مندرجات کا رخ کریں

زمرہ:باب 4

ویکی کتب سے

تکون کی مجلس
ناول
منصور آفاق
فہرست پر جانے کےلئے یہاں کلک کریں

چوتھاخیال
وہم آبادمیں الجھنیں کچھ نئے گھروندے بنا رہی ہیں ۔ دماغ کی پرانی نسوں میں نئی تعمیر شروع ہے ۔ واہموں کی محراب دار کوٹھیوں کی دیواروں پرآتی جاتی ہوئی سرخ رنگ کی کوچیوں سے خون ٹپک رہا ہے۔ چھٹی حس کے سنگنل الٹے سیدھے میسج بھیج رہے ہیں۔ حواس کے پانچوں سرکٹ کسی نامعلوم ستارے سے آتی ہوئی برقی لہروں سے شاٹ ہو چکے ہیں﴾

چوتھا باب
اب تومیں سچ مچ پریشان ہو گیا تھا آقاقافا کے بارے میں جتنا زیادہ سوچتا جا رہا تھا میری پریشانی اتنی بڑھتی جارہی تھی میں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ ان نہ سمجھ آنے والوں سے بھاگ کربہلول کے پاس چلا جایا جائے ۔۔۔۔۔بہلول اور میں مسلسل چلتے جا رہے تھے۔پہاڑ ایک طرف رہ گئے تھے اب ہمارے چاروں طرف ریت ہی ریت تھی۔اچانک دور کہیں کچھ درختوں کے جھنڈ نظر آنے لگے۔ بہلول نے مجھ سے کہا ’’میرے اندازے کے مطابق ہم لوگوں نے راستے کا چوتھا حصہ طے کر لیا ہے ۔ابھی دو دریا اور ہم نے عبور کرنے ہیں دریائے چناب اور دریائے جہلم اس کے بعد دریائے راوی رہ جائے گا راوی تک پہنچ گئے تو سمجھو لہوارر پہنچ گئے کیونکہ لہوارر اسی کے کنارے پر آباد ہے۔ میں نے اس سے پوچھا ’’تم تو پہلی مرتبہ سفر کر رہے ہو تمہیں کیسے معلوم ہو گیا ہے کہ کتنا طے ہو چکا ہے؟ ‘‘

تو اس نے ہنس کر کہا 

’’میں جب کسی خارجی یا باطنی سفر پر نکلتا ہوں تو سب سے پہلے راستے کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہوں کسی عظیم روشنی کے سفر پر نکلنے سے پہلے راستے کابنیادی علم رکھنا بڑا ضروری ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم سفر کرتے ہیں تو اپنے پہلے محدود علم کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس سے کہیں بہت آگے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ کبھی کبھی حاصل ہونے والے علم سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ۔سفر میں ایسی منزلیں بھی آتی جب علم اور علم جس کا احاطہ کر سکے وہ دونوں آگے بڑھنے سے انکار کر دیتے ہیں وہ مقام آجاتے ہیں جن پر ان کے پرجلنے لگتے ہیں ۔ تم جب نروان کے راستے پر آگے بڑھوگے تو تمہیں ان حقیقتوں کا ادراک ہو گا‘‘ ہم درختوں کے جھنڈ کے پاس پہنچ گئے ۔ ایک دائرے کی صورت میںکھجور کے سینکڑوں درخت دکھائی دے رہے تھے۔ ہم جب درختوں کے اندر داخل ہوئے توان کے درمیان پانی کا ایک بڑا ساتالاب موجود تھا۔صدیوں پرانے فراش کیکر اور شیشم کے درختوں کے تنے پانی کے ادگرد زمین پربکھرے ہوئے تھے اورتنوں سے لے کر پانی تک زمین پر کچھ کائی تھی اور کچھ سبز رنگ کی روئیدگی۔۔۔یہ دوپہر کا وقت تھا ۔وہاں پڑائو ڈال دیا گیا اونٹوں اور آدمیوں نے ایک ہی گھاٹ سے جی بھر کر پانی پیا،پانی کی خالی مشکیں پھر سے بھر لی گئیںمیںنے اس لق و دق صحرا میںدرختوں اور پانی کے اس ذخیرے کودیکھ کربہلول سے کہا ’’یہ بھگوان ہے یہ روح ِکل ہے جو ہمیں قدم قدم پر اپنے معجزے دکھاتی ہے۔ پتہ نہیں یہ سب لوگوں کو نظرکیوںنہیں آتے ‘‘ وہ بولا

	’’کائنات کی ہر شے روحِ کائنات کی جلوہ گری ہے مگر اس فرق کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ادراک ، مادے 	اور روح کے درمیان جو تعلق ہے اس کو سمجھا جائے ۔انسانی تفہیم کے تمام سلسلے اسی شعور کے مراحل ہیں ۔ 	جوشخص جس مرحلے پر ہوتا ہے اس کی آنکھ اسی سطح تک دیکھ سکتی ہے اور جب اس سے آگے دیکھنے کی کوشش 	کرتی ہے تو اسرار جنم لیتے ہیں‘‘ ۔

میں نے پوچھا ’’مادہ اور روح کے تعلق تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ادارک تو دونوں کے ملنے کے بعد وجود میں آتا ہے بہلول بولا ’’میرے نزدیک ادراک اس پھونک کو کہتے ہیں جو بھگوان نے بندر اور بندریا پر پھونکی تھی ۔ بندر اور بندریا میں مادہ یعنی پٹی پانی اور ہوابھی موجود تھی اور روح بھی۔روح اور مادے کے ساتھ ادارک کا کیا تعلق ہے یہ بہت اہم سوال ہے‘‘ اچانک میں نے دیکھا کہ مجھے ایک تیز روشنی نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے روشنی اتنی تیز ہے کہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہے رفتہ رفتہ روشنی کم ہونے لگتی ہے اور مجھے پتہ چلتا ہے کہ میں ایک حجرے میں بیٹھا ہوا ہوں وہی مولوی صاحب جنہوں نے مجھے مسلمان کیا تھا وہ میرے سامنے بیٹھے ہیں اور کہہ رہے ہیں

