اسلامی حجاب/ تعریف و آیات

ویکی کتب سے

لباس عرف عام میں لباس یا پوشاک (clothing)، پہناوے کو کہا جاتا ہے مگر ہم لباس کسی بھی ایسی چیز کو کہہ سکتے ہیں جو انسانی جسم کے ڈھانپنے،زیب و زینت اور موسمی اثرات سے بچانے کے کام آئے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف آیت 26 میں لباس کی دو خصوصیات بتائی ہیں۔پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ لباس جسم کے شرم والے حصوں کو چھپاتا ہے۔ دوسری یہ کہ لباس باعث زینت بھی ہوتا ہے۔اس آیت میں لباس کی جو خصوصیات بتائی گئیں ہیں وہ صرف مردوں یا عورتوں کے لیے الگ الگ مخصوص نہیں، بلکہ یہ مجموعی معیار ہے جو لباس کے حوالے سے ہر زمانے کے لیے متعین کر دیا گیا ہے۔ لباس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جسے لوگ اپنے رسم و رواج اور علاقائی موسموں کے مطابق پہنتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہرقسم کے علاقے یا خطے کے حوالے سے لباس کا مخصوص معیار بیان کر دیا ہے۔اس سے دوسرے ادیان کی طرح لباس مذہب کی علامت نہیں بلکہ صرف اور صرف استعمال کی چیز بن گیا ہے جو انسانوں (مردوں اور عورتوں) کی شرم کے حصوں کو ڈھانپے اور زینت کے کام آتا ہے ۔اب عورتیں اپنی لباس کی زینت اور دوسری زینت کس کس پر ظاہر کر سکتی ہیں اس کی تفصیل ہم اگلے صفحات میں دیکھیں گے۔ حجاب جس طرح لباس کی اقسام ہوتی ہیں اسی طرح زینت کی بھی اقسام ہوتی ہیں۔بنیادی طور پر زینت دو طرح کی ہوتی ہیں۔ قدرتی زینت اور مصنوعی زینت۔قدرتی زینت میں اچھے خدوخال، اچھے نین نقش، اچھے بال، جلد کا رنگ وغیرہ شامل ہیں۔مصنوعی زینت وہ ہے جو قدرتی طور پر نہ ہو مگر اس کمی(انسانی معیار حسن کے لحاظ سے) کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی ذرائع، جیسا کہ میک اپ وغیرہ ، کو اختیار کیا جائے۔زینت کیوں اختیار کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت میں سجنے سنورنے اور اچھا نظر آنے کی فطری جبلت رکھ دی ہے، قدرتی طور پر حسین ہونے کے باوجود مزید اچھا لگنے کے لیے سنگھار کرنا اسی فطری جبلت کی وجہ سے ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حسن میں مردوں کے لیے کشش رکھ دی ہے(سورۃ ال عمران آیت 14)۔ اسلام میں صفائی کی بہت اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ مسجد میں حاضری کے وقت زینت اختیار کر کے آنا چاہیے۔ یعنی مسجد میں پانچ ٹائم نماز کے دوران اچھا لباس پہنا ہوا ہو۔جیسا کہ اس قرآنی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿الأعراف: ٣١﴾ اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا (۷: ۳۱) بنی آدم میں چونکہ مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں اس لیے اگر عورتوں کی مسجد ہے تو انہیں بھی وہاں اچھا لباس زیب تن کر کے جانا چاہیے اور مردوں کو بھی۔زینت یا آرائش کے حوالے سے اب اگر مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ دیکھا جائے تو مردوں کے لیے اپنی زینت چھپانے کے حوالے سے کوئی خاص حکم نہیں، مردوں کے لیے بنیادی حکم اپنی شرم گاہوں کی حفاظت ہی ہے، مگر عورتوں کے حوالے سے قرآن کریم کی آیات کے مطابق وہ اپنی آرائش مخصوص لوگوں کو ہی دکھا سکتی ہیں۔ پردے سے متعلق آیات عورتوں کے پردے کے حوالے سے قرآن کریم کی آیات اور میرے خیال میں اُن کی تشریح درج ذیل ہے۔ سورۃ اعراف آیت 26 يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ [٧:٢٦] ”اے اولاد آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں “ سب سے پہلا لباس جوحضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام نے ستر ڈھانپنے کے لیے استعمال کیا وہ پتوں کی شکل میں تھا۔اس کا پس منظر اسی درج بالا آیت کے سیاق و سباق میں ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کے کپڑے اتروا دئیے تھے۔ انہی آیات میں اولاد آدم کو تنبیہ کی ہے کہ شیطان اب بھی اولادِ آدم کی گھات میں ہے، وہ طرح طرح کے بہانوں سے فیشن اور جدت کے نام پر انسانوں کے کپڑے اتراوانے کی کوشش میں ہے اس لیے شیطان سے بچ کر رہا جائے، ایسا نہ ہو کہ جس طرح ماضی میں شیطان کی بات ماننے پر حضرت آدم علیہ السلام جنت سے نکلے تھے، اب اولاد آدم شیطان کی بات مان کرمستقبل(آخرت) میں جنت میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ تفسیر ابن کثیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے لباس الگ نازل کیا اور ریش کو الگ نازل کیا، اس تفسیر کو پڑھ کر چند دوستوں کا یہ خیال ہے کہ ایسا لباس پہننا فرض ہے جس سے ستر چھپایا جائے، جبکہ ریش ایک الگ اعزازی چیز ہے جو انسان کو عطا کی گئی،لباس ضروریات زندگی ہے اور ریش زیادتی ہے۔میرے خیال میں آیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس نازل کیا، آگے اس لباس کی وضاحت کی کہ لباس میں دو خصوصیات ہونی ضروری ہیں، ستر چھپائے اور باعث زینت ہو۔نہ کہ اس کا مطلب یہ کہ لباس الگ نازل ہوا اور ریش الگ۔اس سے جوگیانہ اور راہبانہ تصور کی نفی ہوتی ہے جو صرف ستر چھپا کر جنگل میں رہتے ہیں اور باعث زینت لباس کے پہننے کو گناہ محسوس کرتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ احسان فرما رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ لباس وہی ہے جس میں دو خصوصیات ہو ں گی۔ اگر یہ خصوصیات نہیں تو وہ لباس نہیں۔ایسا لباس جو ستر تو چھپائے مگر ایسامیلا کچیلا ہو کہ دیکھنے پر کراہت آئے تو وہ لباس اسلامی لباس نہیں ہو گا۔ ایسا لباس جس میں بے شک سونے اور ہیرے جڑے ہوں مگر ستر نہ چھپائے وہ بھی اسلامی لباس نہیں ہوگا۔ آیت میں جو آگے تقویٰ کے لباس کا ذکر ہے اس مراد کچھ مفسر نے ظاہری لباس کے مقابلے میں باطنی لباس سے لی ہے، مگر میرے خیال میں تقویٰ کے لباس سے مراد یہی ظاہری لباس ہے جو ستر کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ اگر لباس کو پہنتے ہوئے یہ خیال ہو کہ کہیں غلطی سے بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی نافرمانی نہ ہو جائے تو یہی لباس تقویٰ کا ہو گا۔درج ذیل آیات سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿الحج: ٣٢﴾ ”یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے“ (۲۲: ۳۲) لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ﴿الحج: ٣٧﴾ ”نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو“ (۲۲: ۳۷) ان آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرنا ہی تقویٰ ہے۔ سورۃ اعراف آیت 31 يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [٧:٣١] ”اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا “ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ انسان ناشکری کرے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو نوازے اور انسان کنجوسی کرے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ہر عبادت میں وہ بہترین اور صاف ستھرالباس پہنو جو میں نے تمہیں عطا کیا ہے۔ کنجوسی نہ کیا کرو کہ اچھے کپڑوں کی بجائے میلے کچیلے کپڑے پہن کر عبادت گاہ میں آؤ۔یہ جو حد سے بڑھنے کا ذکر ہے یہ کھانے پینے کے علاوہ زینت کےمعاملے میں بھی ہے کہ حد سے بڑھتے ہوئے لاکھوں روپے صرف لباس پر ہی برباد کر دو۔ باعث زینت لباس سے مراد صاف ستھرا اچھا لباس ہے نہ کہ حد سے زیادہ قیمتی۔ سورۃ اعراف آیت 32 قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ [٧:٣٢] ”اے محمدؐ، ان سے کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی اِس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں “ یعنی لباس توا للہ تعالیٰ نے اتارا ہے،وہ لباس جو شرم کی جگہوں کو چھپاتا ہےاور باعث زینت ہے ، اسے کس نے حرام کیا ہے؟ کوئی بھی کپڑا جس میں انسان اچھا لگے اس کپڑے کا لباس انسان کو حلال ہے، چاہے وہ کپڑا روئی سے بنا ہو یا ریشم سے۔ اسے حرام قرار دینے والوں سے اللہ تعالیٰ سوالیہ انداز میں پوچھ رہا ہے کہ بتاؤ تو سہی کون ہے وہ جس نے انہیں حرام کیا۔ جب میں نے(اللہ تعالیٰ نے ) حلال کر دیا تو دوسرا حرام کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ تو خود حضرت محمد ﷺ کی زبانی لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ بتاؤ تو ذرا کون ہے جس نے فلاں لباس حرام کیا ہے؟ مگر اس آیت کے برخلاف الٹا بہت سے لوگ حضرت محمد ﷺ کی طرف منسوب کر کے مختلف لباسوں کومختلف قوموں سے منسوب کر کے حرام قرار دے رہے ہیں۔اسی طرح ریشم کے لباس ، غیر عرب قوموں کے لباس کے حرام ہونے کو بھی نبی کریم ﷺ سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ آیت اسی بات کی نفی کر رہی ہے۔ اسلامی لباس کی صرف دو خصوصیات بتا دی ہیں یعنی شرم کے حصوں کو چھپانا اور باعث زینت۔ اس کے بر خلاف اگر کوئی شلوار قمیض یا پینٹ شرٹ کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کا حرام قرار دینا اپنی خواہش کی وجہ سے ہے۔ عورتوں کا سنگھار کرنا کہیں حرام نہیں ہے، خوبصورت نظر آنے کے لیے خوبصورت لباس اور زیورات پہننا بھی کہیں حرام نہیں ہے، ہاں ان کی سب کچھ حدود ہیں جو آگے آئیں گی۔ فطری طور پر جو سجنے سنورنے کی خواہش ہے وہ بُری نہیں۔ سورۃ نور آیت 27 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [٢٤:٢٧] ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو(اس وقت تک) جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے“ اس آیت میں دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر داخل ہونے سے منع کر دیا ہے۔ اجازت لینی اس لیے ضروری ہے کہ اجازت کے دوران میں خواتین پردہ وغیرہ کر لیں۔ سورۃ نور آیت 28 فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤْذَنَ لَكُمْ ۖ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ [٢٤:٢٨] ”پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے “ کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہونے کی بالکل اجازت نہیں ۔گھر کا کوئی بھی فرد جیسے خاتون خانہ، مردوں کی غیر موجودگی میں ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کی اجازت نہ دے یا بیٹھنے کا نہ کہے تو واپس چلے جانا چاہیے۔بعض دفعہ گھر کے افراد ہی اندر سے کہہ دیتے ہیں کہ آپ فلاں جگہ جا کر بیٹھو میں ابھی آیا تو اس صورت میں بھی، اس آیت کے مطابق، وہاں کھڑے ہونے کی ممانعت ہے۔ سورۃ نور آیت 29 لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ [٢٤:٢٩] ”البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں اور جن میں تمہارے فائدے (یا کام) کی کوئی چیز ہو، تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو سب کی اللہ کو خبر ہے “ صرف گودام وغیرہ میں بغیر اجازت داخل ہو جا سکتا ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ وہاں پر آپ کا سامان پڑا ہوا ہو اور کوئی رہتا نہ ہو۔ سورۃ نور آیت 30 قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ [٢٤:٣٠] ”اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے“ “Tell the believing men to lower their gaze (from looking at forbidden things), and protect their private parts (from illegal sexual acts, etc.). That is purer for them. Verily, Allah is All-Aware of what they do.” اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومن مردوں کو نبی کریمﷺ کے ذریعے ہدایات دے رہے ہیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔نظروں کی حفاظت کاحکم اس لیے ہے کہ کسی بھی برائی کا آغاز دیکھنے سے ہی ہوتاہے۔ اگرکوئی نظر پر کنٹرول کرنے کے قابل ہو گیاتو سب برائیوں پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔نظر کی حفاظت کا حکم، شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم سے پہلے آیا ہے، اس لیے کہ بد نظری سے پرہیز بہت سی اخلاقی برائیوں سے بچاؤ کاذریعہ ہے۔جسم کے بعض حصوں کی طرف جان بوجھ کرنظر کرنا ویسے ہی ناجائز ہوتا ہے لیکن اگر کسی کو دیکھنا پڑ ہی جائے تو نظر بد یا شہوت کے ساتھ نہ دیکھیں، جیسے ڈاکٹر کا مریض کو دیکھنا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آسانی یہ بھی ہے کہ اگر بغیر ارادہ نظر پڑھ جائے تو اس کا گناہ نہیں، اسے عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ پہلی نظر معاف ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلی نظر ہی جان بوجھ کر طویل کر لی جائے کہ یہ معاف ہےیعنی اگر بغیر ارادہ نظر پڑ ہی گئی ہے تو اپنے دل میں کوئی برا خیال نہ آنے دو۔اس طریقہ سے مومن پاکباز رہتے ہیں۔ بہت سی صورتوں میں یہ جائز ہے کہ مرد عورت کو دیکھ لے، جیسے نکاح سے پہلے لڑکے کا لڑکی کو دیکھ لینا(اور بات چیت کر لینا) اسی طرح لڑکی کا لڑکے کو دیکھ لینا، عدالت میں گواہی یا تصدیق کے لیے جج کا یا کسی گواہ کا عورت کو دیکھنا، یا پھر ڈاکٹر کا مریضہ کو دیکھنا(علاج کی غرض سے) شرم گاہوں کی حفاظت والی بات دو طرف جاتی ہے۔ کسی سے غیر شرعی تعلقات نہ بناؤ، دوسرا اپنا پورا جسم ڈھانپ کر رکھو۔ ایسے لباس نہ پہنو جو شرم کی جگہوں کو ظاہر کرتے ہو۔جیسے آجکل بازاروں میں اچھے خاصے انسان نیکر پہنے گھومتے ہیں۔ شرم گاہوں اور نظر کی حفاظت کے حکم میں تمام برائیوں سے بچنے کی ہدایت شامل ہو گئی یعنی افسانے، ڈرامے، فلمیں، تصویر سب کو دیکھتے ہوئے ان احکامات کا خیال رکھنا ہو گا۔ ہر بدنظر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بد نظری کرتے ہوئے اسے کوئی دیکھ نہ لے، اسی لیے اللہ تعالیٰ آیت کے آخر میں فرما رہا ہے کہ بدکاری، بد نظری، پاکباز اور تقویٰ، انسان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ سورۃ نور آیت 31 وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [٢٤:٣١] ”اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے “۔

