مندرجات کا رخ کریں

زمرہ:ردیف ر

ویکی کتب سے

ردیف ر

دیوان ِمنصور آفاق

dewan mansoor afaq

[ترمیم]
mansoor afaq poetry



 

پہلی غزل



اب کوئی ایسا ستم ایجاد کر
اس کو بھی اپنی طرح برباد کر

روند کر رکھ دوں ترے سات آسماں
اک ذرا بس موت سے آزاد کر

اب مجھے تسخیر کرنے کیلئے
اسم اعظم روح میں آباد کر

میری باتیں میری آنکھیں میرے ہاتھ
بیٹھ کر اب رو مجھے اور یاد کر

قریہ ء تشکیک کی سرحد پہ ہوں
صاحبِ لوح و قلم امداد کر

خالق و مخلوق میں دے
ہم خدا زادوں کو آدم زاد کر

خشک سالی آ گئی آنکھوں تلک
پانیوں کے واسطے فریاد کر

ہے رکا کوئی یہاں برسوں کے بعد
بس دعائے عمرِ ابر و باد کر

پھر قیامت سے نکل آیا ہوں میں
اب کوئی نازل نئی افتاد کر

ہیں ہمہ تن گوش ساتوں آسماں
بول کچھ منصور کچھ ارشاد کر ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔




دیوان منصور آفاق  





ردیف ر



 

دوسری غزل



کچھ زخم دھنک خیز ہیں کچھ زخم لہو بار
دیکھا نہ مگر اس نے ہمارا گل و گلزار

کیا مانگنے آ سکتے ہیں پھر تیری گلی میں
ہم آخرِ شب ،آخری سگریٹ کے طلب گار

یہ فلسفہ ہے یا کہ خرابی ہے خرد کی
ہونے سے بھی انکار نہ ہونے سے بھی انکار

اک زاویہ در زاویہ جذبوں کی ریاضی
اک لمس بھری قوسِ قزح۔۔ بسترِ بیدار

رکھ ہاتھ نہ زانو پہ اے دھکے ہوئے موسم
اس وقت زیادہ ہے بہت کار کی رفتار

نازک ہے بہت، داغ نہ پڑ جائیں بدن پر
اُس حسنِ گنہ خیز کو مسواک سے مت مار

آنکھوں سے لپکتے ہیں یہاں برف کا طوفاں
ہرچند کہ مصنوعی نہیں گرمی ء بازار

بنیاد میں رکھا گیا تھا جس کو مکاں کی
منصور ہوا پھر اسی بھونچال سے مسمار

ق

وحدت کے ازل زار یہ کثرت کے ابد زار
ہم ہی سے دھنک رنگ ہیں ہم ہی سے کرم بار

ہم عالمِ لاہوت کی خوش بخت سحر ہیں
ہم حرکت ِ افلاک ہیں ہم ثابت وسیار

ہم حسنِ نزاکت کی چہکتی ہوئی تاریخ
ہم قرطبہ اور تاج محل کے درو دیوار

ہم کاسہ ء مجذوب ہیں ہم دھجیاں دھج کی
ہم روندکے پائوںسے نکل آئے ہیں دستار

ہم کُن کی صدا ہیں ہمی لولاک کا نغمہ
ہم وقت کے گنبد ہمی بازیچہ ِ اسرار

ہم لوگ سراپا ہیں کرامت کوئی منصور
ہم قربِ خداوندی کے احساس کا اظہار ۔۔۔۔۔




دیوان منصور آفاق  





ردیف ر



 

