جنگل لور/باب 12

ویکی کتب سے

جنگل کی زبان سیکھتے ہوئے ممکن ہے کہ آپ میں ایک اور حس پیدا ہو جائے جو زمانہ قدیم کے انسانوں سے ہم تک پہنچی ہے۔ میں اسے "جنگل سے حساسیت" کا نام دیتا ہوں۔ یہ حس اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ جنگل میں جنگلی حیات کے قریب رہ رہے ہوں۔ اس حس کی وجہ سے آپ غیر شعوری طور پر خطرے سے پیشگی آگاہ ہو جاتے ہیں۔

بہت سارے لوگوں نے اس وقت اپنی جانیں بچائی ہوں گی جب انہوں نے کسی خطرے کو غیرشعوری طور پر بھانپ لیا ہوگا۔ مثلاً کسی ایسی سڑک کو چھوڑ دینا جہاں چند لمحے بعد بم پھٹنے والا ہو، یا پھر کسی ایسی عمارت سے دور چلے جانا کہ جہاں چند منٹ بعد ہی بم گرنا ہو یا پھر کسی ایسے درخت کے نیچے سے ہٹ جانا جہاں چند لمحے بعد آسمانی بجلی گرنی ہو۔ خطرہ چاہے جو بھی ہو، اس سے بچاؤ کا خیال ہمیں آتا ہے اور ہم خطرے سے بچ جاتے ہیں۔ چوگڑھ کی آدم خور شیرنیوں والے واقعے میں میں نے دو مواقع پر شعوری انتباہ کے بارے بات کی تھی۔ جونہی مجھے انتباہ ملا، میری پوری توجہ اس سے بچاؤ پر مرکوز ہو گئی تھی۔ پہلی بار پتھروں کے ڈھیر کے پیچھے سے اور دوسری بار راستے پر جھکی ہوئی چٹان کے پیچھے شیرنی کی موجودگی کے بارے جاننا قطعی فطری ہے۔ آئیے، اب ایک مثال ایسی دیکھتے ہیں جس میں خطرے کا احساس اور اس سے بچاؤ کا عمل بالکل غیر اختیاری طور پر ہوا تھا۔ اس کی وجہ محض یہی ہو سکتی ہے کہ جنگل سے حساسیت انتہائی بڑھی ہوئی تھی۔

سردیوں میں جب ہم کالاڈھنگی جاتے تھے تو میری عادت تھی کہ اکثر اپنے مزارعین کے لیے سانبھر یا چیتل مارا کرتا تھا۔ ایک روز یہ لوگ میرے پاس وفد کی شکل میں آئے کہ بہت دن سے میں نے کوئی شکار نہیں کیا اور اگلے دن دعوت کے لیے اگر میں کوئی شکار کروں تو بہت اچھا ہوگا۔ جنگل بالکل خشک تھے اور گھات لگانا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ سورج ڈوب چکا تھا جب میں نے نر چیتل کو شکار کیا۔ چونکہ رات ہو رہی تھی تو چیتل کو واپس لانا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اسے تیندووں، ریچھوں اور سور وغیرہ سے بچانے کے لیے چھپا دیا اور گھر روانہ ہوا تاکہ اگلے روز علی الصبح مزارعین کے ساتھ جا کر لے آؤں۔

میرے فائر کی آواز ہمارے دیہات تک پہنچ گئی تھی اور جب میں واپس لوٹا تو ہمارے کاٹیج کی سیڑھیوں پر دس بارہ افراد رسے اور بانس وغیرہ لیے موجود تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ان کا مطلوبہ شکار ہو چکا ہے اور اسے میں چھپا کر آیا ہوں۔ اب صبح سویرے پو پھٹنے سے قبل اگر وہ چاہیں تو میں ان کے ساتھ اٹھانے کو تیار ہوں۔ مگر یہ افراد چیتل اسی وقت لانے کو تیار ہو کر آئے تھے اس لیے انہوں نے کہا کہ میں انہیں جگہ بتا دوں، وہ خود ہی ڈھونڈ لائیں گے۔ اس سے قبل جب بھی میں ان کے لیے شکار کر کے آتا تھا تو میں راستے پر نشانات لگاتے آتا تھا کہ کس جگہ شکار چھپا ہوگا۔ تاہم ابھی چونکہ مجھے علم تھا کہ شکار صبح اٹھایا جائے گا، اس لیے میں نے کوئی نشانی نہیں لگائی تھی۔ یہ افراد جنگل سے بخوبی واقف تھے، اس لیے میری لگائی اور بتائی گئی نشانیوں سے ہمیشہ ہی وہ شکار پا لیتے تھے۔ اس بار شکار شام کو ہوا تھا اور چاند نہ ہونے کی وجہ سے میں نے کوئی نشانیاں بھی نہیں لگائی تھیں۔ یہ لوگ اس بات پر بضد تھے کہ آج ہی وہ چیتل کو لا کر اسے صبح کی دعوت کے لیے تیار کر لیں۔ ان لوگوں کے خیال سے میں نے ساتھ جانے کی حامی بھر لی اور کہا کہ پوال گڑھ کی سڑک پر اڑھائی میل جا کر ہلدو کے مشہور درخت کے نیچے میرا انتظار کریں۔ جب یہ لوگ روانہ ہو گئے تو میں نے میگی کے تیار کردہ چائے کا کپ پینا شروع کر دیا۔

جب اکیلا آدمی سفر کرتا ہے تو اس کی رفتار عام ہندوستانی افراد کی جماعت کے سفر کرنے سے کافی تیز ہوتی ہے۔ اس لیے آرام سے چائے پی کر میں نے رائفل اٹھائی اور روانہ ہوا تو اندھیرا چھا چکا تھا۔ اس روز اگرچہ میں کافی سفر کر چکا تھا لیکن مزید پانچ یا چھ میل کا سفر میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اگرچہ میں دیر سے نکلا تھا پھر بھی ہلدو کے درخت سے قبل ہی میں نے انہیں جا لیا۔ جلد ہی ہم چیتل کی لاش تک پہنچ گئے اور میرے ہمراہی چیتل کو رسیوں اور بانسوں سے باندھنے کے بعد چلنے کو تیار ہو گئے۔ پھر ایک مختصر راستے کی مدد سے ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا اور رات کے کھانے کے وقت میں کاٹیج جا پہنچا۔ میں نے میگی کو بتایا کہ میں رات کو سوتے وقت نہاؤں گا اور جب تک وہ کھانا تیار کرے، میں ہاتھ منہ دھو لوں۔

رات کو نہانے کے لیے جب میں نے کپڑے اتارے تو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ میرے ربر سول جوتے سرخ رنگ کی مٹی سے اٹے ہوئے تھے اور میرے پیروں پر بھی سرخ مٹی لگی ہوئی تھی۔ اپنے پیروں کے متعلق میں ہمیشہ ہی محتاط رہتا ہوں اور اسی وجہ سے میرے پیروں کو کبھی کوئی مرض نہیں لاحق ہوا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں کیسے اتنا لاپروا ہوا کہ میرے پیر مٹی سے بھر گئے۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہماری یاداشت کو اور ہماری یاداشت ہمارے دماغ کو کچوکے لگاتی رہتی ہے اور کسی شعوری کوشش کے بغیر ہمیں بھولی ہوئی باتیں یاد آ جاتی ہیں چاہے وہ کسی کا نام ہو یا کوئی اور معلومات۔

جب کاٹھ گودام کے لیے ریل کی پٹڑی نہیں بچھائی گئی تھی تو ساری آمد و رفت پرانی ٹرنک روڈ سے ہوتی تھی۔ ہمارے گیٹ سے دریائے بور کے پل تک یہ سڑک سیدھی جاتی تھی اور پل سے تین سو گز دوری پر سڑک بائیں مڑتی تھی۔ موڑ کے دائیں جانب پوال گڑھ والا فائر ٹریک راستے سے آن ملتا تھا۔ پل سے پچاس گز دور ٹرنک روڈ اور کوٹا روڈ آن ملتے تھے۔ ان دونوں جگہوں کے درمیان میں سڑک ایک نشیب سے گذرتی ہے۔ بیل گاڑیوں کی آمد و رفت سے اس جگہ کی مٹی انتہائی باریک ہو چکی ہے اور چھ انچ موٹی تہہ موجود ہے۔ اس مٹی سے بچنے کے لیے پیدل چلنے والے افراد نے جنگل اور سڑک کے درمیان میں ایک پتلی سی پگڈنڈی بنا لی ہے۔ موڑ سے تیس گز قبل یہ پگڈنڈی اور سڑک دونوں ہی ایک آبی گذرگاہ کے اوپر چڑھتے ہیں اور اس پر ڈیڑھ فٹ اونچی اور ایک فٹ موٹی دیواریں بنی ہوئی ہیں تاکہ بیل گاڑیاں سڑک سے اتر نہ جائیں۔ یہ گذرگاہ کبھی کی متروک ہو چکی اور اس کے نچلے سرے پر سڑک کی سطح کے برابر آٹھ یا دس مربع فٹ کا ریتلا ٹکڑا ہے۔

مٹی سے اٹے پیروں کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ چائے پینے کے بعد جب میں ان لوگوں کی جانب روانہ ہوا تو اس آبی گذرگاہ سے چند گز قبل میں نے پگڈنڈی چھوڑ کر سڑک عبور کی اور سیدھا چلتے ہوئے گذرگاہ کے بعد دوبارہ پگڈنڈی پر جا پہنچا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ میں نے سڑک کیوں عبور کی؟ جب میں اپنے گھر سے نکلا تو ساتھیوں سے ملنے تک میں نے کوئی ایسی آواز نہیں سنی جس سے مجھے خطرے کا احساس ہوتا اور تاریک رات میں کسی چیز کو دیکھ پانا ویسے بھی ممکن نہیں تھا۔ اسی وجہ سے مجھے الجھن ہوئی کہ میں نے دو بار سڑک کیوں عبور کی؟

اس کتاب کے شروع میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ جب میں نے ڈینسی کی بنشی یا چڑیل کی آواز کے بارے جانا کہ وہ دو درختوں کی باہمی رگڑ سے پیدا ہو رہی تھی، اس دن سے میں نے عادت بنا لی کہ جنگل میں ہونے والی ہر غیر معمولی بات کی تحقیق کروں۔ اب یہ غیر معمولی بات ہوئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اگلے روز صبح آمد و رفت شروع ہونے سے قبل جا کر پتہ لگاؤں گا کہ ایسا کیوں ہوا۔

میرے ساتھی ہمارے گھر سے نکلے تو گیٹ پر تین مزید افراد ان سے آن ملے۔ کل 14 افراد کی یہ جماعت سیدھی چلتی ہوئی ہلدو کے درخت تک جا پہنچی۔ ان کے گذرنے کے فوراً بعد کوٹا روڈ سے ایک شیر آیا، اس نے موڑ کے پاس زمین کھرچی اور پگڈنڈی پر آگے بڑھ گیا۔ اس کے پگ میرے ساتھیوں کے پیروں کے نشانات پر ثبت تھے۔ جب شیر پگڈنڈی پر 30 گز چلا تو میں پل پر پہنچا۔

یہ پل فولادی ہے اور ظاہر ہے کہ میرے گذرنے کی آواز سن کر شیر نے مجھے دیکھا ہوگا کیونکہ مجھے کافی جلدی تھی۔ جب شیر نے دیکھا کہ میں کوٹا روڈ پر نہیں بلکہ اسی کی جانب آ رہا ہوں تو اس نے سڑک گذرگاہ سے آگے ریتلے قطعے کا رخ کیا اور وہاں پگڈنڈی سے ایک گز دوری پر لیٹ گیا۔ جب میں گذرگاہ سے پانچ گز دور رہا ہوں گا تو میں نے پگڈنڈی چھوڑ کر سڑک عبور کی اور سیدھا چلتے ہوئے آگے بڑھا اور پھر سڑک عبور کر کے پگڈنڈی پر جا پہنچا۔ لاشعوری طور پر میں نے شیر سے ایک گز کی دوری سے گذرنے سے بچنے کے لیے ایسا کیا حالانکہ مجھے شیر کی موجودگی کا علم بھی نہیں تھا۔

مجھے پورا یقین ہے کہ اگر میں سیدھا چلتا جاتا تو بھی مجھے شیر سے کوئی خطرہ نہ ہوتا اگر 1) میں سیدھا اپنے راستے پر چلتا 2) کسی قسم کی آواز نہ کرتا 3) کسی قسم کی ہیجانی حرکت نہ ہوتی۔ شیر اگرچہ مجھے ہلاک کرنے کو نہیں لیٹا تھا لیکن اس کے پاس گذرتے وقت اگر میں کوئی آواز سننے رکتا، کھانستا، ناک صاف کرتا، چھینکتا یا رائفل کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتا تو عین ممکن ہے کہ شیر گھبرا کر حملہ کر دیتا۔ میرا لاشعور اس خطرے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھا اس لیے جنگل سے حساسیت نے مجھے بتائے بغیر اس ممکنہ خطرے سے نکال لیا۔ میری ساری زندگی میں اس صلاحیت نے کتنی بار میری جان بچائی، یہ کہنا ممکن نہیں۔ لیکن اتنے برسوں تک جنگل میں رہنے کے باوجود صرف ایک بار میں ایک جنگلی جانور سے دو بدو ہوا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جنگل سے حساسیت، محافظ فرشتہ یا جو بھی کہہ لیں، ہمیشہ عین وقت پر مجھے بچاتے تھے۔