	’’اسرار صرف اسی وقت تک اسرار ہوتے ہیں جب تک ذہن انہیں کھول نہیںدیتا ۔۔ آقا قافا سے مت ڈرو 	۔ ۔ وہ تمہارا ہی ایک روپ ہے ۔ تمہاری روشنی ہے ۔۔وہ روشنی جوبندہ کو خدا سے ملاتی ہے مگر نماز کا دامن 	تمہارے ہاتھ نہیں چھوٹنا چاہئے کیونکہ نامعلوم کے اندھیروں میں نماز اس چراغ کی طرح ہے جو کبھی طور 	کے پہاڑ پر روشن ہوا تھا۔۔۔۔‘‘

اور اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ مجھے سوئے ہوئے صرف دو گھنٹے ہی ہونگے۔ اب صبح کی نماز کا وقت ہے۔ میں بیڈپر پڑے پڑے سوچنے لگا کہ ایک طویل عرصہ کے بعد میرے مولوی صاحب نے میری خبر لی ہے یقینا اس وقت مجھے ان کی رہنمائی کی ضرورت تھی ، اٹھ کر نماز پڑھی اور پھر سو گیا۔دوپہر کو بارہ بجے آنکھ کھلی دروازے کی گھنٹی بج رہی تھی ۔اٹھا دروازہ کھولا تو ورما سامنے کھڑا تھا پریشان حال ۔۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا

	’’خیریت ہے ٹھیک ہونا؟‘‘ 

میں نے کہا ’’کیوں کیابات ہے ‘‘ تو بولا ’’گھر کانمبر مسلسل انگیج ہے شاید تم نے ریسیور اتار رکھا ہے اور موبائل فون بند کیا ہوا ہے ۔پھریہ کہ پہلے اگر کسی دن تم نے دفتر نہیں آنا ہوتا تھا تو تم فون ضرور کرتے تھے ایسی صورت میں میرا پریشان ہونا بنتا تھا‘‘ ہم دونوں لِونگ روم سے سیدھے کچن میں چلے گئے ۔میں نے چائے کیلئے کیٹل آن کی اور اسے کہا ’’یار میں کسی وجہ سے بہت پریشان ہوں تم کوئی مشورہ دو‘‘ ورما کے پوچھنے پر میں نے اسے آقاقافا کی تمام کہانی سنا دی ۔ ورما ہندو تھااس کے بارے میں ہمیشہ سے میرا یہی خیال تھا کہ جتنا میں مسلمان ہوں ورمااس سے کہیں کم ہندو ہے ۔وہ میری کہانی سن کر بولا

	’’ تم جانتے ہو مذاہب پر میرا ایمان نہ ہونے کے برابر ہے ہندو مت سے بھی اب صرف میرا اتنا تعلق رہ گیا 	ہے کہ ایک بزرگ ہیں میرے۔۔۔ بہت بڑے سادھو ہیںکبھی کبھار انہیں ملنے چلا جاتا ہوں لیکن ہیں وہ 	بہت ہی حیرت انگیز آدمی ۔۔ وہاں جا کر مجھے یہ بتانے کی ضرورت کبھی نہیں پیش آئی کہ میں کیوں آیا ہوں 	وہ سوال کرنے سے پہلے ہی جواب دے دیتے ہیں۔ اگر تمہیں برا نہ لگے تو میں تمہیں ان کے پاس لے جا 	سکتا ہوں ممکن ہے تمہیں آقا قافا کو سمجھنے میں کچھ مدد مل جائے ‘‘ 

میں نے ورما سے پوچھا ’’ کیا وہ اسی شہر میں رہتے ہیں؟ ‘‘ ورمانے ہاں میں سر ہلا تے ہوئے کہا ’’یہیں لیڈز روڈ والے مندر میں رہتے ہیں ‘‘ اور میں نے کہا

	’’ کیا اس وقت ان سے ملا جا سکتا ہے‘‘ 

ورما بولا ’’کسی بھی وقت ۔۔چاہے آدھی رات ہو یا دن انہوں نے مجھے ہر وقت ملنے کی اجازت دی ہوئی ہے ‘‘ میں نے کہا ’’ اچھا تو پھر میں تیار ہوتا ہوں ان کے پاس چلتے ہیں ‘‘ اور تھوڑی دیر کے بعد ورما ایک مندر کے باہر کار روک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔لیڈر روڈ کی مصروف ترین سڑک پر یہ ایک چھوٹا سا مندر تھاباہر سے اس عمارت کی واحد شناخت اس کا پیلا رنگ تھا ہم جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو کچھ گھنٹیاں لگی ہوئی نظر آئیں جنہیں ورمانے ہلایااور اس شور میں ہم آگے بڑھ گئے۔ ورما پوجا پاٹ والے بڑے کمرے کی طرف جانے کی بجائے مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میںلے گیا۔کمرے میں کوئی چیز بھی نہیں تھی پتھریلے فرش پر ایک بہت بوڑھا سادھو آلتی پالتی مار کر بیٹھا ہوا تھا۔ ہم دونوں پورے احترام کے ساتھ ایک طرف کھڑے ہو گئے ۔سادھو ہماری طرف متوجہ نہیں ہوا ہمیں کھڑے کھڑے اتنی دیر ہو گئی کہ میں ورما سے کہنے ہی والا تھا کہ اب مجھ سے اور کھڑا نہیں رہا جا سکتا کہ سادھو کے لب کھلے اور اس نے مجھے مخاطب ہو کرکہا ’’اتنی بے صبری سائل کو زیب نہیں دیتی ‘‘ ورما بولا ’’ بابا یہ میرا پارنٹر آفاق ہے ہم آپ سے آقا قافا کے بارے میں پوچھنے آئے ہیں‘‘۔۔ سادھو حیرت سے بولا ’’آقا قافا کے بارے میں ‘‘ اور پھر خاموش ہو گیا تقریباً دو منٹ لے بعد ور ما سے کہنے لگا ’’جو شخص تمہارا پارنٹر تھا اب یہ وہ نہیں ہے۔ اسے یہاں سے لے جائو اب بہت دیر ہو چکی ہے، اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا ۔شاید اب کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا ‘‘۔۔ ورمانے کہا ’’رحم بابارحم میں تو تباہ ہوجائوں گا میرا سارا کاروبار اسی کے دم سے ہے ‘‘ سادھو بولا ’’ میں نے تمہیں کہا ہے اسے یہاں سے لے جائو پہلے اس کی وجہ سے ایک بہت بڑے گیانی کی زندگی بھر کی تپسیاضائع ہو چکی ہے ۔ میںاس کے معاملے میں نہیں آسکتا‘‘۔۔ ورما نے کہا ’’بابا کچھ کیجئے جب میں نے اس کے ساتھ پارنٹر شپ کی تھی تو آپ سے پوچھا تھا ‘‘ بابا بولا

