں کو چیر گئے ہیں آنسو چلتے چلتے

ایک محل کے بند کواڑوں سے منصور نکل کر
میرے صحن تلک آئی ہے خوشبو چلتے چلتے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

دسویں غزل



وہ چوک میں کھڑا ہے پھریرا لئے ہوئے
یہ اور بات فوج ہے گھیرا ٰلئے ہوئے

آنکھیں کہ رتجگوں کے سفر پر نکل پڑیں
اک دلنواز خواب سا تیرا لئے ہوئے

اللہ کے سپرد ہے خانہ بدوش دوست
وہ اونٹ جا رہے ہیں’’ بسیرا ‘‘لئے ہوئے

اندر کا حبس دیکھ کے سوچا ہے بار بار
مدت ہوئی ہے شہر کا پھیرا لئے ہوئے

چلتے رہے ہیں ظلم کی راتوں کے ساتھ ساتھ
آنکھوں میں مصلحت کا اندھیرا لئے ہوئے

رہنا نہیںہے ٹھیک کناروں کے آس پاس
پھرتا ہے اپنا جال مچھیرا لئے ہوئے

گردن تک آ گئے ہیں ترے انتظار کے
لمبے سے ہاتھ ، جسم چھریرا لئے ہوئے

لوگوں نے ڈھانپ ڈھانپ لیا درز درز کو
منصور پھر رہا تھا سویرا لئے ہوئے

گھیرا لئے ہوئے ۔۔۔ اعتراض کی گنجائش موجود ہے۔


دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

گیارہویں غزل



ساتھ نہ تھا کوئی اپنے ساتھ سے پہلے
دھند تھی دنیا شعورِ ذات سے پہلے

بزم ِسخن میں اک تارہ بول پڑا تھا
غم کی تلاوت تھی ، حمد و نعت سے پہلے

نیند بھری رات ! انتظار کسی کا
ہوتا تھا ترک ِتعلقات سے پہلے

کہتے ہیں خالی نگر میں رہتی ہیں روحیں
لوٹ ہی جائیں آ گھر کو ، رات سے پہلے

کیسا تھا سناٹا تیرے عہد ِ عدم میں
کیسی خموشی تھی پہلی بات سے پہلے

خواب تھے پنہاں شکست ِ زعم میں شاید
فتح کی باتیں کہاں تھیں مات سے پہلے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

بارہویں غزل



تیرے کرنوں والے ہٹ میں رات کرنا چاہتی ہے
ساحلوں پر زندگی سن باتھ کرنا چاہتی ہے

اپنے بنگلوں کے سوئمنگ پول کی تیراک لڑکی
میرے دریا میں بسر اوقات کرنا چاہتی ہے

وقت کی رو میں فراغت کا نہیں ہے کوئی لمحہ
اور اک بڑھیا کسی سے بات کرنا چاہتی ہے

چاہتا ہوں میں بھی بوسے کچھ لبوں کی لاٹری کے
وہ بھی ملین پونڈ کی برسات کرنا چاہتی ہے

مانگتا پھرتا ہوں میں بھی لمس کا موسم کہیں سے
وہ بھی اپنے جسم کی خیرات کرنا چاہتی ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

تیرہویں غزل



کتاب ہاتھ میں ہے اور کج ، کلاہ میں ہے
مگر دماغ ابو جہل کی سپاہ میں ہے

بلند بام عمارت ! تری ہر اک منزل
مقام ِصفر کی بے رحم بارگاہ میں ہے

پڑی ہے ایش ٹرے میں سلگتے لمس کی راکھ
ملن کی رات ابھی عر صہ ئ گناہ میں ہے

بھٹکتا پھرتا ہوں ظلمات کے جزیرے میں
بلا کی رات کسی دیدہ ئ سیاہ میں ہے

رکا نہیں ہوں کسی ڈاٹ کا م پر منصور
گلوب پائوں تلے تو خلا نگاہ میں ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چودہویں غزل



کوئی نرم نرم سی آگ رکھ مرے بند بند کے سامنے
چلے فلم کوئی وصال کی دلِ ہجر مند کے سامنے

یہ عمل ومل کے کمال چپ ، یہ ہنروری کے جمال چپ
یہ ہزارگن سے بھرے ہیں کیا ، ترے بھاگ وند کے سامنے

کھلی کھڑکیوں کے فلیٹ سے ذرا جھانک شام کو روڈ پر
ترے انتظار کی منزلیں ہیں مری کمند کے سامنے

کئی ڈاٹ کام نصیب تھے جسے زینہ زنیہ معاش کے
وہ منارہ ریت کا دیوتا تھا اجل پسند کے سامنے

ابھی اور پھینک ہزار بم ، مرے زخم زخم پہاڑ پر
کوئی حیثیت نہیں موت کی ، کسی سر بلند کے سامنے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

پندرہویں غزل



ہجر کو تاپتے تاپتے جسم سڑنے لگا ہے
اس لِونگ روم کا وال پیپر اکھڑنے لگا ہے

گھر کے باہر گلی میں بھی بکھرے ہیں پتے خزاں کے
کیسا تنہائی کے پیڑ سے درد جھڑنے لگا ہے

خواب جیسے دریچے میں آتی ہے دوشیزہ کوئی
کچھ دنوں سے مرا چاند پر ہاتھ پڑنے لگا ہے

اک توبالشتیے ہم ، پلازوں کی اونچائی میں ہیں
دوسرا شہر میں آسماں بھی سکڑنے لگا ہے

آندھیاں اور بھی تیز رفتار ہونے لگی ہیں
اب تو یہ لگ رہا ہے کہ خیمہ اکھڑنے لگا ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

سولہویں غزل



آسماں کے حرا پہ اترا ہے
اک محمد خدا پہ اترا ہے

بول ! زنجیر ریل گاڑی کی
کون کیسی جگہ پہ اترا ہے

سوچتا ہوں کہ رحم کا بادل
کب کسی کربلا پہ اترا ہے

کس کے جوتے کا کھردرا تلوا
سدرۃالمنتہیٰ پہ اترا ہے

خیر کی آرزو نہ راس آئی
قہر دست ِ دعا پہ اترا ہے

جھونک دے گی ہر آنکھ میں منصور
راکھ کا دکھ ہوا پہ اترا ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

سترہویں غزل



گنبدوں سی کچھ اٹھانیں یاد آتی ہیں مجھے
گفتگو کرتی چٹانیں یاد آتی ہیں مجھے

میرے گھر میں توکوئی پتیل کا برتن بھی نہیں
کس لئے سونے کی کانیں یاد آتی ہیں مجھے

ان نئی تعمیرکردہ مسجدوں کو دیکھ کر
کیوں شرابوں کی دکانیں یاد آتی ہیں مجھے

یاد آتی ہے مجھے اک شیرنی سے رسم و راہ
اور دریچوں کی مچانیں یاد آتی ہیں مجھے

سیکھتی تھی کوئی اردو رات بھر منصور سے
ایک ہوتی دو زبانیں یاد آتی ہیں مجھے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

اٹھارہویں غزل



وہ لپیٹ کر نکلی تولیے میں بال اپنے
بوند بوند بکھرے تھے ہر طرف خیال اپنے

درد کے پرندوں کو آنکھ سے رہائی دے
دیکھ دل کے پنجرے میں رو پڑے ملال اپنے

یہ صدا سنائی دے کوئلے کی کانوں سے
زندگی کے چو لہے میں جل رہے ہیں سال اپنے

کسِ نے بند کرنے اور کھولنے کی خواہش میں
جنیز کے اٹیچی میں بھر دئیے جمال اپنے

قتل تو ڈرامے کا ایکٹ تھا کوئی منصور
کس لئے لہو سے ہیں دونوں ہاتھ لال اپنے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

انیسویں غزل



حرکت ہر ایک شے کی معطل دکھائی دے
جاگا ہوا نگر بھی مجھے شل دکھائی دے

آتے ہوئے منٹ کی طوالت کا کیا کہوں
گزری ہوئی صدی تو مجھے پل دکھائی دے

پلکوں کے ساتھ ساتھ فلک پر کہیں کہیں
مجھ کو کوئی ستارہ مسلسل دکھائی دے

برسات کی پھوار برہنہ کرے تجھے
تیرے بدن پہ ڈھاکہ کی ململ دکھائی دے

پیچھے زمین ٹوٹ کے کھائی میں گر پڑی
آگے تمام راستہ دلدل دکھائی دے

ہجراں کی رات نرم ملائم کچھ اتنی ہے
مجھ کو ترا خیال بھی بوجھل دکھائی دے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

بیسویں غزل



زیادہ بے لباسی کے سخن اچھے نہیں ہوتے
جو آسانی سے کھلتے ہیں بٹن اچھے نہیں ہوتے

کئی اجڑے ورق خوشبو پس ِ ملبوس رکھتے ہیں
کئی اچھی کتابوں کے بدن اچھے نہیں ہوتے

کبھی ناموں کے پڑتے ہیں غلط اثراتٰ قسمت پر
کبھی لوگوں کی پیدائش کے سن اچھے نہیں ہوتے

