مندرجات کا رخ کریں

آسیب سے پرچھائیں تک

ویکی کتب سے

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

جیتنا ہی کوئی قسم تو نہیں
عشق میں ہارنا بھی کم تو نہیں

منزل ِ جاں رہ ِعدم تو نہیں
یہ کوئی آخری قدم تو نہیں کوئی دستک ہو اٹھ کے جاتے ہیں
دیکھنے کے لئے کہ ہم تو نہیں وقت آیا تو رو بھی لیں گے ہم
درد اتنا ابھی بہم تو نہیں صبح صادق مزاج ہیں لیکن
شام ایسی کہیں رقم تو نہیں شرط یہ ہے زیاں ہو سودے میں
رسم یہ ہے کہ آنکھ نم تو نہیں دکھ کسی اور بات کا ہے ہمیں
کارِ رسوائی کار ِ غم تو نہیں

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

مری جان اٹھ کے نہ جا ابھی مرا دل بہت ہی اداس ہے
مری آنکھ میں تری دید کی ذرا بجھ تو لے یہ جو پیاس ہے میں سنگھارکر کے دلہن بنوں لئے رنگ تیرے وصال کے
کہ یقین کچھ تو مجھے بھی ہو ، تو قریب ہے مرے پاس ہے ترا حرف ، حرف ہوآخریں ،ذرا لب کشا تو ہو دلنشیں
مجھے رکھ گرفت ِ فریب میں، ترا جھوٹ بھی مجھے راس ہے بنیں قربتوں کی ضمانتیں ، تری فرقتوں بھرے رتجگے
پس ِ چشم ِخشک نگاہ کر کہ تو ایک چہرہ شناس ہے مری زندگانی ہے تو اگر تو قیام مرے بدن میں کر
ترے لمس سے ہو شکن شکن ، مرے تن پہ جو بھی لباس ہے مجھے اعتبار ِ نظر نہیں تجھے دیکھتی ہوں ٹٹول کے
مجھے وہم کیسا عجیب ہے ، مرے دل میں کیسا قیاس ہے

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

سانس لیتا تو ہے اک پتھر میں توُ
ڈھل بھی جا اب جسم کے پیکر میں توُ شاخ پر جیسے نظر آتا نہ تھا
سج اٹھا ہے کوٹ کے کالر پہ توُ سوچتے رہتے ہیں تنہا رات بھر
جاگتا شاید نہ ہو بِستر میں تُو نیند کیا آئے بھلا اِس فکر میں
جانے باہر ہے یا اپنے گھر میں تُو ہِجر میں بھی وصل کا ہے امتزاج
گویا منظر ہے پسِ منظر میں تُو

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

نام سے جس کے بدن میں جھرجھری آتی رہی
وقت یہ آیا کہ اس کی یاد بھی جاتی رہی یوں خزاں کی چیونٹیاں چمٹیں زمیں کی کوکھ سے
فصل ِ گل بے چین تھی راتوں کو چلاتی رہی ایک نقطے پر ملے احساس کے سب زاویے
دائرہ میں درد کی تصویر لہراتی رہی اس نظر کی دھوپ کا لکھنا پڑا ہے مرثیہ ؎
عمر بھر جو منجمد سوچوں کو پگھلاتی رہی منزل ِ شہر ِ تمنا دسترس میں تھی مگر
آرزو کو راستے میں نیند آ جاتی رہی اس طرح جاڑا کوئی لپٹا رہا کہ عمر بھر
گرم پانی سے بھری بوتل کو سہلاتی رہی

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

زخمِ دل ، زخم ِ جگر داں ہوئے ہیں کیا کیا
دیکھئے آپ کے احسان ہوئے ہیں کیا کیا غم کے انگارے ، کسک درد کی ، آنسو خوں کے
ایک دل ہے مگر مہمان ہوئے ہیں کیا کیا یہ بھی تسلیم ہمیں عشق میں بیباک ہوئے
یہ بھی ہم ہی ہیں پشیمان ہوئے ہیں کیا کیا سو گئی ایک امر بیل لپٹ کر ہم سے
ہم بہاراں میں بھی ویران ہوئے ہیں کیا کیا کتنے برسوں سے جلایا ہی نہیں کوئی چراغ
آنکھ کے مقبرے سنسان ہوئے ہیں کیا کیا آنکھ جلتی ہے ابھی تک کسی نرگس کی طرح
روشنی کے لئے سامان ہوئے ہیں کیا کیا یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