	’’اس وقت یہ آفاق تھااب قافاہے آقا قافا‘‘ 

ورما نے کہا

	’’بابا یہ آقا قافا کون ہے؟ ‘‘

تو بابا غصہ سے بولا

	’’ یہی تمہارا دوست تمہارا پارنٹر۔۔۔میں کہہ رہا ہوں لے جائو اسے یہاں سے۔۔‘‘ 

میں نے ورما کو باہر کی طرف کھینچا اس کا چہرہ زرد تھا۔ میں نے اسے ہنس کر کہا ’’ دیکھنا کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوگامیرے سرپربھی کسی بہت ہی پہنچے ہوئے شخص کا ہاتھ ہے اور مجھے آقا قافا سے بھی کوئی خوف نہیں‘‘

ورما نے مجھ سے پوچھا
’’ کیا تمہارا پہلے بھی کسی سادھو سے واسطہ پڑا ہے؟‘‘ 

میں نے کہا ’’نہیں ‘‘ وہ بولا

	’’پھربابا کیسے کہہ رہے تھے کہ تمہاری وجہ سے کسی بڑے سادھو کی تپسیا ضائع ہوئی ہے ‘‘

ورماکے چہرے پر اتنی گہری تشویش دیکھ کر میں نے کہا

	’’ مجھے وہ بھی کوئی آقا قافا کا چکر لگتا ہے تم نے دیکھا تھا نا سادھو جی مجھے آقا قافا کہہ رہے تھے‘‘ 

ورما بولا

	’’ میں تو بہت الجھ گیا ہوں بھگوان خیر کرے۔۔۔۔پتہ نہیں تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘‘

میری الجھنیں بڑھتی جا رہی تھیں ۔سادھو بابا نے میری پریشانی بھی بڑھا دی تھی میں نے اپنے حالات پر غور کرتے ہوئے ورماسے کہا ’’ میرا دل کہتا ہے کہ آقا قافا کوئی براشخص نہیں ہے اس کے ساتھ میرا کوئی روحانی رشتہ ہے مجھے ایسا لگتا ہے کوئی اسرار کھلنے والا ہے‘‘

موبائل فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف سائیکی تھی ، کہہ رہی تھی کہ وہ آقاقافا کے گھر میں ہے کیا میرے لئے ممکن ہے کہ میں بھی وہاں پہنچ جائوں۔ میں نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے میں ادھر ہی آرہاہوں۔ فون پر بات ختم کر کے میں نے ورما سے کہا
	’’مجھے آقا قافا کے گھر اتار دو ‘‘
ورما بولا
	’’ کیا میں بھی تمہارے ساتھ آقا قافا کو مل سکتا ہوں ‘‘ 

میں نے کہا ’’ کیوں نہیں آئو دونوں ملتے ہیں تم بھی اندازہ کرنا کہ وہ کیا چیز ہیں ‘‘

اورہم دونوں آقا قافا کے گھر آگئے۔ لِونگ روم میں صرف سائیکی اور آقاقافا موجود تھے ۔آقاقافا مجھے اور ورما کو بہت محبت کے ساتھ ملے ۔ ورما سے کہنے لگے

’’تمہیں تقدیر میرے پاس لے آئی ہے شاید تمہارے لئے بھی مجھے پھر وہ جنگ شروع کرنا ہوگی جسے میں ہمالیہ کے غاروں میں چھوڑ آیا تھا۔‘‘ ورما نے آقا قافا کی طرف دیکھا پھر میری طرف اس طرح دیکھا جیسے یہ پوچھنا چاہ رہا ہو کہ کچھ بولوں یا نہیں۔ مجھے ورما کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہو گیا تھا اور سادھو بابا کے ساتھ اس کی گفتگو سن کرمیں یہ بھی جان چکا تھا کہ ورما کے بارے میں میرا خیال غلط ہے، وہ مکمل طور پر اپنے مذہب کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ میں نے ورما سے کہا

	’’ ورما اگر تم آقا قافا سے کچھ پوچھنا چاہتے ہو تو پوچھ لو یہاں ایک دنیا اسی مقصد کیلئے آتی ہے ‘‘۔

