جنگل لور/باب 6

ویکی کتب سے

ٹام کی دی ہوئی غلیل کا ربڑ جب ختم ہو گیا تو میں نے ایک کمان بنائی۔ یہ کمان تیر کی بجائے غلہ پھینک سکتی تھی۔ عام کمان کی نسبت اس کا حجم چھوٹا اور سخت تھا۔ ربڑ کی دو لڑیوں کے درمیان میں غلہ رکھنے کی جگہ تھی۔ تاہم اسے چلانے میں کافی احتیاط کرنی پڑتی تھی کہ اگر غلہ چھوڑتے وقت دوسرے ہاتھ کی کلائی عین وقت پر حرکت نہ کرے تو انگوٹھے پر سخت چوٹ لگ سکتی ہے۔ غلیل کی نسبت کمان سے غلہ دو گنا تیزی سے پھینکا جاتا ہے لیکن نشانہ اتنا پکا نہیں ہوتا۔ ہمارے گرمائی گھر کے عین سامنے نینی تال کا خزانہ تھا جس پر گورکھے سرکاری طور پر متعین تھے۔ وہ مقابلے کے لیے مجھے بلاتے تھے۔ میدان کے عین وسط میں گھنٹہ نصب تھا جو ہر گھنٹے بعد بجایا جاتا تھا۔ اس جگہ ماچس کی ڈبیا رکھ کر بیس گز کے فاصلے سے اس پر نشانے لگائے جاتے تھے۔ گٹھے جسم کا حوالدار ان کا بہترین نشانچی تھا لیکن وہ کبھی مجھے ہرا نہ سکا۔

اگرچہ غلیل کے بعد کمان میری مجبوری تھی اور میں نے اچھا نشانہ بنا لیا تھا اور اس سے پرندے بھی مار سکتا تھا لیکن کبھی اس نے غلیل کی طرح میری توجہ نہیں حاصل کی۔ بعد میں فینی مور کوپر کی کتب پڑھ کر میں نے غلے کی کمان کی بجائے تیر والی کمان بنا لی۔ اگر کوپر کی کتب والے ریڈ انڈین تیر کمان سے شکار کر سکتے تھے تو میں کیوں نہیں؟ تاہم انڈیا میں ہمارے علاقوں میں لوگ تیر کمان استعمال نہیں کرتے، اس لیے میری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ کئی بار کی ناکام کوشش کے بعد میں نے ایک اچھی کمان اور دو تیر بنا لیے جن کی نوکوں میں کیل لگے تھے۔ اب ریڈ انڈین کی نقالی کرنا میرا مشغلہ بن گیا۔ مجھے ان تیروں کی ہلاکت خیزی پر پورا یقین تھا اور اب میں جنگل میں بلا جھجھک جا سکتا تھا جہاں شکار کے قابل جانور اور پرندے تو بہت تھے لیکن ایسے جانور بھی جن سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا۔ جانوروں پر گھات لگانے اور خطرے کے وقت درخت پر چڑھنے کی آسانی کی خاطر میں جوتے اتار دیا کرتا تھا۔ ان دنوں ربر کے پتلے سول والے جوتے نہیں ہوتے تھے، اس لیے بھاری جوتے چھوڑنے پڑے کہ وہ نہ تو جانوروں پر گھات لگانے اور نہ ہی درخت پر چڑھنے میں کوئی مدد دیتے تھے۔