آیت کے ترجمے کو الگ الگ کر کے اس کی تفصیل دیکھتے ہیں۔

”اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں “ جیسے مومن مردوں کو حکم ہے کہ اپنی نظر بچا کر رکھیں ویسے ہی مومن عورتوں کے لیے حکم ہے کہ اپنی نظر بچا کر رکھیں۔ یعنی حرام منکرات کی طرف نظر پڑ جائے تو فوراً ہی ہٹا لیں۔ مردوں کی طرف خواہ مخواہ نظر نہ کریں۔ اس آیت سے بہت سی خواتین و حضرات یہ استدلال کرتے نظر آتے ہیں کہ جناب پہلے مردوں کو نظریں نیچے کرنے کاحکم ہے اس لیے زیادہ فرض مردوں کا ہے کہ اگر کوئی عورت پردہ نہیں کرتی تو مرد اس کی طرف نہ دیکھے، اس میں عورتوں کا کیا قصور؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی مرد اللہ کے حکم کی خلاف ورذی کرتے ہوئے اپنی نظریں نہیں بچاتا، نظروں کی حفاظت نہیں کرتا تو اس سے یہ کہیں فرض نہیں ہوتا کہ عورتوں پر سے پردہ کا حکم ساقط ہو گیا ہے۔ نظریں نیچے رکھنے کا حکم مردوں کو بھی ہے اور عورتوں کو بھی ۔ قرآن میں جہاں جہاں مردوں اور عورتوں کا ذکر ہے وہاں پہلے مرد لکھا ہوا ہے اور بعد میں عورت، جیسے مومن ،مومنہ، مسلمان مرد، مسلمان عورتوں، چور اور چورنی وغیرہ، اس پہلے اور بعد میں خطاب کرنے سے کرنے سے کسی پر بھی حکم میں نرمی نہیں۔ اگر مرد اللہ کا حکم نہیں مان رہا تو عورت مانے ، مرد اپنےاعمال کا خود جواب دہ ہو گا اور عورت اپنے اعمال کی خود ذمے دار ہو گی۔سورۃ 55 آیت 56 کے مطابق نیچے نگاہیں رکھنا جتنی حوروں کی نشانی ہے۔ ”اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں“ شرم گاہوں کی حفاظت ایک تو اس طرح کہ اپنے شریک حیات کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچیں بھی نا۔ دوسرا اس طرح کہ اس قسم کے کپڑے نہ پہنیں جو ان کےاعضا کو چھپانے کی بجائے ظاہر کریں۔ ڈوپٹوں کو گریبان پر ڈالنے کا حکم اسی وجہ سے ہے یعنی شرم کی جگہوں کو چھپانے کے لیے ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو ڈوپٹہ یا چادر سینے پر ڈالی جاتی ہے وہ لباس کا باقاعدہ حصہ ہوتی ہے کہ وہ شرم کے حصوں کو چھپاتی ہے،اسے اعزازی زینت کہہ کر لباس سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ لباس کی ایک خصوصیت شرم کی جگہوں کا چھپانا بھی ہےاور ڈوپٹہ یہ کام کرتا ہے۔ ” اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں“ زینت کا مطلب آراستہ کرنا ، خوشنما بنا کر دکھانا ، بناؤ سنگھار ، آرائش و زیبائش کے ہیں۔بناؤ سنگھار یا زینت کا نہ دکھانا عام لوگوں یا نا محرموں کے لیےہے۔ جن لوگوں پر بناؤ سنگھار یا زینت ظاہر کی جا سکتی ہے ان کی تفصیل آگےسورۃ احزاب کی آیت میں آئے گی۔ کوئی قدرتی یا مصنوعی زینت جو کسی کو بھی عورت کی طرف رغبت اور التفات بڑھا دے وہ اگر چھپائی جا سکے تو چھپا کر رکھنی چاہیے۔خواتین کی زینت میں لباس بھی شامل ہے اور زیورات بھی۔اس کے علاوہ قدرتی طور پر جو زینت کسی بھی عورت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس میں اچھی رنگت، مناسب قد و قامت اور خدوخال وغیرہ بھی شامل ہیں۔ان میں سے ہر چیز کو چھپانا ممکن نہیں۔، لمبا قد ، گوری رنگت اور اچھی آواز چھپائی نہیں جا سکتی، لباس کا ظاہری حصہ، بعض زیورات جیسے ہاتھوں کی انگھوٹھیاں وغیرہ بھی اُن چیزوں میں شامل ہیں جوبہت ہی زحمت کے ساتھ چھپائی جا سکتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے صرف اُن زینتوں کو چھپانے کا حکم دیا ہے جس کو چھپانے کےلیے بہت زیادہ زحمت نہیں کرنی پڑتی۔اوڑھنے والی چادر،جو باعث زینت بھی ہوتی ہے، کو مزید کسی دوسری چادر سے چھپانے کی ضرورت نہیں۔قمیض کے نچلے حصے کی کشیدہ کاری وغیرہ بھی وہ زنیت ہے جو مشکل سے چھپائی جائے۔ گھریلو خواتین کے لیے گھروں میں دودھ سبزی لیتےہوئے ہاتھوں کی زینت (زیور، مہندی) کا چھپانا مشکل ہوتا ہے۔ مصنوعی آرائش کے زیورات، لپ اسٹک وغیرہ سب سنگھار میں شامل ہیں۔یہ سب ہی نہیں دکھانا چاہیے۔اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ چہرے جو قدرتی طور پر خوبصورت ہوں یا جن کو میک اپ سے خوبصورت بنایا گیا ہو ان کا پردہ کرنا ضروری ہے۔جو چیز آسانی سے چھپائی جا سکے اور جو آسانی سے نہ چھپائی جا سکے اس کا فیصلہ وہ خواتین خود ہی کر سکتی ہیں جو ان آیات پر عمل کر رہی ہو۔ ” بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے“ گورارنگ، لمبا قد، سمارٹ نس، اچھی آواز اوربعض مواقع پر چہرہ وغیرہ کا چھپانا بہت مشکل ہو جاتا ہے یہ رعایت اسی لیے دی گئی ہے۔اس کے علاوہ جو دوسری صورتیں ہو سکتی ہے وہ اس طرح کہ کسی اجنبی سے کچھ سامان لیتے یا دیتے ہوئے ہاتھ کے زیورات یا مہندی اجنبی کے سامنے آ جائے تو یہ خودبخود ظاہر ہونا ہو گا۔راہ چلتے ہوئے آنکھوں کا میک اپ ظاہر ہو جانا ، جوتے کے ڈیزائن، چادر وغیرہ کے ڈیزائن سب اسی میں شامل ہیں۔ ” اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں“ قرآن کریم میں دو طرح کی چادر کا ذکر ہے خمار (جو سر ڈھاپنے کے کام آتی ہے اور اس کا ذکر اسی آیت میں ہے) اور جلابیب (جو ڈوپٹے وغیرہ کے اوپر ڈالی جائے کہ تمام جسم چھپ جائے، سکارف اس کا متبادل ہے، اس کا ذکر سورۃ احزاب آیت 59 میں ہے)، یعنی گھریلو استعمال کے لیے خمار اور باہر کے لیے خمار کے ساتھ ساتھ جلابیب ۔یعنی سر ڈھانپنے والے آنچل یا ڈوپٹے کا مقصد یہ ہے کہ کسی کے سامنے جسم کی ساخت ظاہر نہ ہو۔یا چلتے پھرتے یا بیٹھتے ہوئے جسم کا کوئی حصہ نمایاں نہ ہو جائے۔اس طرح اوڑھنیاں،چادریں، پلو اور ڈوپٹہ خواتین کے لباس کا لازمی حصہ ہو نگی اورضروری ہے کہ کسی غیر محرم کی موجودگی میں عورتیں اوڑھنی، چادر اور ڈوپٹؤں سے اپنے سر اور کمر کے ساتھ اپنے گریبانوں کو بھی چھپائیں۔اس ڈوپٹہ لینے کی پابندی سے صرف وہ بوڑھی عورتیں مستثنیٰ ہیں جو نکاح کی عمر سے گذر چکی ہے۔ اگرچہ ان کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ وہ بھی اس کا اہتمام رکھی(بمطابق سورۃ النور 60)۔ اب اگر یہ اوڑھنیاں آرائش کا بھی کام دے رہی ہے تو اس کا بنیادی کام جسم کو چھپانا پہلے ہو گا اور اس کا نظر آنا ”جو خود ظاہر ہو جائے“ کی تعریف میں آئے گا۔یعنی اس زینت کے لباس پر جو شرم گاہ کو چھپا رہا ہے کسی کی نظر پڑ جائے تو کوئی بات نہیں۔یہ جو سینوں پر ڈوپٹہ ڈالنے کی بات کی گئی ہے اُن محرمات کےلیے بھی ہے جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ ”وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے:“ عورتیں بناؤ سنگھار کرنے کے بعدگھر میں جن لوگوں کو ظاہری بناؤ سنگھار میں دکھا سکتی ہیں اُن کی تفصیل اسی آیت کے اگلے حصے میں ہے۔ ” شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے“ محرمات یہ سب عزیز جو اس آیت میں آئے ہیں محرم کہلاتے ہیں۔ ان کی بھی دو اقسام ہیں۔ محرم ابدی ابدی محرم ساری زندگی محرم ہی رہتے ہیں جیسے باپ، بیٹا ،بھائی، چچا، تایا، ماموں اور خالو وغیرہ۔ یعنی جن سے ساری زندگی شادی نہ ہو سکے۔ محرم وصی محرم وصی یا وصفی وہ محرم ہوتے ہیں جو مخصوص حالات میں محرم ہوتے ہیں مگر جیسے ہی وہ حالات ختم ہو جائیں گے وہ لوگ محرمات کی فہرست میں شامل نہیں رہیں گے اور اجنبی یا غیر محرم ہو جائیں گے۔مثال کے طور پر شوہر طلاق کے بعد نا محرم، مملوک آزاد ہونے کے بعد، بچہ جوان ہونےکے بعد نا محرم ہو گا۔ ”اپنے میل جول کی عورتیں“ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے اچھی طرح جان پہچان ہو، جیسے محلے والیاں۔ یعنی اجنبی عورتوں کو بھی زینت نہیں دکھانی۔عورتوں میں جو قابل اعتبار ہوں اُن عورتوں کے سامنے ہی زینت دکھانی چاہیے، دوسری عورتیں جن کا معلوم ہی نہیں کون ہیں ، کس قماش کی ہیں، یا ایسی تو نہیں جو باہر جا کردوسروں کے سامنے تذکرہ کریں، یا باہر جا کر تذکرہ کر کے لگائی بجھائی کریں۔ اُن سے پردے میں، صرف چہرہ کھول کر، ملنا ہی بہتر ہے۔ ” ا پنے مملوک“ میرے خیال میں یہاں مراد لونڈیاں ہو گا۔ غلاموں میں ایسے غلام بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق مثال دے کر ہی اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ نکاح کرنے کے لیے مشرک سے غلام بہتر ہے، تو جس سے نکاح ہو سکتا ہے وہ نامحرم ہی ہوا۔ آج کل کے دور میں اس سے مراد گھریلو ملازمائیں ہو نگی۔ توان گھریلو ملازموں سے بھی آرائش چھپانی چاہیے۔ " وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں“ زیر کفالت یا غلام یا ملازم جو بوڑھے ہوں۔ اس میں ملازم زنخے وغیرہ بھی شامل ہیں۔ وہ اگر زینت دیکھ لیں تو کوئی بات نہیں۔ ” اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں“ چھوٹے بچے ۔ ان تمام محرمات کے سامنے سوائے شوہر (جس سے کسی قسم کا پردہ نہیں)کے جو زینت ظاہر کی جا سکتی ہے وہ سب خمار یعنی ڈوپٹہ کے ساتھ ہیں۔ جلابیب (ڈوپٹے سے اوپر کی چادر) گھر سے باہر کے لیے ہے۔ ”وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے“ یہ احتیاط تو گھر میں بھی کرنی چاہیے کہ جن لوگوں کا ذکر اوپر آ گیا ہے کہ ان کے سامنے بھی پاؤں بجا کر پازیب وغیرہ جھنکاتی نہ رہیں۔لیکن بازار میں تو یہ حکم کا درجہ رکھتا ہے کہ وہاں بہتر تو یہی ہے کہ اس طرح کے زیورات پہن کر نہ جایا جائے اگر پہن ہی لیے ہیں تو کوشش کی جائے کہ احتیاط سے چلا جائے۔اس آیت کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ اس طرح کوشش کی جائے کہ کسی بھی وجہ سے پوشیدہ زینت سامنے نہ آجائے یعنی اگر ایک آدمی ایک طرف منہ کر کے کھڑا ہے اور پیچھے سے پازیب کی آواز آ رہی ہو تو وہ بھی دیکھنا چاہے گا۔ اس لیے احتیاط کرتے ہوئے بازاروں میں چوڑیاں بھی نہ کھنکائی جائے۔ جب آواز سے کوئی متوجہ ہو سکتا ہے تو اسی طرح تیز خوشبو یا عطریا پرفیوم سے بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔ بازار میں اس سے بھی پرہیز کیا جائے، عطر اور پرفیوم کا حکم بھی زیور چھنکانے میں ہو گا یعنی جو کسی اور طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے شخص کو متوجہ کر سکے۔ ” اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے“ اگر ماضی میں ایسا نہیں کرتے رہے تو اب مستقبل کے لیے پکا ارادہ کرو کہ ان احکامات پر عمل کرو گے۔اس پر عمل کرنے سے ذاتی طور پر بھی اور معاشرتی طورپر بھی فلاح پاؤ گے۔معاشرے میں غیر اخلاقی جرائم نہیں ہونگے۔ توبہ اس لیے بھی کہ اگر غلطی سے، انجانے میں ، کچھ ہو گیا ہو تو اس گناہ سے معافی مانگتے رہا جائے۔ سورۃ نور آیت 60 وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [٢٤:٦٠] ”اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں تاہم وہ بھی حیاداری ہی برتیں تو اُن کے حق میں اچھا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے “ اس آیت کا آیت 31 سےتعلق ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ چادروں سے اپنے گریبان ڈھانپ لیں۔یہاں ایسی بوڑھی عورتوں کوجو بہت بوڑھی ہو گئی ہو کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ۔یہاں بعض کے نزدیک بوڑھی سے مراد وہ عورت جو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو مگر میرے خیال میں اولاد تو اللہ تعالیٰ جسے دینا چاہے اسے بڑھاپے میں بھی دے دیتا ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کو بوڑھی بیویوں سےہی اولاد دی۔ اس بات کا فیصلہ کا چادر اوڑھنے والی خاتون خود ہی کرے گی کہ اب اس میں مردوں وغیرہ کے لیے کوئی رغبت نہیں یا اس کی بے پردگی سے فتنہ کا احتمال تو نہیں۔اگر خود فیصلہ نہیں کر سکتی تو دوسری خواتین کے مشورے کے مطابق چادر لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کر لے۔یہاں بھی اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ عورتیں ایسی ہونی چاہیے جن کو زینت دکھانے کا شوق نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے یہ سہولت غالباً اس لیے دی ہے کہ بوڑھی عورتوں کو چادر وغیرہ سنبھالنے سے جو تکلیف ہوتی ہے وہ نہ ہو۔اگر کوئی بوڑھی عورت اس آیت کی رو سے چادر تو اتار دے مگر زینت دکھانے کی نیت رکھے اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہ دیکھ رہا ہے۔آیت میں يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ آیا ہے، جس کا مطلب”اپنے کپڑے اتار دیں“ بھی ہوتا ہے مگریہاں اس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کیونکہ آیت کے اگلے حصے میں کہا جا رہا ہے کہ زینت دکھانے والی نہ ہو تو اس سے مراد پردے کے لیے استعمال ہونے والی چادریا کپڑےہو گا۔آیت کے اس حصہ کی ایک تفسیر کچھ اس طرح بھی ہے کہ بڑی بوڑھی عورتیں جو اپنے بڑھاپے کی وجہ سے مرد سے ملاپ کی خواہش نہیں رکھتیں تو کپڑے نقاب وغیرہ اتار دینے میں ان پر گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کو ظاہر نہ کریں اور اصل بات تو یہ ہے کہ اس سے بھی احتیاط رکھنا ان کے لیے بہتر ہے کہ کیونکہ عربی میں ایک مثال ہے۔ لکل ساققتہ قطتہ (ہر گری ہوئی چیز کو کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے) ۔ایسی عورتوں کو گو خود خواہش نہ ہو مگر ممکن ہے کوئی ایسا بھی ہو جو محض اپنی خواہش سے ان پر بری نظر ڈالے۔ آیت کے اس حصے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ جوان عورتوں کو پردے وغیرہ کا کتنا خیال رکھنا چاہیے۔بعض فقہاء کے نزدیک پرفتن دور اور معاشرے میں فتنہ کے ڈر سے چہرہ اور ہاتھ کی ہتھیلیاں جو ستر میں شامل نہیں وہ بھی پردے کے حکم میں داخل ہو جاتی ہیں۔ سورۃ نور آیت 61 لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ [٢٤:٦١] ”کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعا ئے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے “ اس آیت میں پہلے تو مخاطب معذور لوگ ہیں، اسلامی معاشرے میں پورا معاشرہ ہی اُن کی کفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے، کسی کے گھر سے بھی کچھ لے کر کھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد مخاطب آیت پڑھنے والے ہیں یعنی عام عوام۔اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین قریبی رشتے داروں کے ساتھ کھانا کھا سکتی ہیں، یعنی قریبی رشتے داروں جیسے دیور جیٹھ وغیرہ سے چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک محترم عالم دین صاحب کسی پردے دار خاتون کو دیور سے پردے کا حکم سمجھاتے ہوئے ایک حدیث کے بارے میں بتا رہے تھے وہ کچھ یوں ہے کہ نبى كريم صلى اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: " تم عورتوں كے پاس جانے سے اجتناب كرو " تو ايك انصارى شخص نے عرض كیا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ علیہ وسلم ذرا خاوند كے قریبی مرد ( ديور ) كے متعلق تو بتائيں ؟ تو رسول كريم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " دیور تو موت ہے " صحيح بخارى حديث نمبر ( 5232 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2172 ). الحمو: خاوند كے بھائى ( یعنی ديور ) اور دوسرے قریبی رشتہ دار مرد مثلا چچا كے بيٹے وغیرہ كو كہا جاتا ہے. اس حدیث میں غالبا تنہائی میں باربار اور بنا ضرورت کے ملنے سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 61 کو دیکھیں جس کے مطابق مسلمانوں کو اپنے جن رشتے داروں کے گھروں میں کھانا کھانے کا حکم دیا گیا ہے ان میں بھائی بھی شامل ہے۔ اب بھائی کے گھر میں بھابھی ہوتی ہے اور بچے، اب مل کر کھاؤ یا الگ الگ کو دیکھا جائے توپہلی صور ت مل کر کھانے کی جو صورت بنتی ہے وہ یوں کہ دونوں بھائی، بھابھی اور سب بچے مل کر ایک ہی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں، یہ صورت حال بھی بالکل جائز اور قابل قبول ہے۔ دوسری صورت میں مل کر اور الگ الگ کھانے کی ایک صورت یوں بنتی ہے کہ دونوں بھائی ایک جگہ مل کر کھائیں اور باقی گھروالے الگ، یہ صورت حال بھی جائز اور قابل قبول ہے، دوستوں کے گھروں میں کھانے کے لیے یہ صورت حال بہترین ہے ۔ اب ایک صورت یہ بچتی ہے کہ دونوں بھائی ہی الگ الگ کونوں یا کمروں میں بیٹھ کر اکیلے اکیلے کھائیں یا دونوں مل کر ایک جگہ ۔ مگر جناب اس طرح تو معاشرتی روابط مزید منقطع ہونگے، کیونکہ جو شخص اپنے بھائی کے گھر کھانا کھانے جا رہا ہےوہ اس سے روابط بڑھانے کے لیے جا رہا ہے، ورنہ کھانا تو اس کے اپنے گھر میں بھی پکتا ہے۔میرے خیال میں تو پہلی صورت اور دوسری صورت حال ہی درست ہیں۔ آیت کا مرکزی سبق تو یہ ہے کہ ان رشتے داروں میں سے جن کے گھروں میں بھی جاؤ وہاں سلام کر کے جاؤ۔ اس آیت میں کھانے کی حد تک بات ہو رہی ہے، زیب و زینت جن جن لوگوں کو دکھایا جا سکتا ہے اُن کی تفصیل پہلے ہی آ چکی ہے۔اسی آیت سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ فسٹ کزن وغیرہ کا چہرے کا پردہ بھی ضروری نہیں اور دیور وغیرہ سے چہرے کا پردہ کیے بغیر بھی ایک گھریعنی مشترکہ خاندانی نظام میں رہنا قرآن نے منع نہیں کیا۔ اس آیت کے مطابق فسٹ کزن محرمات میں شامل نہیں ہوتے ، اسکے باوجود کھانے کے دوران ان سے چہرے کا پردہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ سورۃ احزاب آیت 32 يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [٣٣:٣٢] ”نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو“ اس آیت کی مخاطب نِسَاءَ النَّبِيِّ ہیں جس میں بیویاں، بیٹیاں اور دیگر خواتین شامل ہیں۔اس آیت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ اُس دور یعنی دور نبوی ﷺ کے منافقین کی کوشش یہ تھی کسی نہ کسی طرح ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کے منہ سے کوئی ایسی بات نکلوائیں یا نکل جائے کہ جسے کسی دوسرے رنگ میں پیش کر کے وہ منافق فتنہ و فساد کھڑا کر سکیں۔ ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا اپنی عادت کے مطابق ہر کسی کے سوالوں کا جواب آرام سے ،عام اور نرم لہجے میں دیتی تھیں۔اس سے منافق پر امید تھے کہ جلد ہی وہ کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ایسے حالات میں ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کے لیے یہ آیت نازل ہوئی جس میں ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کو کہا گیا کہ آپ عام عورتوں کی طرح نہیں ہو بلکہ آپ بہت خاص ہو، بلند مرتبہ ہو، فضیلت میں سب خواتین سے بڑھ کر ہو۔ یعنی تمام مسلمان خواتین کی رول ماڈل ہو ۔ آپ کے حوالے سے کہی ہوئی یا پھیلائی ہوئی کسی بھی بُری بات کے برے اور دور رس نتائج ہونگے، اگر آپ سے متعلق لوگوں کو یا خواتین کواچھی باتیں معلوم ہونگی تو وہ اُن کے لیے مشعل راہ ہو گی۔ اس وجہ سے اُن کو کہا گیا ہے کہ وہ اجنبی یا عام لوگوں سے نرم لہجے میں بات نہ کریں کہ کوئی منافق اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس آیت کی مخاطب تو ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین ہیں کہ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، مگر اس کا یہ مقصد نہیں کہ عام عورتوں کو اس کی اجازت ہے کہ وہ دوسروں سے نرم لہجے میں بات کریں۔ آیت کا مخاطب خاص ہے مگر حکم عام ہے۔اللہ تعالیٰ کے سمجھانے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے کوسمجھائے کہ آوارہ لڑکوں کی طرح گالیاں مت دینا، حالانکہ اُس شخص کو سب بچوں کا گالیاں دینا ناپسند ہوتا ہے۔ جس کسی کے دل میں بھی مرض، روگ یا طمع ہوتا ہے کسی کے میٹھے لہجے کا غلط مطلب لے کر دوسرے لوگوں میں خاتون کی طرف سے بدگمانی پھیلا سکتا ہےیا اُن کے دل میں مزید کسی قسم کا طمع پیدا ہو سکتا ہے اور وہ خاتون کو متاثر کرنے کے لیے الٹی سیدھی حرکتیں کرے ۔مردوں کو چاہیے کہ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے یا خواتین سے بات کرتے ہوئے اپنا لہجہ نرم رکھیں۔ مگر خواتین جب بھی بات کریں تو سیدھے سادھے ، سپاٹ انداز میں ٹو دی پوائنٹ بات کریں بلا ضرورت بات کو نہ بڑھائیں۔ جب کوئی خاتون سیدھے سادھے انداز میں صاف اور سیدھی بات کرے گی تو لوگ دوبارہ بہانے بہانے سے بات کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔خواتین کو اجنبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ زیور کی آواز بھی اجنبی کے سننے کےلیے منع کر دی ہے، اسی طرح اصل لہجہ یا بول چال کا انداز جو خاتون گھر میں محرمات سے گھل مل کر بات کرتی ہیں ویسے ہی اجنبیوں سے بات نہ کرو۔ اچھی آواز بھی زینت ہے مگر یہ مشکل سے چھپانے والی زینت میں آتی ہے۔ سورۃ احزاب آیت 33 وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [٣٣:٣٣] ”اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے “ اس آیت میں اہل بیت کا لفظ ثابت کر رہا ہے کہ پچھلی آیت میں مخاطب صرف ازواج مطہرات ہی نہیں تمام خواتین ہیں جن کا تعلق نبی کریم ﷺ سے ہے۔ ان تمام کو کہا جا رہا ہے کہ گھروں میں رہو۔ بلا ضرورت باہر نہ نکلو۔ نبی کریم ﷺ کے مقام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سب اہل بیت کو نیک رکھنے کا بندوبست کر رہے ہیںَ ”اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو“ فضول باہر گھومنا پھرنا نہیں چاہیے۔ اس گھومنے پھرنے کا ایک مقصد تو یہی ہو سکتا تھا جو اس آیت میں بتا دیا گیا ہے کہ صرف اپنی زینت کو دکھانا۔ زینت دکھانے کے بہت سے اخلاقی نقصانات ہیں۔ اس لیے ان سے بچنے کا بہترین حل یہی ہے کہ خواہ مخواہ باہر نہ گھوما پھرا جائے۔ اس آیت کا یہ مقصد بالکل نہیں کہ نعوذ باللہ اہل بیت کی خواتین پہلے فضول باہر گھومتی تھیں۔ اس کا مقصد ایک نصیحت ہے جو اللہ اہل بیت کے توسط سے تمام مسلمان خواتین کو دے رہا ہے کہ اگر گندگی کو ، برائی کو خود سے دور رکھنا ہے تو یہ کرو۔ یعنی فضول باہر نہ نکلو۔اس آیت میں چونکہ عام مسلمان خواتین بھی مخاطب ہے مگر خصوصیت کے ساتھ اہل بیت مخاطب ہیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ دور جاہلیت کی سج دھج دکھانے والی بات کی مخاطب وہ نو مسلم خواتین ہوں جو پہلے اپنی آرائش دکھاتی رہی ہوں۔ ” نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور“ یعنی اہل بیت خواتین اور تمام مسلمان عورتیں گھروں میں یا ایسی جگہوں پر جہاں مخلوط اختلاط نہ ہو وہاں عبادت کا بندوبست بھی رکھیں اور کوئی کام کاج کرنا چاہیں تو وہ بھی کریں۔ آیت میں زکواۃ دو آیا ہے جو اس سے پہلے بھی ہر جگہ نماز قائم کرو کے ساتھ لازمی قرآن میں مذکور ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام کاج ہو گا، آمدن ہو گی تو زکوٰۃ دی جا سکے گی۔اس کا مطلب ہے کہ حجاب کے احکامات کی پابندی کرتے ہوئے خواتین ملازمت اور کاروبار کر سکتی ہیں۔بہ امر مجبوری مخلوط ماحول میں بھی کام کیا جا سکتا ہے چاہے چہرہ پر حجاب ہو یا نہ ہو، جیسے مجبوری کے عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیوی اپنی بہنوں کے ساتھ بکریاں چراتی تھیں، مگر موقع ملتے ہیں انہوں نے ملازم کا بندوبست کر لیا۔ ” اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو“ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو ساری امت پر فرض ہے۔ یہاں ازواج مطہرات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں دنیا اور آخرت میں کامیابی ہے۔اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت یہی ہے کہ ان احکامات پر عمل کیا جائے۔

” اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے“ پوری طرح پاک کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے کچھ ناپاکی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ساری امت کے لیے گناہوں سے بچنے کی ترغیب دی ہے۔ اسی طرح الگ سے ازواج مطہرات کو بھی مخاطب کیا ہے۔ اُن کو خصوصی مخاطب کرنے کا مقصد اُن کی خصوصی رہنمائی ہے تاکہ وہ ساری امت کی خواتین کے لیے رول ماڈل بنیں۔ سورۃ احزاب آیت 53 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا [٣٣:٥٣] ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو تمہاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے “۔

اس آیت کو آیت حجاب بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں حجاب سے مراد ویوارکی طرح یعنی مکمل پردے کے ہیں۔ اس سے پہلے مسلمان مردوخواتین کےبارے میں پردے کے کافی احکامات آ چکے ہیں۔ یہاں خصوصی طور پر حضور ﷺ کے گھر کا ذکر ہے، چونکہ نبی کریم ﷺ کا گھرانہ تمام مسلمانوں کے لیے رول ماڈل ہے اس لیے یہ آداب تمام مسلمانوں کے لیے موجودہ دور کے لیے بھی ہیں۔آیت کے بنیادی مخاطب عام مسلمان ہی ہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام کو صاف صاف منع کر دیا گیا ہے کہ بغیر اجازت کے وہ امہات المومنین کے گھروں میں نہیں جا سکتے۔ بغیر اجازت کے صرف وہ محرمات جا سکتے ہیں جس کی تفصیل آگے آیات میں آئے گی۔اس آیت کے نزول کے بعد نبی کریم ﷺ کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دئیے گئے، فوراً بعد ہی مدینے کے ہر گھر میں پردے لٹک گئے، وہ حکم جس میں عام لوگوں کو مخاطب کیا گیا تھا کہ امہات المومنین سے پردے کے پیچھے سے کوئی چیز مانگا کریں، اس پر تمام مسلمان عمل کرنے لگے، امہمات المومنین سے ہی نہیں دوسرے مسلمان گھروں میں بھی یہی دستور اپنا لیا گیا۔مزید ایک بات اور اس آیت میں قابل غور ہے کہ امہات المومنین کو عام لوگوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔عام لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ مانگنا ہو پردے کے پیچھے سے مانگیں۔ امہات المومنین جو درجہ میں سب مسلمانوں کی مائیں ہیں، قرآن کریم کے مطابق نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی اُن سے شادی بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود اُن کو پردے کا حکم دینا پردے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، تو آج کے پر فتن دور میں گھر سے باہر پردے کی کس قدر پابندی کرنی چاہیےاُس کا اندازہ خود لگا لیں۔ سورۃ احزاب آیت 55 لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ۗ وَاتَّقِينَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا [٣٣:٥٥] ”ازواج نبیؐ کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے بھتیجے، ان کے بھانجے، ان کے میل جول کی عورتیں اور ان کے مملوک گھروں میں آئیں (اے عورتو) تمہیں اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا چاہیے اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے“۔ یہی احکامات عام عورتوں کے لیے بھی ہیں، یہ وہی رشتے ہیں جن پر زینت ظاہر کی جا سکتی ہے، یہ لوگ بغیر اجازت بھی گھروں میں آ جا سکتے ہیں۔صرف گھروں میں آ جا سکتے ہیں، خواب گاہ میں اجازت لے کر جانا چاہیے، خاص کر اُن تین اوقات میں جن کا ذکر قرآن کی آیت ٢٤:٥٨ میں بھی ہے کہ یہ تین اوقات پردے کےہیں۔ سورۃ احزاب آیت 58 وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا [٣٣:٥٨] ”اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے“ اس اذیت سے مراد ذہنی اذیت بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی اذیت بھی۔دین اسلام تو وہ دین ہے جس میں ناحق جانوروں کو تکلیف پہچانا حرام ہے ، مومن مردوں اور مومن عورتوں کی اذیت کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ زانی یا آوارہ مردوں کا شریف عورتوں کے پیچھے جانا، جھوٹے الزامات لگانا، جھوٹی افواہیں پھیلانا بھی مومن عورتوں کو تکلیف دیتا ہے۔ سورۃ احزاب آیت 59 يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا [٣٣:٥٩] ”اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے“ جلابیب وہ چادر ہوتی ہے جو ڈوپٹے کے اوپر ڈالی جائے۔ ایسی چادر کو گھروں میں تو لینے کا حکم نہیں کیونکہ گھروں میں دوسرے گھر والوں کے سامنے جو چادر لینے کا حکم ہے اسے خمار کہتے ہیں جس سے سر ڈھانپے کے علاوہ سینہ وغیرہ ڈھانپنے کا کام لیا جاتا ہے خمار کا ذکر پیچھے سورۃ النور کی آیت 31 میں آ چکا ہے۔ ڈوپٹے کو بھی خمار کہا جا سکتا ہے ۔ گھر سے باہر جہاں عام لوگوں کی نظر پڑنے کا اندیشہ ہو اسے ڈوپٹے کے اوپر لینا چاہیے۔ موجودہ دور میں برقعہ یا سکارف جلابیب کا نعم البدل ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں یہود کی لونڈیوں بشمول خواتین کی اخلاقی حالت بہت پست تھی اورپردہ کا رواج اتنا زیادہ نہ تھا۔ کفار زیادہ تر لونڈیوں کو ستاتے تھے۔ مسلمان عورتوں کو ذہنی اذیت دینے کے لیے وہ مسلمانوں کی عورتوں پر آوازے کستے تھے۔ اس پر جب اُن کی باز پرس کی جاتی تو کہتے کہ میں تو اپنی لونڈی سمجھا تھا یا فلاں کی لونڈی یا پھر یہ کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ عورت جو جا رہی ہے مسلمان ہے اور اس (بُرے)قماش کی نہیں۔اس آیت میں ایسی کسی بھی صورتحال پیدا ہونے کے مواقع ختم کر دئیے کہ مسلمان عورتیں یا شریف عورتیں ڈوپٹے کے اوپر چادر لیں تاکہ سب کہ پتہ چل جائے کہ مسلمان اور شریف عورت ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ قرآن کے مطابق پردہ کرنا یا سر پر چادر لینا شریف عورت ہونے کی نشانی ہے ۔اس آیت میں مسلمان خواتین کو کفار کی خواتین اور لونڈیوں سے الگ نظر آنے کا حکم دیا گیا ہے۔مسلمانوں کی لونڈیاں بھی چونکہ اہل ایمان تھی اس لیے وہ بھی لازماً اس حکم کے نازل ہونے کے بعد چادریں لیتی ہونگی، اس آیت میں فرق مسلمان اور کفار کی خواتین(بشمول لونڈیاں اور عام خواتین) کے درمیان بتایا گیا ہے۔ سورۃ احزاب آیت 60 لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا [٣٣:٦٠] ”اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے“ جیسا کہ پچھلی آیت میں مسلمان خواتین کو حکم دیا گیا کہ اپنی شناخت پردے کی صورت میں کفار کی خواتین اور بدقماش خواتین سے الگ کر لیں تو اس کے بعد کفار اور یہود کے لیے یہ بہانہ تو ختم ہو گیا کہ وہ مسلمان خواتین کو پہچان نہیں سکے تھے اس لیے آواز لگا دی۔ جن کفار کے دلوں میں اب بھی مرض تھا وہ مسلمان خواتین اور مسلمانوں کے خلاف افواہیں پھیلانے لگے۔ یہ افواہیں اس طرح کی ہوتی تھی کہ نبی کریم ﷺ شہید ہو گئے، مسلمان جنگ ہار گئے یا فلاں مسلمان خاتون ایسی ویسی ہے۔ ان مفافقین کا مقصد مسلمانوں کی ساکھ کو خراب کرنا تھا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، حتیٰ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی بُری افواہیں پھیلائی گئی۔ اب وارننگ انہی لوگوں کے لیے تھی ۔ان کے جرائم کی کم سے کم سزا جلاوطنی بتائی گئی ہے۔ یہ جلا وطنی اُن لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے کسی کے بارے میں بُری افواہیں پھیلائیں مگر ان کے نتیجے میں کوئی فتنہ نہ پھیل سکا، جیسے ہی انہوں نے بولا، فوراً پتہ چل گیا کہ یہ افواہ پھیلا رہا ہے تو ایسے شخص کی کم سے کم سزا جلاوطنی تجویز کی گئی۔

سورۃ احزاب آیت 61 مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [٣٣:٦١] ”ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہو گی، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بُری طرح مارے جائیں گے“

پچھلی آیت میں کم سے کم سزا تجویز کی تھی۔ اب یہاں اس کی زیادہ سے زیادہ سزا تجویز کی جا رہی ہے۔ یعنی اگر کسی کی افواہ یا باتوں کی وجہ سے کسی مسلمان کے گھر میں ناچاقی ہو جائے اور بعد میں پتہ چلے کہ یہ تو افواہ تھی تو افواہ پھیلانے والے کو زیادہ سے زیادہ سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ان کا بائیکاٹ یا جسمانی سزا یا موت جو کہ قاضی جرم کو دیکھتے ہوئے صادر کر سکتا ہے۔ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں کے خلاف بدگمانی پھیلانا یا پھیلانے کی کوشش کرنا سنگین جرائم ہیں۔