چاندنی رات میں مہتاب سلگتا دیکھوں
نیند کی آگ میں اک خواب کو جلتا دیکھوں آسماں پر کئی تارے ہیں مگر کچھ بھی نہیں
آسماں سے پرے اک نور دمکتا دیکھوں کل کہ دہلیز پہ ٹھوکر سے سنبھالا تھا جسے
آج اس شخص کو دریا میں اترتا دیکھوں آرزو ہے کسی بچے کے کھلونے کی طرح
دل اسی کانچ کی گڑیا سے بہلتا دیکھوں راز کی بات سرِ بزم ہو افشا کیوں کر
ہاں مگر دل سے لہو روز ٹپکتا دیکھوں سینک لیتی ہوں جگر درد کے انگاروں سے
روپ اس آنچ کی حدت میں سنورتا دیکھوں غم کہ ہر بار نئی شکل میں ڈھل جاتا ہے
میں تو خوابوں کو سرابوں میں بدلتا دیکھوں یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

ہوئی جو ہوش میں کیوں کر بہ نام بادہ ہوئی
خطا کہاں تھی جو کہہ دیں بلا ارادہ ہوئی وصالِ حسنِ مجازاں تھا مختصر کتنا
ستم کہ راہِ فغاں کس قدر کشادہ ہوئی میں جس کو وقت بڑی مشکلوں سے پڑھتا تھا
تری زبان پہ آئی تو حرفِ سادہ ہوئی وہ جس کو ننگِ وفا جان کر بھلا گیا
وہی تو رات مرے حزن کا لبادہ ہوئی بساطِ عشق میں جو شہ رخوں کی ہم سر تھی
یہ کیا ہوا وہی تقدیر پا پیادہ ہوئی یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

برکھا بھی ہو لبوں پہ ذرا پیاس بھی رہے
پھر سے فریب دے کہ کوئی آس بھی رہے مدت سے انتظار تھا اپنا بہت مگر
خود سے لپٹ کے رونا ہمیں راس بھی رہے تُو لاکھ دور دور سے دیکھے ہمارے خواب
اپنا وہی لگے ہے کہ جو پاس بھی رہے اک ہو مکاں ہماری تمنا میں مضطرب
اور دسترس میں اپنی ، یہ بن باس بھی رہے خوشیوں کی کیا دلیل ہوں مجبور قہقہے
ہنسنے لگیں تو درد کا احساس بھی رہے ہر حرفِ اعتبار لٹانے کے بعد بھی
یہ کیا ہوا ، فریبِ غم و یاس بھی رہے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

وصل کا عالم رہا ہے ہجر کے ماروں کے بیچ
تُو نظر آتا رہا ہے رات بھر تاروں کے بیچ راکھ ہو جاتے ہیںاپنے شوق میں اہل جنوں
پھول الفت کے کھلا کرتے ہیں انگاروں کے بیچ کو بہ کو رسوائیاں دیتی ہیں دل کو حوصلے
منزلیں خود چل کے آجاتی ہیں دیواروں کے پیچ خود فریبی حد سے باہر بھی تو کچھ اچھی نہیں
’ہاں‘ دکھائی دے رہی ہے تیرے انکاروں کے بیچ ساری دنیا ایک جانب اور تو ہے اک طرف
دیکھتے رہتے ہیں تجھ کو پیار سے ساروں کے بیچ یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

یوں مرا انتظار کرنا کبھی
ٹوٹ کر مجھ سے پیار کرنا کبھی میرا باطن تو تم پہ ظاہر ہے
خود کو بھی آشکار کرنا کبھی تم نے جو کہہ دیا صحیفہ ہے
میرا بھی اعتبار کرنا بھی تم جہاں بھی ہو صرف میرے ہو
اعتراف ایک بار کرنا کبھی سانس لیتے ہو تم بدن سے مرے
مجھ اپنا شمار کرنا کبھی یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

موڑ اک پُر خطر بھی آتا ہے
اور رستے میں گھر بھی آتا ہے عشق کی داستاں عجیب سی ہے
سنگ آتا ہے سر بھی آتا ہے جانتے ہیں سو گھر سے نکلے ہیں
رہ میں رنجِ سفر بھی آتا ہے اک ہیولہ ہے ساتھ رہتا ہے
چاہنے پر نظر بھی آتا ہے لاکھ تنہائی کی منازل ہوں
راہ میں ہمسفر بھی آتا ہے اتنا دشوار تو نہیں رستہ
گاہے گاہے شجر بھی آتا ہے رات اچھی بھی لگتی ہے لیکن
نیند آنے پہ ڈر بھی آتا ہے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

