مندرجات کا رخ کریں

زمرہ:ردیف ہ

ویکی کتب سے

ردیف ہ

دیوان ِمنصور آفاق

dewan mansoor afaq

[ترمیم]
mansoor afaq poetry



 

پہلی غزل



پرانے غم کے نئے احتمال بسم اللہ
آ انتظار کے اک اور سال بسم اللہ

بس ایک تیری کمی تھی جنوں کے صحرا میں
خوش آمدید اے میرے غزال ، بسم اللہ

آ دیکھ زخم ترو تازہ ہیں مہکتے ہیں
آ مجھ سے پوچھنے پرسانِ حال بسم اللہ

اندھیرے کروٹیں لیتے ہیں مجھ میں پہلے بھی
بہ سرو چشم شبِ ذوالجلال بسم اللہ

سنا ہے آج اکیلا ہے اپنے کمرے میں
چل اس کے پاس دلِ خوش خیال بسم اللہ

لگی تھی آنکھ ذرا ہجر کی تھکاوٹ سے
میں اٹھ گیا میرے دشتِ ملال بسم اللہ

یہ کیسے خانہ ئ درویش یاد آیا ہے
بچھائوں آنکھیں ؟ اے خوابِ وصال بسم اللہ

پھر اپنے زخم چھپانے کی رُت پلٹ آئی
شجر نے اوڑھ لی پتوں کی شال بسم اللہ

کھنچا ہوا ترا ناوک نہ جان ضائع ہو
ہے جان پہلے بھی جاں کا وبال بسم اللہ

یہ تیرے وار تو تمغے ہیں میری چھاتی کے
لو میں نے پھینک دی خود آپ ڈھال بسم اللہ

یہ لگ رہا ہے کہ اپنے بھی بخت جاگے ہیں
کسی نے مجھ پہ بھی پھینکا ہے جال بسم اللہ

نہیں کچھ اور تو امید رکھ ہتھیلی پر
دراز ہے مرا دستِ سوال بسم اللہ

کسی فقیر کی انگلی سے میرے سینے پر
لکھا ہوا ہے فقیدالمثال بسم اللہ




دیوان منصور آفاق  





ردیف ہ



 

دوسری غزل



یہی تیرے غم کا کِتھارسز ، یونہی چشمِ نم سے ٹپک کے پڑھ
یونہی رات رات غزل میں رو ، یونہی شعر شعر سسک کے پڑھ

جو اکائی میں نہیں ذہن کی اسے سوچنے کا کمال کر
یہ شعور نامہ ئ خاک سن ، یہ درود لوح ِ فلک کے پڑھ

یہی رتجگوں کی امانتیں ہیں بیاضِ جاں میں رکھی ہوئی
جو لکھے نہیں ہیں نصیب میں وہ ملن پلک سے پلک کے پڑھ

مرے کینوس پہ شفق بھری نہ لکیریں کھینچ ملال کی
کوئی نظم قوسِ قزح کی لکھ کوئی رنگ ونگ دھنک کے پڑھ

ترے نرم سر کا خرام ہو مری روح کے کسی راگ میں
مجھے انگ انگ میں گنگنا ، مرا لمس لمس لہک کے پڑھ

یہ بجھادے بلب امید کے ، یہ بہشتِ دیدِ سعید کے
ابھی آسمان کے بورڈ پر وہی زخم اپنی کسک کے پڑھ

او ڈرائیور مرے دیس کے او جہاں نما مری سمت کے
یہ پہنچ گئے ہیں کہاں پہ ہم ،ذرا سنگ میل سڑک کے پڑھ

کوئی پرفیوم خرید لا ، کوئی پہن گجرا کلائی میں
نئے موسموں کا مشاعرہ کسی مشکبو میں مہک کے پڑھ

ہے کتاب ِ جاں کا ربن کھلا کسی ووڈکا بھری شام میں
یہی افتتاحیہ رات ہے ذرا لڑکھڑا کے ، بہک کے پڑھ

یہ ہے ایک رات کا ناولٹ ، یہ ہے ایک شام کی سرگزست
یہ فسانہ تیرے کرم کا ہے ، اسے اتنا بھی نہ اٹک کے پڑھ

کئی فاختائوں کی ہڈیاں تُو گلے میں اپنے پہن کے جا
وہ جو عہد نامہ ئ امن تھا اسے بزم شب میں کھنک کے پڑھ




دیوان منصور آفاق  





ردیف ہ



 

تیسری غزل



عالمی بنک کے اک وفد کی تجویز پہ وہ
بم گراتا رہا خود اپنی ہی دہلیز پہ وہ

کیا بتاتا کہ مرا اس سے تعلق کیا تھا
رو بھی سکتا نہ تھا تکفین پہ تجہیز پہ وہ

کھوجنی پڑتی ہے ماتھے سے وہ قیمت لیکن
ایک لیبل سا لگا دیتا ہے ہر چیز پہ وہ

ہو نہیں سکتا شب و روز کا مالک کوئی
عمر ہر شخص کو دتیا ہے فقط لیز پہ وہ

اس نئے دور کا منصور عجب عامل ہے
نام خود اپنا ہی لکھ دیتا ہے تعویز پہ وہ




دیوان منصور آفاق  





ردیف ہ



 

