دیوان منصور آفاق ۔ الف ردیف
دیوان منصور آفاق
[ترمیم]
ردیف الف
پہلی غزل
جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا
دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا
آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر
اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا
ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیرتک
پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا
جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر
اک سفرزاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا
زندگی اک جوا خانہ ہے جسکی فٹ پاتھ پر اپنا دل
اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا
تم جسے چاند کا دیس کہتے ہو منصور آفاق وہ
ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
دوسری غزل
بدن کے قفل چٹختے تھے اسم ایسا تھا
نگار خانہء جاں کا طلسم ایسا تھا
دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے
سیہ گلابوں کی جیسی ہے قسم ایسا تھا
جگہ جگہ پہ دراڑیں تھیں ندی نالے تھے
سوادِ چشم میں پانی کا رِسم ایسا تھا
کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ
تمام شہر تھا ساکت ، طلسم ایسا تھا
ہر ایک چیز برہنہ تھی بے کے نقطے میں
الف فروزاں تھا جس میں وہ بسم ایسا تھا
یہ اور بات کہ شیشہ تھا درمیاں منصور
چراغ ہوتا ہے جیسے وہ جسم ایسا تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
تیسری غزل
اسے بھی ربطِ رہائش تمام کرنا تھا
مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا
نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے
مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کرنا تھا
بس ایک لنچ ہی ممکن تھا اتنی جلدی میں
اسے بھی جانا تھا میں نے بھی کام کرنا تھا
یہ کیا کہ بہتا چلا جا رہا ہوں پلکوں پر
کہیں تو غم کا مجھے اختتام کرنا تھا
گزر سکی نہ وہاں ایک رات بھی منصور
تمام عمر جہاں پر قیام کرنا تھا
(جس دوست جہاں کے بعد ’’پر‘‘ کے استعمال اعتراض ہو وہ مصرعہ یوں پڑھ لیں۔۔۔
جہاں جہاں مجھے برسوں قیام کرنا تھا)
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چوتھی غزل
یہ الگ اس مرتبہ بھی پشت پر خنجر لگا
یہ الگ پھر زخم پچھلے زخم کے اندر لگا
مجھ سے لپٹی جا رہی ہے اک حسیں آکاس بیل
یاد کے برسوں پرانے پیڑ کو کینسر لگا
موت کی ٹھنڈی گلی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
کھڑکیوں کو بند کر ، جلدی سے اور ہیٹر لگا
بند کر دے روشنی کا آخری امکان بھی
روزنِ دیوار کو مٹی سے بھر ، پتھر لگا
کیا بلندی بخش دی بس ایک لمحے نے اسے
جیسے ہی سجدے سے اٹھا ، آسماں سے سر لگا
پھیر مت بالوں میرے ، اب سلگتی انگلیاں
مت کفِ افسوس میرے ، مردہ چہرے پر لگا
ہے محبت گر تماشا تو تماشا ہی سہی
چل مکانِ یار کے فٹ پاتھ پر بستر لگا
بہہ رہی ہے جوئے غم ، سایہ فگن ہے شاخِ درد
باغِ ہجراں کو نہ اتنا آبِ چشمِ تر لگا
اتنے ویراں خواب میں تتلی کہاں سے آئے گی
پھول کی تصویر کے پیچھے کوئی منظر لگا
اک قیامت خیز بوسہ اس نے بخشا ہے تجھے
آج دن ہے ، لاٹری کے آج چل نمبر لگا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
پانچویں غزل
ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا
آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا
بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ
دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا
کہیں ایسا نہ ہو کچھ ٹوٹ گیا ہو ہم میں
اپنا چہرہ ہے کسی درد کے مارے جیسا
لے گئی ساتھ اڑا کر جسے ساحل کی ہوا
ایک دن تھا کسی بچے کے غبارے جیسا
قوس در قوس کوئی گھوم رہا ہے کیا ہے
رقص کرتی کسی لڑکی کے غرارے جیسا
کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور
اک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیسا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چھٹی غزل
پابجولاں کیا مرا سورج گیا تھا
صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا
وہ بھی تھی لپٹی ہوئی کچھ واہموں میں
رات کا پھر ایک بھی تو بج گیا تھا
کوئی آیا تھا مجھے ملنے ملانے
شہر اپنے آپ ہی سج دھج گیا تھا
پہلے پہلے لوٹ جاتا تھا گلی سے
رفتہ رفتہ بانکپن کا کج گیا تھا
مکہ کی ویران گلیاں ہو گئی تھیں
کربلا کیا موسم ِ ذوالحج گیا تھا
تُو اسے بھی چھوڑ آیا ہے اسے بھی
تیری خاطر وہ جو مذہب تج گیا تھا
وہ مرے سینے میں شاید مر رہا ہے
جو مجھے دے کر بڑی دھیرج گیا تھا
کتنی آوازوں کے رستوں سے گزر کر
گیت نیلی بار سے ستلج گیا تھا
پائوں بڑھ بڑھ چومتے تھے اڑتے پتے
تازہ تازہ باغ میں اسوج گیا تھا
وہ جہاں چاہے کرے منتج ، گیا تھا
رات کی محفل میں کل سورج گیا تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
ساتویں غزل
میں بدنصیب تھا احمق تھا پیش و پس میں رہا
تمام رات کوئی میری دسترس میں رہا
میں ایک شیش محل میں قیام رکھتے ہوئے
کسی فقیر کی کٹیا کے خاروخس میں رہا
سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی
سمندروں کے اِدھر بھی میں تیرے بس میں رہا
کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں
کئی برس میں مسلسل اسی برس میں رہا
گنہ نہیں ہے فروغ بدن کہ جنت سے
یہ آبِ زندگی ، بس چشمہ ء ہوس میں رہا
مرے افق پہ رکی ہے زوال کی ساعت
یونہی ستارہ مرا ، حرکت ء عبث میں رہا
کنارے ٹوٹ کے گرتے رہے ہیں پانی میں
عجب فشار مرے موجہ ء نفس میں رہا
وہی جو نکھرا ہوا ہے ہر ایک موسم میں
وہی برش میں وہی میرے کینوس میں رہا
قدم قدم پہ کہانی تھی حسن کی لیکن
ہمیشہ اپنے بنائے ہوئے قصص میں رہا
جسے مزاج جہاں گرد کا ملا منصور
تمام عمر پرندہ وہی قفس میں رہا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
آٹھویں غزل
موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا
بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا
اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ
گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا
بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں
ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا
شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ
دیکھا تو میں نے آنکھ کر پتھر بنا لیا
ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کیے چراغ
اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا
پیچھے جو چل دیا مرے سائے کی شکل میں
میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا
شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی
مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا
کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر
اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا
پھر عرصہ ء دراز گزارا اسی کے بیچ
اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا
بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر
اپنا دماغ گنبد ِ بے در بنا لیا
باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے
لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا
گم کرب ِ ذات میں کیا یوں کرب ِ کائنات
آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا
منصور جس کی خاک میں افلاک دفن ہیں
دل نے اسی دیار کو دلبر بنا لیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
ناویں غزل
اِس جانمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا
ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا
دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف
اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا
آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی
اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا
اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب
تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا
ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو
دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا
گربہ صفت گلی میں کسی کھونسلے کے بیچ
میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا
ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول
لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا
پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے
کمرے میں ہے میڈونا کا بستربنا ہوا
یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف
اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا
ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع
تھا انگ انگ جسم کا محشر بنا ہوا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
دسویں غزل
دیواروں پر تمام دروں پر بنا ہوا
ہے موت کا نشان گھروں پر بنا ہوا
بس زندگی ہے آخری لمحوں کے آس پاس
محشر کوئی ہے چارہ گروں پر بنا ہوا
آتا ہے ذہن میں یہی دستار دیکھ کر
اک سانپ کاہے نقش سروں پر بنا ہوا
ناقابلِ بیاں ہوئے کیوں اس کے خدو خال
یہ مسٗلہ ہے دیدہ وروں پر بنا ہوا
کیا جانے کیا لکھا ہے کسی نے زمین کو
اک خط ہے بوجھ نامہ بروں پر بنا ہوا
اک نقش رہ گیا ہے مری انگلیوں کے بیچ
منصور تتلیوں کے پروں پر بنا ہوا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
گیارہویں غزل
آئے نظر جو روحِ مناظر بنا ہوا
ہو گا کسی کے ہاتھ سے آخر بنا ہوا
یہ کون جا رہا ہے مدینے سے دشت کو
ہے شہر سارا حامی و ناصر بنا ہوا
پر تولنے لگا ہے مرے کینوس پہ کیوں
امکان کے درخت پہ طائر بنا ہوا
یہ اور بات کھلتا نہیں ہے کسی طرف
ہے ذہن میں دریچہ بظاہر بنا ہوا
آغوش خاک میں جسے صدیاں گزر گئیں
وہ پھررہا ہے جگ میں مسافر بنا ہوا
فتوی دو میرے قتل کا فوراً جنابِ شیخ
میں ہوں کسی کے عشق میں کافر بنا ہوا
کیا قریہ ء کلام میں قحط الرجال ہے
منصور بھی ہے دوستو شاعر بنا ہوا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
بارہویں غزل
ہاتھ سے ہنگامِ محشر رکھ دیا
گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا
اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے
بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا
پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں
آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا
اور پھر تازہ ہوا کے واسطے
ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا
ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر
پائوں میں اس کے مقدر رکھ دیا
دیکھ کر افسوس تارے کی چمک
اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا
ایک ہی آواز پہنی کان میں
ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا
نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر
خواب کو بسترسے باہر رکھ دیا
دیدہ ء تر میں سمندر دیکھ کر
اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا
زندگی کا استعارہ جان کر
ریل کی پٹڑی پہ پتھر رکھ دیا
رکھتے رکھتے شہر میں عزت کا پاس
ہم نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا
میری مٹی کا دیا تھا سو اسے
میں نے سورج کے برابر رکھ دیا
خانہ ء دل سے اٹھا کر وقت نے
بے سرو ساماں ،سڑک پر رکھ دیا
جو پہن کر آتی ہے زخموں کے پھول
نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا
کچھ کہا منصور اس نے اور پھر
میز پر لاکے دسمبر رکھ دیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
تیرہویں غزل
ہر روئیں پر ایک تارہ رکھ دیا
رفتہ رفتہ چرخ سارا رکھ دیا
رات کا قیدی بنایا اور پھر
آنکھ میں شوقِ نظارہ رکھ دیا
خاک پر بھیجا مجھے اور چاند پر
میری قسمت کا ستارہ رکھ دیا
بچ بچا کر کوزہ گر کی آنکھ سے
چاک پر خود کو دوبارہ رکھ دیا
دیکھ کر بارود صحنِ ذات میں
اس نے خواہش کا شرارہ رکھ دیا
دور تک نیلا سمندر دیکھ کر
میں نے کشتی میں کنارہ رکھ دیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چودہویں غزل
تری طلب نے ترے اشتیاق نے کیا کیا
فروزاں خواب کئے تیرہ طاق نے کیا کیا
میں جا رہا تھا کہیں اور عمر بھر کے لیے
بدل دیا ہے بس اک اتفاق نے کیا کیا
عشائے غم کی تلاوت رہے تہجد تک
سکھا دیا ہے یہ دینِ فراق نے کیا کیا
خراب و خستہ ہیں عاشق مزاج آنکھیں بھی
دکھائے غم ہیں دلِ چست و چاق نے کیا کیا
وہ لب کھلے تو فسانہ بنا لیا دل نے
گماں دئیے ترے حسن ِ مذاق نے کیا کیا
مقامِ خوک ہوئے دونوں آستانِ وفا
ستم کیے ہیں دلوں پر نفاق نے کیا کیا
ہر ایک دور میں چنگیزیت مقابل تھی
لہو کے دیپ جلائے عراق نے کیا کیا
ہر اک شجر ہے کسی قبر پر کھڑا منصور
چھپا رکھا ہے زمیں کے طباق نے کیا کیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
پندرہویں غزل
خواب ِ وصال میں بھی خرابہ اتر گیا
گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا
میں نے شب ِ فراق کی تصویر پینٹ کی
کاغذ پہ انتظار کا چہرہ اتر گیا
کوئی بہشتِ دید ہوا اور دفعتاً
افسوس اپنے شوق کا دریا اتر گیا
رش اتنا تھا کہ سرخ لبوں کے دبائو سے
اندر سفید شرٹ کے بوسہ اتر گیا
اس نرس کے مساج کی وحشت کا کیا کہوں
سارا بخار روح و بدن کا اتر گیا
کچھ تیز رو گلاب تھے کھائی میں جا گرے
ڈھلوان سے بہار کا پہیہ اتر گیا
منصور جس میں سمت کی مبہم نوید تھی
پھر آسماں سے وہ بھی ستارہ اتر گیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
سولہویں غزل
زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا
فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا
میں تشنہ لب پلٹ آیا کہیں سے
کنویں میں کوئی کتا گر پڑا تھا
سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن
ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا
مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر
کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا
رکابی تھی ذرا سی ، اور اس پر
کوئی چاول کا دانہ گر پڑا تھا
مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں
اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا
مری سچائی میں دہشت بڑی تھی
کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا
بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے
ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا
مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں
نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا
اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں
بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا
اٹھایا میں نے پلکوں سے تھا سپنا
اٹھاتے ہی دوبارہ گر پڑا تھا
نظر منصور گولی بن گئی تھی
ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
سترہویں غزل
اتنا تو تعلق نبھاتے ہوئے کہتا
میں لوٹ کے آئوں گا وہ جاتے ہوئے کہتا
پہچانو مجھے ۔میں وہی سورج ہوں تمہارا
کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا
یہ صرف پرندوں کے بسیرے کے لیے ہے
انگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا
ہر شخص مرے ساتھ اناالحق سرِ منزل
آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا
اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے
پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا
اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو
وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا
یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے
تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا
موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں میں روانی
دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا
عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو
کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا
میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور
محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اٹھارہویں غزل
تمہیں یہ پائوں سہلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا
سفر رستہ رہے گا بس ، کبھی منزل نہیں ہو گا
مجھے لگتا ہے میری آخری حد آنے والی ہے
جہاں آنکھیں نہیں ہوں گی دھڑکتادل نہیں ہوگا
محبت کے سفر میں تیرے وحشی کو عجب ضد ہے
وہاں کشتی سے اترے گا جہاں ساحل نہیں ہو گا
مری جاں ویری سوری اب کبھی چشم ِ تمنا سے
یہ اظہار ِ محبت بھی سرِمحفل نہیں ہو گا
سکوت ِ دشت میں کچھ اجنبی سے نقش ِ پا ہوں گے
کوئی ناقہ نہیں ہو گا کہیں محمل نہیں ہو گا
ذرا تکلیف تو ہو گی مگر اے جانِ تنہائی
تجھے دل سے بھلا دینا بہت مشکل نہیں ہو گا
یہی لگتا ہے بس وہ شورش ِ دل کا سبب منصور
کبھی ہنگامہ ء تخلیق میں شامل نہیں ہو گا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
انیسویں غزل
کسی کا نام مکاں کی پلیٹ پر لکھا
یہ انتظار کدہ ہے ، یہ گیٹ پر لکھاا
پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں
مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا
میں دستیاب ہوں ، اک بیس سالہ لڑکی نے
جوارِ ناف میں ہیروں سے پیٹ پر لکھا
لکھا ہوا نے کہ بس میری آخری حد ہے
’اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر‘ لکھا
جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں
ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا
جناب ِ شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت
سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا
ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور
یہی فلک نے زمیں کی پلیٹ پر لکھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
بیسویں غزل
پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ ، کہیں کا تھا
وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا
آپھر اک فریبِ راہ ہوا اپنا شاٹ کٹ
پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا
جبہ تھا دہ خدا کا تو دستار سیٹھ کی
حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا
آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنا مکان ہے
منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا
جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا
میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا
حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف
کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ ، کہیں کا تھا
سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار
پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا
بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے
دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا
وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی اپنی تھیں
چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا
کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے
آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا
شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں
وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا
میڈ اِن فرانس لکھا تھا پیکج پہ وصل کے
لیکن بدن کے بام پہ جلوہ کہیں کا تھا
صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب
بہنا کہیں پڑا اسے ، دریا کہیں کا تھا
کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے رات کی
کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا
کچھ کچھ شبِ وصال تھی کچھ کچھ شبِ فراق
آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا
اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے
وہ آسماں پہ ابر کا ٹکرا کہیں کا تھا
جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم
پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا
پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر
تحریر تھی کہیں کی ، حوالہ کہیں کا تھا
اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان
منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اکیسویں غزل
جب قریہ ء فراق مری سرزمیں ہوا
برق تجلٰی اوڑھ لی سورج نشیں ہوا
جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی
اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا
میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی
اور حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا
ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے
اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا
ہمت ہے میرے خانہ ء دل کی کہ بار بار
لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا
منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے
ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا
کھڑکی سے آ رہا تھا ابھی تو نظر مجھے
یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا
سینے کے بال چھونے لگی ہے دھکتی سانس
منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
بائیسویں غزل
اس نے پہلے مارشل لاء مرے انگن میں رکھا
میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا
صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند
جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا
جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی
موتیوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا
ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کے ہونٹوں پر نہیں
تھا جہنم خیز موسم اس کے جوبن میں رکھا
سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی
گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا
میں اسے منصور بھیجوں کس لئے چیتر کے پھول
جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
