تفسیر امین/سورہ 24/آیت 31

ویکی کتب سے

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [٢٤:٣١] ”اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے “۔

آیت کے ترجمے کو الگ الگ کر کے اس کی تفصیل دیکھتے ہیں۔

”اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں “ جیسے مومن مردوں کو حکم ہے کہ اپنی نظر بچا کر رکھیں ویسے ہی مومن عورتوں کے لیے حکم ہے کہ اپنی نظر بچا کر رکھیں۔ یعنی حرام منکرات کی طرف نظر پڑ جائے تو فوراً ہی ہٹا لیں۔ مردوں کی طرف خواہ مخواہ نظر نہ کریں۔ اس آیت سے بہت سی خواتین و حضرات یہ استدلال کرتے نظر آتے ہیں کہ جناب پہلے مردوں کو نظریں نیچے کرنے کاحکم ہے اس لیے زیادہ فرض مردوں کا ہے کہ اگر کوئی عورت پردہ نہیں کرتی تو مرد اس کی طرف نہ دیکھے، اس میں عورتوں کا کیا قصور؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی مرد اللہ کے حکم کی خلاف ورذی کرتے ہوئے اپنی نظریں نہیں بچاتا، نظروں کی حفاظت نہیں کرتا تو اس سے یہ کہیں فرض نہیں ہوتا کہ عورتوں پر سے پردہ کا حکم ساقط ہو گیا ہے۔ نظریں نیچے رکھنے کا حکم مردوں کو بھی ہے اور عورتوں کو بھی ۔ قرآن میں جہاں جہاں مردوں اور عورتوں کا ذکر ہے وہاں پہلے مرد لکھا ہوا ہے اور بعد میں عورت، جیسے مومن ،مومنہ، مسلمان مرد، مسلمان عورتوں، چور اور چورنی وغیرہ، اس پہلے اور بعد میں خطاب کرنے سے کرنے سے کسی پر بھی حکم میں نرمی نہیں۔ اگر مرد اللہ کا حکم نہیں مان رہا تو عورت مانے ، مرد اپنےاعمال کا خود جواب دہ ہو گا اور عورت اپنے اعمال کی خود ذمے دار ہو گی۔سورۃ 55 آیت 56 کے مطابق نیچے نگاہیں رکھنا جتنی حوروں کی نشانی ہے۔ ”اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں“ شرم گاہوں کی حفاظت ایک تو اس طرح کہ اپنے شریک حیات کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچیں بھی نا۔ دوسرا اس طرح کہ اس قسم کے کپڑے نہ پہنیں جو ان کےاعضا کو چھپانے کی بجائے ظاہر کریں۔ ڈوپٹوں کو گریبان پر ڈالنے کا حکم اسی وجہ سے ہے یعنی شرم کی جگہوں کو چھپانے کے لیے ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو ڈوپٹہ یا چادر سینے پر ڈالی جاتی ہے وہ لباس کا باقاعدہ حصہ ہوتی ہے کہ وہ شرم کے حصوں کو چھپاتی ہے،اسے اعزازی زینت کہہ کر لباس سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ لباس کی ایک خصوصیت شرم کی جگہوں کا چھپانا بھی ہےاور ڈوپٹہ یہ کام کرتا ہے۔ ” اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں“ زینت کا مطلب آراستہ کرنا ، خوشنما بنا کر دکھانا ، بناؤ سنگھار ، آرائش و زیبائش کے ہیں۔بناؤ سنگھار یا زینت کا نہ دکھانا عام لوگوں یا نا محرموں کے لیےہے۔ جن لوگوں پر بناؤ سنگھار یا زینت ظاہر کی جا سکتی ہے ان کی تفصیل آگےسورۃ احزاب کی آیت میں آئے گی۔ کوئی قدرتی یا مصنوعی زینت جو کسی کو بھی عورت کی طرف رغبت اور التفات بڑھا دے وہ اگر چھپائی جا سکے تو چھپا کر رکھنی چاہیے۔خواتین کی زینت میں لباس بھی شامل ہے اور زیورات بھی۔اس کے علاوہ قدرتی طور پر جو زینت کسی بھی عورت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس میں اچھی رنگت، مناسب قد و قامت اور خدوخال وغیرہ بھی شامل ہیں۔ان میں سے ہر چیز کو چھپانا ممکن نہیں۔، لمبا قد ، گوری رنگت اور اچھی آواز چھپائی نہیں جا سکتی، لباس کا ظاہری حصہ، بعض زیورات جیسے ہاتھوں کی انگھوٹھیاں وغیرہ بھی اُن چیزوں میں شامل ہیں جوبہت ہی زحمت کے ساتھ چھپائی جا سکتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے صرف اُن زینتوں کو چھپانے کا حکم دیا ہے جس کو چھپانے کےلیے بہت زیادہ زحمت نہیں کرنی پڑتی۔اوڑھنے والی چادر،جو باعث زینت بھی ہوتی ہے، کو مزید کسی دوسری چادر سے چھپانے کی ضرورت نہیں۔قمیض کے نچلے حصے کی کشیدہ کاری وغیرہ بھی وہ زنیت ہے جو مشکل سے چھپائی جائے۔ گھریلو خواتین کے لیے گھروں میں دودھ سبزی لیتےہوئے ہاتھوں کی زینت (زیور، مہندی) کا چھپانا مشکل ہوتا ہے۔ مصنوعی آرائش کے زیورات، لپ اسٹک وغیرہ سب سنگھار میں شامل ہیں۔یہ سب ہی نہیں دکھانا چاہیے۔اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ چہرے جو قدرتی طور پر خوبصورت ہوں یا جن کو میک اپ سے خوبصورت بنایا گیا ہو ان کا پردہ کرنا ضروری ہے۔جو چیز آسانی سے چھپائی جا سکے اور جو آسانی سے نہ چھپائی جا سکے اس کا فیصلہ وہ خواتین خود ہی کر سکتی ہیں جو ان آیات پر عمل کر رہی ہو۔ ” بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے“ گورارنگ، لمبا قد، سمارٹ نس، اچھی آواز اوربعض مواقع پر چہرہ وغیرہ کا چھپانا بہت مشکل ہو جاتا ہے یہ رعایت اسی لیے دی گئی ہے۔اس کے علاوہ جو دوسری صورتیں ہو سکتی ہے وہ اس طرح کہ کسی اجنبی سے کچھ سامان لیتے یا دیتے ہوئے ہاتھ کے زیورات یا مہندی اجنبی کے سامنے آ جائے تو یہ خودبخود ظاہر ہونا ہو گا۔راہ چلتے ہوئے آنکھوں کا میک اپ ظاہر ہو جانا ، جوتے کے ڈیزائن، چادر وغیرہ کے ڈیزائن سب اسی میں شامل ہیں۔ ” اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں“ قرآن کریم میں دو طرح کی چادر کا ذکر ہے خمار (جو سر ڈھاپنے کے کام آتی ہے اور اس کا ذکر اسی آیت میں ہے) اور جلابیب (جو ڈوپٹے وغیرہ کے اوپر ڈالی جائے کہ تمام جسم چھپ جائے، سکارف اس کا متبادل ہے، اس کا ذکر سورۃ احزاب آیت 59 میں ہے)، یعنی گھریلو استعمال کے لیے خمار اور باہر کے لیے خمار کے ساتھ ساتھ جلابیب ۔یعنی سر ڈھانپنے والے آنچل یا ڈوپٹے کا مقصد یہ ہے کہ کسی کے سامنے جسم کی ساخت ظاہر نہ ہو۔یا چلتے پھرتے یا بیٹھتے ہوئے جسم کا کوئی حصہ نمایاں نہ ہو جائے۔اس طرح اوڑھنیاں،چادریں، پلو اور ڈوپٹہ خواتین کے لباس کا لازمی حصہ ہو نگی اورضروری ہے کہ کسی غیر محرم کی موجودگی میں عورتیں اوڑھنی، چادر اور ڈوپٹؤں سے اپنے سر اور کمر کے ساتھ اپنے گریبانوں کو بھی چھپائیں۔اس ڈوپٹہ لینے کی پابندی سے صرف وہ بوڑھی عورتیں مستثنیٰ ہیں جو نکاح کی عمر سے گذر چکی ہے۔ اگرچہ ان کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ وہ بھی اس کا اہتمام رکھی(بمطابق سورۃ النور 60)۔ اب اگر یہ اوڑھنیاں آرائش کا بھی کام دے رہی ہے تو اس کا بنیادی کام جسم کو چھپانا پہلے ہو گا اور اس کا نظر آنا ”جو خود ظاہر ہو جائے“ کی تعریف میں آئے گا۔یعنی اس زینت کے لباس پر جو شرم گاہ کو چھپا رہا ہے کسی کی نظر پڑ جائے تو کوئی بات نہیں۔یہ جو سینوں پر ڈوپٹہ ڈالنے کی بات کی گئی ہے اُن محرمات کےلیے بھی ہے جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ ”وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے:“ عورتیں بناؤ سنگھار کرنے کے بعدگھر میں جن لوگوں کو ظاہری بناؤ سنگھار میں دکھا سکتی ہیں اُن کی تفصیل اسی آیت کے اگلے حصے میں ہے۔ ” شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے“ محرمات یہ سب عزیز جو اس آیت میں آئے ہیں محرم کہلاتے ہیں۔ ان کی بھی دو اقسام ہیں۔ محرم ابدی ابدی محرم ساری زندگی محرم ہی رہتے ہیں جیسے باپ، بیٹا ،بھائی، چچا، تایا، ماموں اور خالو وغیرہ۔ یعنی جن سے ساری زندگی شادی نہ ہو سکے۔ محرم وصی محرم وصی یا وصفی وہ محرم ہوتے ہیں جو مخصوص حالات میں محرم ہوتے ہیں مگر جیسے ہی وہ حالات ختم ہو جائیں گے وہ لوگ محرمات کی فہرست میں شامل نہیں رہیں گے اور اجنبی یا غیر محرم ہو جائیں گے۔مثال کے طور پر شوہر طلاق کے بعد نا محرم، مملوک آزاد ہونے کے بعد، بچہ جوان ہونےکے بعد نا محرم ہو گا۔ ”اپنے میل جول کی عورتیں“ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے اچھی طرح جان پہچان ہو، جیسے محلے والیاں۔ یعنی اجنبی عورتوں کو بھی زینت نہیں دکھانی۔عورتوں میں جو قابل اعتبار ہوں اُن عورتوں کے سامنے ہی زینت دکھانی چاہیے، دوسری عورتیں جن کا معلوم ہی نہیں کون ہیں ، کس قماش کی ہیں، یا ایسی تو نہیں جو باہر جا کردوسروں کے سامنے تذکرہ کریں، یا باہر جا کر تذکرہ کر کے لگائی بجھائی کریں۔ اُن سے پردے میں، صرف چہرہ کھول کر، ملنا ہی بہتر ہے۔ ” ا پنے مملوک“ میرے خیال میں یہاں مراد لونڈیاں ہو گا۔ غلاموں میں ایسے غلام بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق مثال دے کر ہی اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ نکاح کرنے کے لیے مشرک سے غلام بہتر ہے، تو جس سے نکاح ہو سکتا ہے وہ نامحرم ہی ہوا۔ آج کل کے دور میں اس سے مراد گھریلو ملازمائیں ہو نگی۔ توان گھریلو ملازموں سے بھی آرائش چھپانی چاہیے۔ " وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں“ زیر کفالت یا غلام یا ملازم جو بوڑھے ہوں۔ اس میں ملازم زنخے وغیرہ بھی شامل ہیں۔ وہ اگر زینت دیکھ لیں تو کوئی بات نہیں۔ ” اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں“ چھوٹے بچے ۔ ان تمام محرمات کے سامنے سوائے شوہر (جس سے کسی قسم کا پردہ نہیں)کے جو زینت ظاہر کی جا سکتی ہے وہ سب خمار یعنی ڈوپٹہ کے ساتھ ہیں۔ جلابیب (ڈوپٹے سے اوپر کی چادر) گھر سے باہر کے لیے ہے۔ ”وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے“ یہ احتیاط تو گھر میں بھی کرنی چاہیے کہ جن لوگوں کا ذکر اوپر آ گیا ہے کہ ان کے سامنے بھی پاؤں بجا کر پازیب وغیرہ جھنکاتی نہ رہیں۔لیکن بازار میں تو یہ حکم کا درجہ رکھتا ہے کہ وہاں بہتر تو یہی ہے کہ اس طرح کے زیورات پہن کر نہ جایا جائے اگر پہن ہی لیے ہیں تو کوشش کی جائے کہ احتیاط سے چلا جائے۔اس آیت کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ اس طرح کوشش کی جائے کہ کسی بھی وجہ سے پوشیدہ زینت سامنے نہ آجائے یعنی اگر ایک آدمی ایک طرف منہ کر کے کھڑا ہے اور پیچھے سے پازیب کی آواز آ رہی ہو تو وہ بھی دیکھنا چاہے گا۔ اس لیے احتیاط کرتے ہوئے بازاروں میں چوڑیاں بھی نہ کھنکائی جائے۔ جب آواز سے کوئی متوجہ ہو سکتا ہے تو اسی طرح تیز خوشبو یا عطریا پرفیوم سے بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔ بازار میں اس سے بھی پرہیز کیا جائے، عطر اور پرفیوم کا حکم بھی زیور چھنکانے میں ہو گا یعنی جو کسی اور طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے شخص کو متوجہ کر سکے۔ ” اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے“ اگر ماضی میں ایسا نہیں کرتے رہے تو اب مستقبل کے لیے پکا ارادہ کرو کہ ان احکامات پر عمل کرو گے۔اس پر عمل کرنے سے ذاتی طور پر بھی اور معاشرتی طورپر بھی فلاح پاؤ گے۔معاشرے میں غیر اخلاقی جرائم نہیں ہونگے۔ توبہ اس لیے بھی کہ اگر غلطی سے، انجانے میں ، کچھ ہو گیا ہو تو اس گناہ سے معافی مانگتے رہا جائے۔