ورمانے آقا قافا کی طرف دیکھتے ہوئے احترام سے کہا ’’میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکاآپ کچھ وضاحت کرنا پسند کریں گے‘‘ آقا قافا نے کہا ’’ہاںمیں یہ کہہ رہا تھا کہ تمہارے اندر تجسس کی جوشمع جل رہی ہے وہ تمہیں میرے پاس لے آئی ہے۔ یہی روشنی کا راستہ ہے میں جانتا ہوں کہ تم ہندو ماں باپ کے بیٹے ہواور ہندو مت سے بہت دور چلے گئے تھے مگر رام ورما یعنی تمہارے سادھو بابا پھر تمہیں اپنے مذہب پر واپس لے آئے ہیںتمہیں یاد ہوگا جب تم پہلی بار سادھو بابا کے پاس گئے تھے‘‘۔۔

ورما بولا
	’’ جی یاد ہے ‘‘

آقا قافا بولے

	’’ اس میں کوئی شک نہیںکہ سادھو بابا کے پاس جو طاقتیں ہیں وہ کم انسانوں کے پاس ہوتی ہیں مگران سے 	میرا اختلاف اُن طاقتوں کے سر چشمے کے حوالے سے ہے ۔تم جب پہلی بار وہاں گئے تھے تو تم نے دیکھا تھا 	کہ اس کمرے میں رکھے ہوئے تمام دیویوں اوردیوتائوں کے بت سرخ تھے اور سرخ رنگ کا سیال فرش 	تک پھیلا ہوا تھا۔ تم نے اس وقت سوچا تھا کہ شاید کسی جانور کی قربانی دی گئی ہے وہ کسی جانور کا خون نہیں 	انسانی خون تھا اور اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ جس شخص کا خون تھااس شخص کو کسی نے قربانی 	کیلئے مجبور نہیں کیا تھامگر خیر کے عمل میں کسی طرح کی خودکشی جائز نہیں ہو سکتی ‘‘
ورمانے بڑے احترام سے کہا
	’’کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ وہ شخص کون تھا اور اس کی لاش کا کیا کیا گیا تھا، وہ اس وقت کہاں تھی؟ ‘‘

آقا قافا بولے ’’وہ بت اور وہ سادھو بابا جو تمہیں اس وقت نظر آرہے تھے وہ وہاں نہیں تھے وہ سب کچھ ہمالیہ کے ایک غار میں ہورہا تھا تم اس اصل کا ایک روپ دیکھ رہے تھے جو سادھو بابا نے پتہ نہیں کیوں اپنایا ہوا ہے ‘‘ ورما نے کہا ’’یہ تو میں نے اور بھی کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ اس مندر میں خود سادھو بابا نہیں رہتے یہاںان کا ایک روپ دکھائی دیتا ہے خود سادھو بابا ہمالیہ کے ایک غار میں پچھلے ستر برس سے بھگوان کی تپسیا کررہے ہیںمگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ سادھو بابا کا نام رام ورما ہے ‘‘ آقا قافا بولے

	’’ تم نے ٹھیک سنا ہے اور وہ پہلی مرتبہ تمہاری طرف بھی اسی لئے متوجہ ہوئے تھے کہ تمہارا نام ورما ہے‘‘ 

ورما نے کہا ’’ مگرمندر کے بڑے پنڈت بھی سادھو بابا کے خلاف ہیں ان کے خیال کے مطابق ان کی ذہنی حالت درست نہیں رہی۔ پنڈت بتا رہے تھے کہ وہ کہتے ہیں کہ انہیںزندگی کے کسی دوسرے جنم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ ہی انہیں کسی شے کی ضرورت ہے اور نہ اُن کی کوئی خواہش ہے حتیٰ کہ کبھی کبھی وہ پوچا پاٹ کو بھی لالچ اور خوف کا روپ کہہ کررد کر دیتے ہیں ۔وہ مندر کے ایک کمرے میں رہتے ہیں مگر اس حصے میں کبھی نہیں گئے جہاں پوجا ہوتی ہے ۔اس دن تو میں خود وہاں موجود تھا جب انہوں نے اپنے کمرے سے تمام دیویوں اوردیوتائوں کے بت اٹھوادئیے تھے ‘‘ آقا قافا نے کہا ’’ ہاں سادھو بابا جس منزل پر ہیں وہاںدیوتائوں کی پتھر اور مٹی کی شبہیںپیچھے رہ جاتی ہیںمگر سادھو بابا کی اپنی کہانی بھی بڑی حیرت انگیز ہے ‘‘ ورما نے پوچھا ’’سادھو بابا کی کوئی کہانی بھی ہے ‘‘ آقا قافا نے کہا

	’’ہر شخص کی ایک کہانی ہوتی ہے ، کچھ کہانیاں سیدھی سادی ہوتی ہیں اور کچھ پیچ دار ۔ہر لمحہ کوئی نیا موڑ کسی کی 	زندگی کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے‘‘ 

لِونگ روم میںلوگ داخل ہونے لگے آقا قافا کی مجلس کا وقت ہوگیا تھا ۔چند لمحوں میں بیس پچیس لوگ جمع ہو گئے اورنماز کی تیاری ہونے لگی۔ آقا قافا اٹھ کر اندر چلے گئے ۔میں نے ورما سے کہا

	’’ورما تم اگر جانا چاہتے ہو تو چلے جائو میں سائیکی کے ساتھ آجائو ںگا ، 
ورما کا چہرہ بتا رہا تھا کہ آقا قافا نے اسے بہت زیادہ پریشان کردیا ہے ۔اس نے کہا

’’ نہیں آپ لوگ نماز پڑھ لیں میں انتظار کرتا ہوں ۔ میں نے آقا قافا کی مجلس میں شریک ہونا ہے‘‘ نماز کے بعد آقا قافا اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں ’’تم سب میرے بھائی ہومیرے جیسے ہو۔ میرے لئے اس کائنات میں کوئی بھی اجنبی نہیں ،میں نے کبھی زبانوں کے لفظی و معنوی اختلافات ،رنگ ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر خود سے اپنا کوئی بھائی جدا نہیں کیا،کائنات میرا وطن ہے، آدمیت میری قومیت ہے ،محبت میری زبان ہے اور انسانیت میرامذہب ہے اور حواس خمسہ یعنی علم کے پانچ دروازے میرے لئے سچائی کے پانچ راستے ہیں مگر میں چھٹے دروازے کی بھی بات کرتا ہوں۔۔ علم کا چھٹا دروازہ ہزاروں راتوں کی ریاضت کھولتی ہے ۔ایسی ہزاروں راتیں کہ جن کی ہر رات ہزار مہینوں پر بھاری ہوتی ہے ان راتوں کا قصہ میری سرگزشت ہے ۔تم مجھ سے میرے بارے میں پو چھتے تھے نا اور میں کہا کرتا تھا کہ مجھے کسی کا انتظار ہے میرا انتظار مکمل ہو گیا ہے۔ جس نے آنا تھا وہ آچکا ہے ۔میںاب تمہیں اپنی کہانی ضرور سنائوں گا مگر اسے جتنا آہستگی سے سنو گے اتنی دیر تمہارا اور میرا رابطہ بر قرار رہے گا کیونکہ اس کے بعد مجھے جانا ہو گا۔ وہیں جہاں سے میں آیا ہو ں‘‘ ۔ ایک نوجوان نے اٹھ کر کہا

	’’ ہم ایسی کوئی کہانی نہیں سننا چاہتے جو ہمیں آپ سے جدا کردے ‘‘ 

آقا قافا بولے ’’ تقدیر اٹل ہے اس میں کوئی ترمیم میرے جیسا ناموجود شخص نہیں کر سکتا ‘‘۔ میں نے اٹھ کر کہا

	’’ مجھے یقین ہے کہ آپ کو جس کا انتظار تھا وہ میں ہی ہوں مجھے آپ سے آپ کی کہانی نہیں پوچھنی صرف 	اتنی استدعا ہے کہ یہ بتا دیجئے کہ آپ کا مجھ سے کیا رشتہ ہے ‘‘

آقا قافا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی اور بولے ’’میں بائیں طرف سے آفاق ہوں تم دائیں طرف سے قافا ہو ۔تمہارے اور میرے درمیان صرف دائیں اور بائیں کا فرق ہے ۔اپنے نام کے حروف الٹا کر دیکھ لو بات تمہاری سمجھ میں آجائے گی ۔۔۔۔لیکن مجھے اپنی کہانی سنانی ہے وگرنہ میری زندگی کا مقصد ادھورا رہ جائے گا ۔میں مکمل نہیں ہو سکوں گا۔چلو آج کا دن اور اسے سنائے بغیر گزار دیتے ہیں۔۔جدائی کا ایک دن اور سہی ۔۔۔آج کی مجلس ختم اب کل ملیں گے ‘‘ اسی لمحے ایک شخص اندر آیا اور کہا ’’حضور آپ کے شاعر دوست جاوید اختر بیدی انتقال کر گئے ہیں ۔‘‘ آقا قافا اناللہ واناراجعون کہہ کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بے خود ہو کرکہنے لگے ’’بریڈفورڈ کاایک شاعر مر گیا ہے ۔ ایک رات گئے تک جاگنے والے نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ہیں۔ اب کبھی بے وقت میرے گھر کی بیل نہیں بجے گی۔ اب مجھے کون دریا کی طرح بہتے ہوئے نغمے سنائے گا۔اب میں کس کی گفتگو سے دانش کے موتی چُنا کروں گا۔اب کون مجھے کہے گا آقاقافا ! تم کچھ نہیں جانتے تم کچھ بھی نہیں جانتے۔وہ رات کے دکھ بانٹنے والا ۔وہ صبح کا پر نورنوائوں سے بھرا ہوا مسافر ۔وہ میرا شاعروہ میرا بیدی نجانے کس خوبصورت نظم کا تعاقب کرتے ہوئے کہیں بہت دور چلا گیا ہے وہاں چلا گیا ہے جہاں سے کوئی صدا پلٹ کر نہیں آتی ۔۔۔مجھے شاعری کا بدن تابوت میں لیٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔۔ اس کے خاموش لبوں سے اس گیت کی گنگناہٹ سنائی دے رہی ہے موت ملائم ریشم جیسی اور سبک ہے اتنی جیسے مرغابی کے پر جیون کاٹھ کباڑ مکاں کا اور دکھوں کا گھر موت ملائم ریشم جیسی اور سبک ہے اتنی جیسے خوشبوئوں کا کھوج جیون ایک پہاڑ سے بوجھل ، کون اٹھائے بوجھ موت ملائم ریشم جیسی ہاں ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔موت بولائی ہوئی اونٹنی کی طرح زندگی کے تعاقب میں ہے۔ کوئی ہے جو اسے روک سکے۔ کوئی ہے جو اسے ٹوک سکے ۔مجھے کبھی کبھی کتابوں سے یہ آواز سنائی دیتی ہے۔۔ ۔ ہاں ! ہمارے اندر موتیوں کی طرح چنے ہوئے لفظ۔موت کے مد مقابل کھڑے ہیں ان سے موت ٹکرا ٹکرا کر شرمندہ ہوتی رہتی ہے فنا ایک عریاں حقیقت سہی مگر یہ علم و قلم کی روشنی ۔ یہ زندگی پہ سایہ فگن روشنی ۔اس کی قسمت میں فتح و نصرت کا لمحہ ہی تحریر ہے ۔کیونکہ آسمانوں سے آتی ہوئی یہی روشنی ذوالجلال اور بقا ساز ہے۔مگر موت موت ہے ہمیشہ کیلئے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ بہت سفاک ہے کلیجہ چیر دیتا ہے وہ کل تک جس کی آواز۔۔جس کے انداز۔۔رنگ اور خوشبو کا جادو لئے ہوئے تھے آج صرف اس کی یاد کی کپکپاتی ہوئی لوکھڑکی سے اندر آر ہی ہے ۔اورمیں یہ بھی جانتا ہوں کہ وقت کی بے رحم ہواکا چلن بہت تیز ہے۔ محو ہوتی ہوئی انسانی یاداشت سے کوئی نہیں ٹکرا سکتا۔ جاوید اختر کون تھا ؟ کیا تھا ؟ کب پیدا ہوا ؟ کیوں مر گیا ؟میں کچھ بھی نہیں جانتا اور نہ ہی جاننا چاہتاہوں میرے یہی بہت ہے کہ وہ ایک شاعر تھا اس کی دوستی سے میرے حسنِ ذدق کے پھول مہکتے تھے اس کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل تھا ۔ ہمدرد دل ۔ وہ انسانیت کے زخم زخم بدن کو دیکھ کر چیخ اٹھتا تھااور اس کی چیخ ایک لے کی صورت میں بدل جاتی تھی ایک ایسی لے جس میں گداز تھا جو اس کے مصرعوں میں پروئے ہوئے لفظوں کو نرم و ملائم بنا دیتی تھی ۔ طبعیت کی سادگی اور فقیرانہ مزاج نے شہر ِ سخن میں شہرت کی ہوس کو اس کے قرب و جوار میں کبھی آباد نہیں ہونے دیا تھا وہ زندگی کے ساتھ دیر تک اس کٹیا میں بیٹھ کر میاں محمد بخش کی گفتگو کرتا رہتا تھا جس کٹیا کے ماتھے لکھا ہوا ہے ’’سب مایا ہے ‘‘جس کا دروازہ توصیف وتنقیص کی چاپ سن کر کبھی نہیں کھلا۔جس کی دیواروں پر جھوٹی شان و شوکت کی کوئی پینٹنگ موجود نہیںجس کے کچے فرش سے صرف مٹی کی سچی خوشبو آتی ہے۔ سچائی کی خوشبو۔۔جو اِن دنوں مٹی سے بھی آنی بند ہوگئی ہے اور اب پورے بریڈفورڈ میںکون رہ گیا ہے جس کے نواح میں اس خوشبوکی فراوانی ہے اللہ مجھے ہمیشہ اس خوشبو سے سرشار رکھے۔۔۔ یہی خوشبو مجھے زندگی کا مرثیہ نہیں لکھنے دیتی میں جب بھی اس خوشبوسے کہتا ہوں کہ موت ایک آفاقی حقیقت ہے تو ادھرسے جواب آتا ہے ہمارا تو زندگی پر ایمان ہے۔۔ نیکیوں کے موسم میں گلابوں کی طرح مہکتی ہوئی زندگی پر۔۔۔ پچاس سال کوئی عمر تو نہیں ہوتی جاوید اخترکو جانے کی اتنی بھی کیا جلدی تھی دس بیس سال اور زندہ رہ جاتا تو قضا کا کیا جاتا ۔ اس سے قضا کو کیا دشمنی تھی وہ تو خواب لکھنے والا شخص تھا گیت بننے والے ہاتھوں پر زندگی کی اتنی مختصر لکیر نہیں ہونی چاہئے ۔مجھے توہمیشہ اس پار سے آتی ہوئی کشتیوں سے آنسوئوں بھرے گیت سنائی دیتے ہیں سنا ہے ان آنسوئوں کے موتیوں میں کوئی جنت چھپی ہوئی ہے مگر اس جنت تک پہنچنے کے لئے آنکھ کے نمکین پانیوں کا سمندر عبور کرنا ضروری ہے ﴿جاوید اختر نیدی زیادہ دیرتم جنت میں تنہائی نہیں محسوس کرو گے کیونکہ ہر شخص نے اپنی باری پر اس سمندر کو عبور کرنا ہے ‘‘ افسردہ و غمگین آقاقافا یہ گفتگوکر اندر چلے گئے ۔ ایسا لگتا تھا کہ انہیں اس شاعر دوست کی موت کا بہت دکھ ہوا ہے۔ سائیکی،ورما اور میں بھی باہر آگئے ۔ہمارے درمیان کچھ زیادہ گفتگو نہیں ہوئی ۔سائیکی کے پاس اسوقت اپنی کار نہیں تھی اس نے معمول کے مطابق ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ سنبھال لی ورما پیچھے بیٹھ گیا۔میں نے کار میں بیٹھتے ہی کہا ’’ آج کے سائنسی دور میں یہ قصوں کہانیوں والی باتوں کو حقیقت تسلیم کرنا بہت مشکل کام ہے اگرچہ ہم یہ آقا قافا کی کرشمہ سازی نہیں سمجھ پا رہے مگرمیں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہوں کہ سادھو بابا ہمالیہ کی غاروں میں بھی موجود ہوتا ہے اور ہزاروں میل دور یہاں برطانیہ میں ۔۔نہیں یہ ممکن نہیں ہو سکتا ‘‘

