زمرہ:ردیف س

ویکی کتب سے

ردیف س

دیوان ِمنصور آفاق

dewan mansoor afaq[ترمیم]

mansoor afaq poetry



 

پہلی غزل



روشنی کے خواب ، خوشبو کے دئیے تھے آس پاس
گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس

آ گئے ، اچھا کیا ، بھیگی ہوئی اِس شام میں
ایسی رت میں آپ ہی بس چاہیے تھے آس پاس

اک رندھی آواز تھی میرے گلے میں ہجر کی
درد کے روتے ہوئے کچھ ماہیے تھے آس پاس

ہونٹ میرے رات بھر، یہ سوچئے، ہونٹوں پہ تھے
ہاتھ میرے ، آپ اتنا جانئیے ، تھے آس پاس

جب بدن میں بادلوں کا شور تھا تم تھے کہاں
جب چمکتے بجلیوں کے زاویے تھے آس پاس

دیکھتی تھیں اسکی آنکھیں میرے چہرے کے نقوش
زندگی کے آخری جب ثانیے تھے آس پاس

اک فریب ِ ذات تھا پھیلا ہوا صدیوں کے بیچ
چاند جیسے ناموں والے کالئے تھے آس پاس

رات کی دیوار پر فوٹو گراف اک چاند کا
اور کالے بادلوں کے حاشیے تھے آس پاس

نظم کی میت کوئی لٹکا رہا تھا پیڑ سے
اور پریشاں حال کچھ بالشتیے تھے آس پاس

اک سفر میں نے کیا تھا وادی ء تاریخ میں
بین تھے چیخوں بھرے اور مرثیے تھے آس پاس

جب مرا سر کٹ رہا تھا کربلائے وقت میں
اہل کوفہ اپنی دستاریں لئے تھے آس پاس

ہفتہ بھرسے کوئی بھی ’اطلا‘ نہیں منصور کی
فون پر کچھ رابطے میں نے کئے تھے آس پاس

{مجھے پورا یقین ہے کہ آنے والے زمانے میں اطلاع ۔ یا شروع یا اس طرح کے دوسرے الفاظ کے آخر سے عین نکال دی جائے گی}




دیوان منصور آفاق  





ردیف س



 

دوسری غزل



سوچ کا ثانیہ دم بھر کو گیا یار کے پاس
پائوں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس

ایک پتھر ہے کہ بس سرخ ہوا جاتا ہے
کوئی پہروں سے کھڑا ہے کسی دیوار کے پاس

گھنٹیاں شور مچاتی ہیں مرے کانوں میں
فون مردہ ہے مگر بسترِبیدار کے پاس

کس طرح برف بھری رات گزاری ہوگی
میں بھی موجود نہ تھا جسمِ طرح دار کے پاس

عبرت آموز ہے دربارِ شب و روز کا تاج
طشتِ تاریخ میں سر رکھے ہیں دستارکے پاس

چشمِ لالہ پہ سیہ پٹیاں باندھیں منصور
سولیاں گاڑنے والے گل و گلزار کے پاس




دیوان منصور آفاق  





ردیف س



 

تیسری غزل



وہی رنگ رنگ کی اجرکیں ، وہی خوشبوئیں نہیں آس پاس
وہ جو بولتی تھی سرائیکی بھری اردوئیں نہیں آس پاس

کہیں خشک سالی وصال کی کہیں آبِ لمس کا قحط ہے
وہ جو پیاس میری بجھاتے تھے وہی اب کنوئیں نہیں آس پاس

مرے دھوپ روپ دیار کے سبھی برف پوش مکان ہیں
وہ جو چمنیوں سے نکلتے تھے کبھی، وہ دھوئیں نہیں آس پاس

یہاں گرم ہاتھ کو پھیر مت ، یہاں لمس لمس بکھیر مت
جو مچلتے تھے ترے قرب سے وہی اب روئیں نہیں آس پاس

سبھی شوخ وشنگ لباس ہیں کوئی لازوال بدن نہیں
جنہیں آنکھیں چومیں خیال میں جنہیں لب چھوئیں نہیں آس پاس

کوئی رات اجلی وصال کی کوئی گیت گاتی سی بالیاں
میرے سانس سے جو دھک اٹھیں وہی اب لویں نہیں آس پاس




دیوان منصور آفاق  





ردیف س



 

چوتھی غزل



کس بھیانک زندگی کا رنج میرے آس پاس
اک سمندر میں بدلتی ہنج میرے آس پاس

کھوجتا پھرتا ہوں میں اسرار اپنی ذات کے
اور ان گلیوں میں داتا گنج میرے آس پاس

تھے مخالف بس مرے دونوں طرف کے لشکری
کیا عجب کھیلی گئی شطرنج میرے آس پاس

بہہ رہی تھی یاد کی سکرین پر دریا کے ساتھ
ناچتی گاتی ہوئی اک جنج میرے آس پاس

میرے ہونٹوں سے گرے جملے اٹھانے کیلئے
رہ رہے ہیں کتنے بدلہ سنج میرے آس پاس

آئینے کو دیکھ کر رویا تو ازراہِ مذاق
وقت نے پھیلا دیا اسفنج میرے آس پاس




دیوان منصور آفاق  





ردیف س



 

پانچویں غزل



میرے سوا کسی کو بھی میسج ہوا تو بس
کردار ہم میں تیسرا حارج ہوا تو بس

آسیب سرسرائیں سمندر کی چاپ میں
لہروں سے ہمکلام یہ کاٹج ہوا تو بس

پانی میں بہہ گئے ہیں غربیوں کے صبح و شام
پھر آسماں زمیں کا معالج ہوا تو بس

تھوڑا سا دم چراغ کے چہرے میں رہ گیا
اس مرتبہ بھی صبح کو فالج ہوا تو بس

میں لکھ رہا ہوں گم شدہ قبروں کی ڈائری
ابدال ایسا کشفِ مدارج ہوا تو بس

برسوں پھر اس کے بعد مجھے جاگنا پڑے
اک خواب میری نیند سے خارج ہوا تو بس

یہ روشنی ، یہ پھول ، یہ خوشبو ، یہ سات رنگ
جب بند لڑکیوں کا یہ کالج ہوا تو بس

میں جا رہا ہوں آپ کے کہنے پہ اس کے پاس
میرا خراب دوستو امج ہوا تو بس

منصور گفتگو ہے یہ پہلی کسی کے ساتھ
تجھ سے غلط حروفِ مخارج ہوا تو بس




دیوان منصور آفاق  





ردیف س



 

چھٹی غزل



وصل کی راتوں کا شب زندہ دار لباس
یار کا میں ہوں اور ہے میرا یار لباس

سوچ کی چپٰ میں سمٹی ہوئی اس دنیا کی
ٹیلی ویژن آنکھیں ہیں اخبار لباس

آدھے بدن پر ٹیبل لیمپ کا نیلا شیڈ
آدھے بدن پر رات کا جالی دار لباس

خواب بہت بوسیدہ ہوتے جاتے ہیں
آئو بدل لیں نیندوںکے اس پار لباس

ننگ دکھائی دے جاتا ہے درزوں سے
کہنے کو ہے گھر کی ہر دیوار لباس

تنہائی کی ڈیٹوں میں منصورآفاق
تیرے میرے بیچ رہا ہر بار لباس




دیوان منصور آفاق  





اس زمرہ میں ابھی کوئی صفحہ یا میڈیا موجود نہیں ہے۔