زمرہ:ردیف ن

ویکی کتب سے

ردیف ن

دیوان ِمنصور آفاق

dewan mansoor afaq[ترمیم]

mansoor afaq poetry



 

پہلی غزل



چل پڑے دار و رسن کو ہستے ہستے سینکڑوں
دل شکستے جاں الستے سبز مستے سینکڑوں

یہ پہنچ جاتے ہیں کیسے خاکِ طیبہ کے غلام
آسمانوں تک بیک براق جستے سینکڑوں

روک سکتی ہیں یہ کانٹے دار باڑیں کیا مجھے
چلنے والے کیلئے ہوتے ہیں رستے سینکڑوں

میرے صحرا تک پہنچ پائی نہ بدلی آنکھ کی
تیرے دریا پر رہے بادل برستے سینکڑوں

دل کی ویرانی میں اڑتا ہے فقط گرد و غبار
کیسے ممکن تھا یہاں بھی لوگ بستے سینکڑوں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

دوسری غزل



میں لگا دوں آئینے گلیوں میں کیسے سینکڑوں
عکس ابھریں گے وہاں ہر ایک شے سے سینکڑوں

کم نہیں دکھ تیرے جانے کا مگر جانِ بہار
زخم میرے دل میں پہلے بھی ہیں ایسے سینکڑوں

اس کی آنکھوں نے کسے لوٹا ہے اس کو کیا خبر
اس کو رستے میں ملیں گے میرے جیسے سینکڑوں

روح کی حیرت زدہ آواز آتی ہی نہیں
وائلن کے تار لرزاں مجھ میں ویسے سینکڑوں

اک اکیلا تشنہ لب ہوں میں کنویں کے آس پاس
پھرتے ہیں منصور بے خود تیری مے سے سینکڑوں




دیوان منصور آفاق  





ردیف الف



 

تیسری غزل





روشنی کے ، رنگ و بو کے آستانے سینکڑوں
میری جاں ترکِ تعلق کے بہانے سینکڑوں

اک ترے بالوں کی وہ دو چار میٹر لمبی لٹ
اک ترے شاداب جوبن کے فسانے سینکڑوں

صبح تازہ دودھ جیسی رات قہوے کی طرح
روٹی جیسے چاند پر گزرے زمانے سینکڑوں

چھین کے گل کر دئیے بامِ خیال و خواب سے
تیری یادوں کے دئیے پاگل ہوا نے سینکڑوں

صرف تیرے قرب کا پل دسترس سے دور ہے
زندگی میں آئے ہیں لمحے سہانے سینکڑوں



دیوان منصور آفاق  





ردیف الف



 

چوتھی غزل





میرے ساتھی میرے پیارے میرے اپنے سینکڑوں
مجھ میں پھر بھی دکھ کسی کے ہیں پنپنے سینکڑوں

اور کیا حاصل ہوا ہے روز وشب کی نیند سے
چند تعبیریں غلط سی اور سپنے سینکڑوں

یہ بھی میرا مسئلہ ہے لوگ اچھے کیوں نہیں
دکھ دئیے ہیںخواب پرودہ تڑپ نے سینکڑوں

گل کئے پھر اپنے آسودہ گھرندوں کے چراغ
دو ممالک کی کسی تازہ جھڑپ نے سینکڑوں

رات کے دل میں لکھیں نظمیں بیاضِ صبح پر
بھاپ اٹھتی چائے کے بس ایک کپ نے سینکڑوں



دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

پانچویں غزل



پل صراطِ آسماں پر چل رہے تھے سینکڑوں
ایک چہرے کے پس ِ منظر میں چہرے سینکڑوں

جمع ہیں نازل شدہ انوار کتنے شیلف میں
معجزے حاصل ہوئے لاحاصلی کے سینکڑوں

چاند پہ ٹھہرو ، کرو اپنے ستارے پر قیام
رات رہنے کیلئے سورج پہ خیمے سینکڑوں

صفر سے پہلا عدد معلوم ہونا ہے ابھی
ہیں ریاضی میں ابھی موجود ہندسے سینکڑوں

میں کہاں لاہور بھر میں ڈھونڈنے جائوں اسے
لال جیکٹ میں حسین ملبوس ہونگے سینکڑوں

شہر کی ویراں سڑک پر میں اکیلا رتجگا
سورہے ہیں اپنی شب گاہوں میں جوڑے سینکڑوں

مال و زر ، نام و نسب ، قاتل ادا ، دوشیزگی
میں بڑا بے نام سا ، تیرے حوالے سینکڑوں

کیوں بھٹکتی پھر رہی ہے میرے پتواروں کی چاپ
خامشی ! تیرے سمندر کے کنارے سینکڑوں

کوئی بھی آیا نہیں چل کر گلی کے موڑ تک
دیکھنے والوں نے کھولے ہیں دریچے سینکڑوں





دیوان منصور آفاق  

ردیف ن



 

چھٹی غزل



مرے نہیں تو کسی کے ملال گھٹ جائیں
کہیں تو بلب جلے اور اندھیرے چھٹ جائیں

تمہارے ظرف سے ساتھی گلہ نہیں کوئی
پہاڑ مجھ سے محبت کریں تو پھٹ جائیں

ترے بدن پر لکھوں نظم کوئی شیلے کی
یہ زندگی کے مسائل اگر نمٹ جائیں

میں رہ گیا تھا سٹیشن پہ ہاتھ ملتے ہوئے
مگر یہ کیسے کہانی سے دو منٹ جائیں

اے ٹینک بان یہ گولان کی پہاڑی ہے
یہاں سے گزریں تو دریا سمٹ سمٹ جائیں

زمینیں روندتا جاتا ہے لفظ کا لشکر
نئے زمانے مری گرد سے نہ اٹ جائیں

چرا لوں آنکھ سے نیندیں مگر یہ خطرہ ہے
کہ میرے خواب مرے سامنے نہ ڈٹ جائیں

گھروں سے لوگ نکل آئیں چیر کے دامن
جو اہل شہر کی آپس میں آنکھیں بٹ جائیں

اب اس کے بعد دھانہ ہے بس جہنم کا
جنہیں عزیز ہے جاں صاحبو پلٹ جائیں

ہزار زلزلے تجھ میں سہی مگر اے دل
یہ کوہسار ہیں کیسے جگہ سے ہٹ جائیں

مرا تو مشورہ اتنا ہے صاحبان ِ قلم
قصیدہ لکھنے سے بہتر ہے ہاتھ کٹ جائیں

وہ اپنی زلف سنبھالے تو اس طرف منصور
کھلی کتاب کے صفحے الٹ الٹ جائیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

ساتویں غزل



مسلسل چاک کے محور پہ میں ہوں
مسلسل کُن تری ٹھوکر پہ میں ہوں

تُو مجھ کو دیکھ یا صرف ِ نظر کر
مثالِ گل ترے کالر پہ میں ہوں

سبھی کردار واپس جا چکے ہیں
اکیلا وقت کے تھیٹر پہ میں ہوں

صلائے عام ہے تنہائیوں کو
محبت کیلئے منظر پہ میں ہوں

پھر اس کے بعد لمبا راستہ ہے
ابھی تو شام تک دفتر پہ میں ہوں

اٹھو بیڈ سے چلو گاڑی نکالو
فقط دو سو کلو میٹر پہ میں ہوں

مجھے بھی رنگ کر لینا کسی دن
ابھی کچھ دن اسی نمبر پہ میں ہوں

بجا تو دی ہے بیل میں نے مگراب
کہوں کیسے کہ تیرے در پہ میں ہوں

ازل سے تیز رو بچے کے پیچھے
کسی چابی بھری موٹر پہ میں ہوں

پڑا تمثیل سے باہر ہوں لیکن
کسی کردار کی ٹھوکر پہ میں ہوں

کہے مجھ سے شبِ شہر نگاراں
ابھی تک کس لئے بستر پہ میں ہوں

یہی ہر دور میں سوچا ہے میں نے
زمیں کے آخری پتھر پہ میں ہوں

ہلا منصور مت اپنی جگہ سے
پہاڑ ایسا خود اپنے سر پہ میں ہوں



دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

آٹھویں غزل



ڈال دی اس نے محبت کی نئی سم مجھ میں
ایک ہی رابطہ رہنے لگا قائم مجھ میں

اس کی آنکھوں سے مجھے ہوتا ہے کیا کیا معلوم
کون کرتا ہے یہ جذبوں کے تراجم مجھ میں

روح تک جکڑی ہوئی ہے میری زنجیروں میں
کم نہیں ایک تعلق کے مظالم مجھ میں

گھونٹ دیتا ہے گلہ روز مرے خوابوں کا
کوئی رہتا ہے خطرناک سا مجرم مجھ میں

بخش کے مجھ کو تہی دامنی دنیا بھر کی
رکھ دیا درد بھرا سینہ ٗء حاتم مجھ میں

چھو کے دیکھوں تو مرے ہاتھ پہ رہ جاتی ہیں
اس قدر خواہشیں ہیں نرم و ملائم مجھ میں

جانے کب آتا ہے ہونٹوں پہ کرامت بن کر
کروٹیں لیتا ہے اک نغمہ ئ خاتم مجھ میں

اس کے آنسو مری بخشش کیلئے کافی ہیں
وہ جو بہتا ہے کوئی چشمہ ء نادم مجھ میں

میں نے چپکائی ہے کاغذ پہ سنہری تتلی
اب بھی پوشیدہ ہے شاید کوئی ظالم مجھ میں

کتنی قبروں پہ کروں فاتحہ خوانی منصور
مر گئے پھر مرے کچھ اور مراسم مجھ میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