سائیکی کہنے لگی ۔

’’کیوں نہیں ممکن ہو سکتا ۔ٹیلی ویزن کی نشریات دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھیجی جا سکتی ہیں۔پروجیکٹر سے ہم فضا میں چلتے پھرتے لوگ بنا سکتے ہیں ۔ دکھا سکتے ہیںتو یہ کیوں ممکن نہیں ‘‘ میں نے کہا ’’ یہ سائنس ہے ۔۔اورہمیں معلوم ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے ۔مگر ایک سادھو اس طرح کے شعبدے کابغیر کسی سائنسی قوت سے اس سے کہیں زیادہ مکمل اور بھرپور اظہار کر سکتا ہے۔‘‘ سائیکی کہنے لگی ’’ جو بات دماغ میںنہیں آتی اس مطلب یہ نہیں کہ وہ ہو سکتی ۔ اب بے شمار باتیں ایسی جن کے متعلق سائنس خاموش ہے ۔ہماری آنکھ ایک حد تک دیکھ سکتی ہے اور ہمارا ذہن ایک حد تک سوچ سکتا ہے۔ میری سہیلی کرس ہے نا وہ اس ٹیم کا حصہ ہے جو’برمود ٹرائی اینگل ‘ پر ریسرچ کر رہی ہے وہ مجھے بتا رہی تھی کہ بحر اوقیانوس کی آسیبی مثلث میں اس وقت تک ایک سو سے زیادہ بحری اور ہوائی جہاز عرق ہو چکے ہیں ۔ وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں فزکس کا کوئی قانون کام نہیں کرتا۔اتنی ترقی کے باوجود آج تک سائنس اس جگہ عرق ہونے والے بحری یا ہوائی جہازوں کا کوئی نشان تلاش نہیں کر سکی۔وہاں عجیب غریب روشنیوں کا ہجوم رہتا ہے جو ہوائی جہاز وہاں گم ہوئے ہیں ان کا آخری پیغام صرف یہ ریکارڈ ہوا تھا کہ ہم سفید پانی پر آگئے ہیں ۔بے شمار لوگوں نے وہاں بہت سی حیرت انگیز اور مافوق الفطرت باتوں کا مشاہدہ کیاجب لوگ اس کے قریب جانے لگتے ہیں تو ان کی گھڑیوں میں تعطل پیدا ہونے لگتا ہے مشینیں بند ہونے لگتی ہیں۔ جہازوں کا کنٹرول پائلٹوں اور ملاحوں کے اختیار میں نہیں رہتا۔جہاز تو جہاز وہاں امریکی اٹیمی آبدوز ’’اسکارپین ‘‘غائب ہو گئی تھی۔۔اب سائنس اس مثلث کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہے ۔ کیا تم اس سچائی پر یقین نہیں کروگے ‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا

	’’ ہاں میں نے سن رکھا ہے اس جگہ کے بارے میں ۔۔اور دین اسلام کے حوالے سے بھی بہت سی مافوق 	الفطرت باتوں پر میرا یقین ہے۔تمہیں خانہ کعبہ کے متعلق ایک بات بتائوں ۔ جسے ناسا والوں نے اپنی 	ویب سائیٹ پر آویزاں کیا تھا مگر پندرہ بیس دنوں کے بعد اتار دیاجب امریکی خلا باز نیل آرم سٹرانگ خلا 	کی طرف جا رہا تھا تو اس نے زمین کی کچھ تصویریں بنائی تھیںاس نے دیکھا زمین سے ایک خاص مقام 	سے کچھ شعاعیں نکل رہی تھیں اور مسلسل آگے جارہی تھیں ۔ وہ انہیں کیپچر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اس 	نے اپنے کیمروں کو اس مقام پر فوکس کیا جہاں سے وہ شعاعیں نکل رہی تھیں تو اس نے دیکھا کہ وہ 		مسلمانوں کا سب سے مقدس مقام خانہ کعبہ ہے‘‘

سائیکی کہنے لگی

	’’ یہ بھی بات ثابت شدہ ہے کہ خانہ کعبہ جہاں ہے وہ جگہ زمین کا مرکز ہے ‘‘

ورما کہنے لگا ’’یہاں گلاسکو میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں سڑک بلندی کی طرف جا رہی ہے مگرجب وہاں گاڑی کو روک کر بند کردیا تو پھر بھی گاڑی بلندی کی طرف چلتی رہتی ہے۔ میں نے خود جا کر اس بات کا تجربہ کیا تھا یقین کرو جب میں گاڑی کو بند کیا اور بریک سے پائوں اٹھایا تو مجھے یقین تھا کہ گاڑی پیچھے کی طرف جائے گی کیونکہ پیچھے اترائی تھی اور آفے چڑھائی مگر معاملہ اس کے برعکس ہواایسا لگا کہ کوئی نادیدہ قوت گاڑی کو بلندی کی طرف دھکیلتی چلی جارہی ہے ۔‘‘ میںنے ورما سے کہا

	’’اس وقت دنیا میں تین ایسی جہگیں دریافت ہو چکی ہیں ایک مدنیہ منورہ کے قریب ایک کہیں کینڈا ،میں اور 	ایک ۔۔ جس کا تم ذکر رہے ہو ۔سائنس دان کہتے ہیں کہ زمین کی کشش خود بخود پڑھ جاتی ہے۔کیوں بڑھ 	جاتی ہے اس پر ابھی تحقیق ہورہی ہے‘‘

ہم تینوں کھانا کھانے کیلئے ایک ایستوران میں پہنچ گئے تھے ورما کہنے لگا۔ ’’ اسی طرح کے دو اوربالکل سچے واقعات بھی مجھ سے سن لو۔ ان واقعات کو ایک دنیا نے تسلیم کیاہے۔ایک واقعہ تو یہ ہے کہاخبار بوسٹن گلوب کی خبریں وصول کرنے والا رپورٹر ربیٹھے بیٹھے سو گیا رات تین بجے اچانک اس کی آنکھ کھلی اس نے بھیانک خواب دیکھا تھا اس نے اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ خواب اثر کچھ زائل ہوا تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس خواب کو لکھا جائے اس نے ایک کاغذ پر وہ خواب کو تحریر کیا کہ لوگوں کی چیخیں صاف سنائی دے رہی تھیں جو سمندر کے کھولتے ہوئے پانی میں گرتے جا رہے تھے ۔ وہ بری طرح تڑپ رہے تھے چیخ رہے تھے پگھلا ہوا چٹانوں کا لاوا لوگوں کے سروں پر گر رہا تھاکھیت اور گائوں فنا ہوتے جا رہے تھے۔ آتش فشاں پہاڑ کے ایک زبردست دھماکے نے جزیرہ پیر لیب کو ہوا میں اچھال دیا تھا فضا میں آگ دھکتے ہوئے کیچڑ اور خون آلودہ انسانی گوشت کے مرغولے اڑ رہے تھے۔ جزیرہ پگھلا ہوا بن کر سمندر میں عرق ہو گیا۔‘‘ یہاں پہنچ کر ورما نے کہا