مرے جنوں کو ہے تجھ سے ثبات پھر ملنا
مری نظر کی حسین کائنات پھر ملنا تجھے یہ دن کے اجالے بھی سوچتے ہونگے
یہ شوقِ دید میں جاگے گی رات ، پھر ملنا بس ایک تُو ہی ہے لمحہ قرار کا ورنہ
سراپا درد ہے ساری حیات ، پھر ملنا ہزار رنگ ابھی تیرے مجھ سے لپٹے ہیں
جلو میں لے کے دھنک کی برات پھر ملنا چٹخ رہے ہیں مرے ہونٹ ریگزاروں میں
بجھی ہے پیاس کہاں اے فرات پھر ملنا سنی ہوئی ہے تری آنکھ کی زباں میں نے
تجھے سنانی ہے اس دل کی بات پھر ملنا یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

مشکل بہت تھا ساتھ بنھانا مرے لئے
لازم تھا تجھ کو بھول ہی جانا مرے لئے رکتا کہاں ہے وقت کسی کے بھی واسطے
ویسے بھی تھا گراں وہ زمانہ مرے لئے اٹھتے تھے میرے پائوں ،سفر بھی تھا دو قدم
پھر بھی کٹھن تھا لوٹ کے آنا مرے لئے دشوار تھا تجھے بھی مرے گھر کا رستہ
شاید یہی بہت تھا بہانہ مرے لئے آواز میرے حلق میں میری اٹک گئی
اچھا نہیں تھا تجھ کو بلانا مرے لئے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

مختصر سی یہ بات ہے ہمدم
تجھ سے میری حیات ہے ہمدم

تجھ کو اپنا خیال رکھنا ہے
تُو مری کائنات ہے ہمدم

شام ہونے کو ہے چلا بھی آ
زندگی بے ثبات ہے ہمدم

اپنی آنکھیں جلا کے میز پہ رکھ
کتنی تاریک رات ہے ہمدم

یہ الگ دید کو ترستی ہوں
چار سو تیری ذات ہے ہمدم یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

وہ ہے کسی کا مگر اس کی صحبتیں مجھ سے
خراج لیتی ہیں کیسا محبتیں مجھ سے

جو دے رہا ہے کہیں اور روشنی اپنی
ستم کہ اس کے بدن میں ہیں حدتیں مجھ سے

عجیب شخص ہے کم گو ہے،کم نظر بھی ہے
کہ جس کے حرفِ وفا میں ہیں شدتیں مجھ سے

کبھی کبھی کے کہے اپنے چند جملوں میں
خرید لے گیا عمروں کی مدتیں مجھ سے

اس انتظارِ مسلسل کی حد کہاں ہو گی
سوال کرتی ہی رہتی ہیں فرقتیں مجھ سے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

ذہن پر اس طرح سے چھائے ہو
گاہ پیکر ہو گاہ سائے ہو

بھول جانے کی آرزو کی ہے
اور شدت سے یاد آئے ہو

یوں بھی ہونے لگا جنوں میں کبھی
میرے ہونٹوں سے مسکرائے ہو

کس طرح میں تمہیں چھپا رکھوں
تم مری روح میں سمائے ہو

کیسے مانوں کہ تم نہیں میرے
کیسے کہہ دوں کہ تم پرائے ہو

میں سمندر کے پار کیا آئوں
تم تو اک ساحلی سرائے ہو یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

اس نے وفا کی اور ہی رسمیں بنائی ہیں
مجھ سے بڑھا کے غیر سے نظریں ملائی ہیں سب دیکھتے ہیں اس کے ہی ایوان کی طرف
جس نے مری مکان کی اینٹیں چرائی ہیں میں جانتی ہوں اس کی عبادت کے مرحلے
میرے ہی ساتھ اس نے تو عیدیں منائی ہیں وہ صبح میرے گھر میں تھا جو شام کھو گیا
بستر کی اب تلک نہیں شکنیں ہٹائی ہیں اشکوں کے بعد اپنا لہو دے کے کاٹ لیں
سمجھی تھی میں کہ درد کی فصلیں پرائی ہیں یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
ہوئی ہے رات وہ بارش ، گماں نہ تھا جس کا ہوائیں خود اسے ساحل پہ لا کے چھوڑ گئیں
وہ ایک نائو کوئی بادباں نہ تھا جس کا اسی کے دم سے تھی رونق تمام بستی میں
کہ خندہ لب تھا مگر غم عیاں نہ تھا جس کا جلی تو یوں کہ ہوئے راکھ راکھ جسم و جاں
عجیب آگ تھی کوئی دھواں نہ تھا جس کا گلی گلی میں خموشی پہن کے پھرتا تھا
کوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