غزالوں کے لئے اپنی زمینیں ٹھیک رہتی ہیں
جو گلیوں میں نکل آئیں ہرن اچھے نہیں ہوتے

محبت کے سفر میں چھوڑ دے تقسیم خوابوں کی
کسی بھی اک بدن کے دو وطن اچھے نہیں ہوتے

بڑی خوش چہرہ خوشبو سے مراسم ٹھیک ہیں لیکن
گلابوں کے بسا اوقات من اچھے نہیں ہوتے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

اکیسویں غزل



اک سین دیکھتے ہیں زمیں پر پڑے پڑے
پتھرا گئے ہیں فلم میں منظر پڑے پڑے

کیسا ہے کائنات کی تہذیب ِکُن کاآرٹ
شکلیں بدلتے رہتے ہیں پتھر پڑے پڑے

اے زلف ِ سایہ دار تری دوپہر کی خیر
جلتا رہا ہوں چھائوں میں دن بھر پڑے پڑے

ویراں کدے میں جھانکتے کیا ہو نگاہ کے
صحرا سا ہو گیا ہے سمندر پڑے پڑے

سوچا تھا منتظر ہے مرا کون شہر میں
دیکھا تو شام ہوگئی گھرپر، پڑے پڑے

شکنوں کے انتظارمیںاے کھڑکیوں کی یار
بوسیدہ ہو گیا مرا بستر پڑے پڑے

منصور کوئی ذات کا تابوت کھول دے
میں مررہاہوں اپنے ہی اندر پڑے پڑے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

بائیسویں غزل



کسی لحاف کے موسم کو اوڑھنا ہے مجھے
بدن کی برف کا کچھ زور توڑنا ہے مجھے

کسی سے میلوں پرے بیٹھ کرکسی کے ساتھ
تعلق اپنی نگاہوں کا جوڑنا ہے مجھے

نکالنا ہے غلاظت کو بوٹ کے منہ سے
یہ اپنے ملک کا ناسور پھوڑنا ہے مجھے

کسی کا لمس قیامت کا چارم رکھتا ہے
مگر یہ روز کا معمول توڑنا ہے مجھے

فش اینڈ چپس سے اکتا گیا ہوں اب منصور
بس ایک ذائقے کا وصل چھوڑنا ہے مجھے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

تیئسویں غزل



اچھے بزنس مین کی پہچان ہے
ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے

دوڑتی پھرتی ہوئی بچی کے پاس
دور تک اک گھاس کا میدان ہے

صبح تازہ کی اذاں کے واسطے
میرے کمرے میں بھی روشن دان ہے

پتھروں سے مل نہ پتھر کی طرح
سنگ میں بھی روح کا امکان ہے

موت آفاقی حقیقت ہے مگر
زندگی پر بھی مرا ایمان ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چوبیسویں غزل



یہ عمر جیل کے اندر گزار سکتے تھے
جو چاہتے تو اسے جاں سے مار سکتے تھے

یہ اور بات کہ راتیں رہی ہیں ہم بستر
ہم اپنے ہاتھ پہ سورج اتار سکتے تھے

بہت تھے کام کسی ڈاٹ کام پر ورنہ
غزل کی زلف ِ پریشاں سنوار سکتے تھے

وہ ایک کام جو ممکن تھا رہ گیا افسوس
جو ایک جاں تھی اسے تجھ پہ وار سکتے تھے

ہمیشہ ربط کے پندار کا بھرم رکھا
صباحت ِ لب و رخ تو وسار سکتے تھے

یہ بار بند نہ ہوتا تو ہم شرابی لوگ
تمام رات کسینو میں ہار سکتے تھے

کسی سے کی تھی محبت کی بات کیا منصور
کہ ایک مصرعے میں جیسے ہزار سکتے تھے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

پچیسویں غزل



کچھ ہڈیاں پڑی ہوئی ، کچھ ڈھیر ماس کے
کچھ گھوم پھر رہے ہیں سٹیچو لباس کے

فٹ پاتھ بھی درست نہیں مال روڈ کا
ٹوٹے ہوئے ہیں بلب بھی چیرنگ کراس کے

پھر ہینگ اوور ایک تجھے رات سے ملا
پھر پائوں میں سفر وہی صحرا کی پیاس کے

ہنگامہ ئ شراب کی صبح ِ خراب سے
اچھے تعلقات ہیں ٹوٹے گلاس کے

کیوں شور ہو رہا ہے مرے گرد و پیش میں
کیا لوگ کہہ رہے ہیں مرے آس پاس کے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چھبیسویں غزل



ننگ کا بھی لباس اگ آئے
کچھ بدن پر کپاس اگ آئے

ہم نفس کیا ہوا سوئمنگ پول
پانیوں میں حواس اگ آئے

۱۔آتے جاتے رہو کہ رستے میں
یوں نہ ہو پھر سے گھاس اگ آئے

سوچ کر کیا شجر قطاروں میں
پارک کے آس پاس اگ آئے

گائوں بوئے نہیں اگر آنسو
شہر میں بھوک پیاس اگ آئے

کوئی ایسی بہار ہو منصور
استخوانوں پہ ماس اگ آئے

جاپانی کہاوت


دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

ستائیسویں غزل



باہر نکل لباس سے کچھ اور دھوم سے
میں آشنا نہیں ہوں بدن کے علوم سے

لگتا ہے تو بھی پارک میں موجود ہے کہیں
مہکی ہوئی ہے شام ترے پرفیوم سے

میں چاہتا ہوں تیرے ستارے پہ ایک شام
ای میل اور بھیج نہ شہر ِ نجوم سے

کس نے بنایا وقت کا پہلا کلوز شارٹ
آنکھوں کے کیمرے کے فسوں کار زوم سے

نکلا ہی تھا دماغ سے اک شخص کا خیال
منصور بھر گئیں مری آنکھیں ہجوم سے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

اٹھائیسویں غزل



حصارِ جبہ و دستار سے نکل آئے
فقیر ظلم کے دربار سے نکل آئے

دکھائی کیا دیا اک خط ِمستقیم مجھے
کہ دائرے مری پر کار سے نکل آئے

خبرہو نغمہ ئ گل کو ، سکوت کیا شے ہے
کبھی جو رنگ کے بازار سے نکل آئے

پہن لے چھائوں جو میرے بدن کی تنہائی
تو دھوپ سایہ ئ دیوار سے نکل آئے

ادھر سے نیم برھنہ بدن کے آتے ہی
امام ِ وقت ۔ اِ دھر، کار سے نکل آئے

ذرا ہوئی تھی مری دوستی اندھیروں سے
چراغ کتنے ہی اس پار سے نکل آئے

کبھی ہوا بھی نہیں اور ہو بھی ہو سکتا ہے
اچانک آدمی آزار نکل سے آئے

یہ چاہتی ہے حکومت ہزار صدیوں سے
عوام درہم و دینار سے نکل آئے

دبی تھی کوئی خیالوں میں سلطنت منصور
زمین چٹخی تو آثار سے نکل آئے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

انتیسویں غزل



لکھنے والوں میں محترم کیا ہے
چیک پہ چلتا ہوا قلم کیا ہے

ہے بلندی کا فوبیا ورنہ
یہ حریم ِحرم ورم کیا ہے

مسئلے تو ہزار ہیں لیکن
تیری موجودگی میں غم کیا ہے

روز پانی میں ڈوب جاتا ہوں
ایک دریا مجھے بہم کیا ہے

اے سٹیچو بشیر بابا کے
بول کیا ؟ دید کیا ؟ قدم کیا ہے ؟

مرہم ِ لمس بے کنار سہی
صحبت ِ انتظار کم کیا ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف الف



 

تیسویں غزل



آنکھوں سے منصور شباہت گر جاتی ہے
ٹوٹے جو شیشہ تو صورت گر جاتی ہے

روز کسی بے انت خزاں کے زرد افق میں
ٹوٹ کے مجھ سے شاخ ِتمازت گرجاتی ہے

باندھ کے رکھتا ہوں مضبوط گرہ میں لیکن
پاکستانی نوٹ کی قیمت گر جاتی ہے

اک میری خوش وقتی ہے جس کے دامن میں
صرف وہی گھڑیال سے ساعت گرجاتی ہے

لیپ کے سوتا ہوں مٹی سے نیل گگن کو
اٹھتا ہوں تو کمرے کی چھت گر جاتی ہے

ہجر کی لمبی گلیاں ہوں یا وصل کے بستر
کہتے ہیں کہٰ عشق میں صحت گر جاتی ہے

برسوں ظل ِ الہی تخت نشیں رہتے ہیں
خلق ِ خدا کی روز حکومت گر جاتی ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