ناویں غزل



جمع ہو جاتے ہیں سورج کا جہاں سنتے ہیں
برف کے لوگ کوئی بات کہاں سنتے ہیں

ایک آسیب ہے اس شخص کی رعنائی بھی
خوشبوئیں بولتی ہیں رنگ وہاں سنتے ہیں

ایک ویرانہ ہے ، قبریں ہیں ، خموشی ہے مگر
دل یہ کہتا ہے کہ کچھ لوگ یہاں سنتے ہیں

زندگی ان کی شہیدوں کی طرح ہے شاید
آنکھ رکھتے ہیں شجر ، بات بھی ، ہاں ! سنتے ہیں

تخت گرتے ہیں تو یاد آتی ہے اپنی ورنہ
ہم فقیروں کی کہاں شاہ جہاں سنتے ہیں

بیٹھ کر ہم بھی ذرا ذاتِ حرا میں منصور
وہ جو آواز ہے سینے میں نہاں ، سنتے ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

دسویں غزل



رات کا شور ، اندھیروں کی زباں سنتے ہیں
نورکے گیت کہاں تیرہ شباں سنتے ہیں

ایک سقراط نے زنجیر بپا آنا ہے
دوستو آئو عدالت میں بیاں سنتے ہیں

کیوں پلٹتی ہی نہیں کوئی صدا کوئی پکار
یہ تو طے تھا کہ مرے چارہ گراں سنتے ہیں

اب بدلنی ہے شب و روز کی تقویم کہ لوگ
شام کے وقت سویرے کی اذاں سنتے ہیں

ایسے منفی تو لب ودیدہ نہیں ہیں اس کے
کچھ زیادہ ہی مرے وہم گماں سنتے ہیں

بات کرتی ہے ہوا مری نگہ سے منصور
اور رک رک کے مجھے آبِ رواں سنتے ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

گیارہویں غزل



کسی کے جسم سے مل کر کبھی بہے نہ کہیں
تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں

عجیب رابطہ اپنے وجود رکھتے تھے
نکل کے تجھ سے تو خود میں بھی ہم رہے نہ کہیں

اسے تو پردے کے پیچھے بھی خوف ہے کہ مری
نظر نقاب پہ چہرہ لکیر لے نہ کہیں

بس اس خیال سے منزل پہن لی پائوں نے
ہمارے غم میں زمانہ سفر کرے نہ کہیں

تمام عمر نہ دیکھا بری نظر سے اسے
یہ سوچتے ہوئے دنیا برا کہے نہ کہیں

اے آسمان! ذرا دیکھنا کہ دوزخ میں
گرے پڑے ہوں زمیں کے مراسلے نہ کہیں

ڈرا دیا کسی خودکُش خیال نے اتنا
ٹکٹ خرید رکھے تھے مگر گئے نہ کہیں

کئی دنوں سے اداسی ہے اپنے پہلو میں
ہمارے بیچ چلے آئیں دوسرے نہ کہیں

ہراک مقام پہ بہکی ضرور ہیں نظریں
تری گلی کے علاوہ قدم رکے نہ کہیں

ہم اپنی اپنی جگہ پر سہی اکائی ہیں
ندی کے دونوں کنارے کبھی ملے نہ کہیں

ترے جمال پہ حق ہی نہیں تھا سو ہم نے
کئے گلاب کے پھولوں پہ تبصرے نہ کہیں

کبھی کبھار ملاقات خود سے ہوتی ہے
تعلقات کے پہلے سے سلسلے نہ کہیں

ہر ایک آنکھ ہمیں کھینچتی تھی پانی میں
بھلا یہ کیسے تھا ممکن کہ ڈوبتے نہ کہیں

اداس چاندنی ہم سے کہیں زیادہ تھی
کھلے دریچے ترے انتظار کے نہ کہیں

بس ایک زندہ سخن کی ہمیں تمنا ہے
بنائے ہم نے کتابوں کے مقبرے نہ کہیں

بدن کو راس کچھ اتنی ہے بے گھری اپنی
کئی رہائشیں آئیں مگر رہے نہ کہیں

دھواں اتار بدن میں حشیش کا منصور
یہ غم کا بھیڑیا سینہ ہی چیر دے نہ کہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

بارہویں غزل



پھر وہی بھول کر رہا ہوں میں
پھرکہیں اور مر رہا ہوں میں

جانتا ہوں منافقت کے گُر
شہر میں معتبر رہا ہوں میں

رابطے سانپ بنتے جاتے تھے
رخنے مٹی سے بھر رہا ہوں

رات کچھ اور انتظار مرا
آسماں پر ابھر رہا ہوں میں

ایک اندھا کنواں ہے چاروں اور
زینہ زینہ اتر رہا ہوں میں

آخری بس بھی جانے والی ہے
اور تاخیر کر رہا ہوں میں

ساتھ چھوڑا تھا جس جگہ توُ نے
بس اسی موڑ پر رہا ہوں میں

تجھ کو معلوم میری وحشت بھی
تیرے زیرِ اثر رہا ہوں میں

تتلیاں ہیں مرے تعاقب میں
کیسا گرمِ سفر رہا ہوں میں

کچھ بدلنے کو ہے کہیں مجھ میں
خود سے منصور ڈر رہا ہوں میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

تیرہویں غزل



ہم چوک چوک سرخ اشاروں میں قید ہیں
قانون کے جدید دیاروں میں قید ہیں

جنگل میں لومڑی کی شہنشاہی ان دنوں
بیچارے شیر اپنے کچھاروں میں قید ہیں

یہ سبز میز پوش پہ بکھرے ہوئے خیال
دراصل چند فرضی بہاروں میں قید ہیں

بے حد و بے کراں کا تصور بجا مگر
سارے سمندر اپنے کناروں میں قید ہیں

منصور زر پرست ہیں فالج زدہ سے جسم
یہ لوگ زرق برق سی کاروں میں قید ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چودہویں غزل



آخرِ شب کی بے کلی اور میں
تیرا وعدہ تری گلی اور میں

دل سے اٹھتے ہوئے دھویں کے قریب
ایک لکڑی سی ادھ جلی اور میں

منتظر ہیں جنابِ جبرائیل
گفتگو میں مگن علی اور میں

رات کو کاٹتے ہیں چاقو سے
شہر کی ایک باولی اور میں

شام کے ساتھ ساتھ بہتے تھے
ایک سپنے میں سانولی اور میں

عارض و لب کی دلکشی اور لوگ
ایک تصویر داخلی اور میں

حاشیوں سے نکلتا اک چہرہ
چند ریکھائیں کاجلی اور میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

پندرہویں غزل



مائی بھاگی کی گائیکی اور میں
رو رہے ہیں سرائیکی اور میں

مسکراہٹ سے کانپ جاتے ہیں
میری افسردہ سائیکی اور میں

آم کے پیڑ لے کے پھرتا ہوں
ایک کوٹھی کرائے کی اور میں

کتنے کپڑوں کے جوڑے لے آیا
اس نے دعوت دی چائے کی اور میں

زلف کی دوپہر کے سائے میں
شام عبرت سرائے کی اور میں

کتنی صدیوں سے ہوں تعاقب میں
ایک آواز سائے کی اور میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

سولہویں غزل



آسماں کی برابری اور میں
رو پڑے میری کافری اور میں

چار سو ہیں دعا کے گلدستے
بیچ میں آخری جری اور میں

لفظ کی بے بسی کی بستی میں
چشم و لب کی سخن وری اور میں

اپنی اپنی تلاش میں گم ہیں
عمر بھر کی مسافری اور میں

مر گیا اختتام سے پہلے
اک کہانی تھی متھ بھری اور میں

کچھ نہیں بانٹتے تناسب سے
میرا احساس برتری اور میں

ایک فیری کے خالی عرشے پر
رقص کرتی تھی جل پری اور میں

فہمِ منصور سے تو بالا ہے
یہ تری بندہ پروری اور میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

سترہویں غزل



ریگِ صحرا کی سنسنی اور میں
اک تھکی ہاری اونٹنی اور میں

تیرے نقش قدم کی کھوج میں ہیں
آج بھی تھل میں چاندنی اور میں

تیرا کمرہ ، دہکتی انگیٹھی
برف پروردہ روشنی اور میں

چند فوٹو گراف آنکھوں کے
دیکھتے ہیں شگفتنی اور میں

لائٹیں آف ، لائنیں انگیج
ایک کمرے میں کامنی اور میں

گنگ بیٹھا ہوا ہوں پہروں سے
ایک تصویر گفتنی اور میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

اٹھارہویں غزل



اک لباسِ نمائشی اور میں
تازہ چھلکوں کی دلکشی اور میں

ایک اجڑی ہوئی گلی میں چپ
کچھ پرانے رہائشی اور میں

جانے کس سمت چلتے جاتے ہیں
قبر سی رات ، خامشی اور میں

خاک کی جستجو میں پھرتے ہیں
ایک اڑتا ہوا رشی اور میں

نامراد آئے کوچہ ئ جاں سے
میرا ہر اک سفارشی اور میں

اپنے اپنے محاذ پر منصور
ایک معلون سازشی اور میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

انیسویں غزل



تاریخ ساز ’’لوٹ‘‘ کوئی دیکھتا نہیں
بندوق کے سلوٹ کوئی دیکھتا نہیں

رقصاں ہیں ایڑیوں کی دھنوں پر تمام لوگ
کالے سیاہ بوٹ کوئی دیکھتا نہیں

انصاف گاہ ! تیرے ترازو کے آس پاس
اتنا سفید جھوٹ کوئی دیکھتا نہیں

چکلالہ چھاونی کی طرف ہے تمام رش
اسلام آباد روٹ کوئی دیکھتا نہیں

طاقت کے آس پاس حسینائوں کا ہجوم
میرا عوامی سوٹ کوئی دیکھتا نہیں

سب دیکھتے ہیں میری نئی کار کی طرف
چہرے کی ٹوٹ پھوٹ کوئی دیکھتا نہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

بیسویں غزل



وہ آنجہانی پائوں وہ مرحوم ایڑیاں
رقاصہ کی دکھائی دیں منظوم ایڑیاں

ہرانچ دکھ پڑے ہیں گئی گزری دھول کے
ہر فٹ زمیں کے ماتھے کا مقسوم ایڑیاں

ہر روز تارکول کی سڑکیں بناتی ہیں
ہاری ہوئی پھٹی ہوئی محروم ایڑیاں

غالب تھا ہمسفر سو اذیت بہت ہوئی
کہتی ہیں دو اٹھی ہوئی مظلوم ایڑیاں

سنگیت کے بہائو پہ شاید صدا کا رقص
گوگوش کی سٹیج پہ مرقوم ایڑیاں

پیاسا کہیں فرات کا ساحل پڑا رہے
چشمہ نکال دیں کہیں معصوم ایڑیاں

چلنے لگے ہیں پنکھے ہوائوں کے دشت میں
ہونے لگی ہیں ریت پہ معدوم ایڑیاں

پاتال کتنے پائوں ابھی اور دور ہیں
ہر روز مجھ سے کرتی ہیں معلوم ایڑیاں

لکھنے ہیں نقش ِ پا کسی دشت ِ خیال میں
تانبا تپی زمین ! مری چوم ایڑیاں

منصور میرے گھر میں پہنچتی ہیں پچھلی رات
اڑتی ہے جن سے دھوپ وہ مخدوم ایڑیاں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

اکیسویں غزل



اِدھر نہ آئیں ہوائوں سے کہہ رہا ہوں میں
کہ راکھ راکھ تعلق میں رہ رہا ہوں میں

طلوع ِوصل کی خواہش بھی تیرہ بخت ہوئی
فراقِ یار کے پہلو میں گہہ رہا ہوں میں

مرا مزاج اذیت پسند ہے اتنا
ابھی جو ہونے ہیں وہ ظلم سہہ رہا ہوں میں

یہ لگ رہا ہے کئی دن سے اپنے گھر میں مجھے
کسی کے ساتھ کہیں اور رہ رہا ہوں میں

مجھے بھلانے کی کوشش میں بھولتے کیوں ہو
کہ لاشعور میں بھی تہہ بہ تہہ رہا ہوں میں

گھروں کے بیچ اٹھائی تھی جو بزرگوں نے
کئی برس سے وہ دیوار ڈھ رہا ہوں میں

کنارِ اشکِ رواں توڑ پھوڑ کر منصور
خود آپ اپنی نگاہوں سے بہہ رہا ہوں میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

بائیسویں غزل



بارش سے سائیکی کے سخن دھو رہا ہوں میں
بادل کے ساتھ ساتھ یونہی رو رہا ہوں میں

دیکھا ہے آج میں نے بڑا دلربا سا خواب
شاید تری نظر سے رہا ہو رہا ہوں میں

اچھے دنوں کی آس میں کتنے برس ہوئے
خوابوں کے آس پاس کہیں سو رہا ہوں میں

میں ہی رہا ہوں صبح کی تحریک کا سبب
ہر دور میں رہین ِ ستم گو رہا ہوں میں

لایا ہے کوئی آمدِ دلدار کی نوید
اور بار بار چوم کسی کو رہا ہوں میں

ابھرے ہیں میرے آنکھ سے فرہنگِ جاں کے رنگ
تصویر کہہ رہی ہے پکاسو رہا ہوں میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

تیئسویں غزل



سرکا دیا نقاب کو کھڑکی نے خواب میں
سورج دکھائی دے شبِ خانہ خراب میں

تجھ ایسی نرم گرم کئی لڑکیوں کے ساتھ
میں نے شبِ فراق ڈبو دی شراب میں

آنکھیں ، خیال ، خواب ، جوانی ،یقین، سانس
کیا کیا نکل رہا ہے کسی کے حساب میں

قیدی بنا لیا ہے کسی حور نے مجھے
یوں ہی میں پھر رہا تھا دیار ثواب میں

مایوس آسماں ابھی ہم سے نہیں ہوا
امید کا نزول ہے کھلتے گلاب میں

دیکھوں ورق ورق پہ خدوخال نور کے
سورج صفت رسول ہیں صبحِ کتاب میں

سیسہ بھری سماعتیں بے شک مگر بڑا
شورِ برہنگی ہے سکوتِ نقاب میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چوبیسویں غزل



جسم پر نقش گئے وقت کے آئے ہوئے ہیں
عمر کی جیپ کے ٹائر تلے آئے ہوئے ہیں

ہم سمجھتے ہیں بہت ، لہجے کی تلخی کو مگر
تیرے کمرے میں کسی کام سے آئے ہوئے ہیں

دیکھ مت بھیج یہ میسج ہمیں موبائل پر
ہم کہیں دور بہت روٹھ کے آئے ہوئے ہیں

ہم نہیں جانتے روبوٹ سے کچھ وصل وصال
ہم ترے چاند پہ شاید نئے آئے ہوئے ہیں

پھر پگھلنے کو ہے بستی کوئی اٹیم بم سے
وقت کی آنکھ میں کچھ سانحے آئے ہوئے ہیں

ڈھونڈنے کے لئے گلیوں میں کوئی عرش نشیں
تیرے جیسے تو فلک سے بڑے آئے ہوئے ہیں

ہم سے چرواہوں کو تہذیب سکھانے کیلئے
دشت میں شہر سے کچھ بھیڑے آئے ہوئے ہیں

ہم محبت کے کھلاڑی ہیں سنوکر کے نہیں
کھیل منصور یونہی کھیلنے آئے ہوئے ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

پچیسویں غزل



تیرے دن جو مری دہلیز پہ آنے لگ جائیں
ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں

سچ نکلتا ہی نہیں لفظ کے گھر سے ورنہ
چوک میں لوگ کتابوں کو جلانے لگ جائیں

یہ عجب ہے کہ مرے بلب بجھانے کے لئے
آسماں تیرے ستاروںکے خزانے لگ جائیں

خوبصورت بھی ، اکیلی بھی ، پڑوسن بھی ہے
لیکن اک غیرسے کیاملنے ملانے لگ جائیں

نیک پروین ! تری چشمِ غلط اٹھتے ہی
مجھ میں کیوں فلم کے سنسر شدہ گانے لگ جائیں

پل کی ریلنگ پکڑ رکھی ہے میں نے منصور
بہتے پانی مجھے دیکھیں تو بلانے لگ جائیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چھبیسویں غزل



کھلا گیا کوئی آسیب زار کمرے میں
سنائی دیتا ہے اب تک گٹار کمرے میں

یہ شیمپین یہ کینڈل یہ بے شکن بستر
پڑا ہوا ہے ترا انتظار کمرے میں

یہ رات کتنے نصیبوں کے بعد آئی ہے
ذرا ذرا اسے دن بھر گزار کمرے میں

دکھائی دی تھی مجھے ایک بار پرچھائیں
پلٹ پلٹ کے گیا بار بار کمرے میں

جو میں نے کروٹیں قالین پر بچھائی تھیں
وہ کر رہی ہے انہیں بھی شمار کمرے میں

تمام رات تعاقب کریں گی دیواریں
نہیں ہے قید سے ممکن فرار کمرے میں

چھپا رہا تھا کسی سے دھویں میں اپناآپ
میں پی رہا تھا مسلسل سگار کمرے میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

ستائیسویں غزل



کون ٹینس کھیلتی جاتی تھی وجد و حال میں
کورٹ سمٹا جا رہا تھا اک ذرا سی بال میں

جانے کس نے رات کا خاکہ اڑایا اس طرح
چاند کا پیوند ٹانکا اس کی کالی شال میں

ایک کوا پھڑ پھڑا کر جھاڑتا تھا اپنے پر
تھان لٹھے کے بچھے تھے دور تک چترال میں

لوگ مرتے جا رہے تھے ساحلوں کی آس پر
نائو آتی جا رہی تھی پانیوں کے جال میں

کوئی پتھر کوئی ٹہنی ہاتھ آتی ہی نہیں
گر رہا ہوں اپنے اندر کے کسی پاتال میں

جن گناہوں کی تمنا تنگ کرتی تھی مجھے
وہ بھی ہیں تحریر میرے نامہ ئ اعمال میں

میں نے یہ منصوردیکھااس سے مل لینے کے بعد
اپنی آنکھیں بچھ رہی تھیں اپنے استقبال میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

اٹھائیسویں غزل



باقی سب چیزیں تو رکھی ہیں اٹیچی کیس میں
میں جوانی بھول آیا ہوں کہیں پردیس میں

زندگی کی دوڑ ہے اور دوڑنا ہے عمر بھر
شرط گھوڑا جیت سکتا ہی نہیں ہے ریس میں

رقص کرتی لڑکیاںمیوزک میں تیزی اورشراب
نیکیاں ملتی ہیں مجھ سے کیوں بدی کے بھیس میں

میں برہنہ گھومتا تھا ہجر کی فٹ پاتھ پر
رات جاڑے کی اکیلی سو گئی تھی کھیس میں

کیوں بدلتا جا رہا ہے روح کا جغرافیہ
کون سرحد پار سے آیا بدن کے دیس میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

انتیسویں غزل



بلا کا ضبط تھا دریا نے کھو دیا مجھ میں
مجھے جو ولولے دیتا تھا رو دیا مجھ میں

شب ِ سیاہ کہاں سے رگوں میں آئی ہے
تڑپ رہا ہے کوئی آج تو دیا مجھ میں

عجیب کیف تھا ساقی کی چشم رحمت میں
شراب خانہ ہی سارا سمو دیا مجھ میں

رکھا ہے گنبد ِخضرا کے طاق میں شاید
بلا کی روشنی کرتا ہے جو دیا مجھ میں

ہزار درد کے اگتے رہے شجر منصور
کسی نے بیج جو خواہش کا بو دیا مجھ میں






دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

تیسویں غزل



من و سلویٰ لیے ا فلاک سے بم گرتے ہیں
شہر میں گندم و بارود بہم گرتے ہیں

فتح مندی کی خبر آتی ہے واشنگٹن سے
اور اسا مہ ترے ہر روز علم گرتے ہیں

زرد پتے کی کہانی تو ہے موسم پہ محیط
ٹوٹ کے روز کہیں شاخ سے ہم گرتے ہیں

رقص ویک اینڈ پہ جتنا بھی رہے تیز مگر
طے شدہ وقت پہ لوگوں کے قدم گرتے ہیں

شہر کی آخری خاموش سڑک پر جیسے
میرے مژگاں سے سیہ رات کے غم گرتے ہیں

جانے کیا گزری ہے اس دل کے صدف پر منصور
ایسے موتی تو مری آنکھ سے کم گرتے ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

اکتیسویں غزل



اور جینے کا سبب کوئی نہیں
پہلے تُو تھا مگر اب کوئی نہیں

صرف اک جاں سے گزرنا ہے مجھے
مجھ سا بھی سہل طلب کوئی نہیں

خواہش ِ زرق درندوں کی طرح
جیسے اس شہر کا رب کوئی نہیں

وقت کیفیت ِ برزخ میں ہے
کوئی سورج ، کوئی شب ، کوئی نہیں

ایک تعزیتی خاموشی ہے
شہر میں مہر بلب کوئی نہیں

کیوں گزرتا ہوں وہاں سے منصور
اس گلی میں مرا جب کوئی نہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

بتیسویں غزل



تیرا چہرہ کیسا ہے میرے دھیان کیسے ہیں
یہ بغیر تاروں کے بلب آن کیسے ہیں

خواب میں اسے ملنے کھیت میں گئے تھے ہم
کارپٹ پہ جوتوں کے یہ نشان کیسے ہیں

بولتی نہیں ہے جو وہ زبان کیسی ہے
یہ جوسنتے رہتے ہیں میرے کان کیسے ہیں

روکتے ہیں دنیا کو میری بات سننے سے
لوگ میرے بارے میں بد گمان کیسے ہیں

ق

کیا ابھی نکلتا ہے ماہ تاب گلیوں میں
کچھ کہو میانوالی آسمان کیسے ہیں

کیا ابھی محبت کے گیت ریت گاتی ہے
تھل کی سسی کیسی ہے پنوں خان کیسے ہیں

کیا قطار اونٹوں کی چل رہی ہے صحرا میں
گھنٹیاں سی بجتی ہیں ، ساربان کیسے ہیں

چمنیوں کے ہونٹوں سے کیا دھواں نکلتا ہے
خالی خالی برسوں کے وہ مکان کیسے ہیں

دیکھتا تھا رم جھم سی بیٹھ کر جہاں تنہا
لان میں وہ رنگوں کے سائبان کیسے ہیں

اب بھی وہ پرندوں کو کیا ڈراتے ہیں منصور
کھیت کھیت لکڑی کے بے زبان کیسے ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

تیتیسویں غزل



میں اپنی فیملی کے ساتھ کچھ دن ۔۔۔پُر سکوں کچھ دن
سمندر کے کنارے ایک کاٹج میں رہوں کچھ دن

کہیں ڈھلتی ہوئی شب کو بھی ورزش کی ضرورت ہے
میںاپنے دوستوں کے ساتھ جاگنگ چھوڑدوں کچھ دن

ابھی کچھ دن پلیٹوں میں رکھوں جذبے قیامت کے
سلاخوں میں دہکتے گوشت پر نظمیں لکھوں کچھ دن

مرے ہم عصر پیرس اب اداسی چھوڑ دے اپنی
جدا ہونا تو ہے لیکن ابھی میں اور ہوں کچھ دن

ابھی اس لمس تک شاید کئی ہفتوں کا رستہ ہے
رگوں میں تیز رہنی ہے ابھی رفتارِ خوں کچھ دن

بدن کے شہر کو جاتی سڑک پہ کوئی خطرہ ہے ؟
مجھے حیرت سرائے روح میں رہنا ہے کیوں کچھ دن

بہت ہی سست ہیں نبضیں مرے شہر ِنگاراں کی
اضافہ خود سری میں کچھ ، چلے رسمِ جنوں کچھ دن




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چوتیسویں غزل



ایٹمی جنگ میں سوختہ خواب تسخیر کے ہیں
خوف دونوں طرف ایک لمحے کی تا خیرکے ہیں

وقت کی گیلری میں مکمل ہزاروں کی شکلیں
صرف ٹوٹے ہوئے خال و خد میری تصویر کے ہیں

شہر بمبار طیارے مسمار کرتے رہیں گے
شوق دنیا کو تازہ مکانوں کی تعمیر کے ہیں

ایک مقصد بھری زندگی وقت کی قیدمیں ہے
پائوں پابند صدیوں سے منزل کی زنجیر کے ہیں

ایک آواز منصور کاغذ پہ پھیلی ہوئی ہے
میرے سناٹے میں شور خاموش تحریر کے ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

پیتیسویں غزل



سبز سر چھیڑ خشک سالی میں
چوڑیاں ڈال مردہ ڈالی میں

کوئی دریا گرا تھا پچھلی شب
تیری کچی گلی کی نالی میں

لمس ہے تیرے گرم ہونٹوں کا
ویٹرس۔۔چائے کی پیالی میں

جو ابھی ہونا ہے پڑوسن نے
واقعہ لکھ دیا ہے گالی میں

اپنے دانتوںسے کس لئے ناخن
کاٹتا ہوں میں بے خیالی میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چھتیسویں غزل



اوڑھ لیتی ہیں ستاروں کا لبادہ آنکھیں
اب تو کرتیں ہی نہیںخواب کاوعدہ آنکھیں

کوئی گستاخ اشارہ نہ کوئی شوخ نگہ
اپنے چہرے پہ لئے پھرتا ہوں سادہ آنکھیں

دھوپ کا کرب لئے کوئی افق پر ابھرا
اپنی پلکوں میں سمٹ آئیںکشادہ آنکھیں

ایک دہلیز پہ رکھا ہے ازل سے ماتھا
ایک کھڑکی میں زمانوں سے ستادہ آنکھیں

آنکھ بھر کے تجھے دیکھیں گے کبھی سوچا تھا
اب بدلتی ہی نہیں اپنا ارادہ آنکھیں

شہر کا شہر مجھے دیکھ رہا ہے منصور
کم تماشا ہے بہت اور زیادہ آنکھیں





دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

سیتیسویں غزل



ترے مکان کا رستہ تو چھوڑ دیتا ہوں
مگر میں ساتھ گلی کو بھی موڑ دیتا ہوں

میں اس مقام پہ پہنچا ہوں عشق میں کہ جہاں
فراق ووصل کو آپس میں جوڑ دیتاہوں

مجھے مزاج کی وحشت نے فتح مند رکھا
کہ ہار جائوں تو سر اپنا پھوڑ دیتا ہوں

ابھی دھڑکتا ہے دل بھیڑیے کے سینے میں
ابھی غزال پکڑتا ہوں ، چھوڑ دیتا ہوں

ڈرا ہوا ہوں میں اپنے مزاج سے منصور
جو میری ہونہ سکے ، شے وہ توڑ دیتا ہوں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

اٹھتیسویں غزل



ریت کے ٹرک میں دواجنبی مسافر ہیں
میرے ساتھ خوشبو اور روشنی مسافرہیں

گھر میں کم پیوٹر کی صرف ایک کھڑکی ہے
ورنہ قیدیوں کے دل ہر گھڑی مسافر ہیں

چند ِٹن بیئر کے ہیں چند چپس کے پیکٹ
رات کی سڑک ہے اور ہم یونہی مسافرہیں

کون ریل کو سنگنل لالٹین سے دے گا
گائوں کے سٹیشن پر اک ہمی مسافر ہیں

نیند کے جزیرے پر ، آنکھ کی عمارت میں
اجنبی سے لگتے ہیں، یہ کوئی مسافر ہیں

شب پناہ گیروں کے ساتھ ساتھ رہتی ہے
روشنی کی بستی میں ہم ابھی مسافر ہیں

اور اک سمندر سا پھر عبور کرنا ہے
خاروخس کی کشتی ہے کاغذی مسافر ہیں

چند اور رہتے ہیں دھوپ کے قدم منصور
شام کی گلی کے ہم آخری مسافر ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

انتالیسویں غزل



گھلی تھی ایک ویراں چرچ کی گھمبیر تا رب میں
مگر دو ہاتھ پیچھے دیویوں کا رقص تھا پب میں

خدا جانے کہانی کار کتنا دلربا ہو گا
عجب رومان پرور لمس کی دھڑکن ہے مذہب میں

مجھے اکثر وہ ہجراں کی سیاہی میں دکھائی دی
سلگتے گھائو کی صورت ہے کوئی سینہئ شب میں

خدا کے قیدخانے سے کوئی باہر نہیں نکلا
اگرچہ ہے بلاکی قوت ِ پرواز ہم سب میں

ازل کی شام سے آنکھیں کسی کی خوبصورت ہیں
رکاہے وقت صدیوں سے کسی کے عارض و لب میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چالیسویں غزل



تیز چلنے کے لئے کب راستے موجود ہیں
وقت کی ہراک سڑک پر کیمرے موجود ہیں

کھل نہیں سکتے اگر بابِ نبوت کے کواڑ
سینکڑوں جبریل مجھ میں کس لئے موجود ہیں

بس صدا ڈی کوڈ کرنی ہے خموشی کی مجھے
کتنے سگنل عرش سے آئے ہوئے موجود ہیں

چاند شاید پیڑ کی شاخوں میں الجھا ہے کہیں
صحن میں کچھ روشنی کے شیڈ سے موجود ہیں

قیمتی سوٹوں کی جلسہ گاہ میں خاموش رہ
کرسیوں پر کیسے کیسے نابغے موجود ہیں

کھول کر اپنے گریباں کے بٹن ہم سرفروش
موت کی بندوق کے پھرسامنے موجود ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

