صراحی کا دیباچہ۔۔۔اشفاق/آفاق

ویکی کتب سے

صراحی


محمد اشفاق چغتائی کی کتابیں


اشفاق/آفاق

اشفاق بھائی عمر میں مجھ سے چار سال بڑے تھے ۔ بچپن سے بہت ذہین تھے ، مذہب سے گہرا لگائو تھا اور مجھ سے ہمیشہ نالاں رہتے تھے ۔ میری مذہبی بے راہ روی کی وجہ سے۔ میں زندگی کے ہر معاملے میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا تھا ۔ سوائے مذہبی معاملات کے ۔۔۔ سوشاعری بھی انہی کی پیروی میں شروع کی ۔ انہوں نے شروع شروع میں مجھے باز آجانے کی بہت تلقین کی مگر میں بھی بہت ضدی تھا مجبورا ً میرا ساتھ دینے لگے ۔ ۔ میں نے جو پہلی غزل لکھی تھی ۔ اسکی اصلاح اشفاق بھائی نے کی تھی اور پھر وہی غزل جب میں نے مشاعرے میں سنائی تو میانوالی کے ایک بزرگ شاعر انوار ظہوری نے کہا ’’ یہ لونڈا اتنی اچھی غزل کس سے لکھوا کر لے آیا ہے ‘‘ میں نے اس وقت تو بزرگ سے کچھ نہیں کہا مگر غصے سے کھولتا ہوا جیسے ہی گھر پہنچا تو اشفا ق بھائی کے سامنے اس بزرگ شاعر کی ایسی تیسی کردی اشفاق بھائی نے میرا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے مجھے مشورہ دیا کہ شاعر جب کسی کو گالی دیتے ہیں تو وہ بھی شعر کی زبان میں ہوتی ہے اور پھر مجھے فردوسی کا واقعہ سنایا کہ محمود غزنوی نے اسے شاہنامہ فردوسی لکھنے کا کہا اور ساتھ یہ آفر بھی دی ہے کہ ہر شعر کے عوض اسے ایک اشرفی دے گا فردوسی نے کئی ہزار شعر کہہ دیے مگر محمود نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جس پر فردوسی کو بہت تکلیف ہوئی اور اس نے محمود غزنوی کی ایک ہجولکھی جس میں کہا کوئوں کے انڈے بازوں کے نیچے رکھ دئیے جائیں تو کو ے ہی پیدا ہوتے ہیں ۔ وغیرہ وغیر ہ میں نے فوراً اس بات کو گرہ میں باندھ لیا اور فردوسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انوار ظہوری کے خلاف ایک ہجو لکھ دی مگر اب اشفاق بھائی اسے درست کرنے پر تیار نہیں تھے ۔ گھر میں مسئلہ پیدا ہوگیا ۔ ہم دونوں میں انتہائی سخت جنگ ہوئی ۔ معرکہ ئ پورس و سکندر میں پورس فتح یاب ہوگیا ۔ یعنی میںنے زبردستی اشفاق بھائی سے وہ ہجو درست کرالی لیکن جو گالیوں بھرے مصرعے اشفاق بھائی نے اس میں سے نکال دئیے تھے ۔ ان کا دکھ مجھے آج بھی ہے۔ اس کی چند لائنیں جوا بھی تک یاد ہیں ۔

اے عدد اے کم نظر اے تنگ دل اے فتنہ خو
شرم آتی ہے مجھے ہوتا ہے جب تو روبرو تجھ کو کیوں اکسارہی ہے تیری یہ زخمی انا
چاند پر جو تھوکتا ہے خود بھی ہوتا ہے فنا تو انا کا زخم خوردہ ہے بڑا بیمار ہے
تیری ساری شاعری ہر دور میں بے کار ہے شعر وہ کہتا ہے جو ہو درد دل سے آشنا
جس کی پلکوں پر سجا ہو کوئی اشک دلربا اور بھی بہت سے شعر تھے آخر ی شعر یہ تھا ۔ جس کی سب سسکاریاں یادوں کی ہوجائیں امیں
اس سے بہتر تو مری جاں کوئی کہہ سکتا نہیں اشفاق بھائی شاعر اور نثر نگار ہونے کے علاوہ بہت اچھے مقرر بھی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے سکول میں پہلی تقریر کی تھی تو وہ بھی اشفاق بھائی نے لکھ کر دی تھی ۔ اس کا ایک جملہ اس وقت بھی میرے دماغ میں گونج رہا ہے ’’ تاریخ کے سینے پہ دستِ تحقیق رکھ کر دیکھئے آپ کو ہر دھڑکن سے چند گھوڑوں کے سموں کے شور میں سینکڑوں بے قرار روحوں کی چیخیں سنائی دیں گی ‘‘ اور پھر جب میں سچ مچ کا شاعر ہوگیا تو اشفاق بھائی نے مجھے زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی طرف راغب کیا۔ سودا، میر ، مصحفی ، ذوق ،درد اور آتش کے اچھے شعر زبانی یاد کرلینے کا مشورہ دیا ۔ میں نے یہ مشورہ سن کر اشفاق بھائی سے کہا تھا ’’ آپ نے غالب اور اقبال کا نام نہیں لیا ‘‘ توہنس کے کہنے لگے ’’ میں جانتاہوں وہ تمہیں یا د ہیں ‘‘ خاص طور پر جب میں نے انگریزی زبان سیکھنے کے لیے سید نصیر شاہ کے پاس ٹیوشن پڑھنی شروع کی تو میں اشفاق بھائی کے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ سید نصیر شاہ انگریزی کے علاوہ عربی ، فارسی ، اردو پنجابی اور سنسکرت کے عالم تھے ۔ اور الحاد ان کے رگ وپے میں دوڑتا تھا ۔ کیمونزم کے بہت بڑے حامی تھے ﴿ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی دراز کرے ﴾ وہ میرے اندر آزاد خیالی کی تحریک پیدا کرتے تھے ۔مجھے مذہب کے حوالے سے ایسے سوال سمجھاتے تھے جن کا جواب کسی عالم دین کے بس کا روگ نہیں ہوتا تھا اور میں وہ سوال آکر اشفاق بھائی سے کرتا تھا۔ وہ میرے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کیلئے کئی کئی دن کتابیں پڑھتے رہتے تھے لیکن کسی مسئلہ کی گہرائی میں اتر کر اس کی حقیقت تک ضرور پہنچ جاتے تھے ۔ سید نصیر شاہ ،شاعر بھی تھے۔ سو شاعری میں شاہ صاحب کا پلہ بہت بھاری تھا ۔اشفاق بھائی بھی اس سلسلے میں ان سے رجوع فرمالیتے تھے۔ میںنے ایک دن پوچھا ’’ اشفاق بھائی آپ کے نزدیک تو نصیر شاہ صاحب کا فر ہیں، شرابی ہیں مگر آپ ان کا اتنا احترام کیوں کرتے ہیں تو کہنے لگے میں ان کے نظریات کا نہیں، ان کے علم کا احترام کرتاہوں اور صرف میں ہی نہیں مولانا عبدالستار خان نیازی بھی جب کبھی سیدنصیر شاہ آئیں تو ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ میں نے جب فسٹ ائیرمیں داخلہ لیا تو وہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں سٹوڈنٹ یونین کے صدر تھے ۔ انہوں میری دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے مضامین فلسفہ اور اردو اعلیٰ رکھوا دئیے۔ فلسفے کے پروفیسر ان دنوں میانوالی سے اپنا تبادلہ کرانا چاہ رہے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی فلسفے کا مضمون کوئی طالب علم نہیں لے گا اور ان کا کسی او رکالج میں تبادلہ ہوجائے گا مگر مجھے دیکھ کر ان کی امیدوں پر پانی پھرگیا ۔ انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ بہت مشکل مضمون ہے ،میرے بس سے باہر کی بات ہے مگر مجھے تو سچ مچ فلسفے سے دلچسپی تھی سو میں نے ڈرنے سے انکار کر دیا ۔ اورانہوں نے غصے میں آکر کورس کی تینوں کتابیں مبادیات ِ نفسیات ، منطق ِاستخراجیہ اور منطق ِاستقرار یہ ایک ساتھ پڑھانی شروع کردیں ۔ منطق سے درسِ نظامی کی وجہ سے کچھ نہ کچھ میری واقفیت تھی مگر نفسیات میرے لیے بالکل نیا موضوع تھا۔ اشفاق بھائی نے یہ تینوں کتابیں مجھے پڑھانی شروع کیں اور میں حیران رہ گیا کہ اشفاق بھائی کا یہ کبھی سبجیکٹ نہیںرہا تھا، مگر وہ جس انداز میںمجھے گھر میں پڑھا دیتے تھے ،میرے پروفیسر کو پریشانی لاحق ہوجاتی تھی اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ جب میرے پروفیسر کو کہا گیا کہ آپ کا تبادلہ ممکن ہے تو انہوں نے کہا میں اپنے اکلوتے طلب علم کو راستے میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔میری زندگی میں ایسا عجیب و غریب طالب علم کبھی نہیں آیا کہ جسے میں جو بھی پڑھانے لگتاہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ پہلے ہی اسے معلوم ہے ۔ انہیں کیا علم کہ یہ سب میرا نہیں، اشفاق بھائی کا کمال تھا۔ میں نے کالج کے دنوں، اشفاق بھائی کے ساتھ مل کر ایک رسالہ بھی نکالا تھا جس کا نام ’’ پیغامِ سروش ‘‘ تھا۔ اس رسالے کی کچھ کاپیاں ابھی تک میرے پاس محفوظ ہیں ۔یقین کیجئے میں اس رسالے کو اب بھی دیکھتا ہوں تو وہ مجھے کسی بڑے علمی و ادبی میگزین سے کم نہیں لگتا ۔ پھر اشفاق بھائی ایم اے اردو کرنے پنجاب یونیورسٹی لاہور چلے گئے۔ وہاں طلبا کی ایک تنظیم ﴿ انجمن طلبائے اسلام ﴾ کے پنجاب کے ناظم اعلیٰ بنا دئیے گئے مگر طالب علمی کی سیاست میں بھی لکھنے پڑھانے کا رجحان کبھی کم نہیں ہوا ۔ اقبال کے ساتھ ان کی بہت دوستی تھی، جس طرح اقبال مولانا رومی کو اپنا مرشد قرار دیتے تھے اسی طرح اشفاق بھائی اقبال کو اپنا روحانی مرشد سمجھتے تھے ۔انہیں فارسی اور اردو کا تقریبا ً تمام کلام زبانی یا دتھا۔ اقبال کے حوالے سے اپنی ایک غزل کے قطعہ بند میں کہتے ہیں ۔

میرے منصور وہاں آتے ہیں سر مد میرے

پیر رومی سے بھی کچھ دیر وہاں بات ہوئی
بولتے مجھ سے رہے ہیں جدِ امجد میرے

کہہ دیا میں نے بھی جو کہنا نہیں تھا مجھ کو
کیا کر وں حضرت اقبال ہیں مرشد میرے

ایم اے اردواور ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد انہوں نے ایل ایل بی میں داخلہ لے لیا ۔ ان دنوں وہاں ان کے پرانے دوست پروفیسر طاہر القادری پڑھایا کرتے تھے۔ طاہر القادری سے ان کی اس زمانے کی دوستی تھی جب وہ گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل میں پڑھاتے تھے ۔ وہ جب بھی جھنگ سے میانوالی آتے تھے تو ہمارے گھر میں قیام کیا کرتے تھے ۔۔۔ انہی دنوں جب طاہر القادر ی لائ کالج میں پڑھاتے تھے تو ان کی دوستی نواز شریف کے والد میاں شریف سے ہوگئی اور انہوں نے ان کے گھرکے قریب اتفاق مسجد میں جمعہ پڑھانا شروع کیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہاں اتفاق اکیڈمی کی بنیاد رکھی گئی۔ اشفاق بھائی اس سارے عمل میں طاہر القادری کے ساتھ تھے۔ اشفاق بھائی اتفاق اکیڈمی کے پہلے ناظم اعلیٰ بنائے دیے گئے ۔ انہوں نے وہ تمام بنیادیں رکھیں جن پر طاہر القادری نے بعد میں ’’ منہاج القران‘‘ کی عمارت استوار کی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہی میں جب میانوالی سے ان کے پاس لاہور جاتا تھا تو وہ ایک بڑے سے دفتر میں بیٹھے ہوتے تھے۔ نواز شریف جوان دنوں پنجاب کے وزیر خزانہ تھے عصر کی نماز کے بعد روز ان کے پاس آکر بیٹھتے تھے اور دیر تک اشفاق بھائی کی گفتگو سنتے رہتے تھے ۔ میاں شریف سے تو ان کی بہت دوستی تھی لیکن رفتہ رفتہ اشفاق بھائی پر شریف فیملی کی سرمایہ دارانہ ذہنیت کھلتی چلی گئی اور وہ ان کے مخالف ہوتے چلے گئے ۔ اشفاق بھائی کو غصہ کچھ زیادہ آتا تھا۔ ایک دن میاں شریف سے سرمایہ ومحنت کے موضوع پر گفتگو ہوئی کہ﴿ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات﴾ میاں شریف کا اس سلسلہ میں یہ نظریہ تھا کہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد جتنی دولت ہووہ جائز ہے جب کہ اشفاق بھائی قران کی زبان میں کہتے تھے ﴿اپنی اوسط ضروریات سے زائد جو کچھ ہے دے دوان کو جن کا حق ہے ﴾ اور انہیں ایسی آیتیں سناتے تھے ۔ ﴿ اور جو لوگ مال و دولت جمع کر تے ہیں انہیں خوشخبری سنا دو ایک عظیم عذاب کی جس دن تپائی جائیں گی ان کی پیٹھیں کر وٹیں اور پیشانیاں کہ پس چکھو مزا دولت کو سینت سینت کر رکھنے کا ﴾ اور پھر اسی بحث میں ایک دن بات گالی گلوچ تک چلی گئی ۔ اشفاق نے اتفاق اکیڈمی چھوڑ دی اور پھر ادھر کبھی نہیں گئے ۔ جن دنوں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے تھے ۔ان دونوں میری ان سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ میں اشفاق چغتائی کا بھائی ہوں اس پر انہوں نے مجھے بہت عزت دی اور کہا کسی بھی صورت میں اشفاق بھائی کو لے کر میرے پاس آئو۔ میں نے اشفاق بھائی کی بہت منتیں کی مگر انہوں نے اقبال کی زبان میںیہ کہہ کہ انکار کر دیا ۔ دولت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے کہ ہے میری خدائی کی زکواۃ
اشفاق بھائی کی مولانا عبدالستار خان نیازی سے بھی بڑی عقید ت تھی۔ ان کے ساتھ اشفاق بھائی کا بہت وقت گزرا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر جب وہ کام کرانا چاہتے تھے تو انہوں نے اشفاق بھائی سے کہا اور اشفاق بھائی نے تمام کام کر کے دیا۔ مولانا نیاز ی کی وہ کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ مولانا نیازی، اشفاق بھائی کے علم وفضل کے بہت مداح تھے۔ انہوں نے اپنی کئی کتابوں کے دیباچے بھی اشفاق بھائی سے لکھوائے ۔مولانا نیازی جب نواز شریف کی حکومت میں منسٹر بن گئے تو اشفاق بھائی کو بہت دکھ ہوا اور انہوں نے مولانا نیازی کو کہا ’’ ہم دنیا میں اپنا رہبر ور راہنما آپ کو سمجھتے تھے مگر آپ نے اپنا رہنما نواز شریف کو بنالیا ہے ۔اب بتائیے کہ ہم کیا کریں ‘‘ مولانا نیازی کے پاس ان کی بات کاکوئی جواب نہیں تھا سو وہ خاموش ہو گئے تھے ۔ اشفاق بھائی فوت ہوئے تو مولانا نیازی نے ان کانماز جنازہ پڑھایا اور نماز جنازہ سے پہلے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک عاشق رسول کے نماز جنازہ پڑھانے کا اعزاز مل رہا ہے۔ مولانا نیازی کے ساتھ اشفاق بھائی کی محبت کا یہ عالم تھا کہ انہیں بہت دنوں تک اس بات کا دکھ رہا کہ میں الیکشن میں مولانا نیازی کے مقابلے میں ڈاکٹر شیر افگن کے ساتھ تھا ۔ تصوف سے اشفاق بھائی کو صرف مطالعہ کی حدتک رغبت نہیں تھی ۔ وہ دنیائے تصوف کی عملی شخصیت تھے ۔محی الدین ابن عربی سے بہت متاثر تھے ۔انہوں نے ایک بار محی الدین ابن عربی کی ایک کتاب شاید ’’ فتوحات مکیہ ‘‘ مجھے پڑھنے کیلئے دی ۔ میں نے جب کتاب پڑھ کر انہیں واپس دی تو پوچھا ‘‘ کچھ حاصل ہوا ‘‘ تو میںنے کہا ’’ اور تو خیر کچھ سمجھ میں نہیں آیا، البتہ ایک شعر اس کتاب کی وجہ سے ضرور ہوا ہے ۔

مجھے پسند ہے عورت نماز اور خوشبو
انہی کو چھینا گیا ہے مرے حوالوں سے

تو کہنے لگے ’’ جو جس نیت سے کچھ پڑھتا ہے اسے وہی کچھ حاصل ہوتا ہے اور تمہارے ذہن سے ابھی عورت ہی نہیں اتری ‘‘ ساتھ ہی علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ دیا ۔

ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس
ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