ہماری جائداد کے نچلے سرے پر دو آبی گذرگاہیں ملتی تھیں جو بارش کے وقت ہی پانی کی شکل دیکھتی تھیں۔ ان کی تہہ ریتلی تھی اور ان کے درمیان میں گھنا جنگل تھا جو نچلے سرے پر نصف میل جبکہ اوپری سرے پر دو میل چوڑا اور ایک میل لمبا تھا۔ یہاں ہر قسم کے جانور اور پرندے رہتے تھے۔ جس نہر میں لڑکیاں نہاتی تھیں، وہ ہماری جائداد اور جنگل کے درمیان میں سرحد کا کام دیتی تھی۔ نہر پر درخت کے تنے سے بنے پل کو عبور کرتے ہی شکار میرے سامنے ہوتا تھا۔ بعد ازاں جب میرے پاس وڈیو کیمرا تھا تو میں نے نہر پر ہماری طرف والے درخت پر کئی دن گذارے تاکہ نہر سے پانی پیتے جانوروں کی وڈیو بنا سکوں۔ اسی جنگل میں میں نے ہٹلر کی جنگ کے بعد اپنا آخری شیر مارا۔ یہ شیر مختلف اوقات میں گھوڑا، بچھڑا اور دو بیل مار چکا تھا۔ اسے بھگانے کی جب تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں تو میں نے اسے گولی مار دی۔ میری بہن میگی کا خیال تھا کہ میرا ہاتھ کانپ جائے گا کیونکہ مجھے ان دنوں ملیریا بخار بہت زیادہ ہوتا تھا۔ تاہم میں نے شیر کو بلایا، اسے مجرم پایا اور چند فٹ کے فاصلے سے، جب وہ مجھے دیکھ رہا تھا تو میں نے اس کی آنکھ میں گولی اتار دی۔ اگرچہ یہ شیر کا قتل تھا لیکن اس قتل کا جواز کافی معقول تھا۔ میں نے کوشش کی تھی کہ شیر گاؤں سے 200 گز دور خاردار جھاڑیوں تک رہے اور اس کے شکار کردہ جانوروں کی قیمت بھی میں اپنی جیب سے ادا کرتا رہا تھا لیکن جنگ کی وجہ سے ملک بھر میں مویشیوں کی قلت تھی اور شیر نے یہ جگہ چھوڑنے سے قطعی انکار کر دیا تھا۔

میگگ کی مدد سے میں نے دونوں آبی گذرگاہوں کے درمیانی جنگل کو اچھی طرح چھانا تھا اور مجھے بخوبی علم تھا کہ کس جگہ نہیں جانا۔ اس کے باوجود بھی مور اور جنگلی مرغ کا شکار کرنے کے لیے نہر عبور کرنے سے قبل میں دیکھ لیا کرتا تھا کہ کوئی شیر تو یہاں سے نہیں گذرا۔ جنگل میں بائیں جانب نہر کے کنارے میں بغور شیر کے پگ دیکھتا تھا جہاں سے شیر غروب آفتاب کے بعد شکار کے لیے آتے تھے اور سورج طلوع ہونے سے قبل واپس چلے جاتے تھے۔ نہر کے کنارے ریتلی زمین کا بغور جائزہ لینے سے اگر مجھے پتہ چل جاتا کہ کیا کوئی شیر تو نہیں یہاں نہیں آیا، اور اگر آیا ہے تو کیا واپس لوٹا یا ابھی تک جنگل میں ہی ہے؟ اگر شیروں کے صرف جانے کے نشانات ملتے تو وہ دن میں کہیں اور شکار کھیلنے میں گذارتا تھا۔

یہ آبی گذرگاہیں میرے لیے انتہائی دلچسپی کا باعث تھیں۔ شیروں کے علاوہ ہر جانور اور ہر گزندہ چاہے وہ اس جگہ سے کئی میل دور بھی کیوں نہ رہتا ہوں، یہاں سے گذرتے وقت اپنے نشان چھوڑ جاتا تھا۔ اسی جگہ پہلے پہل غلیل، پھر کمان، پھر مزل لوڈر اور پھر جدید رائفل سے مسلح ہو کر میں نے تھوڑا تھوڑا کر کے جنگل کی زبان سیکھی ہے۔ طلوعِ آفتاب کے وقت روانہ ہو کر اور جنگل میں ننگے پیر خاموشی سے چلتے ہوئے میں نے تمام جانوروں اور گزندوں کو گذرتے دیکھا۔ آخر وہ وقت آیا کہ جب ان کے گذرنے کے نشان سے میں ان تمام جانوروں اور گزندوں کو پہچاننا سیکھ گیا۔ تاہم یہ محض ابتداء تھی کہ میں نے ابھی جانوروں کی عادات، ان کی زبان اور فطرت میں ان کے کردار کو سمجھنا تھا۔ ان علوم کو سیکھنے کے ساتھ ہی ساتھ میں نے پرندوں کی زبان بھی سیکھی اور فطرت میں ان کے کردار کو بھی جانا۔

سب سے پہلے تو میں نے پرندوں، جانوروں اور گزندوں کو درجِ ذیل چھ گروہوں میں بانٹا:

  1. پرندے جو فطرت کی خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں۔ ان میں Minivets, Oriols, sunbirds شامل کئے
  2. خوش آواز پرندے، جن میں thrushes, robins, shamasam شامل ہیں
  3. ایسے پرندے جو پودوں کی افزائش نسل میں مدد دیتے ہیں، ان میں بلبل، ہارن بل اور barbetsشامل ہیں
  4. خطرے سے آگاہی دینے والے پرندے، جن میں Drongo، سرخ جنگلی مرغ، بیبلرز شامل ہیں
  5. فطرت میں توازن قائم رکھنے والے پرندے، جن میں عقاب، باز اور الو شامل ہیں
  6. مردار خور پرندے جن میں گدھ، چیل اور کوے شامل ہیں

جانوروں کو میں نے 5 گروہوں میں تقسیم کیا:

  1. فطرت کی خوبصورت بڑھانے والے جانور جیسا کہ مختلف اقسام کے ہرن اور بندر
  2. ایسے جانور جو مٹی اکھاڑنے کا کام کرتے ہیں جیسا کہ ریچھ، سور اور سیہی
  3. خطرے کی اطلاع دینے والے جانور مثلاً ہرن، بندر اور گلہریاں
  4. فطری توازن برقرار رکھنے والے جانور جیسا کہ شیر، تیندوے اور جنگلی کتے
  5. مردار خور جیسا کہ لگڑبگڑ، گیدڑ اور سور

رینگے والے جانور یعنی گزندوں کی محض دو اقسام بنائیں:

  1. زہریلے سانپ جن میں کوبرا، کریٹ اور وائپر شامل ہیں
  2. غیر زہریلے سانپ جیسا کہ دھامن، عام سانپ اور اژدہے

تمام اہم جانوروں اور پرندوں کو بنیادی گروہوں میں بانٹنے کے بعد ہر نئے جانور کو ان کے کام کے اعتبار سے مناسب گروہ میں رکھنا آسان ہو گیا۔ اگلے مرحلے میں میں نے جنگلی جانوروں کی زبان سیکھنے اور پھر انسان کے لیے ممکن آوازوں کی نقالی کرنے کا کام سیکھا۔ اگرچہ چند اقسام کو چھوڑ کر دیگر تمام جنگلی جانور اور پرندے ایک دوسری کی بولی نہیں بول سکتے لیکن وہ ایک دوسرے کی بولی سمجھ ضرور لیتے ہیں۔ ان چند اقسام کے پرندوں میں Racket-tailed drongo, rufous-backed shrike اور gold-fronted green bulbul ہیں۔ پرندوں کے شائقین کے لیے racket-tailed drongo نہ ختم ہونے والی خوشی کا خزانہ ہوتے ہیں۔ ہمارے جنگلوں کا یہ پرندہ صرف انتہائی دلیر ہوتا ہے بلکہ زیادہ تر پرندوں اور چیتل کی آواز کی نقالی بھی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پرندہ بہت ستم ظریف بھی ہے۔ زمین پر دانا دنکا چگتے کسی بھی قسم کے پرندوں کے غول کے ساتھ ہو جاتا ہے اور اپنے گانوں کے ساتھ ساتھ دیگر پرندوں کی بولیوں کی نقالی کرتے ہوئے بازوں، بلیوں، سانپوں اور غلیل والے لڑکوں پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ اس کی طرف سے دی جانے والے خطرے کی آواز کبھی بھی نظرانداز نہیں ہوتی۔ تاہم اس ذمہ داری کے بدلے اسے خوراک بھی چاہیے ہوتی ہے۔ اس کی تیز نظروں سے کچھ بھی نہیں بچ سکتا۔ جونہی کوئی پرندہ زمین یا پتے کھود کر موٹی سنڈی یا بچھو نکالتے ہیں، یہ فوراً باز کی آواز نکال کر یا نیچے موجود پرندوں میں سے کسی ایک کی ایسی آواز نکال کر کہ جیسے اسے کوئی باز پکڑ رہا ہو، سیدھا اس سنڈی یا کیچوے کو پکڑ کر واپس اسی شاخ پر آ بیٹھتا ہے۔ اپنا گانا دوبارہ سے شروع کر کے اپنے شکار کو ہلاک کر کے کھانا شروع کر دیتا ہے۔ دس میں سے نو بار یہ پرندہ اس طرح شکار چھیننے میں کامیاب رہتا ہے۔

Racket-tailed drongo چیتل کے گروہ سے بھی مل جاتا ہے اور ان کے گذرنے سے اڑنے والے ٹڈیاں وغیرہ کھاتا جاتا ہے۔ جب کبھی چیتل تیندوے کو دیکھ کر خطرے کی آواز نکالیں تو یہ بھی سیکھ جاتا ہے۔ ایک بار میں ایسے ہی موقع پر موجود تھا جب تیندوے نے ایک سال کی عمر کے چیتل کو مارا۔ تیندوے کو کچھ دور بھگا کر میں نے چیتل کو ایک چھوٹی جھاڑی سے باندھ دیا اور خود وڈیو کیمرا لے کر ایک جھاڑی کے پاس بیٹھ گیا۔ اسی اثناء میں Racket-tailed drongo دیگر پرندوں کے ساتھ پہنچ گیا۔ مردہ چیتل کو دیکھتے ہی اس نے اڑان بھری اور قریب سے آن کر جائزہ لینے لگا۔ تیندوے کا شکار اس کے لیے عام سی بات تھی لیکن جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو ہوشیار ہو گیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ اسے میری طرف سے کوئی خطرہ نہیں تو اس نے پھر اڑان بھری اور دیگر پرندوں کے ساتھ چگنے میں مصروف ہو گیا۔ اچانک اس نے چیتل کی خطرے کی آواز نکالی اور سارے پرندے اڑ کر درختوں پر جا بیٹھے۔ اس کی حرکات و سکنات دیکھ کر مجھے تیندوے کی نقل و حرکت کا بالکل درست اندازا ہوتا رہا۔ شور سے تنگ آ کر تیندوا گھومتے ہوئے میرے عین پیچھے پہنچ گیا۔ بدقسمتی سے جھاڑی زیادہ گھنی نہیں تھی اس لیے تیندوے نے مجھے دیکھا اور غصے سے غرا کر جنگل میں گھس گیا۔ Drongo ابھی تک چیتل کی خطرے کی آواز نکالے جا رہا تھا۔ اگرچہ میں بھی چیتل کی خطرے کی آواز کی کامیاب نقالی کر سکتا ہوں لیکن جتنی تیزی اور جتنی آسانی سے وہ مختلف عمر کے چیتلوں کی آواز نکال رہا تھا، مجھے اس پر شدید حیرت ہوئی۔

اس جگہ بیٹھتے ہوئے مجھے علم تھا کہ واپس لوٹتے ہوئے تیندوا مجھے دیکھ لے گا۔ تاہم میرا خیال تھا کہ جتنی دیر وہ اپنے شکار کو گھسیٹنے میں لگائے گا، میں وڈیو بنا لوں گا۔ تاہم ان پرندوں سے پیچھا چھڑا کر تیندا واپس لوٹا تو اس کے غصے اور غرانے کے باوجود جتنی دیر وہ اپنا بندھا ہوا شکار کھینچنے کی کوشش کرتا رہا، میں نے بیس گز کی دوری سے پچاس فٹ جتنی فلم بنا لی۔ شاید میری موجودگی اور کیمرے کی آواز سے اسے غصہ آیا ہوا تھا۔

مجھے علم نہیں کہ یہ پرندے بولنا بھی سیکھ سکتے ہیں یا نہیں لیکن انہیں مختلف گانوں کی دھن پر سیٹی بجانا سکھایا جا سکتا ہے۔ کئی سال قبل مانک پور کے ریلوے سٹیشن پر جہاں بنگال اور نارتھ ویسٹرن ریلوے کا جنکشن تھا، کا اینگلو انڈین سٹیشن ماسٹران پرندوں کو گانوں کی دھن پر سیٹی بجانا سکھا کر ان کو فروخت کرتا تھا۔ جونہی ناشتے یا دوپہر کے کھانے کے لیے ٹرین رکتی، مسافر بھاگتے ہوئے سٹیشن ماسٹر کے کمرے کو جاتے اور واپسی پر ان کے ہاتھوں میں پنجرے ہوتے جس میں ان کی مرضی کے گانے کی دھن پر سیٹی بجانے والے پرندے ہوتے۔ پرندے اور پنجرے دونوں کی اکٹھی قیمت 30 روپے تھی۔