سورۃ احزاب آیت 62 سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [٣٣:٦٢] ”یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے“

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو ازل سے چلی آ رہی ہے۔ پرانی شریعتوں میں بھی ایسا ہی تھا۔ اگر یہ منافق یہودی اپنی کتاب پڑھیں تو اس میں بھی ایسی ہی سزائیں ہیں۔

بائبل میں بھی اس طرح کے احکام ہیںَ۔ جھوٹے الزام پر طلاق نہیں دی جا سکتی۔ بدنام کرنے والوں کی بھی سزا کا ذکر ہے۔ قرآن کی یہ آیت بتا رہی ہے کہ ایسی سزا نئی نہیں پرانی ہے۔ ان منافق یہودیوں کی کتابوں میں بھی درج ہے۔یہودیوں میں تو اگر کوئی اپنی بیوی کے بارے میں بُری باتیں پھیلائے تو اس کی جسمانی سزا میں کوڑے، مالی سزا میں جرمانہ اور اس کے علاوہ تمام عمر طلاق پر پابندی کی سزا بھی تھی۔ جیسا کہ ان آیات میں درج ہے۔

”اِستِشنا: باب22:13۔اگر کوئی مرد کسی عورت کو بیاہے (نکاح کرے)اور اُسکے پاس جائے اور بعد اُسکے اُس سے نفرت کر کے۔14۔شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہے اور اُسے بدنام کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرے کہ میں نے اِس عورت سے بیاہ کیا اور جب میں اُسکے پاس گیا تو میں نے کنوارے پن کے نشان اُس میں نہیں پائے۔15۔تب اُس لڑکی کا باپ اور اُس کی ماں اُس لڑکی کے کنوارے پن کے نشانوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر بزرگوں کے پاس لے جائیں۔16۔اور اُس لڑکی کا باپ بزرگوں سے کہے کہ میں نے اپنی بیٹی اِس شخص کو بیاہ دی پر یہ اُس سے نفرت رکھتا ہے۔17۔اور شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہتا اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے تیری بیٹی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے حالانکہ میری بیٹی کے کنوارے پن کے نشان یہ موجود ہیں۔ پھر وہ اُس چادر کو شہر کے بزرگوں کے آگے پھیلا دیں۔18۔تب شہر کے بزرگ اُس شخص کو پکڑ کر اُسے کوڑے لگائیں۔19۔اور اُس سے چاندی کی سو مثقال جرمانہ لیکر اُس لڑکی کے باپ کو دیں اس لیے کہ اُس نے ایک اسرائیلی کنواری کو بدنام کیا اور وہ اُس کی بیوی بنی رہے اور وہ زندگی بھر اُسکو طلاق نہ دینے پائے۔“

اسلامی معاشرہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ یعنی مقتدر قوم بنا کر بھیجا ہے۔ زمین کا اقتدار انسان کے پاس ہی ہے۔ ان سب انسانوں میں مسلمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھنے والے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرنے والے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک معاشرے میں قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری وہاں کی پولیس کا کام ہے اسی طرح اللہ کی زمین پر اللہ کے قوانین کا نٖفاذ، نظام عدل کا قیام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ہر مسلمان کا مقصد یہ ہی ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق حکومت کو چلائے، اگر حکومت نہیں چلا سکتے تو کم از کم اپنی زندگی پر ان احکامات کو لاگو کرے۔ باطل حکومت اور باطل نظام کے سامنے سینہ سپر ہوکر یا کسی بھی طریقے سے اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کو کاروائی، جنگ، جہاد اور قتال، کی اجازت بھی دی ہوئی ہے۔انسانوں میں مسلمانوں کا غلبہ صرف اُس وقت تک ہے جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کو خود پر اور معاشرے پر لاگو کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت ہر قسم کی اخلاقی خوبیوں پر قائم رہیں۔اس کے برعکس شروع سے ہی شیطانی قوتوں یعنی باطل نظام نے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے نظام کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں۔ماضی میں بھی اور موجودہ دور میں بھی اس طرح کی ہزاروں مثالیں مل جائیں گی جن سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ نظام باطل کو اصل تکلیف مسلمانوں یعنی اللہ تعالیٰ کے نظام کو قائم کرنے والوں سے ہے اور مسلمانوں کے نظام حق سے ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کر کے ستی کی رسم کو جرم قرار دے دیا اور ہندوؤں میں بچپن کی شادی پر پابندی لگا دی تو انہیں انسانیت اور ہندوستان کے محسن گردانا گیا۔ اگر معاشرے کی اصلاح کے لیے مسلمان کوئی بھی قدم اٹھائے تو کفار کے نزدیک انسانیت کے خلاف جرم ہو جاتا ہے۔افغانستان میں اسلامی حکومت کا قیام جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے کر اسلامی حکومت کے خلاف کارووائی ہوئی، مگر مصر میں جمہوریت کے ذریعے قائم کسی اسلامی کہلانے والی جماعت کی جمہوری طریقے سے قائم حکومت بھی نامنظور۔مسلمان اگر کسی بگڑے ہوئے معاشرے میں انفرادی طور پر پردہ کریں تو دقیانوسی اور اجتماعی طور پر انسانوں کی فلاح کے لیے عوامی مقامات پر پردے کولازم قرار دے دیں تو ظالم بن جاتے ہیں۔ مسلمانوں اور مومنوں کو کفار کی کسی بات سے رنجیدہ ہوئے بغیر صرف وہی کرنا چاہیے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔

عورت کے پردے کا مقصد کوئی بھی ایسی حرکت ، جو معاشرے میں فساد پھیلائے یا معاشرے میں بے راہ روی کا باعث بنے، ایسی حرکات کرنے والا خواہ مرد ہو یا عورت ، ایسی حرکات پراسلامی معاشرے میں پابندی ہے۔ کسی بھی عورت کا بازار میں چست یعنی جسم کے خدوخال کو نمایاں کرنے والا لباس، میک اپ زدہ چہرہ، کھلے بال، کھنکھناتے ہوئے زیورات کے ساتھ پھرنا معاشرے میں بے راہ روی پھیلانے کی کوشش ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں کے سامنے پوشیدہ زیور کے ظاہر ہونے (بذریعہ آواز) کو ناپسند فرمایا ہے، اس کی وجہ صرف یہ ہےکہ آواز سے کوئی بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔اسی طرح تیز خوشبو سے بھی کوئی بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔یعنی نا محرم لوگوں کے سامنے کسی بھی طرح کی ایسی حرکت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مٹر کر دیکھنا چاہے۔اسلامی معاشرے میں زینت دکھانے کا مطلب عام لوگوں کے سامنے نمائش نہیں۔ اسے صرف مخصوص محرموں کو ہی دکھایا جا سکتا ہے، اور باہرعام لوگوں کے پاس اسے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑی چادر سے چھپایا جائے یا برقعہ یا سکارف سے۔جو چیز چھپائی نہ جا سکے یعنی آواز، قد، رنگ وغیرہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔یہ ساری آزمائش اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو فطری طور پر مرد کے لئے باعث کشش اور باعث رغبت بنایا ہے، اسی لیے عورت کو کچھ زیب و زینت چھپانے کا زیادہ حکم دیا گیا ہے۔ یہ فطری رغبت اللہ تعالیٰ ہی نے مرد میں رکھی ہے، مقصود اس کا یہ ہے کہ کون اللہ کی بیان کی ہوئی حدود کو قائم رکھتا ہے اور کون حدود پار کرتا ہے۔

