تبادلۂ خیال صارف:Ghulam hssn
نیا موضوعبسم اللہ الرحمن الرحیم غلام حنکہ اسلام میں مناظرے کی اہمیت اور اسلامی مقاصدکی پیشرفت میں اس کاکردار حقائق کوسمجھنے اورواقعات کوجاننے کے لئے مناظرہ ومباحثہ کرناخصوصادورحاضرمیں جب کہ دامن علم وسیع ہوچکاہے کسی مہذب مقصدتک پہنچنے کاقوی ترین راستہ ہے۔ اگربالفرض تعصب اورہٹ دھرمی کے سبب اسے قبول نہ بھی کیاجائے توکم ازکم اتمام حجت کے لئے توکافی ہے کیونکہ یہ بات توواضح ہے کہ تلوارکے زورپرزبردستی اپنے عقیدے کودوسروں پرمسلط نہیں کیاجاسکتا اوراگرمسلط کربھی دیاجائے تووہ بے بنیاد اورعارضی ثابت ہوتاہے۔ خدانے بھی قرآن مجیدمیں اس موضوع کوکافی اہمیت دی ہے اوراسے اصول قراردے کرچارمواقع پراپنے پیغمبرۖ سے ارشادفرمایاہے: قل ھاتوبرھانکم ان کنتم صادقین(سورہ ربقرہ آیت١١١)۔ اے نبیۖ! آپ مخالفین سے کہہ دیں کہ اگرتم لوگ سچ کہتے ہوتودلیل لے آؤ۔ لہذااسلام جب دوسروں کودلیل وبرہان اورمنطق کی دعوت دیتاہے توضروری ہے کہ خودبھی دلیل اوراستدلال کے ذریعے اپنی بات کوثابت کرے۔مزید پیغمبراکرمۖ کومخاطب کرتے ہوئے ارشاداگ ادع الی سبیلک ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلھم بالتی ھی احسن(سورہ نحل آیت١٢٥)۔ اے رسول ۖ! آپ ان لوگوں کواپنے پروردگارکی طرف حکمت اوراچھی نصیحت کے ذریعے بلائیں اوران سے مناظرہ بھی کریں اس طریقے سے جو(لوگوں کے نزدیک)سب سے اچھاطریقہ ہے۔ اس آیت میں حکمت سے مرادوہ محکم ترین راستہ ہے جوعلم وعقل پرمبنی ہواورموعظہ حسنہسے مرادوہ معنوی نصیحتیں ہیں جوسننے والوں کے احساسات کوحق کی طرف مائل کرتی ہیں۔ البتہ بعض لوگ سخت اورہٹ دھرم ہوتے ہیں جوہرچیزسے انکارکرتے ہیں اوراپنے باطل افکاروخیالات کوہرطرح سے منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذاایسے لوگوں کووعظ ونصیحت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان سے مقابلہ کیاجائے لیکن یہ مقابلہ حسن اخلاق اورشائستہ طریقے سے ہوجس میں سچ اورحسن اخلاق پایاجائے۔ لہذافن مناظرہ میں ضروری ہے کہ مناظرہ کرنے والے مناظرے کے طورطریقے سے خوب آگاہی رکھتے ہوں تاکہ جہاں بحث ومناظرے کی ضرورت محسوس کی جائے وہاں بحث ومناظرہ کیاجائے۔ جیساکہ پیغمبرۖاکرم نے مختلف حالات میں تین طریقوں کااستعمال کیا اوراس طریقے سے مختلف افرادکواسلام کی دعوت دی۔ امام جعفرصادق علیہ السلام نے چارہزارشاگردوں کی تربیت کی اوران کو مختلف علوم کاماہربنایاجن میں مناظرہ اوردیگر علوم شامل تھے۔ چنانچہ جب کوئی مخالف علمی مذاکرہ کرنے اوربحث کرنے آتااورامام کے پاس وقت نہ ہوتاتوآپ اپنے شاگردوں میں ہی سے کسی کوحکم دیتے کہ وہ اس آنے والے سے بحث ومناظرہ کرے۔ ابن ابی العوجاء دیصانی اورابن مقنع جیسے دنیاپرست اورمنکرخدانے بارہاامام صادق اوران کے شاگردوں سے مناظرہ کیا۔ امام ان کی باتوں کوسنتے اوراس کاحرف بہ حرف جواب دیتے تھے یہاں تک کہ ابن ابی العوجاء کہتاہے کہ امام صادق پہلے ہم سے کہتے تھے کہ تم لوگوں کے پا س جوبھی دلیل ہولے آؤاورجب ہم اپنی تمام دلیلوں کوآزادنہ طورپربیان کردیتے توامام ان دلیلوں کوخاموشی سے سنتے ہم یہ گمان کرتے کہ شایدہم نے امام کومغلوب کردیاہے لیکن جب امام کی باری آتی توآپ بڑی محبت اورنرم لہجے کے ساتھ اس طرح ہمارے ایک ایک سوال کاجواب دیتے کہ ہمارے لئے مزیدکسی قسم کے بہانے کی گنجائش باقی نہیں رہتی تھی۔ قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم کے مناظروں کاذکرکیاگیاہے۔ قرآن حضرت ابراہیم کے بعض مناظرات کاتذکرہ کرکے بتلاناچاہتاہے کہ حضرت ابراہیم کے پیروکاراپنے اجتماعی،سیاسی اوراعتقادی مسائل میں غافل نہیں تھے بلکہ مختلف محاذوں میں بالجملہ تہذیب کے محاذمیں دلائل اوراپنی منطقی گفتگوسے دین خداکادفاع کیاکرتے تھے۔ مثلاحضرت ابراہیم کی بت شکنی کے واقعات کے بارے میں قرآن میں ملتاہے کہ انہوں نے تمام بتوں کوتوڑدیاتھا لیکن بڑے بت کوباقی رکھا،جب نمرودکے دربارمیں ان سے پوچھاگیاکہ تم نے بتوں کوکیوں توڑا؟توآپ جواب میں فرماتے ہیں: بل فعلہ کبیرھم فاسئلوان کانواینطقون(سورہ انبیاء آیت٦٢)۔ یہ کام بڑے بت کاہے اگروہ بت بول سکتے ہیں توان سے پوچھ لو۔ حضرت ابراہیم نے اس جواب میں درحقیقت بت پرستوں کے اعتقادکے مسئلے کوموضوع قراردیتے ہوئے اس استدلال کوان کے سامنے پیش کیاہے گویا ان کومنہ توڑجواب دیدیاہے۔ بت پرست کہنے لگے کہ تم خودجانتے ہوکہ یہ بت بول نہیں سکتے۔ حضرت ابراہیم نے اس موقع کوغنیمت سمجھتے ہوئے کہاتو کیوں ان بتوں کی پرستش کرتے ہوجوکسی قسم کاکوئی نفع ونقصان نہیں رکھتے اورنہ کسی کام پران کوکوئی قدرت حاصل ہے۔ افسوس ہے تم لوگوں پراورتمہارے معبودوں پرکیاتم لوگ اتنی سی بات کوبھی نہیں سمجھتے۔ دوسری جگہ قرآن حضرت ابراہیم کے ایک اورمناظرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نمروداورحضرت ابراہیم کے درمیان گفتکوکاتذکرکرتاہے۔ جس میں نمرود نے حضرت ابراہیم سے سوال کیاکہ آپ کاخداکون ہے؟ حضرت ابراہیم نے جواب دیاکہ میںاس خداکوسجدہ کرتاہوںجس کے ہاتھ میں موت وحیات ہے نمرودجوحیلہ وبہانے سے سادہ لوح افراد کواپنے اردگرجمع کئے ہوئے تھاجب اس نے دیکھاکہ لوگوں پرحضرت ابراہیم کی بات کااثرہورہاہے توچلایاکہ اے نادان لوگو! قدرت تومجھے بھی حاصل ہے میں زندہ کرتاہوں اورموت دیتاہوں کیاتم لوگ نہیں دیکھتے کہ سزائے موت کے مجرم کوآزادکردیتا ہوں اورجس کوسزانہیں ہوتی اگرچاہوں تواس کوقتل کردیتاہوں اورپھراسی لمحے نمرودنے ایک مجرم کوجوسزائے موت کاحکم سن چکاتھا حکم دے کرآزادکردیااور وہ مجرم جس کے لئے سزائے موت مقررنہیں تھی اسے سزائے موت دیدی۔ حضرت ابراہیم نے نمرودکی ان غلط باتوں کے مدمقابل اپنے استدلال کوجاری رکھتے ہوئے کہاکہ صرف موت اورحیات ہی خداکی قدرت میں نہیں ہے بلکہ تمام کائنات کی تمام مخلوق اس کی تابع ہے اسی بناء پرمیراپروردگارسورج کومشرق سے نکالتاہے اورمغرب میں غروب کرتاہے اگرتم سچ کہتے ہوکہ لوگوں کے خداہوتوذراسورج کومغرب سے نکال دواورمشرق میں غروب کرکے دکھاؤقرآن کہتاہے: فبھت الذی کفرواللہ یھدی القوم الظالمین(سورہ بقرہ آیت٣٥)۔حضرت ابراہیم کی اس بات پروہ کافرہکابکارہ گیااورخداہرگزظالموں کی ہدایت نہیں کرتا۔ یہ تھیں حضرت ابراہیم کے مناظروں کی دومثالیں جنہیں حضرت ابراہیم نے مخالفین کے سامنے پیش کرکے حجت کوتمام کیا۔ قرآن میں مخالفوں سے حضرت ابراہیم کے جن مناظروں کاتذکرہ ہواہے وہ سب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مناظرے میں صحیح طریقے کواپنایاجاناچاہئے اورتہذیبی آثارمیں ہونے والی سازشوں کے مقابلے میں(مناسب)دلائل اورصحیح مناظروں سے مسلح ہوناچاہئے تاکہ وقت پڑنے پرحق کادفاع کیاجاسکے،ارشادہوتاہے: یاایھاالذین آمنواخذوحذرکم(سورہ نساء آیت٧١)۔ اے ایمان والو!اپنی حفاظت کے ذرائع کواچھی طرح سے لے لو۔ یہ آیت اس بات کوبیان کرتی ہے کہ کہ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ تمام حالات میں اپنے آپ کودشمنوں اورسازش کرنے والوں سے مقابلے کے لئے تیاررکھیں ان مواردمیں سے علمی وادبی آثاربھی ہیں کیوںکہ ان کے استعمال کے مواقع دوسری تمام چیزوں سے زیادہ گہرے ہیں اوریہ بات بھی واضح ہے کہ فکروتہذیب اسی وقت پایہ تکمیل تک پہنچتی ہیں جب مناظرہ،بحث اورعلمی تحقیق اوردلائل وغیرہ کے طریقوں سے بہترطورپر آشنائی حاصل کی جائے اوراس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام چیزوں سے آشنائی اوربہرہ مندہوکرمناسب اوقات میں حق کادفاع کیاجاسکے۔ حضرت امام صادق مخالفین سے مناظرے کی ضرورت کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں: خاصموھم وبینولھم الھدی الذی انتم علیہ وبینولھم ضلالتھمووباھلوافی علی علیہ السلام(بحارج١٠ص٤٥٢)۔ اپنے مخالفوں سے بحث اورمقابلہ کروجس راستے کے تم راہی ہواس ہدایت کے راستے کولوگوں کے لئے بیان کرواورجن راستوں سے گمراہ ہوئے ہوانہیں ان لوگوں کے لئے واضح کرواورحضرت علی علیہ السلام کی حقانیت کے سلسلے میں ان سے مباہلہ کرو۔ یعنی باطل کے طرفداروں سے نفرت اورخداسے ان کے مصیبت وبلامیں مبتلاء ہونے کی درخواست کرو۔ اسی بناء پرپیغمبراسلامۖ اورہمارے اماموں علیہم السلام اورمذہب تشیع کے علماء نے مناسب موقع پربحث،مقابلے اورقانع کرنے والے شواہدودلائل کے ذریعے مناظرات کئے اوراس کے ذریعے بہت سے لوگوں کوہدایت کے راستوں کی طرف راہنمائی کی اورگمراہیوں سے نجات دلائی۔ امام باقرارشادفرماتے ہیں: علماء شیعتنا مرابطون فی الثغرالذی یلی ابلیس وعفاریتہ یمنعونھم عن الخروج علی ضعفاء شیعتناوعن ان یتسلط علیھم ابلیس وشیعتہ النواصب الافمن انتصب کان افضل ممن جاھدالروم والترک والخزرالف الف مرة لانہ یدفع عن ادیان محبینا وذلک یدفع عن ابدانھم(احتجاج طبرسی ج١،ص١٠٥)۔
ہمارے پیروکارعلماء ان سرحدی فوجوں کی مانندہیں جوابلیس اوراس کی فوج کے سامنے صف بستہ کھڑے ہیں اورہمارے شیعوں کوجب ابلیس اورا س کی فوج کے حملہ کے موقع پراپنابچاؤکرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں ان سے بچاتے ہیں اورابلیس کے تسلط اوراس کے ناصبی پیروکاروں سے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ آگاہ رہواے شیعہ صاحبان علم جودین اورمذہب وملت کے دفاع میںاپناقیمتی وقت صرف کرتے ہیں ان کی اہمیت ان سپاہیوں سے کئی درجہ بالاترہے جواپنے ملک ووطن اوراسلام کے دفاع میں کفاراوردشمنان اسلام سے جنگ کرتے ہیں اورشہیدہوتے ہیں اورہمارے دوستوں کے دین کے دفاع کرنے ولے ہیں جب کہ مجاہدصرف اپنے ملک کی جغرافیائی حدودکے محافظ ہوتے ہیں۔
شیخ محمودشلتوت مصری سے گفتگو الازہریونیورسٹی مصرکے بلندپایہ استاداورمفتی شیخ محمودشلتوت جواہل سنت کے سربرآوردہ علماء میں سے تھے اپنے ایک انٹرویوکے دوران کہتے ہیں کہ: تمام پہلوؤں کومدنظررکھتے ہوئے انصاف کی بنیادوں پرکوشش کرنے والاشخص جب اسلام کے بارے میں تحقیق کرتاہے تواسے شیعہ مذہب کی حقانیت پرمبنی ایسے بہت سے مواردکاسامناہوتاہے جس کی بناء پراسے یہ محسوس ہوتاہے کہ یہ دلائل بہت مضبوط ہیں اورشریعت اسلامی کے مقاصداورمعاشرے اورنسلوں کی تربیت کے لئے بہت سازگارہیں اسطرح یہ چیزیں انسان کوشیعہ مذہب اوراس کی ہدایات کی طرف مائل کردیتی ہیں۔ پھرچندمعاشرتی اورخاندانی مسائل کونمونہ کے طورپریہ کہتے ہوئے ذکرکیاکہ: جب بھی ان امورمیں سے مجھ سے کوئی سوال کرتاہے تومیں شیعوں کے فتاوی کی بنیادوں پران مسائل کاجواب دیتاہوں(اخبارالیقظہ بغدادشمارہ٩٦۔٧ شعبان)۔ قاہرہ کی یونیورسٹی الازہرکے ایک ایسے مقبول اوربڑے استادکااعتراف بہت پرامیداورتوجہ کوجلب کرنے والاہے کیونکہ وہ شیعہ مذہب کودلیل وبرہان کی بنیاد پراستواراوراسلام کے پا ک وصاف مقاصدکے موافق سمجھتے ہیں۔ آگے چل کرمذہب شیعہ کے صحیح ہونے کے بارے میں ان کے تاریخی فقرے اورقاہرہ کے بزرگ علماؤں کے ذریعے ان کی تائیدکے بارے میں مناظرہ نمبر٨٥میں تذکرہ کیاجائے گا۔ زیرنظرکتاب میں ان مناظرات کانمونہ کے طورپرذکرگیاگیاہے جوپیشوایان اسلام پیغمبراکرمۖ و ائمہ اطہارعلیہم السلام اورعلماء کرام نے ماضی اورحال میں منکر اورنادان افردادسے مناسب رویے کواپنا نے کے طریقوں کی عکاسی کرتے ہیں اورہمیں سکھاتے ہیں کہ کس طرح سے دین حق کادفاع کیاجائے۔ دلائل واستدلال کافن اورصحیح مناظرہ،افرادکومتوجہ کرنے یاانہیں قانع کرنے میں بہت مؤثرہے اوران طریقوں کوسیکھانابہت ضروی ہے ہمیں چاہئے کہ مختلف مواقعوں پرگمراہ اورنادان لوگوں کی ہدایت کے لئے کمربستہ رہیں۔ اس کتاب کودوحصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔ حصہ اول میں حضرت میں حضرت خاتم النبینۖ،ائمہ طاہرین اوران کے شاگردوں کے مناظرے ہیں جوانہوں نے مختلف لوگوں کے ساتھ اسلام کے مختلف امور کے بارے میں کئے۔ حصہ دوم میں معروف اورمحقق علماء اسلام کے مختلف گروہوں کے ساتھ مناظرے ہیں مجموعایہ کتاب ١٠١مناظروں پرمشمل ہے ۔امیدہے کہ اس مجموعہ کے ذریعے مناظرہ کاطریقہ اوراسلامی مقاصدکی پہچان کی جانب پیش رفت میںمددملے گی اورہم علمی وادی میں ہونے والی سازشوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔ محمدمحمدی اشتہاردی قم مقدسہ(ایران)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیغمبراسلام کے مناظروں کے چندنمونے
١
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کااسلام مخالف پانچ مختلف مذاہب کے گروہوں سے مناظرہ جن میں سے ہرگروہ پانچ افرادپرمشتمل تھا۔مجموعی طورپر٢٥ افرادتھے جنہوں نے آپس میں یہ طے کیاکہ پیغمبراسلام کی خدمت میں پہنچ کرمناظرہ کیاجائے،یہ پانچوں گروہ مدینہ طیبہ میں پیغمبراکرمۖ کے پاس آئے اورآپۖ کے اطراف میں بیٹھ گئے۔پیغمبراسلام ۖ نے بڑی خوش اخلاقی سے انہیں بحث شروع کرنے کی اجازت دی۔
یہودیوں کے گروہ نے کہا:کہ ہماراعقیدہ ہے کہ حضرت عزیر (عزیرحضرت موسی کے بعدآنے والے بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ہیں)خداکے بیٹے ہیں لہذاہم اس موضوع پرآپ سے مناظرہ کرنے آئے ہیں اگراس موضوع پرحق ہمارے ساتھ ہوااورآپ ہمارے ہم عقیدہ ہوگئے توہم آپ پرسبقت لے جانے والوں میں سے ہوں گے اوراگرآپ ہے ہمارے ساتھ موافقت نہ کی توآپ کے ساتھ مخالفت اوردشمنی رکھنے پرمجبورہوجائیں گے۔
عیسائیوں کے گروہ نے کہا:کہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی خداکے بیٹے ہیں اورخدانے ان کے ساتھ اتحادکیاہے۔لہذاہم آپ سے مذاکرہ کرنے آئے ہیں اگرآپ نے ہماری پیروی کی اورہمارے عقیدے سے متفق ہوگئے توہم آپ پرسبقت لے جائیں گے ورنہ ہم آپ کی مخالفت اورآپ سے دشمنی کرنے پرمجبورہوجائیں گے۔
مادہ پرست گروہ نے کہا:کہ ہماراعقیدہ ہے کہاس دنیاکی ابتداء اورانتہا نہیں ہے بلکہ یہ دنیاہمیشہ سے ہے۔لہذااس موضوع پرہم آپ سے بحث کرنے آئے ہیں۔اگرہم کامیاب ہوگئے تومعلوم ہوجائے گاکہ حق ہمارے ساتھ ہے اوراگرآپ نے ہمارے ساتھ اتفاق نہ کیاتوہم آپ کی مخالفت کریں گے۔
دوئی پرست گروہ نے کہا:کہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ اس دنیاکوپالنے والے اورچلانے والے دوہیں ایک پروردگارنورہے ایک پروردگارظلمت ہے۔ لہذااس سلسلے میں ہم آپ سے مناظرہ کرنے آئے ہیں تاکہ آپ بھی اس مسئلے میں ہمارے ہم عقیدہ ہوجائیں۔اگرآپ نے ہمارے ساتھ موافقت نہ کی توہم آپ کی مخالفت پرآمادہ ہوجائیں گے۔
بت پرست گروہ نے کہا:ہم اعتقادرکھتے ہیں کہ بت ہمارے خداہیں۔لہذاآپ سے بحث کرنے آئے ہیں تاکہ آپ کوبھی اس مسئلے میں قائل کریں۔ اگرآپ نے ہماری بات نہ مانی توہم آپ کی مخالفت کریں گے۔
پیغمبراسلام ۖ کے جوابات: پیغمبراسلامۖ نے پہلے سب کوایک عام سامکمل جواب دیاکہ تم سب نے اپنے اپنے عقائدکااظہارکیااب میری باری ہے کہ پہلے میں اپنے مذہب کااظہارکروں۔لہذاسنو!میں خدائے یکتاوحدہ لاشریک پراعتقادرکھتاہوں اوراس کے علاوہ ہرخداکاانکارکرتاہوں،خدائے واحدنے مجھے اس کائنات والوں کے لئے اپناپیغمبربناکربھیجاہے،میں رحمت خداکی خوشخبری دینے والااوراس کے عذاب سے ڈرانے والاہوں،میںدنیاوالوں پرخداکی طرف سے حدت ہوں اورخداہی مجھ کومیرے مخالفین اوردشمنوں کی اذیتوں سے بچانے والاہے۔پھرپیغمبراسلامۖ ترتیب کے ساتھ ہرگروہ کی طرف متوجہ ہوئے اورہرایک کوعلیحدہ علیحدہ جواب دیناشروع کیا۔پہلامناظرہ یہودیوں کے گروہ کے ساتھ تھاجن کے ساتھ اس طرح سے مناظرہ ہوا:
پیغمبراکرمۖ :کیاتم چاہتے ہوکہ میںبغیردلیل کے تمہاری باتوں کوقبول کرلوں؟
یہودی گروہ:(دلیل یہ ہے کہ)چونکہ تورات بالکل ختم ہوچکی تھی کوئی بھی اسے زندہ کرنے والانہ تھااورکیونکہ حضرت عزیر نے اسے زندہ کیااس وجہ سے ہم انہیں خداکابیٹاماننے لگے۔
پیغمبراکرمۖ :اگرحضرت عزیر کوخداکابیٹاماننے کے لئے تم لوگوں کے پاس یہی دلیل ہے توحضرت موسی اس کے زیادہ مستحق ہیں اس لئے کہ وہ تورات کولانے والے ہیں اورصاحب معجزات بھی ہیں ایسے معجزات جن کااعتراف آپ لوگ بھی کرتے ہیں توپھرکیوں تم لوگ حضرت موسی کے بارے میں ایسانہیں کہتے جن کامقام ان سے بھی ا علی تھا۔دوسری طرف اگرتم خداکابیٹاہونادنیاوی باپ بیٹے کی طرح تصورکرتے ہوکہ وہ خداسے ہوئے ہیں تواس صورت میں گویاتم دیگرمو جودات کی طرح خداکوبھی ایک مادی اورجسمانی اورمحدودموجودقراردیتے ہوجس کی بناپریہ لازم آئے گاکہ خداکابھی ایک پروردگارتصورکیاجائے اوراسے کسی خالق کامحتاج سمجھاجائے گا۔
یہودی گروہ: ہمارامقصدحضرت عزیر کے خداکے بیٹے ہونے کاوہ نہیں ہے جوآپ نے فرمایاہے کیونکہ اس طرح کہناسراسرکفراورجہالت ہے بلکہ ہمارامقصد فقط ان کی شرافت واحترام ہے جس طرح ہمارے بعض علماء اپنے ممتازشاگردوں کواپنابیٹاکہتے ہیں۔یہاں کوئی باپ بیٹے کی رشتہ داری نہیں ہوتی،لہذا خداوندعالم نے بھی حضرت عزیر کوان کے احترام میں اپنابیٹاکہاہے۔لہذاہم بھی اسی بناپران کوخداکابیٹاکہتے ہیں۔
پیغمبراکرمۖ : تمہاراجواب اب بھی وہی ہے جومیں نے پہلے دیاہے کہ اگرحضرت عزیر کوخداکابیٹاماننے کی یہی وجہ ہے توضروری ہے کہ حضرت موسی جوحضرت عزیر سے بلندترمقام رکھتے ہیں خداکابیٹاماناجائے کبھی کبھارخدالوگوں کوان کے دلائل کے ذریعے قانع کرتاہے آپ لوگوںکی دلیل اس بات کوظاہر کرتی ہے کہ حضرت موسی کے بارے میں حضرت عزیر سے بڑھ کرکہیں،آپ نے مثال دی اورکہاکہ ایک ایسااستادجواپنے شاگردکے ساتھ کسی قسم کارشتہ نہیں رکھتا اس کے احترام میں کہتاہے کہ اے میرے بیٹے،تواس قسم کے جملے اس کی شرافت واحترام کوظاہرکرتے ہیں جس کااحترام زیادہ ہوگااس کی شان میں اتنے ہی زیباالفاظ استعمال کئے جائیں گے۔توپھرآپ لوگوں کے نزدیک یہ بھی رواہوناچاہئے کہ موسی خداکے بیٹے یابابھائی ہیں کیونکہ موسی کامقام عزیر سے بلندہے اب میں پوچھتاہوں کہ آیاآپ لوگ مناسب سمجھتے ہیں کہ حضرت موسی کوبھی خداکابیٹایابھائی قراردیاجائے اورخداحضرت موسی کواحترامااپنابیٹایابھائی یااستاد یاراہنماقراردے؟یہودی جواب نہ دے سکے اورحیران وپریشانی کے عالم میں کہنے لگے ہمیں اتنی مہلت دیں کہ ہم تحقیق کریں۔
پیغمبراکرمۖ :اگرآپ لوگ اس مسئلے میں خالص وپاک دل اورانصاف کے ساتھ غوروفکرکریں توخداضرورحقیقت کی جانب آپ کی راہنمائی کرے گا۔
دوسرامناظرہ مسیحی گروہ کے ساتھ:
پیغمبراکرمۖ اب مسیحی گروہ کی طرف متوجہ ہوئے اورکہاکہ یہ جوآپ لوگ کہتے ہیں کہ خدانے قدیم میں اپنے بیٹے حضرت مسیح کے ساتھ اتحادکیاہے اس سے آپ کی کیامرادہے؟آیااس سے آپ لوگوں کی مرادیہ ہے کہ خداوندعالم نے جوکہ قدیم ہے اپنے درجے سے نیچے آکرایک حادث وجود(یعنی پیداہونے والے)کے ساتھ اتحادکیااورموجودبن گیا،یااس کے برخلاف حضرت عیسی جوایک حادث اورمحدودموجودہیں ترقی کرکے پروردگارقدیم کے ساتھ وجود واحد بن گئے،یااتحادسے آپ لوگوں کی مرادحضرت عیسی کااحترام اورشرافت ہے اگرپہلاقول آپ لوگوں کاموردنظرہے یعنی خدااپنے قدیم وجودسے تبدیل ہوکر وجودحادث بن گیاتویہ محال ہے کیونکہ انسانی عقل اس بات کوقبول نہیں کرتی کہ محدوداورازل سے موجودہونے والاوجوددونوں ایک بن جائیں اوراگر دوسرے قول کوقبول کیاجائے تووہ بھی محال ہے کیونکہ عقل کی نظرمیںایک محدوداورحادث چیزایک لامحدوداورازلی چیزمیں تبدیل نہیں ہوسکتی اوراگرتیسرے قول کوقبول کرلیاجائے کہ حضرت عیسی دوسرے بندوں کی طرح حادث ہیں لیکن خداکے نزدیک لائق احترام ہیں اس صورت میں بھی خدااورعیسی کی برابری اوراتحاد قابل قبول نہیں ہوگی۔
مسیحی گروہ:کیونکہ خدانے حضرت عیسی کوبہت سے امتیازات دئیے ہیںاورمعجزات اورحیرت انگیزکام کرنے کااختیاردیاہے اسی وجہ سے انہیں اپنے بیٹے سے تعبیرکیاہے اوران کاخداکابیٹاہونااحترام کی وجہ سے ہے۔
پیغمبراکرمۖ :آپ لوگوں نے سناکہ اسی قسم کی گفتگویہودی گروہ کے ساتھ بھی ہوچکی ہے جس کانتیجہ یہ ہے کہ وہ دوسرے لوگ جومقام ومنزلت کے لحاظ سے حضرت عیسی سے بھی بالاترہیں انہیں(نعوذباللہ)خداکابیٹایااستادیابھائی ہوناچاہئے۔عیسائی گروہ کے پاس اس اعتراض کاکوئی جواب نہ تھااورنزدیک تھا کہ وہ اس بحث ومباحثہ سے خارج ہوجاتے مگران میں سے ایک نے آگے بڑھ کرکہاکہ کیاآپ حضرت ابراہیم خلیل کوخداکادوست نہیں سمجھتے؟
پیغمبراکرمۖ :جی ہاں !سمجھتے ہیں۔
مسیحی گروہ :پس اسی طرح ہم بھی حضرت عیسی کوخداکابیٹامانتے ہیں آپ کیوں ہمیں اس عقیدے سے منع کرتے ہیں؟
پیغمبراکرمۖ : ان دونوں القاب کاآپس میں فرق ہے کیونکہ لغت میں خلیل خلہ ذرہ کے وزن سے لیاگیاہے جس کے معنی غریبی اورمحتاجی کے ہیں۔ حضرت ابراہیم کیونکہ خداکی طرف زیادہ متوجہ رہتے تھے اورغیرخداسے بالکل بے نیازہوکراپنے آپ کوصرف خداکامحتاج سمجھتے تھے۔لہذاخدانے ان کواپناخلیل قراردیا۔آپ لوگ خصوصیت کے ساتھ ان کے آگ میں ڈالے جانے کے واقعے کوملاحظہ کریں کہ جب انہیں منجنیق میں نمرودکے حکم سے ڈالاگیاتاکہ اس کی دہکائی ہوئی آگ میں پھینک دیاجائے،حضرت جبرئیل خداکی طرف سے ان کے پاس آئے اورفضامیں ان سے ملاقات کی اورکہنے لگے کہ میں خداکی طرف سے آیاہوں تاکہ آپ کی مددکروں،حضرت ابراہیم نے انہیں جواب دیاکہ میں خداکے علاوہ کسی سے مددنہیںچاہتااوراس کی مددمیرے لیے کافی ہے، وہ اچھامحافظ ہے۔لہذاخدانے اس وجہ سے ان کوخلیل یعنی خداکافقیرومحتاج بندہ قراردیااوراگرخلیل کے لفظ کوخلہکے معنوں میں لیاجائے تواس کے معنی یہ ہوں گے کہ پیدائش وحقیقت کے رموزواسرارسے آگاہی رکھنے والا۔لہذااس وجہ سے حضرت ابراہیم خلیل تھے۔یعنی حقیقت خلقت کے اسرارسے آگاہ تھے۔تواس طرح کے معنی مخلوق کوخالق سے تشبیہ دینے کاباعث نہیں بنتے۔اس صورت میں اگرحضرت ابراہیم اگرصرف خداکے محتاج نہ ہوتے تواسرار خلقت سے بھی آگاہ نہ ہوتے توخلیل بھی نہ ہوتے لیکن پیدائشی اوراولادی رشتوں میں ایک قسم کاذاتی پیونداوررابطہ ہوتاہے یہاں تک کہ اگرباپ بیٹے کواپنے سے دورکردے اوررابطہ توڑدے تب بھی وہ اس کابیٹاکہلائے گااوران کے درمیان باپ بیٹے کارشتہ باقی رہے گا۔اب اگرتمہاری دلیل یہی ہے کہ حضرت ابراہیم کیونکہ خلیل خداہیں لہذاحضرت عیسی بھی خداکے بیٹے ہیں تولازم ہے کہ حضرت موسی کوبھی خداکابیٹاکہویااسی طرح کاجواب جویہودیوں کو دیاگیاکہ مقام کے اعتبارسے نسبتوں کورکھاجاتاہے توکہناپڑے گاکہ موسی بھی (نعوذباللہ)خداکے بیٹے یااستادیابھائی ہوں جبکہ تم ایسانہیں کہتے۔ایک عیسائی گویاہواکہ انجیل نام کی کتاب جوحضرت عیسی پرنازل ہوئی،اس میںلکھاہے کہ حضرت عیسی نے کہاکہ میں اپنے باپ اورتمہارے باپ کی طرف جارہاہوں لہذااس عبارت کی بناپرحضرت عیسی نے اپنے آپ کوخداکابیٹاظاہرکیاہے۔
پیغمبراکرمۖ: اگرتم لوگ انجیل کومانتے ہوتوا س میں حضرت عیسی کے قول کے مطابق تمام لوگوں کوبھی خداکابیٹاماناجائے گاکیونکہ عیسی کہتے ہیں کہ :میں اپنے اورتمہارے باپ کی طرف جارہاہوں۔ اس جملے کامفہوم یہ ہے کہ میں بھی خداکابیٹاہوں اورتم بھی خداکے بیٹے ہودوسری طرف جوآپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کیونکہ شرافت واحترام کے لحاظ سے ایک خاص احترام رکھتے تھے لہذاخداوندعالم نے انہیں اپنے سے تعبیرکیاہے توتم لوگوں کی باتیں آپس میں تناقض رکھتی ہیں اس لئے کہ اس قول میں حضرت عیسی صرف اپنے آپ کوخداکابیٹانہیں کہتے بلکہ سب کوخداکابیٹاکہتے ہیں۔پتایہ چلاکہ نہ صرف یہ امتیازات دوسرے لوگوں میں موجودنہیں ہیں بلکہ حضرت عیسی بھی خداکے بیٹے نہیں ہیں۔آپ لوگ حضرت عیسی کے قول کونقل توکرتے ہیں مگران ہی کے خلاف بات کرتے ہیں،آپ لوگ باپ اوربیٹے کی نسبت کوجس کاتذکرہ حضرت عیسی کے کلام میں ہے غیرمعمولی معنی میں کیوں لیتے ہیں ہوسکتاہے کہ حضرت عیسی کی اس جملے سے مرادیہ ہوکہ میں حضرت آدم وحضرت نوح کی طرف جوسب کے باپ ہیں جارہاہوں جومعمول کے مطابق ہیں یعنی خدامجھے ان کی طرف لے جارہاہے۔آدم ونوح ہم سب کے باپ ہیں لہذااس جملے کے ظاہری اورحقیقی معنوں سے کیوں اختلاف کیاجائے اوردسرے معنی کاانتخاب کیاجائے۔ عیسائی گروہ نے جب اس قسم کامدلل جواب سناتوشرمندہ ہوکرکہنے لگے ہم نے آج تک کسی کونہیں دیکھاجس نے اتنی بھرپوری مہارت کے ساتھ ہم سے مقابلہ اوربحث کی ہوجیسی بحث آپ نے کی ہے۔لہذاہمیں مہلت دیں ہم اس سلسلے میں غوروفکرکریں۔
تیسرامناظرہ مادہ پرستوں کے ساتھ:
اب مادہ پرست اورمنکرین خداکے گروہ کی باری آئی ۔پیغمبراسلامۖ ان کی طرف متوجہ ہوکربولے کہ آپ لوگ اعتقادرکھتے ہیں کہ موجودات کاکوئی آغاز نہیں ہے اوریہ ہمیشہ سے تھی اورہمیشہ رہے گی۔
مادہ پرست: جی ہاں !یہی ہماراعقیدہ ہے کیونکہ نہ توہم نے موجودات کے آغازکودیکھااورنہ ہی اس کے فنااوراختتام کومشاہدہ کیا۔لہذاہمارااندازہ یہ ہے کہ موجودات دنیاہمیشہ سے ہیں اورہمیشہ رہیں گی۔
پیغمبراکرمۖ: لیکن میں تم لوگوں سے سوال کرتاہوں کہ کیاتم لوگوں نے موجودات کے ہمیشہ باقی ہونے اوررہنے کواپنی آنکھوں سے دیکھاہے؟اگرتم کہوکہ ہم نے دیکھاہے توپھریہ لازم آئے گاکہ تمہاراجسم اپنی طاقت عقل وفکرکے ساتھ ازل سے ابدتک موجودہوتاکہ تمام موجودات کے ازل سے ابدتک ہونے کودیکھ سکے جبکہ ایسی بات غیرمحسوس اورخلاف واقع ہے اوردنیاکے عقلمندافرادآپ کے اس دعوے کوجھٹلادیں گے۔
مادہ پرست: ہم اس طرح کاہرگزدعوی نہیں کرتے کہ اس کائنات کے قدیم اورموجودات کے ابدی ہونے کوہم نے دیکھاہے۔
پیغمبراکرمۖ :تم لوگ یکطرفہ اندازفکراختیارنہ کروکیونکہ تم لوگ پہلے یہ کہہ چکے ہوکہ نہ ہم نے تمام موجودات کودیکھاہے اورنہ ہم نے ان کے ہمیشہ سے ہونے اورہمیشہ باقی رہنے اورنابودہونے کودیکھاہے توپھرکیوں یکطرفہ اندازمیں یہ فیصلہ کرتے ہواورکہتے ہوکہ کیونکہ ہم نے موجودات کے فناہونے اورحادث ہونے کونہیں دیکھالہذاوہ ازل سے ابدتک ہیں۔(پھرپیغمبراکرمۖ نے ان سے ایک سوال ایساکرلیاجس میں ان کے عقیدے کوباطل کرتے ہوئے اس کائنات کی وجودات کے حادث ہونے کوثابت کیاگیاتھا)۔
پیغمبراکرمۖ: کیاتم لوگ دن ورات کوایک دوسرے کے بعدآتے جاتے ہوئے دیکھتے ہو؟۔
مادہ پرست: جی ہاں۔
پیغمبراکرمۖ: کیاتمہارے خیال میں اس بات کاامکان ہے کہ دن اوررات ایک جگہ جمع ہوجائیں اوران کی ترتیب الٹ جائے؟
مادہ پرست:نہیں۔
پیغمبراکرم: لہذایہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں جب ایک کاوقت ختم ہوجاتاہے تودوسرے کی بار آتی ہے۔
مادہ پرست:جی ہاں۔
پیغمبراکرمۖ: تم لوگوں نے بغیردیکھے دن اوررات کے حادث ہونے کااقرارکرلیاتوپھرخداکے منکرنہ بنو۔پھرپیغمبراکرم نے اپنی بات کواسی طرح جاری رکھتے ہوئے کہاکہ تمہارے عقیدے کے مطابق دن اوررات کی کوئی ابتداہے یانہیں یایہ ہمیشہ سے ہیں؟اگرتم لوگ یہ کہوکہ ان کی ابتداہے توہماری بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ یہ حادث ہیں اوراگرتم لوگ یہ کہوکہ ان کی ابتدانہیں ہے تویہ کہناپڑے گاکہ جس کاانجام ہے اس کاآغازنہیں ہوناچاہئے۔(جب دن اوررات کاانجام محدودہے توعقل کہتی ہے کہ ان کے آغازکوبھی محدودہوناچاہئے اوردن رات کے انجام کی محدودہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں اورایک دوسرے کے سپردکرتے ہیں یعنی ایک کے بعددوسراایک نئے طریقے سے وجودمیں آتاہے،پھرآپ نے فرمایاکہ: یہ جوآپ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیشہ سے ہے اپنے اس عقیدے کواچھی طرح سے سمجھابھی ہے یانہیں؟
مادہ پرست: جی ہاں ہم جانتے ہیں کہ ہم کیاکہہ رہے ہیں۔
پیغمبراکرمۖ : کیاآپ لوگ اس بات کامشاہدہ کرتے ہیں کہاس دنیاکی تمام موجودات کاایک دوسرے سے تعلق ہے اوراپنے وجودوبقامیں ایک دوسرے کی محتاج ہیں جس طرح ایک عمارت میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سیمنٹ بجری لوہابلاک وغیرہ سے مل کرتعمیرہوتی ہے لہذایہ سب اس بلڈنگ کی بقامیں ایک دوسرے کی محتاج ہیں جب اس جہان کی بقاہرچیزاسی طرح سے ہے توانہیں کیونکرقدیم اورغیرمحدودکہاجاسکتاہے اوراگران اجزاء کوجوایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اورایک دوسرے کے محتاج ہیں اگرقدیم مان لیاجائے توحادث ہونے کی صورت میں انہیں کیاکیاجائے گا۔مادہ پرست جواب دینے سے قاصررہے اورحادث ہونے کے معنی کوبیان نہ کرسکے اس لئے کہ وہ جتناحادث ہونے کے معنی بیان کرناچاہتے اسی قدرموجودات کے قدیم ہونے کی بات کی مخالفت ہوتی اورمجبوراقدیمی موجودات حادث بن جاتیں لہذا وہ بہت پریشان ہوئے اورکہاکہ ہمیں مہلت دی جائے تاکہ اس سلسلے میں غوروفکرکرسکیں۔
چوتھامناظرہ دوئی پرستوں کے ساتھ:
اب دوئی پرستوں اورمانویوں کی باری آئی جواس بات پراعتقادرکھتے تھے کہ اس دنیاکے دوخدااوردومدبرہیں ایک نوراوردوسراظلمت۔
پیغمبراکرمۖ: آپ لوگ کس بناپراس عقیدے کے قائل ہوئے؟
دوئی پرست:کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کائنات دوچیزوں پرمشتمل ہے اچھائی اوربرائی،دوسری طرف یہ بات مسلم ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔اس بناپرہم معتقدہیں کہ ان کاپیداکرنے والابھی الگ الگ ہے کیونکہ ایک خالق دوعمل جوایک دوسرے کے ضدہوںانجام نہیں دے سکتا۔ مثلا محال ہے کہ آگ سردی کوایجادکرے لہذااس بناپرہم ثابت کرتے ہیں کہ اس جہان کے دوقدیم خالق ہیں ایک نیکیوں کوپیداکرنے والادوسراظلمت کوپیدا کرنے والا۔
پیغمبراکرمۖ :کیاتم اس بات کی تصدیق کرتے ہوکہ اس دنیامیں کئی قسم کے رنگ پائے جاتے ہیں سیاہ،سفید،سرخ،زردوسبزوغیرہ ان میں سے ہرایک دوسرے کاالٹ ہے دورنگ ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ہیں اسی طرح گرمی اورسردی کایک جگہ جمع ہونامحال ہے۔
دوئی پرست: ہاں!ہم تصدیق کرتے ہیں۔
پیغمبراکرمۖ: اچھاتوآپ ہررنگ کے لئے ایک علیحدہ خداکوکیوں نہیں مانتے،کیاآپ ہی عقیدے کے مطابق ہرضدونقیض چیزکے لئے علیحدہ خالق ضروری نہیں ہے؟ پھرتمام متضاداشیاء کے بارے میں کیوںنہیں کہتے کہ ان سب کے خالق موجودہیں۔دوئی پرست پیغمبراکرمۖ کے اس منہ توڑجواب کوسن کرخاموش ہوگئے اورحیرت وفکرکے سمندرمیں ڈوب گئے۔پیغمبراکرم نے بات کوجاری رکھتے ہوئے کہاکہ آپ لوگوں کے عقیدے کے مطابق کس طرح نوراورظلمت دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میںہاتھ دے کراس نظام کائنات کوچلارہے ہیں جب کہ نورترقی وبلندی کی جانب رواں دواں ہوتاہے اورظلمت پستی کی طرف رواں ہوتی ہے۔کیاآپ لوگوں کے عقیدے وخیال میں یہ بات ممکن ہے کہ دواشخاص ایک ساتھ حرکت کرسکیں اورجمع ہوسکیں جب کہ ایک مشرق کی سمت رواں ہواوردوسرامغرب کی طرف۔
دوئی پرست: نہیں!یہ ممکن نہیں ہے۔
پیغمبراکرمۖ :توپھرکس طرح سے نوراورظلمت جوایک دوسرے کی مخالف سمت میں حرکت کرتے ہیں پھربھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کراس دنیاکوچلاسکتے ہیں کیااس بات کاامکان نظرآتاہے کہ یہ دنیادوایسے بنانے والوںکی وجہ سے حرکت میں آئی جوایک دوسرے کے ضدہوں ظاہرہے یہ ممکن ہی نہیں ہے۔لہذا یہ دونوں نوراورظلمت مخلوق ہیں اورخداوندقادروقدیم کے حکم کے تحت کام کررہے ہیں۔دوئی پرست پیغمبراکرمۖ کے سامنے عاجزہوگئے لہذااپنے سروں کوجھکا کرکہنے لگے ہمیں مہلت دیجئے تاکہ ہم اس مسئلہ میں غوروفکرکرسکیں۔
باطل دوئی پسندہے حق لاشریک ہے
پانچواں مناظرہ بت پرستوں کے ساتھ:
اب پانچویں گروہ یعنی بت پرستوں کی باری آئی پیغمبراکرم ۖ ان کی طرف رخ کیااورفرمایاآپ لوگ خداسے منہ پھیرکرکیوں بتوں کی پوجاکرتے ہو؟
بت پرست: ہم ان بتوں کے ذریعے خداکی بارگاہ میں قربت(نزدیکی) کرتے ہیں۔
پیغمبراکرمۖ: کیایہ بت سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورکیایہ بت خداکے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہیں اوراس کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں جس کی وجہ سے آپ لوگ ان کے احترام کے ذریعے خداکاقرب حاصل کرتے ہیں؟
بت پرست:نہیں یہ سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے اورنہ ہی خداکی عبادت کرنے والے اوراس کی اطاعت گزارہیں۔
پیغمبراکرمۖ: کیاآپ لوگوں نے انہیں اپنے ہی ہاتھوں سے نہیں بنایا؟
بت پرست: کیوں نہیں ہم نے انہیں اپنے ہاتھوں ہی سے بنایاہے۔
پیغمبراکرمۖ: توپھران کے بنانے والے آپ لوگ خودہی ہیں لہذاحق تویہ تھاکہ یہ آپ کی پوجاکرتے۔جب خداوندعالم آپ کے امورکے فوائداورانجام اور آپ کی ذمہ داریون اوروظائف سے آگاہ ہے تواسے چاہئے تھاکہ وہ ان بتوں کی پرستش کاحکم دیتاجبکہ خداکی جانب سے ایساکوئی حکم نہیں آیاجب پیغمبراکرمۖ کی گفتگواس مقام تک پہنچی توخودبت پرستوں کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ایک گروہ کہنے لگاکہ خدانے ان بتوں کی شکل وصورت سے ملتے جلتے چندمردوں کے اندرحلول کیاہے لہذاان بتوں کی طرف توجہ اوران کی پوجاسے ہمارامقصدان مخصوص افرادکااحترام ہے۔دوسراگروہ کہنے لگاکہ ہم نے ان بتوں کواپنے بزرگوں میں سے چندپرہیزگاراوراطاعت گزاربندوں کی شبیہ کے طورپربنایاہے لہذاہم خداکے احترام کے پیش نظران کی پوجاکرتے ہیں۔ تیسراگروہ کہنے لگا:خدانے حضرت آدم کوخلق کرکے فرشتوں کوحکم دیاکہ آدم کوسجدہ کریں چونکہ ہم لوگ زیادہ لائق تھے کہ آدم کوسجدہ کریں لیکن ہم اس زمانے میں موجودنہیں تھے چنانچہ سجدہ کرنے سے محروم رہے لہذااب ہم نے حضرت آدم کی شکل وصورت کامجسمہ بنایاہے اورخداکے قرب کوحاصل کرنے کے لئے انہیں سجدہ کرتے ہیں تاکہ ماضی کی محرومیت کی تلافی کرسکیں جیساکہ اسی طرح فرشتوں نے آدم کے سامنے سجدہ کرکے خداکاتقرب حاصل کیا۔جس طرح آپ لوگ اپنے ہاتھ سے محرابیں بناتے ہیں اورا س میں کعبے کے رخ پرسجدہ کرتے ہیں اورکعبہ کے سامنے خداکی تعظیم اوراحترام کے لئے سجدہ اورعبادت کرتے ہیں ہم بھی ان بتوں کے سامنے درحقیقت خداکااحترام کرتے ہیں۔پیغمبراکرمۖ نے تینوں گروہوں کی طرف رخ کیااورفرمایاآپ سب غلطی اورگمراہی پرہیں اورحقیقت سے دورہیں اوربھرباری باری تینوں گروہوں کی جانب متوجہ ہوئے اوراس طرح ترتیب وارجواب ارشادفرمایا:
پہلے گروہ کی طرف رخ کرکے فرمایاکہ آپ لوگ جوکہتے ہوکہ خداان بتوں کی شکل وصورت رکھنے والے مردوں میں حلول کرگیاہے لہذاہم نے ان بتوں کوان مردوں کی شبیہ بنایاہے اوران کوپوجتے ہیں توآ پ نے اس بیان کے ذریعے خداکومخلوقات کی طرح محدوث اورحادث سمجھ لیاہے کیاخداکسی چیزمیں حلول کرسکتاہے اوروہ چیزجومحدودہے خداکواپنے اندرسمونے پرقادرہے؟پس اس طرح خدااوردوسری اشیاء کے درمیان کیافرق رہاجوجسموں میں حلول کرتی ہیں سماجاتی ہیں جیسے رنگ،غذا،بو،نرمی،گندگی،بھاری پن،ہلکاپن،وغیرہ اس بناپرآپ لوگ کس طرح یہ کہتے ہیں کہ وہ جسم میں خداحلول ہواہے وہ حادث اورمحدودہولیکن خداجواس میں سمایاہے وہ قدیم اورلامحدودہوحالانکہ معاملہ اس کے برخلاف ہوناچاہئے تھایعنی سمانے والے کوحادث اورسمانے کی جگہ کوقدیمی ہوناچاہئے تھادوسری طرف کس طرح ممکن ہے کہ خداوندعالم جوتمام موجودات میں سے پہلے ہمیشہ ہی سے مختاراورغنی تھاحلول پانے کی جگہ سے پہلے موجودتھاوہ جگہ کامحتاج بن جائے اورخودکوکسی جگہ قراردے دوسری طرف دیکھاجائے توآپ کے عقیدے میں خداکے موجودات میں حلول کرنے کے ذریعے آپ نے خداکوموجودات کی صفات کی طرح حادث اورمحدودفرض کرلیاہے جس کی بناپریہ ضروری ہوتاہے کہ خداکوایک زوال پذیراورتبدیل ہونے والی چیزفرض کیاجائے اس لئے کہ ہروہ چیزجوحادث اورمحدودہوگی وہ زوال پذیراورتبدیل ہونے والی بھی ہوگی اوراگرآپ لوگ یہ کہیں کہ یہ حلول کرناتبدیلی اورزوال کاباعث نہیں بنتاتوپھرحرکت وسکون اورسیاہ وسفیدوسرخ رنگ جیسے رنگوںکوبھی تبدیلی اورزوال کاباعث نہ سمجھونتیجتا خداکوموجودات کی طرح محدودوحادث ماننددوسری مخلقوات کے سمجھنالازم آئے گااوراگراس عقیدے کوکہ خدامختلف شکلوں میں حلول کرسکتاہے بے اساس مان لیاجائے توبت پرستی بھی خودبخودباطل اوربے بنیادعقیدہ کہلائے گاکیونکہ یہ بھی اسی بناپرصحیح ماناجاتاتھا۔پہلے گروہ کے افرادپیغمبراکرمۖ کے دلائل اوربیانات کے آگے سوچ میں ڈوب گئے اورکہنے لگے کہ ہمیں اس سلسلے میں مہلت دی جائے تاکہ کچھ سوچ سکیں۔
پیغمبراکرمۖ دوسرے گروہ کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایاآپ لوگ مجھے یہ بتائیں کہ جب آپ لوگ پرہیزگاربندوں کی صورتوں کی پرستش کرتے ہیں اوران کے سامنے نمازپڑھتے ہیں اورسجدے کرنے میں اپنے مقدس چہروں کوان صورتوں کے آگے سجدہ کے لئے خاک پرکھتے ہیں اورجتناخضوع ہوسکے اس کام کے لئے انجام دیت ہیں توپھرخداکے لئے کونساخضوع باقی رکھتے ہیں؟واضح الفاظ میں کہاجائے کہ سب سے بڑی خضوع کی علامت سجدہ ہے آپ جوان شکلوں کے آگے سجدہ کرتے ہیں تواس سے زیادہ کونساخضوع ہے جسے خداکے سامنے انجام دیتے ہیں۔اگرآپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ خداکوبھی سجدہ کرتے ہوتو اس صورت حال میں آپ نے بندوں کی صورتوں اورخداکے آگے خضوع کومساوی سمجھاہے کیاواقعی خداکی تعظیم اوربتوں کااحترام مساوی ہے؟مثال کے طورپراگرآپ بااقتدارحاکم کے ساتھ اس کے نوکرکابھی اسی قدراحترام کریں توایک بزرگ شخص کوچھوٹے شخص کے برابردرجہ دینے سے اس بزرگ کی توہین نہیں ہوگی؟
بت پرستوں کادوسراگروہ: ہاںظاہرہے ایساہی ہوگا۔
پیغمبراکرمۖ : لہذاآپ درحقیقت ان بتوں کی پرستش کے ذریعے جوپرہیزگاربندوںکی صورتیں ہیں،خداکے عظیم مرتبے کی توہین کرتے ہیں،بت پرستوں کادوسراگروہ پیغمبراسلامۖ کی ان منطقی دلیلوں کے سامنے ساکت ہوگیااوروہ سب کہنے لگے ہمیں مہلت دیں تاکہ ہم فکرکریں۔اب تیسرے گروہ کی باری آئی۔ پیغمبراسلامۖنے ان کی طرف رخ کیااورفرمایا:آپ لوگوں نے مثال کے ذریعے اپنے آپ کومسلمانوں جیسابتایاہے اس بنیادپرکہ بتوں کے سامنے سجدہ کرناگویاحضرت آدم کے سامنے یاکعبہ کے سامنے سجدہ کرنے کے برابرہے لیکن یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔آپس میں ان کامقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔ اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ ہماراعتقادہے کہ ہماراایک خداہے اوراس کی اسی طرح پرستش اوراطاعت کرناہمارافریضہ ہے،جس طرح وہ چاہتاہے،جس طرح اس نے ہمیں حکم دیاہے،ہم بغیرحدودسے نکلے ہوئے اسی طرح انجام دیتے ہیں اورہم بغیراس کی اجازت اورحکم کے قیاس اورتشبیہ کے ذریعے اس کے حکم کی حدودسے آگے تجاوزنہیں کرسکتے اورنہ اپنے لئے کسی فریضے کوقائم کرسکتے ہیں۔اس لئے کہ ہمیں تمام پہلوؤں سے آگاہی نہیں ہے ہوسکتاہے کہ خداکسی کام کوکرواناچاہتاہواورکسی کام کونہ کرواناچاہتاہواسی لئے اس نے اپنے حکم سے آگے بڑھنے سے ہمیں منع کیاہے کیونکہ اس نے حکم دیاہے کہ عبادت کے وقت کعبے کی طرف رخ کریں لہذاہم اس کے فرمان کی اطاعت کرتے ہیں اوراس کے فرمان کی حدودسے تجاوزنہیں کرتے اسی طرح اس نے حکم دیاہے کہ کعبے سے دورکے علاقوں میں عبادت کے وقت کعبے کی طرف رخ کریں توہم نے بھی اس کی تعمیل کی ہے اورحضرت آدم کے بارے میں جوخدانے فرشتوں کوحکم دیاتھاکہ وہ خودحضرت آدم کوسجدہ کریں نہ کہ ان کی تصویراورمجسمے کوجوحضرت آدم کے علاوہ ہے لہذاجائزنہیں ہے کہ حضرت آدم کی تصویریامجسمے کاان کے وجودسے مقابلہ کریں ،ہوسکتاہے تمہیں معلوم نہ ہواورخداتمہارے اس کام سے ناراض ہوکیونکہ اس نے تمہیں اس کام کا حکم نہیں دیا۔مثال کے طورپراگرکوئی شخص آپ کوکسی معین دن اورمعین گھرمیں داخلے کی اجازت دے توکیایہ صحیح ہوگاکہ کسی اوردن اسی کے گھرجائیں یااسی دن اس کے کسی اورگھرمیں جائیں؟یااگرکوئی شخص اپنے کپڑوں میں سے معین کپڑے گھوڑوں میں سے معین گھوڑے آپ کوہدیہ کردے توکیایہ صحیح ہوگاکہ آپ اس کے کسی دوسرے لباس یاجانورکوجوانہیں میں سے ہے اوران کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی ہے انہیں استعمال کریں؟
بت پرستوں کاتیسراگروہ: ہرگزہمارے لئے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس نے کچھ خاص معین چیزوں کی اجازت دی ہے نہ کہ مساوی چیزوں کی۔
پیغمبراکرمۖ : پھرکیوں آپ لوگ اپنی جانب سے خداکے حکم اوراجازت کے بغیربتوں کوسجدہ کرتے ہیں؟بت پرستوں کاتیسراگروہ بھی پیغمبراکرمۖ کے مدلل اورمنطقی بیانات کے آگے خاموش ہوگیااورکہنے لگاکہ ہمیںمہلت دی جائے تاکہ کچھ غوروفکرکرسکیں۔
اس مناظرے کوابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ ان پانچوں گروہوں کے ٢٥افرادپیغمبراسلامۖ کی خدمت میں آئے اوراسلام قبول کیااورجرأت کے ساتھ کہنے لگے:ماراینامثل حجتک یامحمدشھدانک رسول اللہ اے محمدہم نے آپ جیسااستدلال کرنے والانہیں دیکھا۔ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپۖ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔(احتجاج طبرسی جلداول صفحہ١٦)۔
٢
پیغمبراکرم ۖ اورسرداران قریش کے درمیان ایک عجیب وغریب واقعہ مناظرہ کی صورت میں پیش آیا۔ہوایوں کہ ایک دن پیغمبراکرمۖ مسلمانوں کے یاک گروہ کے ساتھ کعبہ کے نزدیک تشریف فرماتھے اوراحکام اسلام وآیات قرآنی کی تبلیغ میں مصروف تھے ۔اسی دوران بزرگان قریش کے کچھ افرادجوسب کے سب مشرک اوربت پرست تھے جیسے ولیدبن سفیرہ،ابوالبخرتی،ابوجہل ،عاص بن وائل،عبداللہ بن حذیفہ،عبداللہ مخزومی،ابوسفیان ،عتبہ،شیبہ،وغیرہ مل کر جمع ہوئے اورکہنے لگے کہ محمدۖ کی تبلیغ کاکام روزبروزترقی کررہاہے اوروسیع ہوتاجارہاہے لہذاضروری ہے کہ ان کے پاس جاکران کی مذمت وسرزنش کریں اوران سے بحث اورمقابلہ کریں اوران کی باتوں کوردکریں اوراس طرح جب ان کی بے بنیادباتوں کوان کے دوستوں اوراحباب کے سامنے پیش کریں گے تووہ اپنی ان حرکتوں سے بازآجائیں گے اوراس طرح ہم اپنے مقصدمیں کامیاب ہوجائیں گے ورنہ تلوارکے ذریعے ان کاکام تمام کردیں گے۔ ابوجہل کہنے لگاتم لوگوں میں کون ہماری نمائندگی کرے گااورمحمدۖ سے بحث ومناظرہ کرے گا؟عبداللہ مخزومی کہنے لگامیں ان سے بحث کرنے کیلئے حاضر ہوں اگرم لوگ بہترسمجھوتومجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ابوجہل نے اس کی بات کوقبول کیاپھرسب اٹھے اورمل کرپیغمبراکرمۖ کے پاس آئے اورعبداللہ مخزومی نے بولناشروع کیا،اعتراض پراعتراض کرنے لگا۔ہرمرتبہ پیغمبراکرمۖ فرماتے کہ کچھ اوربھی کہناہے وہ کہتاہاں اورپھراپنی باتوں کوجاری رکھتایہاں تک کہ کہنے لگاکہ بس اتناہی کہناتھا،اگرآپۖ کے پاس ان اعتراضات کے جواب ہیں توہم سننے کوتیارہیں۔اس کے اعتراضات اورموضوعات کچھ اس ترتیب سے تھے: پہلااعتراض کہ آپ ۖ عام لوگوں کی طرح کھاتے پیتے ہیں جب کہ پیغمبرکوچاہئے کہ وہ دوسروں کی طرح کھاناوغیرہ نہ کھائے۔
دوسرااعتراض کہ آپ کے پاس ملکیت اوردولت کیوں نہیں ہے جب کہ خداکے بااقتدارنمائندے کے پاس دولت اورمرتبہ ہوچاہئے۔
تیسرااعتراض کہ آپ کے پاس ایک فرشتہ ہوناچاہئے جوآپ کی تصدیق کرے اورہم بھی اس فرشتے کودیکھیں بلکہ بہتریہ ہوگاکہ پیغمبربھی فرشتوں کی نسل سے ہو۔
چوتھااعتراض کہ آپ ۖ پرجادوکردیاگیاہے کیونکہ آپۖ مسحورمعلوم ہوتے ہیں۔
پانچواں اعتراض کہ کیوں قرآن ولیدبن مغیرہ مکییاعروة طائفی جیسی معروف شخصیات پرنازل نہیں ہوا۔
چھٹااعتراض ہم آپۖ پراس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپۖ اس پتھریلی اورسخت زمین پرپانی کاچشمہ جاری نہ کردیں اورکھجوراورانگور کے باغ نہ بنادیں تاکہ ہم چشمے کے پانی کوپئیں اوراس باغ کے پھلوں کوکھائیں۔
ساتواں اعتراض کہ کیاآپ آسمان کوگہرے بادلوں (کالی گھٹاؤں) کی صورت میں ہمارے سروں پرسایہ فگن کرسکتے ہیں؟۔
آٹھواں اعتراض کہ کیاخدااورفرشتوں کوہماری آنکھوں کے سامنے ظاہرکرسکتے ہیں تاکہ ہم انہیں دیکھ سکیں۔
نواں اعتراض کہ آپ کے پاس سونے سے لداہواایک گھرکیوں نہیں ہے؟
دسواں اعتراض کہ آپ ۖ آسمان پرجاکرہمارے لئے ایک ایساخط کیوں نہیں لاتے کہ ہم اسے پڑھ سکیں۔(یعنی جس میں خدامشرکوں کولکھے کہ محمدۖ میراپیغمبرہے اورتم لوگ اس کی پیروی کرو)البتہ ان تمام کاموں کوانجام دینے کے بعدبھی ہم یہ وعدہ نہیں کرتے کہ ہم مطمئن ہوجائیں گے کہ تم پیغمبرخدا ہو کیونکہ ممکن ہے ان کاموں کوتم جادواورنظروں کے دھوکے کی بناپرانجام دے دو۔
