تفسیر امین/سورہ 33/آیت 60
لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا [٣٣:٦٠] ”اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے“ جیسا کہ پچھلی آیت میں مسلمان خواتین کو حکم دیا گیا کہ اپنی شناخت پردے کی صورت میں کفار کی خواتین اور بدقماش خواتین سے الگ کر لیں تو اس کے بعد کفار اور یہود کے لیے یہ بہانہ تو ختم ہو گیا کہ وہ مسلمان خواتین کو پہچان نہیں سکے تھے اس لیے آواز لگا دی۔ جن کفار کے دلوں میں اب بھی مرض تھا وہ مسلمان خواتین اور مسلمانوں کے خلاف افواہیں پھیلانے لگے۔ یہ افواہیں اس طرح کی ہوتی تھی کہ نبی کریم ﷺ شہید ہو گئے، مسلمان جنگ ہار گئے یا فلاں مسلمان خاتون ایسی ویسی ہے۔ ان مفافقین کا مقصد مسلمانوں کی ساکھ کو خراب کرنا تھا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، حتیٰ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی بُری افواہیں پھیلائی گئی۔ اب وارننگ انہی لوگوں کے لیے تھی ۔ان کے جرائم کی کم سے کم سزا جلاوطنی بتائی گئی ہے۔ یہ جلا وطنی اُن لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے کسی کے بارے میں بُری افواہیں پھیلائیں مگر ان کے نتیجے میں کوئی فتنہ نہ پھیل سکا، جیسے ہی انہوں نے بولا، فوراً پتہ چل گیا کہ یہ افواہ پھیلا رہا ہے تو ایسے شخص کی کم سے کم سزا جلاوطنی تجویز کی گئی۔