چوتھی غزل



یا بدن کے سرخ گجروں کی مہک محدود رکھ
یا مجھے اپنے ڈرائنگ روم تک محدود رکھ

دھن کوئی کومل سی بس ترتیب کے لمحے میں ہے
اے محافظ کالے بوٹوں کی دھمک محدود رکھ

سو رہا ہے تیرے پہلو میں کوئی غمگین شخص
چوڑیوں کی رنگ پروردہ کھنک محدود رکھ

باغباں ہر شاخ سے لپٹے ہوئے ہیں زرد سانپ
گھونسلوں تک اپنی چڑیوں کی چہک محدود رکھ

جاگنے لگتے ہیں گلیوں میں غلط فہمی کے خواب
آئینے تک اپنی آنکھوں کی چمک محدود رکھ

لوگ چلنے لگتے ہیں قوسِ قزح کی شال پر
اپنے آسودہ تبسم کی دھنک محدود رکھ




دیوان منصور آفاق  





ردیف ہ



 

پانچویں غزل



چل رہی ہے زندگی کی اک بھیانک رات ساتھ
پھر بھی میں ہوں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ ساتھ

میں نے سوچا کیا کہیں گے میرے بچپن کے رفیق
اور پھر رخت ِسفر میں رکھ لئے حالات ساتھ

میں اکیلا رونے والا تو نہیں ہوں دھوپ میں
دے رہی ہے کتنے برسوں سے مرا برسات ساتھ

چاہئے تھا صرف تعویذ ِ فروغ ِکُن مجھے
دے دیا درویش نے اذنِ شعور ِذات ساتھ

یہ خزاں زادے کہیں کیا گل رتوں کے مرثیے
یونہی بے مقصد ہوائوںکے ہیں سوکھے پات ساتھ

ایک بچھڑے یار کی پرسوز یادوں میں مگن
کوئی بگلا چل رہا تھا پانیوں کے ساتھ ساتھ




دیوان منصور آفاق  





ردیف ہ



 

چھٹی غزل



اور اب تو میرے چہرے سے ابھر آتا ہے وہ
آئینہ میں دیکھتاہوں اور نظر آتا ہے وہ

حالِ دل کہنے کو بارش کی ضرورت ہے مجھے
اور میرے گھر ہوا کے دوش پر آتا ہے وہ

رات بھر دل سے کوئی آواز آتی ہے مجھے
جسم کی دیوار سے کیسے گزر آتا ہے وہ

وقت کا احساس کھو جاتا تھا میری بزم میں
اپنے بازو پر گھڑی اب باندھ کر آتا ہے وہ

میں ہوا کی گفتگو لکھتا ہوں برگِ شام پر
جو کسی کو بھی نہیں آتا ہنر آتا ہے وہ

سر بریدوں کو تنک کر رات سورج نے کہا
اور جب شانوں پہ رکھ کر اپنا سر آتا ہے وہ




دیوان منصور آفاق  





ردیف ہ



 

ساتویں غزل



مل جائو تھوڑی دیر تو آکر کسی جگہ
میں جا رہا ہوں شہر سے باہر کسی جگہ

میں روزنامچہ ہوں تری صبح و شام کا
مجھ کو چھپا دے شلِف کے اندر کسی جگہ

جادو گری حواس کی پھیلی ہوئی ہے بس
ہوتا نہیں ہے کوئی بھی منظر کسی جگہ

کچھ دن گزارتا ہوں پرندوں کے آس پاس
جنگل میں چھت بناتا ہوں جا کر کسی جگہ

منصور اس گلی میں تو آتی نہیں ہے دھوپ
گھر ڈھونڈھ کوئی مین سڑک پر کسی جگہ




دیوان منصور آفاق  




ردیف ہ



 

آٹھویں غزل



پائوں کی وحشت بچھاتی جارہی ہے راستہ
جیپ جنگل میں بناتی جا رہی ہے راستہ

احتراماً چل رہا ہوں میں سڑک کے ساتھ ساتھ
اور سڑک ہے کہ بڑھاتی جا رہی ہے راستہ

اک بڑی اونچی پہاڑی رفتہ رفتہ ہاتھ سے
میرے پائوں میں گراتی جا رہی ہے راستہ

سوچتا ہوں میری پرُآشوب بستی کس لئے
اپنا دریا سے ملاتی جا رہی ہے راستہ

پیچھے پیچھے پائوں اٹھتے جا رہے ہیں شوق میں
آگے آگے وہ بتاتی جارہی ہے راستہ

رہ بناتا جا رہا ہوں وقت میں منصور میں
عمر کی آندھی اڑاتی جا رہی ہے راستہ




دیوان منصور آفاق  





ردیف ہ



 

ناویں غزل



قوسِ قزح کے لکھے ہوئے تبصرے بھی دیکھ
مہکے ہوئے بدن ذرا خاشیے بھی دیکھ

رنگوں بھرے لباس کی مہکار پر نہ جا
میرے خیال و خواب کے ویراں کدے بھی دیکھ

تُو نے گرا دیا تھا فلک سے تو اب مجھے
بادِ صبا کے رنگ پہ چلتے ہوئے بھی دیکھ

دونوں طرف وجود ترا ہی کہیں نہ ہو
گردن ذرا گھما کے تُو کُن کے سرے بھی دیکھ

بے شک گلے لگا کے سمندر کو ، رو مگر
ساحل کے پاس بنتے ہوئے بلبلے بھی دیکھ

ہر چند تارکول ہے پگھلی ہوئی تمام
میں بھی تو چل رہا ہوں سڑک پر ، مجھے بھی دیکھ

سورج مرے قدم ہیں ستارے ہیں میری گرد
تسخیر کائنات کے یہ مرحلے بھی دیکھ

اک دلنواز خواب کی آمد کے آس پاس
آنکھوں میں جھملاتے ہوئے قمقمے بھی دیکھ

کھینچی ہیں تم صرف لکیریں ہوا کے بیچ
بنتے ہوئے خطوط کے یہ زاویے بھی دیکھ

میں جل رہا ہوں تیز ہوائوں کے سامنے
اے شہرِ شب نژاد مرے حوصلے بھی دیکھ




دیوان منصور آفاق  





ردیف ہ



 

دسویں غزل



جلتی ہوئی چتا سے نکلتے ہوئے بھی دیکھ
صبح ِ فلک پہ اب مجھے چلتے ہوئے بھی دیکھ

جس کو بلا کا زعم تھا اپنے مزاج پر
وہ آہنی چٹان پگھلتے ہوئے بھی دیکھ

چھو کر کسی گلاب کو موجِ بدن کے رنگ
بہتی ہوئی ندی میں مچلتے ہوئے بھی دیکھ

اے بادِ تندِ یار تجھے اور کیا کہوں
بجھتے ہوئے چراغ کو جلتے ہوئے بھی دیکھ

پاگل سا ہو گیا تھا جسے دیکھ کر کبھی
اس چودھویں کے چاند کو ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ

مجھ کو گرا دیا تھا زمیں پر تو کیا ہوا
سطحِ زمیں سے گیند اچھلتے ہوئے بھی دیکھ

وہ بھی تو ایک پیڑ تھا اپنے نصیب کا
موسم کے ساتھ اس کو بدلتے ہوئے بھی دیکھ

منصور پھر کھڑا ہے خود اپنے ہی پائوں پر
جو گر گیا تھا اس کو سنبھلتے ہوئے بھی دیکھ




دیوان منصور آفاق  




ردیف ہ



 

گیارہویں غزل



انداز گفتگو کے ، مدارات کے بھی دیکھ
فوٹو گراف ہوتی ہوئی بات کے بھی دیکھ

ممکن نہیں ہے قید میں رکھنا چراغ کو
یہ اضطراب اپنی سیہ رات کے بھی دیکھ

بادل پہن لئے ہیں درختوں کے جسم نے
یہ معجزے پہاڑ پہ برسات کے بھی دیکھ

اک آخری امید تھی مٹی میں مل گئی
کچھ روز اب تُو سختی ئ حالات کے بھی دیکھ

قربت کی انتہا پہ ہیں صدیوں کے فاصلے
منصور سلسلے یہ ملاقات کے بھی دیکھ




دیوان منصور آفاق  




ردیف ہ



 

بارہویں غزل



قبر سے تاریک تر جیون گلی چشم توجہ
روشنی اے روشنی اے روشنی چشم توجہ

چھپ نہیں سکتا خدا اگلی صدی تک آدمی سے
ہے ابھی افلاک پر کچھ سرسری چشم توجہ

وقت ِ رخصت دیر تک جاتی ہوئی بس کا تعاقب
دھول میں پھر کھو گئی اشکوں بھری چشم توجہ

آپ جیسی ایک لڑکی پر لکھی ہے نظم میں نے
اک ذرا سی چاہئے بس آپ کی چشم توجہ

وہ اندھیرا تھا کہ میلوں دور چلتی کاڑیوں کی
روشنی کے ساتھ فوراً چل پڑی چشم ِ توجہ

بیل بجی مدھم سروں میں در ہوا وا دھیرے دھیرے
اس کو دیکھا اور پھر پتھرا گئی چشم ِتوجہ

اپنے چہرے پر سیاہی تھوپ دے منصور صاحب
اس کی ساری نیگروکی سمت تھی چشم توجہ



اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