پیغمبراکرم ۖ کے جوابات :
پیغمبراکرم ۖ نے عبداللہ مخزومی کی طرف رخ کیااورفرمایاکہ:
پہلے اعتراض کاجواب تویہ ہے کہ کھانے پینے کے بارے میں تمہیں معلوم ہوناچاہئے کہ مصلحت اوراختیارخداکے ہاتھ میں ہے،جس طرح وہ چاہتاہ حکومت کرتاہے،کسی کواس پراعتراض کرنے کاحق نہیں ہے،وہ کسی کوفقیراورکسی کوامیراورکسی کوعزیزومحترم اورکسی کوذلیل وخواراورکسی کوصحیح وسالم اورکسی کوبیمارکرتا ہے۔(البتہ اس کاتعلق خودانسان کی لیاقت سے ہے)لہذااس صورت حال کے پیش نظرکوئی طبقہ بھی خداپراعتراض کرنے کاحق نہیں رکھتااورجوبھی خدا کے سامنے اعتراض وشکایت کے لئے زبان درازکرے وہ منکراورکافرہے کیونکہ ساری دنیاکااختیارخداکے ہاتھوں میں ہے۔ وہ تمام امورکی مسلحتوں کوبہتر جانتاہے جولوگوں کے لئے بہترہوانہیں دیتاہے لوگوں کوچاہیئے کہ اس کے حکم کے تابع رہیں اورجوبھی خداکے حکم کی اطاعت کرے وہ مومن ہے ورنہ گناہکار کہلائے گااورشدیدقسم کے عذاب کاحقدارٹہرے گاپھرآپ نے سورہ کہف کی آیت ١٠٩کی تلاوت فرمائی:
قل انماانابشرمثلکم یوحی الی انماالھکم الہ واحد۔
کہہ دواے پیغمبرۖ کہ میں تم جیسابشرہوں(تمہاری طرح کھاتاپیتاہوں) لیکن خدنے مجھے وحی سے مخصوص کیاہے کہ بیشک تمہاراخداایک ہی ہے۔
جس طرح انسانوں میں سے ہرایک کوایک خاص خصوصیت کاحامل بنایاہے اورجس طرح تم لوگوں کوامیر،غریب،صحتمند،خوبصورت،بدصورت، شریف وغیرہ کے بارے میں اعتراض کاحق نہیں ہے اوراس سلسلے میں خداکافرمانبرداررہناچاہئے اسی طرح نبوت ورسالت کے بارے میں بھی خداکے حکم کے فرمانبردار رہواوراعتراض نہ کرو۔
دوسرے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپۖ نے فرمایاکہ تم جوکہتے ہوکہ میرے پاس مال ودولت کیوں نہیں ہے جب کہ خداکے نمائندے کے پاس بادشاہوں کے نمائندوں کی طرح مال ودولت اورمرتبے کامالک ہوناچاہئے بلکہ خداکوبادشاہوں سے زیادہ اس بات کاخیال رکھناچاہئے توتمہیں یہ معلوم ہونی چاہئے کہ خداپریہ اعتراض غلط اوربے بنیادہے کیونکہ خدازیادہ آگاہ اورخبررکھنے والاہے،وہ اپنے کاموں اورتدبیروں میں مصلحت کوسمجھتاہے اوردوسروں کی مرضی کوملحوظ رکھے بغیرعمل کرتاہے۔پیغمبروں کاکام لوگوں کوخداکی عبادت کی دعوت دیتاہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ دن رات لوگوں کی ہدایت کاکام انجاد دیں۔ اگرپیغمبردنیاوی بادشاہوں کی طرح مال ودولت کامالک ہوتاتوغریب اورعام افراداتنی آسانی کے ساتھ پیغمبرسے رابطہ قائم نہیں کرسکتے تھے اس لئے کہ دولتمندشخص محلوں میں آرام کررہاہوتاہے اورمحلوں کی عالیشان عمارتیں اورپردے اس کے اورغریبوں اورمزدوروں کے درمیان فاصلہ پیداکردیتے اورلوگ اس تک نہیں پہنچ پاتے۔چنانچہ ایسی صورت میں بعثت کامقصدانجام نہیں پاتااورتعلیم وتربیت کاسلسلہ رک جاتا،نبوت کاآفاقی مقام مصنوعی نمودونمائش کی وجہ سے آلودہ ہوجاتا۔ رہبریاحاکم کالوگوں سے دورہوناملک کے اموراورنظام میں خلل کاباعث ہوتاہے جوناسمجھ اورلاچار لوگوں کے درمیان فساداورگڑبڑ کاسبب بن جاتاہے اوردوسری بات یہ کہ خدانے جومجھے دولت نہیں دی تووہ اس لئے کہ تمہیں اپنی قدرت کودکھلائے کہ وہ ایسی صورت حال میں بھی اپنے رسول کی مددکرتاہے اوراس کوتمام دشمنوں ومخالفوں کے مقابلے میں کامیاب کرتاہے اوریہ بات پیغمبراکرم کی صداقت کے لئے کافی ہے۔قدرت خداتمہاری کمزوری کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ اپنے پیغمبرکوبغیرمال ودولت وفوج وسلطنت کے تم پرغالب کرے اورعنقریب خدامجھے تم پرغالب کرے گاتم لوگ میرے اثرکوہرگزنہ روک سکوگے اورنہ ہی مجھے قتل کرسکوگے۔ عنقریب میں تم لوگوں پرمسلط ہوکرتمہارے شہروں پرقبضہ کرلوں گا سارے مخالفین اوردشمن مؤمنوں کے آگے سرخم کرنے پرمجبورہوجائیںگے۔
تیسرے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپۖ فرماتے ہیں کہ یہ جوتم نے کہاکہ میرے ساتھ ایک فرشتہ ہوناچاہئے جس کوتم لوگ دیکھ سکواورجومیری تصدیق کرتاہوبلکہ خودپیغمبرکوفرشتوں کی نسل سے ہوناچاہئے تویادرکھوکہ فرشتے ہواکی مانند نرم جسم رکھنے والے ہیں جنہیں دیکھانہیں جاسکتااورالغرض اگرتمہاری آنکھوں کواتنی قدرت دی جائے کہ تم فرشتے کودیکھ سکوتوتم اسے انسان کہوگے نہ کہ فرشتہ(یعنی وہ انسان کی صورت میں ہوگا)اوریہ اسی وقت ہوسکتاہے کہ وہ تم سے رابطہ قائم کرے اورگفتگوکرے تاکہ تم اس کی باتوں اورمقاصدکوسمجھ سکو،اس کے علاوہ کس طرح معلوم ہوسکے گاکہ وہ فرشتہ ہے نہ کہ انسان اورجوکہہ رہاہے وہ حق ہے اورخدااپنے پیغمبروں کوایسے معجزات کے ساتھ بھیجتاہے جس دوسرے عاجزہوں اوریہی پیغمبرکی صداقت کی نشاندہی ہے لیکن اگرفرشتہ معجزات دکھائے توتم کس طرح تشخیص دے سکتے ہوکہ اس فرشتے نے جومعجزہ دکھایاہے دوسرے فرشتے اس کے انجام دی سے قاصرہیں لہذافرشتے کامعجزوں دکھایاہے دوسرے فرشتے اس کے انجام دہی سے قاصرہیں لہذافرشتے کامعجزوں کے ساتھ نبوت کادعوی اس کی نبوت پردلالت نہیں کرتاکیونکہ فرشتوں کامعجزہ پرندوں کی پروازکی مانندہے جس سے انسان عاجزہیں جب کہ خودفرشتوں کے درمیان یہ معجزہ شمارنہیںکیاجاتالیکن انسانوں کے درمیان اگرکوئی پرواز کرے تووہ معجزہ کہلاے گااوریہ بات ہرگزفراموش نہ کرناکہ خداوندعالم کاانسانوں کے درمیان بناناتمہارے ہی امورکی آسانی کے لئے ہے تاکہ تم بغیر زحمت کے اس سے رابطہ حاصل کرسکواوروہ خداکی حجت ودلیل کوتم تک پہنچاسکے حالانکہ تم لوگ اپنے اعتراضات کے ذریعے خوداپنے کاموں کومشکل کررہے ہو۔ چوتھے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپۖ فرماتے ہیں کہ یہ جوتم نے کہاکہ گویامجھ پرجادوکیاگیاہے یہ الزام کس طرح صحیح ہوسکتاہے حالانکہ میں عقل وتشخیص کے لحاظ سے تم سب پربرتری رکھتاہوں میں نے ابتداسے آج تک ٤٠سال زندگی گزاری ہے اس مدت میں کوئی چھوٹی سی بھی غلطی وخطاجھوٹ یاخیانت تم نے نہیں دیکھی ہوگی آیاجس نے تمہارے درمیان ٤٠سال اپنی قوت وصلاحیت کے ساتھ زندگی گزاری ہویاجسے خداکی مددسے امانت وصداقت میں برتری حاصل ہواس پراس قسم کی الزام تراشی زیب دیتی ہے؟اسی لئے پروردگارتمہارے جواب میں کہتاہے: انظرکیف ضربوالک الامثال فضلوافلایستطیعون سبیلا(سورہ بنی اسرائیل آیت٤٨)۔ اے رسولۖ!آگاہ رہنایہ کمبخت تمہاری طرف کیسی کیسی نسبتیں دیتے ہیں،انہوں نے گمراہی کاراستہ اپنایاہواہے اوریہ ہدایت نہیں پاسکتے۔ پانچویں اعتراض کے جواب میں آپۖ نے فرمایاکہ یہ جوتم نے کہاکہ کیوں قرآن ولیدبن مغیرہ مکی یاعروہ بن مسعودطائفی جیسوں پرنازل نہیں ہواتوتمہیں معلوم ہوناچاہئے کہ خداکے نزدیک مقام ومنصب اورشہرت ذرہ برابربھی حیثیت کے حامل نہیں ہیں اگردنیاوی نعمتیں اورعیش مکھی کے پرکے برابربھی خدا کے نزدیک حیثیت رکھتی ہوتی توان میں سے ذرہ برابربھی کافروں اورمخالفین اسلام کونہیں دیتا۔دوسری طرف اس کی تقسیم بھی خداکے ہاتھ میں ہے اس معاملے میں کوئی بھی بندہ اعتراض یاشکایت کاحق نہیں رکھتاوہ جسے چاہے اورجس قدرچاہے نعمتیں عطاکرتاہے بغیراس کے کہ اسے کسی کاخوف لاحق ہو۔تم اپنے کاموں میں مختلف سمتوں کومعین کرتے ہواوراپنے کاموں کوہوس،خواہشات اورخوف کے مطابق انجام دیتے ہواورحقیقت اورعدالت کے خلاف مخصوص افرادکے احترام میں غلطی کرتے ہوجب کہ خداکے کام عدالت اورحقیقت کے تحت ہوتے ہیں دنیاوی مقام ومناسبت اس کے ارادہ اورخواہش میں معمولی سااثربھی نہیں رکھتے یہ تم ہوجواپنی سطحی اورظاہری نظروں کی بناپرپیغمبری کے لئے دولتمنداورمشہورلوگوں کودوسرے سے زیادہ لائق سمجھتے ہولیکن خدارسالت کواخلاقی فضیلتوں اورروحانی لیاقت وحقیقت اوراپنی فرمانبرداری اوراطاعت کی بناپرقراردیتاہے۔ اس سے بھی بالاتریہ کہ خدااپنے کاموں میں مختارہے۔ ایسانہیں ہے کہ اگرکسی کومال دنیاکی نعمتیں اورشخصیت دے تواسے نبوت دینے پربھی مجبورہوچنانچہ تم لوگ مشاہدہ کرتے ہوگے کہ خدانے کسی کومال ومتاع دیا مگرحسن وجمال نہیں دیااوربرعکس کسی کوحسن وجمال دیامگرمال نہیں دیاکیاان میں سے کوئی خداپراعتراض کرسکتاہے؟ چھٹے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایایہ جوتم لوگ کہتے ہوکہ ہم ہرگزایمان نہیں لائیں گے مگریہ کہ اس پتھریلی اورسخت سرزمین میں پانی کاچشمہ جاری کروں توتمہاری یہ خواہش نادانی اورجہالت کی بناپرہے اس لئے کہ چشمے کے جاری کرنے اورسرزمین مکہ میں باغ بنانے کاپیغمبری سے کوئی رابطہ نہیں جیساکہ سرزمین طائف میں تمہارے پاس زمین،پانی اورباغات ہیں مگرتم پیغمبری کادعوی نہیں کرتے اوراسی طرح ایسے افرادکوبھی جانتے ہوکہ جنہوں نے محنت وکوشش سے چشمہ وزراعت بنایالیکن پیغمبری کادعوی نہیں کیا۔لہذایہ معمولی کام ہیں اگرمیں بھی انہیں انجام دوں تویہ میری رسالت کی دلیل نہیں بن سکتے،تمہاری یہ خواہشات ایسی ہیں کہ گویاتم کہوکہ ہم ہرگزآپ پرایمان نہیں لائیں گے مگریہ کہ آپ لوگوں کے درمیان چلیں پھریں اورکھائیں پئیں آگر میں اپنی پیغمبری کے اثبات کے لئے ایسی چیزوں کوذریعہ بناؤتومیں نے گویاانہیں دھوکادیااوران کی جہالت اورنادانی سے فائدہ اٹھایااورنبوت کے مقام کوبے کاراوربے بنیادباتوں پرقراردیاحالانکہ نبوت کامقام دھوکہ وفریب سے پاک ہے۔ ساتویں اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپۖ نے فرمایاکہ یہ جوتم نے کہاکہ آسمان کوہمارے اوپرکالی گھٹاؤں کی صورت میں لاکررکھ دوتویادررکھوکہ آسمان کانیچے آناتمہارے ہلاک ہونے کاباعث ہے حالانکہ بعثت وپیغمبری کامقصدسعادت وخوش بختی کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرناہے۔خداکی عظمت پرمبنی آیات اورنشانیاں لوگوں کودکھاناہے اوریہ بات ظاہرہے کہ حجت ودلیل کاطے کرناخداکے اختیارمیں ہے کوئی ان امورمیں یہ حق نہیں رکھتاہے کہ اپنی ناقص سوچ کی بناپرایسے تقاضے کرے جن کاعملی ہونا،معاشرے اورنظم کے خلاف ہوکیونکہ ہرشخص اپنی خواہشات کے تحت تقاضاکرتاہے اورظاہرہے کہ ان تقاضوں کی تکمیل نظم میں خلل اورایک دوسرے کی ضدچیزوں کے انجام دینے کاباعث ہوگاکیاتم نے آج تک کسی ایسے ڈاکٹرکودیکھاہے جوعلاج کے دوران مریض کی مرضی کے مطابق نسخہ لکھتاہویاجوشخص کسی چیزکادعوی کرے کیاوہ اپنے دعوی کی دلیل کے لئے اپنے مخالف کی باتوں پرعمل کرے گا؟ظاہرہے کہ اگرڈاکٹر بیمارکی پیروی کرے توبیمارٹھیک نہیں ہوگااس طرح اگردعوی کرنے والااپنے مخالف کی دلیلوں پرعمل کرنے پرمجبورہوجائے تواس صورت میںحق بات کوثابت نہیں کرسکے گااورپھرمظلوم اورسچے لوگ ظالم اورجھوٹے شخص کے سامنے اپنے دعوی کوثابت کرنے سے عاجزہوجائیں گے۔ آٹھویں اعتراضات کاجواب دیتے ہوئے آپۖ نے فرمایاتم کہتے ہوکہ خدااورفرشتوں کوتمہاری نظروں کے سامنے حاضرکروں تاکہ تم انہیں دیکھ سکو،یہ تمہاری بات انتہائی بے بنیاداورمحال ہے کیونکہ خددیکھے جانے کی صفت اورمخلوقات کی صفات سے عاری ہے تم خداکوان بتوں سے تشبیہ دیتے ہوجن کی پوجاکرتے ہواورپھراسی قسم کاتقاضامجھ سے کرتے ہو۔ہاں یہ بت جوحددرجہ کمی اورخامی کے حامل ہیں اس قسم کے تقاضوں کے لئے مناسب ہیں لیکن خداکی ذات ایسی نہیں ہے اس کے بعدپیغمبراکرم ایک مثال پیش کرتے ہیں جومفہوم کواورزیادہ واضح کردیتی ہے کہ اگرخداکودکھانامحال نہ بھی ہوتب بھی عقل کے قوانین کے خلاف ہے وہ یہ کہ پیغمبراکرمۖ عبداللہ مخزمی سے فرماتے ہیں:کیاتمہارے پاس طائف اورمکہ میں زمین اورملکیت ہے؟اورکیاان کوسنبھالنے کے لئے تمہارے نمائندے ہیں؟ عبداللہ مخزومی بولا: جی ہاں!میرے پاس باغ اورملکیت اورنمائندے ہیں۔ پیغمبراکرمۖ :تم اپنے باغ اورملکیت کوحساب وکتاب کرتے ہویانمائندے کے ذریعے یہ کام انجام پاتاہے؟ عبداللہ مخزومی:نمائندے کے ذریعے۔ پیغمبراکرمۖ :اگراس نمائندے نے کسی زمین کوکرائے پردیایابیچ دیاتوکیادوسروں کویہ حق ہے کہ اس پراعتراض کریں اورکہیں کہ ہم خودمالک سے رابطہ کرین گے اوراس وقت تمہاری نمائندگی کوقبول کریں گے جب خودمالک آئے اورتمہاری باتوں کی تصدیق کرے۔ عبداللہ مخزومی : جی نہیں! دوسرے ہرگزایسے اعتراض کاحق نہیں رکھتے۔ پیغمبراکرمۖ: ہاں البتہ یہ اس صورت میں ہے جب تمہارے نمائندے کے پاس کوئی ایسی نشانی ہوجوتمہاری نمائندگی کوظاہرکرے اب مجھے ذرایہ بتاؤان کے پاس کیسی نشانی ہوجوتمہاری نمائندگی کوظاہرکرتی ہوجب کہ لوگ بغیرنشانی کے اس کی نمائندگی کوقبول کرنے پرتیارنہ ہوں۔ عبداللہ مخزومی: نمائندے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پاس کوئی نشانی ہو۔ پیغمبراکرم: اگرلوگ اس کی اس نشانی کوقبول نہ کریں توکیااس نمائندے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مالک کوان کے سامنے حاضر کرے اورمالک کوحکم دے کہ وہ ان لوگوں کے سامنے حاضرہو؟ایک عقلمندنمائندہ اس طرح کی ذمہ داری اپنے مالک کودے سکتاہے؟ عبداللہ مخزومی: جی نہیں! اسے چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کے مطابق کام کرے اپنے مالک کوحکم دینے کااسے کوئی حق نہیں ہے۔ پیغمبراکرمۖ : اب میں کہتاہوں کہ تم کس طرح خداکے نمائندے رسول کے بارے میں اس طرح کی بات کرتے ہوکہ وہ اپنے مالک کوحاضرکرے میں اس کافقط نمائندہ ہوں کس طرح ممکن ہے کہ اپنے مالک خداکوحکم صادرکروں اوراس پرذمہ داری لگاؤں جوکہ مقام رسالت کے خلاف ہے اسی بنیادپرتمہارے سارے اعترافات کاجواب بالخصوص فرشتوں کے حاضرکرنے کے بارے میں واضح ہوجاتاہے۔ نویں اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ یہ جوتم نے کہاکہ میرے پاس سونے سے لداہواگھرہوناچاہئےیہ بات بھی بے بنیادہے اس لئے کہ سونااوردولت رسالت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے کیااگربادشاہ مصرکے پاس سونے کے بنے ہوئے گھرہوں گے تووہ اسی بناپرنبوت کادعوی کرسکے گا؟ عبداللہ مخزومی: نہیں وہ ایسادعوی نہیں کرسکتا۔ پیغمبراکرمۖ : لہذامیرے پاس بھی سونے اورچاندی کاہوناذرہ برابربھی میری رسالت کی صداقت پردلالت نہیں کرتا،لہذامیں اس راہ سے بھی لوگوں کی نادانی وجہالت سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا اورنہ ہی خداکی حجت کے مقابلے میں اس قسم کے بے بنیاددلائل سے اپنی رسالت کوثابت کرنے کے لئے فائدہ اٹھاسکتاہوں۔ دسویں اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:اوریہ جوتم کہتے ہوکہ میں آسمان پرجاؤں اورخداکی طرف سے تمہارے لئے خط لاؤں تمہاری ان باتوں سے ظاہرہوتاہے کہ تم حق کوقبول کرنے کے لئے کسی طرح سے تیارنہیں ہواس لئے کہ تمہارے کہنے کے مطابق صرف آسمان پرجاناکافی نہیں ہے بلکہ آسمان پرجانے کے علاوہ خداکی طرف سے تمہارے لئے خط بھی لاؤں اورخط لے بھی آؤں تب بھی قبول نہیں کروگے کیونکہ تم صاف کہہ رہے ہوکہ اگرمیں تمہارے ان کاموں کوانجام بھی دے دوں تب بھی ممکن ہے تم ایمان نہ لاؤ لیکن یادرکھواس طرح کی ضداورہٹ دھرمی وعنادکانتیجہ سوائے عذاب اوربلاکے نازل ہونے کے کچھ بھی نہیں اورتم اپنے ان کاموں کی وجہ سے عذاب کے مستحق ٹہروگے۔ تمہارے تمام سوالات کاجواب خداوندعالم نے سورہ کہف کی آیت ١١٠ اورسورہ فصلت کی آیت میں اس طرح دیاہے: قل انماانابشرمثلکم یوحی الی انماالھکم الہ واحدیعنی میں بھی تمہاری طرح کاایک بشرہوں اورخداکانمائندہ ہوں،خداکے فرمان کوتم تک پہنچانے والاہوں۔ میری نشانی یہی قرآن ومعجزات ہیں جوخداوندعالم نے مجھے عطاکئے ہیں۔ لہذامیں نہ توخداکوحکم دے سکتاہوں اورنہ ہی تمہاری بے بنیادخواہشات پراسے مکلف کرسکتاہوں۔ ابوجہل کہنے لگا:ایساکیوں نہیں کہتے کہ جب قوم موسی نے ان کے خداکودیکھنے کی موسی سے گزارش کی توخداان پرغضبناک ہواااوربجلی کے ذریعے ان کوجلا ڈالا۔ پیغمبراکرم: ۖ کیوں ایسانہیں ہواتھا۔ ابوجہل: ہم نے توقوم موسی سے بھی بڑی فرمائش کردی ہے ہم کہتے ہیں کہ ہرگزتم پرایمان نہیں لائیں گے جب تک تم ہمارے سامنے خداوفرشتوں کوحاضر نہ کرو۔لہذاخداسے کہوکہ ہمیں بھی جلاڈالے اورنابودکردے۔
پیغمبراکرمۖ: کیاتم نے حضرت ابراہیم کی داستان نہیں سنی جب انہوں نے خداکے نزدیک اتناتقرب حاصل کرلیاکہ خدانے ان کی آنکھوں کے نورکواس حدتک قوی کردیاکہ وہ لوگوں کے پوشیدہ اورظاہراعمال کوبھی دیکھ سکتے تھے اسی دوران انہوں نے دیکھاکہ ایک مردوعورت زناکرنے میں مصروف ہیں لہذاان کے لئے بددعاکی اوروہ دونوں ہلاک ہوگئے۔ پھردوسرے مردوعورت کودیکھاکہ وہ یہی کام کررہے تھے۔لہذاان کے لئے بھی نفرین کی اوروہ دونوں بھی ہلاک ہوگئے جب تیسری دفعہ بھی اسی طرح کامنظردیکھااورنفرین کی اوروہ ہلاک ہوگئے توخداوندعالم نے انہیں وحی کی کہ بددعانہ کروکیونکہ کائنات کے چلانے کا اختیارتمہارے ہاتھ میں نہیں ہے گناہگاربندے تین حالتوں سے خارج نہیں ہیں: نمبرایک یاوہ تائبین میں سے ہیں جنہیں میں بخش دوں گایاان کی آئندہ نسل میں کوئی بندہ مؤمن آنے والاہے جس کی خاطران کومہلت دی جائے گی اوراس کے بعدان تک عذاب آن پہنچے گااوران دوصورتوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لئے عذاب تمہارے تصورسے زیادہ ہے جسے میں نے ان کے لئے تیارکیاہے۔اے ابوجہل اسی وجہ سے خدانے تجھے مہلت دی ہوئی ہے کہ تیری نسل میں ایک فرزندمؤمن عکرمہ نامی پیداہوگا۔(احتجاج طبرسی جلداول صفحہ٢٩)۔(عکرمہ بن ابوجہل جوپہلے پیغمبراکرمۖ کاسخت دشمن تھالیکن فتح مکہ کے بعدایساپلٹاکہ مدینے میں پیغمبراکرمۖ کے پاس آکراسلام لے آیااورآپۖ کے نزدیک اتنامقام ومنزلت حاصل کرلیاکہ آنحضرتۖ نے قبیلہ ہوازن سے زکات جمع کرنے کاعامل اسے بناکربھیجااورسرانجام خلافت ابوبکرکے زمانے میں جنگ اجنادین یاجنگ یرموک میں درجہ شہادت پرفائزہوا(سفینة البحار جلد٢صفحہ٢١٩)۔
جیساکہ آپ نے ملاحظہ کیااگرچہ پیغمبرکے سامنے بحث کرنے والے اسلام سے دشمنی وکینہ رکھنے والے افرادتھے مگرپیغمبراکرمۖ نے کتنے کمال وبردباری سے پہلے ان کی گفتگوسنی اورپھرکتنی نرمی ومتانت سے ان کے جوابات دئیے اورکتنی مدلل بحث کے ذریعے ان پرحجت تمام کی یہ اسلام کامنطقی اوراخلاقی طریقہ ہے۔ ٣۔ ہجرت مدینہ سے پہلے یہودی آپس میں ان نشانیوں کاتذکرہ کیاکرتے تھے جوپیغمبراسلامۖ سے متعلق توارت میں لکھی ہوئی تھیں۔یہودی علماء تورات کی آیتوں کے ذریعے پیغمبراسلامۖ کی ہجرت کی جگہ کے بارے مین بھی اپنے لوگوں کوخبریں دیتے تھے اوراس طرح وہ بالواسطہ یابلاواسطہ پیغمبراکرمۖ کے ظہور کی گفتگوکیاکرتے تھے یہودی ربی سمجھتے تھے کہ وہ پیغمبراسلام کوطاقتوربناکراپنی جانب مائل کرلیں گے اورنتیجتااطراف کے علاقوں میں مذہبی طاقت بن جائیں گے۔ مگرجب پیغمبراکرم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اوراسلام بڑی سرعت سے پھیلاتوپیغمبراکرمۖ کویہودیوں پرغلبہ حاصل ہوگیااوریوں اسلام اور رسول اسلام کوقابو کرنے کی ان کی ناپاک خواہش دم توڑگئی۔ چنانچہ یہودیوں کے مذہبی حلقوں میں پیغمبراکرمۖ کی مخالفت کی جانے لگی اوروہ مختلف بہانوں سے اسلام کوگزندپہنچانے کی کوشش کرنے لگے۔ جیساکہ سورۂ بقرہ وسورۂ نباء میں ان کی دشمنی اورہٹ دھرمی کاذکرکیاگیاہے۔ مثال کے طورپرانہوں نے ایک سازش یہ کی کہ اوس اورخزرج کی ١٢٠ سالہ دشمنی کودوبارہ زندہ کیا(یہ مدینے کے دوبڑے قبیلے تھے جواسلام کے بعدمتحد ہوگئے اورانصارکہلائے)تاکہ اسلام کی صفوں میں انتشارپھیلایاجائے۔لیکن پیغمبراسلامۖ اورمسلمین کی ہشیاری نے ان کی سازشوں پرپانی پھیردیا۔ اسی طرح ان کی دیگرسازشوں کوبھی پیغمبراسلام نے ناکام بنادیاتھا۔لہذاصرف آزادبحث ہی ایک راستہ بچاتھاجس کے ذریعے وہ پیغمبراکرمۖ پرچڑھائی کرناچاہتے تھے لیکن پیغمبراکرمۖ مکمل رضامندی کے ساتھ ان کے مشوروں کااستقبال کرتے تھے۔ہردفعہ وہ اگرپیچیدہ قسم کے سوالات اوربحث کرتے تاکہ پیغمبراکرمۖ کولاجواب کریں لیکن یہ بحثیں ان کے اپنے نقصان پرتمام ہوتیں اورلوگوں کوپیغمبراسلامۖ کے علمی مقام اورعالم غیب ہونے کایقین ہوجاتاتھا اورانہیں بحثوں کانتیجہ تھاکہ کافی تعدادمیں یہودی اوربت پرستوں کے گروہ اسلام لے آئے تاہم یہ لوگ اگرچہ پیغمبراکرم سے بحثوں میں قائل ہوجاتے تھے مگرغرورتکبرکے عالم میں پیغمبراکرمۖ سے کہتے کہ ہم آپ کی باتیں نہیں سمجھتے۔ یعنی جیساکہ سورۂ بقرہ آیت ٨٨میں ارشادہواقلوبناغلف ان کے قلوب پر پردے پڑے ہوئے تھے ۔علماء یہودنے پیغمبراسلام سے کئی مناظرے کئے جن کے جواب پیغمبراکرم ۖ نے نہ صرف بڑی نرمی اورمحکم استدلال کے ذریعے دئیے بلکہ فیصلہ بھی عوام کی عدالت پرچھوڑدیا۔جس کی دومثالیں ملاحظہ فرمائیں: پہلی مثال : جب عبداللہ بن سلام ایمان لایاجوکہ علماء یہودمیں سے ایک مشہورعالم اورمذہبی علوم کاماہرسمجھاجاتاتھا(مسلمان ہونے سے پہلے اس نام حصین تھا اس کے مسلمان ہونے کے بعدپیغمبراکرمۖ نے اس کانام عبداللہ رکھ دیاتھا)پیغمبراکرمۖ کی ہجرت کے پہلے سال ایک دن یہ شخص پیغمبراکرم کی مجلس میں حاضرہوا، دیکھاکہ پیغمبراکرمۖ لوگوں کونصیحتیں کررہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ اے لوگو! ایک دوسرے کوسلام کیاکرواورایک دوسرے کوکھاناکھلایاکرواپنے رشتہ داروں سے رابطہ رکھاکروآدھی رات میں جب لوگ سورہے ہوں اٹھ کرنمازشب پڑھاکروتاکہ اللہ کی بنائی ہوئی بہشت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوسکو عبداللہ نے دیکھاکہ پیغمبراسلامۖ کی یہ گفتگوبے بنیادجھوٹ بولنے والوں کی طرح نہیں ہے اس کویہ گفتگواچھی لگی لہذاایسی مجلسوں میں شامل ہونے کامحکم ارادہ کرلیا۔ ایک دن عبداللہ مذہب یہودکے ٤٠سرکردہ افرادکولے کرپیغمبراسلامۖ کے پاس آیاتاکہ نبوت ورسالت کے سلسلے میں ان سے کھل کربحث کریں اورآپ سے مناظرہ کرکے آپ کومغلوب کریں اس نیت سے یہ لوگ پیغمبراکرمۖ کے پاس حاضرہوئے۔پیغمبراکرمۖ نے ان کے بزرگ عبداللہ بن سلام کی طرف رخ کیااور فرمایا:میں بحث ومناظرہ اورتنقیدکے لئے تیارہوںیہودیوں نے رضامندی ظاہرکی اوربحث ومناظرہ شروع ہوگیایہودیوں نے گفتگوکامحاذ تیار کیااورپیغمبراسلامۖ پرسوالات کی بوچھارکردی۔ مگرپیغمبراکرمۖ ان کے ایک ایک سوال کاجواب دیتے رہے۔یہاں تک کہ ایک دن عبداللہ خصوصی طورپرپیغمبر اکرمۖ کے پاس آیااورکہنے لگاکہ میںآپ کی اجازت سے آپ سے تین سوال کرناچاہتاہوں جس کے جواب سوائے پیغمبرکے کوئی نہیں دے سکتا۔ پیغمبراکرمۖ: پوچھو۔ عبداللہ : ذرامجھے یہ بتائیے کہ قیامت کی پہلی نشانی کیاہے بہشت کی پہلی غذاکیاہے اوراس کی کیاوجہ ہے کہ بچے کبھی باپ کے اورکبھی ماں کے مشابہ ہوتے ہیں ؟ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا: ابھی اس کاجواب خداکی جانب سے جبرئیل لائیں گے تومیں تمہیں بتاؤں گا۔جیسے ہی جبرئیل کانام آیاعبداللہ کہنے لگاجبرئیل توہم یہودیوں کادشمن ہے کیونکہ اس نے متعددبارہم سے دشمنی کی ہے بخت النصرجبرئیل ہی کی مددسے ہم پرغالب ہوااوربیت المقدس کے شہرمیں آگ لگائی وغیرہ۔ پیغمبراکرمۖ نے اس کے جواب میں سورہ ٔ بقرہ کی آیت ٩٧۔٩٨ کوپڑھاجس کاترجمہ یہ ہے :وہ جبرئیل جسے تم دشمن سمجھتے ہواپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتااس نے قرآن کوخداکے اذن سے پیغمبر کے قلب پرنازل کیاہے وہ قرآن جورسولۖ کی ان نشانیوں اورصفات سے مطابقت رکھتاہے جوپچھلی کتابوں میں موجودہیں اوران کی تصدیق کرتاہے۔ خداکے فرشتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اگرکوئی ان میں سے ایک سے دشمنی کرے گاوہ ایساہے کہ اس نے سارے فرشتوں،پیغمبروں اورخداسے دشمنی کی ہے کیونکہ س کے فرشتے اورپیغمبرایک ہی طریقے سے خداکے حکم کوجاری کرنے والے ہیں ان کے کام تقسیم شدہ ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے مخالف،ان کے ساتھ دشمنی خداکے ساتھ دشمنی کرنے کے متردف ہے۔ پھرپیغمبراکرمۖ نے عبداللہ کے تین سوالوں کے جواب میں فرمایا:روزقیامت کی پہلی نشانی یہ ہے کہ دھوئیں سے بھری آگ روشن ہوگی جولوگوں کومشرق سے مغرب کی طرف ہرکت دے گی اوربہشت کی پہلی غذا مچھلی کاجگراوراس کے ٹکڑے ہوں گے جووہاں کی بہترین غذاہے تیسرے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایاکہ مردوعورت کے نطفہ میں سے جوبھی دوسرے پرغلبہ پاجائے بچہ اس کے ہم شکل ہوتاہے اوراگرعورت کانطفہ غالب آجائے توبچہ ماں یااس کے رشتہ داروں کے ہم شکل ہوتاہے۔ عبداللہ نے ان جوابات کوتورات سے ملایاتودرست پایااسی لمحہ اسلام قبول کرلیااورخداکی وحدانیت اوررسول ۖ کی رسالت کی گواہی دی۔ پھرعبداللہ کہنے لگا:یارسول اللہۖ ! کیونکہ میں یہودیوں کابڑاعالم دین ہوں اوربڑے عالم دین کابیٹاہوں اگروہ لوگ میرے اسلام لانے سے آگاہ ہوگئے تومجھے جھٹلادیںگے لہذااس وقت تک میرے ایمان لانے کوپوشیدہ رکھئے گاجب تک یہودکانظریہ میرے بارے میں معلوم نہ ہوجائے۔ پیغمبراسلامۖ نے موقع کوغنیمت جانتے ہوئے یہودیوں کے ساتھ ایک مجلس مناظرہ تشکیل دی جوآزادبحث ہی کی ایک دلیل تھی اورعبداللہ کواسی مجلس میں چھپاکے رکھاپھرگفتگوکے درمیان پیغمبراکرمۖ نے یہودیوں سے فرمایاکہ میں خداکاپیغمبرہوں خداکونگاہوں میں رکھواورنفسانی خواہشات سے دستبردارہوجاؤاورمسلمان ہوجاؤ۔وہ کہنے لگے: ہم دین اسلام کے صحیح ہونے کے بارے میں بے خبرہیں۔ پیغمبراسلامۖ: اچھایہ بتاؤکہ عبداللہ تمہارے درمیان کس قسم کاشخص ہے؟ یہودی گروہ: وہ ہمارے بڑے دانشورہیں اورعالم دین وپیشواکے فرزندہیں۔ پیغمبراسلامۖ: اگروہ مسلمان ہوجائے توتم لوگ بھی اس کی اطاعت کروگے؟ یہودی گروہ: وہ ہرگزاسلام لانے والے نہیں ہیں۔ پیغمبراسلامۖ نے عبداللہ کوآوازدی اورعبداللہ جوچھپے ہوئے تھے سب کے سامنے آئے اورکہنے لگے :اشہدان لاالہ الااللہ واشہدان محمدا رسول اللہ اورکہا اے گروہ یہود اللہ سے ڈرواورپیغمبرپرایمان لے آؤجب تم جانتے ہوکہ یہ اللہ کے پیغمبرہیں توکیوں ایمان نہیں لاتے؟ گروہ یہود میں غصے اوردشمنی کی لہریں دوڑ نے لگیں اورکہنے لگے:یہ ہمارے درمیان بدترین شخص ہے یہ اوراس کاباپ دونوں بدترین ونادان افرادمیں سے ہیں۔ پیغمبراکرمۖ کایہ طرزاستدلال اچھاتھااگرچہ ان یہودیوں نے اپنی شکست کااظہارنہ کیالیکن حقیقت میں وہ مغلوب ہوچکے تھے اورانصاف پسنددانشمند کے بارے میں ان کی ضداورہٹ دھرمی ثابت ہوچکی تھی لیکن عبداللہ واقعی خداکے آگے سرتسلیم خم کرنے والے بندے تھے جب حق کی خبرہوئی تواس سے پیوست ہوگئے حالانکہ ان حالات میں یہ بات نقصاندہ تھی اسی لئے پیغمبراکرمۖ نے ان کانام عبداللہ رکھاان کے ایمان لانے کادوسرے افرادپربھی اثرپڑااورکچھ عرصہ نہ گذراکہ مخیرق نامی یہودیوں کاایک اوردانشورکچھ اورافرادکے ہمراہ ان سے آکرمل گئے۔ ٤ جیساکہ ہمیں معلوم ہے کہ پیغمبراکرمۖ بیت المقدس جوکہ یہودیوں کاقبلہ تھا،کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاکرتے تھے اوراسی طرح ہجرت کے سولہ سال گزر جانے کے بعدتک مدینے میں بھی آپۖ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھاکرتے تھے یہودیوں نے اس بات کواسلام اورپیغمبراسلام پرنکتہ چینی کے لئے مناسب سمجھااورکہاکہ محمدۖ جودعوی کرتے ہیں کہ وہ ایک مستقل شریعت اورقانون لائے ہیں جب کہ ان کاقبلہ وہی ہے جویہودیوں کاقبلہ ہے ان کے اس طرح کے اعتراضات نے پیغمبراسلام کوآزردہ خاطرکیا،آپ وحی کے منتظررہتے،یہاں تک کہ بیت المقدس سے کعبہ کی جانب قبلے کی تبدیلی کے بارے میں سورۂ بقرہ کی آیت ١٤٤نازل ہوئی۔ ہجرت کے سولہ سال بعد١٥رجب کی تاریخ تھی،پیغمبراکرمۖ مسجدبنی سلمہ جومسجداحزاب سے ایک کلومیٹرپرواقع تھی میں نمازجماعت کی امامت کررہے تھے ابھی دورکعت تمام ہوئی تھی کہ جبرئیل امین سورۂ بقرہ کی آیت١٣٩لے کرنازل ہوئے۔لہذاپیغمبراکرم نے اسی حالت میں اپنارخ کعبے کی طرف بدلااورباقی دورکعتیں کعبے کی طرف رخ کرکے پڑھیں اقتدارکرنے والوں نے بھی ایساہی کیا،جب سے وہ مسجدذوقبلتین کے نام سے معروف ہے،اس واقعے کے بعدسے یہودیوں نے ہرطرف سے قبلے کی تبدیلی کے قانون پراعتراضات شروع کردئیے اوراس واقعے سے اسلام کے خلاف تبلیغ شروع کردی،چنانچہ ایک نشست میں ان کے اورپیغمبراکرمۖ کے درمیان طے پایاکہ اس مسئلے پرآزادبحث کے دوران بات کی جائے یہودیوں کی کچھ تعدادنے اس میں شرکت کی اوریہودیوں نے ابتداء کرتے ہوئے سوالات شروع کئے اورکہاکہ آپۖ کومدینے میں آئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہورہاہے اب تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے رہے اوراب جوآپ کعبے کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے ہیں توذرایہ بتائیں کہ وہ نمازیں جوآپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھیں صحیح تھیں یاباطل؟ اگرصحیح تھیں تویقیناآپ کادوسراعمل باطل ہوگااوراگرباطل تھیں توہم کس طرح دیگرتمام افعال کے بارے میںاطمئنان کریں کہیں ایسانہ ہوکہ وہ آپ کے تبدیلی قبلے کی طرح باطل ہوں؟ پیغمبراکرم ۖ: دونوں قبلے اپنی اپنی جگہ درست اوربرحق ہیں ان چندمہینوں میں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھنابھی برحق تھااوراب خدا کی طرف سے ہمیں حکم ملاہے کہ خانہ کعبہ کواپناقبلہ قراردیں۔پھرآپۖ نے سورہ بقرہ کی آیت١١٥کی آیت تلاوت فرمائی۔ وللہ المشرق والمغرب فاینماتولوفثم وجہ اللہ ان اللہ واسع علیم۔ سب مشرق ومغرب خداکے لئے ہیں جس طرح بھی دیکھوخداہی خداہے اوربیشک خدابے نیازوداناہے۔ یہودی گروہ: اے محمدۖ! کیاخدابربدائ کاقانون صادق آتاہے یعنی(کوئی بات پہلے اس پرمخفی تھی اوراب آشکارہوئی ہواورپہلے حکم سے منحرف ہوکراس نے دوسراحکم صادرکیاہو)اوراسی بنیادپرنیاقبلہ معین کیا؟اگرآپ اس طرح کہتے ہیں توگویاخداکوایک نادان انسان کی طرح فرض کیاہے؟ پیغمبراسلامۖ : خداکے لئے ان معنوں میں بدائنہیں ہے خداآگاہ اورمطلق قدرت کامالک ہے۔اس سے ہرگزخطاسرزدنہیں ہوتی کہ جس کے بعدوہ پشیمان ہواورنظرثانی کرے اورکوئی چیزاس کے راستہ میںرکاوٹ نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ وقت کوتبدیل کرے۔ میں آپ لوگوں سے پوچھتاہوں کیابیمار شخص شفایاب نہیں ہوتایاصحت مندشخص بیمارنہیں ہوتایازندہ نہیں مرتا؟کیاسردی گرمی میں تبدیلی نہی ہوتی؟خداجوان امورکودوسری شکل میں تبدیل کرتاہے اس کے لئے بدائ کہاجائے گا؟جواس طرح کے امورکوتبدیل کرتاہے کیااس کوبعدمیں معلوم ہوتاہے جوکرتاہے؟ یہودی گروہ: نہیں ان امورمیں بدائ نہیں ہے۔ پیغمبراکرمۖ : پس قبلے کی تبدیلی بھی انہی امورمیں سے ہے خداہرزمانے میں بندوں کی مصلحت کے پیش نظرمخصوص حکم دیتاہے جواس کی اطاعت کرے گااجر پائے گاورنہ سزاپائے گا۔لہذاخداکی مصلحت وتدبیرکے سلسلے میں مخالفت نہیں کرنی چاہئے اورمیرادوسراسوال آپ لوگوں سے یہ ہے کہ کیاآپ لوگ ہفتہ کے دن اپنے کاموں کی چھٹی نہیں کرتے؟ اورکیاہفتے کے بعدسے اپنے کاموں میں مشغول نہیں ہوتے؟کیاپہلاصحیح اوردوسراغلط ہے؟ یابرعکس پہلاغلط اوردوسراصحیح یادونوں غلط یادونوںصحیح ہیں؟ یہودی گروہ: دونوں صحیح ہیں۔ پیغمبراسلامۖ :پس میں بھی تویہی کہہ رہاہوںکہ دونوں صحیح ہیں گزشتہ سالوں میں اورمہینوں میں بیت المقدس کوقبلہ قراردیناصحیح ہے آپ لوگ بیمارانسانوں کی مانندہیں خداتمہارے لئے ماہرطبیب کی حیثیت رکھتاہے بیمارکی اچھائی اسی میں ہے کہ ماہرطبیب کی پیروی کرے اوراپنی نفسانی خواہشات پراس کے نسخے کوترجیح دے۔ منقول ہے کہ کسی نے امام حسن عسکری سے(جواس مناظرے کے نقل کرنے والے ہیں)سوال کیاکہ معلاء کیوں پہلے ہی سے مسلمانوں کاقبلہ کعبہ قرارنہ پایا؟امام نے فرمایا: خدانے سورۂ بقرہ کی آیت ١٤٣ میں اس سوال کاجواب دیاہے اس آیت کامفہوم یہ ہے کہ اس حکم کومومنین ومشرکین کی پہچان کے لئے دیاگیاہے تاکہ ان کی صفیں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں کیونکہ اس زمانے میں کعبہ مشرکوں کے بتوں کامرکزتھاان کے سامنے مشرک سجدہ کرتے تھے لہذامسلمانوں کوحکم ہواکہ فی الحال بیت المقدس کی طرف سجدہ کریں تاکہ اپنی صفوں کومشرکین کی صفوں سے جدارکھ سکیں لیکن آپۖ نے جب مدینے ہجرت کی اورایک مستقل حکومت کی بنیادڈالی اوران کی صفیں دوسروں سے جداہوگئیں توپھراس قسم کی ضرورت نہیں رہی لہذامسلمانوں کوکعبے کے طرف متوجہ کیا۔ ظاہرہے شروع میں بیت المقدس کی سمت نمازپڑھنانئے مسلمانوں کے لئے جوابھی دوران شرک کی رسومات کونہیں بھولے تھے مشکل کام تھا۔ ہذااسے لوگوں کواس حکم کے ذریعے آزمایاگیاتاکہ اپنے جاہلیت کے زمانے والے پیوندوں کوتوڑدیں اوریہ بات ظاہرہے کہ جب تک انسان باطل رسومات کونہ توڑے صحیح طرح سے حق کوقبول نہیں کرسکتااوردرحقیقت ابتدامیں بیت المقدس کی طرف توجہ دلانااورلوگوں کی فکروروح میں ایک تحریک پیدا کرنا تھااوراسلام اس طریقے سے ماحول کے اثرات کودھوناچاہتاتھا لیکن مدینے میں ایسی کوئی ضرورت نہیں تھی یامکہ کی طرف توجہ کرنے کی مصلحت اس سے زیادہ تھی۔
٥ ایک دن ایک گروہ کے لوگ پیغمبراکرمۖ کے پاس آئے اورکہنے لگے ہمیں قرآن پراشکال ہے لہذاآپ سے مناظرہ کرنے آئے ہیں۔ کیاآپ خداکے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں؟ پیغمبراکرمۖ : ہاں۔تمہارااشکال کیاہے؟ یہودی گروہ: ہماراقرآن پراشکال یہ ہے کہ سورہ انبیاء کی آیت ٩٨میں توخدافرماتاہے:انکم وماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم۔ یعنی تم لوگ اوروہ کہ جن کی تم خداکے علاوہ عبادت کرتے ہوجہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے بنوگے۔ توہمارااشکال یہ ہے کہ اس آیت کے مطابق توحضرت عیسی علیہ السلام کوبھی دوزخی ہوناچاہئے کیونکہ حضرت مسیح کوبھی ایک جماعت خدامانتی اورپرستش کرتی ہے۔ پیغمبراکرمۖ: نے ان کے اس اعتراض کوسنااورفرمایاکہ قرآن کلام عرب کے عرف کے مطابق نازل ہواہے کیونکہ کلام عرب میں لفظ من اکثرذوی العقول کے لئے استعمال ہوتاہے اورلفظ ما غیرذوی العقول کے لئے جیسے جمادات وحیوانات وغیرہ ہیں لیکن کلمہالذی ذوی العقول وغیر ذوی العقول دونوں کے لئے استعمال ہوتاہے لہذاآیت میں لفظ مااستعمال ہواہے جس سے مرادوہ معبودہیں جوصاحب عقل نہ ہوں جیسے لکڑی وپتھرومٹی وغیرہ سے بنائے ہوئے بت ہوتے ہیں لہذاآیت کے معنی یہ ہوں گے کہ غیرخداکی پرستش کرنے والوں اوروہ بت جن کی پرستش کی جاتی ہے،کی جگہ جہنم ہے۔ پیغمبراکرمۖ کی یہ گفتگوسن کروہ لوگ قائل ہوگئے اورپیغمبراکرمۖ کی تصدیق کرتے ہوئے اٹھ کرچلے گئے۔ ٦ ہرزمانے میں منافقوں کی ایک خاص عادت رہی ہے کہ وہ جاہ طلبی اورلوگوں کی طرفداری حاصل کریں تاکہ محبوبیت اجتماعی حاصل کرسکیں اورلوگوں پرقدرت حاصل کرکے ان پرحکومت کریں۔اسی لئے وہ رہبری کے مسئلے میں بڑے حساس ہوتے ہیں اوربڑی دقت سے کام لیتے ہیں۔ خصوصازمانہ پیغمبرۖ میں جب امام علی کی رہبری کومختلف اورمناسب مواقع پرمطرح کیاجاتاتھاتومنافقین کوشش کرتے تھے کہ اس کی مخالفت کریں حتی کہ بعض مواردمیں خود پیغمبر اکرمۖ کوبھی ضرب لگاناچاہتے تھے تاکہ مسئلہ رہبری کواس خاندان سے جداکردیں ان کی ایک سازش جوجنگ تبوک کے موقع پرسامنے آئی وہ یہ کہ وہ لوگ چوری چھپے حضرت علی اور خودپیغمبراکرمۖ کرناچاہتے تھے لہذاان میں سے ٢٤افرادنے مجرمانہ نشست تشکیل دی اوریہ طے پایاکہ اس حساس موقع پرجب مسلمان جنگ میں سرگرم ہوں گے ان دونوں افرادکوقتل کردیاجائے لہذاان میں سے١٠افرادحضرت علی کوقتل کرنے کے ارادے سے مدینے میں رک گئے اور١٤افرادمناسب موقع کی تلاش میں رہے تاکہ جنگ تبوک میں شریک ہوکرپیغمبراکرمۖ کاکام تمام کردیں۔ اسلامی فوج جودس ہزارسواراوربیس ہزارپیادوں پرمشتمل تھی پیغمبراکرمۖ کی رہبری میں مدینے سے تبوک کی طرف حرکت کررہی تھی جب کہ پہلے یہ خبرمل چکی تھی کہ روم کی فوج جوچالیس ہزارسوارپیادوں پرمشتمل تھی تمام جنگی سازوسامان کے ساتھ شام کی سرحدوں اورکمین گاہوں پرمتعین ہے اورمسلمانوں پرغافل گیرانہ حملہ کرناچاہتی ہے اگرچہ یہ جنگ مختلف جہات سے کافی دشوارتھی جس میں آپ وغذاوگرمی کی سختیاں بھی تھیں اسی لئے اس جنگ کوجیش العسرة یعنی ایسے سپاہی جوسخت دشواریوں کے سامنے تھے،کہاجاتاہے ہے۔ لیکن مسلمانوں کی فوج ایمان،توکل،استقامت کے ساتھ پیغمبراکرمۖ کی رہبری میں حرکت کررہی تھی اوریہ لوگ مدینے وتبوک کے درمیان کاطولانی راستہ طے کررہے تھے۔ اورجب نویں ہجری کوماہ شعبان میں اسلامی فوج تبوک کی سرزمین پرپہنچی تورومی فوج پہلے ہی سے خوف ووحشت کی وجہ سے میدان چھوڑچکی تھی لہذایہ جنگ واقع نہ ہوسکی اس طرح منافقوں کی یہ سازش ناکام ہوئی اب انہوں نے نئی سازش چلی کہ مسلمانوں کے درمیان مشہورکردیاکہ پیغمبراکرمۖ حضرت علی سے بیزارتھے اسی لئے حضرت علی کواپنے ساتھ جنگ پرنہیں لے گئے یہ لوگ اپنی اس نامردانہ سازش اورتہمت سے امام علی کی رہبری پرضرب لگاناچاہتے تھے لہذاحضرت علی کوجب ان کی اس سازش کاعلم ہواتوآپ مدینے کے باہر نکلے اورپیغمبراکرمۖ سے ملاقات کرکے قصہ بیان کیاتوپیغمبراکرمۖ نے فرمایا:کیاتم راضی نہیں ہوکہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جوہارون کوموسی سے تھی فرق صرف اتناہے کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوگا۔پیغمبراکرمۖ کی یہ بات سن کرقلب علی کوسکون ہوااورمدینہ واپس لوٹے۔ منافقین جوامام علی کی رہبری پرضرب لگاناچاہتے تھے نہ صرف یہ کہ ان کی سازش ناکام ہوئی بلکہ پیغمبرۖ کی اس تائیدسے آپ کی رہبری اورہم نشینی میں اوربھی زورپیداہوگیا۔اسی طرح مدینے واپسی پرمنافقوں نے حضرت علی کے راستے میں گڑھاکھودااوراس کے اوپرگھاس ڈال کرچھپادیاتاکہ اس طرح حضرت علی سے اپنی دشمنی نکال سکیں مگرخدانے اس موقع پربھی حضرت علی کوان کی اس سازش سے زندہ بچایااورحضرت علی زندہ وسلامت مدینے پہنچے اس طرح ان دس افرادجوحضرت علی کے قتل کے ارادے سے مدینے رکے تھے،کی سازشیں ناکام ہوئیں۔ اورباقی چودہ افرادجولشکراسلام کے ہمراہ تھے انہوں نے خفیہ منصوبہ بنایاتھاکہ تبوک سے لوٹتے وقت مدینے وشام کے درمیان جوپہاڑہے اس میں چھپ کررسول خداۖ کے اونٹ کوپتھرماریں گے تاکہ وہ بھاگے اوراس طرح رسول خداۖ پہاڑوں کے درمیان گرکرہلاک ہوجائیں گے لہذاجیسے ہی پیغمبراکرم ان پہاڑوں کے نزدیک ہوئے جبرئیل نے آکرپیغمبراکرمۖ کومنافقین کی اس سازش سے آگاہ کیا اورمدینے والے منافقین کے بارے میں بھی آگاہ کیاجوحضرت علی کے خلاف سازشیں کررہے تھے۔ پیغمبراکرمۖنے مسلمانوں کومنافقین کی اس سازش سے آگاہ کیااورحضرت علی کی شان میں کچھ باتیں بھی کیں وہ چودہ منافقین بھی اپنے آپ کوپیغمبراکرامۖ سے محبت کرنے والاظاہرکرتے ہوئے آپ کی خدمت میں آکرحضرت علی کی رہبری کے سلسلے میں سوالات کرنے لگے پیغمبراسلام بھی بڑے اطمینان سے ان کے سوالوں کاجواب دینے لگے تاکہ ان پراتمام حجت کرسکیں۔ منافقین نے اس طرح بحث کاآغازکیاکہ ہمیں یہ بتائیں کہ علی بہترہیںیافرشتے؟ پیغمبراکرمۖ: فرشتوں کی مقام ومنزلت ہی اس میں ہے کہ وہ محمد وعلی اورخداکے بھیجے ہوئے رہبروں سے محبت کریں اوران کی رہبریت کوقبول کریں لہذاہروہ انسان جواخلاص اورپاک قلب کے ساتھ ان کی رہبریت کوقبول کرتااوران سے محبت کرتاہے وہ فرشتوں سے برترہے۔ کیاتم لوگوں کوعلم نہیں کہ فرشتوں کا آدم کوسجدہ کرناہی اس لئے تھاکہ وہ اپنے آپ کوآدم سے افضل وبرترجانتے تھے لیکن خدانے جب آدم کاعلمی وانسانی مقام انہیں دکھایاتوپھرانہوں نے اپنے آپ کوآدم کے مقابل میں پست پایالہذااسی دن یہ سجدہ تمام نیکوکارخصوصاپیغمبراسلامۖ وحضرت علی ودیگرآئمہ کے لئے قرارپایاکیونکہ اس وقت بھی صلب آدم میں یہ لوگ موجودتھے گویایہ سب ایک دوسرے کے پیچھے کمال ونظم کے ساتھ صف آراء تھے اس عالم میں فرشتوں نے آدم کوسجدہ کیااگرچہ ظاہرمیں یہ سجدہ حضرت آدم کے لئے تھا مگردرحقیقت خداکے لئے تھااوراس مقام پرآدم مانندقبلہ تھے یعنی خانہ کعبہ کے ہم مقام تھے اورابلیس لعین جس نے غروروتکبرکے خاطر حضرت آدم کوسجدہ نہیں کیاوہ درگاہ الہی سے نکال دیاگیا۔ منافقین: ممکن ہے ان رہبروں کے اشتباہات وترک اولی حضرت آدم کی طرح وقت سے پہلے ہلاک کردیں۔ پیغبراکرمۖ: اگرحضرت آدمۖ نے بہشت کے منع شدہ درخت سے پھل کھاکرترک اولی کیاتویہ تکبروغرورکے تحت نہیں تھااسی لئے وہ جلدہی اپنے اس کئے پرپشیمان بھی ہوئے اورتوبہ کی۔خدانے بھی ان کی اس توبہ کوقبول کرلیا۔ وہ مقام جہاںمنافقوں کے اصل نقشے خاک میں مل چکے تھے پیغمبراکرم کی یہ گفتگومنافقین کے لئے بے سودثابت ہوئیں اوروہ پہلے کی طرح اپنے سازشوں سے بازنہیں آئے یہاں تک کہ وہ اپنے اس فریب پربھی باقی رہے جوپیغمبراکرم کو پہاڑوں کے درمیان دھکیل کرقتل کی سازش بنائی ہوئی تھی۔لہذاپیغمبراکرمۖ نے جوحضرت جبرئیل کے ذریعہ اس سازش سے آگاہ تھے مسلمانوں میں سے حذیفہ نامی ماہرشخص کوحکم دیاکہ وہ پہاڑکے ایک کونے میں بیٹھ جائے تاکہ کوئی مجھے سے پہلے پہاڑپرنہ چڑھ سکے سب پیغمبراکرمۖ کے پیچھے پیچھے حرکت کریں گے۔ لہذاحذیفہ پیغمبراکرمۖ کے حکم کے مطابق پہاڑکے ایک پتھرکے پیچھے چھپ کربیٹھ گئے تاکہ کوئی پیغمبراکرم سے پہلے نہ چڑھے لیکن پھربھی انہوں نے دیکھاکہ وہ ی ١٤افرادبڑے ماہرانہ اندازمیں پیغمبراکرم سے پہلے پہاڑپرچڑھ گئے اورہرایک نے اپنے کوایک ایک پتھرکے پیچھے چھپالیاہے حذیفہ نے سب کوپہچان لیا اورفوراپیغمبراکرمۖ کوآکراس کی خبردی پیغمبراکرم ان کی سازشوں سے آگاہی کے باوجوداونٹ پرسواررہے۔ حذیفہ بن الیمان،سلمان فارسی،عماربن یاسر، آنحضرت کی نگہبانی کررہے تھے جیسے ہی پہاڑ کے اس کونے پرپہنچے منافقین نے بھی اپنی سازش کے تحت اوپرسے پتھرلڑھکایاتاکہ پیغمبراکرم کے اونٹ کوڈرائیں وہ بدک کربھاگ جائے اورپیغمبراکرم پہاڑوں کے درمیان گرکرہلاک ہوجائیں لیکن سب نے دیکھاکہ وہ لڑھکنے والاپتھراس وقت تک اسی بلندی پررکارہاجب تک پیغمبر اکرم اورآپ کے تمام ساتھی سلامتی کے ساتھ گھاٹی سے گزرنہ گئے اس طرح کسی کابھی بال بیکانہ ہوا۔ پیغمبراکرمۖ نے عمارکوحکم دیاکہ اوپرجاکے ان منافقین کے اونٹوں کومشتعل کردو۔عمارحکم پیغمبرکی اطاعت کرتے ہوئے اوپرگئے اوران منافقین کے اونٹوں کومشتعل کرنے لگے اسی اثناء میں جومنافقین اپنے اونٹوں پرچڑھ چکے تھے وہ اونٹوں کے مشتعل ہونے سے زمین پرگرنے لگے جس کی وجہ سے بعض کے ہاتھ پیربھی ٹوٹ گئے اس طرح ان منافقین کوپیغمبراکرم اوران کے اسلام سے دشمنی کرنے کاسبق ملالہذاہمین بھی چاہئے کہ ہرطرح سے اسلام کادفاع کرین اورمنافقین کے ارادوں کوناکام بنائیں۔ نتیجہ: پیغمبراکرمۖ نے خودمنافقین کے ساتھ بھی ان کی سازشیں آشکارہونے سے پہلے ان سے مناظرے کئے جس کے ذریعے عقل ومنطق کے راستے دکھانے کی کوشش کی اورآخرتک ان پرحجت تمام کرتے رہے۔ ٧ نجران ،مکہ ویمن کے درمیان کی آبادی ہے جس میں٧٣گاؤں تھے صدراسلام کے وقت وہاں عیسائی مذہب کے روحانی پاپ زندگی بسرکرتے تھے۔ وہاں کاسیاسی حاکم عاقبنام کاشخص تھااورنجران کامذہبی رہنماابوحارثہ تھاجولوگوں کے درمیان مورداعتمادوقابل احترام تھا۔اسی طرح ایھم نامی شخص بھی کافی مشہورتھاوہ بھی لوگوں کے درمیان محترم وقابل احترام شمارہوتاتھا۔ جب ندائے اسلام پوری دنیامیں پھیلی تومسیحی علماء جنہوں نے پہلے ہی کتاب تورات اورکتاب انجیل میں دی ہوئی بشارتیں پیغمبراسلامۖ کے بارے میں پڑھی ہوئی تھیں وہ اس خبرکی تحقیق میں لگ گئے اسی تحقیق کے خاطرنجران کے مسیحیوں نے تین مرتبہ اپنے نمائندوں پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے کرپیغمبراسلام کے پاس بھیجی تاکہ نبوت کی صداقت کے بارے میں تحقیق کریں ایک بارہجرت سے پہلے پیغمبراسلام کے پاس آئے اورمناظرے کئے دوسری اورتیسری مرتبہ ہجرت کے بعدمدینے میں پیغمبراسلام کے ساتھ مناظرہ ہواجس کاخلاصہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں: پہلامناظرہ: پہلی مرتبہ مسیحی مذہب کے نمائندے مکہ میںپیغمبراسلام کے پاس آئے تاکہ ان کی نبوت کی صداقت کے سلسلے میں تحقیق کریں لہذاکعبے کے اطراف میں انہوں نے رسول اللہۖ سے ملاقات کی اوربحث ومناظرے کوشروع کیاپیغمبراسلام خاموشی سے سنتے رہے اورپھران کے جواب دیناشروع کئے آخرمیں پیغمبر اسلام نے قرآن کی بعض آیات کی تلاوت کی جوس حدتک ان پراثراندازہوئیں کہ قرآن سنتے سنتے بے اختیاران لوگوں کی آنکھوں میں آنسوآگئے اورجب انہوں نے پیغمبراسلام کے بیانات کوبالکل اسی بشارت کے مطابق پایاجوان کوتورات وانجیل سے دی گئی تھیں تووہ فورامسلمان ہوگئے۔ وہ آیت جس کی پیغمبر اسلام ان کے سامنے تلاوت کی جواسی موقع پرنازل بھی ہوئی تھی وہ سورہ مائدہ کی آیت٨٣ تھی: واذاسمعواماانزل الی الرسول اعینہم تفیض من الدمع مماعرفوا من الحق یقولون ربناآمنافاکتبنامع الشاہدین۔ اورجب وہ سنتے ہیں اس کوجو(اس) رسول کی طرف اتاراگیا،توتم دیکھتے ہوکہ ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوجاتے ہیں،اس لئے کہ انہوں نے حق کوپہچان لیاہے۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار!ہم ایمان لائے،پس توہم کوبھی گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے۔ تمام مشرکین خصوصاابوجہل کواس مناظرے سے بڑادکھ پہنچااورجب نجران کے نمائندے پیغمبراسلام کے پاس سے اٹھ کرجانے لگے توابوجہل اوراس کے ساتھ کچھ لوگوں نے ان کاراستہ روکااوران کوبرابھلاکہنے لگے کہ تم نے مسیحیوں کے ساتھ خیانت کی ہے اورتم اپنے آئین سے پلٹ گئے اوراسلام قبول کرلیا۔ انہوں نے بڑی نرمی سے جواب دیتے ہوئے کہاتمہیں ہم سے یاہمیں تم سے کوئی سروکارنہیں ہے اپنے اعمال کے جواب گوہم خودہوں گے۔(سیرت حلبی جلداول صفحہ ٣٨٣)۔ دوسرامناظرہ: یہ مناظرہ نجران مکہ کے بڑے سیاسی ومذہبی لیڈروں کے ساتھ مدینے میں ہجرت کے نویںسال پیش آیاجومباہلہ کے نام سے مشہورہے۔ جب پیغمبراسلامۖ نے تمام دنیاکے سربراہوں کے نام خطوط بھیجے اورانہیں اسلام کی دعوت دی۔ایک خط نجران کے رہنماابوحارثہ کے پاس بھی بھیجاجس میں اسلام کی دعوت دی گئی تھی نجران کاپاپ یہ خط پڑھ کرغصے سے سرخ ہوگیااوراسی وقت خط کوپھاڑدیااورنجران کے دوسرے بزرگان اوراہم اشخاص کوجمع کرکے مشورہ کیااس کے ساتھی کہنے لگے کہ کیونکہ موضوع کاتعلق نبوت سے ہے لہذاہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پھراس نے یہ بات عوامی آراء میں رکھی تونتیجتا یہ طے پایاکہ نجران کے تمام مسیحیوں کی طرف سے اہل علم کاایک گروہ پیغمبراسلامۖ کے پاس مدینہ جائے اوراس مسئلے میں ان سے مناظرہ کرے تاکہ حقیقت معلوم ہوسکے۔ اگرچہ اس سلسلے میں گفتگوزیادہ ہے(جولوک اس کی تفصیل دیکھناچاہیں وہ بحارالانوارکی جلد٢١کے صفحے ٣٧٦میں رجوع کریں)۔ نتیجہ یہ نکلاکہ مسیحیوں میں سے وہ ١٤افرادجوسب سے زیادہ قابل مانے جاتے تھے پیغمبراسلام کے پاس مدینہ آئے تاکہ آپۖ سے مناظرہ کریں یہ نجران کے نمائندے عملابہترین زرق وبرق والے لباس پہن کرآئے تاکہ جیسے ہی مدینے میں واردہوں تومدینے کے لوگ ان کی طرف جذب ہونے لگیں اوراس طرح ضعیف النفس لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت بٹھاسکیں۔ پیغمبراکرم ۖ بھی تمام پہلوؤں پرنگاہ رکھے ہوئے تھے جب یہ نجران کے نمائندے پیغمبراسلام کے پاس آئے توآپۖ نے ان کی طرف بالکل توجہ نہ کی اوردوسرے مسلمانوں نے بھی ان کے ساتھ کوئی بات نہیں کی آخروہ تین دن تک مدینے میں حیران وسرگردان پھرتے رہے کہ ایک دن ان میں سے ایک نے عثمان وعبدالرحمن جوان کے سابقہ دوست تھے اس کی وجہ پوچھی توانہوں نے ان نمائندوں کوحضرت علی کے پاس بھیجاجب یہ حضرت علی کے پاس پہنچے توآپ نے فرمایاکہ یہ زرق وبرق والے لباس اپنے سے دورکرکے پیغمبراسلام کی خدمت میں جاؤتاکہ ان سے ملاقات میں کامیابی حاصل کرسکووہ لوگ حضرت علی کے کہنے کے مطابق فاخرہ لباس تبدیل کرکے گئے اورپیغمبراکرم سے ملاقات کاان کوشرف ملا۔ پیغمبراسلام جومسجدمیں خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نمازباقی لوگ آ پ کی اقتدامیں نمازپڑھ رہے تھے نجران کے نمائندے آکراپنے مذہب کے مطابق بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازمیں مشغول ہوگئے کچھ مسلمانوں نے ان کومنع کرنے کی کوشش کی مگرپیغمبراسلام نے ان کوروکااس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان نمائندوں کومدینے میں پوری آزادی ملی ہوئی تھی کسی کے زیراثرنہیں تھے لہذاتین تک ہرروزنمازجماعت کے بعدپیغمبراسلام اوران نمائندوں کے درمیان مناظرے ہوئے جن میں مسلمانوں کے علاوہ دیگرمسیحی ویہودی بھی شرکت کرتے تھے جس میں سب سے پہلے پیغمبراسلام نے گفتگوسروع کرتے ہوئے ان نجران کے نمائندوں کواسلام اورتوحیدکی طرف دعوت دی کہ آؤہم سب ایک خداکی پرستش کرتے ہیںاورخداکے فرمان کے مطابق زندگی بسرکریں پھرقرآن کی چندآیتوں کی تلاوت کی۔ اہل نجران :اگراسلام لانے سے آپ کامقصدخداپرایمان لانااورخداکے فرمان پرعمل کرناہے توہم پہلے ہی سے مسلمان ہیں۔ پیغمبراکرمۖ: اسلام حقیقی کی جوعلامات ہیںان میں سے تمہارے تین اعمال تمہارے مسلمان نہ ہونے پردلالت کرتیہیں۔ ایک علامت تمہاراصلیب کی پرستش کرنا،دوسری علامت سورکے گوشت کوحلال جاننااورتیسری علامت عقیدہ کہ خداکافرزندہے۔ اہل نجران: ہمارے عقیدے کے مطابق حضرت عیسی خداہیں کیونکہ وہ مردوں کوزندہ کرتے تھے اورلاعلاج بیمارکوشفادیتے تھے اورمٹی سے پرندہ بناکراس میں روح پھونکتے تھے اس طرح وہ مٹی پرندہ بن کراڑنے لگتی تھی،اس طرح کے کام ان کی خداہونے پردلالت کرتے ہیں۔ پیغمبراکرم: نہیں ہرگزان کے یہ کام ان کی خدائی پردلالت نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ خداکے ایک نیک بندے تھے کہ خدانے ن کوحصرت مریم کے رحم سے پیداکیااورانہیں اس طرح کے معجزے عطاء کئے،ان کاجسم بھی گوشت پوست ورگ واعصاب وغیرہ پرمشتمل تھا،وہ بھی غذاکھاتے اورپانی پیتے تھے،ایسا شخص خدانہیں ہوسکتاکیونکہ خداکاکوئی مثل نہیں ہے۔ نجران کانمائندہ کہنے لگاکہ حضرت عیسی خداکے بیٹے تھے اس بات پرہمارے پاس دلیل یہ ہے کہ ان کی مادرمریم سلام اللہ علیہاکے ساتھ کسی نے ازدواج نہیں کی تھی اورپھربھی حضرت عیسی کی ان سے ولادت ہوئی لہذاان کاباپ خدااوروہ خداکے بیٹے۔
