جنگل لور/باب 8
جنگلی مخلوق کی زبان سیکھنا مشکل نہیں تھا اور نہ ہی ان میں سے کچھ پرندوں اور چند جانوروں کی آواز کی نقالی کرنا، کہ میری قوت سماعت بہت اچھی تھی اور اچھا گلا بھی۔ ہر پرندے اور جانور کو اس کی آواز سے پہچان لینا کوئی خاص بات نہیں کیونکہ چند ہی پرندے ایسے ہیں جو ہر وقت چہچہاتے ہیں۔ دیگر تمام پرندے اور جانور کبھی بھی بغیر کسی وجہ سے آواز نہیں نکالتے۔ ہر وجہ کی آواز مختلف ہوتی ہے۔
ایک بار میں جنگل میں ایک درخت پر بیٹھا چیتل کے ایک جھنڈ کو دیکھ رہا تھا جس میں پندرہ بالغ اور پانچ بچے اسی قطعے میں موجود تھے۔ ایک بچہ جب نیند سے بیدار ہوا تو کھڑا ہو کر اس نے پہلے انگڑائی لی اور پھر قطعے کے ایک سرے پر گرے ہوئے درخت کی طرف بھاگا۔ شاید یہ دیگر بچوں کے لیے اشارہ تھا کہ آؤ کھیلیں۔ پانچوں بچے ایک دوسرے کے تعاقب میں درخت کی طرف بھاگے اور اس کے گرد گھوم کر واپس آئے اور پھر درخت کی جانب گئے۔ دوسرے چکر پر آگے والے بچے نے سیدھا جنگل کا رخ کیا اور دیگر بچے اس کے پیچھے پیچھے۔ ایک مادہ جو ابھی تک لیٹی ہوئی تھی، اٹھی اور اس نے بچوں کی سمت کے جنگل کو دیکھا اور تیز آواز نکالی۔ سارے بچے اسی وقت بھاگتے ہوئے واپس لوٹ آئے لیکن سوئے ہوئے یا چرتے ہوئے دیگر جانوروں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لکڑہاروں کی ایک پگڈنڈی اسی قطعے کے پاس سے گذرتی تھی جس پر مجھے درخت کی بلندی پر بیٹھے ہونے کی وجہ سے ایک لکڑہارا آتا دکھائی دیا جس نے کندھے پر کلہاڑی رکھی تھی۔ جہاں سے وہ آ رہا تھا، جنگل نسبتاً چھدرا تھا۔ جب وہ بندہ قطعے سے سو گز دوری پر پہنچا تو ایک مادہ نے اسے دیکھ لیا اور اس نے آواز نکالی اور سارے جانور بلا جھجھک گھنے جنگل کو بھاگ گئے۔
پریشان ماں کی آواز ہو یا پھر انسان کو دیکھ کر نکالی گئی خطرے کی آواز، میرے لیے اس وقت بالکل ایک جیسی ہی تھیں۔ بعد میں جب میں اس قابل ہوا کہ جانوروں اور پرندوں کی آواز کو سن کر یہ جان سکوں کہ آواز کیوں نکالی گئی ہے، تو مجھے معلوم ہوا کہ فرق آواز کا نہیں بلکہ ادائیگی میں ہوتا ہے۔ پالتو کتوں کو آپ نے بہت بار بھونکتے سنا ہوگا، کبھی آپ کے گھر واپس آنے پر، کبھی درخت پر چڑھی کسی بلی پر یا کبھی کسی اور وجہ سے، کتے کی بھونک ایک ہی ہوتی ہے لیکن ادائیگی کا طریقہ بدل جاتا ہے اور آپ اندازا لگا سکتے ہیں کہ کتا کیوں بھونک رہا ہوگا۔
جب میں نے جنگل کی زبان اتنی سیکھ لی کہ ساری جنگلی مخلوق کو ان کی آواز سے پہچان سکوں، ان کی آواز کی وجہ جان سکوں، کئی ایک کی کامیاب نقالی کر سکوں کہ وہ میری طرف آئیں یا میرا پیچھا کریں تو جنگل میں میری دلچسپی نے ایک نیا موڑ لے لیا۔ اب جنگل کو میں دیکھ بھی سکتا تھا اور سن بھی سکتا تھا۔ تاہم اس سلسلے میں ایک اور اہم مرحلہ باقی تھا۔ آواز کو سن کر اس کی سمت اور فاصلے کا درست اندازا لگانا۔ وہ جانور جو جنگل میں مسلسل خوف کے ساتھ زندہ رہتے ہیں، آسانی سے آواز کی سمت اور فاصلے کو جان سکتے ہیں۔ خوف ہی انسان کو بھی یہ فن سکھا سکتا ہے۔ ایسی آوازیں جو مسلسل آتی رہیں جیسا کہ تیندوے کو دیکھ کر لنگور کے بھونکنے کی آواز ہو یا کسی بات پر مشکوک ہو کر چیتل آواز نکالے یا شیر کو دیکھ کر مور کا بولنا، ان کی سمت اور فاصلہ جاننا مشکل نہیں ہوتا۔ تاہم ایسی آوازیں جو صرف ایک ہی بار سنائی دیں، جیسا کہ کسی خشک ٹہنی کا ٹوٹنا، ہلکی غراہٹ یا کسی پرندے یا جانور کی محض ایک آواز، ان کی سمت اور فاصلہ جاننا بہت مشکل ہوتا ہے اور یہی آوازیں فوری خطرے اور فوری ردِ عمل کی متقاضی ہوتی ہیں۔ جب خوف کی وجہ سے میں نے یہ فن بھی سیکھ لیا تو چاہے دن ہو یا رات، میں جنگل میں ہوں یا جنگل کے قریب بنے اپنے گھر میں، مجھے ہر تیندوے اور شیر کی حرکات و سکنات کا پتہ چلتا رہا۔
سٹیفن ڈیز نے میرے جمع کردہ پرندوں کے بدلے مجھے جو بندوق دی تھی، اس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ دو نالی مزل لوڈر بندوق کسی وقت بہت عمدہ ہتھیار رہی ہوگی لیکن بہت زیادہ بارود ڈالے جانے کی وجہ سے اس کی ایک نالی میں شگاف پڑ چکا تھا۔ بظاہر اس دھماکے کی وجہ سے کندہ بھی ٹوٹ گیا ہوگا جسے تانبے کی تاروں سے نالی کے ساتھ جوڑا ہوا تھا۔ تاہم کنور سنگھ نے جب میری بندوق دیکھی تو بائیں نال کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ یہ نالی بالکل ٹھیک اور اچھی حالت میں ہے۔ کنور سنگھ کی پیشین گوئی بالکل درست نکلی اور دو سال تک میں نے گھر کے کھانے کے لیے مور اور جنگلی مرغیوں کا مسلسل شکار کئے رکھا اور ایک بار تو میں نے 4 نمبر کارتوس سے بہت قریب پہنچ کر ایک چیتل بھی مارا تھا۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ سارے پرندے جو میں نے ان دو سالوں میں شکار کئے، سارے کے سارے ہی بیٹھی حالت میں مارے تھے۔ بارود ان دنوں کمیاب تھا اور ہر فائر پر مجھے شکار کرنا ہوتا تھا۔ جس روز میں نے دو یا تین بار بندوق چلائی ہوتی تھی، اس روز میں دو یا تین پرندے ہی گھر لایا کرتا تھا۔ شکار کا کوئی اور طریقہ شاید ہی مجھے اتنا مزہ دیتا۔
ایک بار شام کو اوپر بیان کردہ آبی گذرگاہوں کے درمیان موجود جنگل کے اوپری سرے سے میں گھر روانہ ہوا۔ کئی ہفتوں سے بارش نہیں ہوئی تھی اور جنگل خشک ہونے کے سبب چھپ کر جانوروں یا پرندوں کے نزدیک پہنچنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت تک میں ایک مرغِ زریں اور ایک جنگلی مرغ شکار کر چکا تھا۔ جب گہری وادی سے نکلا تو ہوا تو پہاڑ کے سرے سے گہرے جامنی بادل دکھائی دینے لگ گئے تھے۔ خشک موسم کے بعد اس طرح کے بادل دکھائی دینا اور ہوا کا بالکل تہم جانا اس بات کی واضح علامت تھے کہ اولے پڑنے والے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں انسان ہوں یا جانور، سبھی ژالہ باری سے خوف کھاتے ہیں۔ چند منٹ کی ژالہ باری سے چوتھائی میل سے لے کر دس میل تک کی کھڑی فصل تباہ ہو سکتی ہے۔ اگر بچے یا مویشی اگر کھلے آسمان تلے ہوں تو وہ بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تاہم میں نے اولوں سے کبھی کوئی جنگلی جانور مرا نہیں دیکھا۔ البتہ پرندے بشمول گدھ اور مور بکثرت مرتے ہیں۔
ابھی تین میل کا سفر باقی تھا لیکن اگر میں سیدھا گھر جاتا تو نصف میل بچ سکتا تھا۔ اب بادلوں میں مسلسل بجلی چمکنے لگ گئی تھی۔ پرندے اور جانوروں کی آوازیں تہم گئی تھیں اور گھنے جنگل میں گھسا تو دور سے تیز بارش کی آواز سنائی دینے لگ گئی تھی۔ گھنے درختوں کی وجہ سے اندھیرا بھی چھایا ہوا تھا اور ننگے پیر بھاگتے ہوئے مجھے احتیاط کرنی پڑ رہی تھی۔ اچانک مجھے وہ آواز سنائی دی جو طوفان سے قبل ہوا پیدا کرتی ہے۔ ابھی نصف جنگل عبور کیا ہوگا کہ جنگل کے دوسرے سرے تک ہوا پہنچ گئی۔ خشک پتوں کا قالین اڑنے لگا اور تیز بارش کی آواز سنائی دی۔ عین اسی وقت مجھے ڈینسی کی بینشی یا چڑیل کی آواز سنائی دی جو ہلکی آواز سے شروع ہو کر انتہائی بلند چیخ میں بدلنے کے بعد آہستہ آہستہ سسکی کی طرح گم ہو گئی۔ بعض آوازیں آپ کو ایک دم سے روکتی ہیں اور بعض آوازیں آپ کو اچانک بھاگنے پر مجبور کرتی ہیں۔ چند ہفتے قبل میگگ کے ساتھ شیر سے بھاگتے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ اس سے زیادہ تیز بھاگنا ممکن نہیں اور چڑیل کی آواز سنتے ہی اب مجھے اندازا ہوا کہ دہشت کی وجہ سے بھی انسان کتنا تیز بھاگ سکتا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بندوق، شکار اور بارود کا تھیلا میں نے کیوں نہ پھینک دیا۔ ٹھوکروں اور کانٹوں کی پروا کئے بناء میں نے گھر پہنچ کر ہی سانس لیا۔ عین سر پر بادل گرج رہے تھے اور اس جگہ اولے گرنا شروع ہوئے تھے کہ میں سیڑھیاں چڑھ کر گھر کے اندر داخل ہوا۔ چونکہ سارے گھر والے کھڑکیاں دروازے بند کرنے میں مصروف تھے، اس لیے کسی نے میری حالت پر توجہ نہ دی۔
ڈینسی نے بتایا تھا کہ چڑیل کی آواز سننے والے اور اس کے گھر والوں پر مصیبت نازل ہوتی ہے۔ اس ڈر سے کہ کہیں گھر والے مجھے الزام نہ دیں، میں نے چڑیل کا کسی سے ذکر نہیں کیا۔ کسی بھی قسم کا خطرہ ہو، ہر کسی کے لیے کچھ نہ کچھ کشش رکھتا ہے، چاہے وہ چھوٹے بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ بہت دن تک میں چڑیل والی جگہ جانے سے گریز کرتا رہا۔ ایک دن ایسا آیا کہ میں اسی جنگل میں جا گھسا۔ اس جگہ کے پاس ایک درخت سے ٹیک لگائے مجھے ابھی کچھ دیر ہی گذری ہوگی کہ مجھے پھر وہی چیخ سنائی دی۔ بھاگنے کی خواہش پر قابو پاتے ہوئے میں کانپتا ہوا درخت کے پیچھے چھپا رہا۔ چند بار چیخ سننے کے بعد میں نے سوچا کہ اگر میں چھپ کر چڑیل کو دیکھوں تو کیسا رہے گا؟ کچھ دن قبل چڑیل کی آواز سننے سے اگر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو اب اگر چڑیل مجھے دیکھ بھی لے تو ایک چھوٹا سا بچہ سمجھ کر معاف کر دے گی۔ انتہائی آہستگی اور احتیاط سے آگے بڑھتے ہوئے میں نے آخر کار ڈینسی کی چڑیل دیکھ ہی لی۔
بہت عرصہ قبل کسی طوفان کی وجہ سے ایک بہت تناور درخت جزوی طور پر اکھڑ کر ایک اور نسبتاً چھوٹے تناور درخت پر جا کر ٹک گیا تھا۔ بڑے درخت کا وزن اتنا تھا کہ چھوٹا درخت بھی جھک گیا۔ جب ہوا سے بڑا درخت جھولتا تو پھر چھوٹے درخت پر جا گرتا۔ ان کی باہمی رگڑ کی وجہ سے دونوں درختوں کے تنے اس جگہ پر مردہ اور شیشے کی طرح چکنے اور ہموار ہو گئے تھے۔ جب بھی ہوا چلتی تو ان دونوں تنوں کی رگڑ کی وجہ سے یہ آواز پیدا ہوتی تھی۔ جب بندوق نیچے رکھ کر میں بڑے درخت پر چڑھا اور اچھل کود کر چڑیل کی آوازیں کئی بار سنیں تو مجھے معلوم ہوا کہ جنگل میں اکیلے جاتے وقت ہمیشہ مجھے اسی چڑیل کا خوف ستاتا تھا۔ اُس روز سے آج تک، ہمیشہ جنگل میں جب مجھے کچھ عجیب دکھائی یا سنائی دے تو میں ہمیشہ اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس بات کے لیے ڈینسی کا شکریہ کہ اسی کے دیے ہوئے ڈر کی وجہ سے میں نے تجسس اور تحقیق کی عادت ڈالی اور جنگل میں ایک طرح سے جاسوسی کہانیاں جمع کرنا شروع کر دیں۔
عام طور پر افسانوی جاسوسی کہانیاں کسی جرم یا اس کی کوشش سے شروع ہوتی ہیں اور پرتجسس صورتحال سے ہوتے ہوئے آخرکار پولیس مجرم تک جا پہنچتی ہے اور اسے کیفرِ کردار تک پہنچاتی ہے۔ میری جنگلی جاسوسی کہانیاں اس سے ہٹ کر شروع ہوتی ہیں اور ہمیشہ کامیابی پر ختم بھی نہیں ہوتیں۔ اپنی انہی کہانیوں میں سے دو کہانیاں چن کر آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:
1۔ کالا ڈھنگی سے دس میل دور میں محکمہ جنگلات کے ڈاک بنگلے میں مقیم تھا۔ ایک دن علی الصبح نکلا تاکہ ناشتے کے لیے جنگلی مرغ یا مور مار لاؤں۔ جس راستے پر میں چل رہا تھا، اس کے بائیں جانب چھوٹی پہاڑی تھی جس پر گھنا جنگل اگا ہوا تھا اور ہر طرح کے جانور ملتے تھے۔ دائیں جانب کھیت تھے اور کھیتوں اور راستے کے درمیان میں جھاڑیوں کی ایک پٹی سی تھی۔ جب کسان کھیتوں میں کام شروع کرتے تو کھیتوں سے دانا دنکا چگتے پرندے اڑ کر اسی راستے پر سے گذرتے اور ان کو شکار کرنا آسان ہوتا۔ تاہم اس بار میری قسمت کہ سارے پرندے ہی میری چھوٹی بندوق کی مار سے دور اڑتے رہے حتیٰ کہ میں اس راستے کے دوسرے سرے تک پہنچ گیا۔ پرندوں پر نظر رکھنے کے علاوہ میں نے راستے پر بھی نگاہ رکھی۔ جس جگہ پرندوں کے ملنے کے امکانات ختم ہوئے، اس سے سو گز مزید آگے میں نے ایک تیندوے کے پگ دیکھے جو بائیں جانب سے اس راستے پر آیا اور چند گز چل کر دائیں جانب دبک کر لیٹ گیا۔ یہاں سے پھر بیس گز آگے جا کر تیندوا ایک اور جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا۔ ظاہر تھا کہ اس کی توجہ کسی جانور پر ہے اور وہ جانور سڑک پر نہیں، ورنہ تیندوا سڑک عبور کرنے کی بجائے جھاڑیوں میں سے ہوتا ہوا جاتا۔ تیندوے کے لیٹنے کی پہلی جگہ واپس جا کر میں نے دیکھا کہ وہاں سے کیا دکھائی دیتا ہے۔ وہاں سامنے مجھے جھاڑیوں کے پیچھے ایک کھلا قطعہ دکھائی دیا جس پر سے گاؤں والے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ گئے تھے۔ تیندوے کے چھپنے کی پہلی اور دوسری، دونوں جگہوں سے یہ قطعہ دکھائی دیتا تھا۔ یعنی تیندوے کی توجہ اسی قطعے پر مرکوز تھی۔
جھاڑیوں کے پیچھے چھپتے ہوئے تیندوا پچاس گز مزید آگے اس جگہ پہنچا جہاں جھاڑیاں ختم ہوئی تھیں اور ایک نشیب تھا جو سڑک سے شروع ہو کر اسی قطعے تک جاتا تھا۔ جھاڑیوں کے ختم ہونے کے مقام پر تیندوا کچھ دیر لیٹا رہا اور کئی بار اس نے اپنی جگہ بھی بدلی۔ آخرکار آگے بڑھ کر نشیب سے ہوتا ہوا رکتے، دبکتے اور پھر دوبارہ چلتے آگے بڑھتا رہا۔ تیس گز آگے جا کر ریت ختم ہوئی اور ہلکی گھاس اگی ہوئی تھی۔ تیندوے کے پنجوں سے چپکی ہوئی ریت اور مٹی یہاں گھاس پر ثبت تھی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ تیندوا شبنم گرنے کے بعد گذرا تھا۔ یہ وقت شام 7 بجے کے بعد کا ہوگا۔ یہ گھاس محض چند گز دور جا کر ختم ہو گئی اور چونکہ دوسرے کنارے پر تیندوے کے پگ دکھائی نہیں دیے، اس کا یہی مطلب نکلتا تھا کہ تیندوا یہاں گڑھے سے نکل گیا تھا۔ کھلے قطعے میں تو پگ دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن گڑھے سے نکل کر تیندوا ایک یا دو فٹ اونچی گھاس کے چند ٹکڑوں کی طرف گیا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ دس فٹ دور سانبھر کے کھروں کے گہرے نشانات ثبت تھے۔ یہاں سے آگے قریب 30 گز تک بار بار سانبھر کے چاروں سم زمین پر گہرے ثبت دکھائی دیتے رہے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ سانبھر نے اپنی کمر سے کسی چیز کو گرانے کی کوشش کی ہے۔ 30 گز کے بعد سانبھر نے بائیں جانب مڑ کر سیدھا گڑھے کے دوسرے جانب موجود درخت کا رخ کیا۔ درخت کے تنے پر چار فٹ کی اونچائی پر سانبھر کے بال اور خون کے دھبے دکھائی دیے۔
اب میں پوری طرح سمجھ چکا تھا کہ پہاڑی سے اترتے وقت تیندوے نے سانبھر کو کھلے قطعے میں چرتا دیکھا اور مختلف جگہوں سے جائزہ لے کر اس نے گھات لگائی اور اس کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔ اب تیندوا سانبھر کی پیٹھ پر پنجے جمائے صبر سے انتظار کر رہا ہوگا کہ سانبھر جونہی کسی تنہا جگہ پہنچے تو اسے ہلاک کر لے۔ سانبھر کے سموں کے نشانات بتا رہے تھے کہ جوان سانبھر ہے اور تیندوا چاہتا تو اسے وہیں ہلاک کر لیتا لیکن دن نکلتے ہی تیندوے کو اس جگہ اپنے شکار سے ہاتھ دھونے پڑتے کیونکہ اتنے بڑے جانور کو تیندوا آسانی سے گھسیٹ کر کہیں نہ لے جا سکتا۔ آگے چل کر سانبھر نے مزید تین درختوں سے رگڑ کر تیندوے کو اتارنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ آخر اس نے 200 گز دور جنگل کا رخ کیا تاکہ جھاڑیوں میں تیندوے کو الجھا کر اپنی جان بچا سکے۔ جھاڑیوں میں بیس گز اندر جا کر تیندوے نے اس مادہ سانبھر کے گلے میں اپنے دانت پیوست کر دیے اور پنجوں کی مدد سے سانبھر کو گرا کر ہلاک کیا اور پھر اپنا پیٹ بھرا۔ اس جگہ تیندوے کو نہ تو انسانی مداخلت کا ڈر تھا اور نہ ہی گدھوں سے۔ تیندوا سانبھر کے پاس ہی سو رہا تھا کہ میری مداخلت سے اسے ہٹنا پڑا۔ تاہم میرے پاس چونکہ پرندوں کے شکار کے لیے 28 بور کی بندوق اور 8 بور کے کارتوس تھے، اس لیے تیندوے کو مجھ سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ میں نے تیندوؤں کو بہت بار سانبھروں، چیتلوں اور ایک بار تو گھوڑے کی پشت پر اسی نیت سے سوار دیکھا ہے کہ وہ کہیں دور جا کر اسے ہلاک کریں لیکن میرے علم میں صرف ایک بار شیر نے ایسا کیا۔
اس موقعے پر میں منگولیا کھٹہ کے پاس کیمپ لگائے تھا جہاں کالاڈھنگی سے 12 میل دور مویشیوں کا باڑہ تھا۔ ایک دن ناشتے کے بعد میں نے دور سے بھینسوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آواز سنی۔ اس سے پہلے صبح ایک تیندوے کی وڈیو بنانے کی نیت سے میں جب نکلا تو میں نے لگ بھگ ڈیڑھ سو پالتو بھینسوں کا ایک غول دیکھا تھا جو ایک نالے کے کنارے چر رہا تھا۔ نالے میں تھوڑا سا پانی بھی تھا۔ اسی نالے میں مجھے شیر اور شیرنی کے تازہ پگ بھی دکھائی دیے تھے۔ اب گھنٹیوں کے شور و غل سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ ساری بھینسیں اپنے باڑے کی طرف بھاگی آ رہی ہیں۔ گھنٹیوں کے ساتھ ساتھ ایک بھینس کے ڈکرانے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ باڑے میں دس افراد موجود تھے جو بھینسوں کی دیکھ بھال کرنے پر مامور تھے۔ انہوں نے شور مچانا اور ٹین کھڑکانا شروع کر دیے۔ اب بھینس کے ڈکرانے کی آواز تو رک گئی لیکن مویشی بھاگتے ہوئے پہنچے۔
شور تھمنے کے کچھ دیر بعد میں نے دو گولیوں کی آواز سنی اور جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک نوجوان یورپی بندوق اٹھائے ایک مردہ بھینس کے ساتھ مقامی لوگوں کے دائرے میں کھڑا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ عزت نگر کی انڈین وُڈ پراڈکٹس کا ملازم ہے اور ابھی وہ ان لوگوں سے بات ہی کر رہا تھا کہ اس نے بھینسوں کا شور سنا۔ جب شور قریب پہنچا تو انہوں نے ایک بھینس کے ڈکرانے اور ایک شیر کے دھاڑیں بھی سنیں (چونکہ میں زیادہ دور تھا اس لیے مجھے شیر کی دھاڑیں نہیں سنائی دیں)۔ انہیں ڈر ہوا کہ شیر ان کی طرف ہی آ رہا ہے تو انہوں نے خوب زور سے شور مچایا۔ جب مویشی پہنچے تو ایک بھینس انہیں خون میں نہائی دکھائی دی۔ چونکہ رکھوالوں نے بھینس کو دیکھتے ہی کہہ دیا کہ اس کا بچنا ممکن نہیں تو اس نے اجازت لے کر بھینس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
یہ بھینس بہت خوبصورت اور ہٹی کٹی تھی اور مجھے رکھوالوں کے اس دعوے پر کوئی شک نہیں کہ یہ پورے ریوڑ کی بہترین بھینس تھی۔ چونکہ میں نے اس سے قبل کسی جانور کو اس حالت میں نہیں دیکھا تھا، اس لیے میں نے پوری توجہ سے معائنہ کیا۔
بھینس کی گردن یا گلے پر دانتوں یا پنجوں کا کوئی نشان نہیں تھا لیکن اس کی پشت پر کم از کم 50 خراشیں تھیں۔ کچھ کا رخ پیچھے سے آگے اور کچھ کا آگے سے پیچھے کی طرف تھا۔ بھینس کی پشت پر سوار حالت میں شیر نے پشت سے تقریباً پانچ پاؤنڈ اور پچھلی رانوں سے کوئی پندرہ پاؤنڈ جتنا گوشت نوچ کر کھا لیا تھا۔ کیمپ واپس جا کر میں نے بھاری رائفل اٹھائی اور سیدھا اس جگہ کا رخ کیا جہاں سے بھینسیں آئی تھیں۔ نالے کے کنارے سے مجھے شیر کے پگ دکھائی دیے۔ اس جگہ گھاس سینے تک اونچی تھی اور میرے لیے اس سارے واقعے کی تفصیل جاننا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے میں یہ نہ جان سکا کہ شیر اس بھینس کی پشت پر کیوں سوار ہوا جسے مارنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اگر شیر مارنے کی نیت سے حملہ کرتا تو بھینس کے گلے پر اور گردن پر زخموں کے نشانات ہوتے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس واردات کی کڑیاں نہ ملا سکا لیکن میرے علم میں یہ واحد واقعہ ہے جب شیر کسی جانور کی پشت پر سوار ہو کر اپنا پیٹ زندہ جانور کے گوشت سے بھرتا رہا ہو۔
نالے کے کنارے کے پگ بتاتے تھے کہ دونوں شیر پوری طرح جوان ہیں۔ دوسرا اگر کوئی نوجوان شیر ہوتا تو کبھی بھی عین دوپہر کو یا کبھی بھی ڈیڑھ سو بھینسوں کے غول کے پاس بھی پھٹکتا۔
2۔ میرے پرانے دوست ہیری گل کے بیٹے ایولن گل کو تتلیاں جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ ایک بار جب وہ نینی تال مختصر چھٹیوں پر آیا تو میں نے اسے بتایا کہ میں نے پوال گڑھ کی سڑک پر ایک نایاب تتلی دیکھی ہے جس کے پروں کے اوپری حصے پر شوخ سرخ رنگ کے دھبے تھے۔ اس نے فوراً درخواست کی کہ اسے ایک ایسی تتلی پکڑ دوں۔
کئی ماہ بعد میں پوال گڑھ سے تین میل دور سانڈنی گگا میں کیمپ لگائے تھا اور میرا ارادہ تھا کہ نر چیتلوں کی لڑائی کی وڈیو بناؤں گا۔ ان دنوں یہ منظر عام دکھائی دیتا تھا۔ ایک صبح ناشتے کے بعد میں تتلیاں پکڑنے والا جال لے کر نکلا تاکہ ایولن کے لیے تتلی پکڑ سکوں۔ میرے خیمے سے سو گز دور سے وہ جنگلی سڑک گذرتی ہے جو کالاڈھنگی کو پوال گڑھ سے ملاتی ہے۔ اسی سڑک پر ایک میل کے فاصلے پر سانبھروں کے لوٹنے کی نشیبی جگہ تھی جہاں میرا خیال تھا کہ تتلی مل جائے گی۔
فارسٹ روڈ کو کم ہی انسان استعمال کرتے ہیں اور جس جنگل سے یہ سڑک گذرتی ہے، ہر طرح کے جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ صبح سویرے اس سڑک پر چلنا بہت دلچسپ ہوتا ہے کہ سڑک پر باریک مٹی کی ہلکی سی تہہ ہوتی ہے اور اس پر رات کو گذرنے والے ہر جانور کے پگ محفوظ ہوتے ہیں۔ جب آپ خاطرخواہ مہارت پا لیں تو ہر نشان پر رک کر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ایک نظر ڈالتے ہی لاشعوری طور پر جانور، اس کی جنس، جسامت، حرکات وغیرہ سب کچھ پتہ چل جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر جہاں میں سڑک پر چڑھا، اس سے کچھ آگے ایک سیہی سڑک تک آئی اور پھر واپس لوٹ گئی کہ شاید جنگل میں اسے کچھ خطرناک دکھائی دیا ہوگا۔ چند گز آگے سڑک کو دائیں سے بائیں عبور کرنے والے ریچھ کے نشانات تھے جس سے سیہی ڈری تھی۔ سڑک عبور کرتے ہی ریچھ نے جھاڑیوں میں چھپے سوروں اور چیتلوں کو ڈرا دیا جو بھاگ کر سڑک سے ہوتے ہوئے دائیں جانب والے جنگل کو چلے گئے۔ کچھ اور آگے جا کر ایک سانبھر سڑک پر آیا اور ایک جھاڑی سے پیٹ بھرنے کے بعد پچاس گز آگے ایک درخت پر اپنے سینگ رگڑنے کے بعد واپس جنگل کو چلا گیا۔ تھوڑا آگے ایک چوسنگھا اپنے بچے کے ساتھ سڑک پر آیا۔ اس بچے کے کھر انسانی بچے کے انگلی کے ناخن سے زیادہ بڑے نہیں تھے۔ تھوڑا آگے چل کر ماں کو کسی چیز سے خطرہ محسوس ہوا تو ماں اور بچہ چند گز بھاگ کر جنگل میں گھس گئے۔ آگے سڑک پر موڑ آتا ہے اور یہاں ایک لگڑبگڑ موڑ تک آ کر لوٹ گیا۔
سڑک پر نشانات پڑھتے ہوئے میں پرندوں کی چہچہاوٹ سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا کیونکہ سو میل کے دائرے میں سانڈنی گگا سب سے خوبصورت مقام تھا اور یہاں بے شمار اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں۔ نصف میل آگے چل کر سڑک ایک پہاڑی کے کنارے کو کاٹتی ہوئی گذرتی ہے۔ اس جگہ زمین بہت سخت ہے اور کسی قسم کے پگ دکھائی نہیں دیتے۔ یہاں اچانک میری توجہ ایک عجیب نشان کی طرف مبذول ہوئی۔ یہ نشانات ایک تین انچ لمبی اور ایک سرے پر کم از کم دو انچ گہری خراش تھی۔ یہ خراش سڑک سے زاویہ قائمہ پر تھی۔ عین ممکن تھا کہ یہ خراش کسی لاٹھی کے لوہے کے سرے سے بنی ہو لیکن پچھلے 24 گھنٹوں میں یہاں سے کوئی انسان نہیں گذرا۔ دوسرا اگر انسان بھی یہ نشان بناتا تو بھی وہ سڑک کے متوازی ہوتی۔ اس جگہ سڑک کا دائیں کنارہ دس فٹ اونچا اور بائیں جانب ڈھلوان تھی۔ اس خراش سے نکلی ہوئی مٹی کا رخ بتاتا تھا کہ جس نے بھی یہ نشان بنایا، وہ دائیں سے بائیں جانب جا رہا تھا۔
جب مجھے اطمینان ہو گیا کہ یہ نشان کسی انسان نے نہیں بنایا تو میرے پاس صرف ایک ہی جواب باقی بچا تھا۔ یہ نشان چیتل یا پھر نوعمر سانبھر کے سینگ سے بنا ہوگا۔ اگر یہ جانور اونچے کنارے سے چھلانگ لگا کر غلط طریقے سے نیچے گرا ہوتا تو بھی اس کے کھروں کے نشانات اس سخت مٹی پر بھی صاف دکھائی دیتے لیکن اس نشان کے آس پاس کوئی نشان نہیں تھا۔ آخری جواب یہی تھا کہ شیر نے چیتل یا سانبھر کو ہلاک کرنے کے بعد اسی راستے سے کہیں جا چھپایا ہوگا اور اونچے کنارے سے چھلانگ لگاتے وقت سینگ سے یہ نشان بنا۔ سڑک عبور کرتے وقت شیر اور تیندوے اپنے شکار کو ہوا میں اٹھا لیتے ہیں تاکہ لاش کی بو نہ پھیلے، بصورتِ دیگر گیدڑ، ریچھ اور لگڑبگڑ پیچھا کر سکتے ہیں۔
اپنے نظریئے کی تصدیق کے لیے میں نے بائیں جانب والی ڈھلوان دیکھی تو وہاں بھی کوئی نشان نہ دکھائی دیا۔ تاہم 20 گز دور جھاڑی پر 4 فٹ کی بلندی پر کوئی چیز چمکتی دکھائی دی۔ پاس جا کر دیکھا تو وہ خون کا موٹا قطرہ تھا جو ابھی خشک بھی نہیں ہوا تھا۔ اب پیچھا کرنا آسان ہو گیا۔ پچاس گز آگے جا کر ایک چھوٹے درخت کے نیچے جھاڑیوں میں میں نے ایک نر چیتل کی لاش دیکھی جس کے سینگ بہت خوبصورت تھے۔ پچھلا حصہ کھانے کے بعد شیر نے کافی فاصلے سے پتے اور خس و خاشاک جمع کر کے لاش کو ڈھانپ دیا تھا تاکہ پرندے یا جانور اسے نہ تلاش کر سکیں۔ جب شیر اپنے شکار کو چھپا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں پاس موجود نہیں۔
فریڈ اینڈرسن اور ہیوش ایڈی مجھے بتا چکے تھے کہ اس جگہ وہ مشہور شیر رہتا ہے جسے بیچلر آف پوال گڑھ کہا جاتا ہے۔ اس مشہور شیر کو دیکھنے کا مجھے بہت شوق تھا کیونکہ پورے صوبے کے شکاری اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ مجھے علم تھا کہ جہاں میں جا رہا ہوں، وہاں ایک کھائی میں یہ شیر رہتا ہے۔ چیتل کے پاس کوئی پگ دکھائی نہیں دیے لیکن مجھے گمان ہوا کہ ہو نہ ہو یہ شکار اسی بیچلر کا ہے۔ مجھے یہ موقع اچھا لگا کہ جا کر دیکھوں کہ آیا یہ شیر واقعی اتنا بڑا ہے۔
لاش کے ساتھ ہی ایک تنگ سا قطعہ شروع ہوتا تھا جو سیدھا سو گز آگے ایک ندی پر جا کر ختم ہوتا تھا۔ اس ندی کے دوسرے سرے پر ایک گھنا جھنڈ تھا۔ اگر بیچلر واپس اپنی کھائی کو نہ گیا ہوتا تو یہی جھنڈ اس کے سونے کے لیے عمدہ جگہ ہوگی۔ میں نے سوچا کہ بیچلر کو بلاتا ہوں۔ پھر میں نے واپس سڑک کے کنارے جا کر تتلیاں پکڑنے والا سفید جال خشک پتوں میں دبایا اور واپس لوٹا۔ قطعے کا اوپری سرا دس فٹ چوڑا تھا اور لاش اس کے دائیں سرے سے دس فٹ دور ایک درخت کے نیچے تھی۔ قطعے کے بائیں جانب اور لاش کے عین مخالف سمت میں ایک مردہ درخت تھا جس پر بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ پہلے تو میں نے جائزہ لیا کہ درخت کے تنے میں سانپوں کے بل یا سوراخ تو نہیں، پھر زمین پر موجود پتے ہٹا کر تسلی کی کہ بچھو وغیرہ نہ چھپے ہوں، میں درخت سے کمر لگا کر بیٹھ گیا۔ یہاں سے لاش میرے سامنے 30 فٹ دور تھی اور مجھے پورا قطعہ اور نہر بھی دکھائی دے رہی تھی اور نہر کے پار پیپل کے درخت پر سرخ بندروں کا غول اپنا پیٹ بھر رہا تھا۔