بات جو ہوتی ہے بے بات ہوا کرتی ہے
اب خرابوں میں ملاقات ہوا کرتی ہے صبح سے شام تو ہو جاتی ہے جیسے کیسے
درد بڑھ جاتا ہے جب رات ہوا کرتی ہے ہے عجب عالمِ محرومیِ افسردہ دلاں
سادہ ہوتے ہیں جنہیں مات ہوا کرتی ہے روز سجتے ہیں نئے زخم مژہ پر میری
روز دہلیز پہ بارات ہوا کرتی ہے ہجر چبھنے لگے آنکھوں میں آجانا کبھی
وصل کا لمحہ بھی سوغات ہوا کرتی ہے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے
میں رنگ رنگ ہوں لیکن سنگھار باقی ہے ابھی تو چوٹ ہے آئی گلاب سے مجھ کو
ابھی تو راہ میں اک خار زار باقی ہے ہوائیں تھم گئیں ، گروو غبار بیٹھ گیا
اک اپنی ذات کا بس انتشار باقی ہے تمام عمر دیا میں نے جس کو اپنا لہو
ا’سی چراغ پہ اب تک نکھار باقی ہے اداس رکھتی ہے دن بھر یہ بازگشت مجھے
صدا کی گونج میں پیہم پکار باقی ہے جو رات ہجر کی گزری تمہارے پہلو میں
اس ایک شب کا ابھی تک خمار باقی ہے جو گھائو بھر گیا اس کا نشان ہے ابتک
اس ایک زخم پہ اب بھی بہار باقی ہے وہ یاد بھولی ہوئی داستاں سہی لیکن
وہی مزاجِ سدا سوگوار باقی ہے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

رات کو کیسے سحر کرپائیں گے تیرے بغیر
چھوڑ کر مت جا ہمیں مر جائیں گے تیرے بغیر کون لپٹے گا گلے سے پیار سے دیکھے گا کون
یاد کی باہوں سے دل بہلائیں گے تیرے بغیر زندگی کے شہر میں خاموشیاں چھا جائیں گی
اور سناٹوں میں ہم گھبرائیں گے تیرے بغیر رات بھر باتیں کریں گے ہم تری تصویر سے
اور تیرا غم کسے بتلائیں گے تیرے بغیر فاصلوں سے ضبط کا ہم کو تو اب یارا نہیں
خود کو کیسے کس طرح سمجھائیں گے تیرے بغیر یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

جب زندگی کے راستے دشوار ہو گئے
ہم حادثوں سے بر سر پیکار ہو گئے اشکوں کے تار توڑ گیا وقت کا طلسم
ہم ہچکیوں سے روز کی بیزار ہو گئے دیکھا اسے قریب سے ہم نے تو یوں ہوا
ہم خامشی سے مائلِ اغیار ہو گئے جب انتظار تھا تو سویرا نہیں ہوا
سوتے رہے تو صبح کے آثار ہو گئے بیکار حسرتوں کو ذرا چھانٹ کیا لیا
ہم اپنی منزلوں کے بھی مختار ہو گئے آزاد تھے تو اپنی زمینیں بلند تھیں
ہاتھوں میں لے کے چاند گرفتار ہو گئے ڈوبے ہیں ساحلوں کی سرکتی سی ریت میں
لے پانیوں کے ہم بھی طلب گار ہو گئے ہم ہی سے تو زباں کی حلاوت کا ذکر تھا
ہم ہی مثالِ تلخی ِ گفتار ہو گئے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

چاند ، دریا ستارے چھوٹے ہیں
عشق کے استعارے جھوٹے ہیں اس کے لہجے سے صاف ظاہر ہے
اس کے الفاظ سارے جھوٹے ہیں ایک تنہائی ہی حقیقت ہے
اور باقی سہارے جھوٹے ہیں کوئی موجود ہی نہیں مجھ میں
دل کے سندر نظارے جھوٹے ہیں اک سمندر ہے اور کشتی ہے
زندگی کے کنارے جھوٹے ہیں ہمسفر تم نہیں رہے میرے
ساتھ جو دن گزارے جھوٹے ہیں یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

