تفسیر امین/سورہ 24/آیت 61

ویکی کتب سے

لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ [٢٤:٦١] ”کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعا ئے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے “ اس آیت میں پہلے تو مخاطب معذور لوگ ہیں، اسلامی معاشرے میں پورا معاشرہ ہی اُن کی کفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے، کسی کے گھر سے بھی کچھ لے کر کھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد مخاطب آیت پڑھنے والے ہیں یعنی عام عوام۔اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین قریبی رشتے داروں کے ساتھ کھانا کھا سکتی ہیں، یعنی قریبی رشتے داروں جیسے دیور جیٹھ وغیرہ سے چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک محترم عالم دین صاحب کسی پردے دار خاتون کو دیور سے پردے کا حکم سمجھاتے ہوئے ایک حدیث کے بارے میں بتا رہے تھے وہ کچھ یوں ہے کہ نبى كريم صلى اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: " تم عورتوں كے پاس جانے سے اجتناب كرو " تو ايك انصارى شخص نے عرض كیا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ علیہ وسلم ذرا خاوند كے قریبی مرد ( ديور ) كے متعلق تو بتائيں ؟ تو رسول كريم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " دیور تو موت ہے " صحيح بخارى حديث نمبر ( 5232 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2172 ). الحمو: خاوند كے بھائى ( یعنی ديور ) اور دوسرے قریبی رشتہ دار مرد مثلا چچا كے بيٹے وغیرہ كو كہا جاتا ہے. اس حدیث میں غالبا تنہائی میں باربار اور بنا ضرورت کے ملنے سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 61 کو دیکھیں جس کے مطابق مسلمانوں کو اپنے جن رشتے داروں کے گھروں میں کھانا کھانے کا حکم دیا گیا ہے ان میں بھائی بھی شامل ہے۔ اب بھائی کے گھر میں بھابھی ہوتی ہے اور بچے، اب مل کر کھاؤ یا الگ الگ کو دیکھا جائے توپہلی صور ت مل کر کھانے کی جو صورت بنتی ہے وہ یوں کہ دونوں بھائی، بھابھی اور سب بچے مل کر ایک ہی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں، یہ صورت حال بھی بالکل جائز اور قابل قبول ہے۔ دوسری صورت میں مل کر اور الگ الگ کھانے کی ایک صورت یوں بنتی ہے کہ دونوں بھائی ایک جگہ مل کر کھائیں اور باقی گھروالے الگ، یہ صورت حال بھی جائز اور قابل قبول ہے، دوستوں کے گھروں میں کھانے کے لیے یہ صورت حال بہترین ہے ۔ اب ایک صورت یہ بچتی ہے کہ دونوں بھائی ہی الگ الگ کونوں یا کمروں میں بیٹھ کر اکیلے اکیلے کھائیں یا دونوں مل کر ایک جگہ ۔ مگر جناب اس طرح تو معاشرتی روابط مزید منقطع ہونگے، کیونکہ جو شخص اپنے بھائی کے گھر کھانا کھانے جا رہا ہےوہ اس سے روابط بڑھانے کے لیے جا رہا ہے، ورنہ کھانا تو اس کے اپنے گھر میں بھی پکتا ہے۔میرے خیال میں تو پہلی صورت اور دوسری صورت حال ہی درست ہیں۔ آیت کا مرکزی سبق تو یہ ہے کہ ان رشتے داروں میں سے جن کے گھروں میں بھی جاؤ وہاں سلام کر کے جاؤ۔ اس آیت میں کھانے کی حد تک بات ہو رہی ہے، زیب و زینت جن جن لوگوں کو دکھایا جا سکتا ہے اُن کی تفصیل پہلے ہی آ چکی ہے۔اسی آیت سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ فسٹ کزن وغیرہ کا چہرے کا پردہ بھی ضروری نہیں اور دیور وغیرہ سے چہرے کا پردہ کیے بغیر بھی ایک گھریعنی مشترکہ خاندانی نظام میں رہنا قرآن نے منع نہیں کیا۔ اس آیت کے مطابق فسٹ کزن محرمات میں شامل نہیں ہوتے ، اسکے باوجود کھانے کے دوران ان سے چہرے کا پردہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