تفسیر امین/سورہ 33/آیت 62
سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [٣٣:٦٢] ”یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے“
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو ازل سے چلی آ رہی ہے۔ پرانی شریعتوں میں بھی ایسا ہی تھا۔ اگر یہ منافق یہودی اپنی کتاب پڑھیں تو اس میں بھی ایسی ہی سزائیں ہیں۔
بائبل میں بھی اس طرح کے احکام ہیںَ۔ جھوٹے الزام پر طلاق نہیں دی جا سکتی۔ بدنام کرنے والوں کی بھی سزا کا ذکر ہے۔ قرآن کی یہ آیت بتا رہی ہے کہ ایسی سزا نئی نہیں پرانی ہے۔ ان منافق یہودیوں کی کتابوں میں بھی درج ہے۔یہودیوں میں تو اگر کوئی اپنی بیوی کے بارے میں بُری باتیں پھیلائے تو اس کی جسمانی سزا میں کوڑے، مالی سزا میں جرمانہ اور اس کے علاوہ تمام عمر طلاق پر پابندی کی سزا بھی تھی۔ جیسا کہ ان آیات میں درج ہے۔
”اِستِشنا: باب22:13۔اگر کوئی مرد کسی عورت کو بیاہے (نکاح کرے)اور اُسکے پاس جائے اور بعد اُسکے اُس سے نفرت کر کے۔14۔شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہے اور اُسے بدنام کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرے کہ میں نے اِس عورت سے بیاہ کیا اور جب میں اُسکے پاس گیا تو میں نے کنوارے پن کے نشان اُس میں نہیں پائے۔15۔تب اُس لڑکی کا باپ اور اُس کی ماں اُس لڑکی کے کنوارے پن کے نشانوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر بزرگوں کے پاس لے جائیں۔16۔اور اُس لڑکی کا باپ بزرگوں سے کہے کہ میں نے اپنی بیٹی اِس شخص کو بیاہ دی پر یہ اُس سے نفرت رکھتا ہے۔17۔اور شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہتا اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے تیری بیٹی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے حالانکہ میری بیٹی کے کنوارے پن کے نشان یہ موجود ہیں۔ پھر وہ اُس چادر کو شہر کے بزرگوں کے آگے پھیلا دیں۔18۔تب شہر کے بزرگ اُس شخص کو پکڑ کر اُسے کوڑے لگائیں۔19۔اور اُس سے چاندی کی سو مثقال جرمانہ لیکر اُس لڑکی کے باپ کو دیں اس لیے کہ اُس نے ایک اسرائیلی کنواری کو بدنام کیا اور وہ اُس کی بیوی بنی رہے اور وہ زندگی بھر اُسکو طلاق نہ دینے پائے۔“