جہاں وہ چلتے چلتے کھو گیا ہے
وہ رستہ مجھ کو ازبر ہو گیا ہے پھر اس کی منتظر ہوں شدتوں سے
کہ مجھ میں مجھ سے مل کر جو گیا ہے کوئی بے چین سا بچہ تھا مجھ میں
اور اب لگتا ہے تھک کر سو گیا ہے ابھی تک نم ہے یہ تکیے کا کونا
یہ کیسا درد کوئی رو گیا ہے خدا جانے کبھی لوٹے نہ لوٹے
مگر ایسا ہی کچھ کہہ تو گیا ہے اگے گی اب سحر تیرہ رتوں میں
کوئی غم کے ستارے بو گیا ہے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

میں تو روز اکیلی رویا کرتی ہوں
روتے روتے اکثر سویا کرتی ہوں خوفزدہ ہوں منزل کے اندیشوں سے
راہوں میں دانستہ کھویا کرتی ہوں پانی کم ہو تو آنکھوں کی جھیلوں میں
چن چن کر یہ اشک سمویا کرتی ہوں لمحہ لمحہ ہے میرا مصروف بہت
جگمگ جگمگ زخم پرویا کرتی ہوں صبح نہ جانے تکیہ کیوں ہوتا ہے سرخ
رات تو میں پانی سے بھگویا کرتی ہوں کل کے داغ مٹانا کل پہ رکھا ہے
آج تو آج کا دامن دھویا کرتی ہوں سوچ سمندر کے اکثر خواب سفر میں
تھک کر اپنا آپ ڈبویا کرتی ہوں یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

اب ملے خود سے زمانہ ہو گیا
یہ کہاں میرا ٹھکانہ ہو گیا عشق کیا کہیے کہ بس الزام تھا
چوٹ کھائی تھی بہانہ ہو گیا دیکھتے کیسے کہ بھر آئی تھی آنکھ
کس طرف کوئی روانہ ہو گیا رات بھر برسات کی جل تھل کے بعد
خود بخود موسم سہانا ہو گیا ٹوٹنے کی دل ، صدا آئی تو تھی
زد پہ تھا شاید نشانہ ہو گیا زخم ِ دیرنیہ ابھی تازہ ہی تھا
حادثہ پھر جارحانہ ہو گیا یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

جہاں میں درد کا ہر رابطہ ہے میرے لئے
کوئی کٹھن ہے تو وہ راستہ ہے میرے لئے خیال بھی نہیں آتا کہ نیند کیا شے ہے
یہ رتجگوں کا عجب سلسلہ ہے میرے لئے عجب حصار میں ہوں ماورائی آنکھوں کے
قدم قدم پہ کوئی دائرہ ہے میرے لئے چراغ گل ، شبِ تاریک ، وحشتِ گریہ
جتن سہی پہ مرا سانحہ ہے میرے لئے سنا ہے کل پہ کسی اور کا ہے نام رقم
تو گویا آج کا ہر مسئلہ ہے میرے لئے کوئی گلی کوئی موسم کوئی مہینہ ہو
تلاشِ ذات ہی اک مشغلہ ہے میرے لئے میں لڑ رہی ہوں اکیلی کئی محاذوں پر
یہ خود سے جنگ تو اک مرحلہ ہے میرے لئے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

کوئی چہرہ ، شناس سا گزرا
وہ یہیں ہے قیاس سا گزرا اور اک رات کاٹ لی میں نے
اور اک دن اداس سا گزرا درد آنکھوں سے پھوٹ کر نکلا
پل کوئی ناسپاس سا گزرا جانے کس سچ کا سامنا کل ہو
شب کے دل میں ہراس سا گزرا پھر سر آئینہ اداسی کا
دیدہ ئ التماس سا گزرا یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

زخم کی گہرائی سے لپٹے رہے
رات بھی تنہائی سے لپٹے رہتے سی کے اپنے لب ترے اعزاز میں
جابجا رسوائی سے لپٹے رہے چاند میں دیکھا کئے چہرہ ترا
گونجتی شہنائی سے لپٹے رہے وصل کی بدشکل تصویروں میں ہم ہجر کی رعنائی سے لپٹے رہے زندگی کے ساحلوں پر عمر بھر
بے بسی کی کائی سے لپٹے رہے بجلیاں کوندیں جو تیری یاد کی
خواب استقرائی سے لپٹے رہے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