اکتیسویں غزل



پھر شام دشت روح و بدن تک اتار کے
اس نے بچھا دی ریت پہ اجرک اتار کے

کس نے نمازیوں کو بلانے سے پیش تر
رکھا زمیں پہ عرش کا پھاٹک اتار کے

پھرتی ہے رات ایک دئیے کی تلاش میں
باہر نہ جانا چہرے سے کالک اتار کے

کرتی ہیں مجھ سے اگلے جہاں کا مکالمہ
آنکھیں میرے دماغ میں اک شک اتار کے

صدیوں سے دیکھ دیکھ کے شامِ زوال کو
رکھ دی ہے میں نے میز پہ عینک اتار کے

بے رحم انتظارنے آنکھوں میں ڈال دی
دروازے پر جمی ہوئی دستک اتار کے

دیوار پہ لگی ہوئی تصویر یار کی
اک لے گیا دوکان سے گاہک اتار کے

منصور کیا ہوا ہے تعلق کے شہر کی
دل نے پہن خامشی ڈھولک اتار کے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

بتیسویں غزل



پتھر کے رتجگے میری پلکوں میں گاڑ کے
رکھ دیں ترے فراق نے آنکھیں اجاڑ کے

اتنی کوئی زیادہ مسافت نہیں مگر
مشکل مزاج ہوتے ہیں رستے پہاڑ کے

آنکھوں سے خدو خال نکالے نہ جا سکے
ہر چند پھینک دی تری تصویر پھاڑ کے

یہ پھولپن نہیں ہے کہ سورج کے آس پاس
رکھے گئے ہیں دائرے کانٹوں کی باڑ کے

مٹی میں مل گئی ہے تمنا ملاپ کی
کچھ اور گر پڑے ہیں کنارے دراڑ کے

بے مہر موسموں کو نہیں جانتا ابھی
خوش ہے جو سائباں سے تعلق بگاڑ کے

دو چار دن لکھی تھی جدائی کی سرگزشت
منصور ڈھیر لگ گئے گھر میں کباڑ کے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

تیتیسویں غزل



دیکھتا ہوں خواب میں تیرے محل کے آئینے
یہ کہاں تک آ گئے ہیں ساتھ چل کے آئینے

میں نے دیواروں پہ تیری شکل کیا تصویر کی
آ گئے کمرے میں آنکھوں سے نکل کے آئینے

آدمی نے اپنی صورت پر تراشے دیوتا
آپ اپنی ہی عبادت کی ، بدل کے آئینے

ساڑھی کے شیشوں میں میرا لمس ِ تازہ دیکھ کر
تیرے شانوں سے نظر کے ساتھ ڈھلکے آئینے

آخری نقطے تلک دیکھا تھا اپنی آنکھ میں
اور پھر دھندلا گئے تھے ہلکے ہلکے آئینے

ایک سورج ہے ترے مد مقابل آج رات
دیکھ اس کو دیکھ لیکن کچھ سنبھل کے آئینے

سینہ ئ شب میں حرارت تھی کچھ اتنی چاند کی
پارہ پارہ ہو گئے ہیں دو پگھل کے آئینے

پھر برہنہ شخصیت ہونے لگی دونوں طرف
جب شرابوں سے بھرے کچھ دیر چھلکے آئینے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چوتیسویں غزل



مراسلے دیارِ غیب کے قلی کے دوش پر پڑے رہے
بڑے بڑے بریف کیس شانہ ئ سروش پر پڑے رہے

پیانو پہ مچلتی انگلیوں کے بولتے سروں کی یاد میں
تمام عمرسمفنی کے ہاتھ چشم و گوش پر پڑے رہے

ہزار ہا کلائیاں بہار سے بھری رہیں ہری رہیں
نصیب زرد موسموں کے دستِ گل فروش پر پڑے رہے

برہنہ رقص میں تھی موت کی کوئی گھڑی ہزار شکر ہے
کہ سات پردے میرے دیدہ ئ شراب نوش پر پڑے رہے

اٹھا کے لے گئی خزاں تمام رنگ صحن سے حیات کے
کسی نے جو بنائے تھے وہ پھول میز پوش پر پڑے رہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

پیتیسویں غزل



یہ مارکر سے لکھا گیٹ پر بڑا کرکے
میں جا رہا ہوں گلی سے معانقہ کر کے

تُو زود رنج ہے لیکن برا نہیں دل کا
فریب دیتا ہوں خود کو ترا گلہ کرکے

میں کیا بتائوں شبِ التفات کا قصہ
گلی میں چھوڑ دیا اس نے باولہ کرکے

میں فلم کا کوئی ہیرو نہیں مگر اس کو
بھلا دیا ہے قیامت کا حوصلہ کر کے

سپیڈ میں نے بڑھا دی ہے کار کی منصور
قریب ہونے لگی تھی وہ فاصلہ کر کے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چھتیسویں غزل



بزمِ مے نوشاں کے ممبر تو کئی تھے
آئینہ خانے میں سوبر تو کئی تھے

دل ہی کچھ کرنے پہ آمادہ نہیں تھا
ڈائری میں فون نمبر تو کئی تھے

میں نے بچپن میں کوئی وعدہ کیا تھا
ورنہ گائوں میں حسیں بر تو کئی تھے

صبح تنہائی تھی اور خالی گلاس
ہم زباں ہم رقص شب بھر تو کئی تھے

تیرے آتش دان کی رُت ہی نہیں تھی
لمس کے دھکے دسمبر تو کئی تھے

ایک اک کمرے میں بستر موت کا تھا
آس کی بلڈنگ میں چیمبر تو کئی تھے

گیسوئوں کے آبشار آنکھوں کی جھیلیں
ہم پکھی واسوں کے امبر تو کئی تھے

خاک کا الہام تنہا ایک تُو تھا
آسمانوں کے پیمبر تو کئی تھے

شہر میں منصور بس کوئی نہیں تھا
رونق ِئ محراب و منبر تو کئی تھے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

سیتیسویں غزل



یہ چاند یہ چراغ مہیا ہے کس لئے
یہ میری دسترس میں ثریا ہے کس لئے

چلتی ہوئی سڑک پہ زمانہ کہے مجھے
چوکور تیری کار کا پہیہ ہے کس لئے

مجھ سے تو ایک پھول خریدا نہ جا سکا
یہ میرے پاس اتنا روپیہ ہے کس لئے

ہیٹر تو بالکونی کا بھی آن ہے مگر
اس درجہ سرد گھر کا رویہ ہے کس لئے

دنیا میں بے شمار ہیں اُس جیسے اور لوگ
ممکن نہیں ملن تو تہیہ ہے کس لئے

کیا سیکھتے ہو پانی پہ چلنے کا معجزہ
اس پار جانے والے یہ نیا ہے کس لئے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

اٹھتیسویں غزل



شہر کی فتح بابِ شک پر ہے
منحصر لوگوں کی کمک پر ہے

کلمہ کا ورد کر رہے ہیں لوگ
آخری شو کا رش سڑک پر ہے

فیملی جا رہی ہے لے کے اسے
گھر کا سامان بھی ٹرک پر ہے

پڑھ رہا ہوں ہزار صدیوں سے
کیا کسی نے لکھا دھنک پر ہے

بھیج مت پرفیوم جانِ جاں
حق مرا جسم کی مہک پر ہے

چاند ہے محوِ خواب پہلو میں
یعنی بستر مرا فلک پر ہے

میری پلکوں کی ساری رعنائی
موتیوں کی چمک دمک پر ہے

آس کا شہر ہے سمندر میں
اور بنایا گیا نمک پر ہے

دل کی موجودگی کا افسانہ
بادلوں کی گرج چمک پر ہے

چاند کی ہاتھ تک رسائی بھی
دلِ معصوم کی ہمک پر ہے

کس نے ہونا ہے شہر کا حاکم
فیصلہ بوٹ پر دھمک پر ہے

کون قاتل ہے فیصلہ، منصور
فائروں کی فقط لپک پر ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

انتالیسویں غزل



آنکھ کے قطرہ ئ عرق پر ہے
علم بس عشق کے سبق پر ہے

منزلِ ہجر سے ذرا آگے
اپنا گھر چشمہئ قلق پر ہے

کوئی آیا ہے میرے انگن میں
ابر صحرائے لق و دق پر ہے

ایک ہی نام ایک ہی تاریخ
ڈائری کے ورق ورق پر ہے

شامِ غم کے نگار خانے میں
زخم پھیلا ہوا شفق پر ہے

سن رہا ہوں کہ میرے ہونے کی
روشنی چودھویں طبق پر ہے

دیکھ کر کارِ امت شبیر
لگ رہا ہے یزید حق پر ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چالیسویں غزل