تیئسویں غزل
پیڑ پر شعر لگے ، شاخ سے ہجراں نکلا
اور اس ہجر سے پھر میرا دبستاں نکلا
رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی
اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا
نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے
کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا
خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے
رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا
لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر
والی ء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا
صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ
جانے کس کھوج میںپھر شہر ِ پریشاں نکلا
وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے
اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا
زخم ِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن
چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا
ترے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں
یہ خرابہ تو مری جان ! گلستاں نکلا
زخم کیا داد وہاں تنگی ء دل کی دیتا
تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا
رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور
جو شب ِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چوبیسویں غزل
آپ کا غم ہی علاجِ غم دوراں نکلا
ورنہ ہر زخم نصیب سر مژگاں نکلا
اور کیا چیز مرے نامہ ء اعمال میں تھی
آپ کا نام تھا بخشش کا جو ساماں نکلا
محشرِ نور کی طلعت ہے ،ذرا حشر ٹھہر
آج مغرب سے مرا مہر درخشاں نکلا
آپ کی جنبشِ لب دہر کی تقدیر بنی
چشم و ابرو کا چلن زیست کا عنواں نکلا
ظن و تخمین ِ خرد اور مقاماتِ حضور؟
شیخ عالم تھا مگر بخت میں ناداں نکلا
جب بھی اٹھی کہیں تحریک سحر کی منصور
غور کرنے پہ وہی آپ کا احساں نکلا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
پچیسویں غزل
درد مرا شہباز قلندر ، دکھ ہے میرا داتا
شام ہے لالی شگنوں والی ، رات ہے کالی ماتا
اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے
ہجر کے کالے چرخ ِکہن پر شب بھرسورج کاتا
پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں
اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا
شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے
بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا
ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا
پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا
مادھولال حسین مرا دل ، ہر دھڑکن منصوری
ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا
وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی
کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا
ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے
بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا
میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا
باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا
ذات محمد بخش ہے میری۔۔شجرہ شعر ہے میرا
اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا
میں ہوں موہجوداڑو۔مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں
ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ سے وقت کا ناطہ
ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر
شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چھبیسویں غزل
پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا
ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا
عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے
صبح طلب کی بہتی کشتی ، شب وسواس کا دریا
سورج ڈھالے جاسکتے تھے ہر قطرے سے لیکن
یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا
جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی
میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا
لوگ ہیں آبِ چاہ شباں کے لوگ حمام سگاں کے
شہر میں پانی ڈھونڈھ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا
تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر
سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا
سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن
رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
ستائیسویں غزل
ایک حیرت کدہ ہے نگر رات کا
آسمانوں سے آگے سفر رات کا
بام و در تک گریزاں سویروں سے ہیں
میرے گھر سے ہوا کیا گزر رات کا
صبح نو تیرے چہرے کے جیسی سہی
جسم ہے برگزیدہ مگر رات کا
چل رہا ہوں یونہی کب کڑی دھوپ میں
آ رہا ہے ستارہ نظر رات کا
پوچھ منصور کی چشمِ بے خواب سے
کتنا احسان ہے شہر پر رات کا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اٹھائیسویں غزل
میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا
مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا
مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک
میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا
میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ
یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا
کرے آکے گفت و شیند مجھ سے چراغ بس
کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا
میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں
کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا
مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے
میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا
شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک
کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا
مجھے جلتی کشیاں دیکھنے کی طلب نہیں
میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا
مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا
مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا
انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے
ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
انتیسویں غزل
تری ہر پرت میں کوئی پرت نہیں چاہتا
میں پیاز ایسی کہیں صفت نہیں چاہتا
اسے رقص گاہ میں دیکھنا کبھی مست مست
مرے دوستو میں اسے غلط نہیں چاہتا
کسی ذہن میں ، کسی خاک پر یا کتاب میں
میں یزید کی کہیں سلطنت نہیں چاہتا
مرے چشم و لب میں کرختگی ہے شعور کی
میں سدھارتھا، ترے خال وخط نہیں چاہتا
فقط ایک جام پہ گفتگو مری شان میں
سرِ شام ایسی منافقت نہیں چاہتا
مرے ساتھ شہر نے جو کیا مجھے یاد ہے
میں کسی کی کوئی بھی معذرت نہیں چاہتا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
تیسویں غزل
شکست ِجاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا
ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا
یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے
لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا
قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی
اسی قرابت ِ مے نے قسم کو توڑ دیا
قدم قدم پہ دل ِمصلحت زدہ رکھ کر
کسی نے راہ ِ وفا کے بھرم کو توڑ دیا
ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے
دعا کی ضرب سے دست ِستم کو توڑ دیا
سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر
وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا
یہ انتہائے کمالِ شعور ہے منصور
یہی کہ کعبہ ء دل کے صنم کو توڑ دیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اکتیسویں غزل
وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا
کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا
بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکا
میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا
کچھ ایسے بھی اندھے ہیں کہتے ہیں خدا اپنا
پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا
رستے پہ بقا کے بس قائم ہے منافع بخش
اُس پیڑ نے کٹنا ہے جو آم نہیں دیتا
اب سامنے سورج کے یہ اشکِ مسلسل کی
برسات نہیں چلتی ،غم کام نہیں دیتا
جو پہلے پہل مجھ کو بازار میں ملتے تھے
کوئی بھی خریدار اب وہ دام نہیں دیتا
بیڈ اپنا بدل لینا منصور ضروری ہے
یہ خواب دکھاتا ہے ، آرام نہیں دیتا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
بتیسویں غزل
کوئی چہرہ کوئی مہتاب دکھائی دیتا
نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا
خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں
کوئی دریا کوئی تالاب دکھائی دیتا
ڈوبنے کو نہ سمندر نہ کوئی چشم ِ سیہ
جام ہی میں کوئی گرداب دکھائی دتیا
توُ وہ ریشم کہ مرا ٹاٹ کا معمولی بدن
تیرے پیوند سے کمخواب دکھائی دیتا
دوستو آگ بھری رات کہاں لے جائوں
کوئی خس خانہ و برفاب دکھائی دیتا
دل میں چونا پھری قبروں کے اِمٰج ہیں منصور
کیسے میں زندہ و شاداب دکھائی دیتا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
تیتیسویں غزل
گھر سے سفید داڑھی حاجی پہن کے نکلا
پھر سود خور کیسی نیکی پہن کے نکلا
خوشبو پہن کے نکلامیں دل کے موسموں میں
اور جنگ کے رُتوں میں وردی پہن کے نکلا
کیسا یہ’’گے ادب ‘‘کا افتی مباحثہ تھا
ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا
لندن کے اک کلب سے بلی کی کج روی پر
ساقی کے ساتھ میں بھی وسکی پہن کے نکلا
شہوت عروج پر تھی آنکھوںمیں ڈاکیے کی
چلمن سے ہاتھ کیا وہ مہندی پہن کے نکلا
بازار ِجسم و جاں میں کہرا جما ہوا تھا
میں لمس کی دکاں سے گرمی پہن کے نکلا
کہتے ہیں چشم ولب کی بارش میں وسوسے ہیں
منصور دوپہر میں چھتری پہن کے نکلا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چوتیسویں غزل
موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا
پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا
اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمرآور ہوئے
پیڑ کو ٹہنی ملی مجھ پر قلم نازل ہوا
اوس کی مانند اُترا رات بھر مژگاں پہ میں
پھر کرن کا دکھ پہن کر صبح دم نازل ہوا
میں نے مٹی سے نکالے چند آوارہ خیال
آسمانوں سے کلامِ محترم نازل ہوا
یوں ہوا منصور کمرہ بھر گیا کرنوں کے ساتھ
مجھ پہ سورج رات کو الٹے قدم نازل ہوا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
پیتیسویں غزل
میری آنکھوں پر مرا حسن نظر نازل ہوا
دیکھنا کیا ہے مگر یہ سوچ کر نازل ہوا
اس پہ اترا بات کو خوشبو بنا دینے کا فن
مجھ پہ اس کو نظم کرنے کا ہنر نازل ہوا
کوئی رانجھے کی خبردیتی نہیں تھی لالٹین
ایک بیلے کا اندھیرا ہیر پر نازل ہوا
اس محبت میں تعلق کی طوالت کا نہ پوچھ
اک گلی میں زندگی بھر کا سفر نازل ہوا
وقت کی اسٹیج پربے شکل ہوجانے کا خوف
مختلف شکلیں بدل کر عمربھر نازل ہوا
جاتی کیوں ہے ہر گلی منصور قبرستان تک
یہ خیالِ زخم خوردہ دربدر نازل ہوا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چھتیسویں غزل
کیا خواب تھا ، پیکر مرا ہونٹوں سے بھرا تھا
انگ انگ محبت بھرے بوسوں سے بھرا تھا
کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر
اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا
ہلکی سی بھی آواز کہیں دل کی نہیں تھی
مسجد کا سپیکر تھا صدائوں سے بھرا تھا
اونچائی سے یک لخت کوئی لفٹ گری تھی
اور لوہے کا کمرہ بھی امنگوں سے بھرا تھا
اک ،پائوں کسی جنگ میں کام آئے ہوئے تھے
اک راستہ بارودی سرنگوں سے بھرا تھا
آوارہ محبت میں وہ لڑکی بھی بہت تھی
منصور مرا شہر بھی کتوں سے بھرا تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
سیتیسویں غزل
یاد کچھ بھی نہیں کہ کیا کچھ تھا
نیند کی نوٹ بک میں تھا ، کچھ تھا
میں ہی کچھ سوچ کر چلا آیا
ورنہ کہنے کو تھا ، بڑا کچھ تھا
چاند کچھ اور کہہ رہا تھا کچھ
دل ِ وحشی پکارتا کچھ تھا
اس کی پائوں کی چاپ تھی شاید
یہ یونہی کان میں بجا کچھ تھا
میں لپٹتا تھا ہجر کی شب سے
میرے سینے میں ٹوٹتا کچھ تھا
کُن سے پہلے کی بات ہے کوئی
یاد پڑتا ہے کچھ ، کہا کچھ تھا
آنکھ کیوں سوگوار ہے منصور
خواب میں تو معاملہ کچھ تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اٹھتیسویں غزل
سیاہ رنگ کا امن و سکوں تباہ ہوا
سفید رنگ کا دستور کجکلاہ ہوا
زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں
ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا
کئی دنوں سے زمیںدھل رہا ہے بارش سے
امیرِ شہر سے کیسا یہ پھر گناہ ہوا
شرارِ خاک نکلتا گرفت سے کیسے
دیارِ خاک ازل سے جنازہ گاہ ہوا
وہ شہر تھا کسی قربان گاہ پر آباد
سو داستان میں بغداد پھر تباہ ہوا
جلے جو خیمے تو اتنا اٹھا دھواں منصور
ہمیشہ کے لئے رنگ ِعلم سیاہ ہوا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
انتالیسویں غزل
دائروں کی آنکھ دی ، بھونچال کا تحفہ دیا
پانیوں کو چاند نے اشکال کا تحفہ دیا
رفتہ رفتہ اجنبی لڑکی لپٹتی ہی گئی
برف کی رت نے بدن کی شال کا تحفہ دیا
سوچتا ہوں وقت نے کیوں زندگی کے کھیل میں
پائوں میرے چھین کر فٹ بال کا تحفہ دیا
’’آگ جلتی ہے بدن میں ‘‘بس کہا تھا کار میں
ہم سفر نے برف کے چترال کا تحفہ دیا
رات ساحل کے کلب میں مچھلیوں کو دیر تک
ساتھیوں نے اپنے اپنے جال کا تحفہ دیا
کچھ تو پتھر پر ابھر آیا ہے موسم کے طفیل
کچھ مجھے اشکوں نے خدوخال کا تحفہ دیا
پانیوں پر چل رہے تھے عکس میرے ساتھ دو
دھوپ کو اچھا لگا تمثال کا تحفہ دیا
وقت آگے تو نہیں پھر بڑھ گیا منصور سے
یہ کسی نے کیوں مجھے گھڑیال کا تحفہ دیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چالیسویں غزل
پہلے سورج کو سرِ راہ گزر باندھ دیا
اور پھر شہر کے پائوں میں سفر باندھ دیا
چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے
وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا
وہ بھی آندھی کے مقابل میں اکیلا نہ رہے
میں نے خیمے کی طنابوں سے شجر باندھ دیا
میری پیشانی پہ انگارے لبوں کے رکھ کے
اپنے رومال سے اس نے مرا سر باندھ دیا
لفظ کو توڑتا تھا میری ریاضت کا ثمر
وسعت ِ اجر تھی اتنی کہ اجر باندھ دیا
چلنے سے پہلے قیامت کے سفر پر منصور
آنکھ کی پوٹلی میں دیدہ ء تر باندھ دیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اکتالیسویں غزل
کھینچ لی میرے پائوں سے کس نے زمیں ،میں نہیں جانتا
میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا
کیوں نہیں کانپتابے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے
کس لئے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا
ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں
خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا
کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں
کس طرح ، کب ہوا ، کون مسند نشیں ، میں نہیں جانتا
لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر
تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا
کیا مرے ساتھ منصورچلتے ہوئے راستے تھک گئے
کس لئے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
بیالیسویں غزل
پندار ِ غم سے ربط ِمسلسل نہیں ہوا
شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا
پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں
مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا
ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ
میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا
لاء ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہست کا مگر
قانونِ بود ہم سے معطل نہیں ہوا
دست ِ اجل نے کی ہے تگ ودو بڑی مگر
دروازہء حیات مقفل نہیں ہوا
منصور اپنی ذات شکستہ کئے بغیر
پانی کا بلبلہ کبھی بادل نہیں ہوا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
تیتالیسویں غزل
مری بدلحاظ نگاہ نے مجھے عرشِ جاں سے گرا دیا
وہ جو مرتبت میں مثال ہے اسی آستاں سے گرا دیا
مجھے کچھ بھی اس نے کہا نہیں مگر اپنی رت ہی بدل گئی
مجھے دیکھتے ہوئے برف کو ذرا سائباں سے گرادیا
مجھے دیکھ کر کہ میں زد پہ ہوں سرِ چشم آخری تیر کو
کسی نے کماں پہ چڑھا لیا کسی نے کماں سے گرا دیا
ہے عجب مزاج کی وہ کوئی کبھی ہم نفس کبھی اجنبی
کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسماں سے گرا دیا
میں وہ خستہ حال مکان تھا جسے خوف ِ جاں کے خیال سے
کسی نے یہاں سے گرادیا کسی نے وہاں سے گرا دیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چوالیسویں غزل
وہ چشم سراپا حیرت تھی کیا میں نے کیا
وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا
ہے فکر مجھے انجام مرے ہاتھوں سے نہ ہو
آغاز کا کیا ہے اس نے کیا یا میں نے کیا
کچھ زخم گلی کے بلب تلے تحریر کئے
پھر اپنے لہوسے اپنا تماشا میں نے کیا
صد شکر دئیے کی آخری لو محفوظ ہوئی
ہے فخر مجھے دربند ہوا کا میں نے کیا
منصور وہ میری آنکھ کو اچھی لگتی تھی
سو ہجر کی کالی رات سے رشتہ میں نے کیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
پیتالیسویں غزل
خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا
قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا
یہاں روبوٹ کم ہیں آسماں سے
یہ دنیا ہے یہاں آئندہ رہنا
مجھے دکھ کی قیامت خیز رت میں
محبت نے کہا ’’پائندہ رہنا‘‘
سمٹ آئی ہے جب مٹھی میں دنیا
کسی بستی کا کیا باشندہ رہنا
سکھاتا ہے مجھے ہر شام سورج
لہو میں ڈوب کر تابندہ رہنا
یہی منصور حاصل زندگی کا
خود اپنا آپ ہی کارندہ رہنا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چھتالیسویں غزل
مدت کے بعد گائوں میں آیا ہے ڈاکیا
لیکن اٹھی نہیں کوئی چشم ِ سوالیا
رہنے کو آئی تھی کوئی زہرہ جبیں مگر
دل کا مکان درد نے خالی نہیں کیا
جو زندگی کی آخری ہچکی پہ گل ہوئی
اک شخص انتظار کی اس رات تک جیا
پوچھی گئی کسی سے جب اس کی کوئی پسند
آہستگی سے اس نے مرانام لے لیا
تارے بجھے تمام ، ہوئی رات راکھ راکھ
لیکن مزارِ چشم پہ جلتا رہا دیا
تکیے پہ بُن رہا ہے ترا شاعر ِفراق
منصور موتیوں سے محبت کا مرثیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
سیتالیسویں غزل
ٹوٹا ہوا سینے میں کوئی تھا اسے کہنا
میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا
اک آگ لگا دیتے ہیں برسات کے دل میں
ہم لوگ سلگتے نہیں تنہا اسے کہنا
دروازے پہ پہرے سہی گھر والوں کے لیکن
کھڑکی بھی بنا سکتی ہے رستہ اسے کہنا
اے بجھتی ہوئی شام ! محبت کے سفرمیں
اک لوٹ کے آیا تھا ستارہ اسے کہنا
نازل ہوں مکمل لب و عارض کے صحیفے
ہر شخص کا چہرہ ہے ادھورا اسے کہنا
شہ رگ سے زیادہ ہے قریں میرا محمد
لولاک سے آگے ہے مدنیہ اسے کہنا
منصور مزاجوں میں بڑا فرق ہے لیکن
اچھا مجھے لگتا ہے بس اپنا اسے کہنا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اڑتالیسویں غزل
عرش تک میانوالی بے کنار لگتا تھا
دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا
بارشوں کے موسم میں جب ہوا اترتی تھی
اپنے گھر کا پرنالہ آبشار لگتا تھا
منچلوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی
کوچہ ء رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا
ایک چائے خانہ تھا یاد کے سٹیشن پر
بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا
ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی
اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا
ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں
لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا
قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوی تھی
جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا
باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی
ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا
ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصور
اپنا ہی زمانے پر اقتدار لگتا تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
انچاسویں غزل
شہد ٹپکا ، ذرا سپاس ملا
اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا
سوکھ جائیں گی اسکی آنکھیں بھی
جا کے دریا میں میری پیاس ملا
خشک پتے مرا قبیلہ ہیں
دل جلوں میں نہ سبز گھا س ملا
آخری حد پہ ہوں ذرا سا اور
بس مرے خوف میں ہراس ملا
آ ، مرے راستے معطر کر
آ ، ہوا میں تُو اپنی باس ملا
نسخہ ء دل بنا مگر پہلے
اس میں امید ڈال آس ملا
ہے سسی خان کے لیے منصور
سو غزل میں ذرا سپاس ملا
{سسی کا صحیح تلفظ یہی ہے}
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
پچاسویں غزل
خاک کا ایک اقتباس ملا
آسماں کے مگر ہے پاس ملا
اپنی تاریخ کے وہ ہیرو ہیں
جن کو وکٹوریہ کراس ملا
دیکھتے کیا ہو زر کہ یہ مجھ کو
اپنے ہی قتل کا قصاص ملا
جلوہ بس آئینے نے دیکھا ہے
ہم کو تو حسنِ انعکاس ملا
میز پر اہلِ علم و دانش کی
اپنے بھائی کا صرف ماس ملا
کتنے جلدی پلٹ کے آئے ہو
کیا نگر کا نگر خلاص ملا
اس میں خود میں سما نہیں سکتا
کیسا یہ دامنِ حواس ملا
چاند پر رات بھی بسر کی ہے
ہر طرف آسمانِ یاس ملا
گھر میں صحرا دکھائی دیتا ہے
شلیف سے کیا ابونواس ملا
زخم چنگاریوں بھرا منصور
وہ جو چنتے ہوئے کپاس ملا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اکاونویں غزل
جب مجھے حسنِ التماس ملا
تیرا فیضان بے قیاس ملا
جب بھی کعبہ کو ڈھونڈنا چاہا
تیرے قدموں کے آس پاس ملا
تیری رحمت تڑپ تڑپ اٹھی
جب کہیں کوئی بھی اداس ملا
تیری توصیف رب پہ چھوڑی ہے
بس وہی مرتبہ شناس ملا
یوں بدن میں سلام لہرایا
جیسے کوثر کا اک گلاس ملا
تیری کملی کی روشنائی سے
زندگی کو حسیں لباس ملا
ابن عربی کی بزم میں منصور
کیوں مجھے احترامِ خاص ملا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
باونویں غزل
غزلِ مقطعات
بجا ہے دوستو منصور کا گلہ کرنا
مگر کچھ اس کے مسائل کا بھی پتہ کرنا
