تفسیر امین/سورہ 33/آیت 32

ویکی کتب سے

يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [٣٣:٣٢] ”نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو“ اس آیت کی مخاطب نِسَاءَ النَّبِيِّ ہیں جس میں بیویاں، بیٹیاں اور دیگر خواتین شامل ہیں۔اس آیت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ اُس دور یعنی دور نبوی ﷺ کے منافقین کی کوشش یہ تھی کسی نہ کسی طرح ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کے منہ سے کوئی ایسی بات نکلوائیں یا نکل جائے کہ جسے کسی دوسرے رنگ میں پیش کر کے وہ منافق فتنہ و فساد کھڑا کر سکیں۔ ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا اپنی عادت کے مطابق ہر کسی کے سوالوں کا جواب آرام سے ،عام اور نرم لہجے میں دیتی تھیں۔اس سے منافق پر امید تھے کہ جلد ہی وہ کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ایسے حالات میں ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کے لیے یہ آیت نازل ہوئی جس میں ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کو کہا گیا کہ آپ عام عورتوں کی طرح نہیں ہو بلکہ آپ بہت خاص ہو، بلند مرتبہ ہو، فضیلت میں سب خواتین سے بڑھ کر ہو۔ یعنی تمام مسلمان خواتین کی رول ماڈل ہو ۔ آپ کے حوالے سے کہی ہوئی یا پھیلائی ہوئی کسی بھی بُری بات کے برے اور دور رس نتائج ہونگے، اگر آپ سے متعلق لوگوں کو یا خواتین کواچھی باتیں معلوم ہونگی تو وہ اُن کے لیے مشعل راہ ہو گی۔ اس وجہ سے اُن کو کہا گیا ہے کہ وہ اجنبی یا عام لوگوں سے نرم لہجے میں بات نہ کریں کہ کوئی منافق اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس آیت کی مخاطب تو ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین ہیں کہ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، مگر اس کا یہ مقصد نہیں کہ عام عورتوں کو اس کی اجازت ہے کہ وہ دوسروں سے نرم لہجے میں بات کریں۔ آیت کا مخاطب خاص ہے مگر حکم عام ہے۔اللہ تعالیٰ کے سمجھانے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے کوسمجھائے کہ آوارہ لڑکوں کی طرح گالیاں مت دینا، حالانکہ اُس شخص کو سب بچوں کا گالیاں دینا ناپسند ہوتا ہے۔ جس کسی کے دل میں بھی مرض، روگ یا طمع ہوتا ہے کسی کے میٹھے لہجے کا غلط مطلب لے کر دوسرے لوگوں میں خاتون کی طرف سے بدگمانی پھیلا سکتا ہےیا اُن کے دل میں مزید کسی قسم کا طمع پیدا ہو سکتا ہے اور وہ خاتون کو متاثر کرنے کے لیے الٹی سیدھی حرکتیں کرے ۔مردوں کو چاہیے کہ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے یا خواتین سے بات کرتے ہوئے اپنا لہجہ نرم رکھیں۔ مگر خواتین جب بھی بات کریں تو سیدھے سادھے ، سپاٹ انداز میں ٹو دی پوائنٹ بات کریں بلا ضرورت بات کو نہ بڑھائیں۔ جب کوئی خاتون سیدھے سادھے انداز میں صاف اور سیدھی بات کرے گی تو لوگ دوبارہ بہانے بہانے سے بات کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔خواتین کو اجنبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ زیور کی آواز بھی اجنبی کے سننے کےلیے منع کر دی ہے، اسی طرح اصل لہجہ یا بول چال کا انداز جو خاتون گھر میں محرمات سے گھل مل کر بات کرتی ہیں ویسے ہی اجنبیوں سے بات نہ کرو۔ اچھی آواز بھی زینت ہے مگر یہ مشکل سے چھپانے والی زینت میں آتی ہے۔