’’ میں نے تو بس ذرا سی نقشہ کشی کی ہے اس نے بڑی باریک سے تباہی کا ایک ایک منظر کاغذ پر رکھ دیا تھا‘‘

میں نے کہا ’’ آگے بتائو پھر کیا ہوا ‘‘

ورما بولا 

’’صبح وہ اس کاغذ کو اسی طرح ٹیبل پر چھوڑ کر گھر چلا گیا اخبار کا ایڈیٹر آیا تو اس نے اسے خبر سمجھ کر شائع کردیا۔خبر اخبار کیلئے درد سر بن گئی لوگوں نے تفصیل طلب کرنی شروع کردی ۔رپوٹر نیکہا وہ خواب تھا ۔ اسی طرح دو دن گزر گئے اور اخبار اس سلسلے میں معذرت نامہ شائع کرنے پر تیار ہو گیاکہ امریکہ کے مغربی ساحل سے اسی طرح کی تباہی کی ایک خبر موصول ہوئی جس کامکمل منظر نامہ وہی تھا جو اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وقت بھی وہی تھا۔صرف اتنا فرق تھا کہ خواب میں اس جزیرہ کا نام پیرلیب تھا جب کہ اس جزیرے کانام کراٹووا تھا لیکن جب تحقیق کی گئی تو پچاس سال پہلے اس جزیرے کا نام پیر لیب ہی تھا بعد میں بدل کر اس کا نام اکاٹووا رکھ دیا گیا تھا۔۔اب اسی چیز کو آپ کیا کہیں گے اسی طرح کا ایک واقعہ انڈیا میں پیش آیاَوہ واقعہ بھی سائنس کی سمجھ سے بالاتر ہے۔شانتی دیوی دہلی میں پیدا ہوئی جب وہ سات برس کی ہوئی تو اس نے اپنی ماں کو بتایا کہ وہ اس سے پہلے متھرا نامی قصبے میں زندگی گزار چکی ہے۔اس نے ماں اپنے گھر کا محل وقوع بھی بتایا جب اس نے اس طرح کی باتیں زیادہ کرنی شروع کیں تو ماں اسے ڈاکٹر کے پاس لی گئی۔ ڈاکٹروں کو بھی کچھ نہ آیا۔جب وہ کچھ اور بڑی ہوئی تو ایک متھرا سے ایک شخص اس کے باپ سے ملنے آیا تو اس نے کہا یہ میرے خاوند کا چچازاد بھائی ہے اس کا یہ نام ہے اس نے بتایا کہ اس کے دوبچے تھے اس کانام لدگی تھا ۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا میرے کزن کی بیوی کا یہی تھا وہ بچے کی پیدائش کے دوران مرگئی تھی۔پریشان حال والدین کی خواہش کر وہ آدمی اپنے کزن کو متھرا سے دہلی لے کر آیا کہ شانتی اس کو پہنچاتی ہے یا نہیں وہ آدمی جیسا ان کے گھر آیاتو شانتی اس سے لپٹ گئی کہ یہ میرا شوہر ہے۔شانتی دہلی میں صرف اردو زبان سکھائی گئی تھی مگر وہ اپنے خاوند کے ساتھ متھرا کی زبان میں گفتگو کرنے لگی۔شانتی کے باپ کے اعلی حکام کے ساتھ اس لئے بات کی انہوں نے سائنس دانوں کی ایک کمیٹی بنادی جہنوں نے شانتی دیوی پر بہت ریسرچ کی مگر کچھ سمجھ میں آیا ۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے متھرا لے جایا گیا اس نے وہاں ایک ایک بات ایک ایک نشانی درست بتائی ۔ اپنے بچوں اپنے رشتہ داروں کو پہچانا۔وہ عورت آج بھی زندہ ہے ا ور انڈیا میں اچھی بھلی ملازمت کرتی ہے اگر تم اس سے ملنا چاہو تو مل بھی سکتے ۔مگر تمہارے یہ مسئلہ ہے کہ تمہارا مذہب دوسرے جنم کو تسلیم نہیں کرتا‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’ جس عجیب و غریب چکر میں ہم پھنس گئے ہیں ۔ اس میں مذہب اور نا مذہب کی کوئی بات نہیں ۔مجھے تو صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ دنیا میں اگر کوئی مافوق الفطرت کام ہوا ہے یا ہونا ہے تو اس کا شکار ہم کیوں ہو رہے ہیں۔‘‘ سائیکی نے کہیں جانا تھاوہ ریستوران سے ٹیکسی لے کر چلی گئی ورماکومیں نے گھر چھوڑ دیا ۔اور یونہی کار چلانی شروع کردی ۔مجھے کچھ خبر نہیں تھی کہاں جا رہا ہوں ۔میں مسلسل آقا قافا کے بارے میں سوچے جا رہا تھااچانک مجھے احساس ہوا کہ میری کار ایم سکس او سکس پر موڑ گئی ہے ۔اب مجھے ایم ون سے مڑ کر واپس آنا تھاایم سکس او سکس چار میل لمبا ایک موٹر وے ہے جسے بریڈ فورڈ کو ایم ون سے ملانے کیلئے بنایا گیا ہے ۔میں نے کار کی سپیڈ بڑھا دی۔مجھے کچھ یاد آگیا تھا

اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