بڑا ضروری ہے عشقِ مجاز میں منصور
خود اپنے آپ پہ خود کو فریفتہ کرنا
نگارِ لوح و قلم کا ہے مشورہ منصور
ہر ایک شے کا مکمل مطالعہ کرنا
بھلا دیا ہے جہنم نے وقت کے منصور
لبوں سے قوسِ قزح کا تبادلہ کرنا
بس اپنی آنکھ سے اک بار دیکھنا منصور
پھر اس کے حسنِ مکمل پہ تبصرہ کرنا
یہ عمر ایک ہی پہلو میں کاٹ دے منصور
غلط ہے روز تعلق کا تجربہ کرنا
بس ایک کام نہیں آ سکا مجھے منصور
شبِ فراقِ مسلسل کا خاتمہ کرنا
پھر اس کے بعد بدلنا اسے عجب منصور
تمام عمر میں بس ایک فیصلہ کرنا
جلا کے راکھ نہ کردے کہیں تجھے منصور
یہ برقِ طور سے شب بھر معانقہ کرنا
مرے رسول کی سنت مرے لئے منصور
زمیں پہ رہ کے فلک سے مکالمہ کرنا
جنابِ شیخ کو اچھا نہیں لگا منصور
خدا کی ذات سے اپنا مصافحہ کرنا
یہ پانچ وقت جماعت کہے مجھے منصور
نماز کیا ہے زمانے سے رابطہ کرنا
یہ کیا کہ وہ جو دھڑکتا بدن میں ہے منصور
اس ایک شخص کا ہر شخص سے پتہ کرنا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
ترپینویں غزل
شعورِ عشقِ محمد مری نماز ہوا
گماں یقین کی ساعت سے سرفراز ہوا
تُو کائنات کا خالق ہے مانتا ہوں مگر
مرا وجود تری ذات کا جواز ہوا
ترے لبوں کی کرم بار مسکراہٹ سے
نیاز مند خدائی سے بے نیاز ہو
میں رک گیا تھا جدائی کے جس جہنم میں
وہ انتظارِ قیامت سے بھی دراز ہوا
مرے سجود کی منزل ہے میری تنہائی
میں اپنی ذات کا خود ہی حریمِ ناز ہوا
مری مژہ پہ سجاتا ہے آنسوئوں کے چراغ
مزاجِ یار عجب روشنی نواز ہوا
مری جمال پرستی بھی تجھ سے ہے منصور
مرا حبیب ترا چہرہ ئ مجاز ہوا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چوونویں غزل
کبھی بارشوں سے بہنا ، کبھی بادلوں میں رہنا
یہی زندگی ہے اپنی ، یونہی آنسوئوں میں رہنا
کبھی یونہی بیٹھے رہنا تری یاد کے کنارے
کبھی رات رات بہتے ہوئے پانیوں میں رہنا
کبھی سات رنگ بننا کسی ابرِ خوشنما کے
کبھی شاخ شاخ گرتی ہوئی بجلیوں میں رہنا
مجھے یاد آ رہا ہے ترے ساتھ ساتھ شب بھر
یونہی اپنے اپنے گھر کی کھلی کھڑکیوں میں رہنا
مجھے لگ رہا ہے جیسے کہ تمام عمر میں نے
ہے اداس موسموں کے گھنے جنگلوں میں رہنا
یہ کرم ہے دلبروں کا ،یہ عطا ہے دوستوں کی
مرا زاویوں سے ملنا یہ مثلثوں میں رہنا
ابھی اور بھی ہے گھلنا مجھے ہجر کے نمک میں
ابھی اور آنسوئوں کے ہے سمندروں میں رہنا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
پچپنویں غزل
اپنے بت ، اپنے خدا کا درد تھا
یعنی اپنے بے وفا کا درد تھا
موت کی ہچکی مسیحا بن گئی
رات کچھ اِس انتہا کا درد تھا
ننگے پائوں تھی ہوا کی اونٹنی
ریت تھی اور نقشِ پا کا درد تھا
کائناتیں ٹوٹتی تھیں آنکھ میں
عرش تک ذہنِ رسا کا درد تھا
میں جسے سمجھا تھا ہجراں کا سبب
زخم پرودہ انا کا درد تھا
رات کی کالک افق پر تھوپ دی
مجھ کو سورج کی چتا کا درد تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چھپنویں غزل
پہلی پہلی ابتلا کا درد تھا
اس کے لہجے میں بلا کا درد تھا
اس کو خالی صحن کی تکلیف تھی
مجھ کو اندر کے خلا کا درد تھا
اب تلک احساس میں موجود ہے
کتنا حرف ِبرملا کا درد تھا
دور کا بے شک تعلق تھا مگر
خاک کو عرش علیٰ کا درد تھا
رو رہا تھا آسماں تک ساتھ ساتھ
ایسا تیرے مبتلا کا درد تھا
اب بھی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے وہ
ایسا ظالم کربلا کا درد تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
ستاونویں غزل
مضمحل ہوتے قویٰ کا درد تھا
خشک پتوں کو ہوا کا درد تھا
جان لیوا بس وہی ثابت ہوا
جو مسیحا کی دوا کا درد تھا
رک گیا ، آہیں ُسروں پر دیکھ کر
ساز کو بھی ہم نوا کا درد تھا
کچھ برس پہلے مرے احساس میں
تھا ، سلوکِ ناروا کا درد تھا
مجھ کو دکھ تھا کربلائے وقت کا
اس کو خاکِ نینوا کا درد تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اٹھاونویں غزل
اک مقامِ پُر فضا کا درد تھا
اس کی آنکھوں میں نزع کا درد تھا
وقت کی قربان گاہ تھی دور تک
اور ازل بستہ قضا کا درد تھا
اس کی مجبوری پہ چپ تھا میں مگر
مجھ کو رغبت اور رضا کا درد تھا
ہجر کی کالک بھری برسات سے
مجھ کو صحبت کو سزا کا درد تھا
اک طرف شہد و شراب و لمس تھے
اک طرف روزِ جزا کا درد تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
انسٹھویں غزل
اعتبارِ باختہ کا درد تھا
ساختہ پر داختہ کا درد تھا
امن پیشہ مورچوں کے پیٹ میں
پھڑپھڑاتی فاختہ کا درد تھا
نور تھا حدِ سراب ِ طور تک
جلوہ ئ خودساختہ کا درد تھا
اک امانت کی طرح ہے لمس میں
جو کسی دو شاختہ کا درد تھا
جس کی لذت حاصل ئ احساس ہے
ایک دوشیزہ خطا کا درد تھا —
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
ساٹھویں غزل
آخرش ہجراں کے مہتابوں کا مد فن ہوگیا
آنکھ کا تالاب بدروحوں کامسکن ہو گیا
دھوپ در آئی اچانک رات کو برسات میں
اس کا چہرہ آنسوئوں میں عکس افگن ہو گیا
دل چرا کر جا رہا تھا میں دبے پائوں مگر
چاند نکلا اور سارا شہر روشن ہو گیا
رو پڑا تھا جا کے داتا گنج کے دربار پر
یوں ہوا پھرراہ میں سانول کا درشن ہوگیا
بجلیاں ہیں بادلوں کے بین ہیں کمرے کے بیچ
اور کیلنڈر کہے ہے ، ختم ساون ہو گیا
کیوں سلگتی ریت نے سہلا دئیے تلووں کے پھول
یہ اذیت کیش دل صحرا کا دشمن ہو گیا
جھلملا اٹھتا تھا برتن مانجھنے پر جھاگ سے
اس کلائی سے جو روٹھا زرد کنگن ہو گیا
تیری میری زندگی کی خوبصورت ساعتیں
تیرا بچپن ہو گیا یا میرا بچپن ہو گیا
ایک جلوے کی قیامت میں نے دیکھی طور پر
دھوپ تھی ایسی کہ سورج سوختہ تن ہو گیا
بے خدا ہوں سوچتا ہوں شکر کس کا ہو ادا
میں نے جو چاہا وہی منصور فوراً ہو گیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اکسٹھویں غزل
مرکوز رکھ نگاہ کو ، پھر نین مت لگا
فرمانِ چشمِ یار پہ واوین مت لگا
زردار! یہ جو تُونے کئے ہیں ہزار حج
اس پر امیدِ رحمتِ دارین مت لگا
جس سے تُو دیکھتا ہے ابو جہل کے قدم
اُس آنکھ سے رسول کے نعلین مت لگا
خطرہ ہے انعدام کا میرے وجود کو
باہوں سے اپنی محفلِ قوسین مت لگا
دونوں طرف ہی دشمنِ جاں ہیں خیال رکھ
اتنے قریب حدِ فریقین مت لگا
کوئی تماشا اے مرے جدت طراز ذہن
تُو عرش اور فرش کے مابین مت لگا
جائز ہر ایک آنکھ پہ جلوے بہار کے
ط
اپنی کتابِ حسن پہ تُو بین مت لگا
دیوارِ قوس رکھ نہ شعاعوں کے سامنے
لفظِ طلو کے بعد کبھی عین مت لگا
دشمن کے ہارنے پہ بھی ناراض مجھ سے ہے
مجھ کو تو اپنا دل بھی کوئی’ جین مت‘ لگا
ادارک سلسلہ ہے ، اسے مختصر نہ کر
اپنے سکوتِ فہم کو بے چین ’مت‘ لگا
جس نے تمام زندگی بجلی چرائی ہے
اس کو تو واپڈا کا چیئرمین مت لگا
لگتا ہے یہ مقدمہ یک طرفہ عشق کا
منصور شرطِ شرکتِ طرفین مت لگا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
باسٹھویں غزل
مرے نصیب پہ رو دے ،کسی کا گھر نہ دکھا
تُو خالی ہاتھ مجھے بھیج۔۔ اور در نہ دکھا
تُو اپنی شام کے بارے کلام کر مجھ سے
کسی کے بام پہ ابھری ہوئی سحر نہ دکھا
ابھی تو وصل کی منزل خیال میں بھی نہیں
شبِ فراق! ابھی سے یہ چشمِ تر نہ دکھا
گزار آیا ہوں صحرا ہزار پت جھڑ کے
فریبِ وقت! مجھے شاخِ بے ثمر نہ دکھا
میں جانتا ہوں قیامت ہے بیچ میں منصور
مجھے یہ راہ میں پھیلے ہوئے خطر نہ دکھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
تریسٹھویں غزل
آسرا کس وقت مٹی کے کھلونے پر رکھا
وقت پر پائوں کہانی ختم ہونے پر رکھا