اور جب سید نصیر شاہ نے مجھے مکمل طور پر اپنے رنگ میں رنگ لیا یعنی میں بھی دھریت کی منزل پر پہنچ گیا تو اشفاق بھائی نے ایک دن مجھے کہا ’’ تم پپلاں جاتے رہتے ہو۔اب کبھی جانا تو مجھے بھی ساتھ لے جانا۔ میں نے وہاں کسی سے ملنا ہے۔ ‘‘ ﴿ پپلاں میانوالی سے تیس میل دور ایک شہر ہے ﴾ اور پھر ایک جمعہ کے روز میں اشفاق بھائی کو ساتھ لے کر پپلاں گیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ ہم نے مولانا حضرت مظہر قیوم کی محفل میں بیٹھنا ہے ۔سو میں صبح ساڑھے نوبجے وہاں پہنچ گیا۔ تقریبا ً آدھے گھنٹے کے بعد جب ہم وہاں سے اٹھے تو ساڑھے بارہ بج رہے تھے، یہ کیا ہوا، ایک شخص کی محفل میں تین گھنٹے گزرے اور مجھے یوں لگا کہ میں وہاں صرف آدھا گھنٹہ رہا ہوں۔ میرے لیے بہت حیران کن تھا ۔ یوں میری اس شخص میں دلچسپی بڑھ گئی اور پھر کئی ایسے مافوق الفطرت واقعات ہوئے کہ جو میری زندگی کا حاصل ہیں اور میں مسلما ن ہوگیا ۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اشفاق بھائی اس محفل میں اس روز مجھے ہی لے گئے تھے ۔ ان کا وہاں اور کوئی کام نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہی ایک شخص ہیں جو مجھ سے جیسے گم کردہ راہ کو راستے پر واپس لاسکتے ہیں بقول اشفاق بھائی ۔

عجیب لوگ ہیں بس اک نگاہ سے دل کو
مقام عرش علیٰ میں بدل کے دیکھتے ہیں

اشفاق بھائی کے ایک دوست غازی غلام رسول سیالوی ہوتے تھے ۔ وہ کسی زمانے میں میانوالی بہت آتے تھے ۔ ان کا قیام بھی ہمارے گھر ہوا کر تا تھا ۔فلسفہ وحدت الوجود کے بڑے پر جوش حامی تھے ۔ ایک دن اشفاق بھائی نے مجھ سے کہا ’’ غازی صاحب سے کوئی سوال کرو ‘‘ میں نے غازی صاحب سے بہت سے سوال کیے۔ وہ ہر سوال کا جواب اتنی آسانی سے دیتے تھے کہ آدمی حیران رہ جاتا تھا کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ انہوں نے منصور حلاج کی کتاب طاسین کے کئی باب پڑھ دئیے ہیں ۔ اشفاق بھائی کی ذات میں تصوف کا عملی رجحان بڑھانے میں ان کا بہت ہاتھ تھا ۔بحیثیت انسان بھی غازی صاحب بہت بڑے آدمی تھے۔ مجھے کہا کرتے تھے کہ نماز پڑھا کرو ۔ایک دن میں نے کہہ دیا کہ آج میں بھی نماز پڑھتا ہوں تو فوراً پانی کا لوٹا لے کر آگئے اور خود مجھے وضو کرایا اور ان کی دوستی میں اشفاق بھائی کے دل و دماغ پر فلسفہ وحدت الوجود کے جواثرات مرتب ہوئے، زندگی بھر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اشفاق بھائی ہمیشہ ایک پرجوش وجودی رہے۔ اپنی تحریروں میں بھی اور اپنے عمل میں بھی ۔ ان کے دوشعر دیکھئے ۔

بے شکل جلوہ گہ کا ٹھکانہ ملے مجھے
اشفاق مرا آئینہ خانہ ملے مجھے

تُو اپنی اصل سے اشفاق کیوں گریزاں ہے
تجھے خدا سے محبت نہیں تعجب ہے

عربی شاعری میں اشفاق بھائی کو ابولعلائ معری بہت پسند تھے معری کی کتاب ’’ الزومیات ‘ ‘ ان کی پسندیدہ کتاب تھی۔ کہا کرتے تھے کہ اس کتاب میں معری نے بڑی جرات مندی کے ساتھ بہت سے الوہی سچ بولے ہیں۔ انہیں معری کا وہ شعر بہت اچھا لگتا تھا جس میں معری کہتے ہیں کہ یہ زندگی ایک کوفت اور تھکن سے بھری ہوئی ہے مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو طویل عمری کے طلب گار ہوتے ہیں۔ وہ اکثر اوقات عربی زبان کا یہی شعر گنگنا یا کرتے تھے۔ عربی زبان کا ایک اور شاعر زہیر بھی انہیں پسند تھا میرے نوجوان شاعر دوست سلیم شہزاد کو صرف اس لئے پسند کرتے تھے کہ وہ عربی نہیں جانتا اور اسکا خیال عربی زبان کے عظیم شاعر زہیر سے جاٹکرایا ہے ۔زہیر کا کوئی شعر ہے جس میں وہ موت کو اندھی اور پاگل اونٹنی قرار دیتا ہے اور سلیم شہزاد نے بھی تقریباً اردو زبان میں یہی کچھ کہا ہے ۔ دشت جاں میں تعاقب کر ے کیوں مرا
موت و حشت زدہ اونٹنی کی طرح فارسی زبان کے شعرائ میں سے اشفاق بھائی کو حافظ شیرازی سے بہت شغف تھا انہوں نے مجھے حافظ کی ایک غزل کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کر کے دیا تھا جامی کی بھی کئی نعتوں کے انہوں نے اردو زبان میں منظوم تراجم کئے تھے۔ جامی کے ایک نعتیہ کا ترجمہ مجھے یاد آرہا ہے ۔ جس نے دیکھے لب لعلیں تو پکارا دل سے
حق نے کیا خوب تراشا ہے عقیق یمنی خیام کی رباعیاں انہیں بہت پسند تھیں کہتے تھے کہ رباعی کا وزن ایسا ہے کہ اس سے لطف اٹھانا آسان نہیں ہوتا مگر عمر خیام کی رباعیوں میں ایسی لذت ہے کہ آدمی یک لخت ایک انجانے سرور سے بھر جاتا ہے ۔ خود اشفاق بھائی نے بھی بہت خوبصورت رباعیاں کہی ہیں ۔ سعدی ، فردوسی اور رومی کے بہت قائل تھے۔ رومی کے بارے میں کبھی کبھی سوچتے تھے کہ مولائے روم نے مثنوی معنوی میں جب کہیں کوئی جنسی کہانی پیش کی ہے تو بات بہت لطف لے لے کر کیوں کی ہے ۔ روسی نژاد افسانہ نگار چیخوف اور گورکی کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ مارکس ازم نے دنیا کو اور کچھ دیا ہے یا نہیں ادب عالیہ کے بہت بڑے بڑے شاہکار ضرور دئیے ہیں۔ مارکس کے بارے میں وہ اپنے مرشد علامہ اقبال کے ہم خیال تھے کہ نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب ۔یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر سوشلزم میں خدا کو شامل کر لیا جائے تو وہ اسلام بن جاتا ہے ۔ یونانی فلسفے کے ساتھ ساتھ یونانی دیو مالائی کرداروں سے بھی انہیں بہت شغف تھا ۔وہ افلاطون کی فکر میں قدیم اعتقادات کے ماخذ تلاش کرتے ہوئے، اکثر اوقات یونانی دیو مالائی کرداروں پر بحث کیا کرتے تھے ۔ اشفاق بھائی انتہائی سچے اور کھرے آدمی تھے ۔ جن دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے لڑکوں کو ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پسند نہ آئی اور انہوں نے اشفاق بھائی پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اشفاق بھائی خاصے زخمی ہوگئے مگر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا ۔ میں اس وقت میانوالی میں ہوتا تھا۔ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اسلامی جمعیت طلبہ کے دو لڑکوں کو جواباً میانوالی میں بری طرح زدوکوب کیا۔ جب اس بات کا اشفاق بھائی کو پتہ چلا تو وہ سخت ناراض ہوئے اور ہمیں مجبور کیا کہ ہم ان لڑکوں کے پاس جائیں اور ان سے معافی مانگیں جو ہمیں مانگنی پڑی ۔ سچ یہ ہے کہ میں بچپن ہی سے ان سے بہت زیادہ متاثر تھا ۔85 ئ میں جب میں نے اپنی پہلی کتاب ’’ چہرہ نماشائع کی تو اس میں ان کے متعلق بھی ایک مضمون شامل کیا میں نے اس میں لکھا تھا ‘‘ ’’ میرا عہد اپنے اردگرد بیسیوں زندگیاں بنتا رہتا ہے چہروں پر تہہ در تہہ خول چڑھانے والے لوگ اتنے صورت آشنا ہوچکے ہیں کہ اب ایک ایک غلاظت آلود پتھر خالص سونے کا ڈھلا ہوا معلوم ہوتاہے لیکن یہ مصنوعی تقدس ماب چہرے اپنی قماش کے دوستوں سے اپنا باطن نہیں چھپاسکتے اور میں نے تو اشفاق بھائی کے ساتھ لڑکپن کو جوانی میں بدلا ہے، ان کی پوری زندگی میرے ساتھ بے نقاب ہے ۔ اس دوہری اور دوغلی زندگی بسر کرنے والے ظاہر وباطن کے ہولناک تضاد کا شکار عہد میں پھر کوئی ایسی شخصیت جو اندر اور باہر سے ایک ہوتو وہ دور سے نظر آجاتی ہے سو اس صورت حال میں مجبور ہوں کہ اپنے بھائی محمد اشفاق چغتائی کو ایک عظیم شخص قراردوں۔ بچپن سے اب تک اس کی رفاقت صداقتوں کی علمبردار رہی ہے ۔ ہمیشہ اس سے مل کر ایک فرحت کا احساس ہوا ہے ۔ جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آ پ نے دیکھے نہ ہوں شاید مگر ایسے بھی ہیں میں نے اس کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالی ہے ۔وہ مجھے محبوب تر نظر آیا ہے ۔اس کی شخصیت کی بے پناہ جاذبیت اسے ہر محفل میں ممتاز رکھتی ہے ۔ اس کی شہد آمیز گفتگو کانوں میں رس گھولتی ہے ۔ لیکن اس کی آواز میں شراب ناب کا خمار نہیں۔ خوابیدہ ذہنوں کو جگانے والی پکار ہے ۔ اشفاق بھائی ایک اچھا شاعر اور خوبصورت ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سحربیاں مقرر بھی ہے ۔اس کی گھمبیر آواز چھا جانے کے فن سے پوری طرح آگاہ ہے۔ مت پوچھیے اندازِ گل افشانی گفتار ۔وہ جب بولتا ہے تو شعلہ سالپک جاتا ہے اس کے باطن میں مراقبوں اور کشفوں کی کیفیات مکمل طور پر دھڑکتی ہیں۔ مضبوط ارادوں اور سچے عملوں والے اس شخص کی آنکھیں ہر وقت مجھے اپنے وجود میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔ وہ زندگی سے بھر پور چہرہ زندگی کو کچھ سوچنے پر مجبور کرسکتا ہے ۔ وقت اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٹھہر سکتا ہے۔ لمحے رک سکتے ہیں ۔ وہ اپنے اندر جذبوں کے طوفان رکھتا ہے۔ اس میںکچھ کر گزرنے کی طاقت ہے ۔میں اس کی روح میں اترنا چاہتا ہوں ۔ مگر جہاں وہ نجانے کب سے جاگ رہا ہے ۔ جاگتی آنکھوں اور جاگتے خوابوں کی بستی میں رہنے والا وہاں جاگ رہا ہے جہاں کا رزار حیات کو پہچاننے والے حیات کا زنداں توڑنے میںمصروف عمل ہیں ۔جہاں سوچ کے مجاہدے زندگی بن کر بکھررہے ہیں ۔ وہ محبت کرنے والا آدمی ہے جب کبھی مجھ سے بغل گیر ہوتا ہے تو مجھے اپنے دل کی دھڑکن سنائی دینے لگتی ہے ۔ ۔ وہ میرا بھائی ہے ۔ میرا ساتھی ہے ۔ میرا ہم سفر ہے ۔ میرا دوست ہے۔ ‘‘ اپنی سچائی کی وجہ سے اشفاق بھائی نے بے شمار نقصان اٹھائے اگر وہ تھوڑے سے بھی دنیا دار ہوتے تو بہت بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوسکتے تھے مگر ساری زندگی کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی میں طالب علموں کو پڑھاتے رہے ۔میں نے انہیں ایک بار کہا کہ آپ میرے ساتھ ڈاکٹر شیرا فگن کے پاس چلے آئیں، وہ آپ کو حکومت میں کوئی اچھا عہدہ لے دیں گے۔ میری ان سے بات ہوئی ہے تواقبال کا یہ شعر پڑھ کر مجھے خاموش کر دیا ۔

اے طاہر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
میں نے جب اپنا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’ آفاق نما‘‘ شائع کر ایا تو ان سے بھی ایک فلیپ لکھوایا تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا ۔ ’’ نعت اگر رسمانہ لکھی گئی ہو بلکہ کسی باطنی کر ب کے اظہار کا ذریعہ کر سامنے آئے تو پڑھنے والے پر ایک جداتاثر چھوڑتی ہے۔ ایسی نعت داغ محبت رکھنے والے ہر دل کو وہی کیفیت عطا کرتی ہے جو اس کے خالق پر لمحات تخلیق میں طاری ہوتی ہے۔ محمد منصور آفاق کی نعتیں اس کے طواف عقیدت کا سلسلہ جمیل ہیں۔ تحدیثِ نعمت کا دلکش اسلوب ہیں ۔ سنت اللہ کا حسین اتباع ہیں ۔ اپنی احتیاج وضرورت کا خوبصورت اظہار ہیں اور اس کے ساتھ عصر حاضر کی اذیت رسانیوں کے خلاف بارگاہ رسالت مآب میں استغاثہ ہیں۔ یہی میری نگاہ میں اس کتاب کی نمایاں ترین خصوصیت ہے ۔۔ آفاق نمادنیائے شعر و ادب میں منصور آفاق کی اولین پہچان بن کر آرہی ہے۔ میری دعاہے کہ رب کریم اسی نسبت کواس کی دائمی پہچان بنادے ۔ امین ثم امین‘‘ اشفاق بھائی کی فکر کا جومیری نعتیہ شاعری پر سب سے زیادہ اثر تھا، وہ انہی کی زبان میں ﴿ عصر حاضر کی اذیت رسانیوں کے خلاف بارگاہ رسالت مآب میں استغاثہ ہے ﴾ حضور سانچہ:درود کے حضور دنیا کے غم بیان کرنے کا انداز میں نے انہی سے سیکھا تھا اس کے بعدتو پھر ایک عہد نے اسی انداز میں نعتیہ شاعری کی ۔۔۔ اشفاق بھائی کے دونعتیہ شعر دیکھیے