اکتالیسویں غزل



ذہن میں جمع ڈر کئے جائیں
آسماں معتبر کئے جائیں

جتنے لمحے بھی ہو سکیں ممکن
روشنی میں بسر کئے جائیں

اس سے آٹو گراف بک پہ نہیں
دستخط ہاتھ پر لئے جائیں

موسم آنے پہ باغ میں روشن
قمقموں سے شجر کئے جائیں

آسمانوں کو جاننے کے لئے
اپنے پاتال سر کئے جائیں

وقت کے سائیکل پہ ہم منصور
اک کنویں میں سفر کئے جائیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

بیالیسویں غزل



ہرایک طاق پہ رکھے ہوئے چراغ میں ہوں
میں آفتاب صفت رات کے دماغ میں ہوں

میں جاودانی کا چشمہ ، مثالِ آب ِ حیات
کسی فقیر کے ٹوٹے ہوئے ایاغ میں ہوں

مجھے تلاش نہ کر خال و خد میں خوشبو کے
کہیں پہ زخم میں ہوں میںکہیں پہ داغ میں ہوں

اکیلا روز سلگتا ہوں چھائوں میں اپنی
یہ اور بات کہ شادابیوںکے باغ میں ہوں

میں دوپہر کے تسلسل کا سوختہ منصور
چراغ لے کے کسی رات کے سراغ میںہوں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

تیتالیسویں غزل



دستکوں کی دہشت سے در بدلتے رہتے ہیں
اک اجاڑ بستی میں گھر بدلتے رہتے ہیں

موسموں کی تبدیلی معجزے دکھاتی ہے
جسم ایک رہتا ہے سر بدلتے رہتے ہیں

وہ بچھڑ بھی سکتا ہے ، میں بدل بھی سکتا ہوں
راہ میں محبت کی ، ڈر بدلتے رہتے ہیں

کائنات کا پنجرہ کوئی در نہیں رکھتا
اور ہم پرندوں کے پر بدلتے رہتے ہیں

ارتقائ کے پردے میں کیا فریب ہے منصور
ہم نہیں بدل سکتے ، پر، بدلتے رہتے ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چوالیسویں غزل



یونہی ہم بستیوں کو خوبصورت تر بناتے ہیں
جہاں رہنا نہیں ہوتا وہاں پر گھر بناتے ہیں

بنا کر فرش سے بستر تلک ٹوٹی ہوئی چوڑی
گذشتہ رات کا تصویر میں منظر بناتے ہیں

لکھا ہے اس نے لکھ بھیجو شب ِ ہجراں کی کیفیت
چلو ٹھہرے ہوئے دریا کو کاغذ پر بناتے ہیں

سمندر کے بدن جیسا ہے عورت کا تعلق بھی
لہو کی آب دوزوں کے سفر گوہر بناتے ہیں

مکمل تجربہ کرتے ہیں ہم اپنی تباہی کا
کسی آوارہ دوشیزہ کو اب دلبر بناتے ہیں

شرابوں نے دیا سچ بولنے کا حوصلہ منصور
غلط موسم مجھے کردار میں بہتر بناتے ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

پیتالیسویں غزل



ابھی تو شاخ سے اپنی ، جدا ہوا ہوں میں
’’مرے شجر نہ ابھی رو ‘‘ابھی ہرا ہوں میں

یہ لگ رہا ہے کئی دن سے اپنے گھر میں مجھے
کسی کے ساتھ کہیں اور رہ رہا ہوں میں

وصال ِ زانوئے جاناں کے انتظار میں پھر
خود اپنے ہاتھ پہ سر رکھ کے سو گیا ہوں میں

لہو میں دوڑتی پھرتی ہے لمس کی خوشبو
تیر ے خیال سے شاید گلے ملا ہوں میں

ستم کہ جس کی جدائی میں بجھ رہا ہے بدن
اسی چراغ کی مانگی ہوئی دعا ہوں میں

یہ المیہ نہیں سورج مقابلے پر ہے
یہ المیہ ہے کہ بجھتا ہوا دیا ہوں میں

پڑے ہوئے ہیںزمانوں کے آبلے منصور
بس ایک رات کسی جسم پر چلا ہوں میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چھتالیسویں غزل



میرا خیال ہے کوئی پردہ اٹھا ہی دوں
اک مستقل فراق کے پہلو میں کیوں رہوں

مے خانہ ئ حیات میں محرم کوئی نہیں
شاید میں کائنات کا پہلا شعور ہوں

دن بھر تلاش کرتا ہوں تعبیر کس لئے
ہر رات ایک خواب کے ہوتا ہوں ساتھ کیوں

بستی سے جارہی ہے پرندوں بھری ٹرام
توُ ساتھ دے اگر تو کہیںمیں بھی چل پڑوں

کیوں آنکھ میں بچھا کے سمندر کے آئنے
حیرت سے دیکھتا ہے کسی چاند کو جنوں

کوئی نشانی میری کسی ہاتھ میں تو ہو
منصور کس کوجا کے میں سونے کا رِنگ دوں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

سیتالیسویں غزل



یزید زاد الگ ، کربلا علیحدہ ہیں
ہمارے اور تمہارے خدا علیحدہ ہیں

نمازِ جسم میں کعبہ کی سمت لازم ہے
نمازِ عشق کے قبلہ نما علیحدہ ہیں

مرے فراق کے جلتے ہوئے سیہ موسم
تمہی کہو مری جاں! تم سے کیا علیحدہ ہیں

سمجھ رہی ہو محبت میں وصل کو تعبیر
ہمارے خواب میں کہتا نہ تھا ، علیحدہ ہیں

ہماری دھج کو نظر بھر کے دیکھتے ہیں لوگ
ہجوم شہر میں ہم کج ادا علیحدہ ہیں

سیاہ بختی ٹپکتی ہے ایک تو چھت سے
ترے ستم مری جانِ وفا علیحدہ ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

اڑتالیسویں غزل



ٹوٹنے والے تارے پر رک جاتے ہیں
آنکھ کے ایک کنارے پر رک جاتے ہیں

وقت کی تیز ٹریفک چلتی رہتی ہے
ہم ہی سرخ اشارے پر رک جاتے ہیں

جب میں سطح ِ آب پہ چلتا پھرتا ہوں
دیکھ کے لوگ کنارے پر رک جاتے ہیں

ہم ایسوں کے کون مقابل آئے گا
ہم طوفان کے دھارے پر رک جاتے ہیں

روز نکلتے ہیں مہتاب نگر میں ہم
لیکن ایک ستارے پر رک جاتے ہیں

اڑتے اڑتے گر پڑتے ہیں آگ کے بیچ
شام کے وقت ہمارے پر رک جاتے ہی




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

انتالیسویں غزل



باہر کھڑا ہوں کون و مکاں کے قفس سے میں
دیکھا نکل گیا ناٰ ۔۔۔تری دسترس سے میں

دیکھو یہ پھڑپھڑاتے ہوئے زخم زخم پر
لڑتا رہا ہوں عمر بھر اپنے قفس سے میں

اے دوست جاگنے کی کوئی رات دے مجھے
تنگ آگیاہوں نیند کے کار ِ عبث سے میں

بے وزن لگ رہا ہے مجھے کیوں مرا وجود
بالکل صحیح چاند پہ اترا ہوں بس سے میں

اک سوختہ دیار کے ملبے پہ بیٹھ کر
انگار ڈھانپ سکتا نہیں خاروخس سے میں

جذبوں کی عمر میں نے مجرد گزار دی
منصور روزہ دار ہوں چودہ برس سے میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

پچاسویں غزل



در کوئی جنت ِ پندار کا وا کرتا ہوں
آئینہ دیکھ کے میں حمد و ثنا کرتا ہوں

رات اور دن کے کناروں کے تعلق کی قسم
وقت ملتے ہیں تو ملنے کی دعا کرتا ہوں

وہ ترا ، اونچی حویلی کے قفس میں رہنا
یاد آئے تو پرندوں کو رہا کرتا ہوں

ایک لڑکی کے تعاقب میں کئی برسوں سے
نت نئی ذات کے ہوٹل میں رہا کرتاہوں

پوچھتا رہتا ہوں موجوں سے گہر کی خبریں
اشکِ گم گشتہ کا دریا سے پتہ کرتا ہوں

مجھ سے منصور کسی نے تو یہ پوچھا ہوتا
ننگے پائوں میں ترے شہر میں کیا کرتا ہوں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

اکاونویں غزل



زمانہ ۔۔تجھ کو کیا حاصل ہواقصہ بنانے میں
فقط اک اشک کو بستی کا افسانہ بنانے میں

غزل کہنا پڑی ایسے سخن آباد میں مجھ کو
خدا مصلوب ہوتے ہیں جہاں مصرعہ بنانے میں

نجانے کونسے دکھ کی اداسی کا تعلق ہے
مری اس سائیکی کو اتنا رنجیدہ بنانے میں

تجھے دل نے کسی بہتر توقع پر بلایا تھا
لگے ہو تم مسائل اور پیچیدہ بنانے میں

اگر آ ہی گئے ہوتو چلو آئو یہاں بیٹھو
ذرا سی دیر لگنی ہے مجھے قہوہ بنانے میں

کسے معلوم کیا کیا کردیا قربان آنکھوں نے
یہ تنہائی کی آبادی، یہ ویرانہ بنانے میں

مری صبح منور کی جسے تمہید بننا تھا
کئی صدیاں لگا دی ہیں وہ اک لمحہ بنانے میں

کہاں سے آگئی اتنی لطافت جسم میں میرے
شبیں ناکام پھرتی ہیں مرا سایہ بنانے میں

کھڑا ہے لاش پر میری وہ کیسی تمکنت کےساتھ
جسے تکلیف ہوتی تھی مجھے زینہ بنانے میں

مرے منزل بکف جن پہ تُو طعنہ زن دکھائی دے
یہ پائوں کام آئے ہیں ترا رستہ بنانے میں

مجھ ایسے آسماں کو گھر سے باہر پھینکنے والو
ضرورت چھت کی پڑتی ہے کوئی کمرہ بنانے میں

کہیں رہ جاتی تھیں آنکھیں کہیں لب بھول جاتا تھا
بڑی دشواریاں آئیں مجھے چہرہ بنانے میں

پلٹ کر دیکھتے کیا ہو۔صفِ دشمن میں یاروں کو
بڑے ماہر ہیں اپنے دل کو یہ کوفہ بنانے میں

کسی کرچی کے اندر کھو گیا میرا بدن مجھ سے
جہانِ ذات کو اک آئینہ خانہ بنانے میں

مٹھاس ایسے نہیں آئی مرے الفاظِ تازہ میں
لگی ہے عمر مجھ کو دودھ کا چشمہ بنانے میں

بڑا دل پھینک ہے یہ دل بڑی آوارہ آنکھیں ہیں
کوئی عجلت ہوئی شاید دل و دیدہ بنانے میں

کسی ہجرِ مسلسل کا بڑا کردار ہے منصور
محبت کی کہانی اتنی سنجیدہ بنانے میں

اناالحق کی صدائوں میں کہیں گم ہو گیا میں بھی
اسے منصور اپنی ذات کا حصہ بنانے میں

مرے ہمذاد اپنے آپ نادیدہ بنانے میں
تجھے کیا مل گیا آنکھوں کو لرزیدہ بنانے میں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

باونویں غزل



نذرِ احمد فراز

صحبتِ قوسِ قزح کا کوئی امکاں جاناں
کوئی دلچسپی ، کوئی رابطہ جاناں جاناں

میرے اندازِ ملاقات پہ ناراض نہ ہو
مجھ پہ گزرا ہے ابھی موسمِ ہجراں جاناں

جو مرے نام کو دنیا میں لئے پھرتے ہیں
تیری بخشش ہیں یہ اوراقِ پریشاں جاناں

آ مرے درد کے پہلو میںدھڑک کہ مجھ میں
بجھتی جاتی ہے تری یادِ فروزاں جاناں

تیری کھڑکی کہ کئی دن سے مقفل مجھ پر
جیسے کھلتا نہیں دروازہئ زنداں جاناں

تیری گلیاں ہیں ترا شہر ہے تیرا کوچہ
میں ، مرے ساتھ ترا وعدہ و پیماں جاناں

پھر کوئی نظم لٹکتی ہے ترے کعبہ پر
پھر مرے صبر کی بیچارگی عنواں جاناں

ہجر کا ایک تعلق ہے اسے رہنے دے
میرے پہلو میں تری یاد ہراساں جاناں

ہم فرشتوں کی طرح گھر میں نہیں رہ سکتے
ہاں ضروری ہے بہت رشتہ ئ انساں جاناں

زخم آیا تھا کسی اور کی جانب سے مگر
میں نے جو غور کیا تیرا تھا احساں جاناں

اس تعلق میں کئی موڑ بڑے نازک ہیں
اور ہم دونوں ابھی تھوڑے سے ناداں جاناں

دشت میں بھی مجھے خوشبو سے معطر رکھے
دائم آباد رہے تیرا گلستاں جاناں

ویسا الماری میں لٹکا ہے عروسی ملبوس
بس اسی طرح پڑا ہے ترا ساماں جاناں

مجھ کو غالب نے کہا رات فلک سے آکر
تم بھی تصویر کے پردے میں ہو عریاں جاناں

وہ جو روٹھی ہوئی رت کو بھی منالیتے ہیں
بس وہی شعرِ فراز اپنا دبستاں جاناں

روشنی دل کی پہنچ پائی نہ گھر تک تیرے
میں نے پلکوں پہ کیا کتنا چراغاں جاناں

کیا کہوں ہجر کہاں وصل کہاں ہے مجھ میں
ایک جیسے ہیں یہاں شہر و بیاباں جاناں

چھت پہ چڑھ کے میں تمہیں دیکھ لیا کرتا تھا
تم نظر آتی تھی بچپن سے نمایاں جاناں

اک ذرا ٹھہر کہ منظر کو گرفتار کروں
کیمرہ لائے ابھی دیدہ ئ حیراں جاناں

مانگ کر لائے ہیں آنسو مری چشمِ نم سے
یہ جو بادل ہیں ترے شہر کے مہماں جاناں

لڑکیاں فین ہیں میری انہیں دشنام نہ دے
تتلیاں پھول سے کیسے ہوں گریزاں جاناں

آگ سے لختِ جگر اترے ہیں تازہ تازہ
خانہ ئ دل میں ہے پھر دعوتِ مژگاں جاناں

زخم در زخم لگیں دل کی نمائش گاہیں
اور ہر ہاتھ میں ہے ایک نمکداں جاناں

تھم نہیں سکتے بجز تیرے کرم کے، مجھ میں
کروٹیں لیتے ہوئے درد کے طوفاں جاناں

بلب جلتے رہیں نیلاہٹیں پھیلاتے ہوئے
میرے کمرے میں رہے تیرا شبستاں جاناں

رات ہوتے ہی اترتا ہے نظر پر میری
تیری کھڑکی سے کوئی مہرِ درخشاں جاناں

تُو کہیں بستر کمخواب پہ لیٹی ہوگی
پھر رہا ہوں میں کہیں چاک گریباں جاناں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

ترپینویں غزل





ویسے ہی تمہیں وہم ہے ، افلاک نشیں ہیں
تم لوگ بڑے لوگ ہو ، ہم خاک نشیں ہیں

خسخانہ و برفاب کی خواہش نہیں رکھتے
ہم دھوپ صفت لوگ ہیں خاشاک نشیں ہیں

امید بغاوت کی ہم ایسوں سے نہ رکھو
ہم ظلم کے نخچیر ہیں ، فتراک نشیں ہیں

اطراف میں بکھری ہوئی ہے سوختہ بستی
ہم راکھ اڑاتے ہوئے املاک نشیں ہیں

معلوم ہے کیا تم نے کہا ہے پسِ تحریر
اسباقِ خفی ہم کو بھی ادراک نشیں ہیں

کیا کوزہ گری بھول گیا ہے کوئی منصور
ہم لوگ کئی سال ہوئے چاک نشیں ہیں

ق

الفاظ پہن کر ہمی اوراق نشیں ہیں
پروازِ مسلسل میں ہیں ، براق نشیں ہیں

یہ بات الگ روشنی ہوتی ہے کہیں اور
ہم مثلِ چراغِ شبِ غم طاق نشیں ہیں

سورج کی طرف دیکھنے والوں کی قسم ہم
اک خوابِ عشائ اوڑھ کے اشراق نشیں ہیں

چاہیں تو زباں کھینچ لیں انکار کی ہم لوگ
بس خوفِ خدا ہے ہمیں ، اشفاق نشیں ہیں

آتی ہیں شعاعوں سے انا الحق کی صدائیں
ہم نورِ ہیں منصور ہیں آفاق نشیں ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چونویں غزل





امکان کے صحرا میں کہیں خیمہ نشیں ہیں
ہم سلسلہ ئ قیس کے سجادہ نشیں ہیں

ہر روز ڈبو دیتے ہیں طوفان بسیرا
ہم دل کے جزیرے میں کہیں گوشہ نشیں ہیں

ٰپیروں تلے ہر لمحہ نیا طور نئی برق
اک مرحلہ ئ شوق میں ہم جلوہ نشیں ہیں

پیچھے سے کوئی اچھی خبر آئے تو جائیں
برزخ سے ذرا پہلے ابھی رستہ نشیں ہیں

دوچار نکل آئے ہیں جلباب سے باہر
منصور ابھی دوست کئی پردہ نشیں ہیں

۱۔یونس ایمرے کے ایک شعر کا ترجمہ




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

پچپنوں غزل



میں رابطوں کے مکاں معتبر بناتا ہوں
فصیلیں توڑتا رہتا ہوں ، در بناتا ہوں

اڑان دیکھ مرے آہنی پرندوں کی
مسیح میں بھی ہوں لوہے کے پر بناتا ہوں

فروغ دیدہ ئ ابلاغ کے وسیلے سے
یہ اپنے آپ کو کیا باخبر بناتا ہوں

خدا کی شکل بنانی پڑے گی کاغذ پر
میں اپنا باطنی چہرہ اگر بناتا ہوں

سمٹ گئے ہیں جہاں تو مرے ہتھیلی میں
سواب میں ذات کے اندر سفر بناتا ہوں

یونہی یہ لفظ چمکتے نہیں اندھیرے میں
جلا جلا کے کتابیں شرر بناتا ہوں

نکل پڑے نہ زمانہ مرے تعاقب میں
سو نقش پا بھی بہت سوچ کر بناتا ہوں

بس ایک صرف سناتا ہوں آیتِ منسوخ
فروغ خیر سے تہذیبِ شر بناتا ہوں

مرے دماغ میں بس عنکبوت رہتے ہیں
میں وہم بنتا ہوں خوابوں میں ڈر بناتا ہوں

اکھیڑ دیتا ہوں نقطے حروف کے منصور
میں قوسیں کاٹ کے تازہ ہنر بناتا ہوں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چھپنویں غزل



عدم کو صفحہ ئ ادراک پر بناتا ہوں
الائو سا خش و خاشاک پر بناتا ہوں

زمیں سے دور بناتا ہوں خاک کے چہرے
خدا بنائوں تو افلاک پر بناتا ہوں

مری زمین کی بنیاد میں شرارے ہیں
مکان سوختہ املاک پر بناتا ہوں

ستارہ لفظ تراشوں میں چاند تحریریں
اک آسمانِ ادب خاک پر بناتا ہوں

لہو کی بوندیں گراتا ہوں اپنے دامن سے
دلِ تباہ کو پوشاک پر بناتا ہوں

مرا وجود مکمل ابھی نہیں منصور
سو اپنے آپ کو پھر چاک پر بناتا ہوں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

ستاونویں غزل



آئینہ کون ہے کچھ اپنی خبر ہو تو کہوں
عکس در عکس ہے کیا چیز ، نظر ہو تو کہوں

اُس تجلی پہ کوئی نظم کوئی تازہ غزل
مہرباں قوسِ قزح بار دگر ہو تو کہوں

درد کے طے یہ مراحل تو ہوئے ہیں لیکن
قطرہ پہ گزری ہے کیا ، قطرہ گہر ہو تو کہوں

ہمسفر میرا پتہ پوچھتے کیا ہو مجھ سے
کوئی بستی ،کوئی چوکھٹ، کوئی در ہو تو کہوں

کوئی شہ نامہ ئ شب ، کوئی قیصدہ ئ ستم
معتبر کوئی کہیں صاحب ِ زر ہو تو کہوں

قیس صحرا میں مجھے ساتھ تو لے جائے گا
آتشِ غم کا کوئی زادِ سفر ہو تو کہوں

کیسے لگتی ہے مجھے چلتی ہوئی بادِ سحر
کبھی برفائی ہوئی رات بسر ہو تو کہوں

یہ پرندے تو ہیں گل پوش رتوں کے ساتھی
موسمِ زرد میں آباد شجر ہو تو کہوں

کون بے چہرگی ئ وقت پہ تنقید کرے
سر بریدہ ہے یہ دنیا ،مرا سر ہو تو کہوں

رات آوارہ مزاجی کا سبب پوچھتی ہے
کیا کروں کوئی ٹھکانہ کوئی گھر ہو تو کہوں

کشتیاں کیوں بھری آتی ہیں بجھے گیتوں سے
کیا ہے اس پار مجھے کوئی خبر ہو تو کہوں

ایک ہی پیڑ بہت ہے ترے صحرا میں مجھے
کوئی سایہ سا ، کوئی شاخِ ثمر ہو تو کہوں

دہر پھولوں بھری وادی میں بدل سکتا ہے
بامِ تہذیب پہ امکانِ سحر ہو تو کہوں

زندگی رنگ ہے خوشبو ہے لطافت بھی ہے
زندہ رہنے کا مرے پاس ہنر ہو تو کہوں

میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا
آئینہ خانہ سے کوئی مجھے ڈر ہو تو کہوں

سچ کے کہنے سے زباں آبلہ لب ہوتی ہے
سینہ ئ درد میں پتھر کا جگر ہو تو کہوں

میری افسردہ مزاجی بھی بدل سکتی ہے
دل بہاروں سے کبھی شیر و شکر ہو تو کہوں

تُو بجھا سکتی ہے بس میرے چراغوں کو ہو
کوئی مہتاب ترے پیشِ نظر ہو تو کہوں

رائیگانی کا کوئی لمحہ میرے پاس نہیں
رابطہ ہجر کا بھی زندگی بھر ہو تو کہوں

پھر بلایا ہے کسی نیلے سمندر نے مجھے
کوئی گرداب کہیں کوئی بھنور ہو تو کہوں

پھر تعلق کی عمارت کو بنا سکتا ہوں
کوئی بنیاد کہیں کوئی کھنڈر ہو تو کہوں

عید کا چاند لے آیا ہے ستم کے سائے
یہ بلائیں ہیں اگر ماہ ِ صفر ہو تو کہوں

اس پہ بھی ترکِ مراسم کی قیامت گزری
کوئی سسکاری کوئی دیدہ ئ تر ہو تو کہوں

ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں
’یہ تو وقفہ ہے کوئی ‘ ان کو خبر تو کہوں

کتنے جانکاہ مراحل سے گزر آئی ہے
نرم و نازک کوئی کونپل جو ثمر ہو تو کہوں

یہ محبت ہے بھری رہتی ہے بھونچالوں سے
جو اُدھر ہے وہی تخریب اِدھر ہو تو کہوں

مجھ کو تاریخ کی وادی میں سدا رہنا ہے
موت کے راستے سے کوئی مفر ہو تو کہوں

آسماں زیرِ قدم آ گئے میرے لیکن
قریہ ئ وقت کبھی زیر و زبر ہو توکہوں

ختم نقطے کا ابھی دشت نہیں کرپایا
خود کو شاعر کبھی تکمیل ِ ہنر ہو تو کہوں

اہل دانش کو ملا دیس نکالا منصور
حاکم ِ شہر کوئی شہر بدر ہو تو کہوں

زندگی ایسے گزر سکتی نہیں ہے منصور
میری باتوں کا کوئی اس پہ اثر ہو تو کہوں

پوچھتے کیا ہو ازل اور ابد کا منصور
ان زمانوں سے کبھی میرا گزر ہو تو کہوں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

اتھاونویں غزل



مرنے سے نکالوں کبھی جینے سے نکالوں ؎
خود کو کبھی بوزر کے مدینے سے نکالوں

کچھ دھوپ چرائوں میں کسی گرم بدن کی
کمرے کو دسمبر کے مہینے سے نکالوں

جراح بلائوں یا کوئی سنت سپیرا
کس طرح ترے درد کو سینے سے نکالوں

آ پھر ترے گیسو کی شبِ تار اٹھاکر
مہتاب سا بالی کے نگینے سے نکالوں

صحرا سا سمندر کی رگ و پے میں بچھا دوں
لیکن میں سفر کیسے سفینے سے نکالوں

ہے تیر جو سینے میں ترازو کئی دن سے
میں چاہتا ہوں اس کو قرینے سے نکالوں

افلاک سے بھی لوگ جنہیں دیکھنے آئیں
وہ خواب خیالوں کے خزینے سے نکالوں

ہر چیز سے آتی ہے کسی اور کی خوشبو
پوشاک سے کھینچوں کہ پسینے سے نکالوں

ہونٹوں کی تپش نے جو ہتھیلی پہ رکھا ہے
سورج میں اُسی آبلہ گینے سے نکالوں

ممکن ہی نہیں پائوں ، بلندی پہ میں اتنی
تقویم کے ٹوٹے ہوئے زینے سے نکالوں

نیکی ! تجھے کیا علم کہ کیا لطف ہے اس میں
دل کیسے سیہ کار کمینے سے نکالوں

منصور دہکتے ہوئے سورج کی مدد سے
دریا کو سمندر کے دفینے سے نکالوں



دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

انسٹھویں غزل



مر گئے ہم ، برت ورت کرلیں
فاتحہ پڑھ لیں ، تعزیت کرلیں

خواب دفنا کے لوٹ آئے ہیں
اب دعا ہائے مغفرت کرلیں

دائرے میں برے شگون کے ، ہم
کیسے معلوم اک جہت کرلیں

کس طرف دوستوں کی منزل ہے
کچھ ہوا سے مشاورت کرلیں

گر چکی ہے زمین پیچھے سے
کس طرح ہم مراجعت کرلیں

من و سلویٰ کی کیا تمنا میں
آسماں سے مفاہمت کرلیں

روگ بنتے ہوئے تعلق سے
یہی بہتر ہے معذرت کرلیں

کوچہ ئ یار کی مسافت میں
طے حدودِ مسافرت کرلیں

وصل میں اِس لباسِ اطلس کی
ہم ذرا سی مخالفت کرلیں

بے تحاشا کیا ہے خرچ اسے
اب تو دل کی ذرا بچت کرلیں

یہ بھی صورت ہے اک تعلق کی
ہجر سے ہی مطابقت کرلیں

ڈھنگ جینے کا سیکھ لیں ہم بھی
وقت سے کچھ مناسبت کرلیں

طور بھی فتح کر لیں جلوہ بھی
کچھ وسیع اور سلطنت کرلیں

اس نظر کے فریب سے نکلیں
دل سے بھی کچھ مخاصمت کرلیں

کب کہا ہے زبان بندی کا
کلک ِ ناخوردہ صرف قط کرلیں

کاٹ دیں راستے ، گرا دیں پل
رابطوں سے مفارقت کرلیں

پوچھ لیں کیا کریں مسائل کا
کچھ خدا سے مراسلت کر لیں

جا بسیں قیس کے محلےمیں
اک ذرا اپنی ترتیت کرلیں

ظلم کا ہے محاصرہ منصور
آخری اب مزاحمت کرلیں




دیوان منصور آفاق  










دیوان منصور آفاق

 





ردیف ن



 

ساٹھویں غزل



دیکھتے لپک تیرے طنز کی تو ہم بھی ہیں
دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں

کھلتے کھلتے کھلتے ہیں اپنی اپنی دنیا میں
تم اگر تجسس ہو سنسنی تو ہم بھی ہیں

تم سہی سیہ بدلی آنسوئوں کے موسم کی
آس پاس مژگاں کے کچھ نمی تو ہم بھی ہیں

عشق کی شریعت میں کیا جو قیس پہلے تھے
ہجر کی طریقت میں آخری تو ہم بھی ہیں

جانتے ہیں دنیا کو درد کا سمندر ہے
اور اس سمندر میں اک گلی تو ہم بھی ہیں

پیڑ سے تعلق تو ٹوٹ کے بھی رہتا ہے
سوختہ سہی لیکن شبنمی تو ہم بھی ہیں

دو گھڑی کا قصہ ہے زندگی محبت میں
دو گھڑی تو تم بھی ہو دو گھڑی ہم بھی ہیں

جیل کی عمارت ہے عاشقی کی صحبت بھی
بیڑیاں اگر تم ہو ہتھکڑی تو ہم بھی ہیں

نام وہ ہمارا پھر اک کرن کے ہونٹوں پر
وقت کے ستارے پر ۔ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں

کیا ہوا جو ہجراں کی رہ رہے ہیں مشکل میں
یار کے شبستاں میں یاد سی تو ہم بھی ہیں

دیدنی زمانے میں بے خبر بہاروں سے
گلستانِ حیرت کی اک کلی تو ہم بھی ہیں

مانا عشق کرنے کا کچھ پتہ نہیں تم کو
دلبری کی بستی میں اجنبی تو ہم بھی ہیں

یہ الگ گوارہ ہم وقت کو نہیں لیکن
جس طرح کے ہوتے ہیں آدمی تو ہم بھی ہیں

کربلا کی وحشت سے ، سلسلہ نہیں لیکن
ساحلوں پہ دریا کے تشنگی تو ہم بھی ہیں

ہیر تیرے بیلے میں آنسوئوں کے ریلے میں
خالی خالی بیلے میں بانسری تو ہم بھی ہیں

تم چلو قیامت ہو تم چلو مصیبت ہو
بے بسی تو ہم بھی ہیں ، بے کسی تو ہم بھی ہیں

صبح کے نکلتے ہی بجھ تو جانا ہے ہم کو
رات کی سہی لیکن روشنی تو ہم بھی ہیں

دیکھتے ہیں پھولوں کو ، سوچتے ہیں رنگوں کو
خوشبوئوں کے مکتب میں فلسفی تو ہم بھی ہیں

ایک الف لیلی کی داستاں سہی کوئی
دوستو کہانی اک متھ بھری تو ہم بھی ہیں



دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

اکسٹھویں غزل



آنکھ بنو تم اور ہم منظر بن جائیں
اور وہیں پھر دونوں پتھر بن جائیں

ان پیروں سے کیسے گریزاں منزل ہو
جو آپ ہی رستہ آپ سفر بن جائیں

جن لوگوں کے بیج کجی سے نکلے ہوں
وہ کیسے سایہ دار شجر بن جائیں

گھل جائیں لہروں میں ایک سمندر کی
ریت پہ پھیلی دھوپ کی چادر بن جائیں

مار کے سورج کے سینے میں طنز کے تیر
خود نہ کہیں ہم ایک تمسخر بن جائیں

جنس کے بینر لٹکائیں بازاروں میں
اور فرائیڈ سے دانش ور بن جائیں

جو موجود نہیں تقویم کے اندر بھی
ان تاریخوں کا کیلنڈر بن جائیں

کچھ یاروں کی لاشیں گل سڑ جائیں گی
بہتر ہے منصور فریزر بن جائیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

باسٹھویں غزل



سورج پہ گلابوں کے تصور کی طرح ہیں
ہم دیدہ ئ حیرت ہیں ، تحیر کی طرح ہیں

چھیڑو نہ ہمیں دوستو پھر تھم نہ سکیں گے
ملہار کے ہم بھیگے ہوئے سُر کی طرح ہیں

صد شکر کہ سینے میں دھڑکتا ہے ابھی دل
ہم کفر کے لشکر میں سہی حر کی طرح ہیں

بجھ جاتا ہے سورج کا ہمیں دیکھ کے چہرہ
ہم شام کے آزردہ تاثر کی طرح ہیں

ہردور میں شاداب ہیں سر سبز ہیں منصور
وہ لوگ جو موسم کے تغیر کی طرح ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

تریسٹھویں غزل



لٹنے کو خزانوں بھرے مندر کی طرح ہیں
ہم لوگ سدھارتھ کے کھلے در کی طرح ہیں

ہم حرفِ زمیں ، چیختی صدیوں کی امانت
گم گشتہ ثقافت کے سخنور کی طرح ہیں

ہم پھول کنول کے ہیں ہمیں نقش کھنڈر کے
آثارِ قدیمہ کے پیمبر کی طرح ہیں

فرعون کے اہرام بھی موسیٰ کی عصا بھی
ہم نیل کی تہذیب کے منظر کی طرح ہیں

آدم کے ہمی نقشِ کفِ پا ہیں فلک پر
کعبہ میں سیہ رنگ کے پتھر کی طرح ہیں

ہم گنبد و مینار ہوئے تاج محل کے
ہم قرطبہ کے سرخ سے مرمر کی طرح ہیں

ہم عہدِہڑپہ کی جوانی پہ شب و روز
دیواروں میں روتی ہوئی صرصر کی طرح ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چونسٹھویں غزل



پلکیں کسی برہن کے کھلے سر کی طرح ہیں
آنکھیں کسی جلتے ہوئے منظر کی طرح ہیں

گرتے ہیں ہمی میں کئی بپھرے ہوئے دریا
ہم وقت ہیں ، لمحوں کے سمندر کی طرح ہیں

بس ٹوٹتے پتوں کی صدائیں ہیں ہوا میں
موسم بھی مرادوں کے مقدر کی طرح ہیں

رکھتے ہیں اک اک چونچ میں کنکر کئی دکھ کے
اب حرف ابابیلوں کے لشکر کی طرح ہیں

بکتے ہوئے سو بار ہمیں سوچنا ہو گا
اب ہم بھی کسی آخری زیور کی طرح کی ہیں

یہ خواب جنہیں اوڑھ سونا تھا نگر کو
فٹ پاتھ پہ بچھتے ہوئے بستر کی طرح ہیں

ناراض نہ ہو اپنے بہک جانے پہ جاناں
ہم لوگ بھی انسان ہیں ، اکثر کی طرح ہیں

اب اپنا بھروسہ نہیں ، ہم ساحلِ جاں پر
طوفان میں ٹوٹے ہوئے لنگر کی طرح ہیں

تم صرفِ نظر کیسے ، کہاں ہم سے کرو گے
وہ لوگ ہیں ہم جو تمہیں ازبر کی طرح ہیں

منصور ہمیں بھولنا ممکن ہی نہیں ہے
ہم زخم میں اترے ہوئے خنجر کی طرح ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

پیسٹھویں غزل



جیتے ہوئے لوگوں کے سوئمبر کی طرح ہیں
ہم ریس کے گھوڑے ہیں ، مقدر کی طرح ہیں

ہر لمحہ پیانو سے نئی شکل ابھاریں
یہ انگلیاں اپنی ، کسی بت گر کی طرح ہیں

کیا چھائوں کی امید لئے آئے گا کوئی
ہم دشت میں سوکھے ہوئے کیکر کی طرح ہیں

الحمدِ مسلسل کا تسلسل ہے ہمی سے
ہم صبحِ ازل زاد کے تیتر کی طرح ہیں

جلتے ہوئے موسم میں ہیں یخ بستہ ہوا سے
ہم برف بھری رات میں ہیٹر کی طرح ہیں

حیرت بھری نظروں کیلئے جیسے تماشا
ہم گائوں میں آئے ہوئے تھیٹر کی طرح ہیں

یہ بیچ بھی ہے زانوئے دلدار کی مانند
یہ پارک بھی اپنے لئے دلبر کی طرح ہیں

پیاسو سے کہو آئیں وہ سیرابی ئ جاں کو
ہم دودھ کی بہتی ہوئی گاگر کی طرح ہیں

منصور ہمیں چھیڑ نہ ہم شیخ ِجہاں کے
مسجد میں لگائے ہوئے دفتر کی طرح ہیں




دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

چھیاسٹھویں غزل



دوبارہ کاٹنے آئو گے ۔۔۔آس ہے سائیاں
ابھی توکھیت میں دو دن کی گھاس ہے سائیاں

مری دعائوں پہ چیلیں جھپٹنے والی ہیں
یہ ایک چیخ بھری التماس ہے سائیاں

عجیب شہد سا بھرنے لگا ہے لہجے میں
یہ حرفِ میم میں کیسی مٹھاس ہے سائیاں

تمہارے قرب کی مانگی تو ہے دعا میں نے
مگر یہ ہجر جو برسوںسے پاس ہے سائیاں

جسے ملو وہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
بھرا ہوا بھی کسی کا گلاس ہے سائیاں

ترے بغیر کسی کا بھی دل نہیں لگتا
مرے مکان کی ہر شے اداس ہے سائیاں

ٹھہر نہ جائے خزاں کی ہوا اسے کہنا
ابھی شجر کے بدن پر لباس ہے سائیاں

کوئی دیا کہیں مصلوب ہونے والا ہے
بلا کا رات پہ خوف و ہراس ہے سائیاں

نجانے کونسی کھائی میں گرپڑے منصور
یہ میرا وقت بہت بد حواس ہے سائیاں






دیوان منصور آفاق  





ردیف ن



 

ستاسٹھویں غزل



اپنی نیندوں میں کوئی خواب نہیں
کوئی تمہید ِ انقلاب نہیں

سا حلوں پر برھنہ جوڑے ہیں
پر کوئی آنکھ بے حجاب نہیں

ہم سفر احتیاط، میرا بدن
نیکیوں کی کوئی کتاب نہیں

کچھ دنوں سے بجا ہے شب کا ایک
اور گھڑیال بھی خراب نہیں

ایک بستر پہ سوئے ہیں دونوں
پھر بھی ہم رنگ اپنے خواب نہیں

کس لئے ذہن میں در آتے ہیں
جن سوالات کے جواب نہیں

آنکھ بھی خالی ہو گئی منصور
اور گٹھڑی میں بھی ثواب نہیں
دیوان منصور آفاق  





اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