زمرہ:ردیف پ

ویکی کتب سے

ردیف پ

دیوان ِمنصور آفاق

dewan mansoor afaq[ترمیم]



پ پکھیرو

mansoor afaq poetry



 

پہلی غزل



کچھ تلاش آپ ہی کئے ہیں سانپ
کچھ نصیبوں نے بھی دئیے ہیں سانپ

گفتگو زہر سے بھری ہی نہیں
سر پہ دستار بھی لئے ہیں سانپ

چھائوں کو ڈس رہے ہیں شاخوں سے
دھوپ کے سرخ زاویے ہیں سانپ

شام ہوتے ہی چاٹتے ہیں دل
بس وہ دوچار ثانیے ہیں سانپ

پھر کہا خواب سے سپیرے نے
اور اب کتنے چاہیے ہیں سانپ

بھر گیا زہرِغم سے اپنا دل
یعنی یادوں کے بھی دئیے ہیں سانپ




دیوان منصور آفاق  





ردیف پ



 

دوسری غزل



یہ جو پندار کے پڑے ہیں سانپ
یہ ابھی جسم سے جھڑے ہیں سانپ

کیاخزانہ تلاش کرتے ہو
اس کنویں میں بڑے بڑے ہیں سانپ

ہر قدم پر خدا کی بستی میں
یہ مسائل ہیں یا کھڑے ہیں سانپ

کم ہوئی کیا مٹھاس پانی کی
کتنے دریائوں کو لڑے ہیں سانپ

اب بھی ڈرتا ہے آدمی ان سے
وہ جو تاریخ میں گڑے ہیں سانپ

ایک فوسل کی شکل میں منصور
کچھ مزاروں پہ بھی جڑے ہیں سانپ




دیوان منصور آفاق  





ردیف پ



 

تیسری غزل



آستیں سے نکل پڑے ہیں سانپ
کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ

آتی راہیں تو اونی بھیڑیں ہیں
جاتے ہیں جو وہ راستے ہیں سانپ

ہم لکیروں کو پیٹنے والے
جا رہے ہیں جہاں گئے ہیں سانپ

آسماں سے پہن کے تیرا روپ
دیکھ قوسِ قزح گرے ہیں سانپ

میرے پہلو میں جو پنپتے ہیں
یہ ترے انتظار کے ہیں سانپ

چل رہے ہیں سنپولئے ہمراہ
ہم بھی محسوس ہورہے ہیں سانپ

شہر میں محترم نہیں ہم لوگ
صاحب ِعزو جاہ ہوئے ہیں سانپ

اپنے جیون کی شاخ ِجنت پر
موسم آیا تو کھل اٹھے ہیں سانپ

لالہ و گل کے روپ میں منصور
زندگی میں کئی ملے ہیں سانپ




دیوان منصور آفاق  





ردیف پ



 

چوتھی غزل



گزرا ہے مجھ میں ایک زمانہ بھی اپنے آپ
میں موت کی طرف ہوں روانہ بھی اپنے آپ

بے شکل صورتوں کاٹھکانہ بھی اپنے آپ
بننے لگا ہے آئینہ خانہ بھی اپنے آپ

جب دھوپ سے ہنسی ترے آنچل کی شوخ تار
روٹھا بھی اپنے آپ میں۔۔ مانابھی اپنے آپ

جاری ہے جس کے مرکزی کردار کی تلاش
لوگوں نے لکھ دیاوہ فسانہ بھی اپنے آپ

صرف ِ نظر بھی آپ کیا بزم میں مگر
اس دلنواز شخص نے جانابھی اپنے آپ

کتنا ابھی ابھی ترو تازہ تھا شاخ پر
یہ کیا کہ ہو گیا ہے پرانا بھی اپنے آپ

منصور کائنات کا ہم رقص کون ہے
یہ گھومنا بھی اور گھمانا بھی اپنے آپ




دیوان منصور آفاق  





ردیف پ



 

پانچویں غزل



غم کی طویل رات کا اک انتباہ دھوپ
صحنِ سفید پوش میں کالی سیاہ دھوپ

احمق ہے جانتی ہی نہیں میری برف کو
جم جائے آپ ہی نہ کہیں بادشاہ دھوپ

میں چل رہا ہوں تیری تمنا کے دشت میں
میرے رفیق آبلے ، میری گواہ دھوپ

پردے ابھی نہ کھینچ مری کھڑکیوں کے شام
مجھ سے بڑھا رہی ہے ذرا رسم و راہ دھوپ

برطانیہ کی برف میں کتنی یتیم ہے
صحرائے تھل میں جو تھی بڑی کجکلاہ دھوپ

جھلسا دیا دماغ بھی چہروں کے ساتھ ساتھ
مشرق کے المیے میں نہیں بے گناہ دھوپ

منصور اپنی چھت سے رہو ہمکلام بس
تنہائیوں کی شہر میں ہے بے پنا ہ دھوپ




دیوان منصور آفاق  





ردیف پ



 

چھٹی غزل



بادِ صبا کے ساتھ صدائے فلاح دھوپ
منصور شامِ غم میں بھی کارِ مباح دھوپ

آنسو رکے ہوئے ہیں کہیں بادلوں کے بیچ
پھیلی ہے چشمِ یاد کے گرد و نواح دھوپ

فتووں کے ابر سے کسی پردے میں جا چھپی
رکھی ہوئی تھی گھر میں جو اک بے نکاح دھوپ

اندھی شبوں میں حضرتِ اقبال آفتاب
برفاب موسموں میں جنابِ جناح دھوپ

ہم لمس ہوں تو شاید دریا بہے کوئی
تیرا مزاج برف ہے میرا مزاح دھوپ

ہوجائوں ساحلوں پہ برہنہ ، نہیں ، نہیں
کیسی یہ دے رہی ہے مسلسل صلاح دھوپ

دیوان منصور آفاق  

اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