ہیں سجدہ ریز کہاں کجکلاہ امت کے
غلام آپ کے ہوتے تھے شاہ امت کے

حضور (ص)پائوں میں رکھ لیجئے خیال و خواب
بھٹکتے پھرتے ہیں قلب و نگاہ امت کے

اسی زمیں میں میرا خیال ہے ۔محمد اظہار الحق نے بھی کوئی نعت یا غزل کہی ہے ۔ فقیرانہ عنصران کے مزاج میں بہت زیادہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا ایک مصرعہ میانوالی کے ایک اور شاعر نے اپنی غزل میں استعمال کرلیا تو انہوں نے اپنے شعر ہی کو کاٹ دیا۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ کیا بات ہوئی توہنس کر کہنے لگے ۔ چلویہ سمجھو کہ یہ مصرعہ خیرات میں چلا گیا ہے ‘‘ اصولاً تو مجھے اس شاعر کا نام اور وہ مصرعہ یہاں لکھ دینا چاہئے مگر مجھے پتہ ہے کہ اشفاق بھائی اسے پسند نہیں کریں گے سوان کے احترام میں نہیں لکھ رہا ۔انہوں نے بہت سی غیر منقوط نعتیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی ایک غیر منقوط نعت جب ’’ ماہ نو‘‘ میں شائع ہوئی تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مظفر علی سید نے مجھ سے کہا تھا میں نے بہت سے شاعروں کی غیر منقوط شاعری پڑھی ہے مگر اس نعت کو پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ یہ شخص اگر کوشش کرے تو اردو ادب کو کوئی زندہ جاوید غیر منقوط شعر دے سکتا ہے ۔اردو ادب میں کوئی ایسا غیر منقوط شعر موجود نہیں جس میں زندہ رہنے کی قوت ہو۔ اشفاق بھائی کی غیر منقوط شاعری پر رمضان کے مہینے میں ، میں نے ایک کالم لکھا تھا درج کر رہاہوں ۔ ’’خاتم المرسلین کی خیرو برکت سے رمضان کے پر سعادت مہینے نے میرے گھر کی فضائوں کو پاکیزگی کے پھولوں سے بھر رکھا ہے، مجھے اپنے بھائی محمد اشفاق چغتائی کے کشتِ رباعی میں کھلے پھول یاد آرہے ہیں۔ نیکی کے عبادت کے خزینے کو کہیں جیون میں سعادت کے قرینے کو کہیں ہے تزکیۂ نفس کی جنت اشفاق رمضان ثوابوں کے مہینے کو کہیں ثوابوں کا یہ مہینہ جب بھی آتا ہے مجھے اشفاق بھائی شدت سے یاد آنے لگتے ہیں۔ وہ بھائی جس نے اپنی تمام زندگی اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے صرف کردی ۔ اسلام کے حوالے سے ایسی زندہ جاوید شاعری کی کہ ان کے اشعار کے مصرعے جب نعروں کی صورت میں مسجدوں میں گونج رہے ہوتے ہیں تو میرا سرفخر سے بلند ہوجاتا ہے ۔ یہ نعتیہ شاعری اس دور کی ہے جب اشفاق بھائی نوجوان تھے اور انجمن طلبائے اسلام پنجاب کے ناظم ہوا کرتے تھے ۔ یہ سانس اک فریب ہے یہ جان ایک بھول ہے جو عشق مصطفی نہ ہوتو زندگی فضول ہے یہ جاہ اور جلال کیا ، یہ مال اور منال کیا غلامی ئ رسول میں تو موت بھی قبول ہے بتول کے ، نواسہ ئ رسول کے غلام کے ہیں مدنیہ تیرے ایک ایک پھول کے غلام ہیں جبیں پہ داغ دین کے ، گلے میں طوقِ مصطفی غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں اس وقت میرا موضوع اشفاق بھائی کی نعتیہ شاعری ہے مگر تمام نعتیہ شاعری کا احاطہ کرنے کے لئے تو کئی دفتر درکارہوں گے میں صرف ان کی غیر منقوط نعتیہ شاعری کے بارے میں کچھ لکھنا چاہ رہاہوں غیر منقوط شاعری کا سب سے زیادہ رواج نعت کے باب میں ہوا ، جب جب یہ سوچا گیا کہ : بے عیب شاہکار ہے ربِ جلیل کا نقطہ بھی ناگوار محمد (ص) کے نام پر تب تب یہ خیال بھی آیا کہ احترام کا تقاضا تو یہ ہے کہ نعت میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں آنا چاہئے جس پر نقطہ کا بوجھ پڑا ہوا ہو ۔ یقینا ایسی نعتیں لکھنا بہت محنت طلب کام ہے مصرعہ تو کجا مجھے توصرف ایک ایسا جملہ تخلیق کرنا بھی مشکل لگ رہا ہے ۔ جس میں تمام حروف غیر منقوط ہوں ۔ لیکن اس باب میں بھی بڑے لوگوں نے بڑے بڑے کمال کیے ہیں۔ اکبر بادشاہ کے مشہور درباری ابوالفضل نے عربی زبان میں قرآن حکیم کی غیر منقوط تفسیر لکھی ہے ۔ ولی محمد رازی نے اردو زبان میں پوری سیرت رسول اللہ غیر منقوط تحریر کی ہے ۔ شاعری کے میدان میں انشا للہ خان سے لے کر محمد اشفاق چغتائی تک بہت سے ایسے نام موجود ہیں جنہوں نے یہ مشکل ترین کام کیا مگر ان کی تعداد بھی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔ محمد اشفاق چغتائی میرے بڑے بھائی تھے چوالیس سال کی عمر میں فوت ہوگئے مگر چوالیس سالوں میں وہ جو کچھ لکھ گئے ہیں ان کے لیے کئی زندگیاں بھی کم ثابت ہوسکتی ہیں وہ ایک بہت اچھے شاعر ، ادیب اور مقرر تھے ۔ان کی زیادہ ترشاعری نعت کے علاوہ وحدتِ امت مسلمہ کے موضوع پر ہے ۔ غیر منقوط شاعری میںبھی حمد ونعت کے ساتھ ساتھ دوسرے موضوعات پر بھی اشعار موجود ہیں ۔ ان کی غیر منقوط شاعری کے کچھ حوالے پیش کرتا ہوں۔ طلسم اسم ِ محمد (ص) کا دائرہ ہے کوئی مری دعا کی کمائی کا سلسلہ ہے کوئی کرم کی راہ سے آئے کسی سحر کی طرح اسے کہو در امکاں کھلا ہوا ہے کوئی وصال و وصل کی گرمی اسی کے دم سے ہے طلوع مہر مسلسل کا آسرا ہے کوئی دکھائی دے کسی صحرا سے گل کدہ کس کا ہوا کمال کی ہے اور ہرا ہرا ہے کوئی کہا کہ ہے مرا اللہ احد و واحد گلی گلی کہے ، لولاک صدا ہے کوئی سوائے سرورِ عالم کے اور اے عالم مرا سوال ہے کہ درد کی دوا ہے کوئی ۔ اللہ کے احساس کا احساں کوئی کم ہے سارا ہی کم اس در ِ والا کا کرم ہے حاصل ہے اسی محرم اسرار کے دم سے وہ سرورِ لولاک ہے ، سردار امم ہے ہے ورد ِ مہ و سال وہی اسم گرامی ہر عہدِ سحر اسم محمد (ص) کا کرم ہے اک درد کا لمحہ اسے سرکار عطا کر دل سادہ و معصوم ہے ، محروم الم ہے دل کہے حوصلے والا ہے، سحر کا موسم وہ مگر کس لیے کالا ہے سحر کاموسم اے مری حدِ گماں ! مہر مسلسل ہے ادھر کہ محمد (ص) کا حوالہ ہے سحر کا موسم آسماں اور سحر اور کوئی اور سحر اک سما وار رسالہ ہے سحر کا موسم ہے کوئی ردِ عمل کہ کوئی معصوم طلوع ہاں مگر حاصل ئ لالہ ہے سحر کا موسم اشفاق بھائی کی وسعتِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ انہیں کوئی شعر سنایا جاتا تو وہ اسی خیال کے عربی ، فارسی اور اردو میں جتنے شعرکہے گئے ہوتے تھے ،سب سناد یتے تھے۔ میرے کہنے پر ایک بار انہوں نے ‘‘ مسافر خیال ‘‘ کے نام سے ’’ فنون ‘‘ میں ایسا ایک مضمون بھی لکھا تھا جس میں ایک خیال کے بہت سے بڑے شاعروں کے شعردرج کیے تھے۔ وہ اس موضوع پر ’’ مسافر خیال ‘‘ کے نام سے ایک پوری کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر ہم سب اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانتے ہیں ۔ جب انہوں نے یہ شعر کہا تھا تو مجھے اس خیال کے بہت سے دوسرے شعر سنائے : کوئی گزر ہو میرا محمد (ص) کے دور سے اے کاش روشنی کا زمانہ ملے مجھے ان میں سے عربی اور فارسی کا توکوئی شعر یاد نہیں رہا اردو کے بھی تمام اشعار یاد نہیں رہے جو دوشعر یادرہ گئے ہیں درج کرتا ہوں: تونے کس دور میں کھولی ہیں ظہوری آنکھیں ان کو دیکھا نہ انہیں دیکھنے والے دیکھے گل نے تو دیدہ ئ بلبل کے ہی نالے دیکھے تجھ کو دیکھا نہ ترے چاہنے والے دیکھے اس کے علاوہ شاید اشفاق بھائی نے مجھے اسی خیال کے ابو نواس ، بیدل ، محسن کا کوروی اور ایک دو اور شاعروں کے شعر سنائے تھے ۔ پچھلے دنوں زاہد فخری نے بھی اسی خیال کو بہت ہی خوبصورت انداز میں ادا کیا ہے ۔ ساری صدیوں پہ جو بھاری ہے وہ لمحہ ملتا کاش سرکار دو عالم کا زمانہ ملتا قدرت نے اشفاق بھائی کوئی ایسی چیز ضرور دے رکھی تھی جو ہم عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتی ۔اس کا ایک تجربہ تو مجھے یہ ہوا کہ زندگی میں جب بھی انہوں نے مجھے کسی شخص کے متعلق یہ کہہ دیا کہ یہ اچھا آدمی نہیں ہے تو وقت نے ثابت کیا کہ وہ آدمی اچھا نہیں تھا اور خاص طور پر جس بات نے ان کی روحانیت سے پردہ اٹھا دیا ہے وہ ان کا وہ آخری خط ہے جو انہوں نے مرنے سے تقریباً ایک ماہ پہلے مجھے لکھاتھا۔اس میں اشفاق بھائی لکھتے ہیں : ’’ مجھے لگ رہا ہے کہ اب میں دنیا سے جانے والا ہوں شاید یہ سال میری زندگی کا آخری سال ہو۔ میں نے اپنا ایک قطعہ تاریخ نکالا ہے ۔ہوسکتا ہے دوسرا نکالنے کی ضرورت پیش نہ آئے : سفر نہیں ہے ہمارا بہار سے آگے چلے نہ سانس سن دو ہزار سے آگے میں کہہ رہا ہوں خود اپنا یہ قطعہ ئ تاریخ حیات غوث کی ہم ’’ ہم مزار سے آگے میں نے خط پڑھ کر سوچا تھا کہ اشفاق بھائی شاید ذہنی اعتبار سے بہت زیادہ ڈسٹرب ہیں مگر جب وہ ہسپتال میں داخل ہوئے تو میرے دل میں ہول اٹھنے لگا کہ کہیں یہ قطعہ ئ تاریخ درست ہی ثابت نہ ہو ا اور وہ انتقال فرماگئے ۔ اپنی موت سے پہلے یہ کہنا کہ اب میرا وقت پورا ہے ۔ وہ حیرت انگیز بات جسے اتفاق کہنے پر جی نہیں مانتا کیونکہ اگر کوئی ستر،اسی سال کا آدمی ایسی بات کرتا ہے اور وہ صحیح ثابت ہوتی ہے ۔ تو اسے اتفاق کہا جاسکتا ہے ۔ مگر ایک شخص جس کی عمر چوالیس برس ہو، اس کی طرف سے اپنی موت کی پیش گوئی اتفاق نہیں کہی جا سکتی ۔ پھر انکی شاعرانہ عظمت کا مجھے اس وقت اور زیادہ احساس ہوا جب میں نے ان کا قطعہ تاریخ نکالا ۔ میرے نکالے ہوئے دونوں قطعاتِ تاریخ لفظی بازگری دکھائی دیتے ہیں ۔ مگر ان کے قطعۂ تاریخ میں روانی ، سادگی اور وہ سب کچھ ہے جو کسی سرزد ہوجانے والی شاعری میں ہوتا ہے ۔ مگر قطعۂ تاریخ سرزد نہیں ہوسکتا۔ یہ طے شدہ بات ہے میرے کہے ہوئے قطعات یہ ہیں۔ قطعہ ئ تاریخ وفات ﴿محمد اشفاق چغتائی﴾ گونجتا ہے نغمۂ اسم محمد ہو رہی ہے وسعت ِ آفاق فرخ منتظر ہیں صاحبِ مکی و مدنی آسماں تک ’’ رحلتِ اشفاق فرخ ‘‘ قطعہ ئ تاریخ وفات ﴿محمد اشفاق چغتائی﴾ تجھے دیکھا نہیں ہے آخری پل یہی دکھ ہے قیامت زاد اشفاق مرے دل میں رہے گی زندگی بھر یہی ظالم ’’ خلش آباد اشفاق ‘‘ ایک بات کامجھے بہت دکھ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنا شعری مجموعہ مرتب نہیں کیا ۔میرے پاکستان میں نہ ہونے کی وجہ ان کی چیزیں بھی مکمل طور پر جمع نہیں ہوسکیں۔ اس سلسلے اسد مصطفی نے بہت کام کیا ہے لیکن ابھی ان کی بہت سی چیزیں نہیں ملیں۔ کچھ غزلوں کے ایک یا دو تین شعر درج کر رہاہوں۔ حاصل حیات کا ہے فقط عشق مصطفی باقی جو ہے کباڑ ہے ٹوٹے مکان کا سینے کے بیچ رکھا ہوا ہے خیال ہے ٹکڑا ہے ایک پاس مرے آسمان کا ہے ایک پل صراط پہ چلنے کا واقعہ کردار گر پڑا تھا مری داستان کا پھر رہا ہوں بستیوں میں دیر سے آدمی سے بات کرنا چاہتا ہوں آپ کی ذات سے آگے نہیں سپنے میرے میرے ماں باپ فدا آپ پہ بچے میرے میرا ظاہر میرے باطن سے ملا جاتا ہے ملتے جاتے ہیں یہ آپس میں کنارے میرے میں مدینے کا گداہوں میں محمد کا فقیر سنگ باری نہ کرو مجھ پہ خرد مندی کی چاک دامان وفا آنکھ سے سینے کو چلیں فصل گل آئی ہے ہم آئو مدینے کو چلیں گنبد خضرا کا اشفاق کریں مل کے طواف جامِ عرفان چلو دوستو پینے کو چلیں عین ممکن تھا کہ مل جاتی مجھے میری مراد اس مسافت پہ طبعیت نہیں آئی میری مجھے گلوں کا نہیں تجربہ ذرا اشفاق بہار میرے گلستان سے دور رہتی ہے یہ سچ ہے مل گئی تھی بہاروں کی سلطنت یہ اور بات خار حکومت میں آگئے حواس ِ خمسہ معطل تھے ہر طرف اشفاق عجیب لالہ و گل تھے عجیب خوشبو تھی کنارِ خواب مچلتی تھیں خواہشیں لیکن مجھے خیال تھا اشفاق رتجگوں کا بہت مسافتیں تو زیادہ نہیں تھیں منزل کی میں ہم سفر رہا پر بیچ راستوں کا بہت فصیل شہر گرائی بڑے طریقے سے کہیں دریچے کہیں در بنا دئیے ہم نے خبر مل تھی طلسمی سپاہ کی اشفاق گھروں کو خوف سے تالے لگا دئیے ہم نے اجل کے شہر میں رہنے کا یہ قرینہ تھا قیام گاہ فنا کو بنا لیا میں نے کسی سے ملنے گئے اور خود مل آئے شب وصال عجب واقعہ ہوا ہم میں تمام بوجھ اتارے ہیں پھر بھی وحشت ہے نجانے کون ابھی ہے پڑا ہوا ہم میں دیار دوست کی صورت کسی بلا سی تھی کہیں ملال کہیں غم کہیں اداسی تھی تمنا تھی کہ اسے سوچتے کبھی اشفاق خیال و خواب کی وسعت مگر ذراسی تھی موت کا خواب آرہا ہے کوئی زندگی زہر لگ رہی ہے مجھے محی الدین ابن عربی اشفاق بھائی کی سب سے پسندیدہ شخصیت تھے۔ وہ اکثر اوقات مجھے ان کی زندگی کے واقعات سناتے رہتے تھے ۔ جن میں تمثیلی انداز میں فکر کا ایک جہاں آباد ہوتا تھا ۔ ایک مرتبہ ان سے میاں محمد بخش کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی تو میں نے انہیں کہا کہ میاں صاحب کے اس شعر: خاصاں دی گل عاما ں اگے نئیں مناسب کرنی مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی اس پر اعتراض کرتے ہوئے معروف نقاد ڈاکٹر طاہر تو نسوی نے لکھا ہے ’’ میاں محمد بخش کے اس شعر سے اس بات کا احساس ابھرتا ہے کہ وہ علم کی وسیع ترسیل کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا یہ شعر طبقاتی تقسیم کا عکاس ہے۔ وہ شاید عام آدمی تک علم نہیں پہنچانا چاہتے تھے کیونکہ علم حاصل کرنے کے بعد عام آدمی عام آدمی نہیں رہتا، اس کا شمار خواص میں ہونے لگتا ہے ‘‘ تو انہوں نے مجھے کہا اس میںکوئی شک نہیں کہ بظاہر اس شعر کا یہی مفہوم ہے اور اس سے یہی کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے لیکن میرے خیال میں یہ اس شعر کا صحیح مفہوم نہیں ہے۔ اس شعر کا تعلق تصوف کی دنیا سے ہے مجھے اس حوالے سے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا ایک واقعہ یا دآرہا ہے ۔ ابن عربی کبھی کسی سے بھی فلسفیانہ زبان میں بات نہیں کرتے تھے ،چاہے کوئی جاہل مطلق ہویا کوئی بہت بڑا عالم ۔ جولوگ ان کی صحبت سے فیض یاب ہوتے تھے ۔ وہ ان کے ساتھ عام زندگی کے چھوٹے چھوٹے موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے تھے ۔ دعوتیں ہوتی تھیں۔ انہیں اپنے ساتھ سیر پرلے جاتے تھے ۔ ان سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ کیسے کسی کو علم دے سکتے ہیں۔ آپ نے تو کبھی علم سکھانے کی بات ہی نہیں کی تو آپ نے اس سے کہا کہ ایک آدمی نے درخت کے نیچے کچھ سونا دفن کیا تھا کہ یہاں محفوظ رہے گا جب وہ واپس اسے نکالنے کے لیے گیا تو سونا غائب تھا ۔کسی نے جڑوں کوکھود کر وہ خزانہ چرالیا تھا ۔بیچارہ بہت پریشان ہوا اور شہر کے سب سے بڑے دانش مند کے پاس گیا۔ اسے اپنی پریشانی بتائی اور مایوسی کے عالم میں کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اب میرا خزانہ مجھے واپس نہیںمل سکتا ۔دانش مند نے اسے کہا کہ میرے پاس کچھ دن کے بعد آنا۔ اس دوران دانشمند نے شہر کے سب حکیموں سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ کسی نے فلاں درخت کی جڑوں کا نسخہ تو کسی کو لکھ کر نہیں دیا ۔ ایک حکیم نے اپنے ایک مریض کو اس درخت کی جڑوں کا نسخہ لکھ کر دیا تھا ۔دانشمند نے اس مریض کو بلایا اور اس سے خزانہ لے کر اصل مالک کو واپس کر دیا۔ اسی طرح مجھے بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ میرے کس پیرو کار کو کس چیز کی تلاش ہے اور میں اس کی ضرورت پوری کردیتا ہوں ۔ یعنی برگزیدہ لوگ جب کسی سے بات کرتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ جس سے ہم کلام ہیں وہ کون ہے کس حد تک بات کو سمجھتا ہے کیونکہ سننے والے کے اندر بھی کئی قسم کے تعصبات موجود ہوتے ہیں ۔’’ مجھے اسی مفہوم میں اشفاق چغتائی کی ایک رباعی یاد آرہی ہے۔ یقینا یہ رباعی انہوں نے ابن عربی سے متاثر ہوکر کہی تھی ۔ اعجاز طلب کس میں ہے طالب ہے کون عرفان کسے چاہئے ، کاذب ہے کون پس دیکھتا ہوں ظرف کی وسعت اشفاق یہ سوچتاہوں میرا مخاطب ہے کون طالب کے ظرف کے حوالے سے ابن عربی کے مرید خاص جعفربن یحییٰ کا ایک واقعہ بھی اشفاق بھائی نے مجھے سنایا تھا کہ وہ جب اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ کی تلاش میں سپین سے مکہ پہنچا تو وہاں اسے سبز جبہ پوش اجنبی ملا ۔اس نے جعفربن یحییٰ کے کچھ کہنے سے پہلے اسے کہا ’’ تم جس سب سے بڑے شیخ کی تلاش میں مشرق میں آئے ہو وہ زمانے کا استاد تو مغرب میںموجود ہے اور تمہاری تلاش میں ایک کمی بھی ہے جہاں سے آئے وہاں واپس چلے جائو۔ وہ وہیں ہے۔ حاتم طائی کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے العربی کا بیٹا ہے اور اس کا نام محی الدین ہے ‘‘ جعفر نے جبہ پوش کی بات سن کر واپسی کا سفر اختیار کرلیا ۔ طائی قبیلہ سے محی الدین کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اسے ڈھونڈ تے ڈھونڈتے ایک درسگاہ میں پہنچا اور وہاں موجود ایک شخص سے محی الدین کا پوچھا تو اس نے ایک طالب علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ وہ محی الدین ہے ‘‘ وہ طالب علم درسگاہ کے ایک کمرے سے عجلت میں نکل رہا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ جعفر نے اس نوجوان کو حیرت سے دیکھا اور روک کر پوچھا ’’ اس زمانے کا سب سے بڑا استاد کون ہے ‘‘ تو محی الدین نے کہا ’’ مجھے اس سوال کا جواب دینے کیلئے کچھ وقت چاہئے ’’ جعفرنے اس سے پوچھا ’’ تم ہی طائی قبیلے کے العربی کے بیٹے محی الدین ہو ‘‘ تو اس نے کہا ’’ ہاں میں ہی ہوں ‘‘ جعفر بولا تو مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے ۔ تقریباً تیس سال کے بعد جعفر اس ہال میں داخل ہوا ،جہاں ابن عربی تقریر کررہے تھے ۔ انہوں نے جعفر کے اندر داخل ہوتے ہی کہا ’’ جعفر بن یحییٰ اب جب میں تمہارے اس سوال کا جواب دینے کے قابل ہوں جوتم نے آج سے تیس سال پہلے مجھ سے پوچھا تھا تو تمہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تیس سال پہلے جعفر کو میری ضرورت نہیں تھی ،کیا اب بھی اسے میری ضرورت نہیں ہے ؟ جس سبز جبہ پوش نے تیس سال پہلے تمہاری تلاش میںکسی کمی کا تذکرہ کیا تھا وہ کمی وقت اور جگہ کے تعین کی تھی ‘‘ یعنی کہ حاصل کے لیے صحیح وقت اور صحیح جگہ کا تعین ضروری ہے ۔ اگر طالب کا سوال زمان و مکان کو مدنظر نہیں رکھتا تو اس کی جستجو نا تمام قرار پاتی ہے ۔ ہر طالب کے لیے طلب کے مطابق ظرف لازم ہے و گرنہ صورت حال وہی میاں محمد بخش والی ہوجاتی ہے ﴿مٹھی کھیر پکا محمد کتیا ں اگے دھرنی ﴾ پیمانہ اگر ظرف سے زیادہ بھر دیا جائے تو چھلک جاتا ہے ۔ اسی حوالے سے ابن عربی کا ایک اور واقعہ بھی اشفاق بھائی نے کئی جگہوں پردرج کیا ہے کہ ایک شخص عراق کے شہر موصل سے ان کے پاس آیا اور انہیں کہا کہ میں نے حضرت معروف کرخی کو خواب میں دیکھا کہ وہ جہنم کی آگ کے مرکز میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ ایک اتنے بڑے روحانی مرتبے پر فائز شخصیت جہنم کی آگ میںکیسے ؟ تو ابن عربی نے اسے کہا کہ تمہارے اندر کی حالت اور معروف کرخی کی باطنی حالت کے درمیان ایک رکاوٹ ہے۔ وہی رکاوٹ تمہیں آگ کی صورت میں نظر آئی ہے اگر تم معروف کرخی کے باطنی اوج کو سمجھنا چاہتے ہو تو تمہیں وہ رکاوٹ پھلانگنی ہوگی ۔ تمہارے باطن میں جوکمی ہے اسے دور کرنا ہو گا۔ تمہاری غلطی یہ ہے کہ تم یہ نہیں سمجھ سکے کہ جسے تم نے خواب میں دیکھا ہے وہ واقعی حضر ت معروف کرخی تھے اور وہ آگ واقعی جہنم کی آگ تھی ؟ جو نقش دکھائی دے رہا ہو ضروری نہیں کہ اس کے معنی بھی وہی ہوں اور نقش کو دیکھ اصل معنی تصور کرنا ان لوگوں کو شیوہ ہے جنہیں صراط مستقیم تک رہنمائی حاصل ہوچکی ہوتی ہے ۔ یعنی ابن عربی یہ کہہ رہے ہیں کہ تمہارے اندر کی دنیا اتنی وسیع نہیں کہ تم حضرت معروف کرخی کے مقام کو سمجھ سکو ۔اشفاق بھائی سے سنی ہوئی یہ باتیں میں اکثر اوقات اپنے کالموں میں لکھتا رہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں میرے لکھے ہوئے حرف کے پیچھے ان کی دانش کا م کرتی ہے ۔ ابن عربی کے ساتھ ساتھ یونانی فلاسفر فلوطینس سے اشفاق بھائی متاثر تھے۔ مجھے اشفاق بھائی کی رباعیوں میںفلوطینس کا فلسفہ بہت نظر آتا ہے ۔ فلوطینس سے میری پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب میں نے طے کرلیا تھا کہ افلاطون نے الوہیت اعلیٰ اور مادیت کے درمیان رابطے کا نظریہ قدیم اعتقادات سے اخذ کیا ہے اور اس موضوع پر پاکستان میں عربی زبان کے سب سے بڑے نثر نگار اور یونانی فلسفے کے ایک بڑے ماہر سید نصیر شاہ سے طویل گفتگو کی تھی ۔ انہوں نے میری توجہ فلوطینس کی طرف مبذول کر ائی اور جب میںنے فلوطینس کی کتاب نورتن سے تفصیلی بات چیت کی ﴿ فلو طینس کے چون مقالوں پر مشتمل یہ کتاب مجھے اس کے شاگرد پار فری سے مستعار ملی تھی ﴾ تو مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ وہ جدید افلاطونیت کا بانی ہے ۔اس نے افلاطون کے فلسفے کو ایک ایسی تفہیم دی ہے کہ اس کی تعلیم تشکیک سے نکل کر ایک نئے مذہبی خیال میں ڈھل گئی ہے۔ وہ مجھے اہل تشکیک کی اس بات سے بھی متفق نظر آیا کہ افلاطون کی وہ تعلیم جو مادیت سے مبرا ہے، اسے سمجھنے کے لیے ابھی اور علم کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ انسان کے پاس وہ علم موجود ہے لیکن اس علم سے آگاہی کے لیے روح کو آسمانوں سے آگے کے کچھ سفر درپیش ہیں ۔ اس کے نزدیک نظریات کوئی جامد شے نہیں بلکہ مسلسل ارتقائی عمل کا نام ہیں۔ اس نے اپنے نظریاتی ارتقائ کا ایک نظام وضع کیا ہے ۔میں نے اس کے نظریاتی ارتقائ کی روشنی میں اس کو بڑے غور سے دیکھنے کی کوشش کی تووہ مجھے اور بھی خوبصورت لگا ۔مجھے اس کے نظریاتی ارتقائ میں وحدتِ کل کی جانب سے قدرت کاملہ کی مخلوق تک مختلف وسیلوں سے مسلسل اور مستقل ترسیل دکھائی دی اور وسیلۂ اول یعنی ادراک عظیم ﴿ الوہی وباطنی خرد﴾ سے روحِ کائنات رواں ہوتی ہوئی نظر آئی جہاں سے انسان وحیوان کی روحیں خارج ہورہی ہیں اور مادہ وجود میں آرہا ہے۔ فلوطینس نے روحانی آفاقیات کا جو پیچیدہ نظام پیش کیا ہے وہ تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ وحدتِ کل ، فہم و ادراک اور روح ۔ اور وہ ان تینوں کے اتصال کا نتیجہ وجود یا ہستی کو قرار دیتا ہے ۔ اپنے اس روحانی نظام میں ادراک کے استغراق یعنی مراقبے کو اس نے ایک بار آور اصول کی حیثیت دی ہے جس کے باعث ہر موجود ایک مطلق حقیقت بن جاتا ہے یعنی کثر ت وحدت میں بدل جاتی ہے ۔اس کے نزدیک الوہیت ظاہر فطرت میںموجود ہے۔ اگرچہ وہ نظریہ ئ وحدت الوجود کو حتمی طور پر ماننے والوں میں سے نہیں ان سے زیادہ دور بھی نہیں بس اتنا بنیادی فرق ہے کہ اس کا نظریاتی نظام عدم سے تخلیق کے خیال کی اجازت نہیںدیتا ۔ وہ کہتا ہے ’’ جب انسان وجود سے بھی ترقی کر کے آگے نکل آتا ہے تب اس میں ذاتِ حق کا نور جھلکنے لگتا ہے ۔یہی اس کی تنہائی اور یکجائی کا نور ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں تنہائی تنہائی سے ہم آغوش ہوتی ہے ۔ اور ایک دن جب اشفاق بھائی نے مجھے اپنی یہ رباعی سنائی : اک نور کی یکجائی ہم آغوش ہوئی اس ذات کی رعنائی ہم آغوش ہوئی انسان جو اس جسم سے باہر نکلا تنہائی سے تنہائی ہم آغوش ہوئی تو میں نے انہیں کہا یہ تو فلوطینس ہے تو کہنے لگے ’’ ہاں یہ بھی اپنے ہی مزاج کا شخص تھا۔ اس پر تھوڑا کام کرو۔اردو کی کسی کتاب میں اس کے متعلق کہیں مکمل معلومات موجود نہیں کہ وہ کب پیدا ہوا تھا، کہاں پیدا ہوا تھا وغیرہ وغیرہ ،اور فلوطینس سے میری دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں نے کئی ماہ اس کے ساتھ لائبریریوں میں گزارے تو پتہ چلا کہ وہ رومن فلاسفر نہیں مصری فلاسفر تھا۔ اس نے 204 عیسوی میں مصر میں جنم لیا تھا ۔چوبیس پچیس سال کی عمر میں اسکندریہ چلا گیا تھا ،جہاں اس وقت کے معروف فلسفی ’’ عمونیئس ساکس ‘‘ نے اس کی علم کے لیے تڑپتی ہوئی بے چین روح کو سیراب کرنے کی کوشش کی مگر علم کے پیاسے فلوطینس نے بادشاہ کے ہمراہ ایران کا سفراختیار کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہاں کے فلسفیوں سے استفادہ کیا جائے۔ بادشاہ کو راستے میں قتل کر دیا گیا تو فلوطینس ایران جانے کی بجائے واپس روم آگیا جہاں اس نے اپنا ایک فلسفے کا سکول قائم کیا ۔ وہ بہت سحرا نگیز گفتگو کر تاتھا۔ اس کے سننے والوں پر اس کی گفتگو کا اس قدر گہرا اثر ہوتا تھا کہ لوگ اپنی دولت غریبوں میں تقسیم کردیتے تھے ۔ غلاموں کو آزاد کردیتے تھے اور زندگی زہد وتقویٰ کے لیے وقف کر دیتے تھے ۔اس وقت کا رومن بادشاہ بھی اس کی گفتگو کے اسیروں میں سے تھا۔ اس نے بادشاہ کی اجازت سے اشتراکی سماج قائم کرنے کا ایک منصوبہ بھی بنایا تھاجو بادشاہ کے مشیروں کی مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ اس نے روم ہی میں 270 عیسوی میں انتقال کیا۔ وہ آخری سانس تک لوگوں کو اپنے الوہی فلسفے سے سیراب کرتا رہا۔ اس کا تحریری کام اس کے مرنے کے بعد اس کے شاگرد ’’ پار فری ‘‘ نے مرتب کیا۔ چھ حصوں پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دی اور ہر حصے میں نوباب شامل کیے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی کتاب کے متعلق یہ ترتیب خود فلوطینس کی اپنی ہے ۔ میں نے جب یہ تمام معلومات جمع کرکے اشفاق بھائی کو دیں تو انہوں نے میری طرف شاہد غزنوی کی ایک کتاب بڑھادی جس میںفلوطنیس کے بارے میں اردو زبان میں سب کچھ موجود تھا۔ مجھے بڑا غصہ آیا اور میںنے کہا میں اتنے دن لائبریریوں کی خاک کیوں چھانتا رہا ہوں۔ آپ یہ کتاب پہلے مجھے نہیں دے سکتے تھے تو کہنے لگے ’’ لائبریریوں کی خاک نہیں چھانتے رہے ،کتابوں کی گرد صاف کرتے رہے ہو تمہیں تو پتہ ہے کہ یہاں اور کون ہے جو الماری سے کتاب نکالنے کا سلیقہ بھی جانتا ہو۔ پچھلے دنوں فلوطینس سے میری تیسری ملاقات برطانیہ میںسید حسن عسکری کی وساطت سے ہوئی تو مجھے اشفاق بھائی بہت شدت سے یاد آئے ۔سید حسن عسکری کی کتاب مراقبۂ ذات ‘‘ فلوطینس کی تصنیف کے اقتباسات کے حوالے سے تالیف و ترجمہ پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کسی ’’ ہمدمِ دیرینہ ‘‘ یعنی اشفاق بھائی سے ملاقات ہوگئی ہو۔کہتے ہیں کہ ہمدم دیرینہ کا ملنا بہتر ہے ملاقات ِ مسیحا و خضر سے ۔ وہ بھی بڑی باکمال کتاب ہے۔ میں نے جب اسے پڑھنا شروع کیا تو مجھے یوں احساس ہوا جیسے میں 250 عیسوی میں روم کی گلیوں میں فلوطینس کے ساتھ پھر رہا ہوں اور وہ اپنی جادو بھری آواز میں میرے ساتھ محوِ گفتگو ہے ۔راز کن فکاں کھولنے کی کوشش جاری ہے ۔ The One کی تفہیم کے لیے الفاظ نہیں مل رہے ۔ ماہیتِ روح زیرِ بحث ہے روح کے حصۂ زیریں اور حصہ ئ بالا کے درمیان رابطے کی صورت دکھائی دے رہی ہے ۔ خیر مطلق کے قربِ مسلسل کے احساس کا اظہار ہو رہاہے ۔ صاحب ِمعرفت کی خبر مل رہی ہے ۔ اور سب سے بڑی بات جو سید حسن عسکری کی کتاب سے طلوع ہورہی ہے ۔ اس کا فلوطینس کے مراقبۂ ذاتِ احد کو اسلام کے توحیدی مزاج سے ہم آہنگ کرنا ہے ۔ان کی کتاب پڑھ کر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کتاب میںفکر سے مراقبے تک کہیں کوئی ایسی فلسفیانہ بات موجود ہے جو دائرہِ اسلام سے باہر ہو اور یہی با ت اشفاق بھائی کہا کرتے تھے۔ مجھے اشفاق بھائی کی جن جن رباعیوں میں فلوطینس کی فکر دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہیں : اس عالم ناسوت میں آئی کیوں ہے اس قریۂ طاغوت میں آئی کیوں ہے اشفاق کوئی روح سے پوچھے اتنا اس جسم کے تابوت میں آئی کیوں ہے ہے خاک سے کچھ بیر ، مجھے لگتا ہے یہ میرا حرم دیر مجھے لگتا ہے اشفاق جدا اصل سے کرنے والا یہ جسم کوئی غیر مجھے لگتا ہے اشفاق بھائی برٹینڈ رسل کے بھی بہت قائل تھے، لیکن اس کی دہریت کی بنیاد پر کبھی اسے مکمل طور پر مسترد کر دیتے تھے ۔ کہا کرتے تھے کہ رسل کا یہ خیال کہ ’’ انسان قدرت کا ایک حصہ ہے ۔ قدرت سے مخالفت میںنہیں ۔ اسکی سوچ اور جسمانی حرکات اسی انداز میں ہیں جس طرح ستاروں اور ایٹموں کی حرکت ہے۔ انسانی سوچ اور جسمانی حرکات بھی انہی قوانین کے تحت متحرک ہیں قطعاً درست نہیں اور خود اس کے بنائے ہوئے نظام فکر کی نفی کرتا ہے ۔برٹینڈرسل کے پاس فطرت ایک مادر مشین کی طرح ہے سواس صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انسان یا کوئی دوسری مخلوق آزاد ہے ۔میکانکی قوانین، آزادی کو مصلوب کردیتے ہیں اور آزادی کے بغیر انسان کا علم دماغ کے کیمیائی ردعمل کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اچھائی اور برائی محض لفظ ہیں جنہیں انسانی دماغ نے کسی ردعمل کے طور پر زبان پر جاری کر دیا ہے ۔