جنگل لور/باب 9
جب میں دس سال کا تھا تو گھر والوں کے خیال میں میں اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ نینی تال والنٹیئر رائفلز کی کیڈٹ کمپنی میں شریک ہو سکوں۔ ان دنوں ہر طرف رضاکاری کا جنون پھیلا ہوا تھا اور تمام صحت مند لڑکے اور مرد شمولیت کو اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتے تھے۔ ہماری بٹالین میں چار کیڈٹ اور ایک بالغوں کی کمپنیاں تھیں اور کل افراد کی تعداد 500 تھی۔ چونکہ ہمارے علاقے کی کل آبادی ہی 6000 تھی تو 500 افراد کا مطلب ہر بارہویں فرد کی شمولیت تھی۔ 72 طلباء کے ہمارے اسکول کا پرنسپل ہمارے 500 کیڈٹوں والی کمپنی کا کیپٹن بھی تھا۔ اس کے نزدیک اس کمپنی کو بٹالین کی بہترین کمپنی بننا تھا۔ اس کا یہ خیال تو بہت عمدہ اور قابل تعریف تھا لیکن اسی وجہ سے ہم لڑکوں کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر ہفتے دو بار ہم اسکول کے کھیل کے میدان میں ڈرل کرتے تھے اور ہر ہفتے ایک بار نینی تال کے اوپر موجود کھلے میدانوں میں دیگر کمپنیوں کے ساتھ ہمیں ڈرل کرنی پڑتی تھی۔
ہمارے کیپٹن کی نظروں سے کوئی بھی غلطی اوجھل نہیں رہ سکتی تھی اور نہ ہی اس نے کبھی کسی غلطی کو معاف کیا۔ ڈرل سے فارغ ہو کر جب ہم اسکول آتے تو پھر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا۔ مطلوبہ طالبعلم سے چار فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہو کر چار فٹ لمبے ڈنڈے سے غلطی کی اصلاح کیا کرتا تھا۔ کیپٹن خود سے شرط لگاتا ہو یا نہ لیکن نئے آنے والے طلباء شرط لگا کر ہار جاتے تھے کہ ہر بار کیپٹن کی ضرب ہاتھ کے اس حصے پر لگتی تھی جو پہلے سے ڈنڈے کے تکلیف دہ وار سہہ چکا ہوتا تھا۔ نئے طلباء انہی شرطوں پر کنچے، لٹو، چاقو اور بسکٹ بھی ہار جاتے تھے۔ دوسری کمپنیوں والے ہمارے ڈرل پر تو اعتراض کرتے تھے لیکن کبھی اس بات کے وہ ہمیشہ معترف رہے تھے کہ ہماری کمپنی سب سے زیادہ بہتر نکلی ہے۔ یہ بات بجا تھی کیونکہ ڈرل سے قبل دیگر کمپنیوں کی طرح ہمارا بھی جائزہ لیا جاتا تھا کہ لباس پر کہیں کوئی داغ نہ ہو اور نہ ہی ناخن کے نیچے میل ہو۔
ہماری وردی نیلے سرج کی بنی ہوئی تھی اور ہمارے بڑے بھائیوں سے ہم تک پہنچی۔ یہ کپڑا نہ صرف زیادہ عرصہ چلتا تھا بلکہ جسم کے ہر نازک حصے کو رگڑنا اس کی خوبی تھی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہر قسم کا داغ دھبہ اس پر دور سے دکھائی دیتا تھا۔ وردی انتہائی تکلیف دہ اور گرم تھی لیکن ہمارا ہیلمٹ اس سے دو ہاتھ آگے ہوتا تھا۔ کسی سخت دھات کا بنا ہوا ہیلمٹ تھا جس پر چار انچ لمبا ایک فولادی کیل تھا۔ یہ کیل ہیلمٹ سے گزر کر ایک انچ نیچے تک آتا تھا۔ اس کیل کو دماغ تک سوراخ کرنے سے روکنے کے لیے اس پر کاغذ لگائے جاتے تھے اور پھر سخت چمڑے کی پٹی سے اسے باندھا جاتا تھا۔ شدید گرم سورج کے نیچے تین گھنٹے کی ڈرل کے بعد شام کو سبق یاد کرتے وقت سر درد سے پھٹ رہا ہوتا تھا۔ نتیجتاً ڈرل کے اگلے روز چار فٹ لمبا ڈنڈا روز سے کہیں زیادہ استعمال ہوتا تھا۔
ایک بار ڈرل کے وقت ایک مہمان افسر ہمارا معائنہ کرنے آیا ہوا تھا۔ ایک گھنٹے کی پریڈ کے بعد بٹالین کو سوکھا تال میں چاند ماری کے لیے لے جایا گیا۔ یہاں کیڈٹ کمپنیوں سے کہا گیا کہ ایک جگہ ہتھیار ڈھیر کر کے بیٹھ جائیں جبکہ بالغوں کی کمپنی ہمارے مہمان افسر کو اعشاریہ 450 کی ہنری مارٹینی رائفل سے اپنا نشانہ دکھائیں گے۔ ہماری بٹالین میں پورے ہندوستان کے چند بہترین نشانہ باز بھی شامل تھے جس پر پوری بٹالین کو ناز تھا۔ نشانے کے طور پر پختہ چبوترے پر موٹے لوہے سے نشانہ بنایا گیا تھا اور اس پر لگنے والی گولی کی آواز سے صاف پتہ چلتا تھا کہ گولی کنارے پر لگی ہے کہ درمیان میں۔
ہر کیڈٹ کا بالغوں کی کمپنی میں ایک نہ ایک ہیرو تھا اور ایک دوسرے کے ہیروز کے خلاف توہین آمیز الفاظ کا استعمال عام سی بات تھی اور اگر وردی میں لڑائی کرنا منع نہ ہوتا تو بہت لڑائیں ہوتیں۔ جب ہر نشانچی کے حاصل کردہ نمبروں کا اعلان ہو چکا تو سب کو جمع کر کے پانچ سو گز کے نشانے سے پھر دو سو گز کے نشانے تک مارچ کرایا گیا۔ یہاں پہنچ کر ہم نے پھر اپنی رائفلیں ڈھیر کیں اور پیچھے بیٹھ کر نشانہ بازی دیکھنے لگے۔
بین المدارس مقابلے ہمیشہ کانٹے دار ہوتے ہیں اور اس بار تو نشانے بازی کے اس مقابلے پر ہر طالبعلم نے پوری توجہ دی اور ہر اچھے اور برے نشانے پر غیر جانبدارانہ تبصرے بھی ہوئے۔ دونوں کمپنیوں کے پاس بہترین نشانے باز تھے اس لیے مقابلہ بہت سخت جا رہا تھا۔ جب نتائج کا اعلان ہوا تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ ہماری ٹیم نے دوسری پوزیشن لی تھی جبکہ پہلی پوزیشن والااسکول ہم سے تین گنا زیادہ طلباء والا تھا، پھر بھی وہ محض ایک پوائنٹ سے جیتے۔
ابھی ہم نشانوں پر بحث کر ہی رہے تھے کہ ہمیں اپنا سارجنٹ میجر افسران کے گروہ سے نکل کر اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ ساتھ ہی اس کی آواز سنائی دی، "کیڈٹ کاربٹ، کیڈٹ کاربٹ"۔ خدایا! اب میں نے ایسا کیا کر دیا کہ مجھے سب کے سامنے سزا ملتی۔ بجا کہ میں نے یہ کہا تھا کہ جس ایک پوائنٹ سے مخالف ٹیم جیتی ہے، محض ایک اتفاق تھا، جس پر مجھے کسی نے لڑائی کا کہا۔ نہ تو میں نے اس لڑکے کو دیکھا تھا اور نہ ہی کوئی لڑائی ہوئی تھی تو پھر سارجنٹ میجر کیوں میرا نام لے کر چلاتا آ رہا ہے کہ "کیڈٹ کاربٹ، کیڈٹ کاربٹ"۔ چاروں طرف سے آوازیں آئیں کہ "جاؤ"۔ "تمہیں بلا رہا ہے"۔ "جلدی کرو ورنہ مار کھاؤ گے"۔ آخرکار میں نے کھڑے ہو کر انتہائی کمزور آواز سے کہا "یس سر"۔ "جواب کیوں نہیں دے رہے تھے؟ تمہاری کاربین (چھوٹی نال والی رائفل) کہاں ہے؟ جلدی سے لے اسے اٹھا کر میرے ساتھ چلو"۔ ابھی میں حیران و پریشان کھڑا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے دوستانہ انداز میں دھکا دیا اور آواز آئی "جاؤ بھی، احمق کہیں کے" اور میں بھاگ پڑا۔
دو سو گز کے نشانے والی جگہ پر پہنچ کر جو طلباء نشانے بازی میں حصہ نہیں لے رہے تھے، انہوں نے اپنی رائفلیں ایک جگہ ڈھیر کر دی تھیں اور میری رائفل اور چند دیگر رائفلوں کے ساتھ اس ڈھیر کو اکٹھا کیا گیا تھا۔ کاربین نکالتے ہوئے سارا ڈھیر زمین پر گرا اور ابھی میں ساری رائفلیں پھر جمع کر رہا تھا کہ سارجنٹ میجر دھاڑا،"رائفلوں کو دفع کرو اور اپنی رائفل کو لے کر یہاں آؤ۔ رائفل اٹھاؤ، دائیں مڑو، کوئیک مارچ" یہ احکامات سنائی دیے۔ کسی میمنے سے بھی زیادہ خوفزدہ حالت میں میں سیدھا فائرنگ پوائنٹ پر پہنچا تو سارجنٹ میجر نے سرگوشی کی "مجھے شرمندہ مت کرنا۔" فائرنگ پوائنٹ پر مہمان افسر نے پوچھا کہ کیا میں اس کمپنی کا سب سے کم عمر کیڈٹ ہوں۔ تصدیق ہوئی تو پھر اس نے مجھے کہا کہ میں اسے چند فائر کر کے دکھاؤں۔ اس بات کو کہنے کا انداز دوستانہ اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ آس پاس موجود تمام افسران میں سے مجھے یہ واحد فرد ایسا لگا جسے اس بات کا علم ہو کہ اس طرح بہت بڑے مجمعے کے سامنے اچانک پیشی پر میرے جیسا بچہ کتنا پریشان، گھبرایا ہوا اور تنہا محسوس کر رہا ہوگا۔
ہم کیڈٹس کو دی جانے والی اعشاریہ 450 بور کی ہنری مارٹینی رائفل کا چھوٹے اسلحے میں سب سے زیادہ ہوتا تھا اور حالیہ ڈرل وغیرہ سے میں ویسے بھی تھکا ہوا تھا اور میرے ناتواں اور سوکھے کندھوں میں بہت تکلیف ہو رہی تھی اور اب مجھے دکھائی دے رہا تھا کہ اب مجھے کندھے پر مزید دھکے سہنے پڑیں گے۔ تاہم سب سے چھوٹا کیڈٹ ہونے کی سزا بھگتنی ہی تھی۔ سارجنٹ میجر کے حکم پر میں لیٹا اور سامنے رکھی گئی گولیوں میں سے پانچ کو اٹھایا اور رائفل میں ڈال کر آرام سے میں نے رائفل اٹھائی اور خوب اچھی طرح نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ تاہم نشانے کی طرف سے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ پھر مہمان افسر نے آرام سے کہا "سارجنٹ میجر۔ اب میں دیکھتا ہوں۔" اپنی بے داغ وردی سمیت وہ افسر میرے ساتھ تیل سے چیکٹ بوری پر لیٹ گیا اور بولا،"رائفل مجھے دو"۔ جب میں نے اسے رائفل پکڑائی تو اس نے نشانے کو دو سو گز پر ٹھیک کیا جو میں خود کرنا بھول گیا تھا، پھر اس نے رائفل مجھے پکڑائی اور کہا کہ جلدی مت کرو، آرام سے نشانہ لے کر گولی چلاؤ۔ اگلی چاروں گولیاں نشانے پر لگیں۔ کندھے پر تھپکی دے کر اس نے پوچھا کہ میرا سکور کتنا ہے۔ بتایا گیا کہ بیس میں سے دس نمبر، کیونکہ پہلی گولی خطا ہوئی تھی۔ "بہترین۔ عمدہ نشانہ" اس نے کہا۔ پھر جب وہ دیگر افسران سے باتیں کرنے لگا تو میں واپس اپنی کیڈٹ کمپنی کی گیا تو جیسے ہوا میں تیر رہا ہوں۔ تاہم میری خوشی اسی وقت ختم ہو گئی جب دیگر لڑکوں نے کہنا شروع کر دیا کہ "برا نشانہ تھا"، "کمپنی کے لیے باعث شرم" اور "بند آنکھوں سے میں زیادہ بہتر نشانہ لگا سکتا تھا" اور یہ کہ "پہلی گولی دیکھی کہ کہاں جا لگی"؟ لڑکے ہمیشہ سے ایسے ہوتے ہیں۔ سوچے بنا اپنی بات کہہ دیتے ہیں چاہے وہ دوسروں کے لیے کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔
اس دن سوکھا تال میں جب میں بہت پریشان اور تنہا تھا تو جس مہربان افسر نے میرے ساتھ دوستانہ برتاؤ کیا، بعد میں قومی ہیرو بنا اور فیلڈ مارشل ارل رابرٹس کے نام سے جانا گیا۔ بعد میں جب بھی کسی فیصلے کے وقت یا شکار میں گولی چلاتے وقت، مجھے جب بھی عجلت محسوس ہوئی تو میں نے اسی مشورے کو آزمایا اور ہمیشہ مشورے کے لیے شکر گزار رہا ہوں۔
سارجنٹ میجر نے برسوں تک نینی تال کے رضاکاروں پر ڈنڈے کے زور پر حکومت کی تھی، پستہ قد اور موٹی گردن والا بندہ تھا لیکن اس کا دل سونے کا تھا۔ اس دن ہماری آخری ڈرل کے بعد اس نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ کیا مجھے رائفل چاہئے؟ حیرت اور خوشی کے مارے میرے منہ سے آواز نہ نکلی تو اس نے کہا کہ "چھٹیوں پر جانے سے قبل مجھے مل لینا۔ میں تمہیں سروس رائفل اور جتنے کارتوس چاہو گے، دوں گا بشرطیکہ خالی کارتوس مجھے واپس کرنے ہوں گے اور رائفل کو صاف رکھو گے"۔
اس بار کالا ڈھنگی جاتے وقت میرے پاس نہ صرف رائفل بلکہ وافر مقدار میں کارتوس بھی تھے۔ سارجنٹ میجر کی دی ہوئی رائفل انتہائی درست نشانے کی حامل تھی اور اگرچہ بچے کو اس رائفل پر تربیت دینا اچھا نہیں لیکن میرے لیے یہ نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی۔ غلیل کے بعد تیر کمان اور تیر کمان کے بعد مزل لوڈر نے مجھے جنگل میں مزید دور تک جانے کا حوصلہ دیا تھا اور اب رائفل کے ساتھ تو میں جہاں جانا چاہتا، مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔
خوف کا جذبہ جانوروں کی حسیں تیز رکھتا ہے اور ہر وقت وہ خبردار رہتے ہیں اور یہی انسان کے ساتھ بھی معاملہ ہے۔ خوف کی وجہ سے میں جنگل میں خاموشی سے گھومنا، درختوں پر چڑھنا، آواز سنتے ہی اس کے ماخذ، سمت اور فاصلے کا درست اندازا لگانے کے قابل ہو گیا تھا اور اب جنگل کے دور افتادہ کونوں میں گھسنے کے لیے ضروری تھا کہ میں اب اپنی آنکھوں کو اور رائفل کو درست طور پر استعمال کرنا سیکھوں۔
انسان کے دیکھنے کی صلاحیت 180 ڈگری تک ہوتی ہے اور جب آپ ایسے جنگل میں پھر رہے ہوں جہاں نہ صرف ہر قسم کی جنگلی حیات بشمول زہریلے سانپ، دوسروں کے زخمی کئے ہوئے درندے وغیرہ بھی پائے جاتے ہوں، آنکھوں کی تربیت لازمی ہو جاتی ہے تاکہ پورے 180 ڈگری کو دیکھا جا سکے۔ ہمارے سامنے ہوئی کوئی بھی حرکت کو دیکھنا اور اس سے نمٹنا آسان ہوتا ہے لیکن وہ حرکات کو ہماری بصارت کے انتہائی کناروں پر ہو رہی ہوں، عموماً ان کو دیکھنا مشکل ہوتا ہے اور یہی حرکات ہی سب سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں اور انہی سے ڈرنا چاہئے۔ جنگل میں کوئی بھی جاندار بلا وجہ حملہ نہیں کرتا لیکن بعض حالات ایسے بھی پیدا ہو سکتے ہیں کہ کچھ مخلوقات حملہ کر بیٹھیں۔ اسی سے نمٹنے کے لیے آنکھوں کی تربیت لازمی ہوتی ہے۔ ایک بار کھوکھلے تنے میں چھپے کوبرے کی دو شاخہ زبان اور دوسری مرتبہ ایک جھاڑی کے پیچھے چھپے تیندوے کی دم کی حرکت نے مجھے عین وقت پر خبردار کیا کہ دونوں حملہ کرنے لگے تھے۔ دونوں بار ہی میں سامنے دیکھ رہا تھا اور دونوں ہی حرکات میری بصارت کے انتہائی کناروں پر ہوئی تھیں۔
مزل لوڈر نے مجھے گولیاں احتیاط سے چلانا سکھایا تھا اور اب رائفل کے ساتھ میں نے سوچا کہ کسی چیز پر نشانے کی خاطر گولی ضائع کرنا اچھی بات نہیں۔ اس لیے میں نے اب موروں اور جنگلی مرغیوں پر ہاتھ آزمانا شروع کر دیا۔ صرف ایک بار ایسا ہوا کہ پرندہ اتنا خراب ہو گیا کہ اسے پھینکنا پڑا۔ گولی چلانے سے قبل چاہے مجھے جتنا انتظار کرنا پڑتا یا مشکل ہوتی، مجھے اس پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔ تاہم جب مجھے اتنی مہارت ہو گئی کہ میں جہاں چاہتا، گولی مار سکتا تھا تو مجھے اتنا حوصلہ ملا کہ اب میں جنگل کے ان حصوں میں بھی جا سکتا تھا جہاں جاتے ہوئے مجھے شدید خوف ہوتا تھا۔ جنگل کا ایک حصہ ہم لوگ فارم یارڈ کے نام سے پکارتے تھے جہاں درختوں اور جھاڑیوں کا گھنا سلسلہ کئی میل تک پھیلا ہوا تھا اور اس کے بارے مشہور تھا کہ یہ حصہ جنگلی مرغیوں اور شیروں سے اٹا ہوا ہے۔ اس بات کی میں گواہی دیتا ہوں کہ جنگلی مرغیاں واقعی جتنی یہاں دیکھیں، اتنی دنیا کے کسی کونے میں نہیں ملیں۔ کوٹا سے کالا ڈھنگی جانے والی سڑک کا کچھ حصہ اسی فارم یارڈ سے گذرتا تھا اور اسی سڑک سے گذرنے والے ڈاک کے ہرکارے نے مجھے کئی سال بعد بتایا تھا کہ اس نے "بیچلر آف پوال گڑھ" کے پگ دیکھے تھے۔
تیر کمان اور مزل لوڈر کے دنوں میں میں ہمیشہ فارم یارڈ سے کنی کترا کر نکلتا تھا۔ تاہم اب اعشاریہ 450 بور کی طاقتور رائفل سے مجھے اتنا حوصلہ ملا کہ فارم یارڈ کو جا کر دیکھوں۔ جنگل میں سے ایک گہری اور پتلی سی کھائی گذرتی تھی اور شام کو اسی کھائی کے پاس جا کر میں کھانے کے لیے کوئی پرندہ یا گاؤں والوں کے لیے سؤر مارنے نکلا تھا۔ اچانک مجھے اپنی دائیں جانب جنگلی مرغیوں کی آواز سنائی دی جو خشک پتے الٹ پلٹ رہی تھیں۔ کھائی میں ایک پتھر پر میں بیٹھ گیا اور آہستہ سے سر کو کنارے کے اوپر نکالا تو دیکھا کہ تھوڑے فاصلے پر 20 سے 30 کے لگ بھگ جنگلی مرغیاں چر چگ رہی تھیں۔ ان کا رخ میری طرف تھا اور ان کی سربراہی ایک پرانا خرانٹ نر کر رہا تھا۔ اس نر کو نشانے پر لے کر میں منتظر رہا کہ کب نشانے کی لائن کے عین پیچھے کوئی درخت آئے کہ میں گولی چلاؤں۔ جب تک پرندے پر چلائی گئی گولی کو روکنے کے لیے پیچھے کوئی ٹھوس رکاوٹ نہ ہو، میں نے کبھی گولی نہیں چلائی۔ اچانک مجھے اپنی بائیں جانب کسی بھاری جانور کے چلنے کی آواز آئی۔ سر گھما کر دیکھا تو ایک بڑا تیندوا پہاڑی سے سیدھا میری طرف بھاگا آ رہا تھا۔ کوٹا کی سڑک میرے بائیں دو سو گز اوپر پہاڑ سے گذرتی تھی اور شاید تیندوا سڑک پر کسی چیز سے بھاگ کر ادھر پناہ لینے آ رہا تھا۔ جنگلی مرغیوں نے بھی تیندوے کو آتے دیکھا تو شور مچا کر اڑ گئیں۔ میں نے فوراً رخ بدلا تاکہ تیندوے کا سامنا کر سکوں۔ بظاہر تیندوے کی توجہ بٹی ہوئی تھی کہ وہ میری حرکت نہ دیکھ سکا اور سیدھا عین کھائی کے کنارے آن رکا۔
کھائی تقریباً 15 فٹ چوڑی تھی اور اس کے عمودی کنارے بائیں جانب 12 فٹ جبکہ دائیں جانب 8 فٹ اونچے تھے۔ دائیں کنارے پر دو فٹ نیچے پتھر تھا جہاں میں بیٹھا تھا۔ اس طرح تیندوا مجھ سے دو فٹ اونچا اور پندرہ فٹ دور تھا۔ جب رک کر تیندوے نے گردن موڑی اور اپنے پیچھے دیکھنے لگا تو مجھے رائفل اٹھانے کا موقع مل گیا۔ اس کے سینے کا اچھی طرح نشانہ لے کر جب میں نے گولی چلائی تو تیندوا اپنا سر میری جانب موڑ رہا تھا۔ کالے بارود کے دھوئیں سے میرے سامنے گہرا پردہ سا تن گیا تاہم مجھے اپنے اوپر سے جست لگا کر گذرتے تیندوے کی جھلک دکھائی دی۔ گذرتے وقت تیندوا خون کے چھینٹے ڈالتا گیا۔ رائفل اور اپنے نشانے پر مجھے پورا بھروسا تھا کہ تیندوا گولی کھاتے ہی اسی جگہ مر جائے گا اور اب یہ دیکھ کر مجھے تشویش ہوئی کہ تیندوا محض زخمی ہوا ہے۔ خون کی مقدار سے پتہ چل رہا تھا کہ تیندوا شدید زخمی ہوا ہے لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ کہنا مشکل تھا کہ آیا یہ زخم مہلک ہے یا نہیں۔ مجھے پریشانی ہوئی کہ اگر میں نے فوری پیچھا نہ کیا تو عین ممکن ہے کہ تیندوا کہیں دور جا کر کسی غار یا کھائی میں چپ چاپ مر جائے گا اور میں اسے تلاش نہیں کر پاؤں گا۔ اس لیے میں نے رائفل کو دوبارہ بھرا اور خون کے نشانات پر پیچھا کرنے لگا۔
100 گز جتنا فاصلہ بالکل ہموار تھا اور چند ہی درخت یا جھاڑیاں تھیں۔ اگلے پچاس گز تک فاصلہ کافی ڈھلوان تھا اور پھر زمین ہموار ہو گئی۔ پہاڑ کے کنارے اس جگہ پر بہت سارے جھاڑیاں اور بڑے پتھر پڑے تھے جن میں سے کسی کے پیچھے بھی تیندوا چھپ سکتا تھا۔ ہر ممکن احتیاط اور خاموشی سے میں آگے بڑھتا گیا۔ ابھی نصف فاصلہ طے کیا ہوگا کہ بیس گز دور مجھے تیندوے کی دم اور پچھلی ٹانگ ایک پتھر کے پیچھے سے جھانکتی دکھائی دی۔ چونکہ مجھے یقین نہیں تھا کہ تیندوا زندہ ہے یا مر گیا ہے، اس لیے میں وہیں کھڑا ہو کر دیکھتا رہا حتیٰ کہ تیندوے نے حرکت کی اور اس کی ٹانگ پتھر کے پیچھے غائب ہو گئی۔ اب صرف دم دکھائی دے رہی تھی۔ تیندوا زندہ تھا اور اس پر گولی چلانے کے لیے مجھے دائیں یا بائیں چلنا تھا۔ چونکہ اس کے جسم پر گولی چلا کر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تھی اس لیے میں نے سوچا کہ اب کی بار اس کے سر کو نشانہ بناتا ہوں۔ انچ انچ کر کے میں بائیں جانب کھسکتا گیا حتیٰ کہ تیندوے کا سر سامنے آ گیا۔ پتھر سے کمر لگائے تیندوا لیٹا دوسری جانب دیکھ رہا تھا۔ میں نے کوئی آواز تو نہیں پیدا کی تھی لیکن پھر بھی تیندوے کو میری موجودگی کا احساس ہو گیا۔ جب وہ اپنا سر میری جانب موڑ رہا تھا کہ میں نے گولی اس کے کان میں اتار دی۔ فاصلہ کم تھا اور میں نے عجلت نہیں کی تھی اس لیے تیندا اب میرے سامنے مردہ پڑا تھا۔ بھاگ کر میں نے اس کو دم سے پکڑا اور اسے وہاں سے ہٹا دیا کہ وہاں خون جمع ہو رہا تھا۔
جب میں نے تیندے کے پاس کھڑے ہو کر اسے دیکھا تو یہ کہنا مشکل ہے کہ میرے کیا جذبات رہے ہوں گے۔ تیندوے کو اپنی طرف آتے دیکھنے سے لے کر جب میں نے تیندوے کو خون سے کھینچ کر ایک طرف کیا، میرے اعصاب مکمل طور پر میرے کنٹرول میں تھے۔ اب نہ صرف میرے ہاتھ بلکہ پورا جسم لرز رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر تیندوا میرے سامنے مخالف کنارے پر رکنے کی بجائے عین میرے سر پر آن رکتا تو کیا ہوتا۔ اس بات کی بھی خوشی تھی کہ اتنا خوبصورت جانور میں نے شکار کیا ہے۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کو جان کر کہ اب جب میں گھر جا کر دوسروں کو اس کے بارے بتاؤں گا تو وہ کتنے خوش ہوں گے۔ میں چاہتا تو خوشی سے چیختا، چلاتا، گاتا، ناچتا، لیکن میں اپنی جگہ خوشی کی شدت سے چپکا کھڑا رہا۔ میری خوشی اتنی شدید تھی کہ جب تک دوسروں کو نہ بتاتا، مجھے سکون نہ ملتا۔
مجھے اس بات کا بالکل بھی اندازا نہیں تھا کہ تیندوا کتنا بھاری ہوگا لیکن میں ہر قیمت پر تیندوے اٹھا کر گھر لے جانا چاہتا تھا۔ رائفل کو نیچے رکھ کر میں نیچے کھائی میں اترا اور مختلف بیلوں اور درخت کی چھالوں کو جمع کر کے اوپر لایا اور پھر اس سے مضبوط رسی بنائی اور تیندوے کی اگلی اور پچھلی ٹانگیں ایک ساتھ باندھ دیں۔ پھر نیچے جھک کر میں نے رسی اپنے کندھوں پر جما کر اٹھنے کی کوشش کی تو ناکامی ہوئی۔ پھر میں نے تیندوے کو گھسیٹ کر چٹان پر رکھا اور پھر اٹھانے کی ناکام کوشش کی۔ جب مجھے اندازا ہوا کہ میں اکیلا تیندوا نہیں اٹھا سکوں گا تو میں نے مختلف شاخیں وغیرہ توڑ کر تیندوے کو ڈھانپا اور تین میل دور گھر کو بھاگ کھڑا ہوا۔ گھر پہنچ کر میں نے جونہی یہ خوشخبری سنائی، ہر کوئی خوش دکھائی دیا۔ چند منٹ بعد ہی میری بہن میگی اور میں اپنے ساتھ دو ہٹے کٹے ملازموں کو لے کر واپس فارم یارڈ پہنچے تاکہ میرا پہلا تیندوا گھر لایا جا سکے۔
قسمت اناڑیوں کا ساتھ دیتی ہے ورنہ تیندوے سے یہ میری پہلی ملاقات میری زندگی کی آخری ملاقات ہو سکتی تھی۔ اپنے اوپر اور نزدیک موجود تیندوے پر میں نے یہ جانے بغیر گولی چلا دی تھی کہ کہاں گولی لگنے سے تیندوا فوری موت کا شکار ہو جاتا۔ اس وقت تک میرے شکار کردہ جانوروں کی کل تعداد ایک مزل لوڈر سے مارا گیا چیتل اور اعشاریہ 450 رائفل سے مارے گئے تین سور اور ایک کاکڑ تھے۔ چونکہ سور اور کاکڑ کو میں نے سینے میں ایک گولی سے مار لیا تھا اس لیے میں نے سوچا کہ تیندوا بھی اسی طرح سینے میں گولی مارنے سے فوری مر جائے گا اور غلطی کر بیٹھا۔ اگرچہ بعد میں میں نے سیکھا کہ تیندوے کو ایک گولی سے فوری کیسے مارا جا سکتا ہے لیکن یہ کام سینے میں گولی مارنے سے شاید ہی ہو پائے۔
جب بھی تیندوے کو جسم پر ایسا زخم لگے کہ جس سے وہ نہ تو فوری طور پر مرے اور نہ ہی مفلوج ہو تو وہ اندھا دھند جست لگا کر بھاگتا ہے۔ تیندوے پر گولی چلائی جائے تو وہ کبھی بھی جان بوجھ کر حملہ نہیں کرتا تاہم اتفاقیہ طور پر شکاری راستے میں کھڑا ہو اور مزید یہ کہ تیندوے کو شکاری کے مقام کا بھی اندازا نہ ہو تو حادثات کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ گولی کھاتے ہی تیندوے جست لگا کر میری خوش قسمتی سے میرے پیچھے کنارے پر پہنچا کیونکہ اسے میرے مقام کا علم نہیں تھا اور اگر وہ میرے اوپر آن گرتا تو بھی میرے لیے شدید خطرہ ہوتا۔
سینے پر چلائی گئی گولی کتنی غیر یقینی ہوتی ہے، اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ میگی اور میں منگولیا کھٹہ نامی جگہ پر کیمپ لگائے ہوئے تھے۔ اس جگہ ہمارے گاؤں کے مویشی چرنے کو بھیجے جاتے تھے کہ کالا ڈھنگی کے جنگلات میں بعض اوقات چارہ ختم ہو جاتا تھا۔ ایک صبح ہم ناشتا کر رہے تھے کہ مجھے چیتل کے ایک غول کی آواز آئی۔ بظاہر ان کے سامنے تیندوا ان کے کسی ساتھی کو ہلاک کر رہا تھا۔ منگولیا کھٹہ آنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ ایک تیندوا ہمارے مویشی ہلاک کر رہا تھا اور میں اسے ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ اب چونکہ شکار کا موقع ملا تو میں نے ناشتا ادھورا چھوڑا اور اعشاریہ 275 کی رائفل اٹھا کر روانہ ہو گیا۔
چیتل ہمارے کیمپ سے چار سو گز مغرب کی جانب تھے جب ان کی آواز آئی۔ میں نے چکر کاٹ کر اس جگہ کا رخ کیا تاکہ ایک تو ہوا کی سمت موافق ہو جائے اور دوسرا براہِ راست والے راستے میں بانسوں کا ایک جھنڈ اور دلدلی قطعہ بھی آتا تھا۔ جب میں اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ 50 کے قریب چیتل کھلے قطعے میں کھڑے بانسوں کے جھنڈ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دلدلے قطعے اور بانسوں کے جھنڈ کے درمیان میں دو سو گز چوڑی گھاس کی پٹی ہے۔ مجھ سے ساٹھ گز دور ایک تیندوا نر چیتل کو گھسیٹ رہا تھا۔ مزید آگے جاتا تو تیندوے یا چیتل مجھے دیکھ لیتے، اس لیے وہیں بیٹھ کر میں نے رائفل اٹھائی اور انتظار کرنے لگا کہ تیندوا کب گولی چلانے کا موقع دیتا ہے۔
نر کافی بڑا اور وزنی تھا اور تیندوے کو گھسیٹنے میں بہت مشکل ہو رہی تھی۔ ایک بار جب اس نے چیتل کو چھوڑا اور میری جانب رخ کر کے کھڑا ہوا۔ ساٹھ گز کے فاصلے سے تیندوے کے سفید سینے پر بنے کالے دھبے گولی چلانے کے لیے بہترین مقام ہوتے ہیں۔ جب میں نے لبلبی دبائی تو مجھے معلوم تھا کہ گولی میری مطلوبہ جگہ پر لگی ہے۔ گولی لگتے ہی تیندوا ہوا میں اونچا اچھلا اور نیچے آتے ہی سیدھا گھاس میں گھس گیا۔ جہاں گولی لگتے وقت تیندوا کھڑا تھا، وہاں جا کر دیکھا تو وہاں سے خون کے نشانات گھاس تک جاتے دکھائی دیے۔ اس جگہ گھاس میری کمر تک اونچی تھی۔ پاس موجود درخت سے چند شاخیں توڑ کر میں نے چیتل کو ڈھانپا۔ یہ چیتل بہترین حالت میں خوب فربہ تھا اور ہمارے ملازمین اسے پا کر بہت خوش ہوتے۔ پھر کیمپ جا کر میں نے ناشتا کھایا اور پھر چار ساتھیوں کے ہمراہ تیندوے کو ہلاک کرنے لوٹا۔ جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں میں نے گولی چلائی تھی تو ایک ساتھی نے سامنے دائیں جانب اشارہ کیا۔ اس جگہ جلی ہوئی گھاس ختم ہوتی تھی اور گھاس کا قطعہ شروع ہو رہا تھا۔ اس جگہ تقریباً اڑھائی سو گز دور تیندوا کھڑا تھا۔
جب ہمارے مزارعین ہمارے ساتھ شکاری مہمات پر جاتے ہیں تو وہ کسی بھی قسم کا معاوضہ نہیں لیتے۔ تاہم جب ہم جنگل میں پہنچیں تو ہمارا مقابلہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے قابلِ شکار جانور کو کون دیکھتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے پہلے دیکھیں تو میں بطور جرمانہ انہیں ایک روپیہ ادا کرتا ہوں۔ ایک روپیہ میں نے دو بندوں میں تقسیم کیا کیونکہ دونوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ایک ہی وقت میں تیندوا دیکھا تھا۔ پھر دیکھا تو تیندوا ہماری جانب آ رہا تھا تو ہم وہیں چھپ کر بیٹھ گئے۔ ظاہر تھا کہ یہ زخمی تیندوے کا جوڑا ہوگا اور یہ دیکھنے آیا ہوگا کہ اس کے ساتھی نے کیا شکار کیا ہے۔ ہم سے سو گز کے فاصلے پر پہنچ کر تیندوا کئی منٹ کے لیے رک گیا۔ گولی چلانے کا موقع تو تھا لیکن پہلے ہی میں ایک تیندوے کو سینے میں گولی مار کر زخمی کئے بیٹھا تھا، اس لیے میں نے اتنی دور گولی چلانے کی بجائے صبر کیا۔
چیتل کی لاش پر پڑی شاخوں سے تیندوے کو کافی الجھن ہوئی اور اِدھر اُدھر دیکھ کر تیندوا لاش تک پہنچا۔ جب وہ میرے سامنے آڑا کھڑا تھا تو میں نے اس کے بائیں کندھے سے ایک یا دو انچ پیچھے گولی اتار دی۔ گولی کھاتے ہی تیندوا اسی جگہ گرا اور ہلے بغیر مر گیا۔ پاس جا کر تسلی کی اور پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ بانس سے تیندوے کو باندھ کر کیمپ پہنچا کر پھر چیتل کو بھی لے جائیں۔ اب میں کمر تک اونچی گھاس میں زخمی تیندوے کا پیچھا کرنے کو تیار تھا۔ یہ ایسا کام ہے جو مجھے شدید ناپسند ہے۔
شکاریات کا اٹل قانون ہے کہ زخمی جانور کو ہر حال میں تلاش کر کے ہلاک کیا جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ ہر شکاری اس ناخوشگوار کام کو اپنی مرضی کے طریقے سے سرانجام دیتا ہے۔ جن شکاریوں کے پاس ہاتھی ہوں، ان کے لیے یہ کام بہت آسان ہے۔ لیکن میری طرح کے شکاری جو پیدل ہی زخمی درندے کی تکلیف ختم کرنا چاہتے ہوں، انہیں اپنے بچاؤ کے لیے بہترین طریقے سیکھنے پڑتے ہیں۔ زخمی جانور کے شکار کے لیے جنگل کو آگ لگانا انتہائی ظالمانہ اور بیکار فعل ہے کہ اگر جانور کم زخمی ہو تو جنگل چھوڑ کر دور نکل جائے اور اگر شدید زخمی ہو تو زندہ جل کر مر جائے گا۔ اونچی گھاس میں کسی زخمی جانور کا پیچھا اس کے خون کے نشانات سے کرنا خطرناک ہوتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں میرا طریقہ یہ ہے کہ میں زخمی جانور کے خون کے نشانات کو نظر انداز کر کے قدم بقدم احتیاط سے آگے بڑھتا ہوں اور دعا یہی ہوتی ہے کہ مشکل نہ ہو لیکن بری صورتحال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہوتا ہوں۔ کسی قسم کی آواز سنتے ہی زخمی جانور یا تو حملہ کرے گا یا پھر اپنی جگہ سے حرکت کرے گا جس سے اس کے مقام کا اندازا ہو جائے گا۔ اگر زخمی جانور حملہ نہ کرے اور حرکت سے اس کے مقام کا پتہ چل جائے تو پتھر، لکڑی کا ٹکڑا یا ہیٹ پھینکتے ہیں اور اس پر حملہ کرتے درندے کو شکار کر لیتے ہیں۔ تاہم اس طریقے پر عمل کرنے کے لیے ایک تو ہوا بالکل نہ ہو تاکہ گھاس کی سرسراہٹ نہ سنائی دے، دوسرا شکاری کو گھاس میں شکار کا کچھ نہ کچھ تجربہ ہونا چاہئے۔ اگرچہ زخمی جانور تنگ ہونے پر بہت شور کرتا ہے لیکن حملے کے دوران میں آخری وقت تک وہ زمین کے قریب ہی جھکا رہتا ہے۔
اس روز ہوا نہیں چل رہی تھی اس لیے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر میں خون کے نشانات پر چلتا ہوا اس جگہ پہنچا جہاں نشانات گھاس میں گم ہو رہے تھے۔ رائفل کا معائینہ کر کے کہ بھری ہوئی ہے اور درست کام کر رہی ہے، میں انتہائی احتیاط کے ساتھ گھاس میں داخل ہوا۔ جونہی میں گھاس تو پیچھے سے میرے ساتھیوں نے مجھے واپس آنے کا اشارہ دیا۔ واپس پہنچا تو انہوں نے بتایا کہ تیندوے کو بانس پر باندھتے ہوئے انہیں گولیوں کے تین سوراخ دکھائی دیے۔ ایک گولی بائیں کندھے کے پیچھے لگی اور تیندوے کو ہلاک کر گئی جبکہ دوسرا سوراخ سینے کے وسط میں تھا جبکہ تیسرا سوراخ دم کی جڑ سے دو انچ کے فاصلے پر۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس تیندوے کے پاس اپنے شکار پر واپس آنا کی بڑی معقول وجہ تھی اور جب مجھے علم ہوا تو شدید پشیمان ہوا تھا۔ تیندوے کے بچے بہت چھوٹی عمر سے ہی پرندے، چوہے، مینڈک اور دیگر جانور شکار کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اس بہادر مادہ تیندوے کے زخمی ہونے کے بعد واپس لوٹنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسے بچوں کے لیے شکار چاہئے تھا۔ میں نے بچوں کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کی لیکن نہیں ملے۔ میری دعا ہے کہ وہ اتنے بڑے ہوں کہ اپنا خیال رکھ سکتے ہوں۔
ابھی جیسا کہ میں نے بتایا کہ گھاس میں داخل ہوتے وقت میں نے اپنی تسلی کی تھی کہ رائفل بھری ہوئی ہے، شاید کئی شکاریوں کو حیران کن لگے کہ ابھی میں نے ایک تیندوے پر گولی چلا کر اسے ہلاک کیا اور اسے دیکھنے قریب پہنچا تو ظاہر ہے کہ خالی رائفل کے ساتھ تو نہیں گیا ہوں گا کیونکہ مجھے پوری طرح یقین نہیں تھا کہ آیا تیندوا زندہ ہے کہ مر چکا ہے۔ پھر میں نے تسلی کیوں کی کہ آیا رائفل بھری ہے کہ خالی؟ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ نہ صرف اس مرتبہ بلکہ ہر بار جب ایسا موقع آیا کہ میری زندگی کا انحصار رائفل کے بھرے ہونے پر تھا، میں یہ تسلی کر لیتا ہوں۔ خوش قسمتی سے میں نے اپنا سبق کم عمری میں ہی سیکھ لیا تھا اور شاید اسی وجہ سے ہی ابھی تک زندہ ہوں۔
محکمہ گھاٹ، جس کے بارے میں "مائی انڈیا" میں لکھ چکا ہوں، پر کام شروع کرنے کے کچھ عرصے بعد میں نے اپنے دو دوستوں کو کالاڈھنگی شکار کی دعوت دی۔ آمد کے اگلے دن صبح میں انہیں باہر لے گیا۔ ایک کا نام سلور اور دوسرے کا نام مین تھا۔ ہلدوانی کی سڑک پر دو میل دور گئے تو تیندوے کے ہاتھوں چیتل مرنے کی آواز آئی۔ مجھے علم تھا کہ میرے ساتھ چھپ کر تیندوے پر گھات نہیں لگا سکتے اس لیے میں نے ان میں سے ایک کو درخت پر چڑھانے کا سوچا۔ سلور کے پاس اعشاریہ 500 کی دو نالی رائفل جبکہ مین کے پاس اعشاریہ 400 کی ایک نالی رائفل تھی جو کالے بارود سے چلتی تھی۔ یہ دونوں رائفلیں مستعار لی گئی تھیں۔ میرے پاس اعشاریہ 275 کی میگزین رائفل تھی۔ عمر میں سلور ذرا بڑا تھا اور بہتر ہتھیار اس کے پاس تھا تو مین نے قرعہ اندازی سے انکار کرتے ہوئے بخوشی سلور کو اجازت دے دی۔ پھر ہم چیتل کو تلاش کرنے نکلے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو نر چیتل ابھی تک تڑپ رہا تھا۔ سلور کے بیٹھنے کے لیے ایک درخت چن کر مین کو اس کی مدد کو چھوڑا اور میں تیندوے کو وہاں سے دور لے گیا۔ تیندوا کافی بھوکا تھا اور کافی کوشش کے بعد وہ شکار سے ہٹا۔ سلور پہلے کبھی درخت پر نہیں چڑھا تھا اس لیے زیادہ خوش نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ اسے میں نے بتایا کہ تیندوا کافی بڑا نر ہے اور ہدایت کی کہ گولی چلاتے وقت ہر ممکن طور پر احتیاط کرے۔ اسے یہ بتا کر کہ تیندوا آتا ہی ہوگا، میں مین کے ساتھ چل دیا۔
سو گز دور ایک فائر ٹریک کا رخ کیا اور ابھی تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ دو گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ واپس لوٹے تو تیندوا ایک جگہ گم ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ سلور کو یقین نہیں تھا کہ آیا تیندوا زخمی بھی ہوا ہے کہ نہیں۔ اس لیے ہم اس جگہ گئے جہاں گولی چلاتے وقت تیندوا کھڑا تھا۔ اس جگہ ہمیں خون کے نشانات دکھائی دیے۔ اپنے ساتھیوں کو وہیں رکنے کا کہہ کر میں آگے بڑھا تاکہ اکیلا تیندوے کا سامنا کروں۔ یہ کوئی ایسی بہادری نہیں تھی کہ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ زخمی درندے کے شکار میں پوری توجہ تلاش پر مرکوز رکھنی ہوتی ہے اور اگر ساتھی بھی ہمراہ ہوں تو بھری ہوئی رائفلیں اور تنے ہوئے اعصاب اچھا نتیجہ نہیں نکالتے۔
ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ سلور آن ملا تاکہ میرے ساتھ جا سکے۔ میں نے اسے نرمی سے روکا تو اس نے درخواست کی کہ اس کی بھاری رائفل لے لوں کیونکہ میرے پاس ہلکی رائفل تھی ورنہ اس کے دل میں ہمیشہ پھانس رہ جائے گی۔ اسے خوش کرنے کی نیت سے میں نے رائفل بدل لی۔ جب سلور واپس گیا تو میں آگے بڑھا۔ آگے بڑھنے سے قبل میں نے نال اتنی کھولی کہ اندر کارتوس دکھائی دیے۔
سو گز تک فاصلہ نسبتاً آسان تھا اور اس کے بعد خون کے نشانات گھنی جھاڑیوں میں گم ہو گئے۔ جب میں یہاں پہنچا تو مجھے تیندوے کی حرکت کی آواز سنائی دی۔ پہلے تو میں سمجھا کہ تیندوا حملہ کرنے والا ہے لیکن پھر دوبارہ آواز نہ آئی۔ بیس گز اندر جا کر میں نے وہ جگہ دیکھی جہاں تیندوا لیٹا تھا اور یہاں سے جب اٹھا تو مجھے اس کی حرکت کی آواز سنائی تھی۔ اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت تھی اور ڈیڑھ سو گز آگے جا کر جب نسبتاً کھلی زمین آئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس جگہ میں نسبتاً تیزی سے آگے بڑھا۔ مزید سو گز دور جا کر ہلدو کے ایک بڑے درخت کے دائیں جانب سے تیندوے کی دم کا سرا دکھائی دیا۔ پیچھا ہوتے دیکھ کر اس نے سوچا کہ چھپ کر حملہ کرے گا۔
مجھے اندازا تھا کہ سامنے سے تیندوے کے حملے کا سامنا کرنا میرے لیے مفید رہے گا اس لیے میں درخت کے بائیں جانب کو بڑھا۔ جب سر دکھائی دیا تو وہ زمین پر میری سمت تھا اور تھوڑی آگے کو نکلے پنجوں پر ٹکی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور کانوں کے سرے اور مونچھیں لرز رہی تھیں۔ عام حالات میں جونہی میں سامنے آیا، تیندوا حملہ کر دیتا۔ چونکہ اس تیندوے نے حملہ نہیں کیا تھا اس لیے میں نے گولی نہیں چلائی۔ اگر چند فٹ سے اعشاریہ 500 بور کی بھاری گولی چلاتا تو اس کی کھوپڑی برباد ہو جاتی اور اگر جسم پر گولی چلاتا تو سلور کی ٹرافی خراب ہو جاتی۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے تیندوے کی آنکھیں بند ہوئیں اور مر گیا۔ مزید اطمینان کے لیے میں کھانسا اور پھر تیندوے کی کھوپڑی پر ایک چھوٹا کنکر پھینکا۔
میرے بلانے پر سلور اور مین بھی پہنچ گئے۔ سلور کو رائفل واپس کرنے سے قبل میں نے رائفل کو کھول کر کارتوس نکالے تو میری دہشت کا اندازا کیجئے کہ دونوں کارتوس چلے ہوئے تھے۔ بہت سارے شکاری عین وقت پر خالی رائفل کی لبلبی دبا کر اپنی زندگی گنواتے ہوں گے۔ خوش قسمتی سے گھنی جھاڑیوں کی وجہ سے میری پیش رفت سست تھی ورنہ میں بھی ایسے ہی شکاریوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوتا۔ اس دن میں نے اپنا سبق بغیر کسی نقصان کے پوری طرح سیکھ لیا۔ اب کسی بھی خطرناک جنگل یا جگہ پر جاتے ہوئے میں ہمیشہ رائفل کے بھرے ہونے کا اطمینان کر لیتا ہوں۔ اگر دو نالی رائفل ہو تو دونوں نالوں کی گولیوں کی جگہ بدل دیتا ہوں اور اگر ایک نالی رائفل ہو تو کارتوس نکال کر اور بولٹ کے کام کرنے کو اچھی طرح دیکھ کر نکلا ہوا کارتوس واپس چیمبر میں ڈال دیتا ہوں۔