تیسری غزل



یہ دشتِ مغیلاں ہے ، ثمرکوٹ کہیں اور
کیکر پہ لگا کرتے ہیں اخروٹ کہیں اور

اک پھول نے یہ ہاتھ مرا تھام رکھا ہے
سردائی بدن بھنگ کی جا گھوٹ کہیں اور

اس ہاتھ پہ تقسیم کی اشکال بنا دیں
اقرارِ محبت کا لکھا نوٹ کہیں اور

سایوں کے تعاقب میں یہی ہوتا ہے شاید
میں اور کہیں ، چاند بھری اوٹ کہیں اور

چلتے تھے پسینے کے مری جلد پہ قطرے
بم جیسے مرے پائوں میں ریموٹ کہیں اور

ہے اپنے مراسم میں کوئی اور بھی شامل
ہم ٹھیک ہی سمجھے تھے کہ ہے کھوٹ کہیں اور

اِس شہر کی گلیوں میں دھڑکتے ہوئے دل ہیں
اے حاکمِ جاں ! رہتے ہیں روبوٹ کہیں اور

اِس شہر ِ منافق کو بھی کوفہ نہ کہیں کیوں
وعدہ تھا کسی اور سے اور ووٹ کہیں اور

ڈستی ہے مرے خواب کو پروازوں کی آواز
تعمیر کیا جائے ایئرپورٹ کہیں اور ا

ٹوٹا مرا دل تھا ، جھڑی آنکھوں میں لگی تھی
احساس کہیں اور تھا اور چوٹ کہیں اور

اڑتا تھا تعلق کی کسی تیز ہوا میں
ٹائی کہیں جاتی تھی مری ، کوٹ کہیں اور




دیوان منصور آفاق  





ردیف ر



 

چوتھی غزل



خالی پیٹ چلے مایوس سڑک پر
میلوں لمبا ایک جلوس سڑک پر

دیکھ کے پہلی بار دہکتا سورج
اس نے پھینک دیا ملبوس سڑک پر

برسوں پہلے میرا گھر ہوتا تھا
شہرِ فسوں کی اس مانوس سڑک پر

صرف یہ رستہ جانے والوں کا ہے
پہلی بار ہوا محسوس سڑک پر

میں نے آگ بھری بوتل کھولی تھی
اس نے پیا تھا اورنج جوس سڑک پر

چاند دکھائی دیتا تھا کھڑکی سے
دور لٹکتا اک فانوس سڑک پر

ننگے پائوں چلتے ہیں ہم منصور
آگ اگلتی اک منحوس سڑک پر




دیوان منصور آفاق  





ردیف ر



 

پانچویں غزل



دونوں بچھڑ کے چل دیئے راہ ِ ملال پر
ناموں کے زخم رہ گئے برگد کی چھال پر

شب کے سکوت میں لیا یوں اسنے کوئی نام
مندری بجی ہو جس طرح پیتل کے تھال پر

بارش میں بھیگتی چلی آئی تھی کوئی ہیر
بوندیں ٹھہر گئی تھیں دھنک رنگ شال پر

آتی تھی ٹیلی فون سے آواز ِ لمس ِ یار
بستر بچھا تھا فرش ِ بہشت ِ خیال پر

منصور کیا سفید کرسمس کی رات ہے
تارے مچل رہے ہیں زمیں کے وصال پر




دیوان منصور آفاق  





ردیف ر



 

چھٹی غزل



ذرا بھی دھیان نہیں وصل کے فریضوں پر
یونہی وہ کاڑھتی پھرتی ہے دل قمیضوں پر

قیام کرتا ہوں اکثر میں دل کے کمرے میں
کہ جم نہ جائے کہیں گرد اس کی چیزوں پر

یہی تو لوگ مسیحا ہیں زندگانی کے
ہزار رحمتیں ہوں عشق کے مریضوں پر

کسی انار کلی کے خیال میں اب تک
غلام گرشیں ماتم کناں کنیزوں پر

جلا رہی ہے مرے بادلوں کے پیراہن
پھوار گرتی ہوئی ململیں شمیضوں پر

غزل کہی ہے کسی بے چراغ لمحے میں
شبِ فراق کے کاجل زدہ عزیزوں پر

وہ غور کرتی رہی ہے تمام دن منصور
مرے لباس کی الجھی ہوئی کریزوں پر




دیوان منصور آفاق  





ردیف ر



 