دیکھتا کیا دو جہاں میں کہ فراقِ یار میں
دیدہ و دل کو ہمیشہ وقف رونے پر رکھا
پانیوں کو ساحلوں میں قید کر دینے کے بعد
موج کو پابند ساحل کے ڈبونے پر رکھا
چاہتا تو وقت کا ہم رقص بن سکتا تھا میں
خود سے ڈر کر خود کو لیکن ایک کونے پر رکھا
اپنی آنکھیں چھوڑ آیا اس کے دروازے کے پاس
اور اس کے خواب کو اپنے بچھونے پر رکھا
سونپ کر منصور دل کو آگ سلگانے کا کام
آنکھ کو مصروف دامن کے بھگونے پر رکھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چوسٹھویں غزل
ٹوٹے ہوئے کواڑ کے منظر نے آلیا
آوارگی کی شام مجھے گھر نے آلیا
میں جا رہا تھا زخم کا تحفہ لئے بغیر
پھر یوں ہوا کہ راہ کے پتھر نے آلیا
میں سن رہا ہوں اپنے ہی اندر کی سسکیاں
کیا پھر کسی عمل کے مجھے ڈرنے آلیا
گزرا کہیں سے اور یہ آنکھیں چھلک پڑیں
یادش بخیر ! یادِ ستم گر نے آلیا
وہ جس جگہ پہ اُس سے ملاقات ہونی تھی
پہنچا وہاں تو داورِ محشر نے آلیا
منصور چل رہا تھاابھی کہکشاں کے پاس
یہ کیا ہوا کہ پائوں کی ٹھوکر نے آلیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
پیسٹھویں غزل
یوں خیالوں نے بدحواس کیا
ہجر کو وصل پر قیاس کیا
اپنی پہچان کے عمل نے مجھے
روئے جاناں سے روشناس کیا
کچھ فسردہ زمیں سے تھے لیکن
آسماں نے بہت اداس کیا
ہم نے ہر ایک نماز سے پہلے
زیبِ تن خاک کا لباس کیا
بھول آئے ہیں ہم وہاں منصور
کیا بسرا کسی کے پاس کیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
چھیسٹھویں غزل
اے چاند پتہ تیرا کسی سے نہیں ملتا
رستہ کوئی جا تیری گلی سے نہیں ملتا
او پچھلے پہر رات کے ،جا نیند سے کہہ دے
اب خواب میں بھی کوئی کسی سے نہیں ملتا
کیوں وقتِ مقرر پہ ٹرام آتی نہیں ہے
کیوں وقت ترا میری گھڑی سے نہیں ملتا
میں جس کے لیے عمر گزار آیا ہوں غم میں
افسوس مجھے وہ بھی خوشی سے نہیں ملتا
یہ ایک ریاضت ہے خموشی کی گپھا میں
یہ بخت ِہنر نام وری سے نہیں ملتا
وہ تجھ میں کسی روز ضرور آکے گرے گی
دریا تو کبھی جا کے ندی سے نہیں ملتا
دھلیز پہ رکھ جاتی ہے ہر شام جو آنکھیں
منصور عجب ہے کہ اسی سے نہیں ملتا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
ستایسٹھویں غزل
مل گئے مجھ کو بھی جینے کے بہانے کیا کیا
رنگ بکھرا دئیے پھر تازہ ہوانے کیا کیا
کیسی خوشبوئے بدن آتی ہے کمرے سے مجھے
پھول وہ چھوڑ گئی میرے سرھانے کیا کیا
میں تجھے کیسے بتائوں مری نازک اندام
مجھ پہ گزرے ہیں مصائب کے زمانے کیا کیا
میری خاموشی پہ الزام لگانے والی
کہتی پھرتی ہیں تری آنکھیں نجانے کیا کیا
کیا غزل چھیڑی گئی سانولے رخساروں کی
شام کے گیت کہے بادِ صبا نے کیا کیا
میرے پہلو میں نئے پھول کھلے ہیں کتنے
مجھ کو شاداب کیادستِ دعا نے کیا کیا
یونہی بے وجہ تعلق ہے کسی سے لیکن
پھیلتے جاتے ہیں منصور فسانے کیا کیا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اٹھاسٹھویں غزل
سینہ ء ہجر میں پھر چیر لگا
رات بھر نعرہ ئ تکبیر لگا
دھجیاں اس کی بکھیریں کیا کیا
ہاتھ جب دامنِ تقدیر لگا
وہ تو بے وقت بھی آ سکتا ہے
خانہ ئ دل پہ نہ زنجیر لگا
میں نے کھینچی جو کماں مٹی کی
چاند کی آنکھ میں جا تیر لگا
اس سفیدی کا کوئی توڑ نکال
خالی دیوار پہ تصویر لگا
کیوں سرِ آئینہ اپنا چہرہ
کبھی کابل کبھی کشمیر لگا
سر ہتھیلی پہ تجھے پیش کیا
اب تو آوازہ ئ تسخیر لگا
آسماں گر نہ پڑے ، جلدی سے
اٹھ دعا کا کوئی شہتر لگا
رہ گئی ہے یہی غارت گر سے
دائو پہ حسرت ِ تعمیر لگا
پھر قیامت کا کوئی قصہ کر
زخم سے سینہ ئ شمشیر لگا
بند کر پاپ کے سرگم منصور
کوئی اب نغمہ دلگیر لگا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
انہترویں غزل
کنارِ صبح ِمکاں اک تبسم بار چہرہ تھا
سمندر جیسی آنکھیں تھی گل و گلزار چہرہ تھا
مری نظریں اٹھیں توپھر پلٹ کر ہی نہیں آئیں
عجب سندرسی آنکھیں تھی عجب دلدار چہرہ تھا
سنا ہے اس لئے اس نے تراشے خال و خد میرے
اسے پہچان کو اپنی کوئی درکار چہرہ تھا
ہوا کی آیتوں جیسی تکلم کی بہشتیں تھیں
شراب و شہدبہتے تھے وہ خوش گفتار چہرہ تھا
جہاں پردھوپ کھلتی تھی وہیں بادل برستے تھے
جہاں پُرخواب آنکھیں تھیں وہیں بیدار چہرہ تھا
شفق کی سر خ اندامی لب و رخسار جیسی تھی
چناروں کے بدن پر شام کا گلنار چہرہ تھا
جسے بتیس برسوں سے مری آنکھیں تلاشے ہیں
بس اتنا جانتا ہوں وہ بہت شہکار چہرہ تھا
جہاں پر شمع داں رکھا ہوا ہے یاد کا منصور
یہاں اس طاقچے میں کوئی پچھلی بار چہرہ تھا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
سترویں غزل
میں زندگی ہوں وہ جانے لگا تواس نے کہا
وہ میرے ساتھ کوئی دن رہا تو اس نے کہا
مجھے زمین سے رکھنے ہیں اب مراسم بس
جب آسماں نے فسردہ کیا تو اس نے کہا
میں تتلیوں کے تعاقب میں جانے والا ہوں
کسی نے ماتھے پہ بوسہ دیا تو اس نے کہا
اداس رہنے کی عادت ہے مجھ کو ویسے ہی
گلی میں اس کی کوئی مرگیا تو اس نے کہا
مجھے بھی شام کی تنہائی اچھی لگتی ہے
مری اداسی کا قصہ سنا تو اس نے کہا
خیال رکھنا تجھے دل کا عارضہ بھی ہے
جب اس کے سامنے میں رو پڑا اس نے کہا
مجھے تو رات کی نیت خراب لگتی ہے
چراغ ہاتھ سے میرے گرا تو اس نے کہا
کوئی فرشتوں کی مجھ سے تھی دشمنی منصور
پڑھا نصیب کا لکھا ہوا تو اس نے کہا
دیوان منصور آفاق
ردیف الف
اکہترویں غزل
پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ ، کہیں کا تھا
وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا
پھر اک فریبِ راہ ہوا اپنا شاٹ کٹ
پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا
جبہ تھا دہ خدا کا تو دستار سیٹھ کی
حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا
آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنا مکان ہے
منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا
جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا
میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا
حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف
کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ ، کہیں کا تھا
سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار
پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا
بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے
دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا
وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی اپنی تھیں
چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا
کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے
آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا
شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں
وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا
میڈ اِن فرانس لکھا تھا پیکج پہ وصل کے
لیکن بدن کے بام پہ جلوہ کہیں کا تھا
صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب
بہنا کہیں پڑا اسے ، دریا کہیں کا تھا
کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے رات کی
کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا
کچھ کچھ شبِ وصال تھی کچھ کچھ شبِ فراق
آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا
اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان
منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا