بچوں کے حقوق

ویکی کتب سے

اسلام میں بچوں کے حقوق[ترمیم]

تصنیف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

http://www.minhajbooks.com

پیش لفظ[ترمیم]

بچے بنی نوع انسان کی نسلِ نو ہیں۔ دیگر اَفرادِ معاشرہ کی طرح بچوں کا بھی ایک اَخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہے۔ بہت سے ایسے اُمور ہیں جن میں بہ طور بنی نوع انسان بچوں کو بھی تحفظ درکار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ اَمر بھی قابل غور ہے کہ چوں کہ بچے بالغ نہیں لہٰذا بہت سی ایسی ذمہ داریاں جن کے بالغ لوگ مکلف ہیں، بچے ان کے مکلف نہیں ہو سکتے۔ گو انہیں کئی حقوق مثلاً رائے دہی، قیام خاندان اور ملازمت وغیرہ حاصل نہیں مگر اپنی عمر کے جس حصے میں بچے ہوتے ہیں اس میں انہیں اس تربیت اور نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے کہ مستقبل میں وہ ان حقوق کی ادائیگی کما حقہ کر سکیں۔ یہ اَمر ہی بچوں کے حقوق کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ دورِ جدید میں بچوں کے حقوق کا تحفط کرنے والی نمایاں دستاویز United Nations Convention on the Rights of the Child-1980 ہے۔ جس میں بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔

اسلام نے بچوں کو بھی وہی مقام دیا ہے جو بنی نوع انسانیت کے دیگر طبقات کو حاصل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہمارے لیے راہِ عمل بھی۔ اسلام میں بچوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسلام نے بچوں کے حقوق کا آغاز ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا ہے۔ ان حقوق میں زندگی، وراثت، وصیت، وقف اور نفقہ کے حقوق شامل ہیں۔ بچوں کے حقوق کا اتنا جامع احاطہ کہ ان کی پیدائش سے بھی پہلے ان کے حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے دنیا کے کسی نظامِ قانون میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیر نظر کتاب میں اسلام میں بچوں کے حقوق کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ اس تصنیف سے نہ صرف اسلام کے تصورِ حقوق کے نئے گوشوں سے آگاہی ہوگی بلکہ معاشرے کو اِسلام کے عطا کردہ حقوق کا گہوارہ بنانے کے امکانات بھی پیدا ہوں گے۔

(ڈاکٹر طاہر حمید تنولی)

ناظمِ تحقیق تحریکِ منہاج القرآن

بچوں کے حقوق[ترمیم]

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ اس کے بچوں کی تعمیرِ شخصیت اور تشکیلِ کردار پر پوری توجہ دی جائے۔ یہ اَمر اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک بچوں کے حقوق کا واضح تصور اور ان حقوق کے اِحترام کا باقاعدہ نظام موجود نہ ہو۔ اِسلام نے دیگر اَفرادِ معاشرہ کی طرح بچوں کے حقوق کو بھی پوری تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہاں ان حقوق کی تفصیل بیان کی جاتی ہے :

1۔ قبل اَز پیدائش حقوق[ترمیم]

قبل اَز پیدائش بچہ حالتِ جنین میں ہوتا ہے۔ اِسلام نے بچے کو حقوق عطا کرنے کا آغاز حالتِ جنین سے کیا ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے :

(1) زندگی کا حق[ترمیم]

بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے۔ اسلام نے اس مرحلے سے بچے کے لیے زندگی کے حق کو قانونی حیثیت عطا کی ہے۔ ابتدائي مہینوں میں اسقاط حمل کروانا ابتدائي ( ایک سے تین ماہ ) مہینوں اوربچے میں روح ڈالے جانے سے قبل اسقاط حمل کا حکم کیا ہے ؟

الحمد للہ :

کبارعلماء کمیٹی نے مندرجہ ذيل فیصلہ کیا :

1 - مختلف مراحل میں اسقاط حمل جائز نہيں لیکن کسی شرعی سبب اوروہ بھی بہت ہی تنگ حدود میں رہتے ہوئے ۔

2 - جب حمل پہلے مرحلہ میں ہوجوکہ چالیس یوم ہے اوراسقاط حمل میں کوئي شرعی مصلحت ہویا پھر کسی ضررکودورکرنا مقصود ہوتواسقاط حمل جائز ہے ، لیکن اس مدت میں تربیت اولاد میں مشقت یا ان کے معیشت اورخرچہ پورا نہ کرسکنے کےخدشہ کے پیش نظر یا ان کے مستقبل کی وجہ سے یا پھر خاوند بیوی کے پاس جواولاد موجود ہے اسی پراکتفا کرنے کی بنا پراسقاط حمل کروانا جائز نہيں ۔

3 - جب مضغہ اورعلقہ ( یعنی دوسرے اورتیسرے چالیس یوم ) ہوتواسقاط حمل جائز نہيں لیکن اگر میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ حمل کی موجودگي ماں کے لیے جان لیوا ہے اوراس کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہے توپھر بھی اس وقت اسقاط حمل جائز ہوگا جب ان خطرات سے نپٹنے کے لیے سارے وسائل بروے کارلائيں جائيں لیکن وہ کارآمد نہ ہوں

4 - حمل کے تیسرے مرحلے اورچارماہ مکمل ہوجانے کے بعد اسقاط حمل حلال نہیں ہے لیکن اگر تجربہ کاراورماہر ڈاکٹر یہ فیصلہ کریں کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی موجودگی ماں کی موت کا سبب بن سکتی ہے ، اوراس کی سلامتی اورجان بچانے کے لیے سارے وسائل بروئے کارلائے جاچکے ہوں ، تواس حالت میں اسقاط حمل جائز ہوگا ۔

ان شروط کے ساتھ اسقاط حمل کی اجازت اس لیے دی گئي ہے کہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے اورعظیم مصلحت کوپایا جاسکے .

دیکھیں : فتاوی الجامعۃ ( 3 / 1056 ) ۔

اگر حمل کے چار ماہ گزرگئے ہوں لیکن حمل برقرار رہنے کی وجہ سے عورت کی ہلاکت یقینی ہو جس کی ماہر ڈاکٹروں نے تصدیق کردی ہو تو چار ماہ کے بعد بھی اِسقاط حمل جائز ہے بلکہ عورت کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے کیونکہ اِسقاط نہ کرانے کی صورت میں بچہ اور ماں دونوں کی ہلاکت کا خطرہ ہے اور پیٹ کا بچہ جس کا جاندار او زندہ ہونا ظنی ہے اس کی بنسبت ماں کی جان جو یقینی اور مشاہد ہے زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اس صورت میں اسقاط کرانا واجب ہے۔

(2) وراثت کا حق[ترمیم]

فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ماں کے پیٹ میں موجود حمل درج ذیل دو شرائط پوری کرنے کی صورت میں وارث بن سکتا ہے :

1۔ ترکہ چھوڑنے والے کی موت کے وقت بچہ ماں کے پیٹ میں موجود ہو کیونکہ وارث میت کا خلیفہ ہوتا ہے اور خلیفہ کے لیے موجود رہنا ضروری ہے۔ لہذا جب نطفہ صحیح حالت میں رحم میں پایا جائے تو اس پر زندگی کا حکم لاگو ہوگا اور وہ میت کی وراثت میں سے حصہ پائے گا۔

2۔ وضعِ حمل کے وقت زندہ ہو کیونکہ وارث کا زندہ ہونا شرط ہے، مردہ انسان وارث نہیں بن سکتا۔ قرآن فرماتا ہے :

یُوْصِيْکُمُ اﷲُ فِيْ اَوْلَادِکُمْ.

’’اﷲ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے۔‘‘

القرآن، النساء، 4 : 11

پیدا ہونے والا بچہ بھی اولاد کے زمرے میں آنے کی وجہ سے میت کا وارث ٹھہرے گا اور ترکہ میں سے حصہ پائے گا۔

(3) وصیت کا حق[ترمیم]

جنین کے لیے ثابت شدہ حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُس کے لیے وصیت کی جائے۔ فقہاء کا اجماع ہے کہ جنین اگر زندہ پیدا ہو تو اُس کے لیے وصیت کیے جانے کا حق درست ثابت ہوگا اس شرط کے ساتھ کہ وصیت کیے جانے کے وقت وہ ماں کے پیٹ میں موجود ہو۔ بلکہ بعضوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اگر جنین وصیت کیے جانے کے وقت ماں کے پیٹ میں نہ ہو تب بھی اس کا حقِ وصیت درست ثابت ہوگا۔

1. کشکي، الميراث المقارن : 206

2. ابو عينين، الميراث المقارن : 274

(4) وقف کا حق[ترمیم]

جنین کے مالی حقوق میں سے ثابت شدہ تیسرا حق وقف کا ہے۔ حقِ وراثت اور وصیت کی طرح فقہاء نے موجود اور بعد میں پیدا ہونے والی اولاد کا حقِ وقف بھی جائز قرار دیا ہے۔ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں :

و قد نصوا علي أن الوقف علي الأولاد و الذرية، يتناول من وجد بعد مجئ الغلة لأقل من ستة أشهر لتحقق وجوده في بطن أمه وقت مجئ الغلة فيشارک في الغلة.

’’اور فقہاء نے یہ موقف اِختیار کیا ہے کہ اولاد و ذُرّیت کے لیے وقف کر دینا جائز ہے۔ اس (اولاد) میں وہ شامل ہوگا جو غلّہ آنے کے کم از کم چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہو یعنی غلّہ آنے کے وقت اس کا وجود ماں پیٹ میں متحقق ہو چکا تھا، سو وہ غلّہ میں شریک ہوگا۔‘‘

ابن عابدين شامي، رد المحتار علي در المختار، 4 : 474

لہٰذا اس بناء پر اگر وقف کرنے والا فوت ہو جائے تو وقف شدہ مال جنین کو وراثت میں ملے گا۔

(5) تاخیرِ اِقامتِ حد کا حق[ترمیم]

جنین کے لیے مذکورہ بالا تین حقوق کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ حاملہ عورت پر وضعِ حمل تک حد قائم کی جائے گی نہ اس سے قصاص لیا جائے گا۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

أن امرأة من جهينة أتت نبي اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، وهي حبلي من الزنا، فقالت : يا نبي اﷲ! أصبت حدا، فأقمه عليّ. فدعا نبي اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وليها، فقال : أحسن إليها، فإذا وضعت فائتني بها. ففعل، فأمر بها نبي اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فشکت عليها ثيابها، ثم أمر بها فرجمت، ثم صلي عليها، فقال له عمر : تصلي عليها؟ يا نبي اﷲ! و قد زنت! فقال : لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين من أهل المدينة لوسعتهم. و هل وجدت توبة أفضل من أن جادت بنفسها ﷲ تعالي؟

’’قبیلہ جہینہ کی ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور وہ بدکاری سے حاملہ تھی۔ اس نے عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! میں نے حد لاگو ہونے والا فعل کیا ہے پس مجھ پر حد لگائیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سرپرست کو بلایا اور فرمایا : اِسے اَحسن طریقے سے رکھ (بدکاری کا گناہ کرنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھا سلوک کر کیونکہ اس نے اپنے گناہ کا اِقرار کر لیا ہے اور اس پر شرمسار ہے)، جب وہ بچہ جن لے تو اسے میرے پاس لے آنا۔ اس نے ایسا ہی کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت کے متعلق حکم دیا تو اس کے کپڑے مضبوطی سے باندھ دیے گئے (تاکہ ستر نہ کھلے)، پھر حکم دیا تو اسے سنگ سار کیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نمازِ (جنازہ) پڑھی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا نبی اﷲ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اس نے زنا کیا تھا! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اُس نے توبہ بھی تو ایسی کی ہے کہ اگر اسے مدینہ کے ستر آدمیوں پر تقسیم کیا جائے تو سب کے لیے کافی ہو اور کیا تم نے اس سے بہتر توبہ دیکھی ہے کہ اس نے اﷲ تعالیٰ کے لیے اپنی جان دے دی۔‘‘

مسلم، الصحيح،کتاب الحدود،باب من اعترف علي نفسه 3 : 1324 ، رقم : 1696

حضرت عبد اﷲ بن بریدہ رضی اﷲ عنھما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :

جاءت الغامدية فقالت : يا رسول اﷲ! إني قد زنيتُ فطهرني. و إنه ردها، فلما کان الغد قالت : يا رسول اﷲ! لم تردني؟ لعلک أن تردني کما رددت ماعزا، فو اﷲ! إني لحبلي. قال : إما لا، فاذهبي حتي تلدي. فلما ولدت أتته بالصبي في خرقة، قالت : هذا قد ولدته. قال : اذهبي فأرضعيه حتي تفطميه. فلما فطمته أتته بالصبي في يده کسرة خبز، فقالت : هذا، يا نبي اﷲ! قد فطمته، و قد أکل الطعام، فدفع الصبي إلي رجل من المسلمين، ثم أمر بها فحفر لها إلي صدرها، و أمر الناس فرجموها، فيقبل خالد بن الوليد بحجر، فرمي رأسها، فتنضح الدم علي وجه خالد، فسبها، فسمع نبي اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سبه إياها، فقال : مهلا! يا خالد! فو الذي نفسي بيده! لقد تابت توبة، لو تابها صاحب مکس لغفر له. ثم أمر بها فصلي عليها و دفنت.

’’قبیلہ غامد کی ایک عورت (بارگاہِ رسالت مآب میں) حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے بدکاری کی ہے، مجھے پاک کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے واپس بھیج دیا۔ جب دوسرا دن ہوا تو اس نے کہا : یا رسول اﷲ! آپ مجھے کیوں لوٹاتے ہیں، شاید آپ ایسے ہی لوٹانا چاہتے ہیں جیسے ماعز (بن مالک) کو لوٹایا تھا۔ خدا کی قسم! میں تو حاملہ ہوں (پس اب میرے بدکار ہونے میں کیا شک ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھا اگر تو نہیں لوٹنا چاہتی تو جا اور وضعِ حمل کے بعد آنا۔ پس جب اس نے بچہ جن لیا تو وہ اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر لے آئی اور عرض کرنے لگی : یہ وہ بچہ ہے جسے میں نے جنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جا اور اسے دودھ پلا یہاں تک کہ تو اسے دودھ چھڑا دے۔ جب اس نے بچہ کا دودھ چھڑا لیا تو بچہ کو لے کر آئی کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ اس نے عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور یہ کھانا کھانے لگا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بچہ ایک مسلمان کو پرورش کے لیے دے دیا۔ پھر حکم دیا تو اس عورت کے لیے اس کے سینے تک ایک گڑھا کھودا گیا، پھر لوگوں کو اسے سنگ سار کرنے کا حکم دیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آئے اور اس کے سر پر مارا تو خون کے چھینٹے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چہرے پر پڑے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اسے برا کہا تو یہ برا کہنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سن لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خبردار اے خالد! (ایسا مت کہو) قسم خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اس نے تو ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا (جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور حقوق العباد میں گرفتار ہوتا ہے اور مسکینوں کو ستاتا ہے) ایسی توبہ کرے تو اس کا گناہ بھی بخش دیا جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تو اس پر نماز پڑھی گئی اور وہ دفن کی گئی۔‘‘

مسلم، الصحيح،کتاب الحدود، باب من اعترف علي نفسه، 3 : 1323، 1324، رقم : 1695

(6) نفقہ کا حق[ترمیم]

یہ بھی باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہونے والے بچہ کا خرچ اٹھائے اگرچہ اس کی ماں کا خرچ اُس پر لازمی نہ ہو۔ اسی طرح حاملہ عورت کی عدت وضعِ حمل ہے تاکہ :

1۔ بچہ کے نسب کا تحفظ ہو کیونکہ اگر عورت دوسری شادی کرلے تو پیدا ہونے والے بچہ کا نسب خلط ملط ہونے کا اندیشہ ہے۔

2۔ طلاق یافتہ حاملہ عورت کا نان و نفقہ بھی شوہر پر صرف بچہ کی وجہ سے لازم ہوتا ہے کیونکہ اگر عورت حاملہ نہ ہو اور طلاق ہو جائے تو اُس کی عدت تین ماہواریاں ہیں۔

جنین کا حقِ نفقہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت شدہ ہے :

وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ.

’’اور اگر وہ حاملہ ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک اُن پر خرچ کرتے رہو۔‘‘

القرآن، الطلاق، 65 : 6

(7) فطرانہ کا حق[ترمیم]

جنین (پیدا ہونے والے بچہ) کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا بالاتفاق مستحب ہے جب کہ امام احمد سے منسوب ایک قول کے مطابق یہ واجب ہے کہ نومولود و دیگر کی طرح جنین کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کیا جائے.

1. ابن قدامة، المقنع، 1 : 338

2. شوکاني، نيل الاوطار، 4 : 190

2۔ بعد اَز پیدائش بچوں کے حقوق[ترمیم]

(1) زندگی کا حق[ترمیم]

اِسلام سے پہلے لوگ اپنی اولاد کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے تھے۔ اِسلام نے اِس قبیح رسم کا خاتمہ کرنے کی بنیاد ڈالی اور ایسا کرنے والوں کو عبرت ناک انجام کی وعید سنائی :

1. قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُواْ أَوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُواْ مَا رَزَقَهُمُ اللّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللّهِ قَدْ ضَلُّواْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَO

’’واقعی ایسے لوگ برباد ہو گئے جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علم (صحیح) کے (محض) بیوقوفی سے قتل کر ڈالا اور ان (چیزوں) کو جو اﷲ نے انہیں (روزی کے طور پر) بخشی تھیں اﷲ پر بہتان باندھتے ہوئے حرام کر ڈالا، بے شک وہ گمراہ ہو گئے اور ہدایت یافتہ نہ ہو سکےo‘‘

الانعام، 6 : 140

بھوک اور اَفلاس کے خدشہ سے اولاد کے قتل کی ممانعت کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے :

2. وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ.

’’اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو، ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔‘‘

القرآن، الانعام، 6 : 151

3. وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيرًاO

’’اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہےo‘‘

بني اسرائيل، 17 : 31

اِسلام سے قبل بیٹیوں کی پیدائش نہایت برا اور قابل توہین سمجھا جاتا تھا اور انہیں زندہ درگور دفن کر دیا جاتا تھا۔ اِسلام نے اس خیالِ باطل کا ردّ کیا اور بیٹیوں کی پیدائش کو باعث رحمت قرار دیا۔ قرآن حکیم ایک مقام پر روزِ محشر کی سختیاں اور مصائب کے بیان کے باب میں فرماتا ہے :

4. وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْO بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْO

’’اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گاo کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھیo‘‘

التکوير، 81 : 8، 9

(2) آدابِ اِسلامی سے شناسائی کا حق[ترمیم]

ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے والدین اس کا مذہب تبدیل کرا دیتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کل مولود يولد علي الفطرة، فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه.

’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اُس کے ماں باپ اُسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما قيل في اولاد المشرکين، 1 : 465، رقم : 1319

2. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبي، 1 : 456، رقم : 1292

3. مسلم، الصحيح، کتاب القدر، باب معني کل مولود، 4 : 2047، رقم : 2658

4. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ما جاء کل مولود، 4 : 447، رقم : 2138

5. ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب في ذراري المشرکين، 4 : 229، رقم : 4714

6. مالک، الموطا، 1 : 241، رقم : 571

7. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 233، 275، 346، 393، 410، 481

بچوں کو اِسلامی تعلیمات سے شناسا کرنے اور اُنہیں اِسلامی آدابِ زندگی سکھانا ماں باپ کا فرض ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من ولد له فأذن في أذنه اليمني، وأقام في أذنه اليسري، لم يضره أم الصبيان.

’’جس کے ہاں بچہ کی ولادت ہو تو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اِقامت کہے، اس کی برکت سے بچہ کی ماں کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی۔‘‘

1. ابو يعلي، المسند، 12 : 150، رقم : 6780

2. بهيقي، شعب الايمان، 6 : 390، رقم : 8619

3. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 3 : 632

4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 59

اس طرح ایک بچہ کو پیدائش کے وقت سے اُس آفاقی حکم سے روشناس کرا دیا جاتا ہے جو زندگیوں میں اِنقلاب پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا۔

(3) حُسنِ نام کا حق[ترمیم]

بچہ کا یہ حق ہے اُس کا پیارا سا نام رکھا جائے۔ اسلام سے قبل عرب اپنے بچوں کے عجیب نام رکھتے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے نام ناپسند فرمائے اور خوبصورت نام رکھنے کا حکم دیا۔ امام طوسی روایت کرتے ہیں :

جاء رجل إلي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال : يا رسول اﷲ! ما حق ابني هذا؟ قال : تحسن اسمه و أدبه وضعه موضعا حسنا.

’’ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا : یا رسول اﷲ! میرے اس بچے کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اس کا اچھا نام رکھ، اسے آداب سکھا اور اسے اچھی جگہ رکھ (یعنی اس کی اچھی تربیت کر)۔‘‘

{{اقتباس|محمد بن احمد صالح، الطفل في الشريعة الاسلامية : 74

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إنکم تدعون يوم القيامة بأسمائکم و أسماء آبائکم، فأحسنوا أسمائکم.

’’روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے اس لیے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔‘‘

1. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في تغير الاسماء، 4 : 287، رقم : 4948

2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 194

3. دارمي، السنن، 2 : 380 رقم : 2694

4. ابن حبان، الصحيح، 13 : 135، رقم : 5818

5. عبد بن حميد، المسند : 101، رقم : 213

6. ابن جعد، المسند : 360، رقم : 2492

7. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 306

8. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 393، رقم : 8633

9. هيثمي، موارد الظمآن : 479، رقم : 1944

حضرت ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

تسمو بأسماء الأنبياء، و أحب الأسماء إلي اﷲ عبد اﷲ و عبد الرحمن، و أصد قها حارث و همام، و أقبحها حرب و مرة.

’’انبیائے کرام کے ناموں پر اپنے نام رکھا کرو اور اﷲ تعالیٰ کو تمام ناموں میں سے ’عبداﷲ‘ اور ’عبدالرحمٰن‘ زیادہ پسند ہیں۔ سب ناموں سے سچے نام ’حارث‘ اور ’ہمام‘ ہیں جب کہ سب سے برے نام ’حرب‘ اور ’مرہ‘ ہیں۔‘‘

1. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في تغير الاسماء، 4 : 287، رقم : 4950

2. نسائي، السنن، کتاب الخيل، باب مايستحب، 6 : 218، رقم : 3565

3. نسائي، السنن الکبريٰ، 3 : 37، رقم : 4406

4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 345

5. بخاري، الادب المفرد : 284، رقم : 814

6. ابويعلي، المسند، 13 : 113، رقم : 7169

7. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 48، رقم : 3030

8. عسقلاني، فتح الباري، 10 : 578

حضرت علی بن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ روایت کرتے ہیں :

لما ولدت فاطمة الحسن جاء النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال : أروني ابني ما سميتموه؟ قال : قلت : سميته حربا. فقال : بل هو حسن. فلما ولدت الحسين، جاء رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : أروني ابني ما سميتموه؟ قال : قلت : سميته حربا. قال : بل هو حسين. ثم لما ولدت الثالث جاء رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : أروني ابني ما سميتموه؟ قلت : سميته حربا. قال : بل هو محسن. ثم قال : إنما سميتهم باسم ولد هارون شبر و شبير و مشبر.

’’جب فاطمہ کے ہاں حسن کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام ’حرب‘ رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ ’حسن‘ ہے۔ پھر جب حسین کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام ’حرب‘ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ ’حسین‘ ہے۔ پھر جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام ’حرب‘ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ اس کا نام ’محسن‘ ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : میں نے ان کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 3 : 180، رقم : 4773

2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 118، رقم : 935

3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 410، رقم : 6985

4. بخاري، الادب المفرد : 286، رقم : 823

5. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 96، رقم : 2773، 2774

6. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 52

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :

أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم غير اسم عاصية، وقال : أنتِ جميلة.

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’عاصیہ‘ کا نام بدل دیا اور فرمایا : تم ’جمیلہ‘ ہو۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الأدب، باب استحباب تغير الاسم، 3 : 1686، رقم : 2139

2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأدب، باب ما جاء في تغير الأسماء، 15 : 134، رقم : 2838

3. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في تغير الاسم، 4 : 288، رقم : 4952

4. بخاري، الادب المفرد : 285، رقم : 820

5. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 18

6. ابن حبان، الصحيح، 13 : 135، 136، رقم : 5819، 5820

7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 307

8. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 212، رقم : 544

9. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 49، رقم : 3034

حضرت اسامہ بن اخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’اَصرم‘ نام کا ایک شخص کچھ لوگوں کے ساتھ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستفسار پر اس شخص نے اپنا نام بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، تم ’زُرعہ‘ ہو۔

1. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في تغير الاسم، 4 : 288، رقم : 4954

2. روياني، المسند، 2 : 469، رقم : 1490

3. شيباني، الآحاد و المثاني، 2 : 427، رقم : 1220

4. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 196، 298، رقم : 523، 874

5. مقدسي، الاحاديث المختاره، 4 : 90، 311 رقم : 1306، 1494

6. ابن خياط، الطبقات : 43

امام ابوداؤد ’السنن (4 : 289)‘ میں لکھتے ہیں :

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’عاص‘، ’عزیز‘، ’عَتَلَہ‘، ’شیطان‘، ’حکم‘، ’غُراب‘، ’حُباب‘، ’شِہاب‘ وغیرہ نام بدل دیے۔ پس ’شہاب‘ کا نام ’ہشام‘ رکھا، ’حرب‘ کا نام ’سلم‘ رکھا اور ’مضطجع‘ کا نام ’منبعث‘ رکھا۔ جس زمین کو ’عفرہ‘ کہا جاتا تھا اس کا نام ’خضرہ‘ رکھا اور ’شعب الضلالہ‘ کا نام ’شعب الھدیٰ‘ رکھا۔ ’بنو زینت‘ کا نام ’بنو رَشدہ‘ رکھا اور ’بنی مغویہ‘ کا نام ’بنی رِشدہ‘ رکھا۔

(4) نسب کا حق[ترمیم]

بچے کے لیے نسب کا حق صرف اُسی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ ماں باپ کا بھی حق ہے۔ باپ کا حق اس نسبت سے ہے کہ وہ اپنی اولاد کے تحفظ اور تعلیم و تربیت کا اختیار رکھتا ہے، اُسے اپنی اولاد کی سرپرستی اور ولایت کا حق ہے۔ جب اولاد محتاج ہو اور باپ کمانے کی قدرت رکھتا ہو تو اسے اولاد کے لیے کمانے کاحق ہے اور اگر اولاد باپ کی زندگی میں فوت ہو جائے تو وہ اولاد ترکہ میں سے حصہ پائے گی۔ اسی طرح ثبوتِ نسب ماں کا بھی حق ہے کیونکہ اولاد ماں کا جزو ہے اور وہ فطری طور اس بات کی شدید خواہش رکھتی ہے کہ اپنی اولاد کی حفاظت اور بہتر پرورش کرے۔ اسی طرح ماں کے بڑھاپے اور طاقت نہ رکھنے کی صورت میں اُس پر خرچ کرنا اولاد کا فرض ہے۔ اِسی لیے اللہ تعالیٰ نسب کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے پوری جماعت کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں :

ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًاO

’’تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ اور اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں جو تم نے غلطی سے کہی لیکن (اس پر ضرور گناہ ہوگا) جس کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہو، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘

القرآن، الاحزاب، 33 : 5

اپنا حقیقی نسب تبدیل کرنے والے کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

من ادعي إلي غير أبيه، و هو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام.

’’جو اپنے باپ کو علاوہ کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الفرائض، باب من ادعي، 6 : 2485، رقم : 6385

2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوه الطائف، 4 : 1572، رقم : 4071

3. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان حال ايمان، 1 : 80، رقم : 63

4. ابو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في الرجل، 4 : 330، رقم : 5113

5. ابن ماجه، السنن، کتاب الحدود، باب من ادعي إلي، 2 : 870، رقم : 2610

یہی نہیں بلکہ ایک موقع پر تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کفر سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا :

لا ترغبوا عن آبائکم، فمن رغب عن أبيه فهو کفر.

’’اپنے آباء و اَجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في قوله، 6 : 2485، رقم : 6386

2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان حال إيمان، 1 : 80، رقم : 62

3. ابو عوانه، المسند، 1 : 33، رقم : 57

(5) رضاعت کا حق[ترمیم]

لفظ ’رضاعت‘ اور اس کے دیگر مشتقات قرآن حکیم میں دس مقامات پر آئے ہیں۔ ’المعجم الوسیط‘ میں رضاعت کا معنی کچھ یوں بیان ہوا ہے :

أرضعت الأم : کأن لها ولد تُرضِعه.

’’ماں کا بچہ کو دودھ پلانا رضاعت کہلاتا ہے۔‘‘

فقہی اصطلاح میں بچہ کا پیدائش کے بعد پہلے دو سال میں ماں کے سینہ سے دودھ چوسنا رضاعت کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلََى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَهَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُواْ أَوْلاَدَكُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّآ آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌO

’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہو گا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اسے خوب دیکھنے والا ہےo‘‘

القرآن، البقرة، 2 : 233

پیدائش کے بعد بچہ کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت اور افزائش کے لیے ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی غذا استعمال کرے اس لیے وضعِ حمل کے بعد عورت کے پستانوں میں قدرتی طور پر دودھ جاری ہو جاتا ہے اور بچہ کے لیے اس کے دل میں پیدا ہونے والی محبت و شفقت اُسے بچہ کو دودھ پلانے پر اُکساتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت پر واجب کیا ہے کہ وہ بچہ کو پورے دو سال دودھ پلائے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ مدت ہر طرح سے بچہ کی صحت کے لیے ضروری ہے۔

جدید میڈیکل ریسرچ سے بھی ثابت ہو چکا ہے کہ بچہ کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کے پیشِ نظر دو سال کی مدتِ رضاعت ضروری ہے۔ یہ اسلام کی آفاقی اور ابدی تعلیمات کا فیضان ہے کہ اہل اسلام کو زندگی کے وہ رہنما اصول ابتداء ہی میں عطا کر دیے گئے جن کی تائید و تصدیق صدیوں بعد کی سائنسی تحقیقات کر رہی ہیں۔

(6) پرورش کا حق[ترمیم]

بچوں کی پرورش کرنا باپ کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے :

لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًاO

’’صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گاo‘‘

القرآن، الطلاق، 65 : 7

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ما من رجل تدرک له ابنتان، فيحسن إليهما ما صحبتاه أو صحبهما إلا أدخلتاه الجنة.

’’جس کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ انہیں جوان ہونے تک کھلاتا پلاتا رہے تو وہ دونوں اسے جنت میں لے جائیں گی۔‘‘

1. ابن ماجة، السنن، کتاب الأدب، باب بر الولد، 2 : 1210، رقم : 3670

2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 363

3. ابن حبان، الصحيح، 7 : 207، رقم : 2945

4. ابويعلي، المسند، 4 : 445، رقم : 2571

5. ابويعلي، المسند، 5 : 128، رقم : 2742

6. حاکم، المستدرک، 4 : 196، رقم : 7351

7. مقدسي، الاحاديث المختاره، 10 : 425، 426، رقم : 450، 451

8. کناني، مصباح الزجاجة، 4 : 101

9. هيثمي، موارد الظمآن : 500، رقم : 2043

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا يکون لأحدکم ثلاث بنات أو ثلاث أخوات فيحسن إليهن إلا دخل الجنة.

’’جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان سے اچھا سلوک کرے تو اس کے لیے جنت ہے۔‘‘

1. ترمذي، السنن، 4 : 318، 320، رقم : 1912، 1916

2. بخاري، الادب المفرد : 42، رقم : 79

3. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 221، رقم : 25438

4. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 46، رقم : 3023

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں :

جاء تني امرأة معها ابنتانِ تَسألُني، فلم تجدْ عندي غير تمرة واحدة، فأعَطيْتُها فقسمَتْها بين إبنتيها، ثم قَامَتْ فخرجَتْ، فدخَلَ النبي صلي الله عليه وآله وسلم فحدَّثْتُه، فقال : من بُلِيَ من هذه البناتِ شيئاً، فأحسنَ إليهن، کُنَّ له سِتراً من النار.

’’میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، وہ مجھ سے کچھ مانگتی تھی۔ اس نے ایک کھجور کے سوا میرے پاس کچھ نہ پایا، میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے کھجور دونوں بیٹیوں میں تقسیم کردی اور پھر اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سارا ماجرا کہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو یہ اس کے لیے دوزخ سے حجاب بن جاتی ہیں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب رحمة الولد، 5 : 2234، رقم : 5649

2. بخاري، الصحيح، کتاب الزکاة، باب اتقوا النار، 2 : 514، رقم : 1352

3. ترمذي، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في النفقة، 4 : 319، رقم : 1915

4. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 33، 87، 234

5. ابن حبان، الصحيح، 7 : 201، رقم : 2939

اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں :

جاءتني مسکينة تحمل ابنتين لها، فأطعمتها ثلاث تمرات، فأعطت کل واحدة منهما تمرة، و رفعت إلي فيها تمرة لتأکلها، فاستطعمتها ابنتاها، فشقت التمرة التي کانت تريد أن تأکلها بينهما، فأعجبني شأنها، فذکرت الذي صنعت لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فقال : إن اﷲ قد أوجب لها بها الجنة، أو أعتقها بها من النار.

’’میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے دو بیٹیاں اٹھائی ہوئی تھیں۔ میں نے اسے تین کھجوریں دیں۔ اس نے دونوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دے دی، پھر جو کھجور وہ کھانا چاہتی تھی اس کے بھی دو ٹکڑے کر کے انہیں کھلا دی۔ مجھے اس واقعہ سے بہت تعجب ہوا۔ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس عورت کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے (بیٹیوں پر) اس (شفقت و رحمت) کی وجہ سے اس عورت کے لیے جنت واجب کر دی یا (فرمایا : ) اسے دوزخ سے آزاد کر دیا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب فضل الإحسان، 4 : 2027، رقم : 2630

2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 92

3. بيهقي، شعب الايمان، 7 : 468، رقم : 11020

4. مزي، تهذيب الکمال، 9 : 468، 469

(7) تربیت کا حق[ترمیم]

بچوں کی اچھی تربیت کرکے انہیں اچھا، ذمہ دار اور مثالی مسلمان بنانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ ان کی تربیت کے مختلف مراحل کا ذکر کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مروا أولادکم بالصلاة و هم أبناء سبع سنين، و اضربوهم عليها و هم أبناء عشر سنين، و فرقوا بينهم في المضاجع.

’’اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے، اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو (نماز نہ پڑھنے پر) اُسے مارو، اور (دس سال کی عمر میں) انہیں الگ الگ سلایا کرو۔‘‘

1. ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب متي يؤمرالغلام، 1 : 133، رقم : 495

2. مزي، تهذيب الکمال، 8 : 398

3. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 348

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أکرموا أولادکم وأحسنوا أدبهم.

’’اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں ادب سکھاؤ۔‘‘

1. ابن ماجة، السنن، کتاب الأدب، باب بر الوالد، 2 : 1211، رقم : 3671

2. قضاعي، مسند الشهاب، 1 : 389، رقم : 665

3. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 67، رقم : 196

4. کناني، مصباح الزجاجه، 4 : 101، 102، رقم : 1287

5. مزي، تهذيب الکمال، 11 : 14

حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من کان عنده صبي فليتصاب له.

’’جس کے ہاں کوئی بچہ ہو تو وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔‘‘

1. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 3 : 513، رقم : 5598

2. حسيني، البيان و التعريف، 2 : 228

(8) شفقت و رحمت کا حق[ترمیم]

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

قبل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الحسن بن علي رضي اﷲ عنهما، و عنده الأقرع بن حابس التميمي جالسا، فقال الأقرع : إن لي عشرة من الولد، ما قبلت منهم أحدا. فنظر إليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، ثم قال : من لا يرحم لا يرحم.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما کو چوما تو اَقرع بن حابس تمیمی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، نے کہا : میرے دس بچے ہیں، میں نے تو کبھی کسی کو نہیں چوما۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، پھر فرمایا : جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب رحمة الولد، 5 : 2235، رقم : 5651

2. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب الاشتراک في الهدي، 4 : 1808، رقم : 2318

3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب البر والصلة، باب ماجاء في رحمة، 4 : 318، رقم : 1911

4. ابو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في قبلة الرجل، 4 : 355، رقم : 5218

5. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 228، 241، 269، 514

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أحبوا الصبيان و ارحموهم، و إذا وعدتموهم ففوا لهم، فإنهم لا يرون إلا أنکم ترزقونهم.

’’بچوں سے محبت کرو اور ان پر رحم کرو، جب ان سے وعدہ کرو تو پورا کرو کیونکہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ تم ہی اُنہیں رزق دیتے ہو۔‘‘

(9) عدل کا حق[ترمیم]

حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :

أن أباه أتي به رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فقال : إني نحلت ابني هذا غلاما، فقال : أکل ولدک نحلت مثله؟ قال : لا، قال : فأرجعه.

’’اُن کے والد انہیں لے کر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے، پھر عرض کیا : میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے۔ فرمایا : کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی دیا ہے؟ عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : تو پھر اس سے واپس لے لو۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الهبة، باب الهبة الولد، 2 : 913، 914، رقم : 2446

2. مسلم، الصحيح، کتاب الهبات، باب کراهة تفضيل، 3 : 1241، رقم : 1623

3. نسائي، السنن، کتاب النحل، باب ذکر اختلاف الالفاظ، 6 : 258، 259، رقم : 3674، 3675

4. نسائي، السنن الکبري، 4 : 116، رقم : 6502

5. مالک، الموطا، 2 : 751، رقم : 1437

6. ابن حبان، الصحيح، 11 : 499، رقم : 5100

7. عبد الرزاق، المصنف، 9 : 97

8. بيهقي، السنن الکبري، 6 : 176، 178

ایک اور سند سے مروی روایت میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :

تصدق عليّ أبي ببعض ماله، فقالت أمي عمرة بنت رواحة : لا أرضي حتي تشهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فانطلق أبي إلي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ليشهده علي صدقتي، فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أفعلت هذا بولدک کلهم؟ قال : لا، قال : اتقوا اﷲ و اعدلوا في أولادکم. فرجع أبي، فرد تلک الصدقة.

’’میرے والد نے اپنا کچھ مال مجھے ہبہ کر دیا تو میری والدہ نے کہا : میں اس پر تب راضی ہوں گی جب تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر گواہ لائے۔ میرے والد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو ایسا ہی دیا ہے؟ میرے والد نے کہا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خدا سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ پھر میرے والد نے وہ ہبہ واپس لے لیا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الهبات، باب کراهة تفضيل، 3 : 1242، 1243، رقم : 1623

2. ابو عوانه، المسند، 3 : 460، رقم : 5689

3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 30

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

سووا بين أولادکم في العطية، فلو کنت مفضلا أحدا لفضلت النساء.

’’اپنی اولاد کو تحفہ دیتے وقت برابری رکھو، پس میں اگر اُن میں سے کسی کو فضیلت دیتا تو بیٹیوں کو فضیلت دیتا۔‘‘

1. بيهقي، السنن الکبري، 6 : 177

2. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 354، رقم : 11997

3. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 153

4. عسقلاني، فتح الباري، 5 : 214

(10) یتیم کا حق[ترمیم]

یتیم بچہ کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں تیئس مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اُن کے اموال کی حفاظت اور اُن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اُن کے ساتھ زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنے والے پر وعید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًاO

’’بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo‘‘

القرآن، النساء، 4 : 10

کیونکہ یتیم ہونا انسان کا نقص نہیں بلکہ منشائے خداوندی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اُس نے اپنے محبوب ترین بندے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالتِ یتیمی میں پیدا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت سے بھی پہلے وصال فرما چکے تھے۔ پھر چھ سال کی عمر میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ بھی انتقال فرما گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس کیفیت کا ذکر قرآن حکیم میں یوں کیا ہے :

أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىO

’’(اے حبیب!) کیا اُس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اُس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانا دیاo‘‘

القرآن، الضحي، 93 : 6

پھر اس دُرِّ یتیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتامیٰ کی محبت، ان کے ساتھ شفقت و حسنِ سلوک اور اِحسان برتنے کی نہایت اعلی مثالیں قائم کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتامیٰ کی اچھی کفالت کرنے والے کو جنت کی خوش خبری دی اور اُن کے حقوق پامال کرنے والے کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قرآن حکیم کہتا ہے :

فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْO

’’سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo‘‘

القرآن، الضحي، 93 : 9

ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَآتُواْ الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُواْ الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًاO

’’اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور بری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہےo‘‘

القرآن، النساء، 4 : 2

اسی طرح دیگر مقامات پر فرمایا :

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاَحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ.

’’اور آپ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں : اُن (کے معاملات) کا سنوارنا بہتر ہے، اور اگر اُنہیں (نفقہ و کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں، اور اﷲ خرابی کرنے والے کو بھلائی کرنے والے سے جدا پہچانتا ہے۔‘‘

القرآن، البقرة، 2 : 220

وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللّهِ حَسِيبًاO

’’اور یتیموں کی (تربیۃً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو اور ان کے مال فضول خرچی اور جلدبازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو اور حساب لینے والا اﷲ ہی کافی ہےo‘‘

القرآن، النساء، 4 : 6

وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُواْ مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُواْ عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللّهَ وَلْيَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًاO إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًاO

’’اور (یتیموں سے معاملہ کرنے والے) لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو (مرتے وقت) ان بچوں کے حال پر (کتنے) خوفزدہ (اور فکرمند) ہوتے، سو انہیں (یتیموں کے بارے میں) اﷲ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور (ان سے) سیدھی بات کہنی چاہئےo بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo‘‘

القرآن، النساء، 4 : 9، 10

وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ.

’’اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘

القرآن، الانعام، 6  : 152

أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِO فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَO وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِO

’’کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہےo تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور اُنہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)o‘‘

القرآن، الماعون، 107 : 1 - 3

كَلَّا بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَO وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِO وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّاO وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاO

’’یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتےo اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہوo اور وراثت کا مال سمیٹ کر خود ہی کھا جاتے ہو (اس میں سے اَفلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)o اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہوo‘‘

القرآن، الفجر، 89 : 17 - 20

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

خير بيت في المسلمين بيت فيه يتيم يحسن إليه، و شرّ بيت في المسلمين بيت فيه يتيم يساء إليه.

’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک ہو۔‘‘

1. ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب، باب حق اليتيم، 2 : 1213، رقم : 3679

2. بخاري، الادب المفرد : 61، رقم : 137

3. ابن مبارک، الزهد : 230، رقم : 654

4. عبد بن حميد، المسند : 427، رقم : 1467

5. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 99، رقم : 4785

6. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 236، رقم : 3840

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنا و کافل اليتيم في الجنة هکذا . . . و أشار بالسبابة و الوسطي، و فرج بينهما شيئا.

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ ۔ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الطلاق، باب العان، 5 : 2032، 2237، رقم : 4998، 5659

2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب البر، باب ما جاء في الرحمة، 4 : 321، رقم : 1918

3. ابن حبان، الصحيح، 2 : 207، رقم : 460

4. ابويعلي، المسند، 13 : 546، رقم : 7553

5. روياني، المسند، 2 : 216، 278، رقم : 1067، 1197

6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 283، رقم : 12442

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

والذي بعثني بالحق! لا يعذب اﷲ يوم القيامة من رحم اليتيم، ولان له في الکلام، و رحم يُتْمه و ضَعْفَه، ولم يتطاول علي جاره بفضل ما آتاه اﷲ، و قال : يا أمة محمد! والذي بعثني بالحق! لا يقبل اﷲ يوم القيامة صدقة من رجل وله قرابة محتاجون إلي صدقته و يصرفها إلي غيرهم، والذي نفسي بيده! لا ينظر اﷲ إليه يوم القيامة.

’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کو عذاب نہیں دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی، اس کے ساتھ نرمی سے گفتگو کی، اور معاشرے کے محتاجوں و کمزوروں پر رحم کیا، اور جس نے اﷲ تعالیٰ کے طرف سے ہونے والی عطا کے وجہ سے اپنے پڑوسی پر ظلم نہ کیا۔ پھر فرمایا : اے اُمتِ محمدی! قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف سے صدقہ قبول نہیں کرے گا جس نے غیروں پر صدقہ کیا حالانکہ اُس کے اپنے رشتہ دار اُس کے صدقہ کے محتاج تھے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اﷲ تبارک و تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔‘‘

1. طبراني، المعجم الاوسط، 8 : 346، رقم : 8828

2. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 4 : 378، 379، رقم : 7110

3. منذري، الترغيب و الترهيب، 2 : 18

4. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 237

5. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 117

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں :

من ولي ليتيم مالا فليتجر به ولا يدعه حتي تأکله الصدقة.

’’جس کو کسی یتیم کے مال کا ولی بنایا گیا تو اُسے چاہیے کہ وہ اُس مال سے تجارت کرے اور اُس کو یونہی پڑا نہ رہنے دے مبادا زکوٰۃ ادا کرتے کرتے وہ مال ختم ہوجائے۔‘‘

بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 2

(11) حقوقِ لقیط[ترمیم]

لقیط اس بچہ کو کہا جاتا ہے جو راستہ میں پڑا ہوا ملے اور جس کے والدین کا پتہ نہ ہو.

فقہی اصطلاح میں لقیط اس بچہ کو کہا جاتا ہے جس کا نسب معلوم نہ ہو کیونکہ اس کے گھر والوں نے زنا کی تہمت سے بچنے کے لیے یا کسی اور وجہ سے اُسے پھینک دیا ہو۔ لہٰذا جب راستہ میں یا کسی public place پر گرا پڑا بچہ ملے تو اُسے زمین سے اٹھانا، اس کے ساتھ شفقت برتنا اور اس کی حفاظت کرنا اللہ تعالیٰ کے اس قول کی روشنی میں واجب ہو جاتا ہے :

المعجم الوسيط، 2 : 41، ماده : لقط

وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا.

’’اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔‘‘

القرآن، المائده، 5 : 32

کیونکہ بچہ کو زمین، راستہ سے اٹھانا ہی اُسے زندگی دینا ہے اور یہ اسی طرح واجب ہے جس طرح حالتِ اِضطرار میں صرف زندگی بچانے کی حد تک حرام کھانے کی اجازت مل جاتی ہے۔

ثانیاً لقیط کا یہ بھی حق ہے کہ وہ آزاد ہوتا ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اﷲ عنھما نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ اگر ملتقط (بچہ کو اُٹھانے والا) یا کوئی اور شخص یہ دعویٰ کرے کہ بچہ اس کا غلام ہے تو بغیر گواہوں کے اس کا دعویٰ نہ سنا جائے گا کیونکہ اس کی حریت و آزادی اس کے ظاہر حال سے ثابت ہے اس لیے بغیر دلیل کے اس کے ظاہر کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

کاساني، بدائع الصنائع، 6 : 197، 198

ثالثاً لقیط کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا خرچہ بیت المال سے کیا جائے۔ اگر اُس کے ساتھ کچھ مال بندھا ہو پایا گیا تو وہ اسی کا متصور ہوگا مثلا اس کے جسم پر موجود کپڑے یا اگر وہ جانور پر بندھا ہوا پایا گیا تو وہ جانور اس کا ہوگا۔ اس صورت میں خرچہ اس کے اپنے مال میں سے کیا جائے گا کیونکہ بیت المال میں سے خرچہ ضرورت کی بناء پر ہوتا ہے اور جب اس کے پاس مال ہو تو ضرورت ثابت نہیں ہوتی۔

کاساني، بدائع الصنائع، 6 : 198، 199

حاصل کلام[ترمیم]

مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اِسلام نے دیگر اَفرادِ معاشرہ کی طرح بچوں کو بھی زندگی، تعلیم و تربیت اور دیگر بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک مثالی تہذیب کی بنیاد رکھی ہے۔ اِسلام نے بچوں کے بنیادی حقوق کی بنیاد ان کی پیدائش سے بھی پہلے قائم کی ہے۔ اِس کا مقصد آئندہ نسلوں کی بہتر نشو و نما اور اُنہیں معاشرے کا فعال حصہ بنانے پر زور دینا ہے۔

مآخذ و مراجع[ترمیم]

1۔ القرآن الحکیم

2۔ احمد بن حنبل، ابو عبد اللہ بن محمد (164۔ 241ھ / 780۔ 855ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان : المکتب الاسلامی، 1398ھ / 1978ء۔

3۔ انیس، ڈاکٹر ابراہیم، المعجم الوسیط۔ بیروت، لبنان : دار احیاء التراث العربی۔

4۔ بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ھ / 810۔ 870ء)۔ الادب المفرد۔ بیروت، لبنان : دار البشائر الاسلامیہ، 1409ھ / 1989ء۔

5۔ بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ھ / 810۔ 870ء)۔ التاریخ الکبیر۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ۔

6۔ بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ھ / 810۔ 870ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان + دمشق، شام : دار القلم، 1401ھ / 1981ء۔

7۔ بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔ 458ھ / 994۔ 1066ء)۔ دلائل النبوہ۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1405ھ / 1985ء۔

8۔ بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔ 458ھ / 994۔ 1066ء)۔ السنن الصغیر۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1412ھ / 1992ء۔

9۔ بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔ 458ھ / 994۔ 1066ء)۔ السنن الکبریٰ۔ مکہ مکرمہ، سعودی عرب : مکتبہ دار الباز، 1414ھ / 1994ء۔

10۔ بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔ 458ھ / 994۔ 1066ء)۔ شعب الایمان۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1410ھ / 1990ء۔

11۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک سلمی (210۔ 279ھ / 825۔ 892ء)۔ الجامع الصحیح۔ بیروت، لبنان : دار الغرب الاسلامی، 1998ء۔

12۔ ابن جعد، ابو الحسن علی بن جعد بن عبید ہاشمی (133۔ 230ھ / 750۔ 845ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان : مؤسسہ نادر، 1410ھ / 1990ء۔

13۔ حاکم، ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن محمد (321۔ 405ھ / 933۔ 1014ء)۔ المستدرک علی الصحیحین۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1411ھ / 1990ء۔

14۔ حاکم، ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن محمد (321۔ 405ھ / 933۔ 1014ء)۔ المستدرک علی الصحیحین۔ مکہ، سعودی عرب : دار الباز للنشر و التوزیع۔

15۔ ابن حبان، ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (270۔ 354ھ / 884۔ 965ء)۔ الثقات۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1395ھ / 1975ء۔

16۔ ابن حبان، ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (270۔ 354ھ / 884۔ 965ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1414ھ / 1993ء۔

17۔ ابن حبان، ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (270۔ 354ھ / 884۔ 965ء)۔ طبقات المحدثین باَصبہان۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1412ھ / 1992ء۔

18۔ حسینی، ابراہیم بن محمد (1054۔ 1120ھ)۔ البیان و التعریف۔ بیروت، لبنان : دار الکتاب العربی، 1401ھ۔

19۔ حصکفی۔ در المختار۔ کراچی، پاکستان : ایچ ایم سعید کمپنی۔

20۔ حصکفی۔ در المختار۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1386ھ۔

21۔ ابن خیاط، ابو عمرو خلیفہ لیثی عصفری (160۔ 240ھ)۔ الطبقات۔ ریاض، سعودی عرب : دار طیبہ، 1402ھ / 1982ء۔

22۔ ابو داؤد، سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد ازدی سبحستانی (202۔ 275ھ / 817۔ 889ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1414ھ / 1994ء۔

23۔ ابو داؤد، سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد ازدی سبحستانی (202۔ 275ھ / 817۔ 889ء)۔ کتاب المراسیل۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1408ھ۔

24۔ ابو داؤد، سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد ازدی سبحستانی (202۔ 275ھ / 817۔ 889ء)۔ کتاب المراسیل۔ لاہور، پاکستان : مکتبۃ العلمیہ۔

25۔ دارمی، ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن (181۔ 255ھ / 797۔ 869ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان : دار الکتاب العربی، 1407ھ۔

26۔ دیلمی، ابو شجاع شیرویہ بن شہردار بن شیرویہ بن فناخسرو ہمذانی (445۔ 509ھ / 1053۔ 1115ء)۔ الفردوس بماثور الخطاب۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1986ء۔

27۔ رویانی، ابو بکر محمد بن ہارون (م 307ھ)۔ المسند۔ قاہرہ، مصر : مؤسسہ قرطبہ، 1416ھ۔

28۔ شامی، محمد بن محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی (1244۔ 1306ھ)۔ رد المحتار علی در المختار۔ کوئٹہ، پاکستان : مکتبہ ماجدیہ : 1399ھ۔

29۔ شوکانی، محمد بن علی بن محمد (1173۔ 1250ھ / 1760۔ 1834ء)۔ اِرشاد الفحول۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1412ھ / 1992ء۔

30۔ شوکانی، محمد بن علی بن محمد (1173۔ 1250ھ / 1760۔ 1834ء)۔ فتح القدیر۔ مصر : مطبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ، 1383ھ / 1964ء۔

31۔ شوکانی، محمد بن علی بن محمد (1173۔ 1250ھ / 1760۔ 1834ء)۔ نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1402ھ / 1982ء۔

32۔ شہاب، ابو عبد اللہ محمد بن سلامہ بن جعفر بن علی بن حکمون بن ابراہیم بن محمد بن مسلم قضاعی (م 454ھ / 1062ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1407ھ / 1986ء۔

33۔ شیبانی، ابوبکر احمد بن عمرو بن ضحاک بن مخلد (206۔ 287ھ / 822۔ 900ء)۔ الآحاد و المثانی۔ ریاض، سعودی عرب : دار الرایہ، 1411ھ / 1991ء۔

34۔ شیبانی، ابوبکر احمد بن عمرو بن ضحاک بن مخلد (206۔ 287ھ / 822۔ 900ء)۔ الزہد۔ قاہرہ، مصر : دار الریان للتراث، 1408ھ۔

35۔ شیبانی، ابو عبد اﷲ محمد بن حسن (123۔ 189ھ)۔ الحجۃ۔ بیروت، لبنان : عالم الکتب، 1403ھ۔

36۔ شیبانی، ابو عبد اﷲ محمد بن حسن (132۔ 189ھ)۔ الحجۃ۔ لاہور، پاکستان : دار المعارف نعمانیہ۔

37۔ شیبانی، ابو عبد اﷲ محمد بن حسن (132۔ 189ھ)۔ المبسوط۔ کراچی، پاکستان : ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ۔

38۔ ابن ابی شیبہ، ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم بن عثمان کوفی (159۔ 235ھ / 776۔ 849ء)۔ المصنف۔ ریاض، سعودی عرب : مکتبۃ الرشد، 1409ھ۔

39۔ صالح، ڈاکٹر محمد بن احمد۔ الطفل فی الشریعۃ الاسلامیہ۔ قاہرہ، مصر : مطبعہ نہضہ۔

40۔ طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی (260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ مسند الشامیین۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1405ھ / 1984ء۔

41۔ طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی (260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ المعجم الاوسط۔ ریاض، سعودی عرب : مکتبۃ المعارف، 1405ھ / 1985ء۔

42۔ طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی (260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ المعجم الصغیر۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1418ھ / 1997ء۔

43۔ طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی (260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ المعجم الکبیر۔ موصل، عراق : مطبعۃ الزہراء الحدیثہ۔

44۔ طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی (260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ المعجم الکبیر۔ قاہرہ، مصر : مکتبہ ابن تیمیہ۔

45۔ عبد بن حمید، ابو محمد بن نصر کسی (م 249ھ / 863ء)۔ المسند۔ قاہرہ، مصر : مکتبۃ السنہ، 1408ھ / 1988ء۔

46۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ۔ بیروت، لبنان : دار الجیل، 1412ھ / 1992ء۔

47۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ تغلیق التعلیق علی صحیح البخاری۔ بیروت، لبنان : المکتب الاسلامی + عمان + اُردن : دار عمار، 1405ھ۔

48۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ تلخیص الحبیر۔ مدینہ منورہ، سعودی عرب : 1384ھ / 1964ء۔

49۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ تہذیب التہذیب۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1404ھ / 1984ء۔

50۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ۔ بیروت، لبنان : دار المعرفہ۔

51۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ فتح الباری۔ لاہور، پاکستان : دار نشر الکتب الاسلامیہ، 1401ھ / 1981ء۔

52۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ ہدی الساری مقدمہ فتح الباری۔ بیروت، لبنان : دار المعرفہ، 1379ھ۔

53۔ ابو عوانہ، یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم بن زید نیشاپوری (230۔ 316ھ / 845۔ 928ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان : دار المعرفہ، 1998ء۔

54۔ ابن قدامہ، ابو محمد عبداﷲ بن احمد مقدسی (م620ھ)۔ المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل الشیبانی۔ بیروت، لبنان : دارالفکر، 1405ھ۔

55۔ ابن قدامہ، ابو محمد عبداﷲ بن احمد مقدسی (م620ھ)۔ المقنع۔ المطبعۃ السلفیہ۔

56۔ کاسانی، علاؤ الدین ابو بکر (م 587ھ)۔ بدائع الصنائع۔ بیروت، لبنان : دار الکتاب العربی، 1982ء۔

57۔ کاسانی، علاؤ الدین ابو بکر (م 587ھ)۔ بدائع الصنائع۔ کراچی، پاکستان : ایچ ایم سعید کمپنی۔

58۔ کشکی، محمد عبد الرحیم۔ المیراث المقارن۔

59۔ کنانی، احمد بن ابی بکر بن اسماعیل (762۔ 840ھ)۔ مصباح الزجاجۃ فی زوائد ابن ماجہ۔ بیروت، لبنان : دار العربیہ، 1403ھ۔

60۔ مالک، ابن انس بن مالک رضی اللہ عنہ بن ابی عامر بن عمرو بن حارث اصبحی (93۔ 179ھ / 712۔ 795ء)۔ المدونۃ الکبریٰ۔ بیروت، لبنان : دار صادر۔

61۔ مالک، ابن انس بن مالک رضی اللہ عنہ بن ابی عامر بن عمرو بن حارث اصبحی (93۔ 179ھ / 712۔ 795ء)۔ المدونۃ الکبریٰ۔ بیروت، لبنان : دار الفکر للطباعہ و النشر والتوزیع، 1980ء۔

62۔ مالک، ابن انس بن مالک رضی اللہ عنہ بن ابی عامر بن عمرو بن حارث اصبحی (93۔ 179ھ / 712۔ 795ء)۔ الموطا۔ بیروت، لبنان : دار احیاء التراث العربی، 1406ھ / 1985ء۔

63۔ ابن ماجہ، ابو عبد اﷲ محمد بن یزید قزوینی (209۔ 273ھ / 824۔ 887ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1419ھ / 1998ء۔

64۔ ماوردی، ابو حسن علی بن محمد۔ الاحکام السلطانیہ۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1398ھ۔

65۔ ابن مبارک، ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن واضح مروزی (118۔ 181ھ / 736۔ 798ء)۔ کتاب الزہد۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ۔

66۔ مزی، ابو الحجاج یوسف بن زکی عبد الرحمن بن یوسف بن عبد الملک بن یوسف بن علی (654۔ 742ھ / 1256۔ 1341ء)۔ تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف۔ ممبئی، بھارت : الدار القیمہ + بیروت، لبنان : المکتب الاسلامی، 1403ھ / 1983ء۔

67۔ مزی، ابو الحجاج یوسف بن زکی عبد الرحمن بن یوسف بن عبد الملک بن یوسف بن علی (654۔ 742ھ / 1256۔ 1341ء)۔ تہذیب الکمال۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1400ھ / 1980ء۔

68۔ مسلم، ابو الحسین ابن الحجاج بن مسلم بن ورد قشیری نیشاپوری (206۔ 261ھ / 821۔ 875ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان : دار احیاء التراث العربی۔

69۔ مقدسی، ابو عبد اﷲ بن محمد بن مفلح (717۔ 762ھ)۔ الفروع۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1418ھ۔

70۔ مقدسی، محمد بن عبد الواحد بن احمد بن عبدالرحمن بن اسماعیل بن منصور سعدی حنبلی (م 569۔ 643ھ1173۔ 1245ء)۔ الاحادیث المختارہ۔ مکہ مکرمہ، سعودی عرب : مکتبۃ النہضۃ الحدیثہ، 1410ھ / 1990ء۔

71۔ منذری، ابو محمد عبد العظیم بن عبد القوی بن عبد اللہ بن سلامہ بن سعد (581۔ 656ھ / 1185۔ 1258ء)۔ الترغیب و الترہیب۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1417ھ۔

72۔ نسائی، ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر بن دینار (215۔ 303ھ / 830۔ 915ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1416ھ / 1995ء۔

73۔ نسائی، ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر بن دینار (215۔ 303ھ / 830۔ 915ء)۔ السنن الکبریٰ۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1411ھ / 1991ء۔

74۔ ہیثمی، نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔ 807ھ / 1335۔ 1405ء)۔ مجمع الزوائد۔ قاہرہ، مصر : دار الریان للتراث + بیروت، لبنان : دار الکتاب العربی، 1407ھ / 1987ء۔

75۔ ہیثمی، نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔ 807ھ / 1335۔ 1405ء)۔ موارد الظمآن اِلیٰ زوائد ابن حبان۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ۔

76۔ ابو یعلیٰ، احمد بن علی بن مثنی بن یحییٰ بن عیسیٰ بن ہلال موصلی تمیمی (210۔ 307ھ / 825۔ 919ء)۔ المسند۔ دمشق، شام : دار المامون للتراث، 1404ھ / 1984ء۔

77۔ ابویعلیٰ، احمد بن علی بن مثنی بن یحییٰ بن عیسیٰ بن ہلال موصلی تمیمی (210۔ 307ھ / 825۔ 919ء)۔ المعجم، فیصل آباد، پاکستان : ادارۃ العلوم و الاثریہ، 1407ھ۔