پیغمبراسلام نے سورہ آل عمران کی آیت ٦١کی تلاوت کی اورفرمایاکہ عیسی کی مثال حضرت آدم کی سی ہے کہ خدانے ان کوبغیرماں باپ کے خاک سے پیدا کیااوراگرباپ نہ ہونادلیل ہے کہ عیسی خداکے بیٹے ہیں توحضرت آدم جن کے ماں باپ دونوں ہی نہیں تھے ان کوبدرجہ اولی خداکابیٹاکہناچاہئے۔ نجران کے نمائندوں نے جب یہ دیکھاکہ جوبھی ہم پوچھتے ہیں توپیغمبراسلام جواب دیتے ہیں توجودنیاوی حرص میں مناظرہ کرنے آئے تھے قائل ہونے کے بعد بھی کہنے لگے کہ آپ کی یہ باتیں ہمیں قائل نہیں کرسکیں لہذابہترہے کہ ہم آپس میں مباہلہ کریں یعنی ایک جگہ جمع ہوکرخداسے رازونیازکریں اورجھوٹ بولنے والوں پرنفرین کریں تاکہ خداجھوٹ بولنے والوں کوہلاک کردے۔
پیغمبراسلام نے وہی سورہ آل عمران کی آیت٦١ کے نازل ہونے کے بعد ان کی اس دعوت مباہلہ کوقبول کرلیااورپھرسب مسلمانوں کواس خبرسے آگاہ کیا۔ لوگوں میںمباہلہ کی باتیں ہونے لگیں اورلوگ مباہلہ کے انتظارمیں تھے۔ ہجرت کے نویں سال کا٢٤ویں ذی الحجہ کادن آیانجران کے نمائندوں نے آپس میں پہلے یہ کہہ رکھاتھاکہ اگرمحمدۖ لشکرواسباب کے ساتھ آئے توان سے مباہلہ کرنے میں نہ ڈرنااورمباہلہ کرناگویاپس پردہ کوئی حقیقت نہیں ہے اوراگرکم افراد کے ساتھ آئے توان سے مباہلہ نہ کرناکیونکہ اس حال میں ان کے ساتھ مباہلہ کرناخطرناک ہے۔ نجران کے نمائندے مباہلہ کی جگہ پرجمع ہوکرتورات وانجیل کی تلاوت اوررازونیازکرنے میں مصروف ہوگئے اوراس جگہ پیغمبراسلام کے آنے کاانتظارکرنے لگے ناگاہ انہوں نے دیکھاکہ پیغمبراسلام اپنے ساتھ چار دوسرے افرادکولئے چلے آرہے ہیں ایک ان کے داماد علی ،دوسرے ان کی بیٹی فاطمہ اوردوان کے فرزند۔ نجران کے نمائندوں میں شرجیل نامی شخص چلاکربولا خداکی قسم میں ایسی صورتوں کودیکھ رہاہوں جواگرخداسے چاہیں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے توایساہی ہوگالہذاڈرواورمباہلہ نہ کرو۔پھربھی اگرتم نے محمدکے ساتھ مباہلہ کیاتونجران کے مسیحیوں میں سے ایک فردبھی نہیں بچ سکے گالہذامیری بات سنواورمباہلہ نہ کرو۔ شرجیل کی اتنی تاکیدنے دوسرے نجران کے نمائندوں کے دلوں پراثرکیاجس کی وجہ سے ان پرعجیب سااضطراب طاری ہوافوراانہوں نے ایک شخص کوپیغمبراسلام کے پاس بھیجااورمباہلہ کوترک کرنے اورصلح کرنے کی درخواست کی۔ پیغمبراسلام نے بھی ان چارشرائط کے تحت صلح قبول کرلی: اول یہ کہ نجران کے لوگ پابندہیں کہ اگراپنے علاقوں میں امن چاہتے ہیں توہرسال دوہزارحلے لباس دوقسطوں میںحکومت اسلامی کواداکریں۔ دوم یہ کہ جب بھی محمدۖ کاکوئی نمائندہ نجران جائے اس کی ایک ماہ یااس سے زیادہ مہمان نوازی کی جائے۔ سوم یہ کہ جب بھی یمن میں اسلام کے خلاف کوئی شوراٹھے نجران کے لوگ پابندہیں کہ تیس زرہ،تیس گھوڑے،تیس اونٹ عاریتاحکومت اسلامی کودیں۔ چہارم یہ کہ اس صلح نامہ کے بعدسے نجران کے لوگوں میں شراب ممنوع ہے۔ نجران کے نمائندوں نے اس ترتیب سے ان شرائط کوقبول کرلیا جب کہ حقیقت میں وہ لوگ پہلے ہی شکست کھاچکے تھے اورپھروہ لوگ نجران چلے گئے۔ (بحارالانوارجلد٢١صفحہ٣١٩۔ سیرة ابن ہشام جلد٢صفحہ ١٧٥۔ فتوح البلدان صفحہ٧٦)ضمناخودآیت مباہلہ ہی عظمت اہل بیت کوبیان کرتی ہے۔ نجران کاتیسراگروہ: یہ گروہ قبیلہ بنی حارث سے تھا جس میں بعض لوگ خالدبن ولیدکی نمائندگی میں پیغمبراسلام کے پاس مدینے آئے اورتحقیق کرنے کے بعد اسلام لے آئے اورکہنے لگے کہ ہم خداکالاکھ لاکھ شکراداکرتے ہیں کہ جس نے ہمیں آپ کے ذریعے ہدایت دی،پیغمبراسلام نے ان سے پوچھاتم لوگ کس طرح اپنے دشمنوں پرغالب آتے تھے؟ وہ لوگ کہنے لگے ہم آپس میں تفرقہ نہیں ہونے دیتے تھے اورکسی پرظلم نہیں کرتے تھے ۔پیغمبراسلام نے فرمایا: بیشک تم نے سچ کہا۔نتیجہ یہ نکلاکہ مسیحیوں کے نمائندوں میں سے پہلااورتیسراگروہ تواسلام لے آیامگردوسرے گروہ کاکام مباہلہ تک پہنچااورترک مباہلہ کے بعد حقانیت اسلام کوانہوں نے قبول کرلیا۔اگرچہ ظاہرمیں اسلام کوقبول نہیں کیاکیونکہ ان لوگوں کامباہلہ ترک کرواناخوداس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ لوگ محمدۖ اوراسلام کی حقانیت کوسمجھ چکے تھے صرف دوچیزیں ان کے اسلام لانے میں مانع تھیں ایک حکومت وریاست،دوسری نجران کے لوگوں کاخوف وڈر۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
٨
امام علی کامعاویہ سے مکاتبہ
معاویہ بن ابوسفیان نے حضرت علی کی خلافت میںجنگ صفین کے وقت ایک خط لکھاجس میں اس نے چارمطالبات کئے:
پہلامطالبہ شام کی سرزمین میرے حوالے کردیں تاکہ وہاں کی رہبری میں خودکروں۔
دوسرامطالبہ جنگ صفین کابرقراررہنا،مسلمانوں کی زیادہ خونریزی اورعرب کی نابودی کاسبب بنے گی لہذااسے رکوادیں۔
تیسرامطالبہ اس جنگ میں دونوں طرفین مسلمان ہیں اوراسلام کی اہم شخصیات ہیں۔
چوتھامطالبہ ہم دونوں عبدمناف کے فرزندہیں جوپیغمبراکرمۖ کے جدتھے ہم میں سے کسی کوایک دوسرے پرکوئی برتری حاصل نہیں ہے۔لہذا ابھی موقع ہے گزشتہ باتوں پرپشیمان ہوکرآئندہ کے لئے اپنی اصلاح کرلیں۔ (کتاب الصفین ابن مزاحم صفحہ ٤٦٨)۔
امام علی نے معاویہ کے ہرسوال کاجواب اس طرح دیا:
پہلے مطالبہ کاجواب : تم چاہتے ہوکہ میں تمہیں شام کی سرزمین دے دوں،یادرکھوجس چیزسے میں تمہیں کل تک منع کرتارہاآج بھی ہرگزتمہیں نہیں دوں گا کیونکہ حکومت الہیہ میں کل اورآج کی بحث نہیں ہے وہ ہرگزنااہلوں کے ہاتھ میں نہیں دی جاسکتی۔
دوسرے مطالبے کاجواب: تم نے یہ لکھاکہ یہ جنگ عربوں کی نابودی کاسبب بنے گی تویادرکھوکہ جوبھی جنگ میں حق کی طرفداری کرتے ہوئے مرااس کی جگہ جنت ہے اوراگرباطل کی طرفداری کرتے ہوئے مرااس کی جگہ آتش جہنم ہے۔
تیسرے مطالبے کاجواب :تمہارایہ دعوی ہے کہ تمہارے اورہمارے جنگی افرادبرابرہیںجب کہ ایسانہیں ہے اس لئے کہ تم یقین میں میرے درجہ تک نہیں پہنچ سکتے اوریادرکھواہل شام ،اہل عراق کی نسبت آخرت کے مسئلے میں زیادہ حریص نہیں ہیں۔
چوتھے مطالبے کاجواب :یہ جوتم نے کہاکہ ہم سب عبدمناف کی اولادسے ہیں اگرچہ یہ صحیح ہے لیکن تیرے جدامیہ میرے جدحضرت ہاشم کی مانند نہیں ہیں کیونکہ تیرے داداکی جنگ میرے داداعبدالمطلب کی طرح نہیں ہے اورتیرے باپ ابوسفیان اورمیرے باباابوطالب کے درمیان ہرگزکوئی برابری نہیں ہے اورمہاجرین ہرگزان اسیروں کے مانندنہین ہوسکتے جوکفاراوررسول اکرم کے آزادکردہ ہوں اورسنوصحیح النسب ہرگزمنسوب الپدرکے برابرنہیں ہوسکتے۔
حق پرست باطل کی مانند،مؤمن مفسدکی مانندہرگزنہیں ہوسکتے اورخدانے ہمیں مقام نبوت سے مفتخرکیاہے اوریادرکھوجب لوگ جوق درجوق اسلام کے گرویدہ ہورہے تھے اورحق کی طرف آرہے تھے سب کے بعدتم نے دنیاوی ہوس میں اسلام قبول کیالہذاتمہیں کسی بھی طرح کی فضیلت اسلام لانے میں حاصل نہیں ہے بلکہ آگاہ رہوکہ شیطان تم میں نفوذکرچکاہے(نہج البلاغہ نامہ نمبر١٧)۔
٩۔ امام علی کادفاع خلافت عثمانیہ کے زمانے میں ایک دفعہ مہاجرین وانصارکی تقریبادوسوافرادپرمشتمل جمعیت مسجدنبوی میں جمع ایک دوسرے سے گفتگومیں مصروف تھے۔ دونوں گروہ علم وتقوی کے بارے میں گفتگوکررہے تھے اورقریش کی برتری اوران کی ہجرت کی باتیں ہورہی تھیں کہ رسول خدانے قریش کے بارے میں کیا کہا۔بعض کہنے لگے رسول خدا نے قریش کے بارے میں کہاہے کہ الائمة من القریش یعنی آئمہ قریش سے ہوں گے۔بعض کہہ رہے تھے کہ رسول خدانے فرمایا:الناس تبع لقریش وقریش ائمة العرب یعنی لوگ قریش کے تابع ہیں اورقریش عرب کے پیشواہیں۔ان کی یہ بحث صبح سے ظہرتک رہی۔اسی اثناء میں کسی نے حضرت علی سے پوچھاکہ آپ اس سلسلے میں کیافرماتے ہیں؟حضرت علی نے فرمایادونوں گروہ میں سے ہرایک اپنی شان ومنزلت کی گفتگوکررہا ہے لیکن میں تم لوگوںسے پوچھتاہوں کہ خداوندعالم نے کس کے سبب یہ بلندمرتبہ تم لوگوں کوعطاکیاہے؟مہاجرین وانصارکہنے لگے پیغمبراکرمۖ اوران کے خاندان کے وسیلے سے ہمیں یہ عظمت اوربلندمرتبہ ملاہے۔ امام علی : تم لوگوں نے سچ کہاکیونکہ تم لوگوں کے لئے سعادت دنیاوآخرت کاذریعہ ہم خاندان نبوت ہیں اورجیساکہ میرے چچازادبھائی پیغمبراکرمۖ نے فرمایا: میں اورمیراخاندان خلقت آدم سے چودہ سال پہلے حالت نورمیں موجودتھے پھرخداوندعالم نے ہمارے نورکوپاک صلبوں میں منتقل کیاتاکہ کسی قسم کی آلودگی اس نورکوچھونے نہ پائے،پھرمولائے کائنات نے اپنے بعض فضائل بیان فرمائے اورحاضر ین سے قسم لی کہ کیارسول خدانے یہ نہیں فرمایا؟سب نے اعتراف کیاکہ بیشک رسول خدانے علی کی شان میں یہی کہاہے۔ منجملہ آپ نے فرمایاکہ میں تم لوگوں کوخداکی قسم دیتاہوں کہ جس نے بھی پیغمبراکرمۖ سے میری خلافت کے بارے میں سناہے وہ اٹھے اورگواہی دے۔اسی ہنگام میں سلمان،ابوذر ،مقداد،عمار،زیدبن ارقم،برابن عازب اٹھے اورکہنے لگے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے پیغمبراسلامۖ سے سنااوریادرکھاہے کہ حضرت علی ایک دن پیغمبراکرم کے نزدیک کھڑے ہوئے تھے اورآپ منبرپرتشریف فرماتھے کہ آپ نے فرمایاکہ خداندعالم نے حکم دیاہے کہ تمہارے لئے امام،اپناجانشین اوروصی قراردوں۔ میرے بعدجس کی تم لوگوں نے اطاعت کواطاعت کرنی ہے وہ میرابھائی علی ہے۔یہی میرے بعدتمہاراپیشوااوررہنماہوگا۔ وھوفیکم بمنزلتی فیکم فقلدوہ دینکم واطیعوہ فی جمیع امورکم یعنی یہ علی تمہارے درمیان مقام ومنزلت کے لحاظ سے میری روح ہے۔زندگی کے تمام مراحل میں اس کی اطاعت کرنا(الغدیرجلداول صفحہ ١٦٣۔ فرائد السمطین باب ٧٨سمط اول)۔ اس طرح مولائے کائنات نے اپنی امامت کے دلائل ان کے سامنے بیان کرکے ان پرحجت تمام کی۔ ١٠ امام علی کامعاویہ کوجواب پیغمبراکرمۖ کے صحابیوں میںسے ایک حضرت عماریاسرتھے جنہوں نے کافی عمرپائی اوررسول خداکے بعدحضرت علی کاساتھ دیتے رہے جنگ صفین میں ان کی شہادت واقع ہوئی۔ پیغمبراکرم نے ان کے بارے میں فرمایاتھا:تقتلک الباغیةاے عمار!تمہیں باغی گروہ قتل کرے گا۔یہ حدیث دوسرے مسلمانوں نے بھی سنی تھئی اوران کے درمیان پیغمبراکرمۖ کی یہ حدیث کافی مشہورہوچکی تھی۔ اس بات کوکئی سال گزرگئے یہاں تک کہ حضرت علی کی خلافت کازمانہ آیااورحضر ت علی اورمعاویہ کے سپاہیوں کے درمیان جنگ ہوئی۔اس جنگ میں حضرت عماریاسرجوامام علی کے لشکرمیں تھے جنگ کرتے کرتے معاویہ کے سپاہیوںکے ہاتھوں قتل ہوکردرجہ شہادت پرفائزہوئے۔اب توجولوک شک وتردد میں تھے کہ معاویہ حق پرہے یاحضرت علی اس واقعے کے بعدپیغمبراکرمۖ کے فرمان کی روشنی میں ان پربھی واضح ہوگیاکہ معاویہ اوراس کالشکرباغی اورظالم ہے۔ لہذامعاویہ باطل پرہے۔جب معاویہ نے دیکھاکہ لوگوں کی ان باتوں سے اس کے سپاہیوں کے ارادوں میں ضعف پیداہورہاہے اورممکن ہے ان کے درمیان اختلاف ہوجائے تومعاویہ نے سیاست اورغلط بیانی سے لوگوں کودھوکہ دیتے ہوئے کہاکہ دراصل عمارکے قتل کے ذمہ دارعلی ہیں کیونکہ وہ عمارکوجنگ میں لائے اگروہ عمارکوجنگ میں نہ لاتے توعمارقتل نہ ہوتے۔اس کی اس توجیح سے بعض افرادگمراہ ہونے لگے۔ جب حضرت علی نے یہ عالم دیکھاتواس کاجواب دیتے ہوئے فرمایا:اگرمعاویہ کایہ کہناصحیح ہے توجنگ احدمیں جوپیغمبرکے چچامشرکوں کے ہاتھوں قتل ہوئے انہیں بھی کہوکہ پیغمبرنے انہیں شہیدکروایاہے کیونکہ پیغمبرنے انہیں جنگ پربھیجاتھا۔ عمروعاص کے بیٹے عبداللہ نے امام کایہ جواب معاویہ کوپہنچایاجس پرمعاویہ سخت غصے میں عمروعاص سے کہنے لگا:اے فرزنداحمق!اپنے آپ کواس مجلس سے دورکر۔یہ سب باتیں گویاخودایک مناظرہ ہی تھی جس نے دشمن کی فکرکوخاک میں ملادیا(اعیان الشیعہ جلد٤٢ص٢١٥)۔ ١١ امام سجاد اورایک شامی مرد واقعہ کربلاکے بعدامام سجاد کوان کے اہل خانہ کے ساتھ اسیرکرکے دمشق لے جایاجارہاتھا کہ راستے میں شام کارہنے والاایک ضعیف شخص امام کے پاس آیااورکہنے لگا:خداکی حمدوثناء کہ اس نے تم لوگوں کوقتل کیاتمہارے شہرکے لوگوں کوتم سے نجات دی اورامیرالمومنین(یزید)کوتم پرمسلط کیا۔امام سجاد نے ناآگاہ اس مسلمان بوڑھے سے اس طرح مناظرہ کیاکہ اے شخص!تونے قرآن پڑھاہے؟ بوڑھاشخص: ہاں۔ امام سجاد: کیاتم نے اس آیت قل لااسئلکم علیہ اجراالاالمودة فی القربی کے معنی صحیح سمجھے ہیں؟یعنی اے پیغمبرۖ!آپ کہہ دیجئے کہ مجھے تم لوگوں سے تبلیغ رسالت کااجرکچھ نہیں چاہئے سوائے اس کے کہ تم میرے اہل بیت سے محبت کرو(سورہ شوریآیت٢٣)۔ بوڑھاشخص: ہاں یہ آیت میں نے پڑھی ہے۔ امام سجاد: وہ اہل بیت رسولۖ ہم لوگ ہیں۔کیاتم نے سورہ اسراء کی آیت ٢٦پڑھی ہے وات ذالقربی حقہ یعنی پیغمبرکے قربی کاحق اداکرو؟ بوڑھاشخص:یہ آیت بھی میں نے پڑھی ہے۔ امام سجاد: وہ رسول کے قربی ہم ہیں اے شخص تم نے سورہ انفال کی آیت ٤١پڑھی ہے واعلمواانماغنمتم من شئی فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی یعنی یاد رکھو جوبھی مال غنیمت تمہارے ہاتھ آئے اس کاپانچواں حصہ خداورسول اوران کے اقرباء کاہے؟ بوڑھاشخص: ہاں یہ آیت بھی میں نے پڑھی ہے۔ امام سجاد: وہ پیغمبرکے اقرباہم ہیں اورکیاتم نے سورہ احزاب کی آیت ٣٣کی تلاوت کی ہے انمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطھیرا یعنی اے اہل بیت،خدایہ چاہتاہے کہ ہرقسم کی نجاست کوتم سے دوررکھے اورتم کوایساپاک وپاکیزہ رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے؟ بوڑھاشخص: ہاں یہ آیت بھی پڑھی ہے۔ امام سجاد : ہم وہ خاندان ہیں جن کی شان میں یہ آیہ تطھیرنازل ہوئی ۔ بوڑھے شخص نے جب یہ سب سنااورحقیقت واضح ہونے لگی توپشیمانی کے آثاراس کے چہرے پرنمایاں ہوئے اوروہ کہنے لگا:آپ کوخداکی قسم!کیاآپ نے جوکچھ کہاوہ سچ ہے؟ امام سجاد:خداکی قسم اوراپنے جدپیغمبرکے حق کی قسم کہ ہم ہی وہ خاندان نبوت ہیں۔ بوڑھاشخص رونے لگااورہاتھوں کوآسمان کی طرف بلندکرک کہنے لگا: خدایاہم دشمنان آل محمدچاہے جنات سے ہوں یاانس سے سب سے بیزارہیں۔ اورامام کے سامنے توبہ کرنے لگاجب اس بوڑھے شخص کی توبہ کی داستان یزیدتک پہنچی تواس نے اس بوڑھے شخص کے قتل کاحکم دیااس طرح یہ راہ راست پانے والابوڑھاشخص محبت وآل محمد میںدرجہ شہادت پرفائزہوا۔ ١٢ امام صادق کے دست مبارک پرملحدکاقبول اسلام مصرمیں عبدالملک نام کاایک شخص رہتاتھا اس کے بیٹے کانام عبداللہ تھالہذااس بناء پراسے ابوعبداللہ کہاجاتاتھا۔عبدالملک ملحدتھااس کااعتقاد یہ تھاکہ یہ دنیاخودبخودوجودمیں آگئی ہے اس نے سناہواتھاکہ شیعوں کے امام حضرت صادق مدینے میں رہتے ہیں لہذاس نے مدینہ کاسفرکیا۔ جب مدینہ پہنچا اورامام صادق کاپتہ پوچھاتولوگوں نے اسے بتایاکہ امام مراسم حج انجام دینے کے لئے مکہ گئے ہوئے ہیں وہ مکے کی طرف روانہ ہوا،کنارکعبہ اس کی امام سے ملاقات ہوئی،امام طواف میں مشغول تھے،ہ بھی طواف کرنے والوں کی صفوں میں داخل ہوگیااوراس نے امام کودشمنی کووجہ سے کندھامارا،امام نے بڑی نرمی سے پوچھاتیرانام کیاہے؟اس نے کہاعبدالملک،امام نے پوچھاتیری کنیت کیاہے؟اس نے کہاابوعبداللہ۔امام نے پوچھاوہ سلطان جس کے تم بندہے وہ زمین کاحاکم ہے یاآسمان کااورتمہاری کنیت جوابوعبداللہ ہے تووہ خداجس کے بندے کے تم باپ ہووہ زمین کاخداہے یاآسمان کاخداہے؟عبدالملک نے کچھ جواب نہ دیا۔ہشام بن حکم جوامام صادق کے شاگردتھے وہ بھی وہاں حاضرتھے اس نے عبدالملک سے کہاامام کے سوال کاجواب کیوں نہیں دیتے؟عبدالملک ہشام کی بات سن کرتواورآگ بگولہ ہوگیاامام صادق نے بڑے پیارسے کہاصبرکرومیرا طواف تمام ہوجائے اس کے بعدتم میرے پاس آنا توپھرگفتگوکریں گے جب امام نے طواف مکمل کرلیاتووہ امام کے پاس آکربیٹھ گیااس وقت امام کے پاس ان کے کچھ شاگردبھی بیٹھے ہوئے تھے اسی اثناء میں امام اورعبدالملک کے درمیان اس طرح سے مناظرہ شروع ہوا: امام صادق :کیاتم مانتے ہوکہ زمین کاکوئی ظاہروباطن ہے؟ ملحد:جی ہاں۔ امام صادق : کیازمین کے نیچے گئے ہو۔ ملحد: نہیں امام صادق : پس تمہیں کیسے معلوم کہ زمین کے نیچے کیاہے؟ ملحد: زمین کی تہہ کاعلم تونہیں ہے لیکن گمان کرتاہوں کہ نیچے کچھ بھی نہیں ہے۔ امام صادق : گمان وشک ایک قسم کاعلاج ہے جب انسان کسی چیزمیں یقین حاصل نہ کرسکے توپھرگمان پرعمل کرتاہے پھرامام نے فرمایاکیاآسمان پرگئے ہو؟ ملحد: نہیں۔ امام صادق : عجیب بات ہے کہ جب تم نہ مشرق گئے ہونہ مغرب گئے ہونہ زمین میں گئے ہونہ آسمان پرگئے ہوتاکہ تمہیں پتہ چل سکے کہ وہاں کیاہے تواس جہالت کے سبب کیوںکرخداکاانکارکرتے ہو؟جب تم موجودات زمین وآسمان کے نظام سے ناآشناہوجووجودخدااوراس کی وحدانیت کی حکایت کرتی ہیں کیونکرخداکاانکارکرتے ہو؟کیاجوشخص جس چیزکاعلم نہیں رکھتااس کاانکارکردے؟ ملحد: آج تک کسی نے مجھ سے ایسی گفتگونہیں کی۔ امام صادق: پس اس بناء پرتم شک وترددمین ہوکہ شایدزمین کے اندراورآسمان کے اوپرکوئی چیزین ہوں یانہ ہوں۔ ملحد: شایدایساہو،اسطرح وہ منکرخداانکارکے مرحلے سے نکل کرشک وتردد میں پڑگیا۔ امام صادق : کیاجونہیں جانتااس پرجوجانتاہودلیل وبرہان لاسکتاہے؟اے برادرمصری! مجھ سے سن لواورذہن نشین کرلوکہ ہم ہرگزوجودخداکے بارے میں شک نہیں کرتے۔کیاتم چاندوسورج اوردن ورات کامشاہدہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے معین وقت پرآتے جاتے ہیں وہ اپنی حرکت میں دوسرے کے مجبورہیں اور اگرمجبورنہیں ہیں توکیوں کبھی دن رات اوررات دن نہیں ہوجاتے؟ اے برادرمصری !خداکی قسم یہ سب مجبورہیں کہ ن کوکوئی حکم دے۔ ملحد: آپ نے سچ کہا۔ امام صادق : اے برادرمصری ذرایہ توبتاؤکہ تمہاراعقیدہ اس بارے میں کیاہے کہ زمانہ تمام موجودات کوزندہ کرتاہے اورسب کوچلارہاہے اوراگرایساہے تو مرنے والے مردوں کوزمانہ پھرسے زندہ کیوں نہیں کردیتا؟ اے برادر! یہ سب مجبورہیں کیونکہ آسمان اوپراورزمین نیچے ہے کیوں آسمان نیچے اورزمین اوپر چلے نہیں جاتے کیوں موجودات آپس میں ایک دوسرے سے مل نہیں جاتے؟ عبدالملک نے جب امام کے یہ محکم استدلال سنے تواب اس کاشک کامرحلہ بھی یقین وایمان میں بدل چکاتھاوہ فوراامام کے سامنے ہی ایمان لے آیااور گواہی دی کہ خداوحدہ لاشریک ہے۔اسلام مذہب حق ہے بیشک وہی خدازمین وآسمان کامالک ہے جس نے ان دونوں کواپنی اپنی جگہ روکاہواہے۔امام کاایک شاگرد جس کانام حمران تھااٹھااورکہنے لگامیرے ماں باپ آپ پرقربان بیشک آج جس طرح منکران خداآپ کے ہاتھوں ایمان لارہے ہیں اسی طرح کل آپ کے جدپیغمبراکرمۖ کے ہاتھوں اسلام لائے تھے۔ عبدالملک جوابھی تازہ مسلمان ہواتھا امام ۖ سے عرض کرنے لگامجھے بعنوان شاگردقبول کرین امام نے اپنے معتمدعلیہ شاگرد ہشام بن حکم کوبلایااورکہاعبدالملک کواپنے ساتھ لے جاؤاوراس کواسلام کی تعلیم دو،ہشام امام کی طرف سے معین کردہ زبردست استادتھے، ہشام نے عبدالملک کواپنے پاس بلایااوراس کواصول عقائدواحکام اسلام کی تعلیم دی تاکہ وہ ایک سچے اورپاک عقیدہ کے ساتھ رہ سکے امام ہشام کے اس طریقہ تعلیم کوبہت پسندکرتے تھے(اصول کافی جلداولص٧٢۔٧٣)۔ ١٣۔ ابن ابی العوجاء اورامام صادق عبدالکریم نامی شخص جوابن ابی العوجاء کے نام سے مشہورتھاایک دن امام صادق کی بارگاہ میں آیا،دیکھاامام کے پاس ایک گروہ بیٹھاہواہے یہ بھی خاموش بیٹھ گیا۔ امام نے اس کی طرف متوجہ ہوکرکہاکیامجھ سے بعض مسائل پرمناظرہ کرنے آئے ہو؟ابن العوجاء کہنے لگا:اے فرزندرسول بے شک میں اسی مقصدسے آیاہوں۔ امام صادق : تم پرتعجب ہے کہ ایک طرف خداکاانکارکرتے ہودوسری طرف مجھے پیغمبرخداکافرزندکہتے ہو۔ ابن ابی العوجائ: میری عادت مجھے ایسی بات کرنے پرمجبورکرتی ہے ۔ امام صادق : توپھرخاموش کیوں ہو؟ ابن ابی العوجائ: آپ کارعب وجلال باعث بناہواہے کہ میری زبان کلام کرنے سے قاصرہے اگرچہ میں نے بڑے بڑے دانشمندوں اورخطبیوں سے بحث کی ہے اورانہیں شکست دی ہے لیکن کوئی مجھے آپ کی طرح مرعوب نہیں کرسکا۔ امام صادق: اب جب کہ تم گفتگوشروع نہیں کررہے ہیں تومیں خودگفتگوکاآغازکرتاہوں اورپھرآپ نے اس سے فرمایاتم کسی کے بنائے ہوئے ہویانہیں؟ ابن ابی العوجائ: میں کسی کابنایاہوانہیں ہوں۔ امام صادق : ذراتم یہ توبتاؤکہ اگرکسی کے بنائے ہوئے ہوتے توکس طرح ہوتے۔ ابن ابی العوجاء کافی دیرخاموش رہااوراپنے نزدیک پڑی ہوئی لکڑی کوہاتھ میں لے کرتخلیقی چیزوں کی صفتیں بیان کرنے لگاکہ مصنوعی چیزوں میں اس طرح کے عیوب مثلابڑایاچھوٹاہونایامتحرک اورجامدہونایہ سب صفتیں پائی جاتی ہیں۔ امام صادق : اگرتخلیقی چیزوں کی ان صفات کے علاوہ دوسری صفات تم نہیں جانتے ہوتویادرکھوکہ تم خودبھی ایک تخلیق ہولہذاخودکوبھی کسی کابنایاہواجانوکیونکہ اسی طرح کی صفات تم اپنے وجودمیں بھی پاؤگے۔ ابن ابی العوجائ: آپ نے مجھ سے ایساسوال کیاہے جوآج تک کسی نے نہیں کیااورنہ آئندہ کرے گا۔ امام صادق : اگریہ فرض کرلیاجائے کہ پہلے کسی نے تم سے اس قسم کاسوال نہیں کیاتویہ کیسے کہہ سکتے ہوکہ آئندہ بھی کوئی اس قسم کاسوال تم سے نہیں کرے گا۔ اس طرح تم نے خوداپنی بات پرنقض واردکردیاکہ تمام پہلی اورپچھلی چیزیں برابرہیں۔لہذااس بناپرایک ںچیزکومقدم اورایک چیزکوموخرمانتے ہو۔ اے عبدالکریم یہ بتاؤکہ اگرتمہارے پاس سونے کے سکوں سے بھری ہوئی تھیلی ہواورکوئی تم سے کہے کہ اس تھیلی میں سونے کے سکے ہیں اورتم جواب میں کہونہیں اس میں کوئی چیزنہیں ہے۔وہ تم سے کہے کہ سونے کے سکے کی علامت کیاہے تواگرتم طلائی سکوں کی صفت نہ جانتے ہوتوکیاتم اس سے کہہ سکتے ہوکہ اس تھیلی میں سونے کے سکے نہیں ہیں۔ ابن ابی العوجا: نہیں اگرنہ جانتاہوں تونہیں کہہ سکتاکہ نہیں ہیں۔ امام صادق : تویادرکھوکہ اس جہان کی وسعت اس تھیلی سے کہیں زیادہ ہے لہذااب میں پوچھتاہوں کہ کیایہ جہان مصنوع ہے؟کیونکہ تومصنوعی چیزوں کی خصوصیت کوغیرمصنوع چیزوں کے مقابل میںنہیں جانتے ہوجب گفتگواس حدتک پہنچی اورابن ابی العوجاء سے کوئی جواب نہ بن پڑاتووہ شرمندہ ہوکرخاموش رہااس کے بعض ہم مسلک مسلمان ہوگئے اوربعض اپنے ہی کفرپرڈٹے رہے(اصول کافی جلداول صفحہ٧٦)۔ ١٤ ابن ابی العوجاء پھرتیسرے دن امام صادق کے پاس آیااورکہنے لگاآپ سے آج پھرکچھ سوال کرنے آیاہوں۔ امام صادق : جوپوچھناچاہتے ہوپوچھو۔ ابن ابی العوجائ: آپ کے پاس اس پرکیادلیل ہے کہ یہ دنیاحادث ہے کہ پہلے نہیں تھی اوراب وجودمیں آئی ہے؟ امام صادق : ہرچھوٹی بڑی چیزوں کوتصورکرواگرکوئی اضافی چیزہوتواس کواس کے ساتھ ضم کروتووہ چیزبڑی ہوجائے گی یہی حال انتقال کاہے کہ حالت اول میں چیزچھوٹی ہوتی ہے دوسری حالت میں بڑی ہوجاتی ہے۔حادث کے معنی بھی یہی ہیں اگروہ چیزقدیم ہوتی تودوسری صورت میں تبدیل نہیں ہوسکتی، کیونکہ ہروہ چیزجونابودہویامتغیرہو،دوبارہ پیداہونے اورنابودہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔لہذ١یہ موجودعدم سے حاصل ہوتاہے اکرفرضاوہ چیزقدیم تھی اور بڑی ہوجانے کی وجہ سے متغیرہوئی اورحادث ہوگئی ہے توبھی اسے قدیم ہی ماناجاسکتاکیونکہ ایک ہی چیزقدیم وحادث نہیں ہوسکتی۔ ابن ابی العوجاء : چلیں فرض کریں کہ چھوٹے یابڑے ہونے کی وہی حالت ہے جوآپ نے فرمائی جواس دنیاکے حادث ہونے کی حکایت کرتی ہے لیکن اگرسب چیزیں اپنے چھوٹے سن کی حالت پرباقی رہیں توآپ کے پاس ان کے حدوث پرکیادلیل ہے؟ امام صادق : ہماری بحث کامحوریہی موجودہ دنیاہے جوتغیرکی حالت میں ہے اوراگراس جہان کے علاوہ دوسرے کسی جہان کی بحث کریں توگویاوہ بھی ایک بعد میں آنے والی دنیاہے یاپہلے والی ہے تویہ بھی وہی حادث ہونے کے معنی ہیں اوراگربقول تمہارے چھوٹی چیزاپنی ہی حالت پرباقی رہے تویہ رہ سکتی ہے مگر جب اسی چھوٹی چیز کے ساتھ کوئی دوسری چھوٹی ہی چیزضم کی جائے تووہ بڑی ہوجائے گی لہذااشیاء کاتغیروتبدل خودان کے حادث ہونے کی دلیل ہے۔ ١٥ ابن ابی العوجاء کی ناگہانی موت ابن ابی العوجااورامام صادق کے درمیان مناظرے کے دوسرے سال کنارکعبہ پرپھرامام صادق سے ملاقات ہوئی امام کے کسی چاہنے والے نے امام سے عرض کی کہ مولا! کیاابن ابی العوجاء اب تک مسلمان نہیں ہوا؟ امام نے جواب میں فرمایا: اس کاقلب اسلام کے مدمقابل اندھاہے وہ ہرگزایمان لانے والانہیں ہے جیسے ہی امام کی نگاہ ابن ابی العوجاء پرپڑی آپ نے کہا: اب یہاں کیوں آئے ہو؟ ابن ابی العوجاء کہنے لگا:اپنے معمول کے مطابق مسلمانوں کی موسم حج میں دیوانگی ،پتھرپرسرمارنے اورچومنے وچکرلگانے کودیکھنے آیاہوں۔ امام : تواب تک اپنی سرکشی اورگمراہی پرباقی ہے؟ابن ابی العوجاء جیسے ہی بات شروع کرناچاہتاتھاامام نے فرمایا: مراسم حج میں مجادلہ صحیح نہیں ہے۔ پھرآپ نے اس کی عباکوہلاتے ہوئے کہاکہ اگرحقیقت وہی ہے جس کے ہم معتقدہیں،اوربے شک ایساہی ہے توہم ہی کامیاب ہیں اوراگرحق تمہارے ساتھ ہے، اوریقیناایسانہیں ہے توہم اورتم دونوں کامیاب ہیں۔ چنانچہ ہم دونوں حالتوں میں کامیاب ہیں لیکن تم ان دونوں صورتوں میں سے ایک میں ہلاک ہوجاؤ گے۔ اسی دوران ابن ابی العوجاء کی حالت بدلنے لگی وہ اپنے اطرافیوں سے کہنے لگامیرے قلب میں دردمحسوس ہورہاہے مجھے لے چلوجیسے ہی اس کے اطرافی اسے لے چلے وہ راستہ ہی میں مرچکاتھا۔لہذاوہ اسی طرح کفرکی موت مرا۔ ١٦ عبداللہ دیصانی کاہشام کے سامنے مسلمان ہونا جیساکہ پہلے گزراہشام بن حکم امام صادق کے ایک لائق شاگرد تھے۔ایک دن ایک منکرخداعبداللہ دیصانی نے ہشام سے ملاقات کی اورکچھ سوالات کئے: عبداللہ کیاآپ کاکوئی خداہے؟ ہشام:ہاں۔ عبداللہ :کیاتمہاراقادرہے؟ ہشام: ہاں وہ ہرچیزپرقدرت وتسلط رکھتاہے۔ عبداللہ: کیاتمہاراخداپوری دنیاکوایک مرغی کے انڈے کے اندربندکرسکتاہے؟جب کہ دنیاچھوٹی ہواورنہ مرغی کاانڈابڑاہو؟ ہشام: اس سوال کے جواب کے لئے مجھے مہلت دو۔ عبداللہ :ایک سال تمہیں مہلت دیتاہوں۔ ہشام اپنی سواری پرسوارہوئے اورامام صادق کی خدمت میں آکرعرض کرنے لگے فرزندرسول!عبداللہ دیصانی میرے پاس آیااورایک ایساسوال مجھ سے کیاجس کاجواب میں نہیں دے سکا۔ امام صادق : اس کاسوال کیاہے؟ ہشام: وہ کہہ رہاتھاکہ کیاخدااپنی قدرت کے پیش نظردنیاکواپنی وسعت کے ساتھ مرغی کے انڈے میں قراردے سکتاہے یانہیں؟ امام صادق: اے ہشام تمہارے پاس کتنے حواس ہیں؟ ہشام: حواس خمسہ: ١۔قوت باصرہ ٢۔قوت سامعہ ٣۔ قوت لامسہ ٤۔قوت ذائقہ ٥۔قوت شامہ۔ امام صادق : ان میں سے سب سے چھوٹی قوت کونسی ہے؟ ہشام : قوت باصرہ۔ امام صادق : اس قوت باصرہ کوآنکھ میں قراردیاگیاہے،کبھی اس کااندازہ کیاہے؟ ہشام : جی ہاں امام ! وہ آنکھ ایک دال کے دانے کے برابرہے یاشایداس سے بھی چھوٹی ہے۔ امام صادق : اے ہشام!ذرااپنے سامنے،اوپراورنیچے نگاہ ڈالواوربتاؤکہ تم کیادیکھتے ہو؟ ہشام: آسمان،زمین،گھر،پہاڑ،نہریں،لوگ سب نظرآرہے ہیں۔ امام صادق : وہ جواس بات پرقادرہے کہ جوکچھ بھی تم دیکھ رہے ہواس آنکھ کے اندرہے جودال کے برابرہے توکیاوہ اس کائنات کومرغی کے انڈے میں چھوٹا کئے بغیراورانڈے کوبڑاکئے بغیرقرارنہیں دے سکتا؟ ہشام اسی وقت اٹھے اورامام صادق کے ہاتھ پیروں کابوسہ دیااورکہنے لگے: یاابن رسول اللہ! میرے سوال کااتناہی جواب کافی ہے ہشام اپنے گھرچلے گئے دوسرے دن جب عبداللہ دیصانی ہشام کے پاس آیااورکہنے لگامیں صرف ملنے آیاہوں نہ کہ گزشتہ دن کے سوال کاجواب لینے،ہشام کہنے لگے اگراس سوال کاجواب بھی چاہتے ہوتولوسنو۔امام کاجواب من وعن نقل کردیا۔ عبداللہ دیصانی نے چاہاکہ خودامام کے پاس جائے اورسوالات کرے لہذاوہ امام صادق کے گھرآکران کی زیارت سے مشرف ہوااورکہنے لگا: جعفربن محمد مجھے میرے معبودکی طرف رہنمائی کیجئے۔ امام صادق : تمہارانام کیاہے؟ عبداللہ باہرچلاگیااوراپنانام نہ بتایااس کے دوستوںنے اس سے پوچھاتم نے اپنانام کیوں نہیں بتایااس نے جواب دیاتووہ یہ ضرور پوچھتے کہ جس کے تم بندے ہووہ کون ہے؟عبداللہ کے دوست کہنے لگے جاؤامام سے کہوآپ مجھے معبود کی طرف رہنمائی کریں اورمیرانام نہ پوچھیں۔ عبداللہ نے جاکرایساہی کیا۔ امام صادق : جاؤفلاں جگہ جاکربیٹھ جاؤ۔عبداللہ جاکربیٹھ گیا۔اسی اثناء میں امام کے ایک فرزندجن کے ہاتھ میں مرغی کاانڈاتھا اوروہ اس سے کھیل رہے تھے وہاں پہنچے،امام نے اس بچے سے کہالاؤمجھے یہ انڈاتودیدو۔امام نے انڈے کوہاتھ میں لیتے ہوئے عبداللہ کومتوجہ کرتے ہوئے کہا: اے عبداللہ دیصانی ذرا اس انڈے کی طرف نگاہ کروگے کہ یہ انڈاکتنی چیزوں پرمشتمل ہے۔ ١۔ موٹی کھال۔ ٢۔پھراس کے نیچے باریک اورمضبوط کھال۔ ٣۔دوسونے اورچاندی کے رنگ کے دریاہیں جوکبھی بھی آپس میں نہیں ملتے۔ نہ سوناچاندی سے مل پاتاہے اورنہ چاندی سونے سے بلکہ اپنی اسی حالت پرباقی رہتے ہیں۔ پھراگراسے استعمال نہ کیاجائے اوراسے گرمی دی جائے توایک خوبصورت چوزہ اس سے باہرآتاہے کیاتمہاری نظرمیں یہ سب تشکیلات بغیر تدبیر وارادے کے وجودمیں آگئی ہیں؟ عبداللہ دیصانی کافی دیرتک سرجھکائے خاموش رہاپھرجب نورایمان اس کے قلب پرپڑاتواس نے سراٹھایااورکہاکہ : میںگواہی دیتاہوں کہ خداوحدہ لاشریک ہے اورمحمدۖ اس کے بندے اوررسول ہیں اورآپ خداکی طرف سے لوگوں پرحجت ہیں لہذامیں اپنے سابقہ باطل عقیدے سے توبہ کرتاہوں اورحق کی طرف آتاہوں(اصول کافی جلداول ص٧٩۔٨٠)۔ ١٧ دوئی پرستوں کاامام صادق سے مکالمہ دوئی پرست امام صادق کی بارگاہ میں آئے اوراپنے عقیدے کادفاع کرنے لگے ان کاعقیدہ یہ تھاکہ اس کائنات کے دوخداہیں ایک نیکیوں کاخدادوسرا بدیوں کاخدا۔ امام صادق نے ان کے اس عقیدے کی ردمیں فرمایاکہ یہ جوتم لوگ کہتے ہوکہ دوخداہیں وہ ان تین تصورات سے خالی نہیں ہیں: ١۔ یادونوں طاقت وراورقدیم ہیں۔ ٢۔یادونوں ناتوان ہیں۔ ٣۔یاایک قوی اوردوسراناتوان ہے ۔ لہذاپہلی صورت میں کیوں پہلادوسرے کومیدان سے ہٹانہیںدیتاتاکہ خودتنہااس پوری دنیاپرحکومت کرے لہذااس دنیاکاایک ہی نظام ہونااس بات پردلیل ہے کہ اس کاحاکم بھی ایک ہے لہذاخداقوی مطلق ہے ۔ تیسری صورت بھی خدائے یکتاوواحدکوبیان کرتی ہے اورہماری بات کوثابت کرتی ہے کیونکہ وہی خداقوی ہے ۔ لیکن دوسری صورت میں وہ دونوں ایک جہت سے متفق ہیں اورایک اعتبارسے آپس میں اختلاف ہے ایسی صورت میں ضروری ہے کہ ان میں ایک مابہ الامتیازہوتاکہ ایک کادوسرے سے امتیازہوسکے یعنی ایسی چیزجوایک خدامیں ہودوسرے میں نہ ہواوریہ بھی ضروری ہے کہ وہ مابہ الامتیازقدیم ہویعنی ابتداء سے ان دونوں خداؤں کے ساتھ ہو،تاکہ اگراسی ترتیب سے فرض کرتے جائیں توکئی خداؤں کاہونالازم آئے گالہذاضروری ہے کہ کسی آخری خداکے قائل ہوں۔ دوئی پرست: وجودخداپرآپ کی کیادلیل ہے؟ امام صادق: یہ پوری دینایہ تمام مخلوق اپنے بنانے والے کی نشان دہی کرتی ہے جیسے کہ تم ایک اچھی بنی ہوئی تیاربلڈنگ کودیکھ کراس کے بنانے والے کی تعریف کرتے ہواگرچہ اس کے بنانے والے کوتم نے نہ دیکھاہو۔ دوئی پرست: خداکیاہے؟ امام صادق: خداتمام چیزوں کودرک کرنے میں حواس کامحتاج نہیں اورنہ ہی خیالات اس کودرک کرسکتے ہیں اورزمانے کے ردوبدل اس میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتی۔
١٨ منصورکے دربارمیں ایک مکالمہ ابن شہرآشوب مسندابوحنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسن بن زیادنے حنفیوں کے امام ابوحنیفہ سے سوال کیاکہ آپ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہ شخص کون ہے؟ابوحنیفہ نے اس کے جواب میں کہالوگوں میں فقیہ ترین شخص جعفربن محمدیعنی امام صادق ہیں کیونکہ جب منصور دوانقی (جو دوسرا عباسی خلیفہ تھا)نے حضرت کواپنے پاس بلایااورمجھے اس طرح کاپیغام بھیجاکہ اے ابوحنیفہ لوگ بہت زیادہ جعفربن محمدکے فریفتہ ہوگئے ہیں لہذاکچھ سخت قسم کے مسائل تیارکرو تاکہ ان سے مناظرہ کیاجائے جن کاوہ جواب نہ دے سکیں اوران کامقام ومرتبہ لوگوں کی نگاہ سے گرجائے چنانچہ میں نے ٤٠سوال تیار کئے اورمنصورکے پاس کوفہ وبصرہ کے درمیان واقع ایک شہر،جاپہنچاجب میںوہاں دربارمیںپہنچاتودیکھاکہ امام صادق منصورکی سیدھی طرف بیٹھے ہوئے ہیں، جیسے ہی میری نگاہ امام صادق پرپڑی توایک عجیب قسم کارعب وجلال میرے قلب پراثراندازہواجومنصورکودیکھنے سے بھی نہ ہواتھا،میں نے سلام کیا، منصورنے مجھے بیٹھنے کوکہااوراماصادق کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگایہ ہیں ابوحنیفہ۔ امام صادق نے فرمایاہاں میں اس کوپہچانتاہوں۔ پھرمنصورمیری طرف متوجہ ہوکرکہنے لگااپنے سوالوں کوشروع کرو۔میں ایک ایک سوال کرکے پوچھتارہا،امام مجھے جواب دیتے رہے اورفرماتے رہے اس مسئلے میں تم لوگ یہ کہتے ہو چین والے یہ کہتے ہین اہل مدینہ یوں کہتے ہیں امام کے جوابات ہمارے نظریے کے موافق تھے بعض اہل مدینہ کے بعض دونوں کے مخالف تھے یہاں تک کہ میں نے اپنے پورے چالیس سوال امام سے کئے اورامام نے جواب دئیے،پھرابوحنیفہ کہنے لگا: الیس علم الناس اعلمہم باختلاف الناس یعنی کیالوگوں میں سے زیادہ اعلم وہ نہیں ہے جومختلف لوگوں کے نظریات سے آگاہ ہو(انوارالبہیہ ص١٥٢)۔ ١٩ امام صادق کاایک خدانماشخص سے مکالمہ امام صادق کے زمانے میں ایک شخص جعدبن درہم نامی بدعت گزاراوراسلام کامخالف تھااس کے کچھ حمایتی بھی تھے عیدقربان کے دن اسے سزائے موت دی گئی۔اس نے ایک دن ایک شیشے میں کچھ پانی وخاک ڈالی،جب تھوڑے دنوں بعداس شیشے میںحشرات پیداہوئے تواس نے لوگوں میں آکرصدادی کہ ان حشرات کاپیداکرنے والامیں ہوں کیونکہ میں ان کی پیدائش کاسبب بناہوں لہذاان کاخدامیں ہوں کچھ مسلمانوں نے جب یہ خبرامام صادق تک پہنچائی توآپ نے فرمایا: ذرااس سے جاکرپوچھوکہ اس شیشے کے اندرکتنے حشرات ہیں؟اوران میں سے کتنے نراورکتنے مادہ ہیں؟ان کاوزن کتناہے؟اوراس سے کہوکہ ذراان کودوسری شکل میں تبدیل توکردے کیونکہ جوکسی چیزکاخالق ہوتاہے اسے اتنی قدرت ہوتی ہے کہ وہ اس کی شکل وصورت کوتبدیل کرسکے۔ لہذا جب لوگوں نے اس خدانما سے جاکراس قسم کے سوالات کئے تووہ جواب نہ دے سکا۔اس طرح اس کی سازش ناکام ہوگئی(سفینة البحارجلداول ص١٥٧)۔ ٢٠ کیاآپ اس جواب کوحجاز سے لائے ہیں ابوشاکردیصانی امام صادق کے زمانے کابڑامشہورومعروف دانشمندتھا۔ خدائے واحدکاانکارکرتے ہوئے دوخدامانتاتھا۔ ایک نورکاخداایک ظلمت کاخدااوراپنی کلامی گفتگوسے اس کوثابت بھی کرتاتھا اسی لئے وہ مذہب دیصانی کارئیس قرارپایااس کے کئی شاگردتھے حتی کہ خودہشام بن حکم(پہلے کچھ عرصہ اسی کے شاگردرہے تھے)اب اس کے تراشے ہوئے اشکالات کاایک نمونہ ملاحظہ کریں: ابوشاکرکی نظرمیں اس نے قرآن پراشکال کیاتھا لہذاایک دن وہشام بن حکم(جوکہ امام صادق کے خاص شاگردتھے)کے پاس آیااورکہنے لگا: قرآن میں ایک آیت ہے جوہمارے عقیدے کے مطابق دوخداہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ ہشام: وہ کونسی آیت ہے؟ابوشاکر: سورہ زخرف کی آیت ٨٤: وھو الذی فی السماء الہ وفی الارض الہ یعنی خداوہ ہے جوزمین کابھی معبودہے،آسمان کابھی معبودہے۔ لہذاآسمان کابھی ایک معبودہے اورزمین کابھی ایک معبودہے۔ ہشام کہتے ہیں کہ مجھے سمجھ میں نہیں آیاکہ اسے کیسے جواب دوں اسی سال میں خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوااورامام صادق سے یہ ماجرا بیان کیا۔ امام صادق نے فرمایا: یہ گفتگواس بے دین خبیث کی ہے جب تم واپس لوٹناتواس سے پوچھناتیراکوفے میں کیانام ہے؟ وہ کہے گافلا ں،پھراس سے کہنا ہماراپروردگاربھی ایساہی ہے۔ اس کازمین میں بھی نام الہ ہے اس کاآسمان میں بھی نام الہہے اس طرح دریاصحراؤں میں ہرمکان میں اس کانام الہ ومعبودہے۔ ہشام کہتے ہیں کہ جب میں واپس لوٹااورابوشاکرکے پاس جاکراس کے سوال کایہ جواب دیاتووہ کہنے لگایہ تمہاراجواب نہیں ہے کیااس جواب کوحجاز سے لائے ہو؟(سفینة البحارص١٢٨)۔ ٢١ شاگردان امام صادق کاایک شامی دانشمندسے مکالمہ امام صادق کے زمانے میں ایک شام کادانشمند(جوسنی عالم دین تھا)آیااورامام صادق کے سامنے اپنایوں تعارف کرایاکہ میں علم کلام وفقہ سے آشناہوں، یہاں آپ کے شاگردوں سے مناظرہ کرنے آیاہوں۔ امام صادق : تمہاری گفتگوپیغمبرۖ کے اقوال کی روشنی میں ہے یااپنی طرف سے ہے؟ شامی دانشمند: کچھ پیغمبرسے لی گئی ہے،کچھ اپنی طرف سے ہے۔ امام صادق: پس تم پیغمبرکے شریک ہوئے؟ شامی دانشمند: نہیں میں پیغمبراکرمۖ کاشریک نہیں ہوں۔ امام صادق: کیاتم پروحی نازل ہوتی ہے؟ شامی دانشمند: نہیں۔ امام صادق: اگراطاعت پیغمبرکوواجب جانتے ہوتوکیااپنی اطاعت کوبھی واجب جانتے ہو؟ شامی دانشمند: نہیں ،اپنی اطاعت کوواجب نہیں جانتا۔ امام صادق نے اپنے ایک شاگرد یونس بن یعقوب کی طرف رخ کیااورفرمایااے یونس! اس سے پہلے کہ تم اس کے ساتھ بحث ومناظرہ کرواس نے اپنے آپ کومغلوب کرلیاہے کیونکہ بغیردلیل کے اپنی بات کوحجت جانتاہے اے یونس! اگرتم علم کلام کوصحیح طریقے سے جانتے ہوتے تواس مردشامی کے ساتھ تم مناظرہ کرسکتے تھے(علم کلام ،اصول وعقائدکاعلم ہے جواستدلالات عقلی ونقلی سے بحث کرتاہے)۔ یونس نے کہا: افسو س ہومجھ پرکہ میںعلم کلام کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا،لیکن مولا!میںآپ پرقربان ہوجاؤآپ ہی نے مجھے حصول علم کلام سے منع فرمایاتھا اورفرمایاتھا کہ وائے ہوان لوگوں پرجوعلم کلام سے سروکاررکھتے ہیں اورجولوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے اوروہ غلط،یہ سمجھ میں نہیں آرہاہے اور وہ نہیں۔ امام نے فرمایا: میں نے جوروکاتھا وہ اس کلام سے روکاتھا جواپنی طرف سے جعل کیاہواورہم اہلبیت کاکلام نہ ہو۔اے یونس !تم باہرجاؤاورجس متکلم یعنی علم کلام کے جاننے والے کودیکھویہاں لے آؤ۔ یونس کہتے ہیں کہ میں امام کے پاس سے رخصت ہوااورعلم کلام میں عبوررکھنے والے چارافرادحمران بن اعین،مؤمن طاق احول،ہشام بن سالم اورقیس بن ماصرکوجومیری نظرمیں علم کلام میں زیادہ ماہرتھے اورجنہوں نے علم کلام امام سجاد سے سیکھاتھا،لے کرامام کی خدمت میں پہنچا۔ جب سب جمع ہوگئے توامام صادق نے اپناسرخیمہ سے باہرنکالاوہی خیمہ جومکہ میں حرم کے اطراف میںپہاڑپرامام کے لئے لگایاتھااورجب امام نے دیکھا توامام کی نگاہ ایک بھاگتے ہوئے اونٹ پرپڑی آپ نے فرمایاکعبہ کے خداکی قسم یہ اونٹ سوارہشام ہے جویہاں آرہاہے۔ حاضرین سوچنے لگے کہ شایدہشام سے امام کی مرداوہ ہوں جوعقیل کے فرزندہیں کیونکہ انہیں امام زیادہ دوست رکھتے تھے ۔ناگاہ دیکھنے والوں نے دیکھاکہ اونٹ نزدیک ہوااورہشام بن حکم ہیں جوامام کے خاص بڑے شاگردتھے،امام کے پاس آئے،اس وقت ہشام نوجوان تھے اوران کی داڑھی کے بال تازے آناشروع ہوئے تھے دیگرحاضرین ان سے سن وسال میں بڑے تھے۔ جیسے ہی ہشام آئے امام صادق نے ان کاگرم جوشی کے ساتھ استقبال کیااوران کوبیٹھنے کے لئے جگہ دی اوران کے بارے میں فرمایا:ھذا ناصرنابقلبہ ولسانہ ویدہ یعنی ہشام اپنے دل وزبان اورعمل سے ہماری مددکرنے والے ہیں۔ پھرامام ان علم کلام کے ماہرشاگردوں کی طرف متوجہ ہوئے اورایک ا یک کواس دانشمندنامی سے مناظرہ کرنے کوکہا۔ پہلے حمران سے کہاتم جاؤاوراس مردشامی سے مناظرہ کرووہ گئے اوراس مردشامی کے ساتھ مناظرہ کیااورکچھ دیرنہ گزری تھی کہ وہ مردشامی حمران کے سامنے بے جواب ہوگیا۔ پھرامام نے مومن طاق سے کہاکہ اب تم اس شامی سے جاکرمناظرہ کرو۔انہوں نے جاکراس مردشامی سے مناظرہ کیاابھی زیادہ دیرنہ گزری تھی کہ آپ کواس مردشامی پرفتح ہوئی۔پھرہشام بن سالم سے کہایہ بھی گئے مگریہ اس مردشامی کے مقابلے میں برابررہے اس وقت امام نے قیس بن ناصر سے کہاوہ بھی گئے اوراس مردشامی سے مناظرہ کیاامام جوان سب مناظروں کامشاہدہ فرمارہے تھے مسکرائے کیونکہ اب وہ مردشامی بالکل مغلوب ہوچکا تھا اوراس کے چہرے سے عاجزی ظاہرہورہی تھی(اصول کافی جلداول ص١٧١)۔ ٢٢ ہشام بن حکم کامردشامی سے مکالمہ جیساکہ پہلے والے مناظرے میں گزراکہ ہشام بن حکم امام صادق کے خاص شاگردتھے اورامام نے اس شامی دانشمندسے کہا:اے شخص! اب ذرااس جوان سے مناظرہ کرووہ مردشامی ہشام بن حکم سے مناظرہ کرنے پرتیارہوگیاان دونوں کی گفتگوامام کے سامنے اس طرح سے شروع ہوئی: مردشامی: اے جوان! تم اس مردیعنی امام صادق کی امامت کے بارے میں مجھ سے سوال کروکیونکہ میں اس موضوع پرتم سے گفتگوکرناچاہتاہوں۔ ہشام نے جب اس مردشامی کی امام کے بارے میں اس طرح کی بے ادبی اورگستاخی دیکھی اورسنی توغصہ کے مارے ان کابدن لرزنے لگااس عالم میں اس مردشامی سے کہاذرایہ بتاؤکہ خداتمام بندوںکی زیادہ خیروسعادت چاہتاہے یاصرف اپنے خاص بندوں کی خیروسعادت چاہتاہے؟ مردشامی: خداتمام بندوں کی خیروسعادت زیادہ چاہتاہے۔ ہشام: توپھرخداوندعالم نے بندوں کی خیروسعادت کے لئے کیاکیاہے؟ مردشامی: خدانے لوگوں پرحجت تمام کردی ہے تاکہ یہ لوگ گمراہ نہ ہوں اورانسانوں کے درمیان اس نے دوستی والفت پیداکی تاکہ اس الفت ودوستی کے سبب ایک دوسرے کی مددکریں اورایک دوسرے کوقوانین الہی سے آگاہ کریں۔ ہشام: وہ خداکی حجت کیاہے؟ مردشامی: وہ حجت خدا،رسول خداہیں۔ ہشام: رسول خداکے بعدحجت خداکون ہے؟ مردشامی: رسول خداکے بعدحجت خداقرآن وسنت ہے ہشام: کیاقرآن وسنت آج کل کے اختلافات دورکرنے کے لئے فائدہ مندہیں؟ مردشامی: ہاں۔ ہشام: پس کیوں میرے اورتیرے درمیان اختلاف ہے جس کی وجہ سے تم شام سے یہاں مکے آئے ہو؟ مردشامی اس سوال کے سامنے خاموش رہا اورامام صادق نے اس سے کہاکیوں جواب نہیں دیتے؟ مردشامی: میں اگرہشام کے جواب میں یہ کہوں کہ قرآن وسنت ہمارے درمیان اختلافات کودورکرتے ہیں تویہ غلط بات ہوگی کیونکہ قرآن وسنت کی عبارات مختلف ہیں،اگریوں کہوں کہ ہمارااختلاف فقط قرآن وسنت کوسمجھنے میں ہے جوہمارے عقیدے کوضررنہیں پہنچاتاتودوسری طرف ہم میں سے ہرایک ادعاء حق کرتاہے اس اعتبارسے قرآن وسنت ہمارے رفع واختلاف کے لئے توسودمندنہیں ہیں۔ امام صادق: اب سوال کاجواب ذراخودہشام سے پوچھووہ خودتمہیں اس کاتسلی بخش جواب دیں گے جن کاوجودعلم وکمال سے سرشارہے۔ مردشامی: کیاخدانے کسی شخص کوبشرکے پاس ان کے درمیان اتحادکرانے کے لئے بھیجاہے؟تاکہ لوگوں کے درمیان حق وباطل میں فرق ہوجائے۔ ہشام : رسول خداکے زمانے میںیاآج کے زمانے میں؟
مردشامی : رسول خداکے زمانے میں توخودرسول خداتھے آج کے دورمیں وہ کون ہے؟
ہشام : امام صادق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہایہ ہیں جوحجت خداہیں اورہمارے درمیان کے اختلاف کودورکرنے والے ہیں،جوعلم ونبوت کومیراث میں پانے والے ہیں،جوان کوان کے آباؤاجدادسے ملے ہیں،جوہمارے لئے زمین وآسمان کی خبریں دیتے ہیں۔ مردشامی: میں کس طرح سمجھوں کہ یہ شخص وہی حجت خداہیں؟ ہشام: جوکچھ جانتے ہوان سے پوچھ لوتاکہ ان کے حق ہونے کے بارے میں تمہیں یقین حاصل ہوجائے۔ مردشامی: اے ہشام! تم نے تواس گفتگوسے میرے لئے اس کے سواکوئی عذرنہیں چھوڑاکہ میں ان سے سوال کروں اورحقیقت کوپہنچوں۔ امام صادق: کیاتم چاہتے ہوکہ تمہارے سفرکے حالات بتاؤں کہ کس طرح سے تم شام سے یہاں آئے ہو؟پھرامام نے کچھ مقدارمیں اس کے سفرکے حالات بیان کئے۔ مردشامی امام کے ان بیانات سے حیران رہ گیا،وہ حقیقت جان چکاتھا،نورایمان اس کے قلب میں اثرکرچکاتھا،خوشی سے کہنے لگاکہ آپ نے سچ کہا، اب میں خدائے وحدہ لاشریک پرایمان لاتاہوں۔ امام صادق: اب جبکہ ایمان لائے ہوتواسلام کادرجہ ایمان سے پہلے ہے کیونکہ اسلام ہی کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کاارث لے سکتے ہیں،آپس میں ازدواج کرسکتے ہیں،لیکن ثواب کاحاصل کرناایمان پرموقوف ہے تم پہلے مسلمان تھے مگرمیری امامت کوقبول نہیں کرتے تھے،اب میری امامت قبول کرنے کے بعدتم نے اپنے اعمال کے ثواب کوبھی حاصل کرلیا۔ مردشامی: آپ نے بالکل صحیح فرمایااورمیں بھی گواہی دیتاہوں کہ خداوحدہ لاشریک ہے اورمحمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے رسول ہیں اورآپ رسول خدا کے جانشین ہیں۔ اب امام صادق نے اپنے شاگردوں کے مناظرات کے سلسلے میں اپنے نظریات دیناشروع کئے حمرانسے کہا: تم کیوں کہ اپنی گفتگوکواحادیث سے ہم آہنگ کرتے ہواس لئے آگے بڑھ جاتے ہواورصحیح مطلب تک پہنچ جاتے ہو۔ ہشام بن سالم سے کہا: تم اگرچہ اپنی غلطیوں میں احادیث کولاتے ہومگران کوصحیح طریقے سے جاری نہیں کرپاتے۔ مؤمن طاق سے کہا: تم بہت زیادہ قیاس وتشبیہ کے ذریعے بحث کرتے ہواوراصل موضوع بحث سے خارج ہوجاتے ہواورباطل کے ذریعے باطل کوردکرتے ہوتمہاراباطل زیادہ روشن ہے۔ قیس بن ماصرسے کہا: تم اس طرح سے گفتگوکرتے ہوکہ گویاحدیث پیغمبراکرم سے نزدیک ہومگرپھردورہوجاتے ہواورحق کوباطل سے مخلوط کردیتے ہوجب کہ حق اگرچہ چھوٹاانسان کوبہت سے باطل سے بے نیازکردیتاہے تم اورمومن الطاق دونوں بحث کوکھنچ کرلے جاتے ہواس جہت سے تم دونوں میں کافی مہارت ہے۔ یونس کہتے ہیں: خداکی قسم میں سمجھاکہ امام ہشام کے بارے میں بھی فرمائیں گے جوقیس کے بارے میں فرمایاتھا لیکن امام نے ہشام کی اچھے القاب کے ساتھ تعریف کی اورکہا: یاہشام لاتکاذتقع تلوبی رجلیک اذاھمت بالارض طرث۔یعنی اے ہشام جب بھی تم اپنے آپ میں کامیابی کی نشانی کااحساس کرلیتے ہوتوبہت اچھے طریقے سے اپنے کونجات دیتے ہو۔پھرامام نے ہشام سے کہاکہ تم بہت اچھے طریقے سے اپنے کونجات دیتے ہو۔پھرامام نے ہشام سے کہاکہ تم جیسے ماہرخطیبوں کے لئے ضروری ہے کہ مناظرے کیاکرواوریادرکھواپنی بحثوں میں لغزش نہ کھانابے شک خداکی مددکے ساتھ ہماری شفاعت ایسے لوگوں کے لئے ہے جواس طرح کے بحث ومناظرے کرتے ہیں۔ نتیجہ : امام صادق ہشام بن حکم کے بارے میں اس طرح فرماتے ہیں کہ ہشام حق کادفاع کرنے والے،ہمارے اقوال دوسروں تک پہنچانے والے،ہماری حقیقت حق کادفاع کرنے والے،ہمارے اقوال دوسروں تک پہنچانے والے،ہماری حقیقت کوثابت کرنے والے اورہمارے دشمنوں کے بے ہودہ مطالب کوباطل کرنے والے ہیں۔لہذاجوبھی ان کی پیروی کرے گویااس نے ہماری پیروی کی اورجس نے ان کی مخالفت کی اس نے ہماری مخالفت کی(الشافی ص١٢ تنقیح المقال ج٣ص٢٩٥)۔ ٢٣ جاثلیق کاامام کاظم کے دست مبارک پرقبول اسلام شیخ صدوق اوردوسرے علماء ہشام بن حکم سے روایت کرتے ہیں کہ جاثلیق(مسیحیوں کاایک بڑاعالم دین ودانشمند)جس کانامبریہہتھااس نے سترسال تک مسیحی مذہب کے مطابق زندگی بسرکی لیکن وہ حق کی تلاش میں رہتاتھا۔ اس کے ساتھ اس کی خدمت کے لئے ایک عورت بھی تھی،بریہہ نے مسیحیت کے ناقص دلائل کواس عورت سے پوشیدہ رکھاتھالیکن یہ عورت اس بات سے آگاہ ہوگئی۔ بریہہ جوحق کی تلاش میں لگارہتاتھا علمائے اسلام سے معلومات حاصل کرتارہتاتھا لیکن اس نے جس فرقہ کے بارے میں بھی تحقیق کی اسے حق نام کی کوئی بھی چیزدکھائی نہیں دی تواس نے کہااگرتمہارے رہبربرحق ہوتے تویقینا تمہارے حق ہوتا،یہاں تک کہ اس نے اوصاف شیعہ اورہشام بن حکم کانام سنا۔یونس بن عبدالرحمن(جوامام صادق کے شاگردتھے)کہتے ہیں کہ مجھ سے ہشام نے نقل کیاکہ وہ باب الکرخ میں اپنی دکان میں بیٹھاہواتھا،کچھ لوگ اس سے قرآن سیکھ رہے تھے کہ اس دوران تقریباسوافرادپرمشتمل مسیحیوں کاایک گروہ جس میں بریہہ بھی شامل تھاچلاآرہاہے سب کے سب کالے لباس زیب تن کئے ہوئے تھے،لمبی لمبی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے،بریہہ دوسرے لوگوں کے ساتھ میری دکان پرجمع ہوگئے۔ میں نے بریہہ کوایک کرسی دی وہ اس پربیٹھ گیااوراپنے عصا کاسہارالیتے ہوئے بولا: میں نے مسلمانوں میں کوئی ایسا فرد نہیں دیکھاجوعلم کلام(عقائد)میں دسترس رکھتاہواورمیں نے اس سے مسیحیت کی حقانیت کے سلسلے میں مناظرہ کیاہواوروہ مجھے مطمئن کرسکاہو،اب میں تمہارے پاس آیاہوں تاکہ اسلام کی حقانیت کے بارے میں تم سے مناظرہ کروں۔ یونس بن عبدالرحمن نے ہشام اوربریہہ کے درمیان ہونے والے مناظرے کوبیان کرتے ہوئے ہشام کی کامیابی کاذکرکیاہے۔ کافی لمبی چوڑی تفصیل بیان کرنے کے بعدپھرکہتے ہیں کہ بریہہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے منتشرہونے لگے کہ کاش ہم ہشام سے مناظرہ نہ کرتے اورخودبریہہ بھی اس مناظرے میں شکست کھانے کے بعدکافی غمگین ہوا۔ جب گھرپہنچاتواس کی بیوی نے اس سے غمگین ہونے کی وجہ پوچھی توبریہہ نے ہشام سے اپنے مناظرے اورناکامی کو بیان کیا۔ بریہہ کی بیوی کہنے لگی وائے ہوتم پر،کیاتم حق پرہوناچاہتے ہویاباطل پر؟بریہہ نے کہا:میں حق کے ساتھ جیناچاہتاہوں اورحق پرمرناچاہتاہوں۔ بریہہ کی بیوی کہنے لگی توانتظارکس چیزکاہے جس طرف حق ہے اسی طرف ہوجاؤاوراپنی ہٹ دھرمی چھوڑدوکیونکہ یہ ایک قسم کاشک ہے جوبراہے اوراہل شک جہنم میں جلائے جائیں گے۔ بریہہ نے اپنی بیوی کی بات مانی اورارادہ کیاکہ صبح ہشام کے پاس جائے گا۔صبح جب وہ ہشام کے پاس گیاتودیکھاکہ ہشام تنہادکان پربیٹھے ہوئے ہیں ہشام کوجاکرسلام کیااوران سے دریافت کیاکہ آپ کی نظرمیں کوئی ایساشخص ہے جس کی بات کوحجت مانتے ہوئے اس کی پیروی کی جائے؟ہشام نے کہاہاں ہے۔ بریہہ نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا۔ہشام نے امام صادق کے اوصاف بیان کئے بریہہ کوامام صادق سے ملنے کااشتیاق ہوا۔لہذا ہشام کے ساتھ بریہہ اورا س کی بیوی نے عراق سے مدینے کاسفرکیا۔جب مدینے میں امام صادق کے گھرپہنچے تودیکھاکہ گھرکے دالان میں امام صادق کے ساتھ امام کاظم بھی تشریف فرماہیں۔ ثاقب المناقب کی روایت کے مطابق ہشام نے امام جعفرصادق اورامام کاظم کوسلام کیابریہہ نے بھی دونوں کوسلام کیااوراپنے آنے کی وجہ بیان کی۔ اس وقت امام کاظم کمسن تھے اورشیخ صدوق کی روایت کے مطابق ہشام نے خودہی بریہہ کی داستان امام کاظم سے بیان کی اس طرح امام کاظم اوربریہہ میں گفتگوشروع ہوئی: امام کاظم: تم کس حدتک اپنی کتاب کے بارے میں جانتے ہو؟ بریہہ : مجھے انجیل کے بارے میں کافی معلومات ہیں۔ امام کاظم : تم کس حدتک اس کے باطنی معنی کی تاویل پراعتمادرکھتے ہو؟ بریہہ: جس حدتک علم ہے اسی حدتک اعتمادبھی ہے۔ پھرامام کاظم نے انجیل کی چندآیات کی تلاوت کی۔ بریہہ امام امام کی قرائت سے متاثرہوااورکہنے لگاکہ حضرت مسیح بھی اسی طرح انجیل کی تلاوت کیاکرتے تھے اس طرح کی تلاوت صالحین کے سواکوئی نہیں کرسکتا۔ پھربریہہ امام کاظم سے کہنے لگا:ایاک کنت اطلب منذخمسین سنة اومثلک میں پچاس سال سے آپ یاآپ کے مثل افرادکی تلاش میں تھا۔ یہ کہہ کربریہہ اسی وقت مسلمان ہوگیااوراس کی بیوی بھی مسلمان ہوگئی۔ پھرہشام ،بریہہ اوراس کی بیوی کوامام صادق کی طرف متوجہ ہوئے اوربریہہ کے اسلام لانے کاذکرکیا۔ امام صادق نے فرمایا: ذریة بعضھامن بعض واللہ سمیع علیم۔(سورہ آل عمران آیت٣٤)۔ بعض کوبعض کی ذریت سے ان کی پاکیزگی اورکمال کی بنا پر لیاگیاہے بیشک خداسننے والااورجاننے والاہے۔ بریہہ اورامام صادق کے درمیان گفتگو: بریہہ:میں آپ پرفداہوں،یہ تورات وانجیل اورآسمانی کتابیں آپ لوگوں تک کس طرح پہنچی ہیں؟۔ امام صادق : یہ کتابیں ان سے ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔ہم انہیں کی طرح ان کتابوں کی تلاوت کرتے ہیں تاکہ لوگوں پرحجت تمام ہواورکسی کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے۔ اس وقت سے لیکر مرتے دم تک بریہہ امام صادق کے تابعین وناصرین میں رہے۔جب ان کاانتقال ہواتوخودامام صادق نے اپنے ہاتھوں سے اسے غسل دیا، قبرمیں اتارااورفرمایا:ھذامن حواری المسیح علیہ السلام یعرف حق اللہ علیہ یعنی یہ حضرت مسیح کے حواریوں میں سے تھا اورخداکے حق کوپہچانتاتھا۔ اکثردوسرے اصحاب امام صادق بریہہ جیسے مقام معنوی کی آرزوکیاکرتے تھے(انوارالبریہہ ص١٨٩)۔
٢٤
امام کاظم کے پاس ابویوسف کاعلاج
ایک دن مخالف اہل بیت عالم،ابویوسف اورخلیفہ مہدی عباسی،امام کاظم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس نے مہدی سے کہاکہ اگراجازت ہوتومیں موسی ابن جعفرسے کچھ سوالات کروں جس کے یہ جواب نہ دے سکیں۔
مہدی عباسی : ہاں اجازت ہے۔
ابویوسف امام کاظم سے بولااگراجازت ہوتوآپ سے کچھ سوالات کروں؟ امام کاظم نے فرمایا:ہاں سوال کرو۔
ابویوسف: آیااس شخص کے لئے جوحالت احرام میںہوسایہ تلے چلناجائزہے؟
امام کاظم :جائزنہیں ہے۔
ابویوسف:اگرمحرم کہیں قیام کرے تواس صورت میں اس کے لئے وہاں زیرسایہ چلناجائزہے یانہیں؟
امام کاظم: اب اس صورت میں اس کے لئے سائے تلے چلناجائزہے۔
ابویوسف: ان دونوںسایہ میں کیافرق ہے کہ پہلاجائزنہیں اوردوسراجائزہے۔
امام کاظم : اس مسئلے کواس طرح سمجھوکہ کیاعورت عادت ماہانہ میں چھوٹی ہوئی نمازکی قضاکرے گی؟
ابویوسف: نہیں۔
امام کاظم : اوران ایام میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاضروری ہے یانہیں؟
ابویوسف :ضروری ہے۔
امام کاظم :اب اس میں ذرابتاؤکہ کیافرق ہے کہ نمازکی قضانہیں ہے لیکن روزہ کی قضاہے۔
ابویوسف :خداکی طرف سے اسی طرح حکم آیاہے۔
امام کاظم : پس جوشخص حالت احرام میں ہے اس کے لئے بھی اسی طرح کاحکم آیاہے مسائل شرعی کوقیاس نہیں کرناچاہئے۔
ابویوسف اس جواب کوسن کرہی خاموش ہوگیا۔مہدی عباسی اس سے کہنے لگاتم امام کوشکست دیناچاہ رہے تھے مگرایسانہ ہوسکا۔
ابویوسف کہنے لگا:رمانی بحجردامغ یعنی امام موسی ابن جعفرنے تومجھے سخت شکنجے دارپتھرکے ذریعے ہلاک کرڈالا(عیون اخبارالرضاجلداول ص٧٨)۔
٢٥
امام کاظم کاہارون سے مکالمہ
ہارون رشید۔پانچویں عباسی خلیفہ نے ایک روزامام سے اس طرح گفتگوشروع کی کہ آپ عام وخاص کے درمیان نسبت کے قائل ہیں اورخود کورسول خداسے نسبت دیتے ہیں کہ آپ اولادپیغمبراکرم ہیں جب کہ پیغمبرکاکوئی بیٹانہیں تھاتاکہ ان کی نسل چل سکتی اورآپ جانتے ہیں کہ نسل بیٹے کے ذریعے چلتی ہے نہ کہ بیٹی کے ذریعے جب کہ آپ لوگ ان کی بیٹی کی اولادہیں لہذاپیغمبرۖ کی اولادنہیں ہیں۔
امام کاظم :اگرپیغمبراکرمۖ اس وقت ہوتے اورتجھ سے تیری بیٹی کارشتہ مانگتے توکیاتم ان کومثبت جواب دیتے؟
ہارون: عجیب ہے میں ان کومثبت جواب کیونکرنہ دیتابلکہ اس خواست گاری کے ذریعے تومیں عرب وعجم میں افتخارمحسوس کرتا۔
امام کاظم :لیکن پیغمبراکرم ۖ نہ مجھ سے میری لڑکی مانگیں گے اورنہ میرے لئے جائزہوگاکہ میںاپنی لڑکی ان کودوں۔
ہارون:کیوں؟
امام کاظم :اس لئے کہ میں ان کانواسہ ہوں جب کہ توان کانواسہ نہیں ہے۔
ہارون: احسن اے موسی ! یہی تومیراسوال ہے کہ آپ کیوں خودکوذریت پیغمبراکرم سے کہتے ہیں کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے۔
امام کاظم :ذرامجھے اجازت دوگے کہ میں جواب دوں۔
ہارون: ہاں ہاں!آپ ضرورجواب دیں۔
امام کاظم :خداوندعالم قرآن میں سورہ انعام کی آیات ٨٤۔٨٥میں ارشادفرماتاہے:
ومن ذریتہ داؤدوسلیمان وایوب ویوسف وموسی وہارون وکذالک نجزی المحسنین وزکریاویحیی وعیسی والیاس کل من الصالحین
یعنی داؤدوسلیمان وایوب ویوسف وموسی وہارون سب کے سب حضرت ابراہیم کے ذریت سے ہیں اورہم اپنے نیک بندوں کوجزادیتے ہیںاسی طرح زکریا ویحیی وعیسی والیاس سب کے سب صالحین میں سے تھے۔
اب میںتم سے پوچھتاہوں کہ حضرت عیسی کاباپ کون تھا؟
ہارون : عیسی کاتوکوئی باپ ہی نہیں تھا۔
امام کاظم: لیکن اس کے باوجودخدانے عیسی کوان کی ماں یعنی (مریم)کی جانب سے ذریت پیغمبرابراہیم میں شمارکیاہے اسی طرح ہماری ماں فاطمہ زہرا کی جانب سے ہمیں ذریت پیغمبراکرم میں شمارکیاہے۔
امام کاظم :کیامزیددلیل دوں؟
ہارون: ہاںضرور دیں۔
امام کاظم :خداوندعالم سورہ آل عمران آیت ٤١میں مباہلہ کے قصہ کوبیان کرتے ہوئے کہتاہے:
فمن حاجک فیہ من بعدماجائک من العلم فقل تعالواندعابنائناوانبائکم ونسائناونسائکم وانفسناوانفسکم ثم نبتھل لعنة اللہ علی الکاذبین۔
یعنی جب آپ پرعلم(یعنی قرآن)آچکا اس کے بعدبھی اگرکوئی نصرانی عیسی کے بارے میں حجت کریں توان سے کہوکہ اچھااب ذرامیدان میں آجاؤ، ہم اپنے بیٹوں کولاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کولاؤ،ہم اپنی عورتوں کولاتے ہیں تم اپنی عورتوں کولاو،ہم اپنی جانوں کولائیں تواپنی جانوں کولاؤ،اس کے بعد سب مل کرخداکی بارگاہ میں گڑگڑاکرجھوٹوں پرخداکی لعنت کرتے ہیں۔
پھرحضرت نے فرمایاکسی نے بھی دعوی نہیں کیاکہ پیغمبراکرم نصاری سے مباہلہ کے وقت سوائے علی وفاطمہ وحسن وحسین کے کسی اورکولے گئے ہوں۔لہذا اس وقت اپنے نفوس کی جگہ علی کولے جانااورابنائنا کی جگہ حسن وحسین کولے جانابتاتاہے کہ علی نفس رسول ہیں اورحسن وحسین کوخدانے ان کافرزندقراردیاہے۔
ہارون امام کی یہ محکم دلیل سن کرخاموش ہوگیااورکہنے لگا:اے موسی آپ پرسلام ہو۔
٢٦
امام رضاکاابوقرہ سے مکالمہ
رضوان بن یحیی جوامام رضاکے شاگردتھے کہتے ہیں کہ ابوقرہ (جومسیحی مذہب کاتھا)اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اسے امام رضاکی خدمت میںلے جاؤں،میں نے امام رضاسے اجازت لی اورآنحضرت کی خدمت میں ابوقرہ کولے کرآیاجب امام رضاکی خدمت میں پہنچاتوآپ سے اس نے احکام دین حرام وحلال کے مسائل پوچھے۔ یہاں تک کہ جب سوالوں کاسلسلہ توحیدتک پہنچاتواس طرح گفتگوشروع ہوئی:
ابوقرہ: ہمارے لئے روایت نقل کی گئی ہے کہ خداوندعالم نے اپنے دیداراوراپنے سخن کو پیغمبروں میں سے دوپیغمبروں کے درمیان تقسیم کردیاہے تاکہ ایک سے کلام کرے اورایک کودیدارکرائے۔ حضرت موسی سے گفتگوکی اورحضرت محمدۖ کواپنادیدارکرایا۔لہذااس بناپرخداکاوجوددیکھنے کے قابل ہے۔
امام رضا: اگرایساہی تھاتوکیاانہی پیغمبراسلامۖ نے یہ نہیں فرمایاکہ تمام جن وانس کی آنکھیں خداکونہیں دیکھ سکتیں کیونکہ مخلوقات کی یہ وسیع آگاہیاں اس کے سمجھنے کااحاطہ ہرگزنہیں کرسکتیں کیونکہ خدانہ کسی کی شبیہ ہے نہ ہمسر۔
ابوقرہ: یقیناانہوں نے اس طرح ارشادفرمایاہے۔
امام رضا: لہذااس بناپریہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک طرف پیغمبراکرم خداکی طرف سے لوگوں کوخبردیں اوران سے کہیں کہ یہ آنکھیں خداکودیکھنے پرقادر نہیں ہیں اورمخلوقات کی وسعت آگاہی بھی اس کی ذ١ت کوسمجھنے میں مددنہیں دیتی،کیونکہ وہ کسی کام کاہم شکل یاشبیہ نہیں ہے اوردوسری طرف یہی پیغمبراکرمۖ کہیں کہ میں نے اپنی ان دوآنکھوں سے خداکودیکھاہے یامیں نے اپنے علم سے اس کااحاطہ کرلیاہے اوروہ انسان کی شکل کی طرح ہے اسے دیکھاجاسکتاہے کیا تم لوگوں کوپیغمبراکرمۖ کی طرف ایسی نسبتیں دیتے ہوئے شرم نہیں آتی؟
ابوقرہ: اسی مقام پرسورہ نجم کی آیت ١١بھی ہے کہ پیغمبرنے جودیکھااس کوبیان کیاہے :ماکذب الفوادمارای یعنی ان کے قلب نے جودیکھاوہ ہرگزجھوٹ بولنے والانہیں ہے یعنی قلب پیغمبرۖ۔جوکچھ ان کی آنکھوں نے دیکھاہے قلب پیغمبراس میں ہرگزجھوٹ بولنے والانہیں ہے اورپھراسی سورہ نجم میں خدا اس چیزکوجس کوپیغمبرنے دیکھابیان کرتاہے: لقدرای من آیات ربہ الکبری(سورہ نجم آیت١٨)یعنی انہوں نے اپنے پروردگارکی بعض بڑی نشانیوں کودیکھا۔ لہذااس سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبراکرمۖ نے جوکچھ دیکھاوہ ذات خداکے علاوہ کچھ اورتھا۔
مزیدخداوندعالم سورہ طہ کی آیت١١میں ارشادفرماتاہے: ولایحیطون بہ علما یعنی کوئی علم بھی اس کااحاطہ نہیں کرسکتا۔لہذاجوخداکودیکھ سکتاہے وہ خداکااحاطہ بھی کرسکتاہے۔جب کہ آیت مذکوراس کے دیکھنے کومنع کرتی ہے۔
ابوقرہ: توکیاآپ ان روایات کوجوکہتی ہیں کہ پیغمبراکرمۖنے خداکودیکھاانکارکرتے ہیں؟
امام رضا: ہاں!اگرروایات خلاف قرآن ہوںتوان کومیں ردکروںگاکیونکہ تمام مسلمان اس بات پرمتفق ہیں کہ وجودخداکااحاطہ نہیں کیاجاسکتا،آنکھیں اس کودیکھ نہیں سکتیں اوروہ کسی چیزکی شبیہ نہیں ہے(اصول کافی باب ابطال الرویہ جلداول ص٩٥۔٩٦)۔
صفوان کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ابوقرہ نے میرے ذریعے امام رضا سے وقت لیااورحلال وحرام کے سوالات کے بعدکہنے لگا: آیاآپ اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ خدامحمول ہے؟
امام رضا: ہرمحمول یعنی(حمل شدہ)پرکسی دوسرے پرحمل کیاجاتاہے اورخودمحمول کے معنی نقص کے ہیں جوحامل پرتکیہ کئے ہوتاہے جس طرح (زبر)مدح پر دلالت کرتاہے اور(زیر)نقص پردلالت کرتاہے خداکی طرف ایسی چیزوں کی نسبت دیناصحیح نہیں ہے کیونکہ خداحامل ہے یعنی ہرچیزکاپیداکرنے والاہے جب کہ کلمہ محمول بغیرکسی پرتکیہ کئے ہوئے کوئی مفہوم نہیں رکھتااس بناپرخدامحمول نہیں ہوسکتااورجوخدااوراس کی عظمت پرایمان رکھنے والے کسی سے بھی نہیں سناگیاہے کہ اس نے خداکولفظ محمول سے تعبیرکیاہو۔
ابوقرہ: خداوندعالم سورہ حاقہ کی آیت١٧میں فرماتاہے: ویحمل عرش ربک فوقھم یومئذثمانیہ یعنی خداوندکے عرش کواس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اورسورہ غافرکی آیت٧میں بھی ارشادہوتاہے :الذین یحملون العرش یعنی وہ لوگ جوعرش کواٹھانے والے ہیں۔
امام رضا: عرش خداکانام نہیں ہے بلکہ عرش خداکے علم وقدرت کانام ہے جس میںتمام چیزیں ہیں،اسی لئے خدانے اس عرش کے حمل کی نسبت اپنے غیر یعنی فرشتوں کی طرف دی ہے۔
ابوقرہ: روایت میں آیاہے کہ جب بھی خداغضبناک ہوتاہے توعرش کواٹھانے والے فرشتہ اس کے غضب کی سنگینی کومحسوس کرتے ہیں اورسجدہ میں چلے جاتے ہیں اورجب خداکاغصہ ٹھنڈاہوجاتاہے اوران کی دشتیں ہلکی ہوجاتی ہیں تووہ دوبارہ اپنی جگہ پرآجاتے ہیں،کیاآپ اس روایت کاانکارکرتے ہیں۔
امام رضانے اس روایت کی ردمیں فرمایا:اے ابوقرہ مجھے ذرایہ بتاؤکہ جب خدانے شیطان پرلعنت کی تھی اوراس پرغضبناک ہواتھاکیااس وقت سے اب تک خدااس سے راضی ہوگیاہے۔
ابوقرہ: ہرگزوہ اس سے راضی نہیں ہوابلکہ شیطان اوراس کے دوستوں اورپیروکاروں پرغضبناک ہے۔
امام رضا: توخودتمہارے بقول عرش کواٹھانے والے فرشتوں کوہمیشہ سجدہ میں ہوناچاہئے بلکہ اس طرح نہیں ہے لہذاعرش خداکانام نہیں ہے اورتم کس طرح جرأت کرتے ہواورخداکومختلف تفسیرات سے تعبیرکرتے ہوجبکہ وہ ان چیزوں سے منزہ ہے اوران نسبتوں سے دورہے اس کی ذات ثابت اورقابل تفسیرنہیں ہے تمام موجودات اس کے قبضہ قدرت وتدبیرمیں ہیںاورسب اس کے محتاج ہیں جب کہ وہ کسی کامحتاج نہیں ہے(اصول کافی جلداول ص١٣٠)۔
٢٧
امام رضا کاایک منکرخداسے مکالمہ
وجود خداکے منکرین میںسے ایک منکرخدا،امام رضا کے پاس آیااس وقت امام رضاکے پاس لوگوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی امام اس منکرخداکی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایااگرحق تمہارے ساتھ ہوا(جب کہ ایسانہیں ہے)تواس صورت میں ہم اورتم برابرہوں گے لہذاہمارے نماز،روزہ،زکات اورہمارا دین وغیرہ ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گااوراگرحق ہمارے ساتھ ہوا(یقیناایساہی ہے)تواس صورت میں بھی ہم کامیاب ہیں اورتم نقصان اٹھانے والے اورہلاک ہونے والے ہو۔
منکرخدا: مجھے بتائیں کہ خداکس طرح کاہے اورکہاں ہے؟
امام رضا: وائے ہوتم پرجوخداکواس طرح کاتوصیف کرتے ہوکیونکہ وہ کس طرح کاہے کہاں ہے ہرگزدرک نہیں کیاجاسکتاکیونکہ کوئی قوت حس اسے درک نہیں کرسکتی اوراس کوکسی چیزسے تشبیہ نہیںدی جاسکتی۔
منکرخدا: توجب خداکوکسی بھی حس سے درک نہیں کیاجاسکتاتووہ کچھ بھی نہیں ہے؟
امام رضا: وائے ہوتم پرکہ تمہارے قوی حسیہ اس کے درک کرنے سے عاجزہیں۔لہذااس کاانکارکرتے ہوجب کہ ہماری قوی حسیہ بھی اس کودرک کرنے سے عاجزہیں مگرہم اس پرایمان رکھتے ہیں اوریقین رکھتے ہیں کہ وہ ہماراپروردگارہے جس کوکسی بھی چیزسے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔
منکرخدا: اچھاذرابتائیں کہ خداکب سے ہے؟
امام رضا: ذراتم مجھے یہ بتاؤکہ وہ کس زمانے میں نہیں تھاتاکہ میں تمہیں بتاؤں کہ وہ کس زمانے میں تھا۔
منکرخدا: خداکے وجودپرکیادلیل ہے؟
امام رضا: جب میں نے اپنے وجودپرنظردوڑائی توسوچاکہ یہ اپنے جسم کی طول وعرض اوراس کے فوائد ونقصان کے سلسلے میں مجھے ذرابھی قدرت حاصل نہیں ہے کہ ان نقصانات کودورکرسکوں لہذ١میں نے یقین کرلیاہے کہ میرے اس وجودکا کوئی خالق ہے جوان سب چیزوں پرقدرت رکھتاہے۔لہذا وجود صانع کااعتراف کیااسی طرح گردش سیارات،بادل اورہواکے چلنے اورچاندوسورج کے سیرکرنے اورستاروں کی گردش سے بھی اندازہ کرلیاکہ کوئی حرکت دینے والا ان کوحرکت دے رہاہے لہذایہ موجودات اپنے ایک صانع کی محتاج ہیں جس نے ان کوبنایاہے(اصول کافی جلداول٧٨)۔
٢٨
مشیت اورارادہ کے معنی
یونس بن عبدالرحمن امام رضا کے ایک شاگردتھے اس زمانے میں قضاوقدرکی بحث کابازارگرم تھا۔یونس چاہتے تھے کہ قضاوقدرکے صحیح معنی کوخودامام کی زبانی سناجائے۔لہذاامام کی خدمت میں آئے اوراس بارے میں گفتگوکرنے کی گزارش کی امام رضانے ان سے فرمایا: اے یونس قدریہ کے عقیدے کوتم ہرگز نہ لیناکیونکہ قدریہ سے وہ لوگ مرادہیں جوکہتے ہیں کہ :خدانے تمام کام لوگوں کے سپردکردئیے اورخودآزادہوگیاہے۔
یونس: خداکی قسم میں قدریہ کے اقوال کوہرگزقبول نہیں کرتابلکہ میراعقیدہ یہ ہے کہ کوئی چیزبھی موجودنہیں ہوسکتی جب تک خدااس کونہ چاہے یاارادہ نہ کرے۔
امام رضا: اے یونس !ایسانہیں ہے بلکہ خدایہ چاہتاہے کہ انسان بھی اپنے کاموں میں مختارہے۔ کیاتم جانتے ہوکہ مشیت الہی کے کیامعنی ہیں؟
یونس : نہیں۔
امام رضا: ارادہ کرنایعنی جس چیزکوکرناچاہتے ہو۔کیاتم جانتے ہوکہ قدرکے کیامعنی ہیں؟
یونس: نہیں۔
امام رضا: یعنی وہی اندازہ(حدبندی)کرناہے جس طرح مرنے کے وقت اس مرنے والے کی عمرکی مدت کومعین کیاجاتاہے پھرآپ نے فرمایاقضاکامعنی محکم بناناوعینیت بخشناہے۔
یونس: جواب امام کے اس جواب سے قانع ومطمئن اورعاشق امام ہوگئے تھے امام کے سرکابوسہ لیااورکہنے لگے:
فتحت لی شیئا کنت عنہ فی غفلة۔
یعنی آپ نے میرے لئے ان مشکل مطالب کی گرہ کھول دی ہے جن سے میں ناآگاہ تھا(اصول کافی جلداول١٥٧)۔
٢٩
مامون کابنی عباس سے شان امام جوادمیں مکالمہ
شیخ مفید اپنی کتاب الارشادمیں لکھتے ہیں کہ مامون۔ساتواں خلیفہ عباسی تھا۔ عاشق امام جواد تھااورامام کی عظمت اورعلم ودانش کاقائل تھا کیونکہ وہ بچپن سے مشاہدہ کررہاتھا کہ آپ کی نظر،علم،حکمت،ادب اورکمال اس تک پہنچی ہوئی تھی جن کودوسرے ہم سن بچے درک کرنے سے عاجزتھے اسی لئے اس نے اپنی بیٹی ام الفضل کوآپ کی ہمسری میں دیا۔اوراس کوآپ کے ساتھ مدینہ روانہ کیالہذاوہ امام جواد کے سلسلے میں کافی تجلیل واحترام کاقائل تھا۔
حسن بن محمدبن سلیمان،ریان بن شبیب سے روایت کرتے ہیں کہ جب مامون نے اپنی بیٹی ام الفضل کوامام کے عقد میں دیناچاہااوراس بات کی اطلاع بنی عباس کوہوئی تویہ بات ان پرسخت گراں گزری۔ چنانچہ اس خوف سے کہ امام جواد کوبھی وہ مقام حاصل نہ ہوجائے جوان کے والدامام رضاکوحاصل تھا سب جمع ہوکرمامون کے پاس گئے اورکہنے لگے: اے مامون تمہیں خداکی قسم دیتے ہیں کہ اپنے ارادے سے جوامام جواد کی ازدواج کے سلسلے میں کیاہے بازرہو کیونکہ ہمیں خوف ہے کہ اس طرح تم وہ منصب جوخدانے ہمیں دیاہے خارج نہ کردواورلباس عزت وشہرت کوہمارے تن سے اتاردوکیونکہ تم ہمارے کینہ سے بخوبی واقف ہو جوبنی ہاشم سے ہے اورگزشتہ خلفاء کاسلوک جوان لوگوں کے ساتھ روارکھاگیااس کوبھی خوب جانتے ہو۔انہوں نے جوان کے ساتھ کیا اس کابھی تم کوعلم ہے اس کے باوجودتم نے ان کے والدامام رضا کے ساتھ جوکیاتھا ہم لوگ اسی پرپریشان تھے یہاں تک کہ خداوندعالم نے ہمارے غم واندوہ کوان کی جانب سے برطرف کیا۔
لہذاتم کوخداکی قسم دیتے ہیں کہ ذراسوچواورہمارے کینے کوجوہمارے سینے میں ہے اورسینوں کے ختم ہونے والے اس غم واندوہ کودوبارہ روشن نہ کرواوراپنی اس رائے کوجوام الفضل کی شادی فرزند علی ابن موسی رضاکے سلسلے میں ہے تبدیل کردوکیونکہ تمہارے رشتہ دارجوبنی عباس سے ہیں وہ ا س کے زیادہ لائق ہیں۔
مامون نے ان کے اس اعتراض کے جواب میں کہاتمہارے اورفرزندان ابوطالب کے درمیان جواختلاف ہے وہ خودتمہاری وجہ سے ہے اگرتم لوگ ان کے ساتھ انصاف کروتووہ لوگ اس مقام خلافت کے زیادہ حقدارہیں اورخلفاء گزشتہ کاکرداران کے ساتھ جوبھی تھا وہ ان کے ساتھ صلہ رحم نہ تھابلکہ قطع رحم تھا۔ میں خداسے پناہ مانگتاہوں کہ میں بھی ان لوگوں کی طرح کوئی ویساہی کام انجام دوں۔ خدا کی قسم میں نے جوکچھ ولی عہدی حضرت رضا کے سلسلے میں کیاہرگز پشیمان نہیں ہوں۔ سچ تویہ ہے کہ میں نے چاہاتھاکہ خلافت وہ لے لیں اورمیں خلافت سے دوررہوں،مگرخودانہوں نے انکارکیا۔لہذاتقدیرمیں جوتھا وہی ہوا جوتم لوگوں نے بھی دیکھا۔
رہایہ مسئلہ کہ میں نے حضرت جواد کواپنی دامادی کے لئے کیوں پسندکیاہے،اس لئے کہ وہ بچپن ہی سے علم ودانش کی اس بلندی پرفائزہیں جوبلندی دوسروں کو حاصل نہیں۔ البتہ ان کی یہ دانش حیرت انگیزہے مجھے خداسے امیدہے کہ جوکچھ میں ان کے بارے میں جانتاہوں تم لوگوں کواس بارے میں آگاہ کرسکوں تاکہ تم لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ میں نے جوان کے بارے میں رائے قائم کی ہے وہ صحیح ہے۔
وہ لوگ مامون کے جواب میں کہنے لگے: اگرچہ اس نوجوان کی رفتاروگفتارنے تمہیں حیرت میں ڈال دیاہے اورتمہیں اپناگرویدہ بنالیاہے لیکن جوبھی ہو وہ ابھی بچے ہیں ان کے فہم ومعرفت کم ہے لہذاانہیں ابھی مہلت دوتاکہ دانشمندبنیںا ورعلم دین میں فقیہ بیں پھرجومرضی میں آئے کرنا۔
مامون کہنے لگا: وائے ہوتمہارے حال پرمیں اس جوان کوتم لوگوں سے زیادہ بہترجانتاہوں یہ جوان ایسے خاندان سے ہے جس کاعلم ودانش خداکی طرف سے ہے ان کاظریف لامحدودہے اورعلم والہامات ان کے اجدادسے ان تک منتقل ہواہے وہ علم وادب میں دوسروں کے محتاج نہیں ہیں حتی کہ دوسرے بھی حدکمال تک پہنچنے میں ان کے محتاج ہیں اگران کوآزماناچاہتے ہوتوآزمالولیکن یادرکھوکہ میں نے جوکچھ کہاہے سچ کہاہے اورمزیدمیری سچائی تم لوگوں پرظاہرہوجائے گی۔
ان لوگوں نے کہا: یہ تجویزاچھی ہے ہمیں خوشی ہوگی کہ ہم لوگ ان کوآزمائیں لہذاہمیں اجازت دوکہ ایسے کولائیں جومسائل فقہی اوراحکام اسلام ان سے پوچھ سکے اگرصحیح جوابات دیں توہمیںکوئی اعتراض نہ ہوگااوراس بچے کے بارے میں آپ کی دوراندیشی بھی معلوم ہوجائے گی اوراگروہ جواب دینے سے عاجز وناتواں رہے توپھرہماری گفتگومیں مصلحت اوربہتری ہوگی۔
مامون نے کہا: جہاں چاہوان کومیرے سامنے بلاکرامتحان لے لو۔ وہ لوگ مامون کے پاس سے چلے گئے اورآپس میں طے کیاکہ اس زمانے کابڑاقاضی یحیی بن اکثم کوراضی کیاجائے کہ وہ امام جواد سے ایسے سوالات کرے جس کے وہ جواب نہ دے سکیں لہذامعترضین یحیی بن اکثم کے پاس آئے اورا س کو بہت سارامال دینے کی خوش خبری دی تاکہ وہ امام جواد سے مناظرے پرراضی ہوجائے۔ دوسری طرف مامون کے پاس آئے اوراس سے کہاکہ مناظرے کادن متعین کرو۔مامون نے دن معین کردیا۔ چنانچہ اس دن تمام بزرگ علماء اورخودمامون اوریحیی بن اکثرم حاضرہوئے،ایک اسٹیج بنایاگیاجس پردوکشن لگائے گئے ۔امام(جن کی عمرا سوقت ٩سال سے کچھ ماہ زیادہ تھی) واردمجلس ہوئے اوران دوکشنوں کے درمیان بیٹھ گئے ۔یحیی بن اکثم بھی ان کے سامنے آکربیٹھ گیااوردوسرے افراداپنی اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ مامون بھی اپنی مخصوص جگہ پرامام جواد کے برابرمیں بیٹھا۔ یحیی بن اکثم،مامون سے مخاطب ہوا: کیااجازت ہے کہ حضرت جواد سے کچھ سوال کریں؟ مامون کہنے لگاکہ خودان سے اجازت لو۔ یحیی نے امام کی طرف رخ کرکے کہا: میں آپ کے قربان جاؤں اگراجازت ہوتوکچھ سوالات کروں؟ امام جواد: پوچھو۔ یحیی: وہ شخص جوحالت احرام میں شکارکرے اس کے بارے میں آپ کیاکہتے ہیں؟ امام جواد : اس نے یہ شکارحل(حرم سے باہرکی جگہ)میں کیایاحرم میں؟ مسئلہ جانتاتھا یانہیں؟عمداشکارکیایاخطاء سے؟آزادتھایاغلام؟شکاری چھوٹاتھا یا بڑا؟ پہلی دفعہ اس نے ایساکیایاپہلے بھی ایساکرچکاتھا؟وہ شکارپرندہ تھایاکوئی اورجانور؟وہ جانورچھوٹاتھایابڑا؟ وہ شخص اپنے اس کام پرنادم ہوایانہیں؟ دن مین شکار کیایارات میں؟احرام عمرہ کاتھایاحج کا؟ان میں سے کونسی صورت تھی؟کیونکہ ہرایک کاعلیحدہ علیحدہ حکم ہے۔ یحیی : ان سوالات کے سامنے دنگ ہوکررہ گیا،پشیمانی کے آثاراس کے چہرے سے ظاہرہونے لگے،اس کی زبان لڑکھڑانے لگی،اس طرح حاضرین اس کی یہ حالت ،امام جواد کے سامنے دیکھ کرمتحیرتھے۔ مامون نے کہا: میں خداکاشکرگزارہوں کہ جوکچھ میں نے سوچاتھاوہی ہوا۔ پھراپنے خاندان کے افرادکی طرف رخ کرکے کہا: اب مطمئن ہوگئے یانہیں؟تم لوگ میری بات نہیں مان رہے تھے اورتم لوگوں کی ساری باتیں بے جا تھیں اورپھرمامون نے اپنی بیٹی کی شادی امام جواد سے طے کردی(ترجمہ ارشادمفیدجلد٢ص٢٦٩)۔
٣٠
عراق کے فلسفی سے ایک مکالمہ
اسحاق کندی جوعراق کاایک دانشمند اورفلسفی شمارہوتاتھا
بسم اللہ الرحمن لرحیم
٣٠
عراق کے فلسفی سے ایک مکالمہ
اسحاق کندی جوعراق کاایک دانشمند اورفلسفی شمارہوتاتھا اورکفرکی زندگی بسرکررہاتھا۔ جب اس نے قرآن کامطالعہ کیاتودیکھاکہ قرآن کی بعض آیات دوسری بعض آیتوں سے سازگارنہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضدہیں تواس نے چاہاکہ قرآن میں جوتناقض ہے اس سلسلے میں ایک کتاب لکھے اوراس نے یہ کام شروع بھی کردیا۔اس کاایک شاگردامام حسن عسکری کے پاس آیااورکہنے لگاکیاآپ کے پاس کوئی ایساشخص ہے جواپنے استدلال سے میرے استاد کندی کواس کام سے روک سکے؟
امام نے فرمایامیںتمہیں کچھ باتیں بتاتاہوں اس کے سامنے جاکراسی طرح دھرانااس ترتیب سے کہ پہلے اس کے پاس جاکراس کے اس کام میں اس کی مدد کروجب اس سے زیادہ نزدیک ہوجاؤاوروہ تم سے مانوس ہونے لگے تواس سے کہوکہ میرے ذہن میں ایک سوال ہے جوآپ سے پوچھناچاہتاہوں،وہ کہے گاپوچھو،تم اس سے کہناکہ اگرقرآن کانازل کرنے والاتمہارے پاس آئے اورکہے کہ تم قرآن قرآن کے جومعنی سمجھ رہے ہووہ میری مرادنہیں بلکہ فلاں معانی مرادہے،تواستادکندی کہے گاہاں اس طرح کاامکان توہے،پھراس سے کہناکہ کیایہ ہوسکتاہے کہ خداکی ان آیات قرآنی سے مرادوہ معانی نہ ہوں جوآپ سمجھ رہے ہیں۔ شاگرداپنے استاد اسحاق کندی کے پاس گیاکچھ مدت اس کے ساتھ اس کتاب کی تالیف میں اس کی مددکی پھرامام کے حکم کے مطابق اس سے کہاممکن ہے خداکی مرادان آیات قرآنی سے وہ نہ ہوجوآپ سمجھ رہے ہیں۔استادنے کچھ دیرفکری کی اورکہاذرااپناسوال پھرسے دہرانا شاگرد نے دوبارہ سوال دہرایا،تواستادکہنے لگاہاں ممکن ہے کہ خدانے ان معنی ظاہری کے علاوہ کسی اورکاارادہ کیاہو۔
پھرشاگردسے کہنے لگایہ بات تمہیں کس نے سکھائی ہے؟شاگردکہنے لگاایسے ہی میرے دل میں بات آئی جومیں نے آپ سے پوچھ لی۔استاد کہنے لگااس قسم کابلندکلام تم سے بعیدہے اورتم ابھی ایسے بلندمقام تک نہیں پہنچے ہو۔شاگرد کہنے لگایہ بات امام حسن عسکری سے سنی ہے۔استادنے کہااب تم نے سچ کہا کیونکہ اس قسم کے مسائل سوائے اس خاندان کے کسی اورسے نہیں سنیں گئے پھراستادنے آگ منگوائی اورتمام وہ نسخے جواس طرح قرآن کے تناقضات میں لکھے تھے جلاڈالے(انوارالبہیہ ص٣٤٩)۔
علماء اسلام کے مناظرے ومکالمے
٣١
ایک شیعہ خاتون کاسبط بنی جوزی سے مکالمہ
سبط بن جوزی جواہل سنت کے بڑے عالم دین تھے اورانہوں نے متعددکتابیں تالیف کی تھیں مسجدبغدادمیں لوگوں کووعظ ونصیحت کیاکرتے تھے ایک دن انہوں نے سلونی قبل من تفقدونی کادعوی کردیا(جس کاامام علی کے علاوہ کوئی اہل نہیں ہے)اگرچہ اس وقت ان کے منبرکے اطراف میں بہت سے شیعہ وسنی مردوعورت جمع تھے ناگاہ ایک خاتون جومحبہ علی تھی اٹھی اورسوال کرلیاکہ کیایہ روایت صحیح ہے جونقل کی جاتی ہے کہ عثمان کوبعض مسلمانوں نے قتل کیا اوران کاجنازہ تین دن تک پڑارہاکوئی بھی نہیں گیاکہ ان کے جنازے کواٹھاکردفن کردے۔
سبط: ہاں یہ روایت صحیح ہے۔
خاتون: کیایہ روایت بھی صحیح ہے کہ جب سلمان کاانتقال مدائین میں ہواتوحضرت علی مدینے (یاکوفے)سے مدائن گئے اوراورسلمان کوغسل وکفن دے کردفن کیااورپھرلوٹ آئے؟
سبط :ہاں یہ روایت بھی صحیح ہے۔
خاتون: توحضرت علی جوعثمان کے قتل کے وقت مدینہ میں تھے کیوں نہیں گئے تاکہ انہیں غسل وکفن دے کردفن کرتے تواس صورت میں یاتوعلی خطاکارہیں کہ وہ عثمان کے جنازے میں نہیںگئے یاعثمان مؤمن نہیں تھے کہ حضرت علی ان کے غسل وکفن ودفن سے دوررہے یہاں تک کہ تین دن کے بعد یہودیوں کے قبرستان میں ان کوخفیہ طورپردفن کیاگیا(طبری جلد٩ص١٤٣)۔
سبط بن جوزی سوچنے لگے کہ کیاجواب دیں کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ کسی ایک کوبھی خطاکارقراردیاتوگویااپنے عقیدے کے خلاف کہاکیونکہ وہ دونوں کوخلیفہ برحق مانتے تھے لہذاکہنے لگے: اے خاتون اگراپنے شوہرکی اجازت سے باہرآئی ہواورنامحرموں کے درمیان مجھ سے گفتگوکررہی ہوتوخداکی لعنت ہوتمہارے شوہرپر۔اگربغیراجازت کے آئی ہوتوخداکی لعنت ہوتم پر۔
وہ خاتون برجستہ بولی: عائشہ جوجنگ جمل میںحضرت علی کے سامنے آئی تھیں کیااپنے شوہررسول خدا سے اجازت لے کرآئی تھیں یابغیراجازت کے آئی تھیں؟
سبط بن جوزی خاتون کے اس سوال کے سامنے بھی کچھ نہ کہہ سکے کیونکہ اگرکہتے عائشہ بغیراجازت سے آئی تھیں توعائشہ کوخطاکارقراردیتے ہیں اوراگر کہتے ہیں کہ اجازت لے کرآئی تھیں توحضرت علی کوخطاکارقراردیتے ہیں یہ دونوں باتیں ان کے عقیدے کے مخالف تھیں۔لہذاشرمندگی کے عالم میں منبرسے نیچے اترے اورسیدھے اپنے گھرکوچلے گئے(بحارجلد٨قدیم ص١٨٣)۔
٣٢
ایک ڈھیلاتین اشکالوں کاجواب
بہلول بن عمروکوفی جوانتہائی تیزوہوشیارقسم کے انسان تھے انہوں نے امام صادق وامام کاظم کازمانہ دیکھاتھا اورخودامام کے سچے پیروکاروں میں سے تھے انہوں نے صرف اس ارادے سے کہ ہارون رشیدان کوقاضی نہ بنائے اپنے آپ کودیوانہ بنالیاتھا وہ اہل مناظرہ تھے اوردقیق وعمیق استدلالات کے ذریعہ مخالفین کے انحرافی عقائد کوآشکارکیاکرتے تھے ان کاایک مناظرہ یہ تھاکہ انہوں نے سناکہ ابوحنیفہ(رئیس مذہب حنفی)نے اپنے درس میں کہاکہ امام صادق نے تین ایسی باتیں کہی ہیں جن میں سے ایک کوبھی نہیں مانتاوہ تین باتیں یہ ہیں:
اول: کہ شیطان کوآگ کے ذریعے عذاب دیاجائے گا،یہ بات ان کی صحیح نہیں ہے کیونکہ شیطان جوآگ سے بناہے کیونکرآگ اسے اذیت دے گی؟ِ
دوم: خداکودیکھانہیں جاسکتاجب کہ ہرموجودچیزدیکھنے کے قابل ہے؟
سوم: لوگ جوبھی کام کرتے ہیں خوداپنے ارادے سے کرتے ہیں جب کہ آیات وروایات اس کے مخالف ہیں وہ بندوں کے کاموں کوخداسے نسبت دیتی ہیں لہذاہم اپنے کاموں میں مجبورہیں نہ کہ مختارہیں۔
بہلول نے ایک ڈھیلااٹھاکرابوحنیفہ کی پیشانی پردے مارا،ابوحنیفہ نے ہارون کے پاس بہلول کی شکایت کی ہارون نے حکم دیا کہ بہلول کوحاضر کیا جائے ،لہذاان کوحاضرکیاگیااس مجلس میں بہلول نے ابوحنیفہ سے کہا:
١۔پہلے مجھے درددکھاؤاگرنہ دکھاسکے تواپنے اس عقیدے کے پیش نظرجوکہتے ہوکہ ہرموجودچیزکودکھائی دیناچاہئے،یہ نظریہ غلط ہوجاے گا۔
٢۔تم کہتے ہوکہ ایک جنس کی دوچیزیں ایک دوسرے کونقصان نہیں پہنچاسکتیں لہذاتم بھی مٹی سے پیداکے گئے ہوتوپھراس مٹی کے ڈھیلے سے تم کواذیت نہیں ہونی چاہئے۔
٣۔میں نے کوئی گناہ نہیں کیاکیونکہ خودتمہارے عقیدے کے مطابق بندہ جوکام کرے اس کافاعل خداہے۔لہذاخدانے تمہیں ماراہے میں نے نہیں ماراہے۔
ابوحنیفہ خاموش رہے اورشرمندہ ہوکراس مجلس سے اٹھ کرچلے گئے کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ بہلول کی یہ ایک ضرب میرے غلط عقیدوں کاجواب ہے(مجالس المومنین جلد٤١٩وبہجةالآمال ج٢ص٤٣٦)۔
٣٣
ہارون کے وزیرکوبہلول کاجواب
ایک دن وزیرنے ہارون رشیدکے دربارمیں بہلول سے کہا:تمہاری قسمت کتنی اچھی ہے کہ خلیفہ نے تمہیں کتوں اورسوروں کابادشاہ بنایاہے۔ بہلول نے بے دھڑک کہا:اب تمہیں اس بات کاعلم ہوگیاہے تواب تم میری اطاعت سے ہرگزمنہ نہ موڑنا۔اس طرح سے بہلول نے وزیرکوکتوں اورسوروں سے تشبیہ دی۔ حاضرین ،بہلول کی یہ بات سن کر ہنسنے لگے اوروزیرشرمندہ ہوگیا(بہجہ الآمال ج٢ص٤٣٧)۔
٣٤
ایک شیعہ کاجبرکے قائل استادسے مکالمہ
ایک دن ضراربن صبی جواہل تسنن کے بڑے عالم دین اوراہل جبرکے رئیس تھے،یحیی بن خالدجوہارون رشیدکاوزیرتھا،کے پاس آئے کچھ گفتگوکرنے کے بعد کہنے لگے:میں بحث ومناظرے کے لئے تیارہوں جس کوچاہولے آؤ۔
یحیی: کیاتم راضی ہوکہ ایک شیعہ سے مناظرہ کرو؟
ضرار: ہاں ہرشخص سے مناظرہ کرنے پرراضی ہوں۔
یحیی نے ہشام بن حکم(جوامام جعفرصادق )کے شاگردتھے ان کوپیغام بھیج کربلوایااورمناظرے کے لئے جگہ بھی تعین ہوگئی اوراس طرح مناظرہ شروع ہوا۔
ہشام :مسئلہ امامت میں کسی شخص کی صلاحیت رہبری کوظاہرسے سمجھاجاسکتاہے یاباطن سے؟
ضرار: ہم ظاہرسے سمجھتے ہیں کیونکہ لوگوں کے باطن کاعلم حاصل کرناسوائے عالم الغیب کے کسی کوممکن نہیں ہے۔
ہشام: تم نے صحیح کہا۔اب ذرامجھے بتاؤکس نے ظاہرمیں شمشیراٹھاکررسول خداکادفاع کیا،حضرت علی نے یاابوبکرنے؟ کون ایثاروفداکاری کرتے ہوئے میدانوں میں جاتے اوررسول سے دشمنی وکینہ رکھنے والے دشمنوں کوتہہ تیغ کردیتے تھے اورجنگوں میں مسلمانوں میں سب سے اچھاکردارکس کارہا؟
ضرار:علی نے کئی جہادکئے لیکن معنوی(باطنی)لحاظ سے ابوبکرزیادہ منزلت ومقام رکھتے تھے۔
ہشام: تم نے ابھی ابھی خوداپنے عقیدے ظاہری میں ظاہرکالحاظ رکھتے ہوئے حضرت علی کومنزل جہادمیں رہبری کے لئے لائق ہونے کااقرارکرچکے ہواور اب مسئلہ باطنی کودرمیان میں لارہے ہو۔
ضرار: ظاہری لحاظ سے ہاں۔
ہشام: اگرکسی کاظاہروباطن دونوں کاپاک ہونامعلوم ہوجائے توکیااپنے صاحب کی برتری پردلالت نہیں کرے گا؟
ضرار: بیشک اپنے صاحب کی برتری پردلالت کرے گا۔
