دانگلی
دانگلی پوٹھوہار کا دوسرا دارالخلافہ
شمالی ہندوستان کا اپنے دور کا سب سے مضبوط ترین قلعہ
[ترمیم]یوں تو وادی پوٹھوہار جسے وادی سواں بھی کہا جاتا ہے اسکی تہذیب و تمدن ہزاروں سال پرانا ہے اور سواں،لنگ،کانسی، ہرو اور کورنگ کے پانیوں نے اپنے اندر ہزاروں راز چھپائے ہوئے ہیں، پانی کی بہتی لہروں نےبعض رازوں کو پانی کی گہرائوں میں چھپا لیا اور بعض کو اگل دیا، تاریخ کے غوطےخور ان سنہرے پانیوں کی گہرائیوں میں اُتر کر تاریخ کے نادر موتی نکال لاتے ہیں جنہیں قلمی صورت میں تاریخ ِ پوٹھوہارسے محبت رکھنے والوں کی نظر کیا جاتا ہے تاکہ وہ مستفید ہوسکیں،اس تہذیب پر مختلف وقتوں میں آنے والےبیرونی حملہ آوروں نے، بادشاہوں نے، تاجروں نے،اولیاء نے اپنے اثرات چھوڑے، فیض مندانِ پوٹھوہاراآج بھی ان اولیاء کے احسان مند ہیں اور ان کی آخری آرام گاہوں پر دُعا کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔وادیِ پوٹھوہار چونکہ اپنے چہار جانب جغرافیائی طور پرمرکزِ نگاہ تھی لہذا ہر حملہ آور کا اسی گزرگاہ سے گزرنا لازم تھا کیونکہ شمال کی طرف سے آنےوالے اولیاء و سپاہ کا یہی واحد راستہ تھا۔ صدیاں گزر گئی لیکن آج بھی پوٹھوہار کی وادی بدھ بھکششؤں کی غاروں اُنکی قدیم تحریروں ، سفید ہنوں کے حملے، راجہ پورس کی دیدہ دلیریوں کے قصوں، راجہ امبھی، الیگزینڈر و راجہ ابھی سارس (ابی سار ککر)،گکھڑوں کی ساڑھے سات سو سالہ حکومت ، اور مغل اثرات سے مزین ہے، پوٹھوہار جنگجو اقوام کا وطن ہےاسکی تاریخ جنگ و جدل سے بھرپور ہے پوٹھوہار کی تاریخ لکھنے والے کوئی بھی مصنف کچھ انتہائی اہم مقامات کا ذکر کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے،یہ جنگجوؤں کی سرزمین ہے اور یہاں کے بسنے والوں گکھڑوں میں خصوصاََ اور دوسری اقوام میں عموماََ یہ عسکری تیور آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جانہ و بنیر،سلطان پور، رہتاس علاقہ ڈومیلی، روات، اکبر آباد( تخت پڑی)،پھروالہ اور دانگلی۔ دانگلی جسے تاریخ و تاریخ دان مختلف ناموں سے ذکر کرتے جیسے دھان گلی، ڈینگلی، صحافی آفتاب اقبال نےایک ٹی وی پروگرام میں اسے قلعہ رانگلی کے نام سے پکارا ، چونکہ رائے زادہ دونی چند نے کیگوہرنامہ میں دانگلی ہی لکھا ہے جبکہ رائے برجناتھ نے بھی وجہ تسمیہ دیہاتِ دانگلی تحریر کی تو ہم بھی دانگلی لفظ کو ہی درست مانتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔ دانگلی کا نام تاریخ میں قلعہ دانگلی کے نام سے اُس وقت سامنے آتا ہے جب گکھڑ سلطان راجڑ خان 1105ء میں چانہ و بنیر سے پوٹھوہار کا دارالحکومت دانگلی منتقل کرتے ہیں اور یہاں اپنے دور کا شمالی ہندوستان کا مضبوظ طرین قلعہ تعمیر کرتے ہیں جس کے 2 طرف پہاڑ اور ایک طرف سلطان راجڑ خان کی بنوائی ہوئی بلند طرین فصیل تھی جسے کم از کم 100 آدمی ایک دوسرے پر کھڑے ہوکر پھلانگ سکتے تھے ،دانگلی اپنی دفاعی اہمیت کے پیشِ نظر فوجی لحاظ سے انتہائی اہم مقام تھا شاید یہی وجہ رہی ہوگی سلطان راجڑ خان گکھڑ کی دانگلی منتقلی کی، یہاں ایک اور امر کا ذکر کرتا چلوں کہ کچھ کھوکھر حضرات نے پوٹھوہار کی تاریخ کو ہتھیانے کے لئے ایک نازیبا حرکت یہ کی کہ گکھڑ سلطان راجڑ خان کو رائے اجر لکھ کر دانگلی کی ملکیت کا کتابی دعوہ کر ڈالا، تم میں نے مناسب سمجھا کہ اُن کو اس کالم کی وساطت سے جواب دیتا چلوں کہ 1105ء سے لے کر آج تک کیا دانگلی پر کوئی شدید برفانی طوفان آیا؟ کیا دانگلی پر ایسا کوئی شدید زلزلہ آیا جس میں کھوکھر زمین میں زندہ مدفن ہوگئےاور اُن کی مدفون ہڈہوں میں سے نئی کونپلیں پیدا ہوئی جن سے گکھڑ پیدا ہوگئے؟ تاریخ میں اگر رائے اجر کھوکھر نامی کسے بندے کا وجود ہوتا تو اُسکی اولاد کا بھی وجود ہوتا، دانگلی گکھڑوں کا تھا اور آج بھی دانگلی گکھڑوں کا ہے، گکھڑ کل بھی دانگلی میں آباد تھے دانگلی میں آج بھی گکھڑ آباد ہیں، دانگلی میں گکھڑ سلطانوں کی قبریں ہیں یہاں گکھڑسلطان فیروز خان اور اُن کے بیٹوں شاہ دولت خان بانی دولتالہ (گوجرخان)،عیسیٰ خان،جھنڈا خان بانی جھنڈا گاؤں و راولپنڈی شہر،تاتار خان کی قبریں ہیں ہے، یہاں گکھڑ سلطان اللہ داد خان المعروف دودہ حقانی کا مزار ہے یہاں گکھڑخاکی شاہ کا مزار ہے یہاں رانی منگو کے محلات کے آثار ہیں یہاں رانی منگو کا مزار ہے یہاں گکھڑ سلطان راجڑ خان کی قبر ہے ، دانگلی میں گکھڑ وں کے موضعات ہیں دانگلی میں گکھڑ آج بھی پورے طمطراق کے ساتھ آباد ہیں سکرانہ و بناہل جیسے مشہور موضعات گکھڑوں کی ملکیت ہیں موجودہ یونین کونسل منیاندہ کے سابق چیئرمین جناب تاج کیانی صاحب تھے اُنکے صاحبزادے توفیق تاج کیانی موجودہ وائس چیئرمین ہیں، جبکہ سکرانہ کو آباد بھی سلطان آدم خان کے پوتے دیوان سکر خان ولد مرزا سلیم خان نے کیا انکی قبر بھی سکرانہ میں ہے۔ دانگلی کے 472 موضعات کے چبے چبے میں گکھڑ آباد تھے اور ہیں لہذا کسی ذی شعور کے لئے کھوکھروں نے اس بے بنیاد دعوے پر یقین کرنا ممکن نہیں۔ دانگلی کا ذکر آتے ہی 2 نام فوراََ ذہن میں آتے ہیں جنکے بغیر دانگلی کا ذکر ادھورا ہے رانی منگو اور اُن کے خاوند قلندر منش انسان سلطان اللہ داد خان، رانی منگو اور منگلا کو اکثر لوگ ایک ہی خیال کرتے ہیں جو کہ صریحاََ غلط ہے، منگلا اکثر تاریخوں میں ہندؤں کی دیوی کا نام ہے جب کے بعض جگہ الیگزینڈر (سکندر) کی بیٹی بھی لکھا ہوا ہے، جبکہ رانی منگو گکھڑوں کی رانی تھی جو کہ جنجوعہ ریاست مکھیالہ کہ جنجوعہ سردار کی بیٹی تھی انکا عقدگکھڑ سلطان اللہ داد خان سے ہوا تھا،اور انکی بیٹی شہزادی مہ پارہ کا عقد مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے بیٹےشہزادہ اکبر شاہ ثانی کے ساتھ ہوا تھا، رانی منگو ایک دلیر خاتون تھی جن میں حکمرانی کے ساتھ سماجی بہبودی کاموں کا جذبہ بھی تھا رانی منگو نے پوٹھوہار میں مختلف مساجد کی تعمیر کے ساتھ شاہ خاکی میں بند جسے پکا بن کہا جاتا ہے یہ بھی رانی منگو سے منسوب ہے جبکہ موجودہ آزاد کشمیر کے پوٹھوہاری علاقے جو کہ پرگنہ دانگلی میں شامل تھے کے قلعوں کی توسیع و مرمت بھی رانی منگو نے کروائی،اب سلطان اللہ داد خان گکھڑ کا ذکر ہوجائے ، سلطان اللہ داد خان کا شجرہ سلطان آدم خان سے سلطان مقرب خان تک کچھ یوں بنتا ہے 1 سلطان آدم خان 2 محمد خان 3 سلطان جلال خان 4 سلطان اکبر قلی خان 5 سلطان مراد علی خان 6 سلطان نظر خان 7 سلطان اللہ داد خان خاوند رانی منگو 8 سلطان دلاور خان 9 سلطان معظم قلی خان 10 سلطان مقرب خان سلطان اللہ داد خان ایک فقیرانہ منش انسان تھے ایک جنگ میں ہونے والے خون خرابے سے اُنکا دل حکمرانی سے اُچاٹ ہوگیا اور اُنہوں نے حکمرانی سلطان دلاور خان کے نابالغ ہونے کی وجہ سے اپنی زوجہ رانی منگو کے حوالے کردی اورخود فقیری اختیار کرلی اور پوٹھوہار سے عازم پاکپتن ہوئے وہاں عبادت و ریاضت کرنے کے بعد اُچ شریف چلے گئے جہاں انکی آتشِ عشقِ الہی کہ بڑھاوہ ملا اور وہاں سے واپس آکر اُنھوں نے دانگلی کی ایک قریبی پہاڑی پر ڈیرہ لگایا اور اللہ اللہ کرنے لگے اور کمال قلندرانہ شان سے رانی منگو سے مخاطب ہوئے کہ "گکھڑوں کی نوبت چند روزہ ہے جبکہ میری نوبت تاقیامت ہے" اسلیئے جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو رانی منگو نے اپنے درویش صفت خاوند سلطان اللہ داد خان کی شایانِ شان قبر و مقبرہ تعمیر کروایا جہاں ہر جمعرات کو دیا جلایا جاتا اور اللہ داد خاں کے نام کی نوبت بجائی جاتی چونکہ سلطان اللہ داد خان کو مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے دودہ مرد حقانی (سچا خویش و اتبار مرد) کا خطاب دیا تھا لہذا وہ تاریخ میں دودہ مرد حقانی کے نام سے مشہور ہوگئے۔
تحریر محمد فرحان خالد کیانی رہنمائی پرویز اختر کیانی