بچپن کی شوخیاں

ویکی کتب سے

گزشتہ صفحہ: والدین اور وفات

ابوالحسن جانے کو تو مکتب چلا جاتا تھا۔ مگر وہاں صرف دل لگی اور لڑکوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے نہ کہ پڑھنے کے شوق کی خاطر۔ کسی کو سناتا کسی سے چار سنتا کسی کو مارتا کسی سے مار کھاتا۔ غرض انہی دلچسپیوں میں مدرسہ کا وقت گزار دیتا۔

ماں باپ کا لاڈلا شوخی و شرارت میں طاق تھا۔ پانچ سات برس کا لڑکا ابتدا ہی میں اس قسم کی شرارتیں اور شوخیاں کرتا تھا کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کی طرح اس کی آئندہ زندگی کے مذاق کا بہت کچھ اندازا ہو جاتا تھا۔ استاد کے لائق اور سعادت مند شاگرد نے بسم اللہ استاد ہی پر شروع کی چنانچہ مندرجہ ذیل دو چٹکلے ان کی نسبت مشہور ہیں جو چھوٹی سی عمر میں ان سے ظہور میں آئے۔

ان کے استاد ملا عبدالرحمٰن صاحب ہر ایک کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے یعنی یک چشم تھے جب انہوں نے ابوالحسن کو کہا کہ پڑھو الف خالی، ب کے نیچے ایک نقطہ، ت کے اوپر دو نقطے تو سعادتمند شاگرد پڑھتے ہیں، ب کے نیچے دو نقطے اور ت کے اوپر چار۔ استاد نے کہا نامعقول میں ایک اور دو نقطے کہتا ہوں تو دو اور چار کہاں سے لے آیا؟ ہونہار شاگرد نے جواب دیا استاد جی صاحب، آپ تو ایک آنکھ سے دیکھ کر ایک اور دو نقطے کہتے ہیں، مجھے خدا نے دو آنکھیں دی ہیں، اس لیے میں دو اور چار کہتا ہوں۔ یہ سن کر استاد صاحب نہایت خفیف ہوئے اور مکتب کے لڑکوں نے جو مذاق اڑایا وہ اس پر مستزاد تھا۔

مصرع: ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر

ایک دفعہ مکتب کے لڑکے جب کھانا کھانے کو گئے تو حضرت کو ایک شرارت سوجھی۔ روٹی کچھ نہ کھائی، غرض زہرمار کر کے جلد مکتب میں آئے آتے ہی ایک لڑکے کے جزدان سے ایک کتاب نکال کر استاد کے جزدان میں رکھ دی اور پھر چلے گئے۔ جب سمجھے کہ اب اکثر لڑکے آ چکے ہوں گے، آپ بھی پہنچے جس لڑکے کی کتاب چوری گئی تھی اس نے استاد سے شکایت کی۔ ملا عبدالرحمٰن بھی سخت گیر تھے حسب عادت انہوں نے خشم گیں ہو کر حکم دیا کہ سب کے جزدان دیکھو اور جس نالائق کے بستہ سے نکلے اس کا منہ کالا کر کے اس کو خوب ذلیل کرو۔ ادھر تو جزدانوں کی تلاشی ہونے لگی اور ادھر ابوالحسن نے چور کا منہ کالا کرنے کے لیے سیاہی اور تیل حاضر کر دیا۔ کتاب باوجود تلاش کے بھی نہ ملنی تھی، نہ ملی۔ ابوالحسن نے اس لڑکے کو کہا کہ اب استاد جی رہ گئے ہیں ان کی تلاشی بھی لے لو، تلاشی لینے پر کتاب نکل آئی (جیسی کہ امید تھی) ابوالحسن سیاہی اور تیل لے کر دست بستہ کھڑا ہو گیا اور کہا کہ اب صرف ارشاد کی دیر ہے، غلام تعمیل کو حاضر ہے۔ استاد صاحب شرمندہ ہو گئے۔

اگلا صفحہ: سراج النسا کا انتقال

رجوع بہ فہرست مضامین: سوانح عمری ملا دوپیازہ