یہ کیا چراغِ تمنا کی روشنی ہوئی ہے
ہر ایک چشمِ تماشا سے دشمنی ہوئی ہے

تُو چشمِ ہجر کی رنگت پہ تبصرہ مت کر
یہ انتظار کے جاڑے میں جامنی ہوئی ہے

نہ پوچھ مجھ سے طوالت اک ایک لکنت کی
یہ گفتگو کئی برسوں میں گفتنی ہوئی ہے

چمکتی ہے کبھی بجلی تو لگتا ہے شاید
یہیں کہیں کوئی تصویر سی بنی ہوئی ہے

ابھی سے کس لئے رکھتے ہو بام پر آنکھیں
ابھی تو رات کی مہتاب سے ٹھنی ہوئی ہے

ابھی نکال نہ کچھ انگلیوں کی پوروں سے
ابھی یہ تارِ رگ جاں ذرا تنی ہوئی ہے

شراب خانے سے کھلنے لگے ہیں آنکھوں میں
شعاعِ شام سیہ ، ابر سے چھنی ہوئی ہے

نظر کے ساتھ سنبھلتا ہوا گرا پلو
مری نگاہ سے بے باک اوڑھنی ہوئی ہے

کچھ اور درد کے بادل اٹھے ترے در سے
کچھ اور بھادوں بھری تیرگی گھنی ہوئی ہے

کلی کلی کی پلک پر ہیں رات کے آنسو
یہ میرے باغ میں کیسی شفگتنی ہوئی ہے

اک ایک انگ میں برقِ رواں دکھائی دے
کسی کے قرب سے پیدا وہ سنسنی ہوئی ہے

جنوں نواز بہت دشتِ غم سہی لیکن
مرے علاوہ کہاں چاک دامنی ہوئی ہے

میں رنگ رنگ ہوا ہوں دیارِ خوشبو میں
لٹاتی پھرتی ہے کیا کیا ، ہوا غنی ہوئی ہے

سکوتِ دل میں عجب ارتعاش ہے منصور
یہ لگ رہا ہے دوبارہ نقب زنی ہوئی ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

اکتالیسویں غزل



عشق میں کوئی کہاں معشوق ہے
دل مزاجاً میری جاں معشوق ہے

جس سے گزرا ہی نہیں ہوں عمر بھر
وہ گلی وہ آستاں معشوق ہے

رفتہ رفتہ کیسی تبدیلی ہوئی
میں جہاں تھا اب وہاں معشوق ہے

ہے رقیب ِ دلربا اک ایک آنکھ
کہ مرا یہ آسماں معشوق ہے

مشورہ جا کے زلیخا سے کروں
کیا کروں نامہرباں معشوق ہے

صبحِ ہجراں سے نشیبِ خاک کا
جلوہئ آب رواں معشوق ہے

ہیں مقابل ہر جگہ دو طاقتیں
اور ان کے درمیاں معشوق ہے

گھٹیاں کہتی ہیں دشتِ یاد کی
اونٹنی کا سارباں معشوق ہے

وہ علاقہ کیا زمیں پر ہے کہیں
ان دنوں میرا جہاں معشوق ہے

میں جہاں دیدہ سمندر کی طرح
اور ندی سی نوجواں معشوق ہے

ہر طرف موجودگی منصور کی
کس قدر یہ بے کراں معشوق ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

بیالیسویں غزل



ہجراں کے بے کنار جہنم میں ڈال کے
پلکیں سفید کر گئے دو پل ملال کے

میں آنکھ کی دراز میں کرتا ہوں کچھ تلاش
گہرے سیاہ بلب سے منظر اجال کے

دفنا نہیں سکا میں ابھی تک زمین میں
کچھ روڈ پر مرے ہوئے دن پچھلے سال کے

بستر پہ کروٹوں بھری شکنوں کے درمیاں
موتی گرے پڑے ہیں تری سرخ شال کے

تصویر میں نے اپنی سجا دی ہے میز پر
باہر فریم سے ترا فوٹو نکال کے

پازیبِ کے خرام کی قوسیں تھیں پائوں میں
کتھک کیا تھا اس نے کناروں پہ تھال کے

اڑنے دے ریت چشمِ تمنا میں دشت کی
رکھا ہوا ہے دل میں سمندر سنبھال کے

سر پہ سجا لئے ہیں پرندوں کے بال و پر
جوتے پہن لئے ہیں درندوں کی کھال کے

آنکھوں تلک پہنچ گئی ، دلدل تو کیا کروں
رکھا تھا پائوں میں نے بہت دیکھ بھال کے

حیرت فزا سکوت ہے دریائے ذات پر
آبِ رواں پہ اترے پرندے کمال کے

میں سن رہا ہوں زرد اداسی کی تیز چاپ
جھڑنے لگے ہیں پیڑ سے پتے وصال کے

منصور راکھ ہونے سے پہلے فراق میں
سورج بجھانے والا ہوں پانی اچھال کے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

تیتالیسویں غزل



تھی کہاں اپنے میانوالی سے بیزاری اسے
لے گئی ہے اِک سڑک کی تیز رفتاری اسے

نہر کے پل پر ٹھہر جا اور تھوڑی دیر ، رات
روک سکتی ہے کہاں اِک چار دیواری اسے

کوئی پہلے بھی یہاں پر لاش ہے لٹکی ہوئی
کہہ رہی ہے دل کے تہہ خانے کی الماری اسے

پوچھتی پھرتی ہے قیمت رات سے مہتاب کی
تازہ تازہ ہے ابھی شوقِ خریداری اسے

جو طلسم حرف میں اترا ہے اسمِ نعت سے
قریہ ئ شعر و سخن کی بخش سرداری اسے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چوالیسویں غزل



نیم عریاں کر گئی ہے رقص کی مستی اسے
دیکھنے کو جمع ہے ترسی ہوئی بستی اسے

جیسے حرکت کا بہائو ، جیسے پانی کا مزاج
کھینچتی ہے اپنی جانب اس طرح پستی اسے

ایک ہی بیڈ روم میں رہتے ہوئے اتنا فراق
چوم لینا چاہئے اب تو زبردستی اسے

کھینچ لایا میرے پہلو کی سنہری دھوپ میں
شامِ شالا مار کا باغیچہ ئ وسطی اسے

اس سیہ پاتال میں ہیں سورجوں کی بستیاں
زینہ در زینہ کہے ، بجھتی ہوئی ہستی اسے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

پیتالیسویں غزل



جاگتے دل کی تڑپ یا شب کی تنہائی اسے
کونسی شے میرے کمرے کی طرف لائی اسے

اس قدر آنکھوں کو رکھنا کھول کر اچھا نہیں
لے گئی تاریکیوں میں اس کی بینائی اسے

ڈوبنا اس کے مقدر میں لکھا ہے کیا کروں
اچھی لگتی ہے مری آنکھوں کی گہرائی اسے

بجھ گیا تھا چاند گہرے پانیوں میں پچھلی رات
ڈھانپتی اب پھر رہی ہے دور تک کائی اسے

جو برہنہ کر گیا ہے ساری بستی میں مجھے
میں نے اپنے ہاتھ سے پوشاک پہنائی اسے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چھتالیسویں غزل



لے گئی ہے دور اتنا ، ایک ہی غلطی اسے
سوچتا ہوں کیا کروں کیسے کہوں سوری اسے

رفتہ رفتہ نیم عریاں ہو گئی کمرے میں رات
لگ رہی تھی آگ کی تصویر سے گرمی اسے

ایک بستر میں اکیلی کروٹیں اچھی نہیں
بھول جانی چاہئے اب شام کی تلخی اسے

لوگ کتنے جگماتے پھر رہے ہیں آس پاس
ہے یہی بہتر بھلا دو تم ذرا جلدی اسے

اُتنا ہی مشکل ہے یہ کارِ محبت جانِ من
تم سمجھتے پھر رہے ہو جس قدر ایزی اسے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

سیتالیسویں غزل



تری تعمیر کی بنیاد اپنی بے گھری پر ہے
مگر اب احتجاج جاں فصیلِ آخری پر ہے

جسے حاصل کیا ہے تُو نے اپنی بیچ کر لاشیں
مرا تھو ایسی صدرِ مملکت کی نوکری پر ہے

فقط میری طرف سے ہی نہیں یہ پھولوں کا تحفہ
خدا کی لعنت ِ پیہم بھی تیری قیصری ہے

جلوس اپنا ابھی نکلے گا کالی کالی قبروں سے
نظر اپنی بھی زر آباد کی خوش منظری پر ہے

ترے آسیب کا سایہ شجر ایسا سہی لیکن
ترا اب انحصار اپنی ہوائے سر پھری پر ہے

قسم مجھ کو بدلتے موسموں کے سرخ رنگوں کی
ترا انجام اب لوگوں کی آشفتہ سری پر ہے

نظامِ زر !مجھے سونے کے برتن دے نہ تحفے میں
مرا ایمان تو خالی شکم کی بوزری پر ہے

زیادہ حیثیت رکھتی ہے پانی پت کی جنگوں سے
وہ اک تصویر بابر کی جو تزکِ بابری پر ہے

فرشتے منتظر ہیں بس سجا کر جنتیں اپنی
مرا اگلا پڑائو اب مریخ و مشتری پر ہے

وہ جو موج سبک سر ناچتی ہے میری سانسوں میں
سمندر کا تماشا بھی اسی بس جل پری پر ہے

اسے صرفِ نظر کرنے کی عادت ہی سہی لیکن
توقع ، بزم میں اپنی مسلسل حاضری پر ہے

یقینا موڑ آئیں گے مرے کردار میں لیکن
ابھی تو دل کا افسانہ نگاہِ سرسری پر ہے

عجب تھیٹر لگا ہے عرسِ حوا پر کہ آدم کی
توجہ صرف اعضائے بدن کی شاعری پر ہے

وفا کے برف پرودہ زمانے یاد ہیں لیکن
یقیں منصور جذبوں کی دہکتی جنوری پر ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

اڑتالیسویں غزل



مجھے کیا اعتماد الفاظ کی جادوگری پر ہے
تری توصیف اک احسان میری شاعری پر ہے

ترے دربار سے کچھ مانگنا گر کفر ٹھہرا ہے
تو میں کافر ہوں مجھ کو ناز اپنی کافری پر ہے

تری رفعت تفکر کی حدودِ فہم سے بالا
ترا عرفان طنزِ مستقل دانشوری پرہے

سراپا ناز ہو کر بھی نیازِ عشق کے سجدے
خدا کو فخر بس تیرے خلوصِ دلبری پر ہے

صلائے عام ہے وہ بنض ِ ہستی تھام لے آکر
جو کوئی معترض آقا تری چارہ گری پر ہے

مجھے تسخیرِ یزداں کا عمل معلوم ہے منصور
کرم خاکِ مدنیہ کا مری دیدہ وری پر ہے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

انتالیسویں غزل





بنام ِ میر

کون درزوں سے آئے رس رس کے
میرا کمرہ کرے سخن کس کے

میں گلی میں سلگتا پھرتا ہوں
جل رہے ہیں چراغ مجلس کے

بازووں پر طلوع ہوتے ہی
کٹ گئے دونوں ہاتھ مفلس کے

کیا ہے میک اپ زدہ طوائف میں
جز ترے کیا ہیں رنگ پیرس کے

میں بھی شاید موہنجو داڑو ہوں
اب بھی سر بند راز ہیں جس کے

متحرک ہیں غم کی تصویریں
چل رہے ہیں بدن حوادث کے

دیکھ چھو لے مجھے ذرا اے دوست
دیکھنا پھر کرشمے پارس کے

وقت کے ساتھ میرے سینے پر
بڑھتے جاتے ہیں داغ نرگس کے

تم سمجھ ہی کہاں سکے منصور
مسئلے عشق میں ملوث کے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

پچاسویں غزل





بنام غالب

مان لیا وہ بھی میرا یار نہیں ہے
اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے

جاگ رہا ہوں میں کتنے سال ہوئے ہیں
کیسے کہوں اس کا انتظار نہیں ہے

ٹوٹ گئے ہیں دو پھر امید بھرے دل
ٹکڑے ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہے

میرا بدن برف ہے یا تیر ِ نظر میں
پہلے پہل والی اب کے مار نہیں ہے

عہدِ خزاں میں ہے میرا باغ کہ جیسے
دامن ئ تقدیر میں بہار نہیں ہے

سنگ اچھالے ہیں اس نے بام سے مجھ پر
جیسے گلی اس کی رہگزار نہیں ہے

ایک دعا ہے بس میرے پاس عشائ کی
رات! مرا کوئی غمگسار نہیں ہے

صرف گھٹا ہے جو دل بہلائے برس کے
اور کوئی چشمِ اشکبار نہیں ہے

سرخ ہے بے شک نمود چہرہ ئ تاریخ
دامن ئ تہذیب داغ دار نہیں ہے

سنگ زدہ اس کے رنگ ڈھنگ ہیں لیکن
آدمی ہے کوئی کوہسار نہیں ہے

پار کروں گا میں اپنی آگ کا دریا
دیکھ رہا ہوں یہ بے کنار نہیں ہے

وقت نہیں آج اس کے پاس ذرا بھی
اور یہاں رنگِ اختصار نہیں ہے

مست ہوائیں بھی ماہتاب بھی لیکن
رات بھری زلفِ آبشار نہیں ہے

گھوم رہا ہوں فصیلِ ذات کے باہر
کوئی بھی دروازہ ئ دیار نہیں ہے

ایک نہیں قحط عشق صرف یہاں پر
شہر میں کوئی بھی کاروبار نہیں ہے

پھیر ہی جا مجھ پہ اپنا دستِ کرامت
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے

درج ہے نیلی بہشتِ خواب کا منظر
آنکھ میں منصور کی غبار نہیں ہے ا




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

اکاونویں غزل



میں نے ذرا جو دھوپ سے پردے اٹھا دئیے
پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دئیے

پوچھی پسند یار کی میں نے فراق سے
آہستگی سے رات نے مجھ کو کہا ، دئیے

کہہ دو شبِ سیاہ سے لے آئے کالکیں
ہاتھوں پہ رکھ کے نکلی ہے خلقِ خدا دئیے

ہر دل چراغ خانہ ہے ہر آنکھ آفتاب
کتنے بجھا سکے گی زمیں پر ،ہوا ،دئیے

بڑھنے لگی تھی دھوپ مراسم کی آنکھ میں
دریا کے میں نے دونوں کنارے ملا دئیے

بالوں میں میرے پھیر کے کچھ دیر انگلیاں
کیا نقش دل کی ریت پہ اس نے بنا دئیے

بھادوں کی رات روتی ہے جب زلفِ یار میں
ہوتے ہیں میری قبر پہ نوحہ سرا دئیے

کافی پڑی ہے رات ابھی انتظار کی
میری یقین چاند ، مرا حوصلہ دئیے

اتنا تو سوچتے کہ دیا تک نہیں ہے پاس
مٹی میں کیسے قیمتی موتی گنوا دئیے

کچھ پل ستم شعار گلیوں میں گھوم لے
عرصہ گزر گیا ہے کسی کو دعا دئیے

میں نے بھی اپنے عشق کا اعلان کردیا
فوٹو گراف شیلف پہ اس کے سجا دئیے

منصور سو گئے ہیں اجالے بکھیر کر
گلیوں میں گھومتے ہوئے سورج نما دئیے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

باونویں غزل



یہ بے ضمیر۔ قوم و وطن بیچتے ہوئے
کچھ سوچتے نہیں ہیں کفن بیچتے ہوئے

کچھ دیکھتے کہاں ہیں یہ سوداگرانِ خاک
دریا ، پرند ، برگ و سمن بیچتے ہوئے

گنتے ہیں غیر ملکی کرنسی کے صرف نوٹ
حکام بیٹیوں کے بدن بیچتے ہوئے

خوش ہیں امیر شہر محلات میں بہت
ابلیس کو دیار ِ عدن بیچتے ہوئے

اس عہدِ زر پرست کی آواز بن گئے
اپنے قلم کو اہلِ سخن بیچتے ہوئے

ہیں اہتمام ِ رقص ِطوائف میں منہمک
منصور باغبان چمن بیچتے ہوئے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

ترپنویں غزل





شاخِ بدن پہ کوئی تعلق کھلے ہوئے
عرصہ گزر گیا ہے کسی سے ملے ہوئے

میں کیا کروں کہ مجلسِ دل میں تمام رات
تیری شکایتیں ہوئیںتیرے گلے ہوئے

میں نے مقام ِ طور پہ دیکھا خود اپنا نور
صبحِ شعورِ ذات کے کچھ سلسلے ہوئے

پہلے ہی کم تھیں قیس پہ صحرا کی وسعتیں
ہجراں کے مدرسے میں نئے داخلے ہوئے

منصور دو دلوں کی قرابت کے باوجود
اپنے گھروں کے بیچ بڑے فاصلے ہوئے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چونویں غزل





دل میں پڑی کچھ ایسی گرہ بولتے ہوئے
ناخن اکھڑ گئے ہیں اسے کھولتے ہوئے

سارے نکل پڑے تھے اسی کے حساب میں
بچوں کی طرح رو پڑی دکھ تولتے ہوئے

میں کیا کروں کہ آنکھیں اسے بھولتی نہیں
دل تو سنبھل گیا ہے مرا ڈولتے ہوئے

کہنے لگی ہے آنکھ میںپھر مجھ کو شب بخیر
پانی میں شام اپنی شفق گھولتے ہوئے

کنکر سمیت لائے ہمیشہ مرا نصیب
منصور موتیوں کو یونہی رولتے ہوئے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

پچپنویں غزل



یہ کائنات ِ روح و بدن چھانتے ہوئے
میں تھک گیا ہوں تجھ کوخدا مانتے ہوئے

اک دو گھڑی کا تیرا تعلق کہے مجھے
صدیاں گزر گئی ہیں تجھے جانتے ہوئے

پھرتا ہوں لے کے آنکھ میں ذرے کی وسعتیں
صحرا سمٹ گئے ہیں مجھے چھانتے ہوئے

برکھا کے شامیانے سے باہر ندی کے پاس
اچھا لگا ہے دھوپ مجھے تانتے ہوئے

یہ بھول ہی گیا کوئی میرا بھی نام تھا
ہر وقت نام یار کا گردانتے ہوئے

اس کے کمال ِ ضبط کی منصور خیر ہو
صرف ِ نظر کیا مجھے پہچانتے ہوئے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چھپنویں غزل



زمیں سے عرش پہ نازل کلام کیاکرتے
ادھورے گیت سے حاصل دوام کیاکرتے

اُدھر بلاوا تھااُس کا کہ میں اکیلی ہوں
اِدھر ادھو رے تھے دفتر کے کام کیاکرتے

ہر آسماں سے نیا آسماں دکھائی دے
جہاز عرش کا رستہ تمام کیاکرتے

ازل تھا میز پہ جن کی ،ابدتھا جیب کے بیچ
حیات و موت کا وہ احترام کیا کرتے

ہوا نے رنگ بکھیرے نہ پھول نے خوشبو
ترے بغیر ادھوری تھی شام کیا کرتے

زمین ہوتی توہم بھی کہیں قدم رکھتے
مقام ہی نہ تھا کوئی ، قیام کیا کرتے

ہم اپنی ذات کی سڑکوں کے گم شدہ منصور
وصال و فاصلہ کااہتمام کیا کرتے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

ستاونویں غزل





خراب و خستہ و ناکام کو ترے غم نے
بنایا خاص کسی عام کو ترے غم نے

یہ جانتا ہی نہیں ہے فراق کے آداب
لگا دی آگ درو بام کو ترے غم نے

کھلے ہوئے ہیں درختوں کے بال وحشت سے
رلا دیا ہے عجب شام کو ترے غم نے

میں آنسوئوں کے گہر ڈھونڈتا تھا پہلے بھی
بڑھایا اور مرے کام کو ترے غم نے

بنادیا ہے جہاں بھر میں معتبر کیا کیا
مجھ ایسے شاعرِ بے نام کو ترے غم نے

بدل دیا ہے یقیں کے گمان میں منصور
فروغِ ہجر کے الزام کو ترے غم نے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

اٹھاونویں غزل





ٹہل رہا تھا کوئی سنگ سنگ رنگوں کے
بدل رہے تھے تسلسل سے رنگ رنگوں کے

وہ آسمان پہ شام ِ وصال پھرتی ہے
بچھے ہیں قوسِ قزح پہ پلنگ رنگوں کے

اتر نہ جائے درختوں سے گل رتوں کی شال
پہن لے کپڑے ذرا شوخ و شنگ رنگوں کے

تری گلی سے نکلتے نہیں ہیں جانِ بہار
فقیرعارضِ گل کے ملنگ رنگوں کے

تری مہک سے بڑھاتے ہیں اپنی توقیریں
میں جانتا ہوں سبھی رنگ ڈھنگ رنگوں کے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

انسٹھویں غزل



دستکوں کی آس پر لکڑی کے در بوڑھے ہوئے
اور ہم مغرور مجنوں اپنے گھر بوڑھے ہوئے

یہ الگ ہے گھٹ گئی فصلِ ثمر باری مگر
بڑھ گئی کچھ اور چھائوں جب شجر بوڑھے ہوئے

جس کی تزئین کیلئے اپنی جوانی صرف کی
دوست ہم اس شہر کے فٹ پاتھ پر بوڑھے ہوئے

صبح کی تجسیم کرنا غیر ممکن ہو گیا
رات کو جو کاٹتے تھے کاریگر بوڑھے ہوئے

رو پڑی لگ کر گلے دریا سے پھر پاگل ہوا
جب لبِ ساحل کسی بگلے کے پر بوڑھے ہوئے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

ساٹھویں غزل



ہوتے مرے بھی خال و خد ، آئینہ دیکھتا مجھے
سنگِ جہاں نژاد ہوں ، کوئی تراشتا مجھے

کشف ِ وصال و ہجر میںکیسا شعورِ ذات ہے
عشق کہے میں کون ہوں حسن کہے وفا مجھے

اس کے خرامِ ناز پہ کوئی چراغ کیا جلا
شب کے نگار خانے میں بادِ صبا لگا مجھے

لکھی غزل ہے میر نے میرے چرا چرا کے خواب
غالبِ خستہ حال نے بارِ دگر کہا مجھے

قریہ ئ ماہ تاب تک چھان کے آگیا ہوں میں
منزلِ وصل کیلئے اتنا نہ اب پھرا مجھے

اس کو حیات بخش دی ، مہر منیر ہو گیا
شاخ صلیب ِ شام پہ جس نے کہا خدا مجھے

جانا جہاں تھا اس طرف اپنی ازل سے پیٹھ ہے
چلنا ابد تلک پڑا یوں ہی بے فائدہ مجھے

کتنے ہزار سال سے تجھ کو منا رہا ہوں میں
میرے قریب بیٹھ کر توُ بھی کبھی منا مجھے

مجھ سے ترا فروغ کن مجھ سے ہے گردشِ فلک
میرا مقام و مرتبہ ، پستی نہیں ، اٹھا مجھے

میرے علاوہ اور بھی کچھ ہے ترے خیال میں
میرے مزاج آشنا! تجھ سے یہی گلہ مجھے

ٹوٹ کے شاخِ سبز سے دشت ستم خرام میں
لکھنا ہے گرم ریت پر پھولوں کا مرثیہ مجھے

میں نے کہا کہ آنکھ میں دھند بھری ہے رنگ کی
اس کے مہیں لباس پر کرنا تھا تبصرہ مجھے

خیمہ ئ کائنات کی ٹوٹی ہوئی طناب کو
حرف صدائے کن بتا کیسے ہے تھامنا مجھے



اس کی طلب کے حکم پر رہنا جہاں پڑا مجھے
لوگ برے برے لگے شہر خراب سا مجھے

میرا طلسم جسم بس میرے محاصرے میں ہے
اپنے نواحِ ذات میں کھینچ دیا گیا مجھے

ایک کرن شعور کی ، ایک بہار نور کی
اپنے چراغِ طور کی بخش کوئی چتا مجھے

مجھ سے بڑا کوئی نہیں‘ رات کے اک چراغ نے
کھنچی ہوئی لکیر میں رہ کے یہی کہا مجھے

آمدِ یار کیلئے جمع چراغِ چشم ہیں
کھینچنا ہے گلی گلی نور کا حاشیہ مجھے

پائوں میں ہے غبارِ راہ ، آنکھ میں منظر ِ سیہ
دل ہے طلب کدہ مرا کوئی دیا دکھا مجھے

اس کے وجودِ سنگ میں دل ہی نہیں رکھا گیا
پھر بھی گماں یہی کہ ہے دل پہ لکھا ہوا مجھے

کوئی نہیں بتا سکا کیسے جیئوں ترے بغیر
دیتا تمام شہر ہے ، جینے کا مشورہ مجھے

رستہ تھا روشنی بکف ، گھر تھا چمن بنا ہوا
تیرے مگر فراق کے دکھ نے جگا دیا مجھے

میرا وہاں ہے آسماں تیری جہاں ہیں پستیاں
میرے بدن پہ پائوں رکھ ، قوس قزح بنا مجھے

کہتی ہے داستانِ نور ، آکے سیہ لباس میں
مرتے ہوئے دیار کی بجھتی ہوئی چتا مجھے

سنگ صفت دیار کی شام سیہ نصیب میں
چھوٹے سے اس مکان کا کتنا ہے آسرا مجھے

مستی سے بھر، ترنگ دے،دل کو کوئی امنگ دے
اپنے بدن کا رنگ دے، خود سے ذرا ملا مجھے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

اکسٹھویں غزل



تُو پہلے لوح پہ لکھا ہوا بدل چل کے
پھر اس کے بعد زمانوں کو روند چل چل کے

اکیلا دیکھ کے تالاب کے کنارے پر
تسلی دینے مجھے آ گیا کنول چل کے

مجھے دکھا نہ دہکتے ہوئے پہر کا جلال
جا اپنی شام کی عبرت سرا میں ڈھل چل کے

صدائوں سے وہ سفینہ پلٹ نہیں سکتا
اِسی جزیرہ وحشت میں ہاتھ مل چل کے

نکال دشتِ تعلق سے اپنی تنہائی
کسی حبیب کے گھر جا ، ذرا سنبھل چل کے

وہ سنگ زاد پگھلتا نہیں مگر پھر بھی
اسے سنا کوئی جلتی ہوئی غزل چل کے

طلوعِ حسن کی ساعت پہ تبصرہ کیا ہو
نکل رہا ہے کوئی آسماں کے بل چل کے

مزاجِ خانہ ئِ درویش کو خراب نہ کر
چراغ! اپنے حریم ِ حرم میں جل چل کے

فسادِ خلقِ خدا پہ امید صبحوں کی
بغاوتوں کی کرن ہیں تماشے ہلچل کے

رکی ہے چرخ کی چرخی کسی خرابی سے
نکال وقت کے پہییے سے اب خلل چل کے

مثالِ تیر لپکتے ہوئے تعاقب میں
ابد میں ہو گیا پیوست خود ازل چل کے

اب اس کے بعد کہانی ترے کرم کی ہے
خود آ گیا ہے یہاں تک توبے عمل چل کے

ندی کی پیاس بجھا ریت کے سمندر سے
کسی پہاڑ کی چوٹی سے پھر ابل چل کے

سنا ہے کھڑکیاں کھلتی ہیں چاند راتوں میں
کسی کو دیکھ مرے دل ، کہیں مچل چل کے

مجھے بھی آتے دنوں کا شعور حاصل ہو
پڑھوں کہیں پہ گذشتہ کا ماحصل چل کے

بس ایک فون کی گھنٹی ، بس ایک ڈور کی بیل
کسی کی آگ میں پتھر بدن !پگھل چل کے

عجب ہے حسنِ تناسب کی داستاں منصور
بنا ہے ’تاج محل‘ موت کا محل چل کے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

باسٹھویں غزل



چیزوں سے گرد جھاڑتے ، لان کی باڑ کاٹتے
کیسے نکلتے زخم سے، کیسے پہاڑ کاٹتے

پچھلی گلی کی نیند سے آتے طبیب خواب کے
ہجر کی فصد کھولتے ، درد کی ناڑ کاٹتے

چلتیں گھڑی کی سوئیاں ، اپنے بدلتے روز و شب
دن کا ملال ٹوٹتا ، شب کا بگاڑ کاٹتے

قیدی نظام ِزر کے ہیں دست بریدہ لوگ ہم
دانتوں سے کیسے لوہے کے بھاری کواڑ کاٹتے

قوسِ قزح بچھا کے ہم کنجِ صبا میں بیٹھ کر
دیدہ ئ صادقین سے تھور کا جھاڑ کاٹتے

یاد کے راٹ وائلر ، ہوتے اگر نہ آس پاس
بھیڑے دشتِ درد کے جسم کو پھاڑ کاٹتے

حسنِ طلب کے شہر میں گنتے بدن کے لوتھڑے
تیغِ سکوتِ مرگ سے من کا کراڑ کاٹتے

بیچ نئے وصال کے بوتے کہ ہم سیہ نصیب
کشتِ خرابِ عمر سے پچھلا کباڑ کاٹتے

لاتے کہیں سے ہم کوئی ابرِ حیات کھنچ کر
شاخِ خزاں تراشتے ، دکھ کا اجاڑ کاٹتے

آتی تری ہوا اگر اپنی گلی کے موڑ تک
چیت کے صحنِ سبز میں عمر کا ہاڑ کاٹتے؟

اچھے دنوں کو سوچتے دونوں کہیں پہ بیٹھ کر
ہاتھوں کو تھام تھام کے لمبی دیہاڑ کاٹتے

۔۔۔۔۔پھاڑ کاٹنا خالصتاً میانوالوی محاورا ہے۔۔




دیوان منصور آفاق  





 

تریسٹھویں غزل



وہ تعلق ہیں زمیں زاد سے دانائی کے
سلسلے عرش تلک حسنِ پذیرائی کے

میرے سینے سے بھی دھڑکن کی صدا اٹھی تھی
اس کی آنکھوں میں بھی تھے عکس شناسائی کے

حرف نے باندھ رکھا ہے کوئی پائوں سے سروش
مجھ پہ ہیں کشف ِمسلسل سخن آرائی کے

بادلوں سے بھی ٹپکتی ہیں لہو کی بوندیں
دیکھ لو چارہ گرو زخم مسیحائی کے

سٹیاں بجتی ہیں بس کان میں سناٹوں کی
رابطے مجھ سے زیادہ نہیں تنہائی کے

روشنی اتنی چراغِ لب و رخ سے نکلی
ختم یک لخت ہوئے سلسلے بینائی کے

آخرش میں نے بھی تلوار اٹھا لی منصور
حوصلہ ختم ہوئے میری شکیبائی کے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

چونسٹھویں غزل



یہ گہرے سبز سے کہسار مجھ سے
ندی بھی ہے سبک رفتار مجھ سے

زمانہ ہے سحر آثار مجھ سے
ملو آ کے افق کے پار مجھ سے

اسے ہر بار ایسے دیکھتا ہوں
ملا ہے جیسے پہلی بار مجھ سے

طلب کی آخری حد آ گئی ہے
وہ آئے اور سنے انکار مجھ سے

مری تقدیر میں بربادیاں ہیں
کہے ٹوٹا ہوا اوتار مجھ سے

سمجھ کر دھوپ مجھ کو زندگی کی
گریزاں سایہ ئ دیوار مجھ سے

درختوں پر میں بارش کی طرح ہوں
ہوا میں خاک کی مہکار مجھ سے

مسلسل لفظ ہیں کرب و بلا میں
سرِ نوکِ سناں اظہار مجھ سے

منائیں لوگ جشن فتخ مندی
فقط نسبت ہے تیری ہار مجھ سے

پڑا کوئے ملامت میں کہیں ہوں
تعلق کیا رکھے دستار مجھ سے

میں شب بھر چاند کو منصور دیکھوں
یہ چاہے دیدہ ئ بیدار مجھ سے




دیوان منصور آفاق  





ردیف ے



 

پیسٹھویں غزل



خواہ یہ دل برباد رہے
اس میں تُو آباد رہے

شکر ہے دشتِ حسرت میں
پائوں مسافت زاد رہے

برسوں غم کے مکتب میں
میر مرے استاد رہے

اک لمحے کی خواہش میں
برسوں ہم ناشاد رہے

ایک دعا دکھیارے کی
غم سے تُو آزاد رہے

اشکوں سے تعمیر ہوئی
درد مری بنیاد رہے

جیسا بھی ہوں تیرا ہوں
اتنا تجھ کو یاد رہے

تیری گلی میں سانس سدا
مائل بر فریاد رہے

زخم نہ چاٹے کوئی بھی
مرجائے یا شاد رہے

میں برمنگھم قید رہا
وہ اسلام آباد رہے

میرے نواحِ جاں منصور
کتنے ستم ایجاد رہے




دیوان منصور آفاق  





 

چھسٹھویں غزل





دماغِ کائنات کے خلل سے ساتھ ساتھ ہے
اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے

فلک ہے مجھ پہ مہرباں کہ ماں کی ہے دعا مجھے
زمیں مرے ہرے بھرے عمل سے ساتھ ساتھ ہے

یہ کس نے وقت کو اسیر کر لیا ہے خواب میں
یہ آج کس طرح گذشتہ کل سے ساتھ ساتھ ہے

قدم قدم پہ کھینچتی ہے مجھ کو رات کی طرف
یہ روشنی جو شاہ کے محل سے ساتھ ساتھ ہے

جو گا رہی ہے کافیاں لہو میں شاہ حسین کی
وہ مادھو لال آگ کنگا جل سے ساتھ ساتھ ہے

کہے ، کہاں نظامِ زر تغیرات کا امیں؟
وہ جدلیات جو جدل جدل سے ساتھ ساتھ ہے

کچھ اس کے ہونے کا سبب بھی ہونا چاہیے کہیں
وہ جو نمودِ علت و علل سے ساتھ ساتھ ہے

جہاں پہ پہلے علم تھا کہ کیا عمل کروں گا میں
یہ حال اُس مقامِ ماحصل سے ساتھ ساتھ ہے

ابھی فلک کی زد میں ہے سری نگر کا راستہ
یہ برف پوش رُت تراڑ کھل سے ساتھ ساتھ ہے




دیوان منصور آفاق  





 

ستاسٹھویں غزل





یہ اپنا آپ مسلسل نثار کرتے ہوئے
رہا نہیں میں، تجھے اختیار کرتے ہوئے

ازل نژاد نظر اور اب کہاں جائے
ابد گزار دیا انتظار کرتے ہوئے

وہ جانتا ہے مقابل ہے آئینہ اس کے
ہزار بار وہ سوچے گا وار کرتے ہوئے

چراغ بھول گئی بام پر وہ آنکھوں کے
شبِ فراق! تجھے بے کنار کرتے ہوئے

گزر گیا مرے کوچے سے وہ مثالِ صبح
اک ایک آئینہ تمثال دار کرتے ہوئے

میں کانپ جاتا ہوں اس پر یقین اتنا تھا
کسی بھی شخص پہ اب اعتبار کرتے ہوئے

لبِ فرات پہ ہار آئی آلِ ابراہیم
فلک ولک پہ زمیں انحصار کرتے ہوئے

ہر ایک بار ترے بارے سوچتا ہوں میں
تعلقات کہیں استوار کرتے ہوئے

بیاض اپنی اسے دے دی میں نے تحفے میں
یہی کلام کیا اختصار کرتے ہوئے

یہ شہرِ دل کا لٹیرا بھی لٹ گیا منصور
شکار ہو گیا آخر شکار کرتے ہوئے




دیوان منصور آفاق  





 

اٹھاسٹھویں غزل



کوئی دہلیز ِ جاں سے ٹھتا ہے
چاند جب آسماں سے اٹھتا ہے

ہے ابھی کوئی خالی بستی میں
وہ دھواں سا مکاں سے اٹھتا ہے

چھوڑ آتا ہے نقشِ پا کا چراغ
پائوں تیرا جہاں سے اٹھتا ہے

جس بلندی کو عرش کہتے ہیں
ذکر تیرا(ص) وہاں سے اٹھتا ہے

اس نے سینے پہ ہاتھ رکھ کے کہا
درد سا کچھ یہاں سے اٹھتا ہے

اک ستارہ صفت سرِ آفاق
دیکھتے ہیں کہاں سے اٹھتا ہے

ہم ہی ہوتے ہیں اس طرف منصور
پردہ جب درمیاں سے اٹھتا ہے




دیوان منصور آفاق  





 

اناسٹھویں غزل





اوس سے اخذ ہوئے ، پہلی کرن سے نکلے
ہم عجب پھول ترے صحنِ چمن سے نکلے

ہم نے اس کے گل و گلزار سے کیا لینا ہے
اپنے اجداد تھے جس باغِ عدن سے نکلے

رات بھر قوس ِ قزح پھیلی رہی کمرے میں
رنگ کیا کیا تری خوشبوئے بدن سے نکلے

دیکھ اے دیدہ ئ عبرت مرے چہرے کی طرف
ایسے وہ ہوتا ہے جو اپنے وطن سے نکلے

سائباں دھوپ کے ہی صرف نہیں وحشت میں
درد کے پیڑ بھی کچھ سایہ فگن سے نکلے

بستیاں ہیں مری ، ماضی کے کھنڈر پر آباد
ذہن کیسے بھلا آسیبِ کہن سے نکلے

فوج اب ختم کرے اپنا سیاسی کردار
یہ مرا ملک خداداد گھٹن سے نکلے

یوں جہنم کو بیاں کرتے ہیں کرنے والے
جیسے پھنکار لپکتے ہوئے پھن سے نکلے

تیرے اشعار تغزل سے ہیں خالی منصور
ہم سخن فہم ۔ تری بزم سخن سے نکلے




دیوان منصور آفاق  





 

سترویں غزل



ناچنے والے وہ درویش وہ گانے والے
جانے کس شہر گئے شہر بسانے والے

بامِ تالاب پہ آباد کتابیں اور ہم
کیا ہوئے شمس وہ تبریر سے آنے والے

اب کہاں غالب و اقبال ، کہاں فیض و فراز
رہ گئے ہم ہی فقط راکھ اڑانے والے

لفظ زندہ رہے شہ نامہ ئ فردوسی کے
طاقِ نسیاں ہوئے ایران بنانے والے

کیا ہوئے درد کسی یاد کے مہکے مہکے
رات کے پچھلے پہر آ کے جگانے والے

اپنی صورت ہی نظر آنی تھی چاروں جانب
دیکھتے کیسے ہمیں آئنہ خانے والے

غزوہ ئ آتشِ نمرود ہو یا آتشِ دل
ہم ہمیشہ رہے بس آگ بجھانے والے

یہ شکاری نہیں حاسد ہیں ، ہماری زد میں
دیکھ کر حسنِ چمن شور مچانے والے

عشق کیا تجھ سے کیا جرم کیا ہے ہم نے
اب تو دہلیز تلک آ گئے تھانے والے

اب کہاں شہرِ خموشاں میں ہم ایسے منصور
مردہ قبروں پہ چراغوں کو جلانے والے

ق

کچھ خبر بھی ہے تجھے آنکھ چرانے والے
کس لئے روٹھ گئے ہم سے زمانے والے

ہم نے خوابوں کے دریچوں سے یونہی جھانکا تھا
تم تھے فنکار فقط گیت سنانے والے

روٹھنے والے ہمیں اب تو اجازت دے دے
اور مل جائیں گے تجھ کو تو منانے والے

بجھ گئے درد کی پلکوں پہ سسکتے دیپک
ہوگئی دیر بہت دیر سے آنے والے

ہم تو ہاتھوں کی لکیروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں
یہ تجھے علم نہ تھا ہاتھ ملانے والے

راس آئے نہیں منصور کو پھر دار و رسن
تم جو زندہ تھے ہمیں چھوڑ کے جانے والے




دیوان منصور آفاق  





 

اکہترویں غزل



مجھے شوخ و شنگ لباس میں کوئی دلربا نہ ملا کرے
مرادل تو جیسے جنازہ گہ کہیں مرگ ہو تو بسا کرے

بڑی سرپھری سی ہوا چلے کہیں شام ِ دشت خیال میں
مرے راکھ راکھ سے جسم کو کوئی ریت پر نہ لکھا کرے

تری کائنات میں قید ہوں بڑے مختصر سے قفس میں ہوں
بڑی سنگ زاد گھٹن سی ہے مجھے کوئی اس سے رہا کرے

مرے ہر گناہ و ثواب کو یہ چھپا لے اپنے لباس میں
بڑی لاج پال ہے تیرگی ،کوئی رات کا نہ گلہ کرے

مرا ذکر و فکر ہوا کرے تری بارگاہِ خیال میں
مرے داغِ سجدہ کو چومنے تری جائ نماز بچھا کرے

اسے پوچھنا کہ وصال کا کوئی واقعہ بھی عدم میں ہے
وہ جو خامشی کے دیار میں کسی ان سنی کو سنا کرے

تراوصل آب ِ حیات ہے ترے جانتے ہیں محب مگر
ہے طلب درازیئ عمر کی کوئی موت کی نہ دعا کرے

مرے جسم وجاں سے پرے کہیں بڑی دورخانہ ئ لمس سے
کوئی خانقاہی کبوتری کہیں گنبدوں میں رہا کرے

کوئی قم باذنی کہے نہیں کوئی چارہ گر نہ نصیب ہو
مرا اور کوئی خدانہ ہو ترے بعد جگ میں خداکرے




دیوان منصور آفاق  





 

بہترویں غزل



کسی کے صرف چھولینے سےا یسے آگ لگ جائے
کسی پٹرول اسٹیشن کو جیسے آگ لگ جائے

کسی بیلے میں اشکوں کے دئیے تک بھی نہ روشن ہوں
کہیں پر بانسری کی صرف لے سے آگ لگ جائے

ہوائوں کے بدن میں سرخ موسم کے سلگنے سے
گلابو ں کے لبوں کی تازہ مے سے آگ لگ جائے

کبھی جلتے ہوئے چولہے میں جم جائے بدن کی برف
کبھی بہتے ہوئے پانی میں ویسے آگ لگ جائے

کسی کے بھیگنے سے کس طرح جلتی ہیں برساتیں
کسی کے چلنے سے رستے میں کیسے آگ لگ جائے






دیوان منصور آفاق  





 

ترہترویں غزل



جام کے بادہ کے خوشبو کے کلی کے کیسے
تیرے ہوتے ہوئے ہو جاتے کسی کے کیسے

زخم مرہم کی تمنا ہی نہیں کر سکتا
ہیں یہ احسان تری چارہ گری کے کیسے

نقشِ پا تیرے نہ ہوتے تو سرِ دشتِ وفا
جاگتے بخت یہ آشفتہ سری کے کیسے

اپنے کمرے میں ہمیں قید کیا ہے تُو نے
سلسلے تیرے ہیں آزاد روی کے کیسے

اتنے ناکردہ گناہوں کی سزا باقی تھی
ہائے در کھلتے بھلا بخت وری کے کیسے

صفر میں صفر ملاتے تھے تو کچھ بنتا تھا
جمع کر لیتے تھے اعداد نفی کے کیسے

۔جیپ آتی تھی تو سب گائوں نکل آتا تھا
کیا کہوں بھاگ تھے اس بھاگ بھری کے کیسے

ہجر کی رات ہمیں دیکھ رہی تھی دنیا
بند ہو جاتے درے بارہ دری کے کیسے

ڈاک کے کام میں تو کوئی رکاوٹ ہی نہیں
سلسلے ختم ہوئے نامہ بری کے کیسے

موت کی اکڑی ہوئی سرد رتوں میں جی کر
یہ کھچے ہونٹ کھلیں ساتھ خوشی کے کیسے

کون روتا ہے شبِ ہجر کی تنہائی میں
پتے پتے پہ ہیں یہ قطرے نمی کے کیسے

موج اٹھتی ہی نہیں کوئی سرِ چشمِ وفا
یہ سمندر ہیں تری تشنہ لبی کے کیسے

موت کی شکل بنائی ہی نہیں تھی اس نے
نقش تجسیم ہوئے جان کنی کے کیسے

آ ہمیں دیکھ کہ ہم تیرے ستم پروردہ
کاٹ آئے ہیں سفر تیرہ شبی کے کیسے

بس یہی بات سمجھ میں نہیں آتی اپنی
جو کسی کا بھی نہیں ہم ہیں اسی کے کیسے

آنکھ کہ چیر تی جاتی ہےستاروں کے جگر
موسم آئے ہوئے ہیں دیدہ وری کے کیسے

کجکلاہوں سے لڑائی ہے ازل سے اپنی
دوست ہو سکتے ہیں ہم لوگ کجی کے کیسے

ہم چٹا نوں کے جگر کاٹنے والے منصور
سیکھ بیٹھے ہیں ہنر شیشہ گری کے کیسے





دیوان منصور آفاق  





 

چورہترویں غزل





سحر سورج سے، شب تاروں سے خالی ہے
مری تمثیل کرداروں سے خالی ہے

نکالیں کوئی کیا ابلاغ کی صورت
خلا مصنوعی سیاروں سے خالی ہیں

چھتوں پر آب و دانہ ڈال جلدی سے
فضا بمبار طیاروں سے خالی ہیں

مزاجِ حرص کو دونوں جہاں کم ہیں
سرشتِ خوف انکاروں سے خالی ہے

اس آوارہ مزاجی کے سبب شاید
فضلیت اپنی ، دستاروں سے خالی ہے

کہیں گر ہی نہ جائے نیلی چھت منصور
کہ سارا شہر دیواروں سے خالی ہے

اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