پردے کے احکامات اور معاشرہ حجاب یا پردے سے متعلق قرآن کریم کی آیات پر تو ہم نے بات کر لی، اب ہم دیکھیں گے کہ کس طرح سے ان احکامات اور قوانین کو معاشرے میں نافذ کیا جائے۔ اسلامی معاشرے میں قوانین کا نفاذ کسی بھی وقت، کسی بھی ملک میں ،کسی بھی حالات میں جب ہم اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کریں گے تو ہمیں اس کے لیے نبی کریم ﷺ کی زندگی کو مثال بنانا ہو گا۔ نبی کریم ﷺ نبوت ملنے کے 13 سال بعد تک مکے میں رہے۔ وہاں انہوں نے لوگوں کو نصیحت کی۔ چاہے پردہ کا معاملہ ہو ، دین کا یا دنیا کا، ہر کام میں نصیحت کی۔ بزور قوت تو وہاں وہ کسی بھی قسم کے معاملات میں سزاؤں کا نفاذ کرہی نہیں سکتے تھے کہ کفار اکثریت میں تھے اور ایمان والے چند لوگ، مگر وہ چند ایمان والے ایسے تھے کہ جن کی فضیلت قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے وہ اس کے بعد ایمان لانے والوں سے افضل ہیں [٥٧:١٠] ، ایسے ایمان والوں کو تو صرف اللہ کا حکم معلوم ہونے کی دیر تھی اور انہوں نے فوراً اپنی زندگی کو اِن احکامات کے مطابق ڈھال لیا۔اُن لوگوں کے لیے ستر پوشی کا معاملہ ہو(سورۃ اعراف آیت 26) یا دوسرے دنیاوی معاملات، انہوں نے دل و جان سے اس پر عمل کیا ۔اس لیے جب بھی کہیں دنیا میں ایسے حالات ہو کہ مسلمان چند لوگ ہو اور کفار کی اکثریت یا اسلامی قوانین حکومتی طور پر نافذ نہ ہو سکیں تو وہاں تمام مسلمان قرآن کریم کے احکام کو ذاتی حیثیت میں خود پر لاگو کریں گے۔دوسرے لوگوں ،چاہے وہ اُن کا ملازم ہو یا ہمسایہ، وہ صرف نصیحت کر سکتے ہیں، زور زبردستی کسی معاملے میں نہیں۔مکی سورتوں میں بھی نبی کریم ﷺ کو صرف نصیحت کرنے کے متعلق کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان سورتوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کفار یا کوئی دوسرا بات نہ مانے تو اس کو اللہ تعالیٰ سزا دے گا، وہ چاہےدنیا میں یا آخرت میں دے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی زندگی کا آخری دور یعنی مدنی دور، مدینہ میں نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے تو حکومت کے استحکام کےلیے کوششیں کی۔ اس سلسلے میں غیر مسلموں تک سے معاہدے ہوئے۔ اس کے بعد جب طاقت حاصل ہو گئی تو برائی ،جو حد سے بڑھ گئی تھی، کی بیج کنی کے لیے ہنگامی اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں پردے کے احکام بھی شامل ہیں۔سب سےپہلے تو اہل ایمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ چہرے کا بھی پردہ کریں، یعنی سر پر بھی چادریں لٹکا لیں۔یعنی فاسقوں پر حجت اتمام ہو جائے۔ اس کے بعد شر پسند عناصر کے لیے کڑی سزائیں تجویز کی گئیں۔ اس لیے تا قیامت جب مسلمانوں کو اپنی ایک ریاست ملےتو وہ وہاں پر حکومتی سطح پر اسلامی احکامات رائج کر سکتے ہیں۔کسی غیر اسلامی معاشرے میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے دوران پردے کے احکامات بھی بتدریج نافذ کیے جائیں گے۔ مرد وزن کے آزانہ اختلاط کی اجازت اسلامی معاشرے میں نہیں دی جاسکتی۔ اسلامی معاشرے میں گھر کے باہر معاشرے میں پردے کے احکامات پر مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی عمل کریں گے۔قوانین کی خلاف ورزی پر معاشرے کے حالات کے مطابق سزائیں نافذ کی جا سکتی ہیں اور نہ ماننے والوں کو بھی اسلامی حکومت جو چاہے سزا دے سکتی ہے۔یہ سزا ایک تو اسلامی حکم نہ ماننے کی ہو گی اور دوسرا حکومت کی رٹ کو نہ ماننے کی۔اگر بعد میں حکومت دیکھے کہ لوگ اتنے نیک ہو گئے ہیں تو پردہ کے یا کسی طرح کے بھی قوانین میں نرمی کر دے۔لوگوں کے ایمان کی حالت کا اندازہ اخلاقی حالت اور جرائم کی تعداد سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ غیراسلامی معاشرے میں قوانین کا نفاذ اگر معاشرہ اسلامی نہ ہو جیسے کہ ہمارا ملک پاکستان، جو صرف اپنے سرکاری نام کی حد تک اسلامی ہے، میں پردے کے اسلامی احکامات پر انفرادی طور پر عمل کیا جائے گا۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو نصیحت کر سکتا ہے مگر زبردستی نہیں کر سکتا۔ معاشرے کے بُرے عناصر سے بچنے کے لیے ، جن کو نہ خدا کا خوف ہے اور نہ سزاؤں کا ڈر، خواتین کو لازماً پردہ کے احکامات پر انفرادی طور پر عمل کرنا چاہیے۔

معاشرے کی ترقی میں عورتوں کا کردار کسی بھی معاشرے کی ترقی میں عورتوں کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے۔بہترین مثالی معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں مرد کمائے اور عورت گھر کو سنبھالے اور بچوں کی تربیت کرے۔ مگر اس مثالی معاشرے میں بھی تمام کام مرد ہی سرانجام نہیں دے سکتے۔ بہت سے شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جوعورتوں کے لیے ہی مناسب ہیں، خاص طور رپر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں۔موجودہ دور میں ہر شعبے کی ترقی میں عورتوں کا کردار مثالی ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر عورتوں کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہے، تعلیم سمیت ہر شعبے میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں یا کر سکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ ضروری ہے کہ تمام خواتین بھی اپنی تعلیم اور صلاحیت سے معاشرے کو فائدہ پہنچائیں۔بہت سے شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جو صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہیں ۔ اس کے علاوہ بوقت ضرورت خواتین ہرشعبے میں کام کر سکتی ہیں۔ڈاکٹری کے شعبے میں عورتوں کی سخت ضرورت ہے۔بہت سے لوگ عورتوں کی تعلیم کے مخالف ہیں مگرجب اپنی عورتوں کا علاج کرانا ہو تو کسی خاتون ڈاکٹر کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اللہ کے بندو! اگر بچیوں کو تعلیم نہیں دلاؤ گے، اُن کی تعلیم کی مخالفت کرو گے ، اُن کو ڈاکٹر نہیں بناؤ گے تو پھر پردہ دار عورتوں کا علاج کیسے کراؤ گے؟بریسٹ سرجری، گائناکالوجسٹ کے لیے عورتوں کا ڈاکٹر ہونا ضروری ہے۔عورتوں کے کپڑوں کی سلائی، چوڑی مہندی، بیوٹیشن کے شعبے بھی عورتوں کےہی ہیں۔عورت مرد کی نسبت اچھی ٹیچر ہوتی ہیں۔ عورتوں کے کام کرنے کے حوالے سے، ملازمت کے حوالے سے قرآن کریم میں کہیں بھی ممانعت نہیں۔ قرآن کریم میں خاص طور پر نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات اور عام طور پر امت کی خواتین کے متعلق حکم نازل ہوا ہے کہ گھروں میں رہو اور زکواۃ دیتی رہو۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [٣٣:٣٣] ”اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے “ اس آیت میں اگرچہ زکواۃ دینے کا ذکر عمومی طور پر اسی طرح کیا گیا ہے جیسے کہ نمازکی ہر آیت میں نماز کے ساتھ آیا ہے ، اس کے باوجود اس سے پتہ چلتا ہے کہ نما ز کی طرح زکواۃ بھی ہر کسی پر فرض ہے۔ اب زکواۃ تو وہی دے گا جو کچھ کماتا ہو۔چاہے کمائی کاروبار کی ہو یا زمینوں کی۔ کام کرنے کے ماحول کے حوالے سے دیکھا جائے تو اگر معاشرہ اسلامی ہو تو حکومت خود ہی ایسے اقدامات کرے گی جس سے خواتین کو کام کرنے کے لیے ایسا ماحول میسر آئے جہاں وہ آزادی اور حجاب کے ساتھ کام کر سکیں۔ عورتوں کو کام کرتے ہوئے پردے کا خیال رکھنا چاہے۔ کام کے دوران چہرے کے پردے کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال کے مطابق کام کے دوران چہرے کا پردہ ضروری نہیں جبکہ کچھ کے نزدیک پردہ ضروری ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے مدین پہنچے تو ان کی ملاقات چند لڑکیوں سے ہوئی جو اپنے باپ کے بڑھاپے کی مجبوری کے سبب سے گلہ بانی کا کام خود کرتی تھیں۔ معاشرے کی خراب حالت کے باعث انہیں گلہ بانی میں دشواری کا سامنا تھا۔ موقع ملتے ہی انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم رکھ لیا۔ اس سے پہلے جب ایک لڑکی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لیے گئی تو بہت شرماتی ہوئی گئیں۔ اُن کی یہ شرماہٹ اللہ تعالیٰ کو اتنی بھائی کہ اب قرآن کریم میں تاقیامت اس کا ذکر ہوتا رہے گا۔ فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ [٢٨:٢٥] ”(کچھ دیر نہ گزری تھی کہ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی "میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں" موسیٰؑ جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اسے سُنایا تو اس نے کہا "کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالموں سے بچ نکلے ہو“ یعنی مجبوری میں مخلوط ماحول میں کام کرنا پڑ جائے تو ایسے کریں جیسے حضرت موسیٰ کی بیوی اور بیوی کی بہنیں شادی سے پہلے کرتی تھیں، اگرچہ وہ معاشرہ اچھا نہیں تھا، اچھے معاشرے میں عورتوں کو انصاف کے ساتھ برابری کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