مسمار کر کے خواب مرے وہ چلا گیا
لے کر گل و گلاب مرے وہ چلا گیا ساری حقیقتیں سرِ بازار کھل گئیں
یوں نوچ کر نقاب مرے وہ چلا گیا کیا کیا نہ درد دے گیا رونے کے واسطے
زخموں سے بھر کے باب مرے وہ چلا گیا آہیں بچھا گیا مری سانسوں کے آس پاس
کر کے سوا عذاب مرے وہ چلا گیا اک لذتِ گناہ فقط رہ گئی ہے پاس
لے کر سبھی ثواب مرے وہ چلا گیا یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

پھر ہوائے نم میں خالی ہو گئے آنکھوں کے جام
دیکھ تُو آ کر ، گزاری کس طرح اک اور شام کاغذی امید کی کشتی، حقیقت کا سفر
آگ میں چلنا پڑا اک خواب میں کر کے قیام ضبط کا آنچل کبھی وابستگی کا پیراہن
یاس میں لپٹا رہا جسمِ تمنا بس مدام منزلِ نادیدہ کی جانب رواں تھے نیند میں
اور غم کی سرزمیں کے خون آلودہ تھے گام رات بھر رویا کروں یادوں کے بستر میں پڑے
کروٹیں لے کر شبِ تیرہ کہاں ہو گی تمام یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

سکونِ دل کے لیے ایک ہی دوا کی تھی
خدا سے بارہا تیری ہی التجا کی تھی یہ پائوں پھر تری دہلیز سے ہٹے ہی نہیں
مسافتوں کی ترے در پہ انتہا کی تھی وہ جن گناہوں کی لذت ثواب جیسی تھی
ترے ہی نام سے ان سب کی ا بتدا کی تھی بتائوں ترکِ مراسم کا کیا سبب کہ مری
محبتوں کی کہانی تو بس جفا کی تھی ہوا تھا تیرا گماں خود پہ بارہا مجھ کو
مہک تیری مجسم بدن میں کیا کی تھی یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

عالم وگرنہ عشق میں کیا کیا نہیں لگا
دیکھا تھا جسیا خواب میں ، ویسا نہیں لگا ٹوٹا ہوا ہے ایسے تعلق جہان سے
ملنے پہ آشنا بھی شناسا نہیں لگا جاتے ہوئے کو دور تلک دیکھتے رہے
ایسے کہ پھر وہ لوٹ کے آتا نہیں لگا اک دن ہوئے تھے گرمی ئ بازار کا سبب
پھر اپنے نام پر وہ تماشا نہیں لگا ویسے تو اپنی ذات میں سارے اکائی ہیں
اپنی طرح سے کوئی بھی تنہا نہیں لگا دل کے معاملے میں تھی وابستگی عجیب
جب کہہ دیا پرایا تو اپنا نہیں لگا یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

جہاں تمثیل تم میں ہو گیا ہے
یہ کیا ترسیل تم میں ہو گیا ہے کھلا جو خواب میں کل شب گلستاں
وہی تبدیل تم میں ہو گیا ہے سر آئینہ ہوتا تھا مرا عکس
کہیں تبدیل تم میں ہو گیا ہے تسلسل سے سفر میرے لہو کا
ہزاروں میل تم میں ہو گیا ہے ذرا اپنے بدن کو چھو کے دیکھو
کوئی تحلیل تم میں ہو گیا ہے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

دور دنیا سے کہیں ۔۔ دل میں چھپا کر رکھوں
تم حقیقت ہو مگر خواب بنا کر رکھوں میں تو بس خاک ہوں اک روز بکھر جائوں گی
چند لمحے سہی خود کو تو سجا کر رکھوں تم رگ و پے سے لپٹ جائو چنبیلی کی طرح
اور میں یاد کو خوشبو میں بسا کر رکھوں میں نے چاہا ہے تمہیں ایک صحیفے کی طرح
دل و جاں آیہ ئ مژگاں سے لگا کر رکھوں تم جو کہہ دو کہ شبِ تار میں آنا ہے تمہیں
میں ہوائوں کو چراغوں میں رچا کر رکھوں تم جو آتے ہو تو جی لیتی ہوں ورنہ اکثر
اپنی آہوں کو بھی سینے میں دبا کر رکھوں زندگی بھر میں تعاقب کروں سائے کی طرح
پائوں رکھوں تو قدم تم سے ملا کر رکھوں یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