ساتویں غزل



فلم چلتی ہے مسلسل وہی اک سین پہن کر
کون عریاں ہے نگاہوں میں سیہ جین پہن کر

کوئی کمرہ مرے پائوں پہ اترتا ہی نہیں ہے
سیڑھیاں چلتی چلی جاتی ہیں قالین پہن کر

ہوتے رہتے ہیں جہازوں کے بڑے حادثے لیکن
کرتا رہتا ہوں سفر سورہ ء یٰسین پہن کر

نرمگی اس کی ابھر آئی تھی ملبوس سے باہر
کتنی نازک سی سکرٹ آئی تھی نرمین پہن کر

تم مرے ہونٹوں کی کیا پیاس بجھا سکتی ہو وینس
میرا پیاسا ہے بدن ، آب ِ ابا سین پہن کر

جاگتے میں بھی اٹھایا نہ کرو پلکوں کے پردے
شہر میں پھرتی ہیں بس خواب خواتین پہن کر

یہ خدائی کا شکوہ ہے کہ سرِ راہ پڑے ہیں
اک تماشے کا لبادہ سا فراعیٰن پہن کر




دیوان منصور آفاق  





ردیف ر



 

آٹھویں غزل



پار دریا کر رہی تھی سبز اونٹوں کی قطار
پانیوں پر گر رہا تھا گھنٹیوں کا آبشارٰ

دور تک کالی سڑک تھی اور پگھلتی تارکول
چل رہی تھی ٹائروں کا دکھ پہن کر ایک کار

رات ہجراں کی، سلوموشن میں صدیوں پر محیط
دن جدائی کا کہیں ، جیسے ابد کا انتظار

خطہ عشق ِ محمد ابَرہوں کی زد میں ہے
پھر ابابیلوں کا لشکر آسمانوں سے اتار

سندھ کی موجوں کے بوسے مضطرب ہیں دیر سے
کر رہا ہے تیرے نقش ِ پا کا ساحل انتظار

دور تک منصور بستر سی وصال انگیز ریت
ایک گیلی رات ،میں، اور تھل کا حسن ِ خوشگوار ۔۔۔




دیوان منصور آفاق  

ردیف ر



 

ناویں غزل



چاندنی پھیلی ہوئی تھی ریت کی شہنیل پر
چاند کا دل جل رہا تھا دور لاکھوں میل پر

ایک اچھے دوست کے ہمراہ گزری تھی کبھی
فروری کی ایک اجلی پیر ’’چشمہ جھیل‘‘ پر

لمبی کر کے اپنی گردن گھولتی تھی زرد چونچ
کونج تھی مامور شاید درد کی ترسیل پر

اور پھر تصویر پر تاریک سائے رہ گئے
روشنی سی پڑ گئی تھی کیمرے کی ریل پر

مانگتی ہے زندگی پھر روشنی الہام کی
اور ابد کی خامشی ہے قریہء جبریل پر

آئینے سے پھوٹتی ہیں نور کی پرچھائیاں
کیا کہوں منصور اپنے عکس کی تمثیل پر




دیوان منصور آفاق  





ردیف ر



 

دسویں غزل



کچھ اندھیرے جاگتے تھے کچھ اجالے میز پر
دو برہنہ شیڈتھے اک لیمپ والے میز پر

آنکھ جھپکی تھی ذراسی میں نے کرسی پر کہیں
وقت نے پھر بن دئیے صدیوں کے جالے میز پر

صلح کی کوشش نہ کر ہابیل اور قابیل میں
کھول دیں گے فائلیں افلاک والے میز پر

آگ جلتے ہی لبوں کی مل گئیں پرچھائیاں
رہ گئے کافی کے دو آدھے پیالے میز پر

جسم استانی کا لتھڑا جا رہا تھا رال سے
چاک لکھتا جا رہا تھا نظم کالے میز پر

میری ہم مکتب نزاکت میں قیامت خیز تھی
چاہتا تھا دل اسے ، اپنی سجالے میز پر

کوئی ترچھی آنکھ سے منصور کرتا تھا گناہ
سکس کے رکھے تھے پاکیزہ رسالے میز پر




دیوان منصور آفاق  

اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