ہشام: کیاتمہیں معلوم ہے کہ پیغمبر اکرمۖ کی یہ حدیث جوحضرت علی کے بارے میں ہے اورتمام اسلامی گروہوں کے نزدیک مسلم وقابل قبول ہے،جو آپ نے فرمایا: انت منی بمنزلة ہارون من موسی الاانہ لانبی بعدی یعنی اے علی! تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جوہارون کوموسی سے تھی مگریہ کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوگا۔
ضرار: ہاں اس حدیث کومانتاہوں(اس بات کوذہن نشین کرتے ہوئے کہ ضرارنے پہلے حقانیت باطن کوجاننے کاذریعہ وحی الہی کوقراردیاتھا اورپیغمبراکرمۖ کی باتوں کووحی کاسرچشمہ مانتے ہیں)۔
ہشام: کیاممکن ہے کہ پیغمبراکرمۖ علی کی اس طرح سے تعریف کریں فقط ظاہرکالحاظ کرتے ہوئے جب کہ پیغمبراکرمۖ کے نزدیک علی کاباطن واضح نہ ہو؟
ضرار: نہیں یہ ہرگزممکن نہیں کیونکہ علی ظاہرکے ساتھ باطنی لحاظ سے بھی اس تعریف کے حقدارتھے اورپیغمبراکرمۖ نے بھی اس چیزکومدنظررکھتے ہوئے تعریف کی۔
ہشام : پس اپنے بیان کی بناپراعتراف کرتے ہوکہ علی ظاہری وباطنی دونوں لحاظ سے برتری رکھتے تھے اسی وجہ سے وہ مقام امامت وامت کی رہبری کے سلسلے میں دوسروں سے زیادہ حقدارتھے(فصول المختارسیدمرتضی جلداول ص٩وساموس الرجال ج٩ص٣٤٢)۔
٣٥
فضال کاابوحنیفہ سے مکالمہ
امام جعفرصادق کے زمانے میں مذہب حنفی کے سربراہ ابوحنیفہ مسجدکوفہ میں اپنے شاگردوں کودرس دے رہے تھے کہ امام صادق کے ایک ہوشیارشاگرد اپنے کسی دوست کے ساتھ گھومتے ہوئے وہاں پہنچے ۔دیکھاکہ ابوحنیفہ کے گردکچھ لوگ حلقہ کئے بیٹھے ہیں اوروہ ان کودرس دینے میں مصروف ہیں۔فضال اپنے دوست سے کہنے لگے: میں اس وقت تک اس جگہ سے نہیں جاؤں گاجب تک ابوحنیفہ کواس بات پرآمادہ نہ کرلوں کہ وہ مذہب شیعہ اختیارکرلیں۔
اس ارادے سے وہ ابوحنیفہ کے درس میں جاکران کے شاگردوں کے ہمراہ بیٹھ گئے اوراس طرح ابوحنیفہ سے سوالات کاسلسلہ شروع کیا:
فضال: اے سربراہ مذہب ،میراایک چھوٹابھائی ہے جولیکن مذہب شیعہ کاپیروکارہے میں نے کئی دلیلیں ابوبکرکی علی پرفضیلت رکھنے پردیں تاکہ اسے اپنے مذہب تسنن کی طرف لے آؤں لیکن وہ میرے تمام دلائل کوردکردیتاہے لہذااب میں آپ سے گزارش کرتاہوں کہ کوئی دلیل محکم ابوبکروعمرکی علی پربرتری کے بارے میں بتائیں تاکہ اپنے بھائی کوبتاکرقائل کرسکوں۔
ابوحنیفہ: جاؤاپنے بھائی سے جاکرپوچھوکہ تم کیوں کرعلی کوابوبکروعمر پرمقدم کرتے ہوجب کہ تمہیں معلوم ہے کہ ابوبکروعمر،پیغمبرکے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور پیغمبراکرم،علی کوجنگوں پرروانہ کیاکرتے تھے یہ خوداس بات پردلیل ہے کہ پیغمبران دنوں کوزیادہ چاہتے تھے اس لئے ان کی جان کی حفاظت کے طورپران کواپنے پاس رکھتے تھے۔
فضال: اتفاقا یہی سوال میں نے اپنے بھائی سے کیاتھا مگراس نے جواب دیاکہ علی قرآن کے مطابق دشمنوں سے جہادوجنگ کی خاطردوسروں پڑبرتری رکھتے ہیں کیونکہ قرآن کہتاہے :وفضل اللہ المجاھدین علی القائدین اجراعظیما(سورہ نسائ٩٥)خداوندعالم مجاہدین کوقائدین(بیٹھنے والوں)پرفضیلت وبرتری عطاکرنے والاہے۔
ابوحنیفہ : اپنے بھائی سے پوچھنا کہ وہ کیونکرعلی کوابوبکروعمرپربرتری دیتاہے جب کہ یہ دونوں قبرپیغمبرکے کنارے دفن ہیں جب کہ علی کی قبرپیغمبرۖ کی قبرسے میلوں دورہے یہ افتخاران کی برتری کے لئے کافی ہے۔
فضال: اتفاقا یہی دلیل میں نے اپنے بھائی کودی تھی مگراس نے جواب میں قرآن کی یہ آیت پڑھی:لاتدخلوبیوت النبی الاان یوذن لکم(سورہ احزاب آیت٥٣)۔ یعنی نبی کی اجازت کے بغیران کے گھرمیں داخل نہ ہو،اوریہ بات روشن ہے کہ پیغمبرکی قبران کے شخصی گھرمیں ہے اورقطعا نبی نے انہیں اجازت نہیں دی تھی اوراسی طرح ان کے وارثین نے بھی اجازت نہیں دی تھی۔
ابوحنیفہ: اپنے بھائی سے کہوکہ عائشہ وحفصہ نے اپنے مہریہ کے طورپراپنے شوہرپیغمبراکرمۖ سے وہ زمین طلب کی تھی اوران میں سے ہرایک نے وہ زمین اپنے باپ کوبخش دی تھی۔
فضال: اتفاقا میں نے بھی یہی جواب اپنے بھائی کودیاتھا مگراس نے مجھ سے کہاکہ کیاتم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی،جس میں خداوندعالم اپنے پیغمبر سے ارشادفرماتاہے: یاایھاالنبی انااحللناازواجک التی آتیت اجورھن(سورہ احزاب آیت٤٩)یعنی اے نبی ہم نے تمہاری بیویوں کوتم پرحلال کردیاہے جن کاتم مہردے چکے ہو۔لہذاپیغمبراکرم اپنے زمانہ حیات ہی میں ان کامہراداکرچکے تھے۔
ابوحنیفہ : تم اپنے بھائی سے کہوکہ عائشہ وحفصہ جوابوبکروعمرکی بیٹیاں اپنے حصے کاارث اس گھرسے لیاتھا اوراس کواپنے اپنے والدکوبخشاتھا اس بناپران لوگوں کے جنازے وہاں دفن کئے گئے۔
فضال: اتفاقایہ دلیل بھی میں نے اپنے بھائی کودی تھی مگروہ جواب میں کہتاہے کہ تم برادران اہل سنت اس بات کے معتقدہوکہ پیغمبر اسلام اپنے ورثہ کے لئے کوئی چیزارث میں چھوڑکرنہیں گئے اسی لئے باغ فدک کوحضرت زہرا سے لے لیااوراگرتمہاری بات قبول کرلیں کہ پیغمبراکرم نے میراث چھوڑی ہے توپیغمبر اکرم کی رحلت کے وقت آپ کی نوزوجہ تھیں سب کاآٹھواں حصہ ہوگااوراگراس گھرکی زمین کاآٹھواں حصہ نوافرادمیں تقسیم کریں توہرایک کے حصے میں ایک بالشت زمین آئے گی نہ کہ ایک انسان کی طول وقامت کے برابر۔
ابوحنیفہ یہ جواب بھی سن کردنگ ہوکررہ گئے اورغصہ کے عالم میں اپنے بھائیوں سے کہا: اخرجوہ فانہ رافضی ولااخ لہ یعنی اس کومسجدسے نکال دویہ خودرافضی ہے(یعنی شیعہ ہے)اس کاکوئی بھائی وائی نہیں ہے(خزائن نراقی ص١٠٩)۔
٣٦
ایک دلیرخاتون حجاج کے دربارمیں
حجاج بن یوسف ثقفی جوتاریخ انسانیت میں ظالم ترین شخص گزراہے جب پانچویں اموی خلیفہ عبدالملک کی طرف سے عراق کاسربراہ منتخب ہواتواس نے بہت سے شیعہ بزرگان۔کمیل قنبراورسعیدبن جبیرجیسے افرا۔کوقتل کیاان سب شیعوں سے دشمنی کانتیجہ اس کابغض علی تھا۔ایک دن ایک خاتون جوشجاعت وصلاحیت سے بھرپورتھی حرہ کے نام سے مشہورتھی اورحضرت حلیمہ سعیدہ(جنہوں نے رسول خداکودودھ پلایاتھا)کی رشتہ دارتھی اوران کی بیٹی کے عنوان سے لوگ انہیں پہچانتے تھے وہ حضرت علی کے طرفداروں میں سے تھیں اورکافی دلیرخاتون تھی ان کی اچانک حجاج سے ملاقات ہوئی۔
حجاج نے سوال کیاتم حلیمہ سعدیہ کی بیٹی ہو؟
حرہ: فراسہ من غیرمومن اگرچہ اس کالفظی ترجمہ یہ ہے کہ یہ ایک غیرمومن کی ہوشیاری ہے(اوراس بات کاکنایہ ہے کہ ہاں میں حرہ ہوں لیکن یہ کہ تم جیسے بے ایمان فردنے مجھے پہچان لیایہ تمہاری ہوشیاری کی دلیل ہے)۔
حجاج: خداتم کویہاں لایاتاکہ تم میرے دام میں پھنس جاؤمیں نے سناہے کہ تم علی کوابوبکراورعمردونوں پربرتری دیتی ہو۔
حرہ: یہ بات جس نے تم سے نقل کی ہے جھوٹ کہاہے اس لئے کہ میں علی کوہرگزان جیسوں سے مقائسہ نہیں کرتی بلکہ میں علی کوپیغمبروں مثلا آدم،نوح،لوط، ابراہیم،موسی،داؤد،سلیمان،عیسی علیہم السلام سے بھی بالاترسمجھتی ہوں۔
حجاج: وائے ہوتم پرکہ تم علی کوصحابہ کے علاوہ ان آٹھ پیغمبرجن میں اولوالعزم بھی ہیں ان پربھی برترجانتی ہو؟اگرتم اپنے اس دعوی پردلیل نہ لاسکیں توگردن اڑادوں گا۔
حرہ: یہ میں نہیں ہوں جوعلی کوپیغمبران سے برترجانتی ہوں بلکہ خداوندعالم نے خودقرآن میں علی کوان سب پرفوقیت بخشی ہے کیونکہ قرآن حضرت آدم کے بارے میں فرماتاہے: وعصی آدم ربہ فغوی(سورہ طہ آیت ١٢١)یعنی آدم نے اپنے پروردگارکی نافرمانی کرکے اس کی عطاسے محروم ہوگئے جب کہ قرآن حضرت علی وان کی زوجہ ودوفرزندوں کے بارے میں فرماتاہے : سعیکم مشکورا(سورہ انسان آیت٢٢)یعنی آپ لوگوں کی سعی وکوشش قدردانی کے قابل ہے۔
حجاج:اے حرہ تم کوشاباش ہوااچھایہ توبتاؤکہ حضرت علی کونوح ولوط پرکیونکربرتری دیتی ہو؟
حرہ: خدانے علی کوان دونوں پربرترجاناہے کیونکہ خداان دونوں کے بارے میں فرماتاہے : ضرب اللہ مثلاللذین کفرواامرائة نوح وامرائة لوط کانتا تحت عبدین من عبادناصالحین فخانتاھمافلم یغنیامن اللہ شیئا وقیل ادخلاالنارمع الداخلین(سورہ تحریم آیت١٠)یعنی خدانے کافروں کی عبرت کے لئے نوح کی بیوی (واعلہ)اورلوط کی بیوی(واہلہ)کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں کی بیویاں تھیں ان دونوں نے اپنے شوہروں سے دغاکی(گویاان کے شوہر)خداکے مقابل میں ان کے کچھ کام نہ آئے اوران دونوں عورتوں کوحکم دیاگیاکہ تم دونوں جہنم میں جانے والوں کے ساتھ چلی جاؤ، جب کہ حضرت علی کی زوجہ دخترپیغمبرفاطمہ تھیں جن کی خوشنودی خداکی خوشنودی تھی اورجن کی ناراضگی خداکی ناراضگی تھی۔
حجاج: سبحان اللہ حرہ!اب ذرایہ بتاؤکہ حضرت علی کوحضرت ابراہیم پرکیونکربرتری دیتی ہو۔
حرہ:کیونکہ قرآن حضرت ابراہیم کے بارے میں ارشادفرماتاہے: رب ارنی کیف تحیی الموتی قال اولم تومن قال بلی ولکن لیطمئن قلبی(سورہ بقرہ آیت٢٦٠)یعنی خدایاذرامجھے دکھاکہ مردوں کوکس طرح زندہ کرتاہے،خدانے کہاکیاتم ایمان نہیں لائے؟ ابراہیم نے کہاکیوں نہیں صرف قلبی اطمینان کے لئے چاہتاہوں،لیکن میرامولاعلی یقین کی اس منزل تک پہنچاہواتھا آپ کاارشادگرامی ہے: لوکشف الغطاء ماازددت یقینا یعنی تمام پردے بھی اٹھالیے جائیں تومیرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔اس قسم کی بات کسی نے آج تک نہیں کی اورنہ کہہ سکتاہے۔
حجاج: اچھاعلی کوموسی پرکس دلیل کے پیش نظربرتری دیتی ہو؟
حرہ: خداوندعالم حضرت موسی کے بارے میں فرماتاہے: مخرج منھاخائفایترقب(سورہ قصص آیت٢١)یعنی موسی فرعونیوں کے خوف سے شہرسے باہر چلے گئے،لیکن میرامولاعلی شب ہجرت بستررسول پرآرام کی نیندسوکرشجاعت وایثارکے لحاظ سے اس آیت کامصداق قرارپایا: ومن یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ(سورہ بقرہ آیت٣٠٧)یعنی لوگوں میں بعض ایسے ہیں جواپنی فداکاری کے سبب اپنی جان کومرضی خداکے سامنے بیچ دیتے ہیں۔
حجاج: حضرت داؤدپرحضرت علی کوکیونکربرتری دیتی ہو؟
حرہ: اس لئے کہ خداوندعالم حضرت داؤدکے لئے ارشادفرماتاہے:
یاداؤداناجعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولاتتبع الہوی فیضلک عن سبیل اللہ(سورہ ص آیت٢٦)یعنی اے داؤدہم نے تمہیں زمین مین اپنانائب بنایاہے تم لوگوں کے درمیان صحیح فیصلہ دیاکرواورنفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرناورنہ یہ پیروی تمہیں خداکی راہ سے بہکادے گی۔
حجاج: حضرت داؤدکی قضاوت کس مسئلے میں تھی۔
حرہ: دوافرادکے مسئلے میں تھی جن میں سے ایک کسان تھا،دوسرا چرواہا،چرواہے کے بھیڑکسان کے باغ میں چلے گئے اوروہاں جاکراس کی زراعت کوتباہ کردیا،یہ دونوں افرادحضرت داؤدکے پاس فیصلے کے لئے آئے،دونوں نے اپنامسئلہ حضرت داؤدکے سامنے بیان کیا،حضرت داؤدنے فیصلہ دیاکہ چرواہا اپنے بھیڑبینچ کرکسان کواس کاخسارادے۔ کسان اس پیسے کولے کرباغ کودوبارہ سے تروتازہ بنائے۔ حضرت سلیمان جوحضرت داؤدکے بیٹے تھے اپنے باپ سے کہنے لگے: بابابلکہ ان جانوروں کادودھ اورپشم بھی اس کسان کودیاجائے۔اس طرح کسان کے خسارہ کاجبران کیاجاسکتاہے۔ خداوندعالم قرآن میں فرماتاہے :ففھمناسلیمان(سورہ انبیاء آیت٧٩)یعنی ہم نے حکم واقعی سے سلیمان کوسمجھایا،لیکن میرامولافرمایاکرتاتھا: سلونی قبل ان تفقدونی یعنی مجھ سے پوچھوقبل اس کے تم مجھے اپنے درمیان نہ پاؤ۔تورات والوں کوتورات سے انجیل والوں کوانجیل سے،زبوروالوں کوزبورسے،اورقرآن والوں کو قرآن قرآن سے جواب دوں گا۔ جیساکہ حضرت علی جب جنگ خیبرکی فتح کے بعدنبی اکرم کے پاس گئے آپ نے حاضرین سے فرمایا: افضلکم واعلمکم واقضاکم علی یعنی علی تم سب سے افضل،تم سب سے زیادہ علم کامالک،تم سب سے اچھافیصلہ کرنے والاہے۔
حجاج: اے حرہ تم پرآفرین ہو!اچھایہ توبتاؤکہ حضرت علی کوحضرت سلیمان پرکیونکربرتری دیتی ہو؟
حرہ : خداوندعالم قرآن مجیدمیں حضرت سلیمان کی زبانی نقل کرتاہے:
رب اغفرلی وھب لی ملکالاینبغی لاحدمن بعدی(سورہ ص آیت٣٥)یعنی سلیمان فرماتے ہیں کہ اے میرے پروردگارمجھے بخش دے اورمجھے ایسی حکومت عطاکرجس کامیرے بعدکوئی سزاوارنہ ہواوردوسری طرف میرے مولاعلی دنیاکے بارے میں فرماتے ہیں :طلقت یادنیاثلاثالاحاجة لی فیک یعنی اے دنیا تجھے میں نے تین دفعہ طلاق دی جس کے بعدرجوع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اس وقت خداوندعالم نے یہ آیت نازل کی: تلک الدار الآخرة نجعلھاللذین لایریدون علوافی الارض ولافساداوالعاقبة للمتقین(سورہ قصص آیت ٨٣)یعنی آخرت کاگھرتوہم انہیں لوگوں کے لئے خاص کردیںگے جوروئے زمین پرنہ سرکشی کرناچاہتے ہیں اورنہ فساداورپھرنیک انجام توپرہیزگاروں ہی کاہے۔
حجاج: اچھاحضرت علی کوحضرت عیسی پرکیونکرفضیلت دیتی ہو؟
حرہ: کیونکہ خداوندعالم قرآن میں حضرت عیسی سے فرماتاہے:
واذقال اللہ یاعیسی بن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ قال سبحانک مایکون لی ان اقول مالیس لی بحق ان کنت قلتہ علمتہ تعلم مافی نفسی ولااعلم مافی نفسک انک انت علام الغیوب ماقلت لھم الاماامرتنی بہ(سورہ مائدہ آیت ١١٦،١١٧)۔
اوروہ وقت بھی یادکرو جب قیامت کے دن عیسی سے خدافرمائے گاکہ اے مریم کے بیٹے عیسی کیاتم نے لوگوں سے یہ کہہ دیاتھا کہ خداکوچھوڑکرمجھ کواورمیری ماں کوخدابنالو؟ عیسی عرض کریں گے توبلندوبالاہے میری کیامجال جومیں یوں کہوں جس کامجھے کوئی حق نہیں ہے اوراگرمیں نے کہاہوگاتوتجھ کوتوضرور معلوم ہوگیاکیوں کہ تومیرے دل کی سب باتیں جانتاہے۔ ہاں البتہ میں تیرے دل کی بات نہیں جانتاکیوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ توہی غیب کی باتیں خوب جانتاہے۔
لہذاعیسی کی پرستش کرنے والوں کاعذاب اس ترتیب سے قیامت تک موخرہوگیاجب کہ میرے مولاعلی کوجب فرقہ نصیریہ غلوکرنے والے گروہ نے خدا جاناتوعلی نے ان کوان کی اس بات پرقتل کرکے ان کے عذاب کوقیامت تک بھی تاخیرنہیں ہونے دیا۔
حجاج: حرہ تجھے صدآفرین ہوکہ جودعوی کیاتھااس پرپوری اتری اوراگرتم یہ جوابات نہ دے پاتیں تومیں تمہاری گردن ضروراڑادیتا۔پھرحجاج نے حرہ کوانعامات دے کربڑی عزت کے ساتھ رخصت کیا(فضائل ابن شاذان ص ١٢٢۔بحارالانوارج٤ص١٣٦)۔
٣٧ ابوالہذیل سے مکالمہ ابوالہذیل عراق کااہل سنت کامعروف عالم دین(مکالمہ ٤٦میں اس کی گفتگومزیدآئے گی)ایک سفرکے دوران جب سورہ کے ایک شہررقہ میں پہنچاتواس نے سناکہ یہاں ایک دیوانہ(اگرچہ ایک صحیح وسالم دانشمندمگرتقیتا اپنے کودیوانہ نمابنایاہواتھا)ہے لیکن ہے بڑاخوش کلام ۔ابوالہذیل اس سے ملنے اس کے گھر گیا،دیکھاایک بوڑھاشخص ہے مگربڑے جمال اورخوش قامت اپنی جگہ پربیٹھااپنے بالوں کوکنگھاکررہاہے۔ہذیل نے اس کوسلام کیااس نے جواب دیا اوراس ناشناس اورابوالہذیل کے درمیان اس طرح گفتگوشروع ہوئی : اجنبی دانشمند: کہاںکے رہنے والے ہو؟ ابوالہذیل :اہل عراق ہوں۔ اجنبی دانشمند:تواہل تجربہ واہل ہنرہوںگے۔ذرایہ بتاؤعراق میں کس جگہ رہتے ہو؟ ابوالہذیل :بصرہ میں۔ اجنبی دانشمند: پھرتواہل علم واہل تجربہ ہوںگے۔ تمہاراکیانام ہے؟ ابوالہذیل: میںابوالہذیل علاف ہوں۔ اجنبی دانشمند: اوہ!مشہورمتکلم۔ ابوالہذیل:جی ہاں۔ اجنبی دانشمند اپنی جگہ سے اٹھے اورابوالہذیل کواپنے برابرمیںبٹھایاگفتگوکے بعداس سے کہا: امامت کے بارے میں تمہاراکیانظریہ ہے؟ ابوالہذیل: آپ کی مرادکونسی امامت ہے؟ اجنبی دانشمند: میرامقصدیہ ہے کہ رحلت پیغمبرۖ کے بعدبعنوان جانشین پیغمبرتم کس کومقدم جانتے ہو؟ ابوالہذیل :اسی کوجس کوپیغمبرنے مقدم کیاہے۔ اجنبی دانشمند: وہ کون ہے؟ ابوالہذیل: وہ ابوبکر ہیں۔ اجنبی دانشمند: ان کوکس پرمقدم جانتے ہو؟ ابوالہذیل: کیونکہ رسول خدا کافرمان ہے کہ تم میں جوسب سے بہترین وبرترفردہے اس کومقدم رکھواوراپنارہبرقراردو۔لہذاتمام لوگ ابوبکر کے مقدم ہونے پرراضی تھے۔ اجنبی دانشمند: اے ابوالہذیل! یہاں پرتم نے غلطی کی ہے اوریہ جوتم نے رسول خداکا فرمان ابوبکرکی حمایت میںذکرکیااس پرمیرااعتراض یہ ہے کہ ابوبکر نے خودمنبرپرجاکرکہاتھاکہ: ولیتکم ولست بخیرکم یعنی اگرچہ میں نے تم لوگوں کی رہبری لی ہے مگرتم میں بہترین شخص نہیں ہوں(العقدالغدیر ج٢ص٣٤٧)۔ لہذااگرلوگوں نے ابوبکرکے جھوٹ کوبھی برترجانتے ہوئے اپنارہبربنایاہے توخودرسول خداکے فرمان کی مخالفت کی ہے اوراگرخودابوبکرنے جھوٹ بولاہے یہ کہہ کرکہ میں تمہارے درمیان کوئی برتری نہیں رکھتاتویہ صحیح نہیں ہے کہ ایسے جھوٹ بولنے والے افرادمنبررسول ۖ پرجائیں اوریہ جوتم نے کہاکہ تمام لوگ ابوبکر کی رہبری پرراضی تھے یہ تم نے کس طرح کہاجب کہ انصارمیں سے اکثرافرادجومدینہ میں تھے کہتے تھے مناامیرومنکم امیر یعنی ایک سربراہ ہم انصار میں سے ہواورایک سربراہ تم مہاجرین میںسے،اورجب مہاجرین میں سے زبیرنے کہاکہ میں علی کے علاوہ کسی کے ہاتھ پربیعت نہیں کروں گاتواس کی شمشیرکوتوڑدیاگیا۔ابوسفیان حضرت علی کے پاس آیااورکہنے لگااگرآپ چاہتے ہیں توہم آپ کے ہاتھ پربیعت کرنے کوتیارہیں اس طرح ابوبکر کی بیعت کے وقت اختلاف کاہونااس بات کی دلیل ہے کہ سب ابوبکرکی رہبری پربھی راضی نہیں تھے۔ اے ہذیل اب میں تم سے کچھ سوال پوچھناچاہتاہوں لہذاان سوالوں کے ذرامجھے جواب دو۔ سوال ١: کیاایسانہیں ہے کہ ابوبکرنے منبرپرجاکریوں کہاہو: ان لی شیطانایعترینی فاذارایتمونی مفضا فاحذرونی یعنی بے شک میرے وجودمیں شیطان ہے جومجھے غافل گیرکئے رہتاہے لہذاجب بھی مجھے غصہ میں پانامجھ سے دورہوجانالہذااس بناپرتم لوگ کیوں کراسے رہبرمانتے ہو؟ سوال ٢: ذرامجھے یہ بتاؤکہ اگرتم خودمعتقدہوکہ پیغمبرۖ نے کسی کواپناجانشین نہیں بنایا،لیکن ابوبکرنے عمرکواپناجانشین بنایااورعمرنے کسی کوجانشین نہیں بنایا ان لوگوں کے کردارمیں کیاتناقض ہے،اس کاجواب کیاہے؟ سوال ٣: مجھے ذرایہ بتاؤکہ عمرنے جب اپنی بعدوالی خلافت میں چھ افراد کی شوری بنائی اورکہایہ سب اہلبیت ہیں توبعدمیں یہ کیوں کہاگیاکہ اگران میں سے دو افرادچارافرادکی مخالفت کریں توان دوافرادکوقتل کردینااوراگرتین افراددوسرے تین افرادکی مخالفت کریں توان میں اگرعبدالرحمن بن عوف ہے توان کوقتل کردینا،کیااس قسم کاحکم دیناان کی دیانت پردلالت کرتاہے کہ اہل بہشت کے قتل کافتوی دیں؟ سوال ٤: اے ابوالہذیل !تم ابن عباس وعمرکی ملاقات اوران کی گفتگوکے بارے میں کیاسمجھتے اورکیاکہتے ہو۔جب عمرابن خطاب ٹھوکرکھانے کی وجہ سے شدید بیمارہوگیااورعبداللہ ابن عباس ان کے پاس گئے تودیکھابڑے بیتاب ہیں،پوچھاکیوں بیتاب ہو؟ کہنے لگے میری یہ پیشانی اپنے لئے نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ میرے بعدکون مقام رہبری کوسنبھالے گا۔ پھران کے اورابن عباس کے درمیان یہ گفتگوہوئی: ابن عباس: طلحہ بن عبداللہ کورہبربنادو۔ عمر: وہ بڑاخودغرض انسان ہے پیغمبراکرم اسے اس حوالے سے پہچانتے تھے،میں ایسے شخص کوہرگزرہبری نہیں دوں گا۔ ابن عباس: زبیربن عوام کولوگوں کارہبربنادو۔ عمر: وہ ایک بخیل انسان ہے میں مسلمین کی رہبری ایسے بخیل شخص کوہرگزنہیں دوں گا۔ ابن عباس: سعدابن ابی وقاص کولوگوں کارہبربنادو۔ عمر: سعدکاشمشیروگھوڑے سے سروکارہے یعنی فوجی آدمی ہے ایساشخص رہبری کے لئے مناسب نہیں ہے۔ ابن عباس : عبدالرحمن بن عوف کورہبربنادو۔ عمر: وہ تواپنے گھرکوچلانے سے عاجزہے۔ ابن عباس: اپنے بیٹے عبداللہ کورہبربنادو۔ عمر: نہیں خداکی قسم ایسامردجواپنی بیوی کوطلاق دینے سے عاجزہوہرگزمقام رہبری کے لائق نہیں ہے۔ ابن عباس : توعثمان کورہبربنادو۔ عمر: تین مرتبہ کہاخداکی قسم اگرعثمان کورہبربناؤںتوطائفہ بنی معیط جوبنی امیہ کی نسل سے ہیں مسلمانوں پرمسلط ہوجائیں گے اورعثمان کوقتل کرڈالیں گے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ پھرمیں خاموش ہوگیا،اورعمراورحضرت علی کے درمیان عداوت کی وجہ سے امیرالمومنین کانام نہیں لیا۔لیکن خودعمرنے مجھ سے کہا: اے ابن عباس !اپنے دوست علی کانام نہیں لیا؟ میں نے کہا: توعلی کولوگوں کارہبربنادو۔ عمرنے کہا: خداکی قسم میں پریشان وبیتاب نہیں ہوں مگرصرف اس لئے کہ جس کاحق تھاہم نے اس سے اس کاحق لے لیا: واللہ لئن ولیتہ لیحملنھم علی المحجہ العظمی وان یطیعوہ یدخلھم الجنةیعنی خد اکی قسم اگرعلی کولوگوں کارہبربنادوں تویقینا وہ لوگوں کوسعادت کے بلنددرجہ تک پہنچادیں گے۔ اگرلوگ ان کی پیروی کریں تووہ ان لوگوں کوبہشت تک پہنچادیں گے ۔عمرنے اگرچہ یہ سب باتیں کیں مگرپھربھی اپنے بعدکے لئے خلافت کواس چھ نفری شوری کے سپردکی۔ اس کے پروردگارکی نسبت وائے ہواس پر۔ ابوالہذیل: کہتے ہیں کہ وہ اجنبی دانشمند جب یہ سب باتیں تمام کرچکاتوپھرسے اس پردیوانگی طاری ہوگئی(یعنی تقیتا اپنے کودیوانہ بنالیا)جب یہ ماجرا مامون(ساتویں خلیفہ اموی)کوجاکاکربتایاتومامون نے اس بلواکراپنے پاس رکھا،اس کاعلاج کرایااوراپنے امورمیں اپناہمدم قراردیا۔حتی کہ خودمامون اس کی منطقی باتوں سے شیعہ ہوگیا(احتجاج طبرسی ج٢ص٥١تا١٥٤)۔ ٣٨ مامون کاعلماء سے مکالمہ ایک دفعہ (ساتواں خلیفہ عباسی)کے دربارمیں اہل سنت کے بزرگ علماء کی جمعیت بیٹھی ہوئی تھی اس میں کافی طویل مناظرہ شروع ہوگیا۔ ایک سنی عالم دین کہنے لگے: پیغمبراکرمۖ سے روایت ہے کہ آپۖ نے ابوبکروعمرکے شان میں فرمایا: ابوبکروعمرسیداکھول اہل الجنة یعنی ابوبکروعمر جنت میں بوڑھوں کے سردارہیں۔ مامون نے کہا: یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ بہشت میں کوئی بوڑھانہیں جائے گا۔کیونکہ ایک روایت ہے کہ ایک دن ایک بوڑھی عورت پیغمبراکرمۖ کے پاس آئی آپ نے اس سے کہاکہ بوڑھے جنت میں نہیں جائیں گے وہ عورت رونے لگی ۔پیغمبراکرمۖ نے فرمایاکہ خداوندعالم فرماتاہے :اناانشاناہم انشاء فجعلناھن ابکاراعربااترابا(سورہ واقعہ آیت٣٥تا٣٧)یعنی ان کووہ حوریں ملیں گی جن کوہم نے نت نیاپیداکیاہے توہم نے انہیں کنواریاں پیاری پیاری ہمجولیاںبنایاہے۔ اب اگرتم کہوکہ ابوبکروعمرجوان ہوکربہشت میں جائیں گے تواس روایت رسول خدا کوکیاکروگے جس میں رسول خدانے فرمایا:ان الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنة الاولین والآخرین وابوھماخیرمنھما یعنی حسن وحسین دونوں اہل جنت کے جوانوں کے سردارہیں اوران کے والد محترم ان سے بہترہیں(بحار ج٤٩ ص١٩٣)۔ ٣٩ ابودلف کااپنے بیٹے کوپیغمبرۖ کے قول پراشکال کاجواب قاسم بن عیسی عجلسی جوابودلف کے نام سے مشہورتھے،جوان،سخی اورامام علی کے سچے پیروکاروں میں سے تھے۔وہ اپنے خاندان کے سرپرست اورشاعر بھی تھے ان کاانتقال ٢٢٠ھ ق میں ہوا(سفینة البحارج١ص٤٦٢)۔ ان کاایک بیٹاجس کانام دلفتھاوہ اپنے باپ کے برعکس بدزبان وبدطینت تھاایک روزاس کے دوستوں کے درمیان پیغمبراکرمۖ کی اس روایت پربحث ہونے لگی جوعلی کی شان میں تھی کہ لایحبک الامومن تقی ولایبغضک الاولدزینة اوحیضة یعنی اے علی ! تم سے کوئی محبت نہیں کرے گامگرجومومن ومتقی ہواورتم سے کوئی بغض نہیں رکھے گامگروہ جس کی پیدائش زناسے ہوئی ہویااس کانطفہ حیض کی حالت میں رحم مادرمیں قرارپایاہو۔ دلف جواس موضوع ہی کامنکرتھا،اپنے دوستوں سے کہنے لگا: تمہارانظریہ میرے باپ ابودلف کے بارے میں کیاہے؟ کیاکوئی یہ کہہ سکتاہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے زناکیاہو؟ اس کے دوست کہنے لگے: ہرگزہم امیرابودلف کے بارے میں ایسانہیں سوچ سکتے ہیں۔ دلف کہنے لگا: خداکی قسم میں حضرت علی سے شدیدترین دشمنی رکھتاہوں جب کہ نہ میں زنازادہ ہوں اورنہ ولدحیض ہوں۔ اسی ہنگام میں اس کے والدابودلف گھر سے باہرآئے۔ جب بیٹے کوکچھ لوگوں کے ساتھ بحث کرتے ہوئے دیکھاتووجہ پوچھی اورجب وہ موضوع سے باخبر ہوئے توکہنے لگے:خداکی قسم یہ دلف زنازادہ بھی ہے اورولدحیض بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک دفعہ میں بیماراپنے بھائی کے گھرلیٹاہواتھا کہ ایک کنیز اس گھرمیں داخل ہوئی میرے نفس امارہ نے مجھے اس سے ہمبستری پرآمادہ کیا۔اگرچہ وہ کنیزکہتی رہی کہ میں حالت حیض میں ہوں تب بھی میں نے اس سے ہمبستری کرلی جس سے یہ دلف پیداہواہے لہذایہ حرام زادہ ہے(کشف القین ص١٦٦بحارج٣٩ص٢٨٧)۔ دلف کے دوست وحاضرین سب دلف کی حضرت علی سے دشمنی کی وجہ سمجھ گئے کہ جس کی بنیادہی خراب ہواس کی آخرت بھی خراب ہے۔ ٤٠ ابوہریرہ کوایک غیورجوان کاجواب معاویہ نے کچھ جھوٹے صحابہ وتابعین کوپیسوں سے خریداہواتھا تاکہ ان کے ذریعے امام علی کی مخالفت میں جعلی حدیثیں نقل کروائے،ابوہریرہ، عمروبن عاص اور مغیربن شعبہ جیسے صحابہ اورعروة ابن زبیرجیسے تابعین۔ ابوہریرہ،حضرت علی کی شہادت کے بعدکوفے آکرمعاویہ کی حمایت میں حضرت علی کے خلاف احادیث گھڑتاتھاکہ پیغمبرۖ نے یوں فرمایا،مسجدکوفہ میں بیٹھ کرلوگوں کوگمراہ کیاکرتاتھا۔ ایک رات کوفے کاایک غیوروآگاہ جوان بھی اس محف میں بیٹھاتھا۔ابوہریرہ کی بے بنیادباتیں سن کریہ جوان بولا: اے ابوہریرہ تمہیں خداکی قسم دیتاہوں کہ ذریہ بتاؤتم نے رسول خداسے حضرت علی کے بارے میں یہ دعاسنی ہے : اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ یعنی خدایا!جوعلی کو دوست رکھے توبھی اسے دوست رکھ،جواس سے دشمنی رکھے تواس سے دشمنی رکھ۔ ابوہریرہ نے جب دیکھاکہ اس سچی حدیث سے انکارنہیں کرسکتاتوکہنے لگا: اللہم نعم یعنی خداکوگواہ بناکرکہتاہوں کہ ہاں سنی ہے۔ وہ غیورجوان بولا: لہذامیں بھی خداکوگواہ بناکرکہتاہوں کہ تم دشمن علی سے دوستی اورعلی کے دوستوں سے دشمنی رکھتے ہو۔لہذارسول خداکی تضدین میں تم بھی شامل ہو۔یہ کہہ کروہ جوان اس جلسہ سے اٹھ کرچلاگیا(شرح نہج البلاغہ ابن حدیدجلد٤ص٤٣)۔ ٤١ نوجوان کاتہتموں کاجواب ایک دوست نے کہاکہ میں سعودی عرب کی ایک مسجدمیںتھاکہ ایک شخص جوسواریہ کارہنے والاتھا میرے پاس آیااورکہنے لگاتم شیعہ لوگ نمازکے بعدیہ تین مرتبہ کیوں کہتے ہو:خان الامین،خان الامین،خان الامین یعنی جبرئیل امین نے خیانت کی۔ مجھے یہ سن کرتعجب ہوااوراس سے کہامیں دورکعت پڑھتاہوں ذرادیکھناکس طرح پڑھتاہوں۔اس نے کہاٹھیک ہے۔میں نے دورکعت نمازکامل پڑھی،اس کے آخرکی تین تکبیرمستحبی بھی پڑھیں،اس کے بعداس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: کہوکیسادیکھا؟ وہ کہنے لگا:تم توایک عجم ہولیکن ہم عربوں سے بہترتم نے نمازپڑھی ہے لیکن تم نے خان الامین کیوں نہیں کہا؟ میں نے کہا: اس طرح کے الزامات وتہمتیں تم سادہ لوح افرادکے اذہان میں استعماروشیاطین ڈالتے ہیں جومسلمانوں میں تفرقہ پیداکرنے کے لئے ایجاد کرتے ہیں۔ مزیدوضاحت: یہ کہ ان کامطلب خان الامینیہ ہے کہ نعوذباللہ شیعہ معتقدہیں کہ جبرئیل امین جوفرشتہ وحی ہیں، انہیں یہ حکم ملاتھاکہ قرآن کوحضرت علی کے پاس لائیں،مگرانہوں نے خیانت کی اورقرآن پیغمبراسلام کے پاس لے گئے اس لئے شیعہ ہرنمازکے بعدتین مرتبہ خان الامین کہتے ہیں۔ یعنی جبرئیل نے خیانت کی ہے لہذاس قسم کے الزامات بعض اہل سنت کے معروف افرادنے دئیے ہیں جس کی طرف اشارہ کیاہے ڈاکٹرسیدمحمد تیجانی نے وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب پھرمیں ہدایت پاگیا میں صفحہ ٤٥پرتحریرکیاہے۔ ٤٢ ایک شیعہ کے محکم دلائل ایک عالم دین کابیان ہے کہ میں مدینہ میں نبی کی قبرکے کنارے کھڑاتھا کہ دیکھاکہ ایک شیعہ ایرانی آیااوروہ ضریح مقدس رسول خداکو چومنے لگا۔ مسجدکاامام جماعت اسے ڈانٹنے لگاکہ ان بے جان اوربے شعورپتھر،دیواراوردروازوں کوکیوںچومتے ہو،یہ توپتھراورلوہے کے ہیں۔ اس مسجدکے امام جماعت کے اس چیخنے چلانے سے میرادل اس ایرانی کے لئے دکھا،میں آگے بڑھااوراس امام جماعت سے کہا: جناب ان درودیواروں کا چومنارسول خداسے محبت کی دلیل ہے جس طرح باپ اپنے بچے کومحبت میں چومتاہے جس میں کسی قسم کاکوئی شرک نہیں ہے۔ امام جماعت کہنے لگا: نہیں یہ شرک ہے۔ میں نے کہا: کیاتم نے سورہ یوسف کی آیت ٩٦نہیں پڑھی جس میں خداوندعالم فرماتاہے :فماان جاء البشیرالقاہ علی وجھہ فارتدبصیرا یعنی جب خبرینے والے نے یعقوب کویوسف کی خبردی اوریوسف کے لباس کویعقوب کی آنکھوں پرملاتوان کی بصارت لوٹ آئی۔لہذا میراآپ سے یہ سوال ہے کہ یہ کیسا لباس تھا جوحضرت یعقوب کی بینائی لوٹ آنے کاسبب بنا؟ کیااس کے علاوہ اورکوئی بات تھی کہ وہ حضرت یوسف کے جسم سے مس کیاہواتھا؟ اس وہابی امام جماعت سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ پھرمیںنے کہا:تم نے سورہ یوسف کی آیت٩٤میں پڑھاہوگا: جب حضرت یعقوب قافلے میں مصرسے ٨٠ کلومیٹرکے فاصلے پرتھے توکہنے لگے :انی لاجدریح یوسف یعنی میں یوسف کی خوشبوکومحسوس کررہاہوں۔لہذااولیاء کے یہ آثارمعنوی ہیں جوشرک نہیں ہیں بلکہ عین توحیدہیں۔ مزیدوضاحت: اولیاء خداکی قبورکی نزدیک سے زیارت کے وقت ہماراقلبی ومعنوی احساس بڑھ جاتاہے اورہم انہیں خداکی بارگاہ میں واسطہ قراردیتے ہوئے دعاکرتے ہیں کہ ہم تومستقیما خداکے سامنے جانے کے قابل نہیں ہیں لہذاان صاحبان کوواسطہ قراردیتے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں اس بات کی طرف اشارہ ہواہے :قالوایاابانا استغفرلنا ذنوبنااناکناخاطئین(سورہ یوسف آیت٩٧)۔یعنی حضرت یعقوب کے بیٹے کہنے لگے: اے باباخداسے ہمارے گناہ کی مغفرت کی دعامانگیں،بیشک ہم نے خطاکی ہے۔لہذا اولیائے خداسے توسل جائزہے۔ جولوگ ان توسلات کوشرک سے تعبیرکرتے ہیں وہ قرآن سے ناآشناہیں اوراپنے غلط تعصب کی بناپراس قسم کے فتودے دیتے ہیں خداوندعالم سورہ مائدہ کی آیت ٣٤میں فرماتاہے : یاایھاالذین آمنوااتقواللہ وابتغوا الیہ الوسیلة ۔ یعنی اے صاحبان ایمان! خداسے ڈرواورخداکے لئے وسیلہ بناؤ۔یہ آیت فقط ادائے واجبات وترک محرمات ہی کووسیلہ قرارنہیں دیتی بلکہ واضح کرتی ہے کہ مستحبات بشمول انبیاء واولیاء سے توسل بھی وسیلہ ہے۔ روایت ہے کہ منصوردوانیقی(دوسراخلیفہ عباسی)نے مفتی اعظم(مالک بن انس)جومذہب مالکی کے سربراہ تھے ان سے پوچھا: حرم پیغمبرمیں روبقبلہ ہوکردعامانگوںیاپیغمبرکی ضریح کی طرف رخ کرکے دعامانگوں؟مالک نے جواب میں کہا:لم تصرف وجھک عنہ وھووسیلتک ووسیلة ابیک آدم الی اللہ یوم القیامة بل استقبلہ واستشفع بہ فیشفعک اللہ قال اللہ تعالی۔ولوانھم اذظلمواانفسھم یعنی کیوں پیغمبرکی طرف سے رخ موڑتے ہوجب کہ وہ تمہارے اورتمہارے باپ آدم کے لئے روزقیامت وسیلہ ہیں،ان کی طرف رخ کروان کواپناشفیع قراردوکیونکہ خداوندان کی شفاعت کوقبول کرنے والاہے اورخود خداوندعالم فرماتاہے: ولوانھم اذظلمواجاؤک۔فاستغفراللہ واستغفرلھم الرسول لوجدواللہ توابارحیما(سورہ نساء آیت ٦٤)۔یعنی اے رسولۖ ! ان لوگوں نے نافرمانی کرکے اپنی جانوں پرظلم کیا،اگریہ تمہارے پاس چلے آتے اورخداسے معافی مانگتے اوراے رسول تم بھی ان کی مغفرت چاہتے توبیشک یہ لوگ خدا کوبڑاتوبہ قبول کرنے والامہربان پاتے۔شیعہ سنی دونوں سے نقل ہے کہ حضرت آدم نے توبہ کے وقت خانہ خداکے سامنے پیغمبراسلام کوواسطہ قراردیتے ہوئے یہ دعاکی تھی: اللہم اسئلک بحق محمدالاغفرت لی یعنی خداتجھے محمدکے حق کاواسطہ دے کردعاکرتاہوں کہ مجھے معاف کردے(درمنثورج١ص٥٩، مستدرک حاکم ج٢ص٦١٥،مجمع البیان ج١ص٨٩)اس موضوع پرکہ اولیائے خداکی قبورکاچومنایاان کووسیلہ قراردیناشرک نہیں ہے اہل سنت کی کتابوں سے تین روایتیںنقل کی جاتی ہیں: پہلی روایت: ایک شخص پیغمبراسلام کے پاس آیااورسوال کیا: یارسول اللہ! میں نے قسم کھائی ہے کہ بہشت کے دروازے اورحورالعین کی پیشانی کوچوموں گا، اب میں کیاکروں ؟پیغمبراکرمۖ نے جواب دیا: ماں کے قدم اورباپ کی پیشانی کوچوم لو۔یعنی اگرایساکروگے تواپنی آرزوکوپہنچ سکتے ہو۔اس نے کہا:اگرماں باپ مرچکے ہوں؟توپیغمبراکرمۖ نے کہا: ان کی قبورکوچومو۔(اعلام قطب الدین حنفی صفحہ٢٤)۔ دوسری روایت: جب حضرت ابراہیم اپنے بیٹے حضرت اسماعیل سے ملنے شام سے مکہ گئے توبیٹاگھرپرموجود نہ تھاچنانچہ وہ شام کوواپس آگئے۔ جب حضرت اسماعیل سفرسے لوٹے توزوجہ اسماعیل نے حضرت ابراہیم کے آنے کی خبردی تووہ دوڑے اوراپنے والدکے پیروں کے نشان ڈھونڈے اوروالدکے احترام میں اس جگہ پربوسہ دینے لگے(الاعلام قطب الدین حنفی ص٢٤)۔ تیسری روایت : سفیان ثوری جو(اہل سنت کے صوفی مسلک سے تعلق رکھتاتھا)امام صادق کے پاس آیااورکہنے لگا:لوگ کعبے کے پردے کوچومتے ہیں؟ جب کہ وہ پرانے کپڑے کاپردہ ہے جولوگوں کوکوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔امام صادق نے اس کے جواب میں فرمایا: یہ اس شخص کی سی مثال ہے جودوسرے کاحق ضائع کرتاہے اورپھراس کے دامن کوپکڑکرمعافی مانگتاہے تاکہ وہ اسے بخش دے(انوارالبہیہ شرح حال امام صادق)۔ ٤٣ ایک مجتہدکاسعودی پولیس سے مباحثہ حضرت آیت اللہ العظمی سیدعبداللہ شیرازی قدس سرہ اپنی مشہورکتاب الاحتجاجات العشرہ کے احتجاج ششم میں لکھتے ہیں کہ ایک دن میں روضہ رسول پر حاضری دینے گیاتودیکھاکہ حوزہ علمیہ قم کاایک طالب علم ضریح پیغمبرۖ کوبوسہ دینے کے لئے آگے بڑھااوروہاں کے سیکورٹی گارڈ(شرطہ)سے بچتے ہوئے ضریح مقدس کوچومنے لگا۔جب شرطہ نے دیکھاتوغصہ سے بھرامیرے پاس آیااورکہنے لگا:جناب عالی ! آپ اپنے لوگوں کوضریح کوچومنے سے منع کیوں نہیں کرتے ،یہ پتھرکے دروازے اوراینٹوں کی دیواریں ہیں جن کوچومناشرک ہے۔ لہذاان کومنع کریں کہ یہ ایسانہ کیاکریں۔ میں نے کہا: تم خانہ کعبہ کے کونے پرلگے حجراسودکوچومتے ہو؟ شرطہ : ہاں۔ میں نے کہا: جب روضہ رسول کے اس پتھرکوچومناشرک ہے توحجراسودکوچومنابھی شرک ہے۔ شرطہ : اس کوپیغمبرنے چوماہے۔ میں نے کہا: جب کسی چیزکوتبرکاچومناشرک ہے توبالکل فرق نہیں ہے چاہے پیغمبرہویاکوئی اور۔ شرطہ : پیغمبراکرم نے حجراسودکواس لئے چوماکہ وہ جنت سے آیاتھا۔ میں نے کہا: اچھا۔چونکہ وہ پتھرجنت سے آیاہے اس لئے آپ اسے چومتے ہیں اوردوسری طرف پیغمبرنے چونکہ اس کوچومنے کاحکم دیاہے اس لئے چومتے ہیں۔ شرطہ: ہاں!اسی لئے چومتے ہیں۔ میں نے کہا: یعنی جنتی چیزیں بذات خودمحترم نہیں ہیں مگروجودپیغمبرکی وجہ سے قابل احترام ہوگئی ہیں۔ شرطہ : ہاں۔ میں نے کہا: توجب جنت یااس کی چیزیں وجودپیغمبرکی وجہ سے قابل احترام ہوسکتی ہیں اورانہیں تبرکاچوماجاسکتاہے تویہ قبرنبی کے اطراف میں لگاہوا لوہا بھی قبرنبی سے نزدیک ہونے کی وجہ سے احترام کاحامل ہے۔لہذااسے بھی بعنوان تبرک چومناجائزہے۔ مزیدوضاحت : یہ کہ قرآن کی جلدجوکسی جانورکے چمڑے سے بنی ہوجوجنگل میں چرتاہے اس کی اس کھال کی خاص اہمیت نہیں ہوتی مگرجب اسی کھال سے قرآن کی جلدبنادی جائے تواگرچہ اس چمڑے کوجلدسے بننے سے پہلے نجس کرناحرام نہیں تھا مگراب اسے نجس کرنابھی حرام ہوجائے گااورا س کی اہمیت بھی پہلے سے بڑھ جائے گی اسی لئے اسے چومنا بھی جائزہوجاتاہے۔ کسی نے اسے شرک یاحرام نہیں کہا۔پیغمبر اکرم،ائمہ اطہاراوردیکراولیائے خداکی ضریح کو چومنابھی اسی طرح ہے۔ اس میں شرک اوربدعت نہیں ہے جیساکہ تاریخ میں لیلی ومجنوں گزرے ہیں کہ ایک دفعہ لیلی کے محلے سے ایک کتامجنوں کے محلے میں گیا،مجنوں نے جیسے ہی اس کتے کودیکھااس کے پاس گیااوراسے اٹھاکرپیارکرنے لگا۔کسی نے آکراس سے کہا: لیس علی المجنون حرج کیونکہ تم دیوانہ ہواس لئے کتے کوپیارکرنے سے دریغ نہیں کررہے ہو۔مجنوں نے جواب میں کہا: لیس علی الاعمی حرج کیونکہ تم اندھے ہواس لئے میرے اس پیارکرنے کوسمجھ نہیں سکتے اورپھرمجنوں نے یہ اشعارکہے: امرعلی الدیاردیارلیلی اقبل والجداروذالجدار وماحب الدیارشغفن قلبی ولکن حب من سکن الدیار یعنی جب میں لیلی کے گھرکے پاس سے گذروں گاتواس کی ایک ایک دیوارکوچوموں گااوریہ چومنااس گھرسے محبت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ لیلی اس میں رہتی ہے(کشکو شیخ بہائی ج١ص٩١)۔
علی بن میثم کے چندمکالمے ایک شیعہ برجستہ عالم دین جوتاریخ شیعہ کے متکلم(یعنی علم کلام میں ماہر)بھی تھے علی بن اسماعیل بن شعیب بن مثیم جومیثم تمارکے نواسے تھے اورعلی بن میثم کے نام سے مشہورتھے امام رضاکے اصحاب خاص میںان کاشمارہوتاتھا اورمخالفین سے بحث ومناظرہ کرنے میں ان کوکافی مہارت حاصل تھی۔ لہذابطور نمونہ ہم یہاں ان کے کچھ مناظروں کوذکرکرتے ہیں۔ ٤٤ علی بن میثم کاایک مسیحی سے مکالمہ علی بن میثم: تم لوگ صلیب کواپنی گردنوں میں کیوں آویزاں کرتے ہو؟ مسیحی: اس لئے کہ یہ اس سولی کی شبیہ ہے جس پرحضرت عیسی علیہ السلام کوسولی دی گئی ۔ علی بن میثم: کیاحضرت عیسی کوبھی یہ بات پسندہوگی کہ وہ اس قسم کی چیزگردن میں آویزاں کریں؟ مسیحی: نہیں علی بن میثم : کیوں؟ مسیحی: اس لئے کہ وہ چیزجس پرانہیں سولی دی گئی ہووہ کس طرح چاہیں گے کہ اس کوگلے میںلٹکائیں ۔ علی بن میثم: ذرامجھے یہ بتاؤکہ کیاحضرت عیسی گدھے پرسوارہوکراپنی ضروریات زندگی کوپوراکرنے جایاکرتے تھے مسیحی: ہاں۔ علی بن میثم: کیاحضرت عیسی یہ چاہتے تھے کہ وہ گدھازندہ رہے تاکہ وہ اپنی منزل مقصودتک پہنچ جائیں۔ مسیحی: ہاں۔ علی بن میثم: عجیب بات ہے کہ حضرت عیسی جس چیزکی بقاچاہتے تھے اسے توتم نے ترک کردیاہے اورجس چیزکووہ پسندنہیں کرتے تھے اسے گردن میں لٹکائے پھرتے ہو۔ لہذاسزاوارتویہ تھا کہ اس گدھے کوجس کے باقی رہنے کوحضرت عیسی پسندکرتے تھے اس کی تصویرگردن میں لٹکاتے نہ کہ اس صلیب کی تصویرکہ جس کووہ ہرگز پسندنہیں کرتے تھے(الفصول المختارسیدمرتضی ج١ص٣١)۔ ٤٥ علی بن میثم کامنکرخداسے مکالمہ ایک دن علی بن میثم،حسن بن سہل(جومامون کاوزیرتھا)کے پاس گئے تودیکھاایک منکرخداوزیرکے پاس بیٹھاہواہے اوروزیراس کااحترام کررہاہے اوروہ منکر خداسب کے سامنے گستاخی کرتے ہوئے اپنے مذہب کی حقانیت بیان کررہاہے۔ علی بن میثم نے اپنے مناظرے کواس طرح شروع کیا: اے حسن بن سہل!آج میں نے تمہارے گھرکے باہرایک عجیب وغریب چیزدیکھی۔ وزیر: کیاچیز؟ علی بن میثم: میںنے دیکھاایک کشتی بغیرناخداکے چلی جارہی ہے۔ اسی وقت منکرخدا جوبیٹھاہواتھابولا: اے وزیریہ شخص علی بن میثم دیوانہ ہے جبھی ایسی باتیں کررہاہے۔ علی بن میثم: نہیں میں نے صحیح بات کی ہے میں دیوانہ نہیں ہوں۔ منکرخدا: کشتی جوجمادات سے ہے عقل وجان نہیں رکھتی کس طرح بغیرناخداورہنماکے چلی جارہی تھی۔ علی بن میثم: میری بات تعجب آورہے یاتمہاری جوکہتے ہوکہ یہ دریابے کراںجس میں عقل وجان رکھنے والی بھی ہیں بغیرپیداکرنے والے ورہنماکے تلاطم میںہے،یہ مختلف قسم کی سبزیاں جوزمین سے اگتی ہیں اوریہ بارش وغیرہ جوآسمان سے برستی ہے تیرے بقول ان کاکوئی خالق ومدبرنہیں ہے بلکہ خودتعجب کررہے ہوکہ ایک کشتی بغیرناخداکے کیسے حرکت کرسکتی ہے۔ وہ منکرخداجواب نہ دے سکااورشرمندہ ہوگیا۔سمجھ گیاکہ یہ کشتی کی مثال مجھے قائل کرنے کے لئے پیش کی گئی تھی(فصول المختارسیدمرتضی ص٤٤)۔ ٤٦ علی بن میثم کاابوالہذیل سے مکالمہ جیساکہ پہلے ابوالہذیل کانام گزرچکاہے کہ یہ اہل سنت کے بہت بڑے عالم دین اوربڑی شخصیت شمارہوتے تھے قرن سوم کے آغازمیں٢٣٠ھ ق بغداد میں پیداہوئے سوسال کی عمرپاکر٣٣٥ھ ق بغدادہی میں انتقال ہوا۔ ایک دن علی بن میثم نے ابوالہذیل سے پوچھا: کیاایسانہیں ہے کہ ابلیس انسانوں کوہرقسم کی نیکی سے روکتااورہرقسم کی برائی پرابھارتاہے؟ ابوالہذیل: ہاں ایساہی ہے۔ علی بن میثم: پس یہ بات توثابت ہوئی کہ ابلیس تمام نیکی وبدی کوجانتاہے۔ ابوالہذیل : ہاں علی بن میثم: توپھرذرامجھے یہ بتاؤپیغمبراسلام کے بعدتمہاراامام کون ہے؟اورکیاوہ تمام نیکی وبدی کوجانتاہے یانہیں؟ ابوالہذیل: نہیں وہ تمام نیکی وبدی کونہیں جانتے۔ علی بن میثم: لہذااس طرح توابلیس تمہارے امام سے زیادہ داناتھا۔ ابوالہذیل سے کوئی جواب نہ بن سکااورشرمندہ ہوکررہ گئے(الفصول المختارسیدمرتضی ج١ص٥،بحارالانوارج١٠ص٣٧٠)۔ ایک دن ابوالہذیل نے علی بن میثم سے سوال کیاکہ آپ کے پاس حضرت علی کی امامت اوربعدرسول خدا،ابوبکرپران کی برتری پرکیادلیل ہے؟ علی بن میثم: تمام مسلمین کااجماع واتفاق رائے ہے کہ علی ہی رسول خداکے بعدعالم ومومن کامل تھے۔ لیکن اس وقت اس قسم کاادعاابوبکرکے لئے نہیں تھا۔ ابوالہذیل : کون کہتاہے کہ رسول خداکی رحلت کے بعدابوکرکے مومن وعالم ہونے پراجماع نہیں تھا؟ علی بن میثم: میں اورمجھ سے پہلے والے اورحاضرکے تمام لوگ یہی کہتے ہیں۔ ابوالہذیل: لہذاتم اورتمہارے افرادسب کے سب گمراہی وسرگردانی میں ہیں۔ علی بن میثم: اس قسم کاجواب توصرف گالی اورلڑائی والی ہے۔تم بجائے منطقی جواب دینے کے اس طرح کے جواب دے کرہمیں گمراہ سمجھتے ہو۔ لہذا یادرکھو پھر پتھرکاجواب پتھرہوتاہے۔ ٤٧ عمربن عبدالعزیزکاامت پرحضرت علی کی برتری کااعلان کرنا عمربن عبدالعزیز(آٹھواں خلیفہ اموی)کی خلافت کے زمانے میں ایک سنی شخص قسم کھاتے ہوئے کہنالکا: ان علیاخیرھذہ الامة والاامراتی طالق ثلاثا علی امت میں سب سے بہترین فردہیں ورنہ گویامیری زوجہ تین طلاق شدہ ہے کیوںکہ وہ معتقدتھاکہ علی،پیغمبراکرم کے بعدامت مسلمہ میں سب سے بہترین فردہیں لہذااس کی یہ طلاق باطل تھی(اس بات کی طرف متوجہ رہتے ہوئے کہ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں ہوسکتی ہیں)۔ اس شخص کاخسرجوحضرت علی کوتمام مسلمانوں پربرترنہیں مانتاتھا اس نے کہا: یہ طلاق ہوگئی اورمیں اب اپنی بیٹی کواپنے گھرلے جارہاہوں لہذاخسروداماد کانزاع ہونے لگا۔ دامادکہتاتھا کہ طلاق کی شرط یہ ہے کہ علی سب پربرترنہ ہوں،جب کہ یہ بات سب کے نزدیک روشن ہے کہ حضرت علی مسلمین میں سب سے برترہیں۔ لہذا شرط باطل ہوگئی توطلاق بھی باطل ہوگئی۔ جب ان دونوں کایہ نزاع بڑھااورکچھ لوگ خسرکی طرف داری کرنے لگے اورکچھ لوگ دامادکی تویہ مسئلہ عمربن عبدالعزیزکولکھاگیاکہ وہ اس قضیہ کوحل کرے۔ عمربن عبدالعزیز نے ایک مجلس تشکیل دی جس میں بنی ہاشم وبنی امیہ اوربزرگان قریش کومدعوکیاگیاان سے اس مسئلے کوحل کرنے کوکہاگیا۔ جب گفتگوشروع ہوئی اوربنی امیہ سے کوئی جواب بن نہ پڑااوروہ ایک طرف ہوگئے توبنی ہاشم کاایک فرداٹھااورکہنے لگاکہ یہ طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ بیشک علی امت کے تمام افرادپربرترہیں اورکیونکہ طلاق مشروع ہے عدم برتری علی پرجب کہ وہ برترہیں لہذاطلاق اصلا و اقع ہی نہیں ہوئی۔ اس ہاشمی مردنے اپنی بات کی مزیدوضاحت میں عمربن عبدالعزیزسے کہا: تم کوخداکی قسم ذرایہ بتاؤکہ کیایہ روایت پیغمبرسے نہیں سنی کہ ایک روزآپ اپنی بیٹی فاطمہ کے گھران کی عیادت کوگئے اوران سے فرمایا:بیٹی تمہاراکونسی چیزکھانے کودل کررہاہے؟فاطمہ نے عرض کی: باباجان !انگورکھانے کودل چاہتاہے اگرچہ انگورکاموسم نہیں تھا اورعلی بھی سفر پرگئے ہوئے تھے۔ پیغمبرنے اس طرح دعاکی: اللہم آتنابہ مع افضل امتی عندک منزلة یعنی خدایا!انگوروں کواس کے پاس بھیج جوتیری بارگاہ امت میں سب سے بہترہے۔اسی وقت حضرت علی پہنچے،دروازہ کھٹکھٹایااورگھرمیں داخل ہوئے،ان کے ہاتھ میں ایک گچھاتھا جسے اپنی عباکے دامن سے ڈھانکے ہوئے تھے۔پیغمبراکرم نے فرمایا: یاعلی یہ کیاہے؟علی نے فرمایا:یارسول اللہ انگورہیں جوفاطمہ کے لئے لایاہوں کیونکہ انہیں انگور پسندہیں ۔ پیغمبراکرم نے فرمایا: اللہ اکبر ۔خدایا!جس طرح تونے مجھے خوش کیااس جہت سے کہ علی کوامت میں سب سے بہترین شخص قراردیااسی طرح ان انگوروں کے ذریعے میری بیٹی فاطمہ کوشفادے۔پھرآپ نے انگورحضرت فاطمہ کودیتے ہوئے کہا:بیٹی خداکانام لے کرکھاؤ۔حضرت فاطمہ نے انگور کھائے۔ پیغمبرابھی خانہ فاطمہ ہی میں تھے کہ فاطمہ نے صحت یابی پائی۔
عمربن عبدالعزیز نے اس مردہاشمی سے کہا: تم نے سچ کہااورمیں بھی گواہی دیتاہوں کہ میں نے یہ حدیث سنی ہے اورمانتابھی ہوں۔پھراس نے اس عورت کے شوہرسے کہاکہ اپنی بیوی کاہاتھ پکڑواورلے جاؤوہ تمہاری بیوی ہے۔اگراس کے باپ نے کوئی دخل اندازی کی تواس صورت میں زخمی کردینا(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیداحقاق الحق ج٤صفحہ ٢٩٢تاص٢٩٥)۔
اس طرح اس بھری مجلس میں عمربن عبدالعزیزنے علی الاعلان حضرت علی کاتمام امت پربرترہونے کااعلان کیااوراسی بناپراس طلاق کوباطل قراردیتے ہوئے نکاح کے باقی رہنے کافتوی دیا۔
٤٨ شیخ بہائی کاایک مخالف سے مباحثہ محمدبن حسین بن عبدالصمدجوشیخ بہائی کے نام سے مشہورتھے اورعلماء معروف وملت تشیع کے لئے فخرکے باعث تھے جنہوں نے ١٠٣١ھ ق میں اس دنیائے فانی کومشہدمقدس میں خداحافظ کہااورجوارامام رضامیں دفن ہیں۔ ایک روزدوران سفران کی ملاقات ایک سنی عالم دین سے ہوئی انہوں نے خودکواس کے سامنے شافعی مذہب کاظاہرکیاوہ عالم جوعلماء شافعی میں سے تھا جب اس نے جاناکہ یہ شیخ بہائی بھی شافعی ہیں اورمرکزتشیع یعنی ایران سے آرہے ہیں تواس نے شیخ بہائی سے پوچھا: کیاشیعوں کے پاس اپنے دعوی کے ثبوت پرکوئی دلیل ہے؟ شیخ بہائی نے جواب دیا:ہاں! بعض اوقات ایران میں شیعوں سے سامناہواتومیں نے اندازہ لگایاکہ ان کے پاس اپنے دعووں پرمحکم استدلال ہیں۔ سنی شافعی: اگرہوسکے توان استدلالات میں سے کوئی ایک نقل کریں۔ شیخ بہائی: مثلا وہ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں(جواہل سنت کی معتبرکتب میںسے ایک کتاب ہے)پیغمبر اکرمۖ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپۖ نے فرمایا: فاطمة بضعة منی من اذاھافقدآذانی ومن اغضبھافقداغضبنی۔ یعنی فاطمہ میرے جگرکاٹکڑاہے جس نے اس کواذیت دی مجھے اذیت دی،جس نے اس کوغضبناک کیااس نے مجھے غضبناک کیا(صحیح بخاری،دارالجیل بیروت ج٧ص٤٧)۔ اوراسی کتاب میں چارورق بعدروایت نقل ہے کہ :خرجت فاطمة من الدنیاوھی غاضبة علیھما۔ یعنی فاطمہ مرتے وقت ان(عمروابوبکر)سے ناراض گئی ہیں(صحیح بخاری،دارالجیل بیروت ج٧ودیگرفضائل خمسہ من الصحاح الستہ ج٣ ص١٩٠)۔ اب ذراآپ بتائیں کہ ان دونوں روایتوں کااہلسنت کے اعتبارسے طریقہ جمع کیاہوگا؟وہ سنی شافعی فکرکرنے لگے اورسوچنے لگے کہ اگریوں کہوں کہ ان دو روایتوں کاطریقہ جمع یہ ہے کہ یہ دونوں عادل نہیں تھی توگویایہ دونوں رہبری کے لائق نہیں تھے۔لہذاکچھ سوچنے کے بعدکہنے لگابعض اوقات شیعہ جھوٹ بولتے ہیں ممکن ہے اس میں بھی انہوں نے جھوٹ بولاہولہذامجھے ایک رات کی مہلت دوکہ میں صحیح بخاری کامطالعہ کرکے آؤں اوران دونوں روایتوں کاسچ وجھوٹ معلوم کرلوں اورسچ ہونے کی صورت میں اس کاجواب تلاش کروں۔ شیخ بہاری : (دوسرے دن جب اس سنی شافعی کودیکھاتواس سے پوچھا)کیاہواآپ نے تحقیق کرلی؟ وہ کہنے لگاہاں میں نے تحقیق کرلی بالکل جومیں نے کہاتھاوہی ہے کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ میں نے صحیح بخاری کامطالعہ کیاتواگرچہ اس میں یہ دونوں روایتیں تھیں مگران دونوں روایتوں کے درمیان شیعوں نے جوچارصفحے کافاصلہ بتایاتھا وہ پانچ صفحے سے زیادہ ہے۔ واقعاعجیب جواب ہے کیونکہ مقصدان دوروایتوں کااس کتاب میں ہوناہے چاہے پانچ ورق کے فاصلے پریہ روایتیں ذکرہوئی ہوں یا٥٠ورق کے بعدذکرہوئی ہوکیافرق پڑتاہے۔
٤٩
حلامہ حلی کاسیدموصلی سے مباحثہ
آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں ایران کابادشاہ شاہ خدابندہجوسنی المذہب تھا٧٠٩ھ میںعلامہ حلی کے ساتھ قوی ولطیف مناظروں کے بعدشیعہ ہوگیااورتشیع کوایران کاسرکاری مذہب قراردیدیا۔ایک روایت کے مطابق کچھ علمائے اہل سنت شاہ خدابندہ کے دربارمیں حاضرتھے علامہ حلی بھی شاہ کی دعوت پراس مجلس میں تشریف لائے۔پھرسنی شیعہ علماء کے مابین مناظرہ ہواجودرج ذیل ہے:
سیدموصلی: وبشرالصابرین الذین اذااصابتہم مصیبة قالوااناللہ واناالیہ راجعون۔اولئک علیہم صلواة من ربھم ورحمة(سورہ بقرة ایت١٥٥تا١٥٧)یعنی وہ لوگ جوخداکی راہ میں استقامت سے کام لیتے ہیں جب بھی ان پرکوئی مصیبت آتی ہے تووہ کہتے ہیں کہ ہم خداہی کی طرف سے آئے ہیں اوراسی کی طرف لوٹ جائیں گے،ان لوگوں پرخداوندعالم کی طرف سے درودوسلام اوررحمت ہوتی ہے۔
سیدموصلی: پیغمبرکے علاوہ اماموں پرکونسی مصیبت پڑی ہے جووہ درودوسلام کے مستحق قرارپائیں گے؟
علامہ حلی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا: سخت ترین مصائب جوان پرپڑے اس سے تم جیسے افرادوجودمیں آئے جومنافقوں کوآل رسول پرمقدم کرتے ہیں حاضرین علامہ حلی کی بزلہ سنجی پرہنسنے لگے(بہجة الآمال ج٣ص٢٣٤)۔
٥٠
شیعہ عالم کاسربراہ تنظیم امربالمعروف ونہی عن المنکرسے مباحثہ
ایک شیعہ عالم دین مدینہ میں امربالمعروف ونہی عن المنکرکے دفترمیں گئے توان کے اوراس دفترکے سربراہ کے درمیان اس طرح مناظرہ شروع ہوا:
سربراہ: رسو اللہۖ اب دنیاسے جاچکے ہیں اورجومردہ ہوچکاہووہ فائدہ ونقصان نہیں پہنچاسکتالہذاآپ لوگ اب پیغمبرۖ سے کیامانگتے ہیں؟ شیعہ عالم دین: رسول خدااگرچہ اس دنیاسے پردہ فرماچکے ہیں مگروہ زندہ ہیں کیونکہ قرآن فرماتاہے: ولاتحسبن الذین قتلوافی سبیل اللہ امواتابل احیاء عندربھم یوزقون(سورہ آل عمران آیت١٦٣)۔ جولوگ خداکی راہ میں قتل کئے گئے ہیں انہیںمردہ نہ سمجھوبلکہ وہ زندہ ہیں اوراپنے خداسے رزق پاتے ہیں۔ اسی طرح دوسری روایات بھی ہیں جوپیغمبرۖ کی رحلت کے بعدبھی احترام پیغمبرپردلالت کرتی ہیں جس طرح ان کی زندگی میں ان کااحترام کیاجاتاتھا۔ سربراہ: یہ موت وحیات جوقرآن اورروایات میں ہے وہ نہیں ہے جس میں ہم اس وقت ہیں۔ شیعہ عالم دین: تمہارے لئے کیاحرج ہے کہ ہماری اس بات کومان لوکہ پیغمبرۖ اکرم رحلت کے بعدبھی ہمارے لئے اسی طرح ہیں جس طرح عالم حیات میں تھے۔ اذن خداسے اب بھی ہم پروہی لطف وکرم کرتے ہیں میں آپ سے پوچھتاہوں کہ آپ کے باپ جب سے اس دنیاسے گئے توکیاآپ ان کی قبر پرنہیں گئے اورکیاان کی مغفرت کے لئے دعانہیں مانگی؟ سربراہ: کیوں نہیں؟ شیعہ عالم دین: ہم کیونکہ زمانہ پیغمبرۖ میں نہیں تھے اوراگرہوتے توان کی زیارت کرتے اوراب جب ان کی قبرپرآئے ہیں توان کی زیارت کرتے ہیں۔ مزیدروشن عبارت: اس قبرکارسول خداکے جسم اطہرسے مس ہونااسے مبارک قراردیتاہے چنانچہ اس کی خاک کواگرہم تبرک قراردیتے ہیںتویہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے کہ میں اپنے استادکی پیروں کی خاک اپنی آنکھوں کاسرمہ قراردیتاہوں۔ سرمہ ہے میری آنکھ کاخاک مدینہ ونجف مؤلف فرماتے ہیں کہ مجھے یادہے جب امام خمینی قیدمیں تھے استادجوان سے بہت انسیت رکھتے تھے کہنے لگے میری آرزوہے کہ اپنے عمامہ کی تحت الحنک کوامام خمینی کی نعلین کی خاک سے مس کروںاوراسی خاک آلودتحت الحنک کے ساتھ نمازاداکروں اس طرح کے اظہارخیال عواطف قلبی وشدت محبت کوبیان کرتے ہیں یہ کسی قسم کاکوئی شرک نہیں ہے قرآن بھی اس مسئلے کوصراحت سے بیان کرتاہے کہ اولیاء خداکوواسطہ بنانانتیجہ بخش وفائدہ مندہوتاہے جیساکہ سورہ نساء کی آیت٦٤میں ارشادہوتاہے۔ ولوانھم اذظلمواانفسھم جاؤک فاستغفروااللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوااللہ توابارحیما۔ جب وہ جنہوں نے اپنے نفسوں پرظلم (یعنی گناہ)کیاآپ کے پاس آئیں اورخداسے طلب استغفارکرں اوررسول بھی ان کے لئے مغفرت طلب کریں تویقیناوہ خداکوتوبہ قبول کرنے والااوررحمت کرنے والاپائیں گے۔ ٥١ علامہ امینی کاتسلی بخش جواب علامہ امینی جواپنے زمانے کے بزرگ عالم دین اورصاحب کتاب الفریدبھی ہیں اپنے کسی سفرکے دوران کسی مجلس میں شرکت کی۔ان میں ایک سنی عالم ان سے کہتے ہیں کہ آپ شیعہ لوگ حضرت علی کے سلسلے میں غلوکیوں کرتے ہیں مثلاان کو(یداللہوعین ا للہ)(یعنی خداکاہاتھ،خداکی آنکھ)سے کیوں تعبیر کرتے ہیں کسی صحابہ کی اس حدتک توصیف بیان کرناصحیح نہیں ہے۔ علامہ نے بے دھڑک کہا: اگرعمربن خطاب نے حضرت علی کواس خطاب سے پکاراہوتوآپ کیاکہیں گے؟ سنی عالم: عمربن خطاب کاقول ہمارے لئے حجت ہے۔ علامہ نے اسی مجلس میں اہل سنت ہی کی کسی اصلی کتاب کومنگوارکران کاصفحہ پلٹ کراس سنی عالم کے سامنے رکھ دی کہ یہ دیکھئے ۔حدیث ہے کہ : ایک شخص طواف کعبہ میں مصروف تھااوراسی عالم میں اس نے ایک نامحرم عورت کی طرف نامناسب نگاہ کی۔حضرت علی نے اس کواس حال میں دیکھ لیااوروہیں ایک ہاتھ اس کے منہ پرماراوہ شخص اسی طرح چہرے پرہاتھ رکھے عمربن خطاب کے پاس شکایت کرنے آیااورقصہ بیان کیا۔ عمربن خطاب نے اس کوجواب میںکہا: (قدرای عین اللہ وضرب یداللہ)تمہیں انہوں نے خداکی آنکھ سے دیکھااوردست خدانے مارا۔یعنی علی کی آنکھ جودیکھتی ہے اس میں خطانہیں کرتی کیونکہ ان کی آنکھ اعتقادخداسے لبریزہے جوغلطی نہیں کرتی۔اسی طرح علی کاہاتھ رضائے خداکے علاوہ حرکت نہیں کرتا۔ سوال کرنے والے نے جب اس حدیث کودیکھاتومطمئن ہوگیا۔ مزیدوضاحت: اس قسم کی تعبیریں حضرت مسیح کے لئے بھی ہیں مثلاروح اللہ،جوان کے احترام وتجلیل میں کہاجاتاہے نہ یہ کہ اس سے مرادیہ ہوکہ وہ خدا کی روح یاہاتھ یاآنکھ ہیں اورخدایہ چیزیں رکھتاہو۔
٥٢ کیامٹی اورپتھرپرسجدہ شرک ہے ایک مرجع تقلید(آیت اللہ العظمی آقائے خوئی)ایک دن مسجدنبوی میں نمازصبح اداکررہے تھے نماز سے فارغ ہوکرروضہ نبی ۖکے نزدیک تلاوت قرآن میں مصروف ہوگئے۔ ان کابیان ہے کہ میں بیٹھاقرآن پڑھ رہاتھاکہ ایک بندۂ مومن آکرنماز میں مصروف ہوگیا۔نمازکے دوران اس نے اپنی جیب سے سجدہ گاہ نکالی تاکہ اس پرسجدہ کرے،میں نے دیکھادوافرادجوبظاہرمصری تھے آپس میں کہنے لگے ا سکودیکھویہ پتھرپرسجدہ کرناچاہتاہے۔جیسے ہی وہ شیعہ مؤمن سجدے میں مہررکھ کرسجدہ کرناچاہتاتھا کہ ان میں سے ایک اٹھااورغصہ سے اس شیعہ کے سجدہ سے سجدہ گاہ چھیننے کے لئے لپکاکہ میں نے غصہ میں اس کاہاتھ پکڑلیااوراس سے کہاکہ کیوں اس مردمسلمان کی نمازباطل کرتے ہو؟وہ کہنے لگا:اس مقدس جگہ پریہ پتھرپرسجدہ کرناچاہتاہے۔ میں نے کہا:اس کے پتھرپرسجدہ کرنے میں کیاحرج ہے میں بھی پتھرپرسجدہ کرتاہوں۔ وہ کہنے لگا: پتھرپرسجدہ کیوں کرتے ہو؟ میں نے کہا: وہ شیعہ ومذہب جعفری کاپیروکارہے میں بھی مذہب جعفری کامعتقدہوں،کیاتم لوگ جعفربن محمدۖ امام صادق کوجانتے ہو؟ وہ کہنے لگے: ہاں۔ میں نے کہا: کیاوہ رسول کے اہل بیت سے ہیں؟ وہ کہنے لگے: ہاں۔ میں نے کہا: وہ ہمارے مذہب کے سربراہ وامام ہیں وہ فرماتے ہیں کہ زمین یااجزاء زمین پرسجدہ کروکسی اورچیزپرسجدہ جائزنہیں ہے۔ وہ سنی: تھوڑی دیرسوچنے کے بعدکہنے لگادین ایک ہے نمازایک ہے۔ میں نے کہا: اگردین ونمازایک ہی ہے توتم اہل سنت نمازکوحالت قیام میں مختلف طریقوں سے کیوں پڑھتے ہو،تم لوگوں میں سے بعض مذہب مالکی والے ہاتھ کھول کرنمازپڑھتے ہیں،تم میں سے بعض ہاتھ سینے پررکھتے ہیں،جب کہ دین سب کاایک ہے اوررسول خدا جونمازپڑھتے تھے وہ اکی ہی طرح کی تھی۔ لہذاتم لوگ اس سوال کے جواب میں کہوگے کہ ابوحنیفہ یاشافعی یامالکی یااحمدبن حنبل نے اسی طرح کاحکم دیاہے۔ وہ کہنے لگے: ہاں انہوں نے ہی ہمیں اس طرح کاحکم دیاہے۔ میں نے کہا: توجعفربن محمدامام صادق جوہمارے مذہب کے سربراہ ہیں اورابھی تمہارے اعتراف کے مطابق کہ خاندان رسالت سے ہیں،توہم کہتے ہیں کہ :(اہل البیت ادری بمافی البیت)یعنی گھروالے جوکچھ گھرمیں ہوتاہے اس سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں اوراقرباء رسول دوسروں سے زیادہ باخبرہوتے ہیں لہذاامام صادق فرماتے ہیں کہ اجزاء زمین پرسجدہ کروروئی یاریشم پرسجدہ جائزنہیں ہے۔لہذاہماراتمہارااختلاف فروع میںہے اصول میں نہیں ہے۔لہذااس میں کوئی شرک کاپہلوہرگزنہیں نکلتا۔لہذاجب بات یہاں تک پہنچی توجواہل سنت وہاں بیٹھے ہوئے تھے اورہمارے مذاکرے کوسن رہے تھے ان سب نے میری تصدیق کی۔ پھرمیں نے دوبارہ اس شخص سے جوشیعہ نمازی کے آگے سے سجدہ گاہ کواٹھاناچاہتاتھا کہا:تمہیں رسول خداسے حیاء نہیں آتی کہ جوان کی قبرکے نزدیک ان کے خاندان کے مذہب کے مطابق نمازپڑھ رہاہے اس کی نمازباطل کرناچاہتے ہوجیساکہ ان خاندان اہل بیت کے بارے میں ارشاد خداوندی ہوتاہے :انمایریداللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطھیرا(سورہ احزاب آیت٣٣)یعنی بس اللہ کاارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہربرائی کودوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپا ک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔ یہ سن کرباقی اطراف والے اس شخص کی مذمت کرنے لگے اورکہنے لگے یہ بے چارامسلمان جواپنے مذہب کے مطابق نمازپڑھ رہاہے اس کوکیوں اذیت دیناچاہتے ہو؟یہ سن کروہ دونوں مصری جلدی سے اٹھے اورمجھ سے معذرت کرتے ہوئے چلے گئے۔ تشریح: حقیقتا ان علماء وہابی کاکام کتناعجیب ہے کہ لوگوں کوگمراہ کرتے ہیں کہ تربت حسینی یاپتھریالکڑی وغیرہ پرسجدہ کرناشرک ہے ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیاوجہ ہے کہ تم لوگ چٹائی وفرش وغیرہ پرسجدہ کوشرک نہیں مانتے اوروہ سجدہ گاہ پرسجدہ کرناسی کی عبادت کرناہے جب کہ تم لوگ دیکھتے اورسنتے ہوکہ شیعہ لوگ نمازمیں تین مرتبہ سبحان اللہ کاوردکرتے ہیں یعنی وہ ذات ہرعیب وشرک سے منزہ ہے یایوں کہتے ہیں کہ سبحان ربی الاعلی وبحمدہ یعنی میراپروردگارہرعیب سے پاک ومنزہ ہے بزرگ ہے اورتمام حمدوستائش اسی کے لئے تم لوگوں کی زبان بھی عربی ہے عربی الفاظ کی خصوصیات کوبہترجانتے ہوکہ ان دونوں لفظوں میں بہت فرق ہے السجودعلیہ یعنی اس پرسجدہ اورالسجودعلیہ یعنی اس کے لئے سجدہ۔لہذااگرکسی چیزپرسجدہ کرتے ہیں تواس کے معنی یہ نہیں ہیں کہاس چیزکی پرستش کرتے ہیں بلکہ اس حال میں انتہائی خضوع وخشوع کے ساتھ عبادت انجام دیتے ہیں کیاتم لوگوں نے دیکھاہے کہ بت پرستوں نے کبھی بتوں پرسجدہ کی غرض سے پیشانی رکھی ہوبلکہ بت کواپنے سامنے رکھ کرزمین پرسجدہ کرتے ہیں۔اس سے بالکل واضح ہے کہ وہ بتوں کی پرستش کرتے ہیں نہ کہ زمین کی یااس چیزکی جس پرپیشانی رکھتے ہیں۔ نتیجہ: لہذااس جہت سے خاک یازمین پرسجدہ کرناگویااس کے لئے سجدہ نہیں ہے بلکہ سجدہ دراصل خداکے لئے ہے اس فرق کے ساتھ جوہمارے سربراہ مذہب امام صادق فرماتے ہیں کہ اجزاء زمین مثلامٹی کی سجدہ گاہ یالکڑی کی سجدہ گاہ پرسجدہ کروجب کہ اہل سنت کے علماء ابوحنیفہ وشافعی وغیرہ کہتے ہیں کہ جس پرنمازپڑھ رہے ہواسی پرسجدہ کرو۔ اس جگہ اہل سنت شیعوں سے سوال کرتے ہیں کہ مہرپرسجدہ کیوں کرتے ہوہماری طرح فرش پرکیوں نہیں کرتے؟تواس کاجواب دیتے ہوئے شیعہ کہتے ہیں کہ رسول خداکی سجدہ گاہ فرش نہیں تھا بلکہ آپۖ کے ساتھ تمام مسلمان خاک پرسجدہ کرتے تھے لہذاہم بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے خاک پرسجدہ کرتے ہیں(التاج الجامع ج٢ص١٩٢واحادیث صحاح ستہ ج١١ابوب سجود)۔ ہاں بعض روایات کے مطابق ضرورت کے وقت مثلا شدیدگرمی وغیرہ کے وقت لباس پربھی سجدہ کی اجازت دی گئی ہے جیساکہ انس بن مالک سے نقل ہے کہ: کنانصلی مع النبیۖ فیضع احدناطرف الثوب من شدة الحرفی مکان السجود یعنی ہم پیغمبراکرم کے ساتھ نمازپڑھ رہے تھے توہم میں سے بعض شدیدگرمی کی وجہ سے سجدہ گاہ کی جگہ اپنی پیشانی سجدہ کے وقت اپنے لباس کے ایک کونے پررکھتے تھے(التاج الجامع ج٢ص١٩٢واحادیث صحاح ستہ ج١١ابوب سجود)۔ اسی طرح کی دوسری روایات سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ضرورت کے وقت کپڑے پربھی سجدہ ہوسکتاہے۔ایسی حالت میں پیغمبرۖ بھی کپڑے پرسجدہ کرتے تھے یانہیں اس پریہ روایات دلالت نہیں کرتی۔ دوسرامطلب: اگراجزاء زمین پرسجدہ کرناشرک ہوتوکہناپڑے گاکہ فرشتوں کاسجدہ جوحکم خداسے حضرت آدم کے سامنے تھاوہ بھی شرک تھایاخانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نمازپڑھنا(نعوذباللہ)شرک ہے بلکہ شرک ان دوصورتوں میں توزیادہ شدیدہوگیاکیونکہ فرشتوں نے خودحضرت آدم کوسجدہ کیاتھا نہ کہ آدم پرسجدہ کیاتھا۔ اسی طرح تمام مسلمان کعبہ کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے ہیں نہ کہ خودکعبہ پر،جب کہ مسلمان نے بھی آدم کوسجدہ کرنے اورکعبہ کی طرف رخ کرکے سجدہ کرنے کوبھی شرک نہیں کہاکیونکہ حقیقت سجدہ یہ ہے کہ نہایت تواضع کے ساتھ خداکے سامنے اس کے فرمان کے مطابق ہو۔لہذاکعبہ کی طرف سجدہ کرناحکم خداپرعمل کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ ہے۔ اسی طرح آدم کوسجدہ کرنااولاتوحکم خداتھا،ثانیایہ شکرالہی تھا۔اسی طرح خاک وپتھرولکڑی پرسجدہ کرنادراصل سجدہ خداکے لئے ہے اوریہ سجدہ ایسی چیزوں پرہے جوزمین سے ہیں اوریہ حکم ہمارے رہنماوپیشواحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے دیاہے لہذااجزاء زمین پرسجدہ کرناشرک نہیں ہے۔ ٥٣ شیعہ عالم کارہنماتنظیم امربالمعروف ونہی عن المنکرسے مباحثہ ایک شیعہ عالم مدینہ میں تنظیم امربالمعروف ونہی عن المنکرکے دفترکسی کام سے گئے۔وہاں ان سے اوراس تنظیم کے رہنماکے درمیان شیعوں کے متعلق اس طرح سے گفتگوشروع ہوئی۔ رہنما: آپ لوگ قبرنبیۖ کے نزدیک نماززیارت کیوں پڑھتے ہیں جب کہ نمازغیرخداکے لئے شرک ہے؟ شیعہ عالم :ہم پیغمبرۖکے لئے نمازنہیں پڑھتے بلکہ نمازخداکے لئے پڑھتے ہیں اوراس کوثواب رسول خداۖ کی بارگاہ میں نثارکرتے ہیں۔ رہنما:قبرکے کنارے نمازپڑھناشرک ہے۔ شیعہ عالم: اگرنمازقبرکے کنارے پڑھناشرک ہے توکعبہ کے کنارے بھی نمازپڑھناشرک ہوناچاہئے کیونکہ حجراسماعیل میں حضرت ہاجرہ وحضرت اسماعیل کی قبرہے اوربعض دیگرپیغمبروں کی قبربھی ہیں کیونکہ یہ بات توشیعہ سنی سب نقل کرتے ہیں کہ وہاں بہت سے انبیاء دفن ہیں لہذابقول تم لوگوں کے حجراسماعیل میں بھی نمازپڑھناشرک ہے جب کہ تمہارے ہی مذہب کے رہنماؤں نے مثلا(حنفی ومالکی وشافعی وحنبلی)سب نے حجراسماعیل میں نمازیں پڑھی ہیں۔لہذا اس بناپرقبرستان میںنمازپڑھناشرک نہیں ہے(مناظرات فی الحرمین الشرفین سیدعلی بطحائی۔مناظرہ پنجم)۔ ایک دوسراوہابی: خودرسول خدانے قبرستان میں نمازپڑھنے سے منع کیاہے۔ شیعہ عالم: تم پیغمبراکرمۖ کیطرف جھوٹی حدیث منسوب کررہے ہوچونہ اگررسول خداقبرستان میں نمازپڑھنے کومنع کرتے یاحرام جانتے تویہ ہزاروں لاکھوں حجاج وزوارکیوں کرپیغمبر اکرمۖ کی مخالفت کرتے اوریہ فعل حرام خودمسجدنبوی میں جس میں رسول خدا،عمروابوبکرکی قبریں ہیں مرتکب ہوتے؟جب کہ ایسانہیں ہے کیونکہ پیغمبر سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں کہ آپ ۖاوربعض دوسرے صحابہ کرام قبرستان میں نمازپڑھاکرتے تھے۔ من جملہ ان روایات میں سے وہ روایت جوصحیح بخاری کی ج٣ص٢٦پررسول خداسے نقل ہوئی ہے کہ آپۖ نے عیدقربان کے دن قبرستان بقیع میں دوررکعت نمازپڑھی،نمازکے بعدآپ نے فرمایا:آج کے دن کی پہلی عبادت یہ دورکعت نمازہے،پھرجاکرقربانی کریںگے،جس نے بھی ایساکیا اس نے میری سنت کی پیروی کی۔ اس روایت کے مطابق رسول خدانے قبرستان میں نمازپڑھی لیکن تم لوگ قبرستان میں نمازپڑھنے سے منع کرتے ہواورکہتے ہوکہ اسلام نے اس کومنع کیاہے اگراسلام سے مرادشریعت محمدیۖ ہے توصاحب شریعت نے قبرستان میں نمازپڑھی ہے کیونکہ رسول کے زمانہ سے اب تک بقیع قبرستان ہے قبورکے کنارے نماز پڑھناجائزہے لیکن تم لوگ پیغمبرۖ کی مخالفت کرتے ہوئے اطراف قبورمیںنمازپڑھنے سے منع کرتے ہو۔ ٥٤ اس بارے میں ایک غم انگیزداستان ڈاکٹرسیدمحمدتیجانی جوسنی عالم دین تھے اوراب شیعہ ہوچکے ہیں،لکھتے ہیں کہ میں مدینہ میں بقیع کی زیارت کے لئے گیاہواتھا اوراہل بیت پرصلواتیں پڑھ رہا تھاکہ دیکھتاہوں کہ میرے قریب ایک بوڑھاشخص کھڑارورہاہے۔میں اس کے رونے سے سمجھ گیاکہ وہ شیعہ ہے ،وہ روبقبلہ ہوااورنمازپڑھنے لگا،اچانک ایک سعودی شرطہ غصہ سے بھرااس کے نزدیک آیاگویادورسے وہ اس کی حرکات دیکھ رہاتھا۔جیسے ہی وہ ضعیف سجدہ میں گیااس شرطہ نے ایسی لات ماری کہ وہ ضعیف الٹازمین پرجاگرا،اسے کافی دیرتک ہوش نہیں آیا،لیکن یہ شرطہ اسے اسی طرح مارتارہا۔ مجھے اس ضعیف کے حال پررحم آیامیں نے خیال کیاشایدوہ مرگیاہے،میری غیرت کوجوش آیامیںنے اس شرطہ سے کہا: اس بے چارے کوحالت نماز میں کیوں ماررہاہے؟ شرطہ مجھ سے کہنے لگا:تم خاموش رہو،مداخلت نہ کرو،ورنہ تمہارے ساتھ بھی ایساہی کروںگا۔ وہاں دیگرزواربھی تھے جوکہہ رہے تھے کہ یہ اس کی سزاہے یہ کیوں قبرستان میں نمازپڑھ رہاتھا۔میں نے غصہ میں کہا:کس نے قبرستان میں نمازپڑھنے کوحرام قراردیاہے اورپھرکافی طویل گفتگوکے بعدکہاکہ اگرقبرستان میں نمازپڑھنے کوحرام بھی ماناجائے توکیااس طرح سے ظلم وستم کرکے روکاجاتاہے یاپیارومحبت سے سمجھایاجاتاہے ابھی میں تمہیں ایک صحرانشین شخص کی داستان سناتاہوں۔پیغمبرۖ کے زمانے میں ایک بے شرم وحیاصحرانشین نے آکرپیغمبرۖکے سامنے سجدہ میںپیشاب کردیا۔ایک صحابی اٹھے کہ اس کی گردن اڑادیں۔پیغمبرنے بڑے غصے میں ا نہیں روکااورکہا:اس کواذیت نہ دو،جاؤپانی لاؤاوراس جگہ کوپاک کردو، لوگوں کے امورکوآسان کرنے کے لئے پیداکئے گئے ہونہ کہ لوگوں کواذیتیں دینے کے لئے۔اصحاب نے پیغمبرکے فرمان پرعمل کیا اورپھرپیغمبرنے اس صحرانشین کوآوازدے کربلایااوراپنے پاس بٹھاتے ہوئے اسے خوش آمدیدکہااورپھربڑے پیارومحبت سے اس سے کہا،بندہ خداکایہ خداکاگھرہے اس کونجس نہیں کرتے،وہ صحرانشین رسول خداکی محبت آمیزباتوں سے اس قدرمتاثرہواکہ فورامسلمان ہوگیا۔اس کے بعدجب بھی وہ مسجدمیں آتاپاک وصاف کپڑے پہن کرآتاتھا۔کیانگہبان حرمین کاحجاز میںاس طرح کارویہ ایک بوڑھے ضعیف شخص کے ساتھ صحیح ہے کیوں سیرت رسول کواپناطریقہ حیات قرارنہیںدیتے؟(کتاب پھرمیں ہدایت پاگیاص١١١تا١١٣)۔ ٥٥ فاطمہ زہرا کی مظلومیت کیوں؟ ایک وہابی،شیعہ عالم دین سے کہتاہے کہ تم لوگ قبر(فاطمہ زہرا)کے پاس یہ کیوں کہتے ہوکہ :السلام علیک ایتھاالمظلومة یعنی ہماراسلام ہوآپ پراے مظلومہ بی بی۔کس نے دختررسول فاطمہ زہراپرظلم وستم کیاہے؟ شیعہ عالم:اس ظلم وستم پرفاطمہ کی غم انگیزداستان خودتمہاری کتابوں میں لکھی ہے۔
وہابی: کونسی کتاب میں؟
شیعہ عالم: الامامة السیاسة جوابن قتیبہ دینوری کی لکھی ہوئی ہے اس کے تیرہویں صفحے پرلکھی ہے۔ وہابی: اس قسم کی کوئی کتاب ہمارے پاس نہیں ہے۔ شیعہ عالم : میں یہ کتاب بازارسے تمہارے لئے خریدکرلاتاہوں۔ وہابی نے میری بات مان لی،میں گیااورکتاب خریدکراس کے پاس لایااوراس کی جلداول کے صفحہ ١٩کوکھولااوراس سے کہالویہ پڑھو: لکھاتھاکہ جب ابوبکرکے زمانہ خلافت میں علی وبعض دیگرلوگ جوابوبکرکی بیعت نہیں کرناچاہتاتھے سب حضرت علی کے گھرمیںجمع تھے،ابوبکر نے عمربن الخطاب کوبلایااوران لوگوں سے بیعت لینے کوحضرت علی کے گھرروانہ کیا،عمردرحضرت علی پرآکربلندآوازسے کہتے ہیں کہ جوبھی اندرہے ابوبکرکے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے باہرآجائے جب کوئی باہرنہیں آیاتوعمرنے لکڑیاں منگوائیں اورکہنے لگے خداکی قسم اگرتم لوگ باہرنہیں آئے توا س گھرکوتم لوگوں سمیت جلاکرخاک کردوں گا،کسی نے عمرسے کہا: اے عمراس گھرمیںدختررسول فاطمہ بھی ہیں وہ کہنے لگے: میرے لئے کوئی فرق نہیں ۔چاہے فاطمہ ہی کیوں نہ ہوں۔مجبورابعض لوگ توخوف سے باہرآگئے مگرحضرت علی نہیںآئے۔اس روایت کے ذیل میں لکھاہے کہ جب ابوبکربسترمرگ پرتھے توکہتے تھے کہ کاش میں علی کے گھرکے درپرنہ جاتا،چاہے وہ مجھ سے اعلان جنگ ہی کیوں نہ کرتے۔ اس مقام پرشیعہ عالم نے اس وہابی سے کہا:ذراابوبکرکی بات پرتوجہ توکروکہ کس طرح وہ موت کے وقت افسوس اورپشیمانی کااظہارکررہے ہیں۔وہابی جواس استدلال کے سامنے لاجواب ہوکررہ گیاتھاکہنے لگا: ا س کتاب کامصنف ابن قتیبہ شیعیت کی طرف مائل تھا(مناظرات الحرمین الشرفین مناظرہ ٩)۔ شیعہ عالم:اگرابن قتیبہ مذہب تشیع کی طرف مائل تھاتوکتاب مسلم وصحیح بخاری کے بارے میں آپ کیاکہتے ہیں جن میں دوروایتیں ہیں کہ حضرت فاطمہ اپنی زندگی کے آخری مراحل میں ابوبکرسے ناراض اس دنیاسے گئی ہیںفھجرتہ فاطمة ولم تکلمہ فی ذالک حتی ماتت اس بارے میں صحیح مسلم کی جلد٥کے صفحہ ١٥٣ چھاپ مصراورصحیح بخاری کی جلد٥صفحہ ١٧٧چھاپ الشعب کے باب غزوة خیبر میں رجوع کریں(شرع نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدمعتزلی ج٦ص٤٦)۔ ٥٦ تربت امام حسین پرسجدہ کرنا ایک سنی عالم دین جودانش گاہ الازہرسے فارغ التحصل تھے،بنام(شیخ محمدمرعی انطاکی)جوسوریہ کے رہنے والے تھے انہوں نے مذہب تشیع کے سلسلے میں تحقیقات کرنے کے بعدایک کتاب لکھی لماذااخترت مذہب الشیعہ یعنی کیوں میں نے مذہب تشیع اختیارکیا۔اس میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ سنی عالم دین سے تربت حسینی وخاک پرسجدہ کرنے کے سلسلے میں اس طرح مناظرہ ہوا: محمدمرعی: میں اپنے گھرمیں تھاکہ میرے کچھ سنی دوست جودانش گاہ الازہرمیں میرے ہم کلامی تھے مجھ سے ملنے آئے اس ملاقات میں اس طرح بحث شروع ہوئی: سنی دوست : شیعہ لوگ تربت حسینی پرسجدہ کرتے ہیں۔لہذااس فعل کی بناپروہ لوگ مشرک ہیں۔ محمدمرعی: تربت پرسجدہ کرناشرک نہیں ہے کیوںکہ تربت پرسجدہ خداکے لئے کرے ہیں نہ کہ تربت کے لئے ۔اگربقول تمہارے فرضی محال کی بنابرکہ اس تربت میں کوئی ایسی چیزہے جس کی خاطروہ لوگ اس پرسجدہ کرتے ہیں نہ یہ کہ اس کے اوپرسجدہ کرتے ہیں تویقینااس طرح کافعل شرک ہے لیکن شیعہ اپنے معبودجوخداہے اس کے لئے سجدہ کرتے ہیں یعنی نہایت تواضع کے ساتھ خداکی بارگاہ میں خداکے لئے اس تربت پرپیشانی رکھتے ہیں۔ مزیدروشن عبارت: یعنی حقیقت سجدہ خداکے سامنے نہایت خضوع وخشوع ہے نہ کہ مہرکے سامنے۔ حاضرین میں سے ایک شخص جس کانام حمیدتھابولا: احسن ہوتم پرتم نے اچھاتجزیہ وتحلیل کیالیکن سوال ہمارے لئے باقی رہ جاتاہے کہ تم شیعہ لوگ تربت حسینی ہی پرسجدہ کوکیوں ترجیح دیتے ہو؟جس طرح تربت پرسجدہ کرتے ہودوسری چیزوں پرسجدہ کیوں نہیںکرتے؟ محمدمرعی: ہم جوخاک پرسجدہ کرتے ہیں وہ پیغمبر اکرمۖ کی اس حدیث کی بنیاد پرکرتے ہیں جوتمام مسلمین کی متفق علیہ حدیث ہے کہ پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا:جعلت لی الارض مسجدا وطہورا یعنی خدانے زمین کومیرے لئے سجدگاہ اورپاکیزہ قراردیاہے لہذااس پرتمام مسلمین کااتفاق ہے کہ سجدہ خالص مٹی پرجائز ہے اس لئے ہم لوگ خاک پرسجدہ کرتے ہیں۔ حمید: کس طرح مسلمین اس مسئلے پراتفاق نظررکھتے ہیں؟ محمدمرعی: جب رسول خدا نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی وہاں پہنچتے ہی آپ نے وہاں ایک مسجدبنانے کاحکم دیاکیااس مسجدکافرش تھا؟ حمید: نہیں۔ محمدمرعی: پس پیغمبر اکرمۖاوردیگرمسلمین نے کس چیزپرسجدہ کیا؟ حمید: اسی زمین کی خاک پرسجدہ کیا۔ محمدمرعی: رحلت رسول کے بعداورزمانہ خلافت ابوبکر وعثمان وعمرمیں مسلمان کس چیزپرسجدہ کرتے تھے؟کیااس وقت مسجدوں کے فرش تھے؟ حمید: اس وقت فرش نہیں تھے وہ لوگ اسی مسجدکی خاک پرسجدہ کرتے تھے۔ محمدمرعی: لہذاتم اپنے اس بیان سے اعتراف کرتے ہوکہ پیغمبراکرمۖ نے اپنی تمام نمازوں میں زمین پرسجدہ کیااسی طرح دیگرمسلمانوں نے بھی اس زمانے اوراس کے بعدوالے زمانوں میں خاک پرسجدہ کرتے رہے لہذااس سے معلوم ہوتاہے کہ خاک پرسجدہ صحیح ہے۔ حمید: میرااشکال شیعوں کی اس بات پرہے کہ وہ لوگ کیوں صرف خاک ہی پرسجدہ کرتے ہیں اوروہ خاک بھی جوزمین کربلاسے لی گئی ہواورا س سے مہربنائی گئی ہواس کواپنی جیب میں رکھ کرچلتے ہیں جہاں نمازپڑھتے اس کورکھ کراس پرسجدہ کرتے ہیں؟ محمدمرعی: اولاتوشیعوں کاعقیدہ یہ ہے کہ زمین کی ہرقسم کی چیزخواہ وہ خاک ہویاپتھرجائزہے اورثانیایہ کہ سجدہ کے لئے شرط ہے کہ سجدہ کی جگہ پاک ہو، لہذا نجس یاآلودہ زمین پرسجدہ صحیح نہیں ہے اسی لئے پاکیزہ خاک کی ایک سجدگاہ جس کومہرکہتے ہیں تیارکرتے ہیں اوراپنے ساتھ لے کرچلتے ہیں تاکہ اس سجدگاہ پرجوخالص خاک سے تیارکی گئی ہے اطمینان قلبی کے ساتھ اس پرسجدہ کریں کیونکہ شیعہ جس زمین یاخاک کے پاک ہونے کااطمینان نہ ہواس پرسجدہ نہیں کرتے۔ حمید: اگرشیعوں کامقصد خالص خاک پرسجدہ کرناہے توکیوں صرف خاک اپنے ساتھ نہیں رکھتے بلکہ اس سے مہربناتے ہیں اوراپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ محمدمرعی: کیونکہ مٹی کوساتھ رکھنے سے لباس خاک آلودہوتاہے اورکیوںکہ مٹی کوکہیں بھی کسی چیزمیں رکھیں وہ خاک آلودہوجاتی ہے اسی لئے مٹی میںپانی ملا کراس سے مہربناتے ہیں اوراپنے ساتھ رکھتے ہیں جونہ باعث زحمت ہے اورنہ اس سے لباس وہاتھ پیرآلودہ ہوتے ہیں۔ حمید: تم لوگ زمین کی چیزوں کے علاوہ قالین ،دری اورفرش پرسجدہ کیوں نہیں کرتے؟ محمدمرعی: یہ بات تومیں نے پہلے کہی کہ سجدہ کی غرض خداکے سامنے انتہائی خضوع وخشوع کرناہے چاہے خودخاک پرہویااس سے بنی ہوئی مہرپرہواس سے خدا کے سامنے زیادہ خضوع ہوتاہے کیونکہ خاک سب سے پست ترین چیزہے اورانسان کاسب سے عظیم ترین عضواس کی پیشانی ہے لہذاجب انسان اپنی عظیم ترین چیزکوپست ترین چیزخاک پرحالت سجدہ میںرکھتاہے تاکہ نہایت خضوع کے ساتھ خداکی عبات کرے اسی لئے مستحب ہے کہ سجدہ کی جگہ ہاتھ پیروں سے ذرانیچی ہوتاکہ زیادہ خضوع کوبیان کرے اسی طرح مستحب ہے کہ سجدہ میں ناک کی نوک بھی خاک پرلگے تاکہ زیادہ خضوع حاصل ہو۔لہذا خشک شدہ خاک یعنی مہرپرسجدہ کرنادوسری چیزوں کی نسبت بہترہے جن پرسجدہ جائزہوکیونکہ اگرانسان حالت سجدہ میں اپنی پیشانی قالین یاسوناچاندی یااس قسم کی دوسری چیزوں پررکھے وہ خضوع حاصل نہیں ہوتااورہوسکتاہے کہ اس طرح سے سجدہ کرناخداکے سامنے بندے کی پستی وتذلیل پربھی دلالت نہ کرے لہذااس وضاحت کے بعدآپ بتائیں کہ کیاوہ لوگ جوخداکے سامنے خضوع وخشوع کے ساتھ مہرپرسجدہ کرتے ہیں کافرومشرک ہیں یاقالین ورنگ برنگی کپڑوں پرسجدہ کرناجس سے تواضع نہیں رہتی،یہ تقرب خداہے؟جوکوئی بھی اس طرح کاتصورکرے وہ تصورباطل وبے اساس ہے؟ حمید: تووہ کلمات کیاہیں جواس مہرپرلکھے ہوتے ہیں جس پرشیعہ سجدہ کرتے ہیں؟ محمدمرعی: اولاتوسب مہروں پرلکھاہوانہیں ہوتاجن پرسجدہ کیاجاتاہے ۔ثانیاان میں سے بعض پریہ لکھاہوتاہے :سبحان ربی الاعلی وبحمدہ یعنی جوخود ذکرسجدہ کی طرف اشارہ ہے اوربعض پرلکھاہوتاہے کہ یہ تربت زمین کربلاسے لی گئی ہے تم کوخداکی قسم ذرایہ بتاؤکہ یہ لکھاہوناموجب شرک ہے؟ کیایہ سب لکھاہونااس خاک کے صحیح سجدہ سے خارج کردیتاہے؟ حمید: نہیں یہ ہرگزموجب شرک یااس پرسجدہ کے جائزہونے میں مانع نہیں ہے لیکن ایک سوال اورمیرے ذہن میں آتاہے ہ تربت کربلامیں کیاخصوصیت ہے جواکثرشیعہ اس پرسجدہ کوزیادہ باعث ثواب سمجھتے ہیں؟ محمدمرعی: اس کارازیہ ہے کہ ہمارے اماموں سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں کہ جس میںآیاہے کہ سجدہ کرناتربت امام حسین پردوسری تربتوں سے زیادہ اہمیت وثواب ہے۔امام صادق کاارشادہے: السجودعلی تربة الحسین یخرق الحجب السبع یعنی تربت حسین پرسجدہ کرناسات پردوں کودورکردیتا ہے(بحار الانوار ج٨٥ص١٥٣) یعنی نمازکی قبولیت کاباعث ہوتاہے اوراس کی آسمان کی طرف بلندی کاباعث ہوتاہے اورایک دوسری روایت ہے کہ آپ صرف تربت حسینی پرسجدہ کرتے تھے اپنے کوخداکے سامنے چھوٹاوذلیل ظاہرکرنے کی خاطر(بحارج٨٥ص١٥٨وارشادالقلوب ص١٤١)۔ لہذااس تربت حسینی کوایک قسم کی برتری حاصل ہے جودوسری تربتوں میںنہیںہے۔ حمید: کیاتربت حسینی پرنمازموجب قبول ہوتی ہے چاہے نمازباطل ہی کیوں نہ ہو؟ محمدمرعی: مذہب شیعہ میں ہے کہ اگرنمازکی صحت کی شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی فاسدہے تونمازباطل ہے اورایسی نمازقبول نہیں ہوگی لیکن جونمازتمام شرائط صحت پرمشتمل ہواگراس کاسجدہ تربت حسینی پرہوتوقبول ہونے کے علاوہ زیادہ ثواب کاباعث ہے۔ حمید: کیازمین کربلاتمام زمینوں حتی کہ مکہ ومدینہ کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جوتمام تربت حسینی پرسجدہ دوسری تربتوں کی نسبت افضل ہے؟ محمدمرعی: اس میں کیاعیب ہے کہ اگرخدااس طرح کی خصوصیت زمین کربلاکوعطاکردے۔ حمید: زمین مکہ جوحضرت آدم کے زمانے سے لے کراب تک کعبہ کی جگہ بنی ہوئی ہے اورزمین مدینہ جوجسدپیغمبرکواٹھائے ہوئے ہے کیاان کامقام زمین کربلاسے کمترہے ویسے یہ عجیب ہے کیاحسین اپنے جدپیغمبرۖ سے بڑھ گئے ہیں؟ محمدمرعی: ایساہرگزنہیں ہے بلکہ عظمت وشرافت حسین اپنے جدرسول اکرم کی عظمت مقام وشرافت کے سبب سے ہے لیکن خاک کربلاکوسب زمینوں پربرتری حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امام حسین نے اپنے جدکی راہ میں اس زمین پرشہادت پیش کی ہے اورمقام حسین مقام رسالت کاایک جزہے لیکن اس جہت سے کہ آپ اورآپ کے اصحاب وانصارنے خداکی راہ میں اسلام کوزندہ کرنے وارکان دین کواستوارکرنے اوران کے تحفظ کرنے میں اپنی جانوں کونثار کرکے شہادت حاصل کی خداوندعالم نے اسی وجہ سے امام حسین کوتین خصوصیتیں عطاکی ہیں۔ پہلی یہ کہ دوسرے آئمہ آپ کی نسل سے قرارپائے۔ دوسری یہ کہ ان کی تربت میں شفاہے تیسری یہ کہ ان کے روضہ اقدس پرکوئی جاکردعاکرے تومستجاب ہوتی ہے۔کیاتربت حسینی کواس طرح کی خصوصیت عطاکرنے میں کوئی اعتراض ہے؟کیایہ کہنے سے کہ زمین کربلا،ارض مدینہ سے افضل ہے یہ معنی نکلتے ہیں کہ حسین پیغمبرپربرتری رکھتے ہیں جیساکہ آپ لوگ ہم پراشکال کرتے ہیں حالانکہ مطلب اس کے برعکس ہے یعنی تربت حسینی کااحترام خودامام حسین کااحترام ہے اورامام حسین کااحترام ان کے جدرسول خدااوران کااحترام ہے جب میری بات اس حدتک پہنچی توایک دوست جومیری باتوں سے قانع ہوچکاتھاخوشی کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھااورمجھ سے شیعوں کی کتابوں کی دوخواست کی اورمجھ سے کہنے لگا: تمہاری باتیں بہت اچھی تھیں میں تواب تک سمجھتاتھا کہ شایدشیعہ لوگ امام حسین کورسول خداسے بڑامانتے ہیں اب میرے سامنے حقیقت واضح ہوگئی ہے اورتمہاری شیرین گفتگوکاشکریہ اورآج سے میں خودتربت کربلاکی ایک مہراپنے ساتھ رکھوں گااوراس پرنماز پڑھاکروں گا(کتاب لماذااخترت مذہب التشیع محمدمرعی انطاکی ص٣٤١تا٣٤٨)۔
٥٧
اگرپیغمبراسلامۖ کے بعدکوئی پیغمبرہوتاتوکون ہوتا؟
ایران کے ایک آیت اللہ العظمی سیدعبداللہ شیرازی فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مکہ میں بات السلام کے سامنے کتاب فروش کے پاس کھڑاہواتھا کہ ایک سنی عالم دینی آئے اورمجھے سلام کرکے مجھ سے اس طرح گفتگوشروع کی:
سنی عالم: آپ لوگ پیغمبراکرمۖ کی اس حدیث کے بارے میں کیاکہتے ہیں: لوکان نبی غیری لکان عمر یعنی اگرمیرے بعدکوئی پیغمبرہوتاتووہ عمربن خطاب ہوتا۔
میں نے کہا: پیغمبرنے اس قسم کی حدیث ہرگزنہیں کہی ہے بلکہ یہ حدیث جعلی وجھوٹ ہے۔
سنی عالم: دلیل کیاہے؟
میںنے کہا:تم لوگ حدیث منزلہ کے بارے میں کیاکہتے ہوکہ اوراس حدیث کے ہمارے اورتمہارے درمیان قطعی ہونے کے بارے میں کیاکہتے ہوجورسول خدانے حضرت علی کے بارے میں ارشادفرمائی ہے: یاعلی انت منی بمنزلة ھارون من موسی الاانہ لانبی بعدی یعنی اے علی!تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جوہارون کوموسی سے تھی مگریہ کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوگا(صحیح مسلم ج٣ص٢٣٥،صحیح بخار ج٢ص١٨٥،مسنداحمدج١ص٩٨)۔
سنی عالم: ہاں یہ حدیث ہم لوگوں کے نزدیک مسلم وقطعی ہے۔
میں نے کہا: لہذااس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اگرپیغمبراکرمۖ کے بعدکوئی نبی ہوتاتووہ حتماعلی ہوتے۔ لہذااس حدیث کی بناپروہ حدیث جوتم نے ابھی نقل کی ہے کہ پیغمبر نے فرمایاکہ اگرمیرے بعدکوئی نبی ہوتاتووہ عمرہوتاجھوٹی وجعلی ہے۔
وہ اس جواب کے سامنے حیرت زدہ ہوکررہ گیااورکچھ نہ کہہ سکا(الاحتجاجات العشرة ص١٦)۔
٥٨
مسئلہ متعہ
مرحوم آیت اللہ سیدعبداللہ شیرازی فرماتے ہیں کہ اس سنی عالم نے مجھ سے سوال کیاکہ آپ لوگ متعہ کوجائزجانتے ہیں؟
میںنے کہا: ہاں۔
سنی عالم: کیادلیل ہے؟
میں نے کہا: عمربن خطاب کے اس قول کی بناپرجوانہوں نے کہاکہ: متعتان محللتان فی زمن رسول اللہ وانااحرمھما یعنی دومتعہ حج تمتع وازدواج موقت جو پیغمبراکرمۖ کے زمانے میں حلال تھے لیکن میں ان دوکوحرام کرتاہوں اوربعض دیگر مقامات پرعمریوں کہتے ہیں: متعتان کانتاعلی عھدرسول اللہ واناانھی عنھما واعاقب علیھما متعةالحج ومتعة النسائ(تفسیرفخررازی ذیل سورہ نساء آیت ٢٤)یعنی دومتعہ جوعہدرسول اللہ میں حلال تھے میں ان سے منع کرتاہوں اوران پر عمل کرنے والوں کوسزادوں گاوہ دومتعہ ہیں: حج تمتع اورعورتوں سے متعہ۔لہذ١خودعمرکی یہ بات قطع نظرقرآن وروایات کے جوان کے جوازپردلالت کرتی ہے کہ متعہ زمانہ رسول میںحلال تھالیکن عمرنے اس کوحرام کیاہے لہذامیں آپ سے پوچھتاہوں کہ عمرنے کس دلیل کے تحت متعہ کوحرام قراردیا؟ کیا(نعوذ باللہ)وہ رسول خداکے بعدپیغمبر ہوگئے تھے کہ خدانے انہیں پیغام بھیجاکہ جوانہوں نے متعہ کوحرام کردیا؟یاعمرپرکوئی وحی نازل ہوئی تھی پھرکیوں انہوں نے متعہ کوحرام قراردیاتھا جب کہ حلال محمدحلال الی یوم القیامة وحرامہ الی حرام الی یوم القیامة یعنی حلال محمد تاروزقیامت حلال ہے اورحرام محمدتاروزقیامت حرام ہے۔کیاعمراس کے طرح کے تغیرات بدعت نہیں ہیں جب کہ رسول خدانے بھی فرمایاکہ ہربدعت گمراہی ہے اورگمراہی آتش دوزخ میںجلنے کاسبب بنے گی۔ لہذامسلمان کس بناپرعمر کی ان بدعتوں پرعمل کرتے ہیں اوررسول خداکی سنت سے دوری کرتے ہیں؟(الاحتجاجات العشرة ص٧)وہ سنی عالم میری ان باتوں کے سامنے بے جواب ہوکررہ گیا۔مؤلف کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں کافی بحثیں ہیں جس کی تفصیلی بحث فقہ میں ہے جیساکہ سورہ نساء کی آیت ٢٤ خود جوازمتعہ پردلالت کرتی ہے۔ہم یہاں پرفقط امام علی کی اس روایت کے بیان پراکتفاکریں گے کہ :ان المتعة رحمہ رحم اللہ بھاعبادہ ولولانھی عمر مازنی الاشقی یعنی متعہ ایک قسم کی رحمت ہے جس کے ذریعے خداوندعالم نے بندوں پرلطف وکرم کیاہے اگرعمرنے اس کومنع نہ کیاہوتاتوسوائے شقی افراد کے کوئی زنانہ کرتا(تفسیرثعلبی وتفسیرطبری ذیل سورہ نساء آیت٢٤)۔
٥٩
شیعہ عالم کامسیحی عالم سے مباحثہ
قرآن مجیدکے سورہ عبس کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں کہ :عبس وتولی،ان جائہ الاعمییعنی اس نے منہ بسورلیااورپیٹھ پھیرلی کہ اس کے پاس ایک نابینا آگیا۔ لہذاخوداہل تسنن کی کتابوں میں اس آیت کی شان نزول کے سلسلے میں نقل ہوئی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ پیغمبرۖ اکرم کچھ سرداران قریش کے ساتھ گفتگومیں مصروف تھے تاکہ ان کودعوت اسلام دیں اسی اثنامیں ایک مؤمن فقیربنام عبداللہ ملتوم پیغمبرۖ کے پاس آیااورکہنے لگااے خداکے رسول مجھے آیات قرآنی سکھائیں توپیغمبراکرمۖ اس پرناراض ہوئے توخداوندعالم نے پیغمبرۖ کواس کام پرسرزنش کی جب کہ روایات شیعہ کے مطابق یہ آیات عثمان کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس پرخداکی طرف سے سرزنش ہوئی ہے کیونکہ اس نے اس نابینافقیرسے بے اعتنائی کی تھی(تفسیربرہان ونورالثقلین وغیرہ)اب وہ مناظرہ جوشیعہ عالم ومسیحی عالم کے درمیان ہواملاحظہ کریں:
مسیحی عالم: حضرت عیسی تمہارے پیغمبرۖ سے بہترتھے اس لئے کہ تمہارے رسول ۖنعوذباللہ کچھ بداخلاق تھے،نابیناؤںس منہ پھیرلیتے تھے جیساکہ تمہارے قرآن کے سورہ عبس میں ذکرہے جب کہ ہمارے پیغمبرعیسی اس قدرخوش اخلاق تھے کہ جہاں بھی نابینایاکسی بھی بیماری میں کسی کومبتلاپاتے تونہ یہ کہ اس کی طرف سے منہ پھیرلیتے تھے بلکہ اس کوشفادیتے تھے۔
شیعہ عالم: ہم شیعہ معتقدہیں کہ یہ آیت بداخلاق عثمان کے بارے میں نازل ہوئے ہے کیونکہ پیغمبراکرمۖ توکافروں تک سے خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے تومومنین سے توبدرجہ اولی اخلاق سے پیش آتے تھے۔ چنانچہ اسی قرآن میں جس کاتم نے نام لیاہے خداوندعالم پیغمبرکی شان میں فرماتاہے:انک لعلی خلق عظیم۔ یعنی بیشک اے رسول ۖآپ ہی اخلاق عظیم پرفائزہیں اوردوسری جگہ قرآن میں ارشادفرماتاہے :وماارسلناک الارحمة للعالمین یعنی اے رسول! ہم نے آپ کولوگوں میں نہیں بھیجامگریہ کہ عالمین کے لئے رحمت قراردیاہے۔
مسیحی عالم: میں نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی ہے بلکہ ایک مسلم خطیب سے بغدادکی مسجدمیں سنی ہے۔
شیعہ عالم: وہی جومیں نے کہاکہ ہم شیعوں کے نزدیک مشہوریہی ہے کہ سورہ عبس کی یہ ابتدائی دوآیتیں عثمان سے مربوط ہیں۔ بعض بنی امیہ کے راویوں نے جوعثمان کی حفاظت کرتے تھے اس کی نسبت پیغمبرۖ کی طرف دی ہے۔
بہ عبارت دیگر: سورہ عبس کی آیات میں اس چیزکی تصریح بھی نہیں ہے کہ وہ نابیناشخص کون تھا مگرسورہ قلم کی آیت٤ اورسورہ انبیاء کی آیت ١٠٧ میںاس کاذکرہے کہ یہ آیات پیغمبرکے بارے میں نہیں تھیں۔ امام صادق فرماتے ہیں کہ یہ سورہ عبس کی دوآیتیں اس وقت نازل ہوئی جب بنی امیہ میں سے ایک شخص پیغمبرۖ کے پاس بیٹھاہواتھا اوروہ نابینا شخص جس کانام ابن ملتوم تھا جن کودیکھ کروہ صحابی منہ پھیرکراس کی طرف پشت کرکے بیٹھ گیا۔اب تواس مسیحی عالم سے کچھ نہیں کہاجاسکااورخاموش ہوکربیٹھ گیا(مجمع البیان ج١٠ص٤٣٧)۔
٦٠
شیخ مفیدکاقاضی عبدالجبارسے مکالمہ
ایک شیعہ بزرگ عالم محمدبن محمدبن نعمان جوشیخ مفیدکے نام سے مشہورتھے ١١ذی القعدہ سال ٣٣٦یا٣٣٨کوسوبقہ نامی دیہات جوشمال بغدادسے دس فرسخ کے فاصلے پرہے ولادت ہوئی اپنے والدکے ساتھ (جومعلم تھے) بغدادآئے اورتحصیل علم کی یہاں تک کہ مذہب تشیع کے بڑے عالم دین اورتمام اسلامی فرقوں کے معتمدعلیہ قرارپائے ،حلامہ حلی شیخ مفیدکے بارے میں فرماتے ہیں کہ مفیدمذہب تشیع کے رہبرواستادتھے کیونکہ جوبھی ان کے بعدآیاان کے علم سے فیضیاب ہوتارہا(رجال نجاشی ص٣١١)ابن کثیرشامی اپنی کتاب البدایة والنہایة میں کہتے ہیں کہ شیخ مفیدشیعیت کادفاع کرنے والے مصنف تھے ان کی مجلس ودروس میں مختلف مذاہب کے علماء شرکت کیاکرتے تھے(البدایة والنہایة ج١٣ص١٥)شیخ مفیدنے دوسوسے زیادہ مختلف فنون میں کتابیں تالیف کی ہیں نجاشی جونسب شناس معروف ہیں وہ شیخ مفیدکی تالیفات ١٧٠سے زیادہ کے نام لیتے ہیں(مقدمہ اوائل المقالات تبریزسال١٣٧١ھ)۔
شیخ مفیدنے شب جمعہ ماہ رمضان ٣سال ٤١٣ھ بغدادمیں اس دنیاکوخداحافظ کہاآپ کی قبرکاظمین میںامام جوادکے جوارمیں ہے شیخ مفیدفن مناظرہ میں کافی ذہین وقوی تھے ان کے محکم ومستدل مناظرات میں سے یہاں ایک مناظرہ نمونہ کے طورپرذکرکرتے ہیں بقول بعض لوگوں کے کہ اسی مناظرے کے بعد سے آپ کوشیخ مفیدکالقب ملا۔شیخ مفیدکے زمانے میں ایک بڑاسنی عالم دین بغدادمیںدرس دیاکرتاتھا جس کانام قاضی عبدالجبارتھا۔ ایک دن وہ اپنے شاگردوں کودرس دے رہاتھا اس کے درس میں شیعہ وسنی سب شاگردحاضرتھے۔ اس دن شیخ مفیدبھئی اس کے درس میںجاکربیٹھ گئے۔ قاضی جس نے آج تک شیخ مفیدکونہیں دیکھاتھا،مگران کے اوصاف سنے تھے،کچھ لمحات گزرنے کے بعدشیخ مفید،قاضی سے کہتے ہیں کہ اجازت ہے کہ ان شاگردوں کے سامنے آپ سے کچھ سوالات کروں؟
قاضی :پوچھو۔
شیخ مفید: یہ حدیث جوشیعہ پیغمبر اکرمۖسے نقل کرتے ہیں کہ آپۖ نے صحراغدیرمیں علی کے بارے میں فرمایاکہ :من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ'یعنی میں جس کامولاہوں اس کایہ علی مولاہے۔کیاصحیح ہے یاشیعوں نے جعلی بنائی ہے؟
قاضی: یہ روایت صحیح ہے۔
شیخ مفید: لفظ مولاسے اس روایت میں کیامرادہے؟
قاضی: سردارومولاوآقا۔
شیخ مفید: اگرایساہے توپیغمبرۖ کے قول کے مطابق حضرت علی سب کے آقاومولاہیں توپھرسنی وشیعوں کے درمیان اختلاف ودشمنیاں کیوں ہیں؟
قاضی: اے برادریہ حدیث غدیربطورروایت ومطلب نقل ہوئی ہے جب کہ خلافت ابوبکر(درایت(وایک امرمسلم ہے اورایک عاقل انسان روایت کی خاطر درایت کوترک نہیں کیاکرتا۔
شیخ مفید: آپ پیغمبرۖ کی اس حدیث جوعلی کی شان میں کہی کیاکہتے ہیں:(یاعلی حربک حربی وسلمک سلمی)یعنی اے علی تمہاری جنگ میری جنگ ہے اورتمہاری صلح میری صلح ہے۔
قاضی: یہ حدیث صحیح ہے۔
شیخ مفید: لہذااس بناپرجنہوں نے جنگ جمل تیارکی تھی مانندطلحہ ،زبیروعائشہ وغیرہ اورعلی کے ساتھ لڑے تھے لہذااس حدیث کے مطابق جس کی خود ابھی آپ نے تصدیق کی ہے گویاخودرسول خداسے جنگ کرنانہیں ہے اوررسول خداسے توجنگ کرنے والے کافرہیں۔
قاضی: برادرعزیزطلحہ وزبیروغیرہ نے توبہ کرلی تھی۔
شیخ مفید: جنگ جمل تودرایت وقطعی ہے مگران کاتوبہ کرناروایت ہے جوصرف سنی گئی ہے اورابھی آپ کے قول کے مطابق درایت کوروایت کے پیچھے نہیں چھوڑاجاسکتا اورمردعاقل روایت کے پیچھے درایت کونہیں چھوڑتا۔
قاضی: کافی دیرتک سوچتارہاجب کوئی جواب نہ بن سکاتوکہنے لگاتم کون ہو؟
شیخ مفید: میں آپ کاخادم محمدبن محمدبن نعمان ہوں۔
قاضی: اسی وقت منبرسے نیچے اترااورشیخ مفیدکاہاتھ پکڑااوراپنی جگہ پربٹھاتے ہوئے کہا: انت المفیدحقا۔ یعنی تم مفیدہوسب کے لئے۔ باقی دیگرعلماء جواس درس میں بیٹھے ہوئے تھا قاضی کی اس حرکت پرکافی ناراض ہوئے اورآپس میں باتیں کرنے لگے۔ قاضی نے ان سب سے کہامیں تواس شیخ مفیدکے جوابات میں بے جواب ہوکررہ گیاہوں لہذااگرتم میںسے کسی کے پاس ان کاجواب ہے تودیدو۔کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں اٹھااس طرح شیخ وہ مناظرہ جیت گئے اورا س درس میں لوگوں کی زبانوں پرآپ کے لقب مفیدکاوردہونے لگا(مجلس المومنین ج١ص٢٢٠۔٢٠٢مجلس پنجم)۔
شیخ مفیدکاعمربن خطاب سے مکالمہ
ہم قرآن کے سورہ توبہ کی آیت نمبر٤٠میں پڑھتے ہیں:الاتنصروہ فقدنصرہ اللہ اذاخرجہ الذین کفرواثانی اثنین اذھمافی الغاراذیقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا فانزل اللہ سکینہ علیہ وایدہ بجنود لم تروھا۔
یعنی اگرتم لوگ اس رسول کی مددنہیں کروگے توکوئی پرواہ نہیں خدامددگارہے۔ اس نے تواپنے رسول کی اس وقت بھی مددکی جب اس کوکفارنے گھرسے باہر نکال دیاتھا،اس وقت صرف دوآدمی تھے،جب وہ دونوں غارثورمیں تھے اوررسول اپنے دوسرے ساتھی کواس کی گریہ وزاری پرسمجھارہے تھے کہ گھبراؤ نہیں خدایقینا ہمارے ساتھ ہے توخدانے ان پراپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اورفرشتوں کے لیسے لشکرسے ان کی مددکی جن کوتم لوگوں نے دیکھاتک نہیں تھا۔
علماء اہل تسنن اس آیت کوفضائل ابوبکرکے معروف دلائل میںنقل کرتے ہیں اورابوبکرکوغارکادوست کے نام سے پکارتے ہیں اورا سکی خلافت کی تائید کے لئے اس کوپیش کرتے ہیں شعراء ان کواسی عنوان سے یادکرتے ہیں ان کی تعریف کرتے ہیں مثلا سعدی کہتاہے:
اے یارغارسیدوصدیق وراہبر
مجموعہ فضائل وگنجینہ صفا
مردان قدم یہ صحبت یاراں نہادہ اند
لیکن نہ ہمچنان کہ تودرکام اژدھا
(بوستان سعدی)
علامہ طبرسی کتاب احتجاج وکراجکی کنزالفوائدمیں شیخ ابوعلی حسن بن محمدرقی نقل کرتے ہیں کہ شیخ مفیدفرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن خواب میں دیکھاکہ کہیں جارہاہوں ناگاہ میری نظرلوگوں کی ایک جمعیت پرپڑی جوایک شخص کے گردجمع تھے وہ شخص لوگوں کے لئے قصے نقل کرتاتھا میں نے لوگوں سے پوچھاوہ شخص کون ہے؟ لوکوں نے بتایاکہ وہ عمربن خطاب ہے ۔میں عمرکے پاس گیاتودیکھاکہ ایک شخص عمرسے بات کررہاہے مگرمیں ان کی گفتگونہیں سمجھ سکا۔ میں ان کی بات کاٹتے ہوئے بولا: ابوکرکی برتری اس آیت: اذھمافی الغار میں کیادلیل ہے؟ اس میں آیت میں چھ نکتے ہیں جوابوبکرکی فضیلت
کوبیان کرتے ہیں: نکتہ اول: یہ کہ اس آیت میںپیغمبراکرمۖ کے بعدابوبکرکودوسرا(ثانی اثنین)پکاراگیاہے۔نکتہ دوم: یہ کہ اس آیت میں رسول وابوبکرکوایک ساتھ جوان کی دوستی کی دلیل ہے اذھمافی الغار نکتہ سوم: یہ کہ اس آیت میں ابوبکرکوپیغمبرکارفیق کے نام سے پکاراگیاہے جوابوبکرکی بلندی کی دلیل ہے اذیقول لصاحب نکتہ چہارم: یہ کہ خداوندعالم نے ابوبکرکوخبردی کہ خداہم دونوں کایارومددگارہے بطورمساوی ان اللہ معنا نکتہ ششم: خداوندعالم نے اس آیت کے ذریعے سکون وآرام کی خبردی کیونکہ پیغمبرکوتوآرام وسکون کی ضرورت نہیں ان کوتوپہلے ہی سے حاصل تھافانزل اللہ سکینہ علیہ۔
لہذااس آیت کے یہ چھ نکتے تھے جوابوبکرکی خلافت پردلالت کرتے ہیں جن کوتم ہرگزردنہیں کرسکتے۔ شیخ مفیدکہتے ہیں کہ میںنے کہاکہ بیشک تم نے ابوبکرسے رفاقت کاحق اداکردیالیکن میںانشاء اللہ خداکی مددسے ان تمام چھ نکتوں کے جوابات دوں گااس تیز ہواکی طرح جوطوفانی دن میں خاک کواڑادیاکرتی ہے اوروہ جواب یہ ہیں۔ نکتہ اول کاجواب: یہ ہے کہ ابوبکرکودوسرانفرقراردینااس کی فضیلت پردلالت نہیں کرتاکیونکہ جب مومن کے ساتھ کہیں کافرکھڑاہوتومومنین کی بات کرتے وقت کہاجائے گاکہ وہ دوسراکافرہے نہ کہ یہ دوسراہونااس کی فضیلت ہے۔ نکتہ دوم کاجواب: یہ کہ ابوبکرکارسول خداکے ساتھ ہونااس کی فضیلت پردلالت نہیں کرتا جیساکہ پہلے ذکرکیاکہ ایک ساتھ جمع ہونافضیلت نہیں ہے کیوں کہ بعض اوقات مومن وکافرجمع ہوتے ہیں کیونکہ مسجد جس کی فضیلت غارثورسے زیادہ ہے اس میں بھی پیغمبرۖ کے پاس مومن ومنافق آتے تھے اورایک ساتھ جمع ہوتے تھے جیساکہ سورہ معارج کی آیت نمبر٣و٣٧میں پڑھتے ہیں فمال الدین کفروقبلک مھطعین عن الیمین وعن الشمال عزین یعنی ان کافروں کوکیاہو گیاہے کہ دائیں سے بائیں آپ کے گردگروہ درگروہ جمع ہورہے ہیں اسی طرح کشتی نوح میں پیغمبربھی تھے اورشیطان بھی تھاان دونوں کاایک جگہ جمع ہونا شیطان کی فضیلت پردلالت نہیں کرتا۔ تیسرے نکتہ کاجواب: اس کارسول کی مصاحبت میں رہناباعث فضیت نہیں ہے کیونکہ مصاحبت کے معنی ساتھ کے ہیں کیونکہ بعض اوقات مومن کاساتھ ہوتاہے اورکبھی کافرکاساتھ ہوتاہے جیساکہ خداندعالم سورہ کہف کی آیت ٣٧میں فرماتاہے کہ :قال لہ صاحبہ وھویحاورہ اکفرت بالذی خلقک من تراب یعنی اس کاساتھی جواسی سے باتیں کررہاتھا کہنے لگاکہ کیاتواس پروردگارکامنکرہے جس نے تجھے مٹی سے پیداکیا۔ چوتھے نکتہ کاجواب: پیغمبرۖ کاابوبکرسے کہناکہ لاتحزنیہ ابوبکرکی خطاء کی دلیل ہے نہ اس کی فضیلت ہے کیونکہ ابوبکرکاحزن یااطاعت تھا یاگناہ اگراطاعت تھا توپیغمبرۖ کواس سے منع نہیں کرناچاہئے تھالہذاوہ حزن گناہ تھا جس سے رسول خدانے منع کیا۔ پانچویں نکتہ کاجواب: پیغمبرۖ کایہ کہناکہ ان اللہ معنا اس بات پردلیل نہیں ہے کہ ہم دونوں ساتھ ہیں بلکہ اس سے مرادتنہارسول خداکی ذات ہے رسول خدانے اپنے کولفظ جمع سے تعبیرکیاہے جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن میں خودکولفظ جمع سے تعبیرکیاہے ان نحن نزلناالذکروانالہ الحافظون(سورہ حجرآیت٩) یعنی ہم نے ہی قرآن کونازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ چھٹے نکتہ کاجواب: تم نے جویہ کہاکہ خدانے ابوبکرپرسکون وآرام کونازل کیایہ کہناظاہرآئیہ کے سباق کے خلاف ہے کیونکہ سکینہاس کے لئے نازل ہواجوآخر آیت کے لحاظ سے رسول خداکی ذات ہے اوروہ لشکرجوان کی مددکوآیاتھا،کیونکہ پیغمبرہی کے شایان شان تھاکہ ان کے لئے سکینہ نازل ہوکیونکہ قرآن میں ایک دوسری جگہ پیغمبرکے ساتھ سکینہ میں دوسرے مومنین بھی شامل ہیں جس میں دونوں کانام آیاہے جیساکہ ارشادہوتاہے فانزل اللہ سکینہ علی رسولہ وعلی المومنین(سورہ فتح آیت٢٦)یعنی خدانے اپنے رسول اورمومنین پرسکون نازل کیالہذاتم اگراس آئیہ غارکے ذریعے ان کی رفاقت پراستدلال نہ کروتوبہترہے۔ شیخ مفیدکہتے ہیں کہ عمرجواب نہ دے سکاتولوگ ان کے گردسے منتشرہوگئے اورمیں خواب سے بیداہوگیا(احتجاج طبرسی ج٢ص٣٢)۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ٦٢ آئیہ غارکے سلسلے میں مامون کاایک سنی عالم سے مکالمہ مامون(ساتواں خلیفہ عباسی)نے قاضی وقت یحیی بن اکثم کوحکم دیاکہ فلاں دن فلاں مقام پرتمام برجستہ علماء کوہماری مجلس میں حاضرکرو۔ یحیی بن اکثم نے تمام سنی علماوراوین کومامون کی اس مجلس میں حاضرکیا۔ جب سب جمع ہوگئے تومامون نے احوال پرسی کے بعدکہا: میںنے آپ سب کویہاں اس لئے جمع کیاہے کہ آپس میں بیٹھ کرامامت کے بارے میں آزادنہ بحث کریں تاکہ سب پرحجت تمام ہوجائے۔ اس مجلس میں سب علماء ابوبکروعمرکی برتری کی باتیں کررہے تھے تاکہ ان کاخلیفہ رسول خداہوناثابت کرسکیں۔ مامون ان کے کہنے کو(روشن تربیان سے)ردکرتارہا۔ یہاں تک کہ اس میں سے ایک عالم جس کانام اسحاق بن حمادبن زیدتھا میدان مناظرہ میں آیااورمامون سے کہنے لگا: خداوندعالم ابوبکرکے بارے میں فرماتاہے: ثانی اثنین اذھمافی الغاراذیقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا یعنی پیغمبر خدامکہ سے ہجرت کے وقت غارثورمیں چھپ گئے تھے گویاآپ دوفرد تھے دونوں غارمیں تھے۔ پیغمبرنے اپنے دوست ابوبکرسے کہا: محزون نہ ہوخداہمارے ساتھ ہے لہذاخدانے انہیں سکون قلبی عطاکیااورخداوندعالم نے ابوبکرکو پیغمبرکادوست اورمصاحب کے نام سے پکاراہے۔ مامون: عجیب بات ہے کہ تم لغت وقرآن کے سلسلے میں کتنی کم معرفت رکھتے ہوکیاکافرمومن کامصاحب ودوست نہیں ہوسکتا؟لہذاایسی صورت میں یہ مصاحبت کافرکے لئے افتخارکاباعث ہوگی؟جیساکہ قرآن سورہ کہف کی آیت نمبر٣٧میں ارشادہوتاہے: قال لہ صاحبہ وھویحاورہ اکفرت بالذی خلقک من تراب یعنی مومن دوست اپنے دوسرے ثروتمندومغروردوست سے کہنے لگاکہ کیااس خداکاجس نے تمہیں خاک سے پیداکیاہے انکارکرتے ہو۔ لہذا اس آیت کے مطابق مومن کافرکے ساتھ مصاحبت ودوست ہوسکتاہے اورفصحاء عرب کے اشعاربھی اس بات کی تائیدکرتے ہیں کہ بعض اوقات انسان کوحیوان کے ساتھ مصاحب کے عنوان سے ذکرکیاگیاہے لہذ١فقط مصاحب ہرگزان کے افتخارپردلیل قرارنہیں پاسکتا۔ اسحاق : خداوندعالم نے آیئہ لاتحزن کے ذریعے ابوبکرکوتسلی دی ہے۔ مامون: ذرامجھے یہ بتاؤکہ ابوبکرکاحزن تھایااطاعت؟اگرکہتے ہواطاعت تھی تواس جگہ گویافرض کیاجاسکتاہے کہ پیغمبرنے اطاعت سے منع کیا(اس قسم کی نسبت پیغمبرۖ کی طرف دیناصحیح نہیںہے)اگرکہتے ہوگناہ تھاتویہ آئیہ ایک گناہگارکی فضیلت وافتخارکے لئے کیسے ہوسکتی ہے۔ اسحاق : خدانے قلب ابوبکرکوسکون عطاکیایہی ان کے لئے باعث افتخارہے۔ لہذایہاں سکینہ سے مرادابوبکرہی ہے پیغمبرۖ کوسکینہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مامون: خداوندعالم سورہ توبہ کی آیت٢٥اور٢٦میں فرماتاہے : ویوم حنین اذاعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیاوضاقت علیکم الارض بمارحبت ثم ولیتم مدبرین ثماانزل اللہ سکینہ علی رسولہ وعلی المومنین یعنی جنگ حنین کے دن جب تمہیں اپنی کثرت نے مغرورکردیاتھا پھروہ کثرت تمہیں کچھ بھی کام نہ آئی اورتم ایسے گھبرائے کہ زمین باوجوداس وسعت کے تم پرتنگ ہوگئی تم پیٹھ پھیرکربھاگ نکلے تب خدانے اپنے رسول پراورمومنین پرتسکین نازل فرمائی اے اسحاق کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کون لوگ تھے جوجنگ سے نہیں بھاگے اورآخرتک پیغمبرۖکے ساتھ تھے؟ اسحاق: میں نہیں جانتایامجھے نہیں معلوم۔ مامون: جنگ حنین جومکہ وطائف کے درمیانی علاقہ میں ہجرت کے آٹھویں سال ہوئی تمام سپاہ اسلام شکست کھاکربھاگ گئے مگرپیغمبراکرم اوران کے ساتھ علی اوررسول خداکے چچاعباس اورپانچ دوسرے بنی ہاشم تھے آخرخدانے ان لوگوں کوکامیابی عطاکی اس جگہ خدانے اپنے پیغمبراوران سات مومنین جو رسول خداکے ہمراہ تھے تسکین نازل کی لہذااس سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبرکوبھی تسکین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسحاق: توکیاآپ کی مرادجگہ علی ودیگربنی ہاشم ہیں جومیدان میں حاضرتھے توان لوگوں میں اوران صاحب کے درمیان جوغارمیں رسول کے ساتھ تھے تسکین کے لحاظ سے کون افضل ہیں۔ مامون: ذراتم بتاؤکہ وہ افضل ہے جوغارمیں رسول کے ہمراہ تھایاوہ افضل ہے جوبستررسول پرسویااوررسول کی جان بچنے کاسبب بناجیساکہ علی نے کہاتھا کہ یارسول اللہ اگرمیں آپ کے بسترپرسوجاؤتوکیاآپ کی جان بچ جائے گی ۔پیغمبر ۖنے فرمایا(ہاں)توعلی نے فرمایا:سمعاوطاعتة توصحیح ہے میں آپ کی اطاعت کرتاہوں۔ پھرعلی بستررسول پرسوگئے۔ مشرکین جوراب بھرنگاہ کئے ہوئے تھے ان کوذرابھی شک نہیں ہواکہ پیغمبرکے علاوہ کوئی اورسورہاہے۔ سب نے اتفاق رائے سے پروگرام بنایاکہ ہرقبیلے کاایک ایک فردمل کرپیغمبرۖ پرحملہ آورہوگاتاکہ پیغمبرکے قتل کی ذمہ داری کسی ایک پرنہ آئے اوراس طرح بنی ہاشم ہم سے انتقام نہ لے سکیں علی مشرکین کی یہ باتیں سن کرغمگین نہیں ہوئے جس طرح ابوبکرغارمیں مغموم ہورہے تھے جب کہ وہ پیغمبرکے ساتھ تھے جب کہ علی تنہاتھے اس کے باوجودپورے خلوص واستقامت کے ساتھ لیٹے رہے خداوندعالم نے فرشتوں کوان کے پاس بھیجاتاکہ مشرکین قریش سے ان کوامان میںرکھیں۔ لہذاعلی نے اس قسم کی فداکاریاں اسلام اورپیغمبراسلام کے لئے دیں ہیں(بحارج٤٩ص١٩٤)۔ ٦٣ غیبی مؤلف وابن ابی الحدیدکے درمیان مکالمہ علماء اہل سنت کے بڑے عالم دین ومورخ عبدالمجید بن محمدبن حنین بن ابی الحدیدمولف جوابن ابی الحدیدکے نام سے مشہورتھے،جن کے مہم اورمعروف آثار میں سے ایک شرح نہج البلاغہ ہے جوانہوں نے ٢٠جلدوں پرمشتمل تحریرکی ہے،ان کاسال ٦٥٥میں بغدادمیں انتقال ہوا۔وہ اپنی شرح نہج البلاغہ کی چھٹی جلدمیں رسول خداکی رحلت کاواقعہ بیان کرتے ہوئے اس بات کااقرارکرتے ہیں کہ حضرت عمرکچھ لوگوں کے ہمراہ درفاطمہ پرآئے اورصدافاطمہ بلندہوئی کہ میرے گھرسے دورہوجاؤ۔جس کی صحیح بخاری وصحیح مسلم نے بھی تصریح کی ہے: فھجرتہ فاطمہ ولم تکلمہ فی ذلک حتی ماتت فدفنھاعلی لیلاولم یوذن بھاابابکر یعنی حضرت فاطمہ نے مرتے دم تک ابوبکرسے بات نہیں کی اورعلی نے حضرت فاطمہ کورات میں دفن کیاجس کی ابوبکرکوخبرنہیں دی گئی(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٦ص٤٩تا٤٧)۔ اس کے باوجودابی الحدیدصاحب عمروابوبکرکی حمایت میں اس طرح تعبیرکرتے ہیں: فان ھذالوثبت انہ خطالم یکن کبیرة بل کان من باب الصغائرالتی لاتفتضی التبری ولاتوجب زوال التولی یعنی اگرثابت ہوجائے کہ ابوبکروعمرکی اس طرح کی رفتارفاطمہ کے ساتھ گناہ تھی م گرگناہ کبیرہ نہیں تھی بلکہ گناہ صغیرہ تھی جوان سے قطع دوستی وبیزاری کاہرگزسبب نہیں بن سکتی۔ مولف: کیادرفاطمہ پرجمع ہوکراس کوجلانااورعلی کی گردن میں رسی باندھ کرلے جانا،فاطمہ کوناراض کرنااس حدتک کہ آپ نے آخری دم تک ان سے کوئی کلام نہ کیاہو،یہ گناہ صغیرہ ہے؟ اگرابن ابی الحدیدنے یہ کہاہوتاکہ اصل واقعہ ہی ہمارے نزدیک ثابت نہیں ہے توہمیں زیادہ تعجب نہ ہوتامگروہ صحت حادثہ کااقرارکرتے ہیں مگرپھربھی اس طرح سے قضاوت کی ہے کیاانہیں گناہ کبیرہ وصغیرہ کے درمیان فرق نہیں معلوم تھا؟ جب کہ تنہاابی الحدیدہی نے یہ واقعہ نقل نہیں کیا،بلکہ دیگرسنی علماء نے بھی نقل کیاہے کہ پیغمبراکرم نے حضرت فاطمہ کے بارے میں فرمایاتھا: ان للہ یغضب لغضب فاطمة ویرضی لرضاھا یعنی جس نے فاطمہ کوغضبناک کیااس نے خدا کوغضبناک کیا،جس نے فاطمہ کوخوش کیااس نے خداکوخوش کیا۔جس سے فاطمہ ناراض ہیں اس سے خداناراض ہوتاہے اورجس سے فاطمہ خوش ہوتی ہیں اس سے خداخوش ہوتاہے۔ دوسرے موقع پرپیغمبراکرم نے فرمایا: فاطمة بضعة منی من اذاھافقداذانی ومن آذانی فقداذی اللہ یعنی فاطمہ میرے جگرکاٹکڑاہیں جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی،جس نے مجھے اذیت دی اس نے خداکواذیت دی (صحیح بخاری دارالجلیل بیروت ج٧ص٤٧اورج٩ص١٨٥ فضائل الخمسہ ج٣ ص١٩٠)۔ ان دونوں یعنی عمروابوبکرنے فاطمہ کواذیتیں دیں جوخدااوررسول کواذیت دینے کاباعث ہوگیا،توکیایہ گناہ صغیرہ ہے؟اگریہ گناہ صغیرہ ہے توگناہ کبیرہ کیاہے؟ کیاخداوندعالم قرآن میںیہ نہیں فرماتاکہ: ان الذین یوذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیاوالآخرة واعدلھم عذابا مھینا(سورہ احزاب آیت٨٧) یعنی جوخداورسول کواذیت دے خداوندعالم دنیاوآخرت میں ان پرلعنت بھیجنے والاہے ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ ٦٤ اجتہاددرمقابل نص جوبات اسلام کی نظرمیں آیات قرآنی وفرمان نبی سے صریح روشن ہواس کی پیروی کرنی چاہئے اگراس کے مقابل توجیہات کی جائے تواسے اجتہادکہتے ہیں جب کہ نص کے مقابل اجتہادقطعاباطل ہے اوراس طرح کااجتہادبدعت ہے جوانسان کوکفروگمراہی میںڈال دیتاہے۔ اجتہادکے معنی یہ ہیں کہ حکم موضوعی کے سلسلے میں صحیح دلیل جوسندیادلالت کی روسے روشن ہو۔مجتہدقواعداجتہادکی روسے اس موضوع کے حکم کواخذکرتاہے اس طرح کااجتہادمجتہدجامع الشرائط سے اس کے مقلدین کے لئے حجت ہوتاہے۔اب اس کے درج ذیل مناظرہ ملاحظہ فرمائیں۔ بادشاہ سلجوقی اوراس کے وزیرنے ایک مجلس تشکیل دی جس میں خواجہ نظام الملکبھی حاضرتھے ایک بڑے سنی عالم عباسیاورایک شیعہ عالم علوی کے درمیان عوام اورعلماء کے ہجوم میں اس طرح سے مناظرہ شروع ہوا۔ علوی: تمہاری معتبرکتابوں میں ملتاہے کہ عمربن خطاب نے رسول خداکے زمانے کے بعض قطعی احکام کوبدل دیاتھا۔ عباسی : کونسے احکام کوتبدیل کیاہے؟ علوی: مثلا(صحیح بخاری ج٢ص٢٥١کامل ابن اثیرج٢ص٣١)نمازتراویح جونافلہ کے طورپرانجام دی جاتی ہے،عمرنے کہا: اسے جماعت سے پڑھاجائے جب کہ نافلہ کوہرگزجماعت کے ساتھ نہیں پڑھاجاسکتا۔ جیساکہ رسول خداکے زمانے میں رائج تھا مگرصرف نمازاستقساء تھی جوزمانہ رسول مین بھی جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی تھی(شرح زرقانی برموطامالک ج١ص٢٥)یامثلاعمرنے حکم دیاکہ اذان کے جملے حی علی خیرالعمل کی جگہ الصلواة خیرمن النوم کے جملے کوکہاجائے یامثلا حج تمتع اورمتعہ(ازدواج موقت)دونوں کوانہوں نے حرام قراردیا۔یامثلازکات میں مولفہ قلوب کے حصہ کودرمیان سے حذف کردیا جب کہ سورہ توبہ کی آیت٦٠میں ان کے حصے کی تصریح ہے اگرچہ دوسرے احکام بھی ہیں مگریہاں صرف نمونہ کے طورپرکچھ ذکرکئے ہیں۔ بادشاہ سلجوقی: کیایہ سچ ہے کہ عمرنے ان احکام کوتبدیل کیاہے؟ خواجہ نظام الملک: جی ہاں یہ سب اہل سنت کی معتبرکتابوں میں مذکورہے۔ بادشاہ سلجوقی: توہم ایسے بدعت گزارشخص کی کیونکرپیروی کرتے ہیں؟ قوشجی :(قوشجی سنی مذہب کابڑاعالم دین ہے جسے امام المتکلمین کہتے ہیں)اگرعمرنے حج تمتع،متعہ یااذان سے حی علی خیرالعمل کے جملات کومنع کیاہے تویہ ان کااجتہادہے اوراجتہادبدعت نہیں ہے(شرح تجریدقوشجی ص٣٧٤)۔ علوی: کیاقرآن کی تصریح اورپیغمبراکرمۖ کے صریح فرمان کے بعدکوئی دوسری بات کہی جاسکتی ہے؟کیانص کے مقابل میں اجتہادجائزہے؟اگرایساہے توتمام مجتہدوں کویہ حق تھاکہ اپنے اپنے زمانہ میں اسلام کے بہت سارے احکامات کوتبدیل کردیتے،اس طرح اسلام کی جاودانی ختم ہوجاتی،لہذاحقیقت یہ ہے جوقرآن فرماتاہے: ماآتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتہوسورہ حشرات آیت٧۔ یعنی جورسول کہیں اسے لے لواورجس سے رسول منع کریں رک جاؤاوردوسری جگہ ارشادہوا:وماکان لمومن ولامومنة اذاقضی اللہ ورسولہ امراان یکون لھم الخیرة من امرھمسورہ احزاب آیت٣٦)۔ یعنی کسی بھی مومن مردوعورت کوکوئی حق نہیں ہے کہ جن امورکوخدااوررسول نے لازم کردیاہواس میں کسی کواپنی طرف سے کوئی اختیارنہیں ہے۔ اور کیا ایسا نہیں ہے کہ رسول خدانے فرمایا: حلال محمدحلال الی یوم القیامة وحرام محمدحرام الی یوم القیامة یعنی حلال محمدتاروزقیامت حلال ہے اورحرام محمدتاروزقیامت حرام ہے۔ نتیجہ: یہ ہے کہ ہرگزاسلام کے صریح احکام کوتبدیل کرنے کاکوئی حق نہیں رکھتا،حتی کہ خودپیغمبربھی یہ کام نہیں کرسکتے،جیساکہ خودپیغمبراکرم کے لئے قران میں ارشادہوتاہے: ولوتقول علینابعض الاقاویل لاخذنامنہ بالیمین ثم لقطعنامنہ الوتین،فمامنکم من احدعنہ حاجزین(سورہ حاقہ آیت٤٤تا٤٧)۔ یعنی اگررسول ہماری نسبت کوئی جھوٹی بات بتائے توہم ان کاداہناہاتھ پکڑلیتے۔ پھرہم ضروران کی شہ رگ کاٹ دیتے۔توتم میںسے کوئی بھی مجھے نہیں روک سکتا تھا۔ ڈاکٹرمحمدتیجانی سماوی کے مباحثے ڈاکٹرمحمدتیجانی سماوی تیونس کے شہرقفصہ سے تعلق رکھتے تھے۔ان کاآبائی مسلک اہل سنت میں مالکی تھا۔وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعدمذاہب اسلامی میں مذہب شیعہ خیرالبریہ کی جستجومیں لگ گئے۔اگرچہ ڈاکٹرتیجانی کومختلف مشکلات کاسامناکرناپڑااس کے باوجودانہوں نے حقیقت کی تلاش میں مختلف مقامات کے سفرکئے جن میں سے ایک سفرنجف اشرف کاتھا،جہاں موصوف نے حضرت آیت اللہ خوئی اورشہیدآیت اللہ باقرالصدرسے بحث ومناظرہ کئے اس حق وحقیقت کے متلاشی کوخداوندکرمی نے بصیرت دی اورانہوں نے مذہب حقہ کوتہہ دل سے قبول کرلیا جس کی تمام تفصیلات ان کی کتاب ثم اھتدیت پھرمیںہدایت پاگیانامی کتاب میں موجودہیں۔ پھرانہوں نے اپنی دوسری کتاب کونوامع الصادقین میں مذہب تشیع کی حقانیت کوواضح اور روشن طریقے سے بیان کیاہے۔ ٦٥ آقائے صدرسے توسل کے بارے میں مکالمہ: ڈاکٹرتیجانی جب مالکی مذہب کے پیروتھے تواپنے ملک تیونس سے ایک دفعہ نجف اشرف گئے اوراپنے دوستوں کے توسط سے آیت اللہ باقرالصدر کی خدمت میں پہنچے ان سے ملاقات کے بعدیوں سوالات شروع کئے: تیجانی: سعودی علماء کہتے ہیں کہ قبروں کوچومنااوراولیاء اللہ سے توسل شرک ہے آپ کااس کے بارے میں کیاخیال ہے؟ آیت اللہ صدر: اگرقبرکاچومنااوراولیاء اللہ سے توسل کرنااس نیت سے ہوکہ وہ لوگ خداکی اجازت کے بغیرمستقلا بالذات نفع وضرر پہنچاسکتے ہیں تویہ کام یقینا شرک ہے لیکن خداپرست مسلمان جانتے ہیں کہ نفع ونقصان فقط خداکے ہاتھ میں ہے اوراولیاء اللہ صرف وسیلہ اورواسطہ ہیں پس اس نیت سے توسل کرناشرک نہیں ہے تمام مسلمان سنی شیعہ زمانہ رسول سے لے کراب تک اس بات پرمتفق ہیں سوائے وہابی علماء کے ،جودورجدیدکی پیداوارہیں اوراجماع مسلمین کے برخلاف کام کرتے ہیں مسلمان کے خون کومباح جانتے ہیں اورمسلمانوں میں فتنہ ڈالتے ہیں اورقبرکوچومنے اوراولیاء اللہ سے توسل کوشرک اوربدعت کہتے ہیں۔علامہ سیدشرف الدین لبنانی جوبہت بڑے شیعہ محقق گزرے ہیں اوربہت ہی عظیم الشان کتاب المراجعات کے مولف ہیں شاہ عبدالعزیز السعودکے دورحکومت میں مکہ معظمہ عمرہ کے لئے گئے تھے عیدقربان کے دن تمام اکابرین شاہ کی دعوت پرجمع ہوئے تھے تاکہ حسب معمول اس کومبارک باد پیش کریں علامہ شرف الدین بھی ان میں شامل تھے جب ان کی باری آئی توانہوں نے شاہ کوقرآن ہدیہ کے طورپرپیش کیا۔شاہ نے قرآن مجید کی بڑی تعظیم کی اوراسے احتراماچومنے لگا۔علامہ شرف الدین نے موقع غنیمت جانتے ہوئے فرمایا: اے شاہ محترم! آپ اس جلدکوکیوں چوم رہے ہیں جب کہ یہ بکرے کی کھال ہے؟ شاہ مسعود: میرااس جلدکوچومنے کامقصدوہ قرآن ہے جواس کے اندرہے نہ کہ خودیہ جلد۔ علامہ شرف الدین نے فوراکہا: بیشک آپ نے سچ کہا۔ہم شیعہ اہل بیت بھی جب پیغمبراکرم کی ضریح مطہرکوچومتے ہیں تووہ تعظیم واحترام رسول میں چومتے ہیں جس طرح آپ اس جلدکواس کے اندرکے قرآن کی تعظیم میںچوم رہے ہیں۔ یہ سن کرسب حاضرین نے تکبیربلندکی اورعلامہ صاحب کی تصدیق کرنے لگے۔ جس سے مجبورہوکرملک عبدالعزیزالسعودنے حاجیوں کواتنی اجازت دیدی تھی کہ وہ ضریح رسول کوچوم سکتے ہیں۔لیکن بعدمیں آنے والے شاہ نے اس قانون کوبدل دیا۔ وہابی جواس موضوع کوچھیڑتے ہیں وہ اپنی سیاست کے تحت مسلمانوں کے خون کومباح جانتے ہیں تاکہ مسلمانوں پرحکومت کرسکیں۔ خودتاریخ گواہ ہے کہ ان وہابیوں نے اس امت محمدیہ پرکیاکیاستم ڈھائے ہیں۔(پھرمیں ہدایت پاگیاص٩٢)۔ ٦٦ اذان میں ولایت علی کی گواہی دینا ڈاکٹرتیجانی: شیعہ اذان واقامت میں علیا ولی اللہ کیوں کہتے ہیں؟ آیت اللہ صدر: امام علی بھی دوسرے لوگوں کی طرح بندہ ٔخداہیں لیکن خدانے ان کولوگوں میں سے ان کے شرف کی وجہ سے رسالت کابارگراں اٹھانے کے لئے چن لیاہے جس کااعلان پیغمبراکرمۖ نے کئی مقامات پرکیاہے کہ علی میرے بعدمیرے جانشین،میرے خلیفہ،میرے بعدلوگوں کے مولاوآقاہیں۔اسی لئے ہم بھی انہیں دوسرے صحابہ سے افضل جانتے ہیں کیونکہ خدااوررسول نے انہیں فضیلت عطاکی ہے جس پرعقلی اورنقلی دلائل کتاب وسنت میں موجودہیں جن پرکسی قسم کاکوئی شک نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ یہ احادیث نہ فقط شیعوں کے نزدیک متواترہیں بلکہ اہل سنت کے نزدیک بھ متواترہیں۔ اس سلسلے میںہمارے علماء نے کثیرتعدادمیں کتابیں لکھی ہیں۔ دراصل اموی حکومت علی کی دشمنی میں ان تمام حقائق کوچھپارہی تھی۔ علی وفرزندان علی کاقتل جائزجانتی تھی،ان کے دورمیں منبروں سے علی پرسب وستم کیاجاتاتھا اورلوگوں کوزبردستی اس کام پرآمادہ کیاجاتھا۔اس لئے شیعیان علی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ خداکے ولی ہیں اوریہ ہرگزجائزنہیں ہے کہ کوئی بھی مسلمان ولی خداپرلعنت کرے۔ شیعوں کایہ شیوہ چلاآرہاہے کہ وہ ہردورکے ظالم،جابراورفاسق حکمرانوں سے ٹکراتے رہیں تاکہ یہ تمام مسلمانوں اورآئندہ آنے والی نسلوں کے لئے تاریخ قرارپاجائے اورلوگ علی کی حقانیت اوردشمنوں کی سازشوں کوسمجھ سکیں۔ لہذااس بناء پرہمارے فقہاء اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ اذان میں علی کی حقانیت کی گواہی دینے کومستحب قراردیتے ہیں۔ یہ اذان یااقامت کاجزو نہیں ہے ۔لہذاجوبھی اذان یااقامت میں ولایت علی کی گواہی جزواذان یااقامت کی نیت سے دے تواس کی اذان واقامت باطل ہے۔ ٦٧ آیت اللہ خوئی سے مکالمہ ڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ جب میں سنی تھااورپہلی مرتبہ نجف اشرف گیاتواپنے ایک دوست کی معرفت آیت اللہ خوئی سے ملا۔میرے دوست نے ان کے کان میں کچھ کہااورپھرمجھے ان کے نزدیک بیٹھنے کوکہا۔ میرے دوست نے مجھ سے بہ اصرارکہاکہ آیت اللہ کوشیعوں کے بارے مین اپنااورتیونس کے لوگوں کانظریہ بتاؤ۔میں نے کہاشیعہ ہمارے نزدیک یہودی ونصاری سے بدترہیں کیونکہ یہودونصاری توخداکومانتے ہیں اورموسی وعیسی کی رسالت کے معتقد ہیں لیکن ہم جوشیعوں کے بارے میں جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ کوخدامانتے ہیں اوران کی عبادت کرتے ہیں ان کی تقدیس بیان کرتے ہیں، البتہ شیعوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جوخداکومانتے ہیں لیکن علی کے مقام کورسول کے مقام سے ملاتے ہیں اوراس حدتک کہتے ہیں کہ جبرئیل جن کوقرآن (نعوذباللہ)علی کے پاس لاناتھا غلطی سے رسول کوپہنچاگئے۔ آیت اللہ خوئی: چندلمحے خاموش رہے،پھربولے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں،محمداللہ کے رسول ہیں،درودوسلام ہوان کی آل پاک پر اورہم گواہی دیتے ہیں کہ علی اللہ کے بندے ہیں۔ پھرآیت اللہ نے حاضرین کی طرف نگاہ کی گویامیری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ذرا دیکھو یہ بیچارے کس طرح سے تہمت وفریب کے شکارہیں،یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے بلکہ میں نے تواس سے بھی بدترالفاظ شیعوں کے بارے میں سنے ہیں: لاحول ولاقوة الاباللہ العلی العظیم پھرآیت اللہ خوئی میری طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا: کیاتم نے قرآن پڑھاہے؟ ڈاکٹرتیجانی: جب میں دس سال کابھی نہیں ہواتھا تونصف قرآن حفظ کرلیاتھا۔ آیت اللہ خوئی: کیاآپ جانتے ہیں کہ تمام اسلامی فرقے اپنے درمیان اختلاف کے باوجودقرآن مجیدکی حقانیت پریقین رکھتے ہیں اورجوقرآن ہمارے پاس ہے وہی آپ کے پاس بھی ہے۔ ڈاکٹرتیجانی: جی ہاں! یہ تومیں جانتاہوں۔ آیت اللہ خوئی: کیاتم نے یہ آیت پڑھی ہے: ومحمدالارسول قدخلت من قبلہ الرسل(سورہ آل عمران آیت١٤٤)محمدۖ سوائے رسول کے کچھ نہیں ہیں،اس سے پہلے بھی پیغمبرآچکے ہیں۔ دوسری جگہ ارشادہواہے: محمدرسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار(سورہ فتح آیت٢٩)محمدخداکے رسول ہیں اورجوان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پربڑے سخت ہیں۔ اوریہ بھی ارشادہواہے: ماکان ابااحدمن رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین(سورہ احزاب ایت٤٠)یعنی محمدتم میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ خداکے رسول اورآخری نبی ہیں۔ کیاان آیات کوآپ نے پڑھاہے؟ ڈاکٹرتیجانی: جی ہاں: آیت اللہ خوئی: ان آیات میں علی کاذکرکہاں ہے؟ان میں توصرف رسول کی بات ہوئی ہے اوراس قرآن کوہم اورآپ سب دل وجان سے مانتے ہیں تو کس طرح ہم پرتہمت لگاتے ہوکہ علی کوپیغمبرکے درجے تک بلندکرتے ہیں۔ میں خاموش رہااورکچھ جواب نہ دے سکاتوآیت اللہ خوئی نے گفتگوکوجاری رکھتے ہوئے مزیدکہا: جبرئیل کی خیانت کے مسئلہ میں جوہم لوگوں پرتہمت لگاتے ہوکہ ہم شیعہ کہتے ہیں کہ جبرئیل نے خیانت کی،یہ تہمت پہلی والی تہمت سے زیادہ سخت ہے۔کیاایسانہیں ہے کہ جب آغازبعثت کے وقت جبرئیل پیغمبرپر نازل ہوئے تواس وقت علی کی عمردس سال سے کم تھی۔ پس کیوں کرجبرئیل نے غلطی کی اورمحمد اورعلی کے درمیان فرق نہ کرپائے۔ میں خاموش رہااوراپنے اندرحضرت آیت اللہ خوئی کی منطقی گفتگوکی صحت کودرک کررہاتھا۔ پھرانہوں نے فرمایا:شیعہ ہی تمام اسلامی فرقوں میں وہ واحد فرقہ ہے جوپیغمبراوراماموں کی عصمت کامعتقدہے اوریقینا جبرئیل جوروح الامین ہیں وہ بھی ہرخطاء سے پاک ہیں۔ ڈاکٹرتیجانی: تویہ سب جومشہورہے وہ کیاہے؟ آیت اللہ خوئی: یہ ست تہمتیں ہیں جومسلمانوں کے درمیان جدائی ڈالنے کے لئے لگائی جارہی ہیں اورآپ کیونکہ ایک سمجھدارانسان ہیں اورمسائل کوبخوبی سمجھتے ہیں،شیعوں کے درمیان رہیں اورشیعوں کے حوزہ علمیہ(دینی مدارس)کونزدیک سے دیکھیں اورپھرذرادقت کریں کہ آیااس طرح کی تہمتیں جوشیعوں سے منسوب کی جاتی ہیں کیاوہ صحیح ہیں؟ میں جب تک نجف اشرف میں رہااندازہ کرلیاکہ یہ سب شیعوں کی طرف بے جاتہمتیں دی گئی ہیں(پھرمیں ہدایت پاگیاص٧٦۔٧٨)۔ ٦٨ نماز ظہروعصراورمغرب وعشاء کاایک ساتھ پڑھنا ہم جانتے ہیں کہ اہل سنت کے نزدیک نمازظہروعصراورمغرب وعشاء کوایک ساتھ پڑھنے سے نمازباطل ہوجاتی ہے لہذاوہ لوگ ہرنمازکواس کے خاص وقت پرپڑھناضروری جانتے ہیں۔ لہذاڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ جب میں سنی تھاتواسی طرح نمازپڑھاکرتاتھا اورایک ساتھ نمازپڑھنے کوباطل سمجھتاتھا۔ جب نجف اشرف میں اپنے دوست کی معرفت آیت اللہ باقرالصدرکے پاس پہنچاتوظہرکی نمازکاوقت ہوچکاتھا۔ آیت اللہ صدرمسجدکی طرف روانہ ہوئے، میں اوردوسرے حاضرین بھی مسجدپہنچ کرنمازپڑھنے میں مصروف ہوگئے۔ میں نے دیکھاکہ آیت اللہ صدرنمازظہرکے بعدتھوڑے سے وقفہ کے ساتھ نمازعصر پڑھنے میں مصروف ہوگئے اورمیں کیونکہ صفوں کے درمیان میں تھا،لہذااٹھ نہ سکااورمجبورانمازعصرکوظہرکے فورابعدپڑھاجوزندگی میں پہلاتجربہ تھا مگرروحانی اعتبارسے مجھے بہت تکلیف پہنچی کہ کیامیری عصرکی نمازصحیح ہے یانہیں؟ کیونکہ اس دن خودآیت اللہ صدرکامہماتھا۔لہذاموقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ان سے پوچھ ہی لیاکہ کیاکسی مسلمان کے لئے جائزہے کہ وہ حالت اضطرارمیں دونمازیں ایک ساتھ پڑھ لے؟ آیت اللہ صدر: ہاں جائزہے دوفریضے یعنی نمازظہروعصراورمغرب وعشاء ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹرتیجانی: اس فتوے پرآپ کی کیادلیل ہے۔ آیت اللہ صدر: کیونکہ رسول خدامدینہ میں بغیرسفروبغیرخوف وبغیربارش یاکسی اورمجبوری کے بغیربھی نمازظہروعصراوراسی طرح مغرب وعشاء کوایک ساتھ ادا کرتے تھے ان کایہ کام اس لئے تھاکہ ہم پرسے مشقت کواٹھادیں اوراس طرح کاعمل الحمدللہ ہمارے عقیدے کے مطابق آئمہ کے ذریعے بھی ثابت ہے اسی طرح آپ اہل سنت کے نزدیک بھی سنت کے ذریعے ثابت ہے۔ مجھے تعجب ہوا،کیونکہ میںنے اس قسم کاعمل کسی سنی کوانجام دیتے ہوئے نہیں دیکھاتھا بلکہ اس کے برعکس عمل کرتے دیکھاتھاکیونکہ سنیوں کے نزدیک اگر نماز اذان سے ایک منٹ پہلے ہوتوبھی باطل ہے تونمازعصرکواس کے وقت سے پہلے ظہرکے فورابعدپڑھنا،توبدرجہ اولی نمازکوباطل کردے گااسی طرح نمازعشاء کو نمازمغرب کے فورابعدپڑھنا،ہمارے نزدیک غیرمعمولی چیزبھی تھی۔ آیت اللہ صدرنے میرے چہرے سے اندازہ لگالیاکہ گویامیں تعجب کررہاہوں کہ نمازظہر،عصراورمغرب وعشاء کوایک ساتھ پڑھناکیسے جائزہے؟ اسی وقت انہوں نے اپنے ایک شاگردکواشارہ کیا۔ وہ گیااوردوکتابیں لاکرمجھے دیں۔ میں نے دیکھاکہ وہ صحیح بخاری وصحیح مسلم تھیں۔ آیت اللہ صدرنے اس شاگرد سے کہاکہ وہ احادیث جودونمازوں کوجمع کرکے پڑھنے کے سلسلے میں ہیں نکال کردکھائے۔ میں نے ان دونوں کتابوں میں پڑھاکہ رسول خداخوف وخطر یااضطرارکے بغیردونوں نمازیںجمع کرتے تھے۔ یعنی ظہرکے فورابعدعصر پڑھتے تھے اورصحیح مسلم میں تواس مسئلے پرایک مستقل باب پایا۔ میں توبہت پریشان ہوا کہ خدایااب میں کیاکروں میرے دل میں آیاکہ شایدیہ دوکتابیں جویہاں ہیں تحریف شدہ ہوں۔ لہذامیں نے اپنے دل میں طے کیاکہ جب تیونس واپس جاؤں گاتووہاں کی کتابوں میںدیکھوں گااوراس مسئلے کی صحیح تحقیق کروں گا۔ اسی دوران آیت اللہ صدرنے مجھ سے سوال کیاکہ اب اس دلیل کے بعد آپ کی کیارائے ہے؟ ڈاکٹرتیجانی: بیشک آپ حق پرہیں اورآپ نے بجاکہاہے۔ پھران کاشکریہ اداکیالیکن اپنے دل میں قانع نہیں ہوا۔ مگریہ کہ اپنے وطن آکراپنی کتابیں صحیح بخاری اورصحیح مسلم دیکھیں توبالکل قانع ہوگیااوراس دن سے بغیر کسی ضرورت کے نمازظہروعصراوراسی طرح مغرب وعشاء کوایک وقت میں پڑھتاتھا کیونکہ خودپیغمبر دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ میں نے دیکھاکہ امام مسلم اپنی صحیح کے باب الجمع بین الصلواتین فی الحضرمیں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا نمازظہروعصراوراسی طرح مغرب وعشاء بغیر کسی خوف کے ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ ابن عباس سے سوال ہواکہ پیغمبراکرمۖ کیوں اس طرح کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: لایحرج امتہ یعنی امت دشواری میں نہ پڑجائے۔ اسی طرح کتاب صحیح بخاری کی جلداول ص١٤٠ پرباب وقت المغرب میں دیکھاکہ ابن عباس سے نقل ہے کہ پیغمبرسات رکعت نماز یعنی مغرب وعشاء کی ایک وقت میں پڑھتے تھے اوراسی طرح آٹھ رکعت نمازیعنی ظہروعصرکی ایک ہی وقت میں اداکرتے تھے۔ پھرمیں نے مسنداحمد(جلد١ص٢٢١)موطاء امام مالک شرح الحوالک ج١ص١٦١)میں بھی یہ مطلب اسی طرح لکھادیکھا۔اسی طرح کتاب الموطاء مؤلفہ امام مالک میں بھی دیکھاکہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ : صلی رسول اللہ الظہروالعصرجمیعاوالمغرب والعشاء جمیعافی غیرخوف ولاسفر یعنی رسول خدابغیرکسی خوف یاسفر کے نمازظہروعصراوراسی طرح مغرب وعشاء ایک ہی وقت میںاداکرتے تھے۔ نتیجہ یہ کہ جب یہ مسئلہ اتناواضح ہے توبرادان اہل سنت اپنی اصلی کتابوں سے غافل رہتے ہوئے کیوں اس مسئلے کوایک بڑے اشکال کے طورپرشیعوں پرواردکرتے ہیں(کونوامع الصادقین ص٢١٠)۔ ٦٩ امام جماعت اہلسنت سے مباحثہ ڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ دونوں نمازوں کوجمع کرکے پڑھنے کے مسئلے کوجب میں نے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے حوالے سے اپنے وطن میں اپنے کچھ دوستوں کو بتایاتوان میں سے بعض نے حقیقت تسلیم کرلی مگریہ بات جب شہرقفصہ کے امام جماعت تک پہنچی تووہ ناراض ہوگئے اورکہنے لگے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والاایک نیادین لایاہے جوقرآن سے مخالف ہے کیونکہ قرآن فرماتاہے: ان الصلواة کانت علی المومنین کتابا موقوتا(سورہ نساء آیت١٠٣)یعنی مومنین پرنمازوقت معین کے ساتھ واجب ہے۔اس امام جماعت کے دل میں جو آیااس نے وہ ناسزاباتیں کیں۔ میرا ایک دوست جوخود کافی پڑھالکھا تھا اورمیری باتیں اسے مطمئن کرچکی تھین وہ بھی امام جماعت کی تقریرسن رہاتھا،اس نے آکروہ باتیں مجھے بتائیں۔ میں نے اس کے سامنے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے وہ صفحات کھول کرپڑھوائے۔ پھروہ دوست حسب معمول اس امام جماعت کی نمازمیں گیا،جب نمازکے بعدامام درس دینے بیٹھے تواس نے امام جماعت سے پوچھا: مولانا نمازظہروعصراورمغرب وعشاء کوایک ساتھ پڑھناکیساہے؟ امام جماعت: یہ شیعوں کی بدعت ہے۔ میرادوست: اس موضوع کی صحت توصحیحین میں بھی ملتی ہے۔ امام جماعت: نہیں ۔یہ ہرگزثابت نہیں ہے بلکہ ان دونوں کتابوں کی طرف اس طرح کی نسبت دیناغلط ہے۔ میری دوست نے جب ان دونوںکتابوں میں لکھاہواامام جماعت کودکھایاتواس نے مسئلے کی حقیقت کوبچشم خودپڑھ لیاتوکتاب بندکرکے اسے واپس دی اورکہنے لگا: یہ دونوں نمازوں کوایک ساتھ پڑھناصرف پیغمبرکے لئے ہے۔ کیاتم بھی پیغمبربنناچاہتے ہو؟ تمہارے لئے ہرگزیہ جائزنہیں کہ ایک ساتھ دونمازیں پڑھو۔ میرادوست امام جماعت کے اس نامعقول جواب سے ہی سمجھ گیاکہ وہ صرف تعصب کے پیش نظرحقیقت کوقبول نہیں کررہاہے۔ اس نے بھی قسم کھائی کہ آج کے بعدسے اس کے پیچھے نمازنہیں پڑھوں گا۔ اس جگہ مناسب ہے کہ اس حکایت کوبیان کرتاچلوں کہ جوشکاری شکارکے لئے صحرامیں گئے۔ وہاں انہوں نے دورسے کوئی کالی چیزکودیکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا: وہ کواہے۔ دوسراکہنے لگا: بکراہے دونوں اپنی اپنی بات پرڈٹے ہوئے تھے جب دونوں ا سکے نزدیک گئے تودیکھاکہ وہ کواہے اوروہ اڑگیاتوپہلے والے نے کہا: میں نہیں کہہ رہاتھاکہ کواہے اب تم قانع ہوگئے؟ لیکن دوسراشکاری بڑی ڈھٹائی سے بولا:بکرابھی تواڑسکتاہے۔ ڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ میںنے اس دوست کوبلوایااوراس سے کہاکہ صحیح بخاری اورصحیح مسلم لے جاکراس امام صاحب کودکھاؤکہ ان میں ابن عباس اورانس بن مالک جیسے جیدصحابہ سے روایت ہے کہ بہت سے صحابہ ظہروعصرکی نمازپیغمبرکی اقتداء میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ لہذاجمع بین الصلواتین پیغمبرہی کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ کیاہمارے لئے جائزنہیں ہے کہ ہم سنت پیغمبرکی پیروی کریں۔ مگرمیرے دوست نے معذرت کرلی۔ کہنے لگا: اگرخودرسول خدا بھی آکر کہیں توبھی امام صاحب نہیں مانیں گے۔ ٧٠ قاضی مدینہ سے آیت تطہیرکی بحث ڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ میں مسجدالنبی کی زیارت سے مشرف ہواتودیکھاکہ ایک خطیب نمازیوں کے درمیان بیٹھادرس دے رہاہے۔ میں نے بھی اس کے درس میں شرکت کی۔ وہ کچھ قرآنی آیات کی تفسیربیان کررہاتھا۔ لوگوں کی آپس کی گفتگوسے مجھے اندازہ ہواہ یہ قاضی ٔمدینہ ہے۔ جب اس کادرس ختم ہوااوروہ اٹھ کرمسجدالنبی ۖسے باہرجاناچاہتاتھا تومیں نے اس سے کہاکہ قبلہ ذرایہ بتائیں کہ آیت تطہیرانمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہرکم تطھیرا(سورہ احزاب آیت٣٣)میں اہل بیت سے مرادکون ہیں؟ قاضی: اس آیت میں اہلبیت سے مرادامہات المومنین ہیں۔ چنانچہ اس آیت کے شروع میں ازواج پیغمبرسے خدافرماتاہے: وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیةالاولی یعنی اے ازواج پیغمبرۖ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھی رہواورزمانہ جاھلیت کی طرح(لوگوں کے درمیان)اپنی زینتیں ظاہرنہ کرو۔ ڈاکٹرتیجانی: شیعہ کہتے ہیں کہ یہ آیت علی وفاطمہ حسن وحسین علیہم السلام کے لئے مختص ہے۔ میں نے شیعوں سے کہاکہ اس آیت کے آغازمیں ازواج پیغمبر ۖ کاذکرہے اوراس سے پہلے والی آیت میں بھی ازواج پیغمبرۖ سے یانساء النبی کے لفظ کے ذریعے صریح خطاب ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ابتدائی آیت اوراس سے پہلے والی آیت بھی ازواج پیغمبرکے بارے میں آئی ہے اوراس میں جمع مونث کاصیغہ استعمال ہواہے مثلا: لستن وفلاتخضعن وبیوتکن ولاتبرجن واصمن وآتین واطعن لیکن جب یہی آیت آخرکوپہنچتی ہے تواس کاسیاق تبدیل ہوجاتاہے اورتمام ضمیریں جمع مذکرکی استعمال ہوئی ہیں مثلا: عنکم ویطھرکم وغیرہ۔ قاضی نے اپنی عینک اوپرکی اور(بجائے اس کے کہ مجھے کوئی استلالی جواب دیتا)مجھے گھورتے ہوئے غصے سے بولاشیعہ اپنی خواہشات کے مطابق آیات قرآنی کی تاویل کرتے ہیں(پھرمیں ہدایت پاگیاص١١٤)۔ اب یہاں تکمیل بحث کے طورپرمیں علامہ محمدحسین طباطبائی کی تفسیرالمیزان سے مستفیدہوتے ہوئے کہتاہوں کہ اس بات کی کوئی بھی دلیل نہیں ہے کہ آیت تطھیرسورہ احزاب کے آخرہی میں نازل ہوئی ہوبلکہ روایات سے بخوبی استفادہ ہوتاہے کہ یہ آیت جداگانہ طورپرنازل ہوئی ہے۔ پھرزمانہ پیغمبر میں قرآن کی جمع آوری کے وقت یہ آیت سورہ احزاب کے درمیان قرارپاگئی(تفسیرالمیزان ج١٦ص٣٣٠)خوداہلسنت کی کتابوں سے متعددروایات مروی ہیں کہ اہلبیت سے مرادعلی وفاطمہ وحسن وحسین ہیں۔ حتی کہ خودازواج پیغمبرۖ مثلاام سلمہ،عائشہ اوردوسروں سے نقل کیاجاتاہے کہ اہلبیت سے اس آیت مذکورمیں علی وفاطمہ وحسن وحسین علیہم السلام ہیں(شواہدالتنزیل ج٢ص١١و٢٥وکتاب احقاق الحق ج٢)۔ ٧١ آل محمدپردرودوسلام بھیجنے پرمباحثہ جیساکہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اہلسنت جب علی کانام لیتے ہیں توعلیہ السلام کے بجائے کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں۔ یعنی خداوندعالم ان کامقام بلند کرے جب کہ اصحاب رسولۖ کے لئے رضی اللہعنہ کہتے ہیں ۔یعنی ان سے اللہ راضی ہوکیونکہ وہ لوگ خوداس بات کے معتقدہیں کہ علی نے کوئی گناہ ہی نہیں کیاہے جوان کے بارے میں رضی اللہ عنہ کہاجائے بلکہ ضروری ہے کہ ان کے بارے میں کرم اللہ وجہہ کہاجائے۔ اب یہاں پرایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ لوگ کیوں حضرت علی کو علیہ السلام نہیں کہتے؟ اس سوال کے جواب کے لئے ایک مناظرہ ملاحظہ کریں: ڈاکٹرجب سنی تھے توجہازمیں قاہرہ سے عراق کے سفرمیں ایک یونیورسٹی کے استادمنعم ہم سفرتھے جوعراق کے رہنے والے تھے۔ دوران سفردونوں آپس میں گفتگوکرنے لگے۔ ڈاکٹرتیجانی اوراستادمنعم کے مابین جہازمیں بھی اورپھرعراق پہنچ کربھی کافی گفتگوہوئی۔ایک دن استادمنعم کے گھربغدادمیں اس طرح مناظرہ ہوا: ڈاکٹرتیجانی: آپ لوگ علی کے مقام کواس قدربڑھاتے ہیں کہ ان کوپیغمبرۖکے ہم ردیف لے آتے ہیں کیونکہ علی کے بعدبجائے کرم اللہ وجہہ کہنے کے آپ لوگ علیہ السلام کہتے ہیں یاعلیہ الصلواة والسلام کہتے ہیں جب کہ صلواة وسلام پیغمبرۖکے لئے مخصوص ہے۔ چنانچہ قرآن میں پڑھتے ہیں : ان اللہ ملائکتہ یصلون علی النبی یاایھاالذین آمنواصلواعلیہ وسلمواتسلیما(سورہ احزاب ایت٥٦)یعنی بے شک خدااوراس کے ملائکہ سب نبیۖ پردرودبھیجتے ہیں، لہذااے صاحبان ایمان تم بھی ان پردرودوسلام بھیجو۔ استادمنعم: ہاں تم نے صحیح کہاکہ ہم جب امیرالمومنین علی کایادوسرے اماموں کے نام لیتے ہیں توآخرمیں علیہ السلام کہتے ہیں لیکن اس کامطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان کوپیغمبرۖ کے درجے سے ملادیتے ہیں۔ ڈاکٹرتیجانی: توپھرآپ لوگ کس دلیل کے تحت ان پردرودوسلام بھیجتے ہیں؟ استادمنعم: اسی آیت کے دلیل کے تحت جوتم نے ابھی پڑھی کہ : ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی کیاتم نے اس آیت کی تفسیرپڑھی ہے؟ تمام سنی وشیعہ مفسرین نے اجماعااس بات کونقل کیاہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کی ایک جماعت نے آکرپوچھا: یارسول اللہ! ہم یہ توسمجھ گئے کہ آپ پردرود وسلام بھیجیں مگریہ نہیں سمجھ سکے کہ کس طرح آپ پردرودوسلام بھیجیں۔ پیغمبراکرمۖ نے جواب میں فرمایا: اللہم صل علی محمدوعلی آل محمدکماصلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراھیم فی الصالحین انک حمیدمجید یعنی خدایا!درودوسلام بھیج محمدۖ وآل محمدۖ پرجس طرح دنیاوالوں میں ابراہیم وآل ابراہیم پردوردبھیجتاہے۔ بیشک توقابل ستائش واجابت کرنے والاہے(صحیح بخاری ج٦ص١٥١۔ صحیح مسلم ج١ ص٣٠٥)اورآپ نے یہ بھی فرمایا: لاتصلواعلی الصلواة البترا یعنی مجھ پرناقص صلوات نہیں بھیجنا۔ لوگوں نے پوچھا: ناقص صلوات کیاہے؟ توآپ نے فرمایا: یعنی اللہم صلی علی محمد کہنا،بغیرلفظ آل محمدکے کہنا،بلکہ کہو: اللہم صل علی محمد وآل محمدجوکامل صلوات ہے(الصواعق المحرقہ ص١٤٤)اکثرروایات میں آیاہے کہ کامل صلوات بھیجوجملہ آل محمدکوآخرسے حذف نہ کرو۔ حتی کہ نمازکے تشہدمیں بھی فقہاء اہلبیت اس کوواجب جانتے ہیں اورفقہاء اہل بیت میں امام شافعی بھی فرض نمازکے دوسرے تشہدمیں واجب جانتے ہیں(شرح نہج البلاغہ مؤلفہ ابن ابی الحدیدمعتزلی ج٦ص١٤٤)بلکہ اسی فتوے کے پیش نظراپنے معروف اشعارمیں یوں کہتے ہیں: یااہلبیت رسول اللہ حبکم فرض من اللہ فی القرآن انزلہ کفاکم من عظیم القدرانکم من لم یصل علیکم لاصلواة لہ۔ یعنی اے اہلبیت رسول خداآپ سے دوستی ایک فریضہ ٔواجب ہے جس کاحکم خدانے قرآن میں دیاہے۔ آپ کے مقام وعظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جونمازمیں آپ پرصلوات نہ بھیجے اس کی نمازباطل ہے(المواہب زرقانی ج٧تذکرہ علامہ جلد١ص١٢٦)۔ ڈاکٹرتیجانی جواس گفتگووجواب سے بہرہ مندہورہے تھے اوریہ استدلالی باتیں ان کے قلب پراثرکررہی تھی،کہنے لگے : اس لحاظ سے میں قبول کرتاہوں کہ اہلبیت درودمیں محمدۖ کے ساتھ شریک ہیں اورہم بھی جب پیغمبرپرصلوات بھیجتے ہیں تواصحاب وآل پیغمبرکوبھی شریک صلوات سمجھتے ہیں لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب تنہانام علی لیاجاتاہے توکیوں علیہ السلام کہاجاتاہے؟(جیساکہ سورہ صافات کی آیت ١٣٠میں پڑھتے ہیں : سلام علی آل یسین یعنی عباس سے نقل ہے کہ آل یسین سے مرادآل پیغمبرعلیہم السلام ہیں)۔ استادمنعم: کیاتم صحیح بخاری کومانتے ہو؟ ڈاکٹرتیجانی: ہاں یہ کتاب توامام عالی مقام اورسنیوں کے موردقبول اماموں میں سے امام بخاری کی ہے اورقرآن کے بعد صحیح ترین کتابوں میں سے ہے۔ استادمنعم اپنی الماری سے کتاب صحیح بخاری اٹھاکرلے آئے اوراس کے صفحات کوکھولتے ہوئے مجھے دی اورکہا: ذرااسے پڑھو۔ ڈاکٹرتیجانی: جب میں نے اس صفحہ کوپڑھاتولکھاہواتھا کہ مجھ سے فلاں نے اورفلاں نے اورفلاں نے حضرت علی علیہ السلام سے جیسے ہی میں نے لفظ علیہ السلام دیکھاتعجب کرنے لگامجھے یقین نہیں آرہاتھاکہ ایساہوسکتاہے۔ میں اپنے آپ سے کہنے لگا: یہ صحیح بخاری نہیں ہے۔ پھرسے اس صفحہ کادقیق مطالعہ کیا دیکھاکہ وہی ہے لہذامیراشک دورہوا۔ استادمنعم: میں نے صحیح بخاری کے دوسرے صفحے کوکھول کردکھایااس پرلکھاتھا کہ: علی بن الحسین علیہ السلام سے حدیث ہے۔ اب تومیرے پاس کوئی جواب نہ رہاسوائے تعجب کے،سبحان اللہ۔ پھرسے میں نے اسے پڑھااوراس کوپلٹ کردیکھاتووہ مصرسے انتشارات الشرکت الحلبی والاوہ سے چھپی ہوئی تھی۔ لہذا سوائے اس حقیقت کے قبول کرنے کے میرے پاس کوئی دوسراراستہ نہیں تھا(پھرمیں ہدایت پاگیا ص٦٥)۔ ٧٢ حدیث غدیرپرایک مکالمہ ڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ اپنے ملک تیونس میں ایک سنی عالم سے مناظرہ ہواجس میں میں نے اس سے کہاکہ آپ حدیث غدیرکومانتے ہیں کہ پیغمبرۖ نے صحرا غدیر میں ایک لاکھ سے زیادہ کے مجمع کے سامنے فرمایا: من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ یعنی جس کامیں مولااوررہبرہوں اس کایہ علی مولاورہبرہے۔ سنی عالم: ہاں میں اس حدیث کوتسلیم کرتاہوں یہ صحیح حدیث ہے اورمیں نے قرآن پرایک تفسیرلکھی ہے جس میں اتفاقاسورہ مائدہ کی آیت ٦٧کے ذیل میں حدیث غدیرکولکھاہے اوراس کی صحت کااقرارکرتاہوں۔ پھراس نے مجھے اپنی تفسیرمیں اس سلسلے کودکھایا۔ میں نے دیکھاکہ اس کتاب میں حدیث غدیرکے بعداس طرح لکھاہواتھاکہ شیعہ معتقدہیں کہ یہ حدیث غدیربطورصراحت پیغمبرۖ کے بعد سیدناعلی کرم اللہ وجہہ کی خلافت پردلالت کرتی ہے لیکن اہلسنت کے نزدیک یہ عقیدہ باطل ہے(کہ حدیث غدیرخلافت علی پردلالت کرتی ہے)کیونکہ ہمارے خلفاء ابوبکر،عمراورعثمان(رضی ا للہ عنہم)کی خلافت سے منافات رکھتاہے۔ لہذاضروری یہ ہے کہ اس حدیث کی ظاہری صراحت سے انکارکریں اوراس کی اس طرح تاویل کریں کہ لفظ مولاکے معنی رہبرکے نہیں ہیں بلکہ دوست ویاورکے ہیں۔ جیساکہ یہی لفظ قرآن میں دوست ویاورکے معنی میں استعمال ہواہے اورخلفاء راشدین یعنی ابوبکروعثمان وعمر(رضی اللہ عنہم) اوردوسرے اصحاب پیغمبرۖ نے بھی اس لفظ مولاکے معنی یہی سمجھے ہیں۔ پھرتابعین اورعلماء مسلمین نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے یہی معنی مرادلئے ہیں۔ لہذا اس میں شیعوں کے عقیدے کاکوئی اعتبارنہیں ہے۔ ڈاکٹرتیجانی: آیاتاریخ میں اصل واقعہ غدیرپیش آیاہے یانہیں؟ سنی عالم: ہاں ہے اگریہ واقعہ نہ ہواہوتاتوعلماء ومحدثین اسے کیوں نقل کرتے؟ ڈاکٹرتیجانی: کیایہ مناسب ہے کہ رسول خدا ایک لاکھ سے زیادہ حجاج کے سامنے سفرحج سے واپسی کے وقت جن میں خواتین وبچے بھی تھے تپتے صحراپرتپتے سورج کے نیچے روک کرخطبہ طولانی دے کرکیاپیغمبراسلامۖ کوصرف یہ بتاناتھا مقصودتھا کہ علی میرادوست ویاورہے۔ لہذاتمہارابھی دوست ویاورہے؟ کیا اس طرح کی تاویل وتوجیح کرناحدیث غدیرکے ظاہری وصریح معنی سے روگردانی کرنانہیںہے،کیایہ حرکت صحیح ہے؟ سنی عالم: کیوں کہ بعض اصحاب نے حضرت علی کی طرف سے جنگوں میں صدمے اٹھائے تھے بعض کے دلوں میں حضرت علی کے سلسلے میں وہ کینہ وعداوت تھی۔ لہذاپیغمبرۖ نے اس واقعہ غدیرسے ان لوگوں کے دلوں سے کینہ کونکالنے کے لئے کہاکہ علی تمہارادوست ویاورہے تاکہ وہ لوگ علی سے دشمنی نہ کریں۔ ڈاکٹرتیجانی: صرف مسئلہ دوستی کوبتانااس بات کااقتضاء نہیں کرتاہے کہ رسول خدااس تپتے صحرامیں لوکوں کوروکیں اورطولانی خطبہ دے کرصرف علی کی دوستی کوبیان کریں۔ نہیں بلکہ مسئلہ کچھ اورتھا اوریہ آپ نے خطبہ کے آغازہی میں حاضرین سے فرمایاتھا کہ : الست اولی بکم من انفسکم یعنی کیا تم لوکوں کی جان کی نسبت میں اولیت نہیں رکھتاہوں؟ حاضرین نے اقرارکیا کہ کیوں نہیں آپ ہم سب کی جانوں پراولیت رکھتے ہیں لہذالفظ اولی کے وہی لفظ مولاکے معنی ہیں جوحدیث غدیرمیں آیاہے لہذ١یہاں پرپیغمبرۖ کی مرادرہبرہے اوراگرآپ کے بقول لفظ مولاکے معنی دوست ویاورکے قراردیں توپیغمبرۖ کے لئے ممکن نہیں تھا کہ فقط علی کوان کادوست ویاورکہہ کردشمنان علی یاان لوگوں کے دلوں سے جوعلی سے کینہ رکھتے تھے اس کینہ کوختم کرتے اوریہ بات کوئی بھی عاقل تسلیم نہیں کرے گاکہ صرف چندنفرکی دشمنی وکینہ کودورکرنے کے لئے پیغمبراکرمۖ ایک لاکھ سے زیادہ حجاج کوتپتے صحرامیں دیرتک روکیں اوران سے صرف حضرت علی کی دوستی ویاوری بیان کریں جب کہ خودابوبکروعمر(رضی اللہ عنہم)بھی اس لفظ مولی سے امام لی کی رہبری ہی کے معنی سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت علی کے پا س آکر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: بخ بخ یابن ابی طالب اصبحت مولایاومولاکل مومن ومؤمنة یعنی مبارک ہو،مبارک ہواے ابی طالب کے بیٹے کہ آپہ ہمارے اورتمام مومنین ومومنات کے مولاہوئے۔ یہ وہ مشہورومعروف مبارکباد ہے جوبڑے سے بڑے علماء اہلسنت نے بھی نقل کی ہے(مسنداحمدبن حنبل ج٤ص٢٨١ اورعلامہ امینی نے الغدیرمیں٦٠علماء اہلسنت سے یہ حدیث نقل کی ہے)اب میں پوچھتاہوں کہ کیاصرف سادہ دوستی اتنی اہم تھی جوابوبکر وعمر(رضی اللہ عنہم)نے حضرت علی کواتنی بڑی عبارت کے ساتھ مبارکباد پیش کی جب کہ خودپیغمبرنے بھی خطبہ کے بعداعلان کیاکہ : سلمواعلیہ بامیرالمومنین یعنی علی کو مومنوں کے امیر کہہ کرسلام کرو۔ پیغمبرۖ نے حکم غدیرکوسورہ مائدہ کی آیت ٦٧کے نازل ہونے کے بعدپیش کیاوہ آیت یہ ہے : یاایھاالرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فمابلغت رسالتہ یعنی اے پیغمبرجوکچھ خداکی طرف سے آپ پرنازل ہواہے لوگوں تک پہنچادیں اگرایسانہیں کیاتوگویا کوئی کاررسالت انجام نہیںدیا۔ توکیامسئلہ دوستی اس قدرمہم تھا کہ اگرپیغمبرۖ اس کوپیش نہ کرتے توکاررسالت ادھورارہ جاتا؟ سنی عالم: توپیغمبرۖ کی رحلت کے بعدلوگوں اورخلفاء نے علی کی بیعت کیوں نہیں کی کیاانہوںنے گناہ کیاہے اورفرمان رسول کی مخالفت کی ہے کیاایساہے؟ ڈاکٹرتیجانی: جب سنی علماء اپنی کتابوں میںگواہی دیتے ہیں کہ اصحاب رسول کئی دستوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ بعض اوامرپیغمبرکی زندگی ہی میںمخالفت کرتے تھے(صحیح مسلم ج٤ص٤٨٢۔کتاب الامارہ دارالشعب۔مسنداحمدج٥ص٥٦تا٩٢مستدرک صحیحین ج٤ص٥٠١مجمع بیہقی ج٥ص١٩٠)لہذا تعجب نہیں ہے کہ رحلت پیغمبرۖ کے بعدآنحضرت نے اسامہ بن زید نامی جوان کولشکرکاسرداربنایا تولوگوں نے اعتراض کئے کہ ان کی عمرکم ہے جب کہ پیغمبرنے اسامہ کو تھوڑی سی مدت کے لئے سرداربنایاتھا تورہبری کے لئے علی کوکیونکر قبول کرسکتے تھے جب کہ علی کی اس وقت دوسروں سے کم عمرتھی یعنی تقریبا٣٣سال کے تھے یہ لوگ کس طرح علی کی رہبری کومانتے اورتم نے خود ابھی اقرارکیاکہ بعض اصحاب حضرت علی سے کینہ وعداوت رکھتے تھے پس معلوم ہواکہ سب کے قلب صاف نہیں تھے۔ سنی عالم: اگرعلی جانتے تھے کہ پیغمبرۖ نے ان کواپنے بعدکے لئے خلیفہ قراردیاتھا تووہ بعدازرسولۖ کیوں خاموش رہے اس شجاعت وصلاحیت کے ذریعے جو ان کوحاصل تھی اپنے حق کادفاع کرتے۔ ڈاکٹرتیجانی: مولاناصاحب: یہ ایک جداگانہ بحث ہے جس کومیں شروع نہیں کرناچاہتا۔ جب تم حدیث صریح کوتاویل کرسکتے ہوتوسکوت علی کی بحث میں کیوں کرقانع ہوسکتے ہو؟ سنی عالم مسکراتے ہوئے بولے: خداکی قسم میں ان لوگوں میں سے ہوں جوعلی کوسب سے برترمانتے ہیں۔ یقین جانوکہ اگرمیرے ہاتھ میں ہوتاتوکسی کو علی پرمقدم نہ کرتاکیونکہ علی مدینة العلم واسداللہ الغالب ہیں۔ یعنی شہرعلم اورخداکے شیرہیں۔ لیکن میں کیاکروں خدانے جس کوچاہامقدم کردیاجس کوچاہامؤخر کردیا۔مشیت الہی وخداکی قضاء وقدرکے مسئلے میں کیاکہہ سکتے ہیں؟ میں بھی مسکرایااورکہا: جناب قضاء وقدربھی ایک علیحدہ موضوع ہے جس کاہماری بحث سے کوئی ربط نہیں ہے سنی عالم: میں اپنے عقیدہ پرباقی ہوں جس کوتبدیل نہیں کرسکتا۔ہاں اس ترتیب سے موضوع تبدیل ہورہے تھے بجائے اس کے کہ کوئی ایک موضوع کامل ہو یہ بات خودمستدلل استدلالات کے سامنے ان کی شکست کی دلیل تھی(لاکون مع الصادقین ص٥٨)۔ ٧٣ ایک استاداورشاگرد کے سوال وجواب شاگرد: یونیورسٹی کے ایک استاد ڈاکٹرخالدنوفل اردن کی یونیورسٹی میں پڑھانے آتے تھے۔ میں بھی ان کی کلاس میں شرکت کرتاتھا۔میں شیعہ مذہب کاتھا اوروہ استادسنی مذہب کاتھا۔ بعض اوقات وہ اپنے تعصب کے پیش نظرشیعوں کوبرابھلاکہتاتھا۔ ایک دن ہماری اس استادسے رسولۖ کے بارہ جانشینوں کے بارے میں بحث ہوئی۔ استاد: میں نے کسی بھی حدیث کی کتاب میں نہیں پڑھاکہ رسول خدانے کہاہوکہ میرے بعد١٢خلیفہ وجانشین ہیں۔ لہذایہ حدیث تمہار گھڑی ہوئی ہے۔ شاگرد: اتفاقاسنیوں کی اکثرمستندکتابوں میں مختلف تعبیرات سے یہ حدیث مذکورہے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا: الخلفاء بعدی اثناعشربعددنقباء بنی اسرائیل وکلھم من قریش یعنی میرے بعدبارہ خلیفہ ہیں نقباء بنی اسرائیل کے حساب سے اوروہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ لہذاتمہاری مورداعتمادکتابوں میں یہ حدیث موجودہے۔ استاد:چلواگرمان لیں کہ یہ حدیث قابل قبول ہے توتم شیعوں کے نزدیک وہ بارہ افرادکون ہیں؟ شاگرد: بہت سی روایتوں کے ذریعے جوہم تک پہنچی ہیں ان میں وہ بارہ افرادیہ ہیں: ١۔علی ابن ابی طالب ٢۔حسن بن علی ٣حسین بن علی ٤علی بن حسین ٥۔محمد بن علی ٦۔جعفربن محمد ٧۔موسی بن جعفر ٨علی بن موسی ٩۔محمدبن علی ١٠۔علی بن محمد ١١۔حسن بن علی ١٢۔محمدبن حسن المہدی۔ استاد: کیا یہ حضرت مہدی ابھی زندہ ہیں۔ شاگرد: جی ہاں! وہ زندہ ہیں اورہمارے عقیدہ کے مطابق وہ پردأ غیب میں ہیں۔ جب اس دنیامیںان کے ظہورکی راہیں ہموارہوجائیں گی تووہ ظہورفرمائیں گے اورا س کائنات پرحکومت ورہبری کریں گے۔ استاد: وہ کب پیداہوئے۔ شاگرد: وہ ٢٥٥ہجری میں پیداہوئے اوراب ١٤١٣ہجری میں ان کی عمرمبارک ١١٥٨سال ہے۔ استاد: یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی انسان ایک ہزارسال سے زیادہ عمرپائے جب کہ طبیعی لحاظ سے ایک انسان کی عمرکی حد١٠٠ سال تک کی ہے؟ شاگرد:ہم مسلمان ہیں اورقدرت الہی کایقین رکھتے ہیں لہذااس میں کیاحرج ہے کہ مشیت الہی کے سبب ایک انسان ہزارسال عمرپائے؟ استاد: خداکی قدرت اپنی جگہ مگرایسی چیزخداکی سنت سے باہرہے۔ شاگرد: آپ بھی قرآن کومانتے ہیں اورہم بھی۔ لہذاقرآن میں سورہ عنکبوت کی آیت١٤ میں ارشادہوتاہے : ولقدارسلنانوحاالی قومہ فلبث فیھم الف سنة الاخمسین عاما یعنی ہم نے نوح کوان کی قوم کی طرف بھیجا،انہوں نے اپنی قوم کے درمیان ٥٠سال کم ہزارسال زندگی کی۔ لہذاحضرت نوح نے اس آیت کے مطابق ٩٥٠سال قبل ازطوفان اپنی قوم کے درمیان زندگی پائی، لہذااگرخداچاہے تودوسرے انسان کوبھی اسی مقداریااس سے زیادہ مقداراس دنیا میں زندہ رکھ سکتاہے اورپیغمبر اکرمۖ نے بھی متعددمواردمیں امام مہدی کے آنے کی خبردی ہے۔ ایک امام ورہبرکے عنوان سے کہ آپ اس دنیاپرآکرحکومت کریں گے اورزمین کوعدل وانصاف سے پرکردینے کی خبریں دی ہیں اس مسئلے پرہزارسے زیادہ احادیث شیعہ وسنی محدثین سے نقل ہوئی ہیں جس کاکوئی انکار نہیں کرسکتا۔ نمونہ کے طورپریہ حدیث کہ پیغمبرۖ نے فرمایا:المھدی من اھل بیتی بملاء الارض قسطاوعدلاکماملئت ظلماوجورا یعنی حضرت مہدی عجل اللہ میرے اہلبیت سے ہیں وہ اس زمین کوجوظلم وجورسے پرہے عدل وانصاف سے پر کردیں گے(مسنداحمدج٣ص٢٧)جب بات اس حدتک پہنچی تواستاد نے شاگرد کے منطقی استدلال سنی معتبرکتابوں کے حوالے سے سنیں توان سے کچھ بن نہ پڑاخاموش ہوکربیٹھ گئے۔ شاگرد نے موقع سے فائدہ اٹھاکرکہا: ہم واپس اپنی اصل بحث کی طرف آجاتے ہیں کہ آپ نے اس بات کی توتصدیق کی کہ پیغمبرۖ نے فرمایا: کہ میرے بعدمیرے ١٢خلیفہ ہیں جوقریش سے ہوں گے۔ آپ نے مجھ سے پوچھاکہ وہ بارہ نفرکون ہیں؟میں نے سب کے نام بتائے۔ اب میں آپ سے پوچھتاہوں کہ آپ کی نظرمیں وہ بارہ افرادکون ہیں؟ استاد: ان بارہ افرادمیں توچارخلیفہ ہیں: ١۔ابوبکر٢۔عمر ٣۔عثمان ٤۔علی پھر٥۔حسن ٦معاویہ ٧۔ابن اثیر۔٨محمدبن عبدالعزیز جوآٹھ افرادبنتے ہیں اورممکن ہے مہدی عباسی(تیسراخلیفہ عباسی)کوبھی ان میں شامل کریں اورہوسکتاہے ان میں ١٠طاہرعباسی کوبھی ان میں شامل کیاجائے بطورخلاصہ یہ کہ یہ بارہ افراد ہمارے نزدیک مشخص نہیں ہیں۔ اس لئے اس مسئلے میں ہمارے علماء کی باتیں مختلف وپراکندہ ہیں۔ شاگرد: پیغمبرۖ نے حدیث ثقلین میں جوتمام مسلمین کے نزدیک معتبرہے،فرماتے ہیں: انی ترکت فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی اھل بیتی یعنی میں تمہارے درمیان دوگراں قدرچیزیں چھوڑے جارہاہوں، ایک کتاب خدادوسری میری عترت جومیرے اہلبیت ہیں کہ اگران دونوں سے تمسک رکھاتوکبھی گمراہ نہیں ہوگے(مسنداحمدج٤ص٣٦٧،صحیح مسلم ج٢ص٢٣٨،صحیح ترمذی ج٧ص١١٢،کنزالعمال ج٧ص١١٢)اوریہ بات مسلم ہے کہ عمروابوبکروعثمان(رضی اللہ عنہم) اوردوسرے افرادزبیروعمربن عبدالعزیزومہدی عباسی جیسے افرادعترت واہلبیت رسول خداسے نہیں ہیں لہذاکیوں رسول خداکے بارہ خلیفہ کے مسئلے میں جھگڑیں جب کہ حدیث ثقلین کے حوالے سے یہ بارہ عترت پیغمبرۖسے ہیںاورہمارے شیعہ عقیدے کے مطابق امام علی سے لے کرامام مہدی عجل اللہ تک سب پریہ حدیث منطبق ہوتی ہے۔ استاد: مجھے ذرافرصت دوتاکہ اس مسئلے میں مزیدتحقیق کرلوں۔ فی الحال توکوئی قانع کنندہ جواب میرے ذہن میںنہیں آرہاہے۔ شاگرد : امیدہے کہ آپ اپنی تحقیقات سے جان لیں گے کہ رسول خدا کے وہ بارہ جانشین جوروزقیامت تک کے لئے ہیں کون ہیں۔ لیکن جب کافی مدت بعدان استادسے شاگردکی ملاقات ہوئی تووہ استاد اپنی تحقیقات کی بنا پرعقیدہ اہلسنت کے تحت موضوع مشخص کونہیں پاسکاتھا۔ دوسرے مناظرے میںایک طالب علم اپنے ایک مدرس سے معارف اہلسنت کے سلسلے میں سوال کرتاہے کہ کیاآپ اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ پیغمبرۖ کے بارہ جانشین ہیں اوروہ سب قریش سے ہیں؟ استاد: ہاں! ہماری معتبرکتابوں میں روایات موجودہیں جواس مطلب پردلالت کرتی ہیں۔ شاگرد: وہ بارہ افرادکون ہیں؟ استاد: وہ ١۔ابوبکر٢۔عمر٣۔عثمان٤۔علی ٥۔معاویہ٦۔یزیدبن معاویہ ٧۔ شاگرد : یزیدکس طرح سے خلیفہ ہوسکتاہے جب کہ وہ علی الاعلان شراب پیتاتھا اورجس کی وجہ سے کربلاکاخونی سانحہ پیش آیااوراس نے قتل امام حسین وانصار حسین کاحکم صادرکیا۔ پھروہ طالب علم استادسے کہنے لگاباقی چھ بھی توشمارکریں۔ استادمزیدجواب دینے سے قاصررہاتومطلب کوعوض کرتے ہوئے بولا: تم شیعہ لوگ اصحاب پیغمبرکوناسزاباتیں کہتے ہو۔ شاگرد: ہم تمام اصحاب کوناسزانہیں کہتے۔ تم لوگ کہتے ہوکہ سب اصحاب عادل تھے۔ ہم لوگ کہتے ہیں ایسانہیں ہے کیوںکہ کثیرتعدادمیں آیات ہیں جوزمانہ رسول کے منافقین کے بارے میں ہیں۔ اگربقول آپ کے کہیں کہ تمام اصحاب عادل تھے توان کثیرتعدادآیات کوقرآن سے نکالناپڑے گاجومنافقین کے بارے میں آئی ہیں۔ استاد: تم گواہی دوکہ ابوبکروعمروعثمان(رضی اللہ عنہم)سے راضی ہو۔ شاگرد: میں گواہی دیتاہوں کہ جس سے بھی رسول خدا وفاطمہ زہراراضی تھے میں بھی ان سے راضی ہوں اورجس سے بھی رسول خداوفاطمہ ناراض تھیں میں بھی اس سے ناراض ہوں۔ ٧٤ قبرپیغمبر ۖ پرباآوازبلندزیارت پڑھنا ایک شیعہ عالم نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ تقریبا پچاس افرادکے ساتھ مدینہ مسجدنبوی گیااورضریح مقدس کے نزدیک زیارت پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ حرم کے نگہبانوں کاسرداربنام شیخ عبداللہ بن صالح میرے پاس آیااوربطوراعتراض کہنے لگااپنی آوازکوضریح مقدس پیغمبرکے پاس بلندنہ کرو۔ میں نے کہا: مگرکیاحرج ہے؟ سردار: خداوندعالم سورہ حجرات کی آیت ٢میں فرماتاہے : یاایھاالذین آمنوالاترفعواصواتکم فی صوت النبی ولاتجھرولہ بالقول کجھربعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون یعنی اے صاحبان ایمان! اپنی آوازوں کوپیغمبرۖ کی آوازسے بلندنہ کروان کے سامنے بلندآوازمیں باتیں نہ کرو(چیخ پکارنہ کرو)جس طرح تم میں سے بعض ،بعض کے ساتھ کرتے ہیں تاکہ تمہارے اعمال بربادنہ ہوں جب کہ تم لوگ نہیں جانتے ہو۔ میں نے کہا: امام صادق کے پاس بھی اسی مقام پرچارہزارشاگردتھے اوریقیناوہ درس کی وقت شاگردوں تک اپنی آوازپہنچانے کے لئے بلندآوازسے پڑھاتے ہوں گے کیاوہ حرام کام کرتے تھے؟ اورابوبکر وعمر(رضی اللہ عنہم)بھی اسی مسجدمیں بلندآوازسے خطبہ دیتے اورتکبیرکہتے تھے کیاحرام کام کرتے تھے؟ اوراب آپ کے خطیب صاحب بلندآوازسے خطبہ دیتے ہیں بلندآوازمیں کیاقرآن کے خلاف کام کرتے ہیں؟ کیونکہ قرآن فرماتاہے: اے مومنین اپنی اوازوں کونبی کی آوازسے بلندنہ کرو۔ سردار: توپھرتمہاری نظرمیں اس آیت سے کیامرادہے؟ میں نے کہا: خدمت پیغمبرۖ میں بے فائدہ باتیں جوانضباط واجب کے خلاف ہوں جیساکہ آیت کی شان نزول میں روایت ہے کہ قبیلہ بنی تمیم کاایک گروہ مسجد میں داخل ہوااورپیغمبراکرمۖ کو،جواس وقت اپنے گھرمیں تھے،اس اندازمیں آوازدی: یامحمدۖ اخرج الینا یعنی اے محمدہمارے پاس باہرآئیں(تفسیرقرطبی ج٩ص٦١٢١۔صحیح بخاری ج٦ص١٧٢)۔ جب کہ ہم بڑی تواضع واحترام سے زیارت پڑھ رہے ہیں لہذامذکورہ آیت سے پتہ چلتاہے کہ وہ لوگ بلندآواسے قصدتوہین رسالت مآب رکھتے تھے جبھی حبط اعمال'یعنی اعمال کی بربادی کامسئلہ آیاکیونکہ اس طرح کی جرأت کافروں کاکرداراوربہت بڑاگناہ ہے نہ کہ ہم جیسے لوگوں کے لئے جوبڑے ادب واحترام سے زیارت پڑھیں اگرچہ ہماری آوازیں کچھ بلندہیں اسی لئے روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی توثابت بن قیس جوکہ پیغمبرسے بلند آوازمیں باتیں کرتے تھے،فرمانے لگے کہ وائے ہومجھ پرکہ میرے نیک اعمال حبط ہوگئے کیونکہ میں ہی پیغمبرسے بلندآوازمیں بات کرتاہوں۔ لہذااس آیت سے میں ہی مرادہوں۔ جب ان کی یہ باتیں پیغمبرۖتک پہنچیں توآپ نے فرمایا: ایسانہیں ہے بلکہ ثابت بن قیس اہل بہشت سے ہیں کیونکہ وہ وظیفہ انجام دیتے ہیں نہ کہ بلندآوازسے ان کاقصدتوہین ہوتاہے(مجمع البیان ج٩ص١٣٠تفسیرفی ظلال ومراغی)۔ ٧٥ شیخ بہائی کے والدسے سنی علماء کے مباحثے علامہ شیخ حسین بن عبدالصمدعاملی جوشیخ بہائی کے والدبزرگوارتھے وہ ٩١٨ہجری کے محرم کے اوائل میں جبل عامل میں پیداہوئے اورانہوں نے آٹھ ربیع الاول ٩٨٤ہجری میں ٦٦سال عمرپاکراس دیناکوخداحافظ کہا۔ آپ بہت بڑے محقق وعالم وشاعرتھے۔ ٩٥١ہجری میں آپ نے شام کے ایک شہرحلب کاسفر کیااوروہاں ایک بڑے سنی عالم دین سے مذہب حق کے سلسلے میں کئی مناظرے کئے بالاخران سنی عالم دین نے مذہب حق تشیع اختیارکرلیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم ان مناظرات کی تلخیص صرف چارمناظروں میں بیان کریں گے۔ مناظرہ اول: امام صادق کی تقلیدکیوں نہیں کی جاتی؟ شیخ حسن بن عبدالصمدکہتے ہیں کہ شہرحلب میں جب واردہوئے توحنفی مذہب کیایک سنی عالم دین جوعلوم وفنون میں کافی ماہرمانے جاتے تھے،نے میری دعوت کی۔ گفتگومیںتقلیدکی بحث آئی جومیرے اوران کے درمیان مناظرے کی صورت اختیارکرگئی لہذاوہ مناظرہ کچھ اس طرح سے تھا: شیخ حسین: آپ اہلسنت کے نزدیک قرآن سے یارسول خداکی طرف سے کوئی صریح حکم آیاہے کہ آپ لوگ ابوحنیفہ کی تقلیدکرو؟ حنفی عالم: نہیں اس قسم کاقرآن یاگفتارپیغمبرسے کوئی حکم صریح نہیں آیاہے۔ شیخ حسین: کیاسب مسلمانوں نے اس بات پراجماع کیاہے کہ ہم سب مل کرابوحنیفہ کی تقلیدکریں؟ حنفی عالم:نہیں اس قسم کابھی کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ شیخ حسین: توکس دلیل کے تحت آپ لوگوں پرابوحنیفہ کی تقلیدواجب ہوگئی ہے؟ حنفی عالم: ابوحنیفہ مجتہدہیں اورمیں مقلدہوں اورمقلدپرواجب ہے کہ کسی ایک مجتہدکی تقلیدکرے۔ شیخ حسین: کیاآپ کی نظرمیں امام صادق مجتہدتھے؟ حنفی عالم: جعفربن محمدالصادق توبلندترین مقام ومنزلت رکھتے تھے علم وتقوی ونسب ومقام یمں سب سے بلندتھے ہمارے بعض علماء نے ان کے چارخاص شاگردوں کے نام لئے ہیں کہ جومجتہدتھے ان میں سے ایک ابوحنیفہ ہیں۔ شیخ حسین: اب جب کہ آپ نے امام صادق کے فوق العادة تقوی کااعتراف کیاہے توہم شیعہ حضرات اسی امام کی تقلیدکرتے ہیں لہذاآپ لوگوں نے یہ کہاں سے سمجھاکہ ہم لوگ گمراہی میں اورآپ لوگ رہ ہدایت پرہیں؟جبکہ ہمارے عقیدے کے مطابق امام صادق معصوم تھے جن سے کسی قسم کی خطاکاکوئی امکان نہیں تھاان کاحکم خداکاحکم تھا۔ ہمارے پاس اپنی اس بات پرمتقن دلائل ہیں اوروہ ابوحنیفہ کی نانندقیاس ورائے واستحسان وغیرہ کے ذریعے فتوی نہیں دیتے تھے جب کہ ابوحنیفہ کے فتووں کے بارے میں احتمال خطاہے جب کہ امام صادق کے سلسلے میں اس قسم کاکوئی احتمال نہیں ہے۔ بالفرض اگرہم ان کی عصمت سے چشم پوشی بھی کرلیں اوراپ لوگوں کی طرح کہیں کہ امام صادق مجتہد تھے تب بھی ہمارے پاس ایسے دلائل ہیں کہ تنہااس مجتہد(یعنی امام صادق)کی تقلیدکرنی چاہئے نہ کہ ابوحنیفہ کی۔ حنفی عالم: آپ کے پاس اس مسئلے پرکیادلائل ہیں؟ شیخ حسین: تمام مسلمان اس بات پرمتفق ہیں اوراعتراف کرتے ہیں کہ امام صادق علم وتقوی وعدالت ومقام میں دوسروں پربرتری رکھتے تھے اس طرح کہ میں نے کسی بھی دن کی کسی بھی تاریخ کی کتاب میں نہیں دیکھاکہ کسی نے امام صادق پرکسی نے کوئی اعتراض کیاہو،شیعوں کے دشمنوں کے پاس تمام امکانات وقدرت وجمعیت زیادہ ہونے کے باوجودامام صادق کی شان میں کوئی ناسزابات نہ کہہ سکے یہ فوقیت خودایک بڑاامتیازہے لہذایہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم ایسے آقاومولاکی تقلیدجن کے بارے میں تمام علماء اسلام فوقیت علمی وتقوی کااعتراف کرتے ہیں چھوڑدیں جب کہ دوسروں کی تقلید جواعتراض واشکالات پرمشتمل ہواختیارکریں؟ جب کہ مسئلہ تقلیدوعدم شک وغیرہ اثبات عدالت پرموقوف ہیں۔ چنانچہ یہ خودایک تفصیلی بحث ہے جواپنے موردمیں تفصیلاآئے گی۔ دوسری طرف آپ لوگوں کے امام غزالی جنہوں نے کتاب المنخول لکھی ہے ابوحنیفہ پراعتراض کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض دیگرشافعی علماء نے کتاب النکت الشریعہ فی الردعلی ابی حنیفہ لکھی ہیں۔ لہذابغیرکسی تردیدکے ایسے شخص کی تقلیدکرناجوعلم وتقوی وعدالت میں سب کے نزدیک معتمدعلیہ ہوواجب ہے۔ تمام محققین کے اجماع کے پیش نظرراجح فتوی کے سامنے مرجوح فتوے پرعمل کرناجائزنہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہم شیعوں کے عقیدے کے مطابق امام صادق اہل بیت رسول خداہیں جوسورہ احزاب کی آیت ٣٣کی تصریح کے تحت ہرطرح کی نجاست وانحراف سے پاک ہیں۔ چنانچہ علامہ لغوی ابن فارس اپنی کتاب معجم مقاییس اللغہ میں مجمل اللغہکی تصریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام،اہلبیت پیغمبرۖ سے ہیں(جب کہ ابن فارس مشہورومعروف اہلسنت سے ہیں)اوروہی مقام عصمت ہے جوشیعہ امام صادق کی عصمت کے قائل ہیں۔ لیکن ابوحنیفہ کے بارے میں اجماع ہے کہ وہ اہلبیت پیغمبرسے نہیں تھے۔ لہذ١خودقرآن کی تصریح کے پیش نظرضروری ہے کہ ایسے افرادکی تقلیدکی جائے جوہرقسم کی خطاولغزش سے پاک ومنزہ ہوتاکہ یقینی طورپراس کی تقلید کرنا نجات کاذریعہ ہو۔ حنفی عالم: ہم نہیں مانتے کہ امام صادق اہلبیت رسول سے ہیں بلکہ ہماری احادیث کے تحت آیت تطہیرکے پیش نظرپانچ افرادہیں: محمدۖوعلی وفاطمہ وحسن و حسین شیخ حسین: چلیں ہم فرض کرلیں کہ امام ان پانچ میں سے نہیں ہیں لیکن تین دلیلوں کے تحت ان کاحکم بھی عصمت اورپیروی کے واجب ہونے میں انہیں پانچوں کے حکم میں ہے۔ پہلی دلیل یہ کہ جوبھی عصمت پنجتن کامعتقدہے وہ عصمت امام صادق کوبھی مانتاہے اورجوبھی پنجتن کاعصمت کونہیں مانتاوہ امام صادق کی عصمت کوبھی نہیں مانتا۔ اورپنجتن کامعصوم ہوناتوآیت تطہیرکوتصریح کے ذریعے ثابت ہے۔ لہذاعصمت امام صادق بھی ثابت ہے کیونکہ علماء اسلام کی اتفاق رائے کے تحت امام صادق وپنجتن کی عصمت میں کوئی فرق نہیں ہے اورتنہا پنجتن کی عصمت کااعتقادرکھنابغیرعصمت امام صادق کااعتقادرکھے اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ تمام راویوں وسیرت لکھنے والوں سے یہ بات معلوم ومشہورہے کہ امام صادق اوران کے اجدادمیں سے کوئی بھی تحصیل علم کے لئے کسی کے پاس بھی نہیں گئے کسی نے بھی نہیں لکھاہے کہ معصومین میں سے کسی نے علماء تسنن کے کسی درس میں شرکت کی ہوبلکہ سب نے اس بات کونقل کیاہے کہ امام صادق نے علم اپنے والدامام باقر اورانہوں نے اپنے والدامام سجاداورانہوں نے اپنے والدامام حسین سے تحصیل علم کیاہے اورامام حسین تواجماع مسلمین کے تحت اہلبیت پیغمبرۖسے ہیں۔ لہذاکسی بھی امام کے فرمان ازحیث اجتہادکے نہیں ہیں،کبھی بھی ایسانہیں ہواکہ کسی چھوٹے یابڑے نے آئمہ معصوم میں سے کسی سے کوئی سوال کیاہواورآپ لوگ جواب دینے میں کتابوں کے مطالعہ کی طرف محتاج ہوئے ہوں۔ خودمعصومین نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ہم میں سے ہرایک کاقول ان کے پدربزرگوارکاقول ہے اورپدربزرگوارکاقول قول رسول ہے۔ اوریہ بات توہمارے نزدیک بطورمتیقن ثابت ہے کیونکہ پیغمبرۖ کابھی توفرمان ہے کہ : اولنامحمد واوسطنامحمد وآخرنامحمد وکلنامحمد یعنی ہمارااول وآخرواوسط وسب کے سب محمدۖ ہیں۔ یعنی جواول کاقول ہے وہی اوسط کاآخر کابلکہ سب کاوہی قول ہے۔ لہذاقول امام صادق بھی وہی قول رسول ہے جواس کائنات سے ظلم وجہالت وبربریت کوختم کرنے آئے۔ تیسری دلیل: یہ ہے کہ آپ لوگوں کی موردقبول مختلف ومتعددروایات سے نقل ہے کہ حدیث ثقلین جوعبارات مختلف کے باوجودایک ہی معنی کوبیان کرتی ہے جوپیغمبراکرمۖ نے فرمایا: انی تارک فیکم الثقلین ماان تمسکتم بہ لن تضلوبعدی کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی یعنی میں تمہارے درمیان دومہم وگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں کہ اکران سے تمسک رکھاتوہرگزگمراہ نہیں ہوگے وہ دوچیزیں ایک کتاب خداہے اوردوسری میری عترت جومیرے اہلبیت ہیں۔ یہ حدیث واضح طورپربتارہی ہے کہ قرآن وعترت پیغمبرۖ سے تمسک نجات کاسبب ہے جب کہ تمام مسلمین میں صرف شیعہ ہی ان دونوں کوماننے والے ہیں کیونکہ غیرشیعہ عترت پیغمبرکوتمام انسانوں کی طرح سمجھتے ہیں اوردوسروں سے تمسک کرتے ہیں۔ حدیث ثقلین ہرگزیہ نہیں کہہ رہی ہے کہ میں تمہارے درمیان قرآن وابوحنیفہ یاقرآن وشافعی وغیرہ کوچھوڑے جارہاہوں لہذایہ کس طرح ممکن ہے کہ عترت پیغمبرۖ سے ہٹ کردوسروں سے تمسک کرکے نجات مل سکے۔ لہذا یہی مطلب اس بات کااقتضاء کرتاہے کہ امام صادق جیسوں کی تقلیدکی جائے اس لئے کہ ان جیسوں کی تقلید کرناعترت پیغمبرسے تمسک کرناہے اور اس میں توشک ہی نہیں کہ امام صادق کی پیروی ابوحنیفہ کے مقابل میں برتری رکھتی ہے۔ مناظرہ دوم: مذاہب اربعہ کی نسبت مذہب تشیع کیوں مشہورنہیں؟ پہلے مناظرے میں جب امام صادق کی تقلیدکی برتری ثابت ہوگئی توحنفی عالم کہنے لگے: صحیح ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ امام صادق نے علم اپنے اجدادسے سیکھااوردوسروں پرعلم وتقوی کے لحاظ سے برتری رکھتے ہیں اوراپنے مقلدین کی نجات کاباعث ہیں مگرپھربھی مذہب اتنامشہورنہیں ہے جتنایہ چار مذاہب(حنفی ومالکی وحنبلی وشافعی)مشہورہیں۔ شیخ حسین: اگرآپ کامقصدیہ ہے کہ مذہب شافعی وحنفی وغیرہ نے مذہب تشیع کونقل نہیں کیا،توصحیح ہے لیکن ان کانقل نہ کرناہمارے لئے کوئی نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ ہم نے بھی ان کے مذہب کونقل نہیں کیا۔ اوراسی طرح ان چاروں نے بھی ایک دوسرے کے مذہب کونقل کیا،اوریہ نقل نہ ہونابھی آپ لوگوں کے لئے کوئی نقصاندہ نہیں ہے ۔اوراگرآپ کامقصدیہ ہے کہ کسی بھی مسلمان نے مذہب تشیع کونقل نہیں کیاتوآپ کایہ دعوی بے بنیادہے کیونکہ خودشیعہ جومسلمانوں میں عظیم لوگ ہیں انہوں نے اوربہت سے اہلسنت اورباقی اسلامی فرقوں نے بھی گفتاروآداب وعبادات میں جعفری مذہب(مکتب اہل بیت)کونقل کیاہے خودشیعوں نے مطالب مذہب تشیع کونقل کرنے میں بڑااہتمام کیاہے،مناظرے کئے ہیں اورراویوں کے مسئلے میں ثقہ وعدم ثقہ پربڑی توجہ دی ہے جس پرکئی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن کاکوئی انکارنہیں کرسکتا۔ علماء شیعہ جتنے بھی علماء اہلسنت سے کم ہی کیوں نہ ہوں پھربھی علماء چہارگانہ بالخصوص حنبلی ومالکی سے کم نہیں ہیں بلکہ ان دومذہب کے علماء سے توزیادہ ہیں اورہمیشہ علماء شیعہ اپنے اماموں کی پیروی میں علم وتقوی وغیرہ میں عالی ترین منزلت ومرتبہ پرفائزہیں۔ جس طرح ہمارے اماموں کے زمانہ میں کوئی بھی علم وعمل کے لحاظ سے ہمارے اماموں بلکہ ان شاگردوں سے علم وبحث وتحقیق میں برتر نہیں تھا۔ شاگردان امام مثلابن حکم،جمیل بن دراج وزرارہ بن اعین ومحمدبن مسلم اوردوسرے کثیرشاگردجوانہی کی مانندتھے حتی کہ مخالفین بھی ان کے علم وعمل وتقوی کی تعریف کیاکرتے تھے۔اسی طرح اماموں کے دورکے بعدکے علماء بھی ہیں۔ مثلاعلامہ مجلسی،شیخ صدوق،شیخ کلینی،شیخ مفید،شیخ طوسی،سیدمرتضی، سیدرضی،ابن طاؤس،خواجہ نصیرالدین طوسی،میثم بحرانی،علامہ حلی اوران کے بیٹے فخرالمحققین اورانہی کی طرح وہ دیگرعلماء ومحققین ہیں کہ جنہوں نے اپنی تالیفات وبحثوںکے ذریعے تمام مشرق ومغرب کے عالم کوپرکردیاتھا۔ لہذااس مذہب سے لوگوں کوانکارکردیاتوتعصب کے پیش نظرہے یانادانی کے سبب۔ لہذاآپ کومجبورمانناپڑے گاکہ ہمارامذہب صحیح ہے،بلکہ ہم لوگ جس کی تقلیدکرتے ہیں وہ باقی سب پربرتری رکھناہے،لہذاجوانصاف سے کام لیتاہے اس کے لئے ناگزیرہوجاتاہے کہ مذہب تشیع کی صحت کااعتراف کرے لیکن ہمارے لئے ضروری نہیں ہے کہ ہم آپ ک مذہب حنفی کے صحیح ہونے کی تصدیق کریں کیونکہ ہم لوگ جس کی پیروی کرتے ہیں اس میں عصمت کوشرط مانتے ہیں لہذاہم ہی نجات یافتہ گروہ ہیں۔ آپ لوگ اگرچہ ہمارے مذہب کی صحت کواپنی زبانوں پرنہیں لاتے لیکن دلائل وقواعدمسلم جوآپ لوگوں کے پاس ہیں وہ آپ لوگوں کومذہب تشیع کی متابعت پرمجبورکرتے ہیں کیونکہ بقول آپ کے نجات کاسبب مجتہدکی تقلیدکرناہے جوہمارے مذہب میں ترجیحاناقابل انکارہے۔ جب بات اس مقام تک پہنچی تووہ حنفی عالم لاجواب ہوکررہ گئے اوراپنے سوال سے منحرف ہوکردوسری بحث شروع کرنے لگے۔ مناظرہ سوم: اصحاب کوناسزاکہناکیساہے؟ حنفی عالم: میری نظرمیں ایک موضوع باقی رہ گیاہے وہ یہ کہ آپ کے نزدیک اصحاب پیغمبراکرم کوناسزاکہناکیساہے؟وہ لوگ جواپنی جان ومال کے ذریعے اور شمشیرکے ذریعے شہروں اورعلاقوں کوحکومت اسلامی کے تحت لے آئے۔ مثلاعمربن خطاب(رضی اللہ عنہ)کے زمانے میں جوفتاوی صادرہوئے وہ کسی بھی خلفاء کے زمانے میں صادرنہیں ہوئے جن کاہرگزانکارنہیں کیاجاسکتا۔ لہذا ان کی قدرت وصلاحیت سے بھی ہرگزانکارنہیں کیاجاسکتا۔ جب میں آپ کے دلائل کی طرف توجہ کرتاہوں تودیکھتاہوں کہ مذہب تشیع بہت اچھاتومحکم ومذہب ہے لیکن جب آپ کے مذہب میں دیکھتاہوں کہ بعض اصحاب پیغمبرۖ کوناسزاکہاجاتاہے جوصحیح نہیں اس سے اندازہ لگاتاہوں کہ آپ کامذہب ہی صحیح نہیں ہے۔ شیخ حسین: ہمارے مذہب میں اس قسم کاکوئی حکم نہیں ہے کہ اصحاب پیغمبرکوناسزاکہاجائے بلکہ عوام الناس انہیں ناسزاکہاجائے۔ آپ تمام ہماری فقہی کتابیں اٹھاکردیکھ لیں کہیں بھی یہ مسئلہ آپ کونہیں ملے گا۔ پھراس حنفی عالم کے سامنے میں نے قسم کھاتے ہوئے بتایاکہ اگرکوئی مذہب اہلبیت یعنی مذہب تشیع میں ہزار سال بھی زندگی گزارے ولایت اہلبیت کوقبول کرتاہوان کے دشمنوں سے بیزارہواورہرگزکسی بھی صحابہ رسول کوناسزانہ کہتاہوان کے دشمنوں سے بیزار ہو اورہرگزکسی بھی صحابہ رسول کوناسزانہ کہتاہوتووہ ہرگزخطاوارنہیں ہے اورنہ اس کے ایمان میں کوئی کمی آنے والی ہے۔ حنفی عالم نے جب میری یہ بات سنی توا س کاچہرہ کشادہ ہوگیا۔ اس نے خوشی کااظہارکیاگویاکہ میری بات تصدیق کررہاہو۔اسی اثناء میں میں نے اس سے کہاکہ جب کہ آپ کے نزدیک علم اہلبیت پیغمبرۖاوران کامقام اجتہاد وعدالت اوران کی سب پربرتری ثابت ہوگئی توآپ کوچاہئے کہ ان کی پیروی کریں۔ حنفی عالم: میں گواہی دیتاہوں کہ میں ان کاپیروکارہوں لیکن اصحاب رسول کوہرگزناسزانہیں کہوں گا۔ شیخ حسین: آپ صحابہ میں سے کسی کوبھی سزانہ کہیں لیکن جب آپ اس کے معتقدہیں کہ اہلبیت رسولۖ،خداکی نظرمیں عظمت رکھتے ہیں تواس وقت آپ ان کے دشمنوں کوکیاکہیں گے؟ حنفی عالم: میں دشمنان اہلبیت رسول سے بیزارہوں۔ شیخ حسین:میرے نزدیک آپ کے مذہب تشیع کے قبول رکنے کے لئے اتناہی کافی ہے۔ پھروہ حنفی عالم کہنے لگے: میں خداکی وحدانیت وپیغمبرکی رسالت اورخدا کی فرشتوں کی گواہی دیتاہوں اوران سب کے دشمنوں سے بیزاری اختیارکرتاہوں۔ پھرمجھ سے فقہ اہلبیت پرکتاب طلب کی تومیں نے ان کو مختصر النافع شرح شرائع علامہ محقق حلی ان کودی۔ مناظرہ چہارم: مقام صحابہ پرایک بحث شیخ حسین بن عبدالصمدکہتے ہیں کہ کافی مدت بعدجب پھراس حنفی عالم کودیکھاجوشیعہ ہوچکے تھے تووہ بڑے مغموم نظرآرہے تھے کیونکہ ان کے اندریہ بات رسوخ کرگئی تھی کہ اصحاب پیغمبرکے بلندوعظیم رتبہ کے باوجودشیعہ ان کوبراکیوں کہتے ہیں؟ میں نے ان سے کہاکہ اگرآپ انصاف کوبراکہنے کی علت آپ کے سامنے بیان کروں۔ انہوں نے مختلف قسم وغیرہ کھاکرعہدکیاکہ انصاف سے قضاوت کریں گے اوراس گفتگوکودوسروں سے مخفی رکھیں گے توپھرمیں نے ان سے کہاآپ کانظریہ اس صحابی کے بارے میں جس نے عثمان خلیفہ سوم کوقتل کیاتھاکیاہے؟ حنفی عالم: اس نے اپنے اجتہادکے پیش نہظریہ کام(قتل عثمان)کیاتھا۔لہذاوہ لوگ گناہگارنہیں ہیں جیساکہ ہمارے علماء نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے۔ شیخ حسین: آپ کانظریہ عائشہ وطلحہ وزبیراوران کے پیروکاروں کے بارے میں کیاہے جوحضرت علی کے ساتھ جنگ جمل کووجودمیں لانے اوردونوں طرف کے سولہ ہزارافرادکے قتل کے موجب بنے؟اسی طرح آپ کانظریہ معاویہ اوراس کے اصحاب جوجنگ صفین کووجودمیں لانے اورحضرت علی سے جنگ لڑنے اورنتیجہ میں دونوں طرف سے ساٹھ ہزارافرادکے قتل کاسبب بنے کیاہے؟ حنفی عالم: یہ سب جنگیں بھی قتل عثمان کی طرح اجتہاد کے پیش نظرہوئی ہیں۔ شیخ حسین: کیاحق اجتہادمسلمانوں کے صرف ایک گروہ کاحاصل ہے دوسروں کوحق حاصل نہیں ہے؟ حنفی عالم: نہیں بلکہ تمام مسلمان اجتہادکی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شیخ حسین: جب اجتہاد میں قتل اصحاب اوردوسرے مومنین کے قتل دختررسول وقتل حضرت علی جائزہیں یعنی جس کے علم وزہدوتقوی رسول خداکے بعدسب سے بلندوبرترہوں اسلام اس کی شمشیرہی سے بچاہواوررسول نے ان کے بارے میں مختلف طریقوں سے مختلف مقامات پران کی فضیلت میں احادیث ارشاد فرمائی ہوں جن سے ہرگزانکارنہیں کیاجاسکتا اوریہاںتک کہ خدانے جس کوتمام لوگوں کارہبروسرپرست بتایاہویہ فرماکرکہ : انماولیکم اللہ ورسولہ والذین آمنوا یعنی اے صاحبان ایمان! تمہاراولی ورہبرخداورسول ۖ اوروہ لوگ ہیں جو(اس پر)ایمان لائے ہیں(سورہ مائدہ ایت٥٥)یعنی وہ علی ہیںکیونکہ علماء اسلام کی اتفاق رائے کے تحت والذین آمنواسے مرادحضرت علی ہیں(احقاق الحق ج٢ص٣٩٩۔کنزالعمال ج٦ص٣٩١۔ فتح القدیر ج٢ص٥٠۔ ذخائرالعقبی ص٨٨)اوربھی بہت سی روایات ہیں جواس مطلب پردلالت کرتی ہیں۔ اب میں پوچھتاہوں کہ کیابعض اصحاب کوناسزا کہنے میں اجتہاد(خودبقول آپ کے)جائزہے کیوں اوراصحاب کوبراوناسزاکہنے میں اجتہادجائز نہیں ہے کیوں؟(شیعہ)کسی کوبھی برانہیں کہتے مگراس کو براوناسزا کہنے میں اجتہادجائزنہیں ہیں کیوں؟کیونکہ(شیعہ)کسی کوبھی برانہیں کہتے مگراس کوبراوناسزاکہتے ہیں جس نے علی الاعلان اہلبیت رسول کے ساتھ دشمنی کی لیکن جواہلبیت رسول سے مخلصانہ محبت کرتے ہیں ہم بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ مثلاسلمان ومقدادوعماروابوذروغیرہ۔ لہذ١ان سے دوستی کے پیش نظرہم خداسے تقرب چاہتے ہیں۔ یہ ہے ہمارااعتقاداصحاب پیغمبرۖ کی شان میں اورناسزاکہنابھی ایک قسم کی بددعاہے خداکی مرضی اسے قبول کرے یانہ کرے جس طرح صحابہ کاخون گراناہے اوریہ معاویہ تھاس نے سب وشتم حضرت علی اوران کے خاندان پرقراردیا۔اس طرح کہ اسی (٨٠)سال حکومت بنی امیہ میں یہی رائج رہی مگرپھربھی مقام ومنزلت علی میں ذرہ برابربھی کمی نہیں آئی اسی طرح شیعوں کادشمنان خاندان رسالت کوبراکہنااپنے اجتہادکی بنا پرصحیح ہے یہ لوگ اگرفرضااپنے اجتہادمیں خطابھی کرجائیں پھربھی گنہگارنہیں ہیں۔ مزیدوضاحت: اصحاب پیغمبرۖ بھی کئی طرح کے تھے۔ بعض سچے تھے،بعض منافق تھے اورخداکابعض اصحاب کی تعریف کرنااس بات پردلالت نہیں کرتاکہ دوسرے صحابیوں کافسق وفجوروکفرختم ہوجائے اوروہ بھی اس تعریف میں شامل ہوجائیں۔ لہذاہمارااجتہادرسول خداکے منافق صحابیوں کوبراکہنے میں ہے نہ ہ ہم سب کوبراکہتے ہیں۔ حنفی عالم: کیااجتہادبغیردلیل کے صحیح ہے۔ شیخ حسین: ہمارے مجتہدین کے دلائل اس مسئلے میں روشن ہیں۔ حنفی عالم: ان میں سے ایک میرے لئے بیان کریں۔ شیخ حسین نے دلائل بیان کئے جن میں منجملہ حضرت فاطمہ زہرا کوآزاررسانی والامسئلہ کہ خداوندعالم سورہ احزاب کی آیت ٥٧میں ارشادفرماتاہے: ان الذین یوذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیاوالاخرة یعنی بے شک وہ لوگ جوخداورسول کوآزاردیتے ہیں خداان پردنیاوآخرت میں لعنت بھیجتاہے(المناظرات تالیف شیخ حسین بن عبدالصمد۔چاپ سوسہ قائم آل محمدعلیہم السلام)۔ ٧٦ آیت رضوان وطعن اصحاب مجھے یادہے کہ ایک دفعہ میری ایک شافعی عالم سے ملاقات ہوئی جوکسی حدتک قرآن وحدیث سے واقف تھا۔ اس نے شیعوں پراپنے اعتراضات کواس طرح سے شروع کیاکہ شیعہ اصحاب پیغمبرپرلعن وطعن کرتے ہیں اوریہ کام خلاف قرآن ہے۔ لہذاجولوگ خداکی خوشنودی کاباعث ہیں ان کے بارے میں ہرگز بدگوئی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ خداوندعالم سورہ فتح کی آیت نمبر١٨میں فرماتاہے : لقدرضی اللہ عن المومنین اذیبایعونک تحت الشجرة فعلم مافی قلوبھم فانزل السکینة علیہم واثابھم فتحاقریبا یعنی خداوندعالم مومنین سے راضی ہوگیاجنہوں نے اس درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پربیعت کی ہے،خداان کے قلوب میں جوکچھ ہے جاننے والاہے،لہذا انہیں قلبی سکون عطاکیااورعنقریب ان کے نصیب میں فتح ہوگئی۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبرۖ اکرم ہجرت کے چھٹے سال ماہ ذی الحجہ میں ایک ہزارچارسومسلمانوں کے ہمراہ عمرہ کے ارادے سے مدینے سے مکہ کی طرف چلے ابوبکروعمروعثمان وطلحہ وزبیروغیرہ بھی ان کے ساتھ تھے لیکن جب عسفان۔جومکہ سے قریب ایک آبادی تھی۔ پہنچے تومعلوم ہواکہ مشرکین مسلمانوں کومکہ میں داخل ہونے سے روکیں گے۔ چنانچہ پیغمبر اکرمۖ نے مکہ سے بیس کلو میٹردورحدیبیہ جہاں پانی اوردرخت وغیرہ تھے توقف کیاتاکہ صحیح خبرمعلوم ہوجائے۔اسی دوران پیغمبراکرمۖنے عثمان کوسرداران قریش سے مذ١کرہ کرنے کے لئے مکہ بھیجا،کافی دن تک ان کی کوئی خبرنہ مل سکی،لہذا مشہورہونے لگاکہ مشرکین نے عثمان کوقتل کردیاہے اسی دوران پیغمبراکرمۖ نے شدت عمل کاارادہ کیااوراسی درخت کے نیچے مسلمانوں کوحاضرکیااورتجدیدبیعت لی جوبعدمیں بیعت رضوان کے نام سے مشہورہوگئی۔ پیغمبراکرمۖ نے مسلمانوں سے عہدلیاکہ اپنے اپنے خون کے آخری قطرہ تک مشرکین سے جنگ میں مقاومت کریں گے لیکن تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ عثمان صحیح وسالم لوٹ آئے،اس بیعت کی خبرسے مشرکین مرعو ب ہوگئے اورسہیل بن عمرکوپیغمبرۖ کی خدمت میں صلح کے لئے بھیجاجس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ قرارپائی اوریہ طے پایاکہ مسلمان آئندہ سال مکہ میں آئیں گے اس سال واپس چلے جائیں(تلخیص تاریخ طبری ج٢ص٢٨١)اسی دوران سورہ فتح کی آیت مذکورہ نازل ہوئی جس میں خدانے بیعت کرنے والوں کی ستائش اوراس کے بارے میں اپنی رضامندی کااظہارکیاہے لہذاجوصحابی خداکی رضامندی کاسبب بنیں، ان کوہرگزلعن وطعن نہیں کرناچاہئے۔ میں نے اس کوجواب دیاکہ اولایہ آیت صرف ان لوگوں پرمشتمل ہے جواس وقت بیعت میں حاضرتھے اورثانیااس آیت میں منافقین شامل نہیں، یعنی عبداللہ ابی اوراوس بن خولی وغیرہ۔ جن کوآیت رضی اللہ عن المومنین خارج کرتی ہے ثالثا آیت مذکورہ دلالت کرتی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے بیعت کی خداان سے راضی ہوگیا۔آیت کامعنی یہ نہیں ہے کہ خداتاابدان سے راضی ہوگیاہے جس پراسی سورہ کی آیت نمبر١٠گواہ ہے : فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ومن اوفی بما عاھدعلیہ اللہ فسیوتیہ اجراعظیما یعنی جس نے عہدپیمان کوتوڑاگویااس نے اپناہی نقصان کیااورجوخداسے کئے ہوئے عہدکوپو راکرے اسے عنقریب اجرعظیم دیاجائے گا یہ آیت اس بات کوبیان کرتی ہے کہ ان افرادمیں سے بعض تھے جن کے بارے میں بیعت شکنی کااحتما ل تھا ۔ چنانچہ بعض کے بارے میں یہ مسئلہ ظاہرہوگیالہذاآیت رضوان خداکی رضایت ابدی کوبیان نہیں کرتی بلکہ ممکن ہے کہ یہ مسلمان دودستہ ہوجائیں،ایک دستہ اپنی بیعت کی وفاکرے اوردوسرا دستہ بیعت کی وفانہ کرے۔ لہذاہم شیعوں کے نزدیک جنہوں نے دلائل بے جاکے ذریعے وفاداری نہیں کی وہ اس آیت رضوان سے خارج ہیں۔ لہذاہمارے نزدیک قابل لعن ہیں اورآیت مذکورہ بھی ہمیں اس سے نہیں روک سکتی۔
Start a discussion with Ghulam hssn
Talk pages are where people discuss how to make content on ویکی کتب the best that it can be. Start a new discussion to connect and collaborate with Ghulam hssn. What you say here will be public for others to see.