کب تک ڈرے کوئی تری بجلی کے خوف سے
جتنی ہے جس کے نام خدایا گرا بھی دے گھٹنوں کے بل سہی یہ مسافت ہوئی تمام
دہلیزِ جاں پہ بھی مرے پائوں نہ رک سکے طوفان میں چٹان کی صورت کھڑی رہی
دریا نہ تھی کہ راہ بدلتی نئے نئے کمزور آسمان سے لڑنا فضول ہے ایسا نہ ہو کہ لاگ میں سر پر ہی آگرے آنکھوں سے میری ایک زمانے نے پڑھ لیا
خاموش داستاں کے چرچے بہت ہوئے مثلِ سحاب رخ پہ ہوا کی اڑے تو کیا
میرے لئے تو دھوپ میں سایہ نہ کر سکے دل یوں ترے خیال سے غافل نہ ہو سکا
دھڑکن پہ تیرے لمس کے نقشے بنے رہے خاموش شب میں سسکیاں گونجی ہیں صبح تک
کس درجہ روئی ہوں مرے تکیے سے پوچھ لے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

جنھیں نگاہ اٹھانے میں بھی زمانے لگے
وہ جا بجا میری تصویر کیوں سجانے لگے فریفتہ ہوں میں اس پر تو وہ بھی مجھ پر ہے
کہ اپنے خواب میں اکثر مجھے بلانے لگے یہ دل عجیب ہے غم کی اٹھا کے دیواریں
ترے خیال کے آتے ہی ان کو ڈھانے لگے تُواپنی عمر کی محرومیاں مجھے دے دے
میں چاہتی ہوں تری روح مسکرانے لگے یہ کیسا ہجر ہے جس پر گمان وصل کا ہے
تُو مرے پاس رہے جب بھی اٹھ کے جانے لگے خدا کرے کہ کہیں تجھ کو تیری فطرت سا
کوئی ملے کبھی پھر میری یاد آنے لگے ہوا ہے طے وہ سفر ایک جست میں مجھ سے
کہ جس پہ پائوں بھی دھرتے تجھے زمانے لگے یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

منزل کی جستجو میں تو چلنا بھی شرط تھا
چنگاریوں کے کھیل میں جلنا بھی شرط تھا یہ اذن تھا کہ خواب ہوں رنگین خون سے
اور جاگنے پہ رنگ بدلنا بھی شرط تھا مجروح ہو کے درد چھپانا تھا لازمی
اور زخم آشنائی کا پھلنا بھی شرط تھا گرنا تھا ہو قدم پہ مگر حوصلے کے ساتھ
اور گر کے بار بار سنھبلنا بھی شرط تھا اُس حسن سرد مہر کے قانون تھے عجیب
اپنا جگر چبا کے نگلنا بھی شرط تھا اپنے خلاف فیصلہ لکھنا تھا خود مجھے
پھر اُس بریدہ ہاتھ کو ملنا بھی شرط تھا یاسمین حبیب کی شاعری  

آسیب سے پرچھائیں تک صفحہ ء اول یاسمین حبیب کی شاعری Yasmin Habib poetry

 

غزل

سوال کرتے اگر وہ جواب دیتا کوئی
ہر ایک زخم کا کیسے حساب دیتا کوئی یہ ابجدِ غمِ جاناں تو ہو گئی ازبر
جہاں کی نوحہ گری پر کتاب دیتا کوئی شبِ فراقِ مسلسل میں چشمِ تر اپنی
لگی کہاں کہ وہ آنکھوں کو خواب دیتا کوئی ملا ہوا تھا گریباں بھی اس کے دامن سے
کیا اور میرے بدن پر نقاب دیتا کوئی گمان ہوتا سفر میں چمن سے گزرے ہیں
کہ سوکھا ہی سہی ہم کو گلاب دیتا کوئی چٹخ کے دھوپ میں راحت بدن کو ملنے لگی
تو کیسے چھائوں کا آخر عذاب دیتا کوئی ہمارے نام دعائیں اسی کو لگتی گئیں
تو بدعا ہمیں خانہ خراب دیتا کوئی یاسمین حبیب کی شاعری