جب میری ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں تو میں نے تنیدوے کی آواز نکالی۔ جب بھی ممکن ہو تیندوے شیر کے شکار پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں اور شیر اس بات سے بہت چڑتے ہیں۔ اگر شیر بہت دور نہ ہوتا تو یہ آواز سنتے ہی اس کا آنا لازمی امر تھا۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ نزدیک پہنچے گا تو میں اسے اپنی شکل دکھا کر بھگا دوں اور خود اپنی راہ لوں گا۔ بندروں نے میری آواز پر فوری ردِعمل ظاہر کیا۔ تین بندر فوراً چالیس فٹ کی بلندی سے ہر طرف دیکھ کر شور مچانے لگے۔ چونکہ ابھی تک انہوں نے مجھے نہیں دیکھا تھا اس لیے ایک منٹ تک شور مچاتے رہے۔ ظاہر ہے کہ اگر شیر کہیں نزدیک ہوتا تو اسے پورا یقین ہو جاتا کہ تیندوا اس کے شکار پر ہاتھ صاف کرنے کے چکر میں ہے۔ میں ان تین بندروں کو غور سے دیکھتا رہا۔ اچانک ایک بندر نے رخ بدلا اور اپنے عقب کی طرف رخ کر کے خطرے کی آواز نکالنے لگا۔ فوراً ہی دیگر دو بندروں نے اس کا ساتھ دیا۔ مجھے شدید افسوس ہے کہ میرے پاس کیمرا نہیں تھا ورنہ شیر کی بہترین وڈیو تیار ہوتی کہ چمکتی ندی کے سامنے گھاس پر شیر خراماں خراماں چلا آ رہا ہے اور پیچھے لال بندر شور مچا رہے تھے۔
جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، شیر نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ مجھے شک ہوا کہ وہ میرے عقب سے نہ آ جائے۔ شیر نے ندی عبور کرتے ہی دائیں جانب کا رخ کیا مبادا کہ تیندوا اسے قطعے پر آتا دیکھ کر بھاگ نہ جائے۔ مجھے اس بات پر اعتراض تو نہیں تھا لیکن اس طرح شیر میری مرضی کے خلاف زیادہ قریب پہنچ جاتا۔
اگرچہ یہ پورا علاقہ خشک پتوں سے بھرا ہوا تھا لیکن بغیر کوئی آواز نکالے شیر پہنچ گیا۔ تاہم میری مشکل کا اندازا کیجئے کہ میرے سامنے بیچلر نہیں بلکہ ایک شیرنی چیتل کی لاش کے اوپر کھڑی دیکھ رہی تھی۔ شیرنیوں کا مزاج کبھی بھی قابلِ اعتبار نہیں ہوتا اور اس وقت تو میں اس کے شکار کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ اگر شیرنی کے بچے بھی اسی جھنڈ میں ہوتے جہاں سے وہ آئی تھی تو معاملہ اور بھی خطرناک ہو جاتا۔ تاہم اگر شیرنی واپس لوٹ جاتی تو مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن شیرنی نے اپنا رخ بدلا اور مجھ سے پندرہ فٹ کے فاصلے پر آ کر رک گئی۔ تھوڑی دیر تک وہ کھڑی کچھ سوچتی رہی اور میں آنکھوں میں ہلکی سی درز کئے اور سانس روکے اسے دیکھتا رہا حتیٰ کہ شیرنی نے قطعے کا رخ کیا اور ندی پر پہنچ کر اس نے اپنی پیاس بجھائی اور دوسرے کنارے پر جا کر جنگل میں گم ہو گئی۔
متذکرہ بالا دونوں واقعات میں مجھے شروع میں بالکل علم نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے لیکن ملنے والا ہلکا سا نشان بھی انتہائی دلچسپ واقعے کی نشاندہی کر سکتا ہے۔
جاسوسی کہانیاں لکھنے کی اہلیت چند افراد ہی رکھتے ہیں لیکن جنگل کی جاسوسی کہانیاں ہر اس انسان کے لیے ممکن ہیں آنکھیں کھلی رکھتا ہو اور تحقیق شروع کرنے سے قبل ہی ذہن نہ بنا لے کہ اسے سب کچھ معلوم ہے، حالانکہ اسے کچھ بھی پتہ نہ ہو۔