رسل ہمیں خدا سے محروم اور جس دنیا سے آشنا کرتا ہے اس میں آزادی ، اخلاقیات او رجوازِ علم کا کوئی امکان موجود نہیں۔ حالانکہ خود رسل آزادی ، اخلاقیات اور علم کا علمبردار ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اشفاق بھائی مجھ سے یہ باتیں 1990 کے اردگرد کیا کرتے تھے ۔ جب وہ سرگودھا کے ایک کالج میں پڑھایا کرتے تھے اور میں میانوالی سے لاہور ہجرت کرنے پر پرتول رہا تھا لیکن 1996 میں رالف اے سمتھ نے برٹینڈ رسل کے 1925 میں لکھے ہوئے مضمون ’’ میں کس بات پر یقین رکھتا ہوں ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے تقریباً یہی بات لکھی ہے ۔اشفاق بھائی نے شاید 1990 ہی میں یہ رباعی بھی کہی تھی ۔ مجبور قوانین کی ، قدرت کی غلام ہے ردِ عمل کوئی نہ طاقت کی غلام آزاد ہے یہ ذہن ازل سے اشفاق انسان کی حرکت نہیں فطرت کی غلام اشفاق بھائی کا خیال تھا کہ خدا کو ماننے والے لوگ درست علم کی ایک ہی قسم ﴿ عقلی ذہانت پر یقین رکھتے ہیں ۔حالانکہ علم کی تین اقسام ہوتی ہیں ۔کہتے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ علم کی پہلی قسم یہی عقلی ذھانت کی قسم ہے جسے عقلیت پسندی کہا جاتا ہے ۔یہ علم معلومات اور حقائق کو جمع کرکے کسی عقلی نتیجے کانام ہے۔ ان کے خیال میں علم کی دوسری قسم مختلف حالتوں کاعلم ہے جس میں جذباتی احساسات اور ایسی ذہنی حالتیں بھی شامل ہیں جب انسان یہ سوچتا ہے کہ اسے کوئی بہت بڑی چیز حاصل ہورہی ہے ۔ مگر وہ اس چیز کومکمل طور پر سمجھنے ، حاصل کرنے اور استعمال کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ وہ اس علم کو جذباتیت کا نام دیتے تھے ۔ علم کی تیسری قسم کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ اصل علم ہے اور اسے ’’ اصل کے علم ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے ۔ان کے نزدیک علم کی یہ قسم انسانی سوچ اور انسانی حسیات سے ماورایعنی ان کی حدود سے باہر سچ اور صحیح کے حصول اور پہچان کی قدرت کا نام ہے۔ اس کی وضاحت یوں کرتے تھے ۔عالم اور سائنس دان عقلیت پسندی کو فکر کا حاصل سمجھتے تھے ۔تجربہ کارلوگ علم ،جذباتیت اور عقلیت کو مل کر ایک متبادل علم کی صورت میں استعمال کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جن پر حق ظاہر ہوجاتا ہے اور جنہیں سب سے بڑی سچائی کے ساتھ اپنے آپ کو ملانے کی قدرت حاصل ہوتی ہے وہ پہلی دونوں اقسام سے بلند ہوجاتے ہیں اور یہی لوگ صوفی اور درویش کہلاتے ہیں ۔ جنہیں حقیقت میں اپنی منزل مل جاتی ہے ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک بار انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ علم کی یہ تینوں اقسام مجھے محی الدین ابن العربی نے بتائی ہیں کچھ اور باتیں بھی مجھے ان کی یاد ہیں جن کے بارے میں کہا تھا کہ یہ باتیں میں نے ابن عربی سے لی ہیں ۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ کہاں تک ابن عربی کی باتیں ہیں اور کہاں سے ان میں اشفاق بھائی کی فکر شامل ہوجاتی ہیں ۔ انہوں نے ایک قطعہ کہا تھا : جل بجھی فصل کی تلاش میں ہوں گمشدہ وصل کی تلاش میں ہوں ڈھونڈتا ہے خدا مجھے اشفاق اور میں اصل کی تلاش میں ہوں جب میں نے اس قطعہ کی وضاحت چاہی تو کہنے لگے ابن عربی نے کہا ہے عام محبت کرنے والا اپنے ثانوی ادراک کو محترم جانتا ہے مگر میںاصل سے محبت کرتا ہوں ۔ ابن عربی کے حوالے ایک اور بات جو انہوں نے ایک دن تقریر میں سنائی تھی ۔اللہ تعالی کی شان بیان کرتے ہوئے مجھے وہ آج بھی یاد ہے۔ فرمایا تھا اس کے حسن کے سامنے ہر حسن و خوبصورتی خاموش ہے ۔اس کے بارے میں سوچنا بھی اس کی نزاکت اور لطافت سے بھری ہوئی پر سراریت کو گزند پہنچاتا ہے ۔عقل ویسے ہی کھردری نفاست سے عاری جھوٹی اور کم تر شے ہے۔ وہ اس کے ادراک کی کس طرح متحمل ہوسکتی ہے ۔اسے ایک بھونڈی سی بھدی سی آنکھ جیسی چیز کیسے دیکھ سکتی ہے۔ اس کے حیران کرنے والے کمالات سوچ کی گرفت سے باہر ہیں نظر کی وسعت اسے مقید نہیںکر سکتی اس کے بارے میں وضاحت کی ہر کوشش اس کے سامنے مغلوب ہوجاتی ہے کیونکہ ایسا کرنا تحدید کے مترادف ہے اس کی وسعت کو کم کرنے کے مترادف ہے اسے محدود کرنا ہے اگر کوئی اس کی تلاش میں عام محبت کے انداز میں اسے چھونے کی خواہش میں اپنی امنگ اور اپنے اشتیاق کو کم درجہ کا بناتا ہے تو اسکی قسمت مگر ایسے بھی بہت سے موجود ہیں جوایسا کبھی نہیں کریں گے ۔ رباعیات کی دنیا میں بھی اشفاق بھائی کسی سے کم نہیں ۔ رباعی بہت پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ایک پسندیدہ صنفِ ادب ہے۔ آج کے دور میں کم ہی شاعررباعی لکھتے ہیں ۔ فارسی زبان سے شغف رکھنے والوں کی اس میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے ۔ رباعی لفظ تو عربی زبان کا ہے مگر عربی زبان میں اس نام کی کوئی صنفِ ادب موجود نہیں ، رباعی کی ابتدا فارسی زبان سے ہوئی اور اس کی صنف کو سب سے زیادہ شہرت عمر خیام کی وجہ سے ہوئی ۔ عیش پسندی کے پس منظر میں اس کی انسان دوستی اس کی رباعیات کی مقبولیت کا سبب سمجھی جاتی ہے۔ فارسی زبان کے تقریباً تمام بڑے شعرائے کرام نے اس صنف میں کچھ نہ کچھ اظہارخیال ضرور کیا ہے لیکن شیخ سعدی(رح) ، قاشانی اور فرید الدین عطار نے اس صنف میں خاصا کام کیا ۔ فرید الدین عطار نے چھ ہزار رباعیات کہی ہیں۔ ہندوستان میںامیر خسرو نے فارسی زبان میںبہت لازوال رباعیات لکھیں اگر تسلسل سے دیکھا جائے تو رباعی کے حوالے سے ایک بات یہ نظر آتی ہے کہ اس صنف میں زیادہ ترفلسفیانہ انداز میں شاعری کی گئی ہے یعنی مسائل ِ تصوف ہی زیر بحث رہے ہیں گرچہ بظاہر ساغر و بادہ کی گفتگو ہے مگر حقیقت میں مشاہدہ حق کا مضمون باندھا گیا وہی غالب والی بات : ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر اردو زبان میں اس صنف کو زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی اس کے وجہ شاید ایک تو اس کے مشکل اوزان ہیں دوسرا اردو زبان پرغزل کی گرفت بہت زیادہ مضبوط ہے۔ اس صنف میں انہی لوگوں نے زیادہ تر شاعری کی جو فن شاعری کے اسرار و رموز سے پوری طرح واقف تھے ۔ ولی دکنی ، سودا ، حسرت، انیس ودبیر، مصحفی ، میرتقی میرا ور مومن خان مومن کے ہاں رباعیاں ملتی ہیں ، اقبال نے کچھ رباعیات کہیں مگر زیادہ ترفارسی زبان میں اوران کے اوزان کے حوالے سے ایک بحث بھی ہے کہ یہ قطعات ہیں یار باعیات۔ ماضی قریب میں جوش اور فراق کے پاس بھی رباعیاں نظر آتی ہیں مگر کہیں رباعیات کی تعداد اتنی نہیں کہ انہیں اس حوالے سے کوئی بڑی اہمیت حاصل ہو۔ سید نصیر الدین گولڑی نے رباعی کے میدان میں بہت کام کیا ہے ۔اشفاق بھائی نے بھی اپنی رباعیات میں ان تمام لوازامات کا پوری طرح خیال رکھا ہے جو اعلیٰ درجہ کی رباعی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں ۔ان کی رباعیات کے زیادہ تر موضوعات تصوف فلسفہ اور منطق سے تعلق رکھتے ہیں جو ان کے فکری رجحان کی عکاسی کرتے ہیں ۔انہوں نے اپنی رباعیات میں اپنے نظریات کا بھی کھل کر اظہار کیا ہے اور انتہائی الجھے ہوئے فلسفیانہ موضوعات کو اس طرح شاعری میں تبدیل کر دیا کہ کہیں اس بات کا احساس نہیںہوتا کہ نظریہ ابھر کر سامنے آگیا ہے اور شاعری کہیں پیچھے رہ گئی ہے ۔ وہ عمر خیام کی رباعیات کے بہت مداح تھے اور شاید اسی وجہ سے انہوں نے اس صنف کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ان کی یہ رباعی مجھے عمر خیام کے بہت قریب محسوس ہوتی ہے ۔ امید ، سیہ خاکِ قفس چھونے لگی اٹھو کہ سحر تارِ نفس چھونے لگی وہ رات کے بے رحم محل کی چھت پر دیکھو کہ کرن پہلا کلس چھونے لگی عمر خیام بھی اپنی ایک رباعی میںکہتا ہے ’’ جاگو کہ سورج نے رات کے میدان میں اپنے سے پہلے جتنے ستارے تھے سب کو بکھیردیا ہے اور ساتھ ساتھ رات کو بھی بھگاتاجارہا ہے ۔ اور اس نے اپنی روشنی سے سلطان کے مینار کو چھولیا ہے ‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اشفاق بھائی کی رباعی شاعرانہ اعتبار سے اپنے کمال پر ہے ۔رات کے بے رحم محل کی چھت اور کرن کے پہلے کلس کو چھونا ، یہ سب مل کر ظلم کے خلاف ایک استعارہ کی صورت میں ڈھلتے چلے جارہے ہیں ۔ امیرکی یہ رباعی اپنے پس منظر میں ہزار سالہ پرانا عمر خیام رکھتی ہے ۔ مگر اپنے پیش منظر میں وائٹ ہائوس کے کلس تک کو لے آئی ہے ۔ سفید محل سے نکلتی ہوئی تاریکی کے بارے میں اشفاق بھائی کی ایک اور رباعی بھی قابل داد ہے : کیا قوم کہیں حامل تہذیب ہوئی بارودی سرنگوں کی ہے تنصیب ہوئی پھر امن کا بندوق سے پرچار کیا تعمیر کے پھر نام پہ تخریب ہوئی اشفاق بھائی نے بھوک اور مفلسی کی گپھائوں میں ڈوبی ہوئی دنیا کا بھی مشاہدہ کیا تھا۔ روٹی کے لیے ہوتے ہوئے بلوے بھی ان کی نگاہ میں تھے اور وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ ان کے لیے آسمانوں سے من و سلویٰ کیوں نہیں اترتا ان کی ایک رباعی دیکھئے : موسیٰ نے کہیں طور کا جلوہ دیکھا لوگوں نے اترتا من وسلویٰ دیکھا روٹی کے لیے شہر میں شب بھر اشفاق کب خون میں ڈوبا ہوا بلوہ دیکھا بارودی سرنگیں دنیا کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں۔ اس وقت دنیا میں معصوموں کے مارنے کے لیے اتنی باردوی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں کہ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ انہیں مکمل طور پر صاف کرنے لیے تقریباً نصف صدی درکار ہے مگر اس طرح کی اندھیروں بھری صورتحال میں اشفاق بھائی نا امید کہیں نظر نہیں آتے ۔ امید اشفاق بھائی کے ہاں بہت واضح دکھائی دیتی ہے۔ وہ دکھ کی بات کرتے ہیں، رات کا قصہ بیان کرتے ہیں مگر سویروں سے ہم آغوش ہونے کے واقعات بھی سناتے ہیں بلکہ موت جیسے ہولناک موضوع پر اتنی خوف صورتی سے بات کرتے ہیں کہ اس میں بھی گلیمر پیدا ہوجاتا ہے، ان کی رباعی دیکھئے : اک نور کی یکجائی ہم آغوش ہوئی اس ذات کی رعنائی ہم آغوش ہوئی انسان جو اس جسم سے باہر نکلا تنہائی سے تنہائی ہم آغوش ہوئی تخلیق کے بارے میں ان کا رویہ بھی علامہ اقبال سے ملتا جلتا ہے کہ خون جگر سے تربیت پاتی ہے سخنوری مگر اشفاق نے اس موضوع پر بہت کھل کر سیدھی سیدھی بات کی ہے کہ اعلیٰ معیار کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ ایسے موضوعات پر اظہار خیال کیا جائے جن میں دکھ کی فراوانی ہو۔ اپنی ایک رباعی میں کہتے ہیں ۔ رنگوں سے کبھی درد کو تصویر کریں تیشے سے کبھی خواب کی تعبیر کریں تخلیق کریں جب کوئی خوش کن نغمہ غمگین خیالات کی تشہیر کریں انگلش زبان میں اس بات کو تقریبا ً ہر بڑے شاعرنے کہا ہوا ہے بلکہ انگریزی کا مقولہ ہے کہ عظیم شاعری ٹریجڈی سے نمودار ہوتی ہے، کامیڈی سے نہیں ۔ غالب نے بھی کہا تھا : من از خویشتن بادل درد مند نوائے غزل برکشیدہ بلند زندگی اورموت کے بارے میں محمد اشفاق چغتائی کا نظریہ بھی بحث طلب ہے۔ وہ سقراط سے سچائی کی بات کرنے میں دلچسپی نہیںرکھتے بلکہ موت کے بارے میں اس کے ساتھ بزم سوالات منعقد کرتے ہیں ان کی ایک رباعی ریکھئے ۔ سچائی پہ موہوم سی کچھ بات ہوئی بس موت پہ ہی بزم سوالات ہوئی یہ بات الگ میں نہیں یونان گیا سقراط سے کچھ دیر ملاقات ہوئی سقراط کے ساتھ موت کے موضوع پر گفتگو کیوں ؟ اس کے پیچھے ایک کہانی موجود ہے کہ جب سقراط کو سزائے موت سنائی گئی تھی تو قانون کے مطابق سقراط کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر زہر کا پیالہ پینا تھا مگر مقدس دیوتائوں کا جہاز دوسرے جزیروں کے دورے پر گیا ہوا تھا سو اس کی واپسی تک انتظار ضروری تھا۔ سقراط کو مہینہ بھر جیل میں رکھا گیا ۔مہینہ بھر جیل میں محفلیں سجتی رہیں ۔سقراط کے دوستوں نے جیل سے فرار کا منصوبہ بھی بنایا مگر سقراط نے انکار کر دیا اور موت اور روح کی لافانیت پر گفتگو کرتا رہا ۔ سقراط کے شاگردوں نے اس گفتگو کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے مگر بہت سے سوال اور بھی ہیں جنہیں شاید اشفاق سقراط سے پوچھنا چاہتے تھے ۔ محمد اشفاق چغتائی کو شاید علم ریاضی سے بھی دلچسپی تھی۔ ریاضی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ریاضی کا آغاز خارجی دنیا پر عددی تبصرے اور معروض کی گنتی اور پیمائش سے ہوتا لیکن ریاضی چونکہ ایک قائم بالذات زبان کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے مکمل طور معروضی دنیا یعنی فطرت کی پابند نہیں رہتی اور ادب جو امکانی وسیلوں سے آگے بڑھتا ہے۔ اسے ریاضی پر منتج نہیں کیا جاسکتا مگر اشفاق بھائی نے اپنی ایک رباعی میں ادب اور ریاضی کو آپس میں ہم آغوش کر دیا ہے ۔ کہتے ہیں ۔ اقلیدس سے علم ریاضی سے پوچھا منصور سے کی گفتگو قاضی سے پوچھا ہوتی ہے محبت میں مثلث آخر کیوں پوچھا خدا سے ، عشق کے ماضی سے پوچھا ریاضی کے موضوع پر میری نظر سے اس سے پہلے صرف صادقین کی ایک رباعی گزری ہے ۔صادقین نے ریاضی اور خطاطی کے باہمی رشتوں کو سامنے رکھتے ہوئے، وہ رباعی کہی ہے ۔وہ کہتے ہیں ۔ کچھ وصلیاں اور سجا لایا ہوں بالکل ہی نئے جوڑے بنا لایا ہوں استادوں کی قید ریا ضی میں تھے وہ اس قید سے ابجد کو چھڑا لایا ہوں صادقین کی رباعی سے اشفاق بھائی کی ایک اور رباعی یاد آگئی ہے۔ بظاہر تو ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ، قافیے کی مناسبت کے سوا مگر میںسمجھتا ہوں کہ ان دونوں رباعیوں کے درمیان کوئی مزاج کی ہم آہنگی ایسی ہے جس سے مجھے یہ رباعی یاد ہوگئی ہے ۔ میں حرف ہوں الفاظ سے چھڑائے کوئی میں لفظ ہوں جملے سے بچائے کوئی اشفاق عمارات بھری ہیں لیکن مفہوم کتابوں کا بتائے کوئی رباعی کے چوبیس وزن ہیں اور ان میں کئی بہت مشکل بھی ہیں ۔ میرے علم میں اردو زبان کا کوئی ایسا شاعر نہیں جس نے رباعی کے تمام اوزان کو استعمال کیا ہو، سوائے اشفاق بھائی کے ۔ میرے اس دعویٰ کا سبب میرے مطالعہ کی کمی بھی ہوسکتی ہے ۔ لیکن صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے ۔ اساتذئہ فن اوزانِ رباعی کے دوشجرے بناتے ہیں ۔ پہلا شجرہ اخرب اور دوسرا شجرہ اخرم۔ دونوں شجروں میں بارہ بارہ بحریں ہیں ۔شجرہ اخرب کا پہلا رکن مفعول ہے ۔اس کی پہلی بحر مقبوض ابترہے جس کے ارکان ہیں ﴿ مفعول ، مفاعلن ، مفاعیلن ، فع ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے ۔ دنیا کو نیا نصاب دینا ہوگا ہر جھوٹ کا اب حساب دینا ہوگا کس نے ہے بھرا دروغ اتنا تجھ میں تاریخ ! تجھے جواب دینا ہوگا اس رباعی سے ایک اور بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اشفاق بھائی کو تاریخ سے بھی خاصی دلچسپی تھی اور انہوں نے تاریخ کے سمند ر میں اتر کر اس بات کا بھی ادراک کرلیا تھا کہ تاریخ سچائی کے ساتھ ساتھ جھوٹ کا ایک پلندہ بھی ہے ۔تاریخ کو جانچنے کے لیے اب جو پیمانے بنائے گئے ہیں انہوں نے بہت سے تاریخی مسلمات کو غلط ثابت کیا ہے اور اس میدان میں ہونے والی ترقی یقینا آنے والے ادوار میں اور بہت سی تاریخی سچائیوں کو غلط ثابت کردے گی ۔شجرہ اخرب کی دوسری بحر مقبوض زلل ہے ۔اس کے ارکان ہیں﴿ مفعول ، مفاعلن ، مفاعیلن، فاع﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے ۔ خورشید سے آشکار ہے کس کا عکس ہر پھول میں نوبہار ہے کس کا عکس اشفاق نہیں کوئی اگر تو پھر بول آئینے میں بے قرار ہے کس کا عکس خدا کے وجود کے حوالے سے یہ کیا عجیب رباعی ہے ۔ اپنے ہونے کو جس طرح اشفاق بھائی نے خداکے ہونے کا ثبوت بنایا ہے، اس کی مثال پہلے کہیں کم ہی نظر آتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ وہ علم کے پانچ دروازوں یعنی حواس خمسہ پر گفتگو کررہے تھے کہ افق پر زمین اور آسمان کا ملاپ جو نظر آتا ہے ،ویسا نہیں ہے یعنی حسِ بصارت جھوٹ بولتی ہے۔ گاڑی کے شور میں ہم سفر کی گفتگو صحیح سنائی نہیں دیتی یعنی حسِ سماعت بھی ناقابلِ اعتبارہے ۔ رس بھرے گلاب جامن کھانے کے بعد میٹھی چائے کی پیالی بھی پھیکی لگنے لگتی ہے ،جیسے حسِ ذائقہ ختم کررہ گئی ہو۔ بخار میں تپتا ہوا ہاتھ نسبتاً کم حدتوں کو خنکیاں ٹھہرا جاتا ہے جیسے حسِ لامسہ مفلوج ہوگئی ہواور رات کی رانی کی خوشبو جب صحن میں گھلتی ہے تو باقی پھول فقط رنگ ہوکر رہ جاتے ہیں یعنی حس شامہ پر بھی یقین نہیں رکھا جاسکتا ۔ تو میں نے پوچھا تھا کہ اگر ہمارے حواس سچ نہیں بولتے ہیںتو پھر سچائی کیا ہے اور کہاں سے آتی ہے توانہوں نے کہا تھا ’’ ہاں یہ علم کے پانچ دروازے نہیں ظن و تخمین کی تشکیک آور کھڑکیاں ہیں ۔سچائی علم کا چھٹا دروازہ ہے جو باہر کو نہیں اندر کو کھلتا ہے یعنی ہر انسان کے باطن میں ہوتا ہے۔ اسی سے انسان کو اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے ۔وہی اپنے اندر کسی اور کی موجودگی کی خبر دیتا ہے۔ آئینہ ئ ذات میں کسی کا عکس دکھائی دیتا ہے جو ایک طرح سے ہماری اپنی صورت بھی ہوتی ہے مگر اسے اپنی صورت پرتشبیہ دینا کفر ہے کہ وہ ذات حدود و قیود سے ماور اہے اور اسے کسی شے میں مقید کرنا شرکِ عظیم ہے ۔ شجرہ اخرب کی تیسری بحر مقبوض مکفوف مجبوب ہے۔ اس کے ارکان یوں ہیں ﴿ مفعول ، مفاعلن، مفاعیل فعل ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی نے یہ حمدیہ رباعی کہی ہے ۔ اس میری زمیں کو تونے آفاق کیا اس ذہن رسا کو پل میں براق کیا تجسیم خیالوں کودی کچھ خواب بنے اشفاق کو تونے ہی تو اشفاق کیا اس رباعی سے اشفاق بھائی کے نظریۂ حیات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ وہ زندگی کو کیا سمجھتے تھے ۔ اشفاق کا اشفاق ہونا ان کے نزدیک کیا تھا یہی کہ خیالوں کو تجسیم کرنا اور خوابوں کو بننا۔ یعنی اشفاق بھائی کے خیال میں زندگی کی حقیقت خیال و خواب میںپنہاں ہے ، فر و آگہی ہے ، سوچنے کے عمل کانام ہے ۔سوچنے کے عمل کو وہ براق سے تشبیہ دیتے ہیں ۔براق تو انسانی معراج کی سوار ی ہے ۔ شجرہ اخرب کی چوتھی بحر مقبوض مکفوف اہتم ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ﴿مفعول، مفاعلن ، مفاعیل ، فعول ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی نے ابتدائے آفر ینش کی یاداشت کا مرثیہ کہتے ہوئے یہ رباعی کہی: وہ نقل مکانی تو مجھے یاد نہیں ہے جنت کی کہانی تو مجھے یاد نہیں ہے ہے یادشِ مختصر یہی خاک نژاد ماضی کی کہانی تو مجھے یاد نہیں ہے یہ بحث صدیوں سے ہوتی چلی آرہی ہے کہ انسان کی ابتدائی کیا تھی ۔ اس سلسلے میں صوفیائے کرام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ انسان پہلے جمادات تھا پھر نباتات میںتبدیل ہوا پھر حیوانات کی شکل اختیار کی اور اس کے بعد انسان کی صورت میں وارد ہوا۔ مولانا روم نے مثنوی معنوی میں یہ ساری باتیں لکھی ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر یہی سچ ہے تو پھر قرآن حکیم میں جو قصۂ ابلیس و آدم آیا تھا ۔ وہ کیا ہے۔ صوفیا کا اس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے تمثیلی کہانی بیان کی گئی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو یاداشت خاک نژادوں کو حاصل ہوسکی ہے ۔ اس میں صوفیائے کرام کی کہی ہوئی بات سچ دکھائی دیتی ہے ۔ یعنی ڈارون وغیرہ کا نظریہ مگر بحث کہیں ختم نہیں ہوتی ۔ اشفاق بھائی کی یہ رباعی اسی کہانی کو بیان کرتی ہے ۔ کہ میرے پاس تو وہی مختصر سی خاک نژاد یا موجود ہے ۔ باقی سب کچھ میں بھول گیا ہوں۔ میںنے اسی موضوع پر ایک نظم کہی تھی عنوان تھا ’’ صرف خواص کے لیے ‘‘۔ ہست قرآں درزبان پہلوی کی ایک آیت اورہم ابتدائے آفر ینش کی کوئی ساعت۔۔۔ جماداتی زمانہ نیلم و الماس کے ڈھیروں میں حرکت کی طلسماتی نمو پہلے نباتاتی تغیر کا فسوں پہلے وجودیت کی پھر تجسیم کا ری جسم حیوان کے مسلسل ارتقائ کی آخری حد آدمیت کاجنم فکری و ذہنی سفر کے راستوں پر گامزن آدمی مٹی کی کچھ تبدیل ہوتی حالتوں کا اک ظہور آدم وحوا کا قصہ ایک تمثیلی شعور اشفاق بھائی نے یہ نظم سن کر مجھے کہا تھا کہ تم نے فتویٰ صادر کر دیا ہے۔ آدم و حوا کے قصے کے بارے میں ۔ اور تم یہ فتویٰ دینے کی حیثیت نہیں رکھتے کوئی نہیں رکھتا حتی کہ صوفیا ئے کرام بھی نہیں رکھتے ہیں کیونکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ بے شک ہم اسے سمجھنے کی کوشش میں غلطی بھی کرسکتے ہیں کیونکہ انسان ہیں مگر اس کلام کے بارے میں کوئی ایسی بات حرف آخرکے طور پر نہیں کہہ سکتے جس سے اس کی سچائی پر کہیں ذراسا بھی حرف آنے کا اندیشہ ہو۔ شجرہ اخرب کی پانچویں بحر احزم ابتر ہے اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول، مفاعیلن ، مفعولن، فع﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجودہے : صورت ہو بے صورت کی ناممکن ہے اک دید شہادت کی ناممکن ہے ہم عرش سے اونچے بھی ہوسکتے ہیں تسخیر اس وحدت کی ناممکن ہے اس رباعی میں بہت سی باتیں جمع ہوگئی ہیں۔ ایک بار میںنے ایک نعتیہ شعر کہا تھا۔ مجھے معلوم ہے تسخیرِ یزداں کا عمل منصور کرم خاک مدینہ کا مری دیدہ وری پرہے تواشفاق نے اس میں سے دوغلطیاںنکالی تھیں۔ ایک تو یہاں دیدہ کی ’’ ہ ‘‘ نہیں بولنی چاہئے، دوسرا کہنے لگے کہ اقبال نے جو تسخیر یزداں کی بات کی ہے وہاں اس کے کہنے کا وہ مفہوم نہیں تھا جو تمہارے یہاں پیدا ہورہا ہے اس پر تھوڑی سی محنت اور کرو کیونکہ وحدت کی تسخیر ناممکن ہے ۔دوسری بات جو اس رباعی میںحیرت انگیزدکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ ہم عرش سے اونچے بھی ہوسکتے ہیں ۔میرے خیال میں یہ مصرعہ کہتے ہوئے ان کے مدنظر ور فعنا والی آیت تھی کہ ہم نے تیرے ذکر کو بلند کر دیا۔ یقینا یہ بات قدوس ذوالجلال عرش پر کہہ رہا ہے توحضور �ö کا ذکر عرش سے بلند ہو رہا ہے۔ قَابَ قوسین کا مقام یقینا عرش سے بہت بلند تر ہے جہاں حضور (ص) معراج کی رات کو پہنچے۔ اشفاق بھائی کی رباعیات پڑھ کر اس بات پر یقین آجاتا ہے کہ بحیثیت ایک فنکار شاعری ان کے گھر کی کھیتی تھی، مگر وہ ہمیشہ اپنے عجز کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے ’’ اظہار عجز ہوگئی ہے میرے فن کی بات ‘‘میںنے پوچھا کیوں کیا ہوا، ’’ تو انہوں نے کسی کا نام لیا جو مجھے اب یاد نہیں اور کہا کہ اس کی ایک بات بہت اچھی لگی تھی مگر رباعی کے اوزان میں نہیں لا سکا اور میںنے بھی تمہاری طرح ایک آزاد نظم کہہ دی ہے اور یہ بات کہ وہ آزاد نظم شاید مجھے کبھی نہ بھولے نظم کا عنوان رکھا تھا ‘‘ تین حواس ‘‘ اور اس میں یہ چھ لائنیں تھیں: بے پردہ دوکان کہیں ہر بات سنو ہرا ٓن سنو دو پردہ دار نگاہوں کی تفہیم کہے دیکھو لیکن ہر لمحہ ہر چیز نہ دیکھو اور دو، دروازوں کے پیچھے ایک چھپی خاموش زبان کہے ہونٹوں اور دانتوں کے سخت کو اڑمقفل رہنے دو لیکن آزاد نظم انہوں نے بہت کم کہی ۔ایک طویل آزاد نظم انہوں نے کہی تھی جس میں سر کارِ دو عالم کی آمد سے پہلے عرب معاشرہ کا نقشہ کھینچا گیا تھا ۔وہ کہیں شائع شدہ ہے مگر ابھی تک مجھے مل نہیں سکی اور کچھ آزاد نظمیں انہوں نے قرآن حکیم کی آیتوں کے تراجم کرتے ہوئے کہی تھیں ہاں تو بات رباعیات کے حوالے سے ہورہی تھی رباعی کے شجرہ اخرب کی چھٹی بحراحزم زلل ہے اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیلن ، مفعولن، فاع ﴾ اس بحر میں بھی اشفاق نے کچھ رباعیایت کہی ہوئی ہیں ۔مثال کے طور پر یہ پھول پرندے اور دریا ہیں کون کس کی ہیں ہوائیں ، یہ صحراہیں کون ہم لوگ نہیں لگتے ان سے اشفاق اب اپنے بزرگوں کا ورثہ ہیں کون اس رباعی سے ایک اور عجیب بات سامنے آرہی ہے کہ یہ پھول پرندے دریا ہوائیں اور صحرا ہمارے بزرگوں کا ورثہ ہیں۔ فطرت یقینا ہمیں وارثت میںملتی ہے ۔ بلکہ آنے والی نسلوں کا قرض ہوتی ہے اور یہ ہمارے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ جس حالت میں یہ ہمیں ملی ہے ۔ اسی حالت میں اسے اپنے بچوں تک پہنچائیں ۔یہاں اشفاق بھائی نے یہ نقطہ اٹھایا کہ ہم اپنے بزرگوں جیسے نہیں ہیں یعنی ہمارے کام ان جیسے نہیں رہے ، وہ کچھ اور تھے ہم کچھ اور ہیں اس صورت میں اب ہمارے بزرگوں کا ورثہ کون ہیں ۔اب یہ پھول پرندے کون ہیں ،کس کے رشتہ دار ہیں۔ ان ہوائوں کا وراث کون ہے۔ دریا وصحرا کون ہیں ،کچھ لگتے ہیں ہمارے یا نہیں ۔ بہر حال اس عجیب رباعی کے کئی اور بھی مفہوم ہوسکتے ہیں مگر میرے خیال میں قریب ترین مفہوم یہی ہے ۔ شجرہ اخرب کی ساتویں بحر مجبوب ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیلن ، مفعول فعل ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجود ہے ۔ لمحہ بھر کی ہستی ہے کچھ سوچ سمجھ کہنے کو یہ مستی ہے کچھ سوچ سمجھ اشفاق جسے دنیا ہم لوگ کہیں پستی ہی بس پستی ہے کچھ سوچ سمجھ یہ رباعی اشفاق بھائی کی زندگی کی مکمل طور پر عکاس ہے۔ انہوں نے ساری زندگی دنیا داری نہیں کی۔ دنیا کو پستی سمجھا ۔ دوزخ کی پستی ۔ کہتے تھے حضرت علی جب خلیفہ بنے اورانہوں نے پہلا خطبہ دیا تو اس میں کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ گھرانوں میں زرکا ارتکاز ہورہا ہے ۔ میں یہ ساری دولت ان سے چھین کرامتِ مرحومہ کے افراد میں تقسیم کر دوں گا یہ نہ سمجھنا کہ ابو طالب کے بیٹے نے کوئی زمانے سے نرالا جرم کیا ہے بلکہ یہ سمجھنا کہ اس نے تمہیں دوزخ کی پستیوں سے اٹھایا ہے ۔ شجرہ اخرب کی آٹھویں بحرآہتم ہے اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیلن، مفعول ، فعول ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی نے زلفِ سیاہ کے موضوع پررباعی کہی ہے اور زلف سیاہ کا مفہوم بدل دیا ہے ۔ ظلمت کے پگھلنے کی صورت ہی نہیں ہے اس رات کے ڈھلنے کی صورت ہی نہیں ہے اشفاق قیامت ہے وہ زلف سیاہ اب دن کے نکلنے کی صورت ہی نہیں ہے اشفاق بھائی نے اس رباعی میں زلفِ سیاہ کو انسانیت کی مظلومیت سے بھری ہوئی صدیوں میں رکھنے والے ظالم میں بدل دیا ہے یعنی اس نظام زرکو زلفِ سیاہ سے تشبیہ دی ہے۔ سرمایہ دارنہ نظام سے انہیں بہت نفرت تھی ۔بہت پرانی بات ہے شاید ان دنوں میں کالج میں پڑھتاتھا میں نے ایک نعتیہ نظم کہی تھی ۔ ’’یہ دورنگی ہے کربِ جاں مولا ‘‘ اس میں چار پانچ بند تھے جن میں رسول اللہ کے عمل اور عہد موجود میں مسلمانوں کے عمل میںجو تفاوت ہے اس کا اظہارتھا کہ تم نے چکی جہیز میں دی تھی عہد میرا فلور مل مانگے تم نے برتن دئیے تھے پانی کے یہ فرج اور زرکی سل مانگے مگر نظم کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچتی تھی ۔اشفاق بھائی نے نظم سن کر فوراً اس میں آخری بند کا اضافہ کردیا اور وہ نظم اسی آخری بند کی وجہ سے نظم قرار دی جاسکتی ہے ۔ وہ آخری بندیہ تھا : تم مساوات کے پیمبر ہو تم تفاوت مٹانے آئے ہو اور تقسیم رزق کا مولا ایک دلکش نظام لائے ہو واعظوں کا مگر لبِ اظہار ساری تعلیم مسخ کرتا ہے روز وشب یہ فرازِ منبر ہے حق میں باطل کا رنگ بھرتا ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام کو تقسیم رزق کا بہترین نظام سمجھتے تھے اوروہ نظام ان کے نزدیک مساوات محمدی تھا کہ جنہوں نے زندگی پر موت کو سرفراز فرماتے ہوئے ،یہ یادگار الفاظ کہے تھے کہ’’ اے خدا تو گواہ رہ کہ محمد جب تم سے ملنے آیا تو اس کے گھر میں درہم و دینار نہیں تھے‘‘ ان کے خیال کے مطابق تقسیم رزق ہی خوبصورت زندگی کی بنیاد ہے اور یہی مقصود حقیقی بھی ہے اور یہی انسانی سرشت بھی کہ بیشتر اعمال کے پس منظر میں رزق کا فلسفہ دھڑک رہا ہوتا ہے۔ اشفاق بھائی کی اس موضوع پر ایک رباعی ہے : ہر ایک گھڑی کن کی روانی کیا ہے یہ آدمی کی نقل مکانی کیا ہے اشفاق فقط رزق کا ہے یہ قصہ تہذیب و تمدن کی کہانی کیا ہے شاید اسی طرح کی کوئی بات بیدل نے بھی کہیں کی ہوئی ہے ۔فارسی زبان سے زیادہ شدبدنہ ہونے کی وجہ سے فارسی کے شعر مجھے بہت بھول جاتے ہیں ،جب تک اشفاق بھائی کے ساتھ ہوتا تھا فارسی شعر کے زبردستی یاد رکھنے پڑتے تھے ۔ان کا یہ خیال تھا کہ اگر میں نے شاعر بننا ہے تو مجھے فارسی زبان سیکھنی ہوگی۔ فارسی کے ہزاروں شعر یاد کرنے ہونگے مگر ایک حد سے زیادہ فارسی سے میرا تعلق شاید میری قسمت میںنہ تھا ۔ شجرہ اخرب کی نویں بحر مکفوف ابتر ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیل ، مفاعیلن ، فع﴾اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجود ہے ۔ کیا ذات کے بازار میں ہم رہتے ہیں یوں لگتا ہے دیوار میں ہم رہتے ہیں معلوم نہیں ہوتا ہے صدیوں ہم کو تہذیب کی کس غاز میں ہم رہتے ہیں اس رباعی میں روح کی جس بے کراں تنہائی اور جس تعجب خیز بے بیگانی کا اظہار فرد سے ہوتا ہوا پورے معاشرہ پر محیط ہوتا ہے ،اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے جو صوفیائے کرام لیتے ہیں۔ خود اشفاق بھائی نے بھی کئی جگہ پر تنہائی کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے مگر اس رباعی میں یہ صدیوں کی تنہائی ،یہ قرنوں کی خاموشی اور یہ تعجب بھری بیگانگی مثبت نہیںمنفی ہے اور اپنے متعلق اشفاق بھائی یہ کہہ رہے ہیں کہ معلوم نہیں صدیوں سے ہم تہذیب کی کس غار میں رہتے ہیں۔ یہ اپنے تہذیبی زوال پر نوحہ خواں ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تہذیبی زوال کس کا ہے۔ پاکستانی تہذیب کا یا اسلامی تہذیب کا ۔اس سلسلے اشفاق بھائی کا نقطہ ٔ نظر بہت واضح ہے ۔وہ ایک شعر میں کہہ چکے ہیں۔ کچھ کہو حسن ترتیب میں کیا ہوا یہ محمد (ص) کی تہذیب میں کیا ہو اسلامی تہذیب کے عروج و زوال کی داستان بہت طویل ہے ۔میں اس سلسلے میں یہاں اشفاق بھائی کی ایک اور رباعی کو ڈکرتاہوں حالانکہ بظاہر اس رباعی کا اس موضوع سے کوئی واسطہ نہیں لیکن میرے خیال میں اشفاق بھائی کے نزدیک اسلامی تہذیب کے زوال کا سبب وہی ہے : اسلام وہی اور رسالت ہے وہی جو ایک ہو دنیا میں حکومت ہے وہی اشفاق مدینہ ہے وفاقی مرکز اس امتِ مسلم کی ضرورت ہے وہی شجرہ اخرب کی دسویں بحر مکفوف زلل ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں﴿ مفعول، مفاعیل ، مفاعیلن، فاع﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی وسعتِ ظرف کے حوالے سے ہے ۔اس بارے میں پہلے تفصیل سے لکھ چکا ہوں اعجاز طلب کس میں ہے طالب ہے کون عرفان کسے چاہئے کا ذب ہے کون میں دیکھتا ہوں ظرف کی وسعت اشفاق میں سوچتاہوں میرا مخاطب ہے کون شجرہ اخرب کی گیارہویں بحرمکفوف مجبوب ہے اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیل ، فعل ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجود ہے : اپنے دل ناکام سے کیا بات کریں غم ہائے سیہ فام سے کیا بات کریں اشفاق یہ خاموش ہے اپنے دکھ سے اسی درد بھری شام سے کیا بات کریں شام کا درد اور دلِ ناکام کا درد جب ایک ہوجاتا ہے تو خاموشی ہی گفتگو بن جاتی ہے۔ اشفاق بھائی نے اپنی اس درد بھری رباعی میں شام کے سکوت پر باطنی خود کلامی کا بوجھ محسوس کرتے ہوئے چپ رہنے کا جو فیصلہ کیا ہے کیایہ وہی فیصلہ نہیں لگتا جس کے تحت انہوں نے اپنا قطعۂ تاریخ وفات کہہ دیا تھا ۔ شجرہ اخرب کی آخری یعنی بارہویں بحر مکفوف اہتم ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیل ، مفاعیل ، فعول ﴾ اس بحر میںاشفاق بھائی نے وحدت الوجود کے موضوع پر بہت سی رباعیات کہی ہیں: تخلیق و عدم ، لو ح و قلم صرف خیال ہر سمت جہاں میں ہے بہم صرف خیال محسوس کرو خود کونہ اشفاق جہاں میں موجود کوئی اور ہے ہم صرف خیال کثرت میں وحدت کا جوجلوہ اس رباعی میں دکھائی دے رہا ہے وہ ہر آنکھ کی قسمت میں نہیں ہوسکتا ۔لوح جہاں پر ازل سے ابد تک جو کچھ ہونا ہے وہ لکھا ہواہے اور قلم جس نے لکھا ہے وہ صرف خیال ہے تخلیق جو کن کے عمل سے جاری ہوئی اور عدم جو نہیں بھی ہے اور ہے بھی ، صرف خیال ہے جہاں میںجوشے بھی بہم ہے۔ وہ صرف خیال ہے اور موجود صرف خد اکی ذات ہے۔ اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ یہ سب کس کا خیال ہے تو یقینا یہی کہا جائے گاکہ اللہ کا خیال ہے مگر یہاں یہ نکتہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کا خیال ہوسکتا ہے تو پھر اللہ کا قلم بھی ہوسکتا ہے ۔ پھر اللہ کی لوح بھی ہوسکتی ہے یعنی یہاں خیال کا مطلب اللہ کا خیال نہیں بلکہ صرف یہ وہم ہے، عکس ہے ،ہیولا ہے یعنی موجودگی نہیں ہے ۔ اور اب رباعی کا دوسرا شجرہ یعنی شجرہ اخرم اس شجرے کا پہلا رکن مفعولن ہے اس میں بھی بارہ بحریں ہیں اور یہ تمام بھی رباعیات اشفاق میں ملتی ہیں۔ شجرہ اخرم کی پہلی بحرکانام اشترابتر ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن، فاعلن، مفاعیلن ، فع﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے اس دل سے تو جدا نہیں لگتی وہ خوابوں سے بھی خفا نہیں لگتی وہ اس کی کوئی ہوسکتی ہے مجبوری مجھ کو توبے وفا نہیں لگتی وہ بظاہر تو یہ ایک عام سی اور عامیانہ سی رباعی ہے مگر غور کیا جائے تو اس میں ایک نزاکت ایسی موجود ہے جو پہلی بار پڑھنے پر ہاتھ نہیں آتی ۔ اور اسی چیز کو شاعری کہتے ہیں کہ کسی بات کی سطح کو اس طرح بلند کرنا کہ وہ عام سی بات بھی رہے اور اس میں گہرائی بھی آجائے۔ مجھے یا د آتا ہے کہ بات کو شاعری میں کیسے بدل دیا جاتا ہے، اس پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا تھا کہ دیکھو اگر تمہارے ذہن میں صرف اتنی سی بات ہے کہ انہیں بھول جانا بھی مشکل ہے اور یہ بھی نہیں لگتا کہ کبھی ہم بھی انہیں یاد آئیں گے تو اسے شعر میں ڈھالنے کے لیے اس بات پر غور کرو کہ اس میں ذومعنی بات کونسی ہوسکتی ہے اور کیسے ہوسکتی ہے مثال کے طور پر ﴿ ہم ان کو بھول جائیں ﴾ اب اس جملے میں دوطرح کی بات موجود ہے یہ پتہ چل رہا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم خود ہی ان کو بھول جائیں یا کہ ان کے ذہن سے ہم محو ہوجائیں ۔ اب اگر اس جملے کا استعمال اس طرح کیا جائے کہ اس سے دونوں مفہوم برآمد ہوں تو یہ شاعری ہوگی مثال کے طور پر کیسے بھلا ہے ممکن ہم ان کو بھول جائیں اشفاق بھائی نے اس چھوٹی سی بحر میں مجھے شاعری سمجھاتے ہوئے جو شعر کہا تھا غور کیا جائے تو اس میں ایک اچھے شعر کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ ہمیں بھول سکیں اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان کو بھول جائیں ۔ شجرہ اخرم کی دوسری بحر کانام اشترزلل ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن ، فاعلن ، مفاعیلن ، فاع﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے : عریاں عریاں سا جسم تہذیب طلسم طاقت ورکا ہے اسم تہذیب طلسم کتنی صدیوں گم رہتے ہیں ہوش و حواس ایسا ویسا طلسم تہذیب طلسم تہذیب کے طلسم کا احساس ہر شخص کو نہیں ہوسکتا ۔ہر دور میں کسی ایک تہذیب کا طلسم دنیا کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے اور اس طلسم کی گرفت صدیوں میں جاکر کمزور ہوتی ہے ۔ اس وقت دنیا مغربی تہذیب کی گرفت میں ہے ایک ایسی تہذیب ہے جس کا جسم برہنہ ہے اور اس کی طباشیری رنگت سے روشنی پھوٹتی ہے۔ میزائلوں کے میوزک پر اس کے رقص کرتے ہوئے پائوں نئی تاریخ لکھ رہے ہیں ۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے اس کے خلائی شٹل ایک نئے جغرافیے کی تلاش میں ہیں ۔ یہ طاقت وروں کی تہذیب ہے اور ہر دور میں طاقت کی تہذیب ہی طلسم ہوا کرتی ہے ۔۔ دیکھتے ہیں اور کتنی دیر ہے یہ تہذیب ۔ شجرہ اخرم کی تیسری بحرکانام مکفوف مجبوب ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن ، فاعلن ، مفاعیل فعل ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے : دل پہ دیمک سا تبصرہ کون کرے اپنے دکھ کا مقابلہ کون کرے مجھ کو قسطوں میں زندگی بخش نہیں دھیرے دھیرے معاملہ کون کرے اس رباعی میں قسطوں میں زندگی کی بات سے مجھے بیدل حیدر ی کی ایک نظم یاد آگئی ہے۔ وہ کہتے ہیں : آج کے اس سماج میں بیدل یعنی ظلمت کے راج میں بیدل میرے جیسے مڈل کلاس کے لوگ دورکے لوگ ، آس پاس کے لوگ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے کبھی کاغذ کبھی خطوں کے لیے اور کبھی سِگرٹوں کے لیے کبھی دوگھونٹ چائے کی خاطر کبھی بس کے کرائے کی خاطر خون میں انگلیاں ڈبوتے ہیں روز قسطوں میں قتل ہوتے ہیں بیدل حیدری کی یہ جذباتی نظم زندگی کی تلخیوں کا احاطہ کرتی ہے مگر اشفاق بھائی کی رباعی میں توکوئی اور دھیرے دھیرے ہونے والا معاملہ دکھائی دیتاہے یہ اوربات ہے کہ اس معاملہ کو مجاز سے حقیقت تک پھیلایا جاسکتا ہے ۔ شجرہ اخرم کی چوتھی بحرکانام مکفوف اہتم ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں﴿ مفعولن، فاعلن، مفاعیل ، فعول ﴾ اس میں اشفاق بھائی کی نعتیہ رباعی نہ صرف ان کے فنکارانہ کمال کی عکاس ہے بلکہ نعتیہ شاعری میں بھی اس رباعی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا : ناقہ ! تیرے غبار پہ لاکھوں سلام صحرا تیری بہار پہ لاکھوں سلام ریتوں سے اٹھ رہی ہے وہ صبح شعور صدیوں کے غم گسار پہ لاکھوں سلام اس کی فنی خوبصورتی تویہ ہے کہ اس میںچاروں مصرعوں میں مفعولن فاعلن مفاعیلن فعول بھی باندھا ہوا اور مفاعیل فعول بھی ۔۔ لیکن اس رباعی کی شاعرانہ حیثیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اردو دنیا ئے نعت میں اعلیٰ حضر ت احمد رضا خان بریلوی کی جمیل و جلیل نعت ’’ مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام ‘‘ سے زیادہ مقبولیت کسی نعت کو حاصل نہیں ہوئی ۔اس کے سامنے رکھتے ہوئے جب آدمی اس رباعی کو پڑھتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اشفاق بھائی کادل بھی محبت رسول کی کمیں گاہ تھا۔ شجرہ اخرم کی پانچویں بحر کانام اخرب ابتر ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں﴿ مفعولن، مفعول مفاعیلن ،فع﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے : راتوں میں تاروں کی چمک کب سے ہے سورج میں گرمی کی لپک کب سے ہے ہے غم کی تاریخِ پیدائش کیا گردش میں بے رحم فلک کب سے ہے غم کی تاریخِ پیدائش کیا ہے ۔اس سوال کاجواب اشفاق بھائی ہی دے سکتے تھے کہ غم کا آغاز بے رحم فلک کی گردش کے ساتھ ہوا۔ شجرہ اخرم کی چھٹی بحر کا نام اخرب زلل ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن ، مفعولن مفاعیلن فاع﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے ۔ میں کیسا ہوں جسم کا مایا ہے کیسا کیسی ہے یہ روح یہ سایہ ہے کیسا مٹی ، پانی اور ہوا سے اشفاق کوزہ گر نے نقش بنایا ہے کیسا اس رباعی سے مجھے اس کی ایک بات یاد آتی ہے۔ انہیں پیٹنگ میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔صادقین کی کوئی پیٹنگ دیکھ رہے تھے ۔کہنے لگے دیکھ صادقین صاحب نے مٹی پانی اور ہوا کو کس طرح تجسیم کیا ہے ۔ شاید روح کی شکل بنانے کی کوشش کی ہے ۔پینٹنگ کے حوالے مغرب سے قطعاً متاثر نہیں تھے ۔ جب نظم کی وساطت سے مونالیز ا کی پیٹنگ کا ذکر ہوا تو کہنے لگے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تصویر بہت خوبصورت ہے مگر وہ ورلڈ کلاس کی چیز نہیں۔ اگر کسی مشرقی یا ایشائی مصوروں کی بنائی ہوتی توشاید کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ اس حوالے سے وہ استاد اللہ بخش کے کام کے بہت معترف تھے اور انہیں دنیا کے چند بڑے مصوروں میں شمار کرتے تھے ۔ مونالیزا کے حوالے سے ان کے ساتھ بڑی لمبی گفتگو ہوئی تھی مگر اس سے پہلے میری وہ نظم جس کی وجہ سے مونالیزازیر بحث آئی ہے: آج ہی کی بات ہے یہ دس بجے کا وقت تھا اور میں بالکل اکیلا تھا ڈرائنگ روم میں ایک فوٹو پر اچانک پڑگئی میری نظر فکر کی آوارگی پر راستے کھلتے گئے ذہن ماضی کی گپھائوں میں ہوا تحلیل یوں اک تھکے سورج کی کرنیں استراحت کے لیے رات کے بستر پہ جیسے جسم اپنا پھینک دیں اور میں بہتا گیا پھر ماضی ٔ مرحوم میں چار بھیڑیں ، ایک بکری ، ایک گائے ، ایک بھینس ان کی رکھوالی کو چوراہی کی آشفتہ نگاہ سندھ کے ساحل کی مر مر ساز ریشم ریت میں بن رہی تھی ہر قدم پر نور کا اک دائرہ اور دائیں ہاتھ میں شیشم کی کومل شاخ تھی گم تھے سرگم لاکھ اس کے چہر ہ معصوم میں میری خواہش تھی کہ اس تصویر کو اب چوم لوں میں بڑھا آگے بڑے دلبر نما انداز میں پھر مگر میرے قدم پتھرا گئے یہ دیکھ کر آگئی ہے کوئی چرواہی ڈرائنگ روم میں اشفاق بھائی کا یہ خیال تھا کہ مونالیزا کی اس تصویر پر نظم کہنے کا مفہوم یہ ہوا کہ اس تصویر کے بارے میں مغرب کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈا کا ہم لوگ بھی شکار ہوگئے ۔ یہ تصویر کسی طرح بھی اتنی بڑی تصویر نہیں جتنا اسے ثابت کیا جارہا ہے ۔ کہاں سے بات کہاں آنکلی ہے ۔میرا خیال ہے رباعیات کی طرف واپس جانا چاہئے ۔ شجرہ اخرم کی ساتویں بحر کانام اخرب مکفوف مجبوب ہے اور ا سکے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن، مفعول ، مفاعیل ، فعل ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی کر بلا کے حوالے سے ہے : تیروں کی تحریر تجھے یاد نہیں پانی کی تصویر تجھے یاد نہیں بادل کے قالین پہ سونے والے کربل میں شبیر تجھے یاد نہیں شجرہ اخرم کی آٹھویں بحر کانام اخرب مکفوف اہتم ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن، مفعول مفاعیل ، فعول ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی شاید ان دنوں کی ہے جب وہ لاہور ہوتے تھے : فریادی کا شوخیٔ تحریر سے پوچھ اور خالق کا پیکرِ تصویر سے پوچھ مولائے لاہور ہے اب کون فقیر ہجویری سے پوچھ میاں میرے پوچھ اس رباعی کے پہلے دنوں مصرعے دیوانِ غالب کے پہلے شعر سے نکالے گئے ہیں ۔ کیوں ؟ میرا ذہن اس کا کوئی جواب نہیں دے سکا۔میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بھی کوئی بات ضرور ہے ۔ ورنہ اشفاق بھائی کے لیے دو مصرعے کہنا کوئی بات ہی نہیں تھی ۔پھر رباعی کا موضوع اس کا بھی غالب سے کوئی تعلق نہیں بنتا کیونکہ رباعی تو اس موضوع پر ہے کہ اس وقت مولائے لاہور یعنی لاہور میں اس زمانے کی سب سے بڑی روحانی شخصیت کونسی ہے ۔ لگتا ہے اس رباعی میں وہ کسی کو کسی سوال کا جواب دے رہے ہیں ۔ یقینا ان سے کسی نے پوچھا ہے کہ مولائے لاہور ہے اب کون فقیر ۔ تب ہی تووہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بتانامیرا کام نہیں تو داتا گنج بخش سے پوچھ یا میاں میر سے سوال کر ۔ یہاں ایک اور سوال یہ ابھرتا ہے کہ کچھ لوگ اشفاق بھائی کے بارے میں یہ سمجھتے تھے کہ ان سے اگر یہ سوال کیا جائے تو وہ اس کا جواب دینے کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی روحانی طور پر اتنے بلند ہیں ۔ شجرہ اخرم کی ناویں بحر کانام ابتر ہے اور ا سکے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن ، مفعولن مفعولن ، فع ﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے : جگ ہیرہ منڈی ہے آہستہ چل دنیا اک رنڈی ہے آہستہ چل پستی میں گرنے کا خطرہ بھی ہے کچی پگڈنڈی ہے آہستہ چل اس رباعی میں دنیا کے بارے میں وہی بات کی ہے جو پہلے بھی ایک رباعی میں کر چکے ہیں مگراس میں دنیا کے خلاف بات کرتے ہوئے ان کا لہجہ اور زیادہ جارحانہ لیا ہے ۔ یہ دراصل تقویٰ کی منزل ہے حضرت عمر فاروق نے کہا تھا دنیا کانٹوں بھر ا،ایک راستہ ہے اور اس ے دامن بچا کر چلنا تقویٰ ہے ۔شجرہ اخرم کی دسویں بحر کا نام زلل ہے اوراس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن ، مفعولن ، مفعولن ، فاع﴾ اس میں اشفاق کی رباعی ان کے مزاج سے مختلف ہے بلکہ رباعی کے مزاج ہی سے لگا نہیں کھاتی مگر رباعی کے مروجہ قوانین کے مطابق ہے۔ شاید انہوں نے یہ رباعی اس لئے کہی ہے کہ رباعی یوں بھی کہی جاسکتی ہے : آنکھوں میں نیندیں تھیں نیندوں میں خواب خوابوں میں یادیں تھیں یادوں میں خواب ٹوٹے پھوٹے کرچی کرچی پر آب شیشے کے ٹکڑے تھے ٹکڑوں میں خواب شجرہ ازم کی گیارہوں بحر کانام اخرب مجبوب ہے اوراس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن، مفعولن مفعولن ، فعل ﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے : پنجرے میں توتا تھا کچھ یاد نہیں شہزادہ روتا تھا کچھ یاد نہیں اک دوجے میں ہوتی تھی جان مگر پہلے کیا ہوتا تھا کچھ یاد نہیں اردو زبان میں الف لیلوی کہانیوں کو بنیاد بنا کر تو شاعری کی گئی مگر اپنی لوک داستانوں کے پس منظر میں کچھ نہیں کہا گیا ۔اس رباعی میں لوگ کہانیوں کی ایک خاص بات کہ فلاں کی جان فلاں تو تے میں تھی یا فلاں مینا میں تھی کو اشفاق بھائی نے علامتی سطح پر لیا ہے کہ یہ بات ان کی آپس میں محبت کو ظاہر کرتی ہے یہ ہمارے زمانے میں ختم ہوچکی ہے ۔ شجرہ اخرم کی بارہویں بحرکانام اخرب اہتم ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿مفعولن ، مفعولن مفعولن ، فعول﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے مکھن کی چاٹی کو دیوار نہ جان اس زرزن گھاٹی کو دیوارنہ جان اس من کی لاہوتی آغوش میں ڈوب اس تن کی ماٹی کو دیوار نہ جان یہ رباعی یہ پیغام دے رہی ہے کہ فنافی الذات ہونے میں جسم یا دنیا کوئی رکاوٹ نہیں ہے دنیا میں رہتے ہوئے دنیا داری کرتے ہوئے بھی آپ اللہ کی ذات میں اپنی ذات کو گم کر سکتے ہیں اور یہی اسلام کا صحیح فلسفہ ہے ۔وہ کہتے تھے کہ منصو رحلاج بھی یہی کہتے ہیں مگر ان کی فکر کو کچھ مورخین نے صحیح پیش نہیں کیا کیونکہ اس دور کے زیادہ مورخین بادشاہوں کے درباروں سے منسلک رہے ہیں ۔اشفاق بھائی نے منصور حلاج کے متعلق جو کچھ مجھے بتایا وہ بالکل اس سے مختلف جو اکثر سنتے ہیں ۔میں نے انہی سے سنی ہوئی معلومات کو بنیاد بنا کر منصور حلاج کے بارے میں لکھا تھا ۔ ’’بغداد میں صدیوں پہلے میرے ایک ہم نام شاعر کو سولی چڑھایا گیا تھا مگر تاریخ آج تک اس منصور کی لاش پر بین کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ میںنجانے کتنے منصوروں کی لاشیں بغداد کی گلیوںسے اٹھائی گئی ہیں ۔ پتہ نہیں تاریخ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی ۔ منصور حلاج کے بارے میں بے شمار کتابوں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کی صوفیانہ سرمستی حدِ نبوت اور مقام ربوبیت کو چھونے کی مرتکب ہوئی مگر وقت نے ان الزامات کو تسلیم نہیں کیا اور آنے والے ادوار میں حق کیلئے قربان ہونے والوں میں سقراط ، عیسیٰ اور حسین کے بعد منصور کا نام لیا جانے لگا۔ ممکن ہے کہ اکیسویں صد ی کا بغداد تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ اور نام بھی دے جائے۔ بش سے بلیئر تک اور اسامہ سے صدام تک ناموں کی کوئی کمی نہیں بقول اشفاق بھائی: تاریخ کو ہے پھر کسی منصور کی تلاش پھر دار ڈھونڈتی ہے کوئی اور زندگی اشفاق بھائی کی تحقیق کے مطابق وہ ایک مزدور باپ کا بیٹاتھا جب اس نے تمام علوم و فنون خاص طور پر قرآن ، حدیث ، فقہ اور تصوف پر مکمل دسترس حاصل کر لی توشاہی دربار میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی بجائے استحصال زدہ غریب مسلمانوں کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا ۔ کر نبائی قبیلے کے غلاموں کی قیادت سنبھال لی ۔ غلاموں کے مظاہرے فوجی قوت کے ساتھ کچل دئیے گئے ۔منصور کو گرفتار کر لیا گیا اور ہزاروں افراد بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کر دئیے گئے۔ منصور کی اس پہلی بغاوت کے ہولناک انجام نے منصور کے حوصلوں اور ارادوں کو اور زیادہ مضبوط کیا ۔ حکومتی اہلکاروں کی تبدیلی کے ساتھ منصور کو رہائی ملی اور وہ حج کی نیت سے مکہ روانہ ہوگیا جہاں ایک سال تک روزہ ،خاموشی ، تنہائی اور عمرہ کا عمل جاری رکھا۔منصور کہا کرتاتھا میرا ناپسندیدہ فعل سونا، کھانا اور بولناہیں ’’ باطنی دنیا کے اس پہلے سفر میں منصور پر انسان ، کائنات خارجی اور خدا کے ارتباط کے کچھ نئے راز منکشف ہوئے ۔منصور جب مکہ سے واپس بغداد آیا تو اس نے بغداد کے نچلے طبقے کی پسماندہ آبادی میں قیام کیا اور عباسی حکمرانوں کے خلاف اپنی روحانی تحریک شروع کردی ۔ وہ شخصی بادشاہت کو نہیں مانتا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب پولیس نے حضرت جنید (رض) بغدادی کے آستانے کی بھی نگرانی شروع کی ہوئی تھی۔ بہت کم وقت میںعوام منصور کے اردگرد جمع ہوگئے مگر ریاستی اقتدار کے جبر کا شکار ہوکر اسے تقریباًپانچ سال جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی ۔ وہ پانچ سال کے بعد ’’ اہواز‘‘ میں اسوقت وارد ہوا،جب ریاستی اداروں کے نگران بدل چکے تھے لیکن بغداد آنے کے بجائے اس نے اپنے چارسوپیروکاروں سمیت مکہ جانے کا فیصلہ کیا ۔یہ منصور کا سب سے طویل سفر تھا ۔وہ وسطی ایشیا سے ہندوستان کی طرف آیا۔ دریائے سندھ کے کنارے پر چلتا ہوا ملتا ن پہنچااور پھر ملتا ن سے کشمیر تک آیا جہاں سے تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ شمال مشرق میں اس نے دیوارِ چین عبور کی اور ایک بڑا عرصہ چین میںقیام کیا ۔ اس دوران منصور نے جین مت، بدھ مت ، ہندوازم اور کنفیوشس کا مطالعہ کیا۔ وہاں سے مکہ آیا، تیسرا جج کیا ، کچھ باطنی فیصلے ہوئے اور منصور واپس بغداد آگیا۔ وہاں منصور کے خلاف مقدمے کی کاروائی شروع ہو گئی مگر قاضی ابن صریح کے فتویٰ کی وجہ سے وہ قتل ہونے سے بچ گیا مگر زیادہ عرصہ تک بغداد میں سکون سے نہ رہ سکا ۔ بادشاہتیں اسے اپنے اقتدار کے لیے ہمیشہ سے ایک خطرہ سمجھتی چلی آرہی تھیں۔حالات نے پلٹا کھایا اور منصور کو پھر روپوش ہونا پڑا تین سال کی روپوشی کے بعد حکومتی اہل کاروں نے اسے تلاش کرلیا۔ ا س کے بعد تقریباً نوسال تک منصور بغداد کی جیل میں رہا اس عرصہ میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ عوام نے بغادت کردی اور جیل پر قبضہ کرکے اس کے دروازے منصور پر کھول دئیے مگر منصور نے باہرنکلنے سے انکار کر دیا اور پھر حکمرانوں نے زیادہ انتظار نہیں کیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد منصور کو خانہ کعبہ کو تباہ وبرباد کرنے کی سازش میںملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت دے دی۔ جس ثبوت پر اسے سزا سنائی گئی وہ اس کی ایک تحریر تھی جس میںلکھا ہوا تھا کہ ’’ کعبہ اللہ دل کے کعبے میں ہے ،اس کے اردگرد انسان کوہروقت طواف کرناچاہئے ‘‘ منصور نے اپنے گھر میں خانہ کعبہ کی ایک تصویر بھی لگائی ہوئی تھی ، جس کے بارے میں کہا گیا کہ منصور نے اپنے گھر میں اپنا کعبہ بنایا ہوا ہے ۔ بقول اشفاق بھائی : تھا راکھ راکھ اس کو منانے کے جرم میں منصور دل کو کعبہ بنانے کے جرم میں اشفاق بھائی کے خیال میں منصور کی باتوں کی غلط تشریحیں کی گئیں۔ اس کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا کہ وہ کہتا ہے ’’ میرے اندر دو روحیں ہیں۔ ایک میری اور ایک میرے خدا کی ‘‘ ۔ حالانکہ سچ یہ نہیں وہ اس بات کا علمبر دار تھا کہ ہر شخص کو اپنے اندر خدا کو محسوس کرنا چاہئے۔ اس لیے وہ کہتا تھا میں اپنے اندر اپنے خدا کو محسوس کرتا ہوں۔ میرے وجود میں میرا خدا موجود ہے۔ یہ وہی بات ہے جو حدیث میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ اس نے جب انا الحق کہا تو شور برپا ہوگیا کہ منصور نے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے حالانکہ حق کا مفہوم سچ ہے یعنی وہ کہتا تھا میں سچ ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ منصور سچ تھا ۔اسی لیے تو آج منصور کے لفظ کا مترادف ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کی کرامات دیکھ کر دشمن اسے جادو گرکہتے تھے لیکن چشم دیدگواہوں کا کہنا ہے کہ جب اس کا سرکاٹ دیا گیا تو اسکے جسم سے انا الحق کی آواز آتی تھی پھر جسم کے کئی ٹکڑے کئے گئے مگر ہر ٹکڑے سے وہی آواز سنائی دیتی تھی پھر تمام ٹکڑوں کو آگ لگا دی گئی اور منصور کی راکھ کو اس خوف سے دریا میں بہا دیا گیا کہ کہیں اس راکھ سے بھی انالحق کی آواز نہ آنے لگے ۔ میں نے اپنے ایک ماہر نفسیات دوست سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے، تو کہنے لگا اگر وہ کچھ دیر اور راکھ دریا میں نہ بہاتے توانہیں اس راکھ سے بھی اناالحق کی صدا سنائی دینے لگتی ۔دراصل وہ آواز انہیں منصور کے جسم کے ٹکڑوں سے نہیں آتی تھی۔ منصور کے مارنے والوں ، ماننے والوں دونوں کو اس کی سچائی پر اتنا یقین تھا کہ انہیں خود اپنے دماغوں سے وہ آواز سنائی دینے لگتی تھی ۔ بقول اشفاق بھائی سچائی پر یقین کی ہے دسترس وہی جو سوچتا ہے آدمی ہوتا ہے بس وہی صوفیوں میں بھی منصور کوزیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ اس نے صوفی ازم کے مروجہ قوانین سے بغاوت کی تھی جوانی ہی میں ’’ خرقہ‘‘ ﴿ صوفیوں کا لباس ﴾ اتار کر عام لوگوں کا لباس پہنا شروع کر دیا تھا۔ صوفی ہر شخص کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتے کہ وہ معرفت حاصل کر سکتا ہے ۔اس کے برعکس منصور چاہتا تھا کہ ہر شخص اللہ کی ذات میں جذب ہوکر اس مقام تک پہنچے جو انسان کی معراج ہے۔ اس کے خیال میں واقعہ ٔ معراج صرف اس لیے ہی نہیں ہے کہ اس سے حضور (ص) کی اس سنت پر عمل پیرا ہوکر قاب قوسین کے مقام تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ منصور نے جب اللہ کی وحدانیت میںگم ہوجانے کی بات کی تھی تو اس وقت صوفیانے کہا تھا کہ وہ روحانی اسرار سے پردے اٹھانے لگاتھا۔ اس لیے اسے ماردیا گیا مگر اس کے بعد محی الدین ابن عربی نے ہمہ اوست کے اسی فلسفے کو صوفی ازم کا اہم ترین حصہ بنادیا ۔ بقول اشفاق بھائی جس پہ منصور چڑھایا گیا سولی اشفاق ہم نے وہ راز ہمہ اوست میں تبدیل کیا اشفاق بھائی کا منصور حلاج کی شاعری بھی بہت پسند تھی ۔وہ اس کا اردو زبان میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے لیکن عمر نے وفانہ کی۔ منصور حلاج کا شعری مجموعہ ’’ دیوانِ منصور ‘‘ ہے سنا ہے۔ اب کسی نے اس کا ترجمہ کرد یا ہے ۔ منصور سے میری دوستی بچپن سے ہے۔ گھر والوں نے میرا نام ہی محمد منصور آفاق رکھا تھا ۔میں جب چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا تو میں نے امی سے پوچھا کہ آپ نے میرا نام منصور کیوں رکھا ہے تو امی نے مجھے منصور حلاج کی کہانی سنائی تھی۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ منصور حلاج کی جو کہانی میں نے آپ لوگوں کو سنائی ہے۔ اس کہانی میں اورامی کی کہانی میں بہت فرق تھا ۔اس منصور حلاج نے شہزادے کے مردہ طوطے کو زندہ کردیا تھا ۔ بادشاہ برسوں سے ایک بخار میں مبتلا تھا ،منصو رنے ایک دن کے علاج میں اس کے بخار کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا تھا ۔وہ منصور ایک لمحہ میں ہزاروں میل کا سفر طے کر لیتا تھا اور اس کو شش میں تھا کہ وقت کو روک دے۔ اچانک ایک دن اسے علم ہوا کہ وہ مرنے والا ہے تو اس نے اسی مجذوبانہ کیفیت میں شور مچانا شروع کر دیا تھا کہ لوگو! مجھے بچائو میرا خدا مجھے ماردینا چاہتا ہے۔ مگر جب اسے خبر ہوئی کہ موت قربِ خداوندی کی آخری انتہا ہے تو بادشاہ نے جو سولی اس کے لیے سجائی تھی وہ اس پر خوشی کے ساتھ چڑھ گیا وہ زندہ رہنا چاہتا تھا سوخدا نے اسے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے کتابوں سے لے کر دماغوں تک ہر جگہ اس کی روح موجود ہے ،وہ ہر سچے آدمی کے جسم میں دل کی طرح دھڑکتاہے۔ ۔ تم جب بڑے ہو جائو گے تو تمہیں بھی وہ اپنے دل کے قریب محسوس ہوگا ۔ ‘‘یہ وہ کہانی تھی جو منصور کے بارے میں میرے اور اشفاق بھائی کے درمیان ایک لکیر کی طرح تھی۔ میں کہتا تھا کہ امی کی کہانی میرے نزدیک سچی ہے کیونکہ کسی تاریخ پر اعتبار نہیں کرتا خود تاریخ کے بارے میں اشفاق بھائی کی ایک رباعی ہے : دنیا کو نیا نصاب دینا ہوگا ہر جھوٹ کا اب حساب دینا ہوگا کس نے ہے بھرا دروغ اتنا تجھ میں تاریخ! تجھے جواب دینا ہوگا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ تاریخ ایک سائنس ہے۔ صحیح تحقیق کرنے کہ بعد آدمی سچائی تک پہنچ سکتا ہے کہ تاریخ میں کونسی بات درست لکھی ہوئی ہے اور کونسی